آپ «مقصود علی شاہ» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 189: سطر 189:


==== زمینِ ُحسن پہ مینارۂ جمال ہے ُتو ====
==== زمینِ ُحسن پہ مینارۂ جمال ہے ُتو ====
زمینِ ُحسن پہ مینارۂ جمال ہے ُتو
مثال کیسے ہو تیری کہ بے مثال ہے ُتو
سخن کے دائرے محدود ہیں بہ حدِ طلب
ورائے فہم ہے ُتو اور پسِ خیال ہے ُتو
رہے گا تیرے ہی نقشِ قدم سے آئندہ
جہانِ ماضی ہے ُتو اور جہانِ حال ہے ُتو
کتابِ زندہ ہے تیری حیاتِ نور کی نعت
مطافِ حرف ہے ُتو، قبلۂ مقال ہے ُتو
ترے ہی اِسم کی رہتی ہے قوسِ لب پہ نمود
نگارِ عصر کی تسبیحِ ماہ و سال ہے ُتو
وجودِ عجز میں تارِ نفَس ہے ذِکر ترا
مری طلب، مرا کاسہ، مرا سوال ہے ُتو
مَیں خود تو صیغۂ متروک ہُوں مرے آقا
یہ حرف و صوت، یہ اسلوب، یہ خیال ہے ُتو
زوالِ ذات میں بِکھرا ہُوا ہے ُتو مقصودؔ
کرم ہے شہ کا تہہِ دستِ با کمال ہے ُتو
==== یہ میمِ نور سے دالِ کمال باندھنا ہے ====
==== یہ میمِ نور سے دالِ کمال باندھنا ہے ====
یہ میمِ نور سے دالِ کمال باندھنا ہے
جہانِ شعر میں کیا بے مثال باندھنا ہے
خدا سے مانگی ہیں قوسِ قزح کی سب سطریں
کہ مَیں نے نعتِ نبی کا خیال باندھنا ہے
جواب آپ نے دستِ گدا پہ رکھ چھوڑے
مَیں سوچتا رہا کیسا سوال باندھنا ہے
حروف، نعت کے منظر میں کیسے ڈھل پائیں
حروف نے تو ابھی عرضِ حال باندھنا ہے
مَیں ریزہ ریزہ بکھرتا رہا مدینہ طلب
کرم ہوا کہ سفر اب کے سال باندھنا ہے
چلا ہوں پیرِ کرم شہؒ کے آستانے پر
حجابِ قال سے اب کشفِ حال باندھنا ہے
کہو فرشتوں سے مقصودؔ اب اُتر آئیں
کہ مَیں نے نور سے نعتوں کا جال باندھنا ہے
==== لب بستہ قضا آئی تھی، دَم بستہ کھڑی ہے ====
==== لب بستہ قضا آئی تھی، دَم بستہ کھڑی ہے ====
لب بستہ قضا آئی تھی، دَم بستہ کھڑی ہے
کونین کے والی ترے آنے کی گھڑی ہے
اک ُطرفہ نظارہ ہے ترے شہر میں آقا
بخشش ہے کہ چپ چاپ ترے در پہ پڑی ہے
ہاتھوں میں لئے پھرتا ہوں لغزش کی لکیریں
تقدیر مگر تیری شفاعت سے ُجڑی ہے
چہرہ ہے کہ ہے نور کے پردوں میں نہاں نور
زُلفیں ہیں کہ رنگوں کی ضیا بار جھڑی ہے
لا ریب سبھی ہادی و ُمرسَل ہیں چنیدہ
واللہ تری آن بڑی، شان بڑی ہے
مقصودؔ تصور میں مدینے کے رہا کر
کٹ جائے گی یہ ہجر کی شب، گرچہ کڑی ہے
==== حنور کے حرف  ُچنوں، رنگ کا پیکر باندھوں ====
==== حنور کے حرف  ُچنوں، رنگ کا پیکر باندھوں ====
==== کبھی سُناؤں گا آقا کو اپنا بُردۂ دل ====
==== کبھی سُناؤں گا آقا کو اپنا بُردۂ دل ====
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)