مقصود علی شاہ

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


Maqsood Ali Shah.jpg

مقصود علی شاہ
مطاف حرف
مطاف حرف پڑھیے
غیر مطبوعہ کلام

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

سید مقصود علی شاہ ۔۔۔۔۔ 23 مارچ ، 1967 میں پاکستان کے صوبہ پنجاب کےضلع میانوالی میں گیلانی سادات کے ہاں پیدا ہوئے۔۔۔۔ بزرگ سولہویں صدی میں بغداد شریف سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے جب اس علاقے میں گکھڑوں کی حکومت تھی اور یہ علاقہ دریا کے کنارے آباد ہونے کے باعث “کھچی “ کہلاتا تھا ۔۔۔۔ بزرگوں کی آمد سے اس علاقے کے لوگ دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے اور پھر انہیں بزرگوں کے نام پر اس علاقے کا نام میانوالی پڑا۔۔۔ بغداد سے تشریف لانے والے ان ساداتِ گیلانیہ کو علاقے میں آج بھی “ میاں” کہا جاتا ہے۔۔۔۔ شجرہ نسب 34 واسطوں سے حضور سیدنا غوثِ اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی اور 46 واسطوں سے مولائے کائنات حضرت علی شیرِ خدا سے جا ملتا ہے

تعلیم و تربیت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ابتدائی تعلیم اپنے شہر میانوالی سے حاصل کی اور پھر 1981 میں عالمِ اسلام کی ممتاز دینی و فکری درسگاہ دارلعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف میں داخلہ لیا اور اسی دوران ضیاالامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازھری سے بیعت کا شرف بھی حاصل کیا.

1991 میں انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد سے شریعہ اینڈ لاء کی ڈگری کی۔۔۔۔ ایم اے (عربی) اور ایم او ایل ( عربی، اردو) کی تکمیل کی.

نعت گوئی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شعر سے محبت تو شروع سے رہی مگر نعت گوئی کا باضابطہ آغاز 2018 میں کیا جس کا سب سے بڑا ذریعہ فیس بُک وال بنی 2019 پہلا نعتیہ مجموعہ مطافِ حرف شائع ہوا اور الحمد للہ پزیرائی پائی.

سرکار کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظرِ عنایت سے یہ سفر جاری ہے.


مجموعہ ءِ نعت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

پیشہ وارانہ زندگی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

1991 میں پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز عملی صحافت سے کیا ۔۔۔۔۔ ملک کے صفِ اول کے اخبارات میں بطور نیوز ایڈیٹر کام کیا۔۔۔۔۔ 2005 میں انگلینڈ کے شہر نوٹنگھم میں ایک ریڈیو کو بطور مینیجر جوائن کیا اور اب برمنگھم میں برمنگھم میں تکبیر ٹی وی چینل سے منسلک ہیں اور نعت کے حوالے سے ایک پروگرام کے پروڈیوسر اور ہوسٹ ہیں.


نمونہ ء کلام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بابِ کرم کے سامنے اِظہار دم بخود[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بابِ کرم کے سامنے اِظہار دم بخود

پورا وجودِ ُنطق ہے سرکار دم بخود


عجزِ تمام سے نہیں ممکن ثنا تری

پھر کیوں نہ ہُوں میں صورتِ دیوار دم بخود


اِک رتجگے کی صورتِ مُبہَم ہے رُوبرو

خواہش بہ دید دیدۂ بیدار دم بخود


اے حاصلِ طلب ترے آنے کی دیر ہے

دل کی ہے کب سے حسرتِ دیدار دم بخود


تو اذن دے تو تشنہ لبی خیر پا سکے

کاسہ بہ بکف ہیں سارے طلبگار دم بخود


توبہ نصیب لوگوں کا ہے تجھ سے واسطہ

تیری رضا طلب ہیں گنہ گار دم بخود


مقصودؔ اُن کی یاد کے بادل برس پڑے

تھے دشتِ دل کے سارے ہی اشجار دم بخود

حسنِ بے مثل کا اِک نقشِ اُتم ہیں، واللہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حسنِ بے مثل کا اِک نقشِ اُتم ہیں، واللہ

آپ کے نقشِ قدم، رشکِ اِرَم ہیں، واللہ


آپ کی وُسعتِ خیرات کی تعبیر محال

آپ تو شانِ عطا، جانِ کرم ہیں، واللہ


آپ ہی قاسمِ نعمت ہیں باذنِ مُعطی

آپ ہی صاحبِ توفیق و نِعَم ہیں، واللہ


آپ کی مدح کے امکان ہیں خالق کے سپرد

خَلق کے حیطۂ اظہار تو کم ہیں، واللہ


آپ کے ذکر سے کھِل اُٹھتا ہے صحرائے وجود

آپ کے ہوتے ہوئے کون سے غم ہیں، واللہ


شوقِ نظّارۂ محبوب بیاں ہو کیسے

دل بھی تعجیل میں ہے، آنکھیں بھی نم ہیں، واللہ


وُسعتِ رحمتِ ُکل کے یہ مناظر سارے

آپ کی رحمتِ بے پایاں کے یَم ہیں، واللہ


جا بجا ِکھلتے ہوئے شوخ ُگلابوں کے ہجوم

آپ کی زُلفِ طرحدار کے خَم ہیں، واللہ


شوکت و جبر کے معمار، ترے باجگزار

سَر کشیدہ بھی ترے سامنے خَم ہیں، واللہ


طوقِ رسوائیِ جاں زیبِ ُگلو ہے مقصودؔ

جن کو غفران کا مژدہ ہے وہ ہم ہیں، واللہ

کیسے لکھ پائیں تری مدحتِ نعلین ابھی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ﷺ کیسے لکھ پائیں تری مدحتِ نعلین ابھی

دیدۂ حیرت و حسرت کے ہیں مابین ابھی


آپ کے پائے مبارک کے یہ نوری جوڑے

جیسے ُجڑ جائیں گے شرقین سے غربین ابھی


کِس کو معلوم تری شوکتِ معراج کی رمز

خَلق تو سمجھی نہیں معنیٔ قوسین ابھی


قریۂ جاں میں اچانک تری خوشبو مہکی

شاید آئے ہیں کہیں سے ترے حسنین ابھی


آپ کے نور سے منجملہ یہ تخلیق ہوئے

آپ کے اسم سے قائم ہیں یہ کونین ابھی


لمحۂ دید کا حاصل ہیں زمانے سارے

ایک منظر پہ رُکی ہیں مری عینین ابھی


آپ اب آنکھ کے منظر سے ذرا آگے بڑھیں

دل بہت خواہشِ باطن سے ہے بے چین ابھی


پورے احساس میں مقصودؔ یہ رنگوں کی پھوار

چمنِ دل میں یہ کھِلتے ہوئے شفتین ابھی

زمینِ ُحسن پہ مینارۂ جمال ہے ُتو[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]


زمینِ ُحسن پہ مینارۂ جمال ہے ُتو

مثال کیسے ہو تیری کہ بے مثال ہے ُتو


سخن کے دائرے محدود ہیں بہ حدِ طلب

ورائے فہم ہے ُتو اور پسِ خیال ہے ُتو


رہے گا تیرے ہی نقشِ قدم سے آئندہ

جہانِ ماضی ہے ُتو اور جہانِ حال ہے ُتو


کتابِ زندہ ہے تیری حیاتِ نور کی نعت

مطافِ حرف ہے ُتو، قبلۂ مقال ہے ُتو


ترے ہی اِسم کی رہتی ہے قوسِ لب پہ نمود

نگارِ عصر کی تسبیحِ ماہ و سال ہے ُتو


وجودِ عجز میں تارِ نفَس ہے ذِکر ترا

مری طلب، مرا کاسہ، مرا سوال ہے ُتو


مَیں خود تو صیغۂ متروک ہُوں مرے آقا

یہ حرف و صوت، یہ اسلوب، یہ خیال ہے ُتو


زوالِ ذات میں بِکھرا ہُوا ہے ُتو مقصودؔ

کرم ہے شہ کا تہہِ دستِ با کمال ہے ُتو

یہ میمِ نور سے دالِ کمال باندھنا ہے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ میمِ نور سے دالِ کمال باندھنا ہے

جہانِ شعر میں کیا بے مثال باندھنا ہے


خدا سے مانگی ہیں قوسِ قزح کی سب سطریں

کہ مَیں نے نعتِ نبی کا خیال باندھنا ہے


جواب آپ نے دستِ گدا پہ رکھ چھوڑے

مَیں سوچتا رہا کیسا سوال باندھنا ہے


حروف، نعت کے منظر میں کیسے ڈھل پائیں

حروف نے تو ابھی عرضِ حال باندھنا ہے


مَیں ریزہ ریزہ بکھرتا رہا مدینہ طلب

کرم ہوا کہ سفر اب کے سال باندھنا ہے


چلا ہوں پیرِ کرم شہؒ کے آستانے پر

حجابِ قال سے اب کشفِ حال باندھنا ہے


کہو فرشتوں سے مقصودؔ اب اُتر آئیں

کہ مَیں نے نور سے نعتوں کا جال باندھنا ہے

لب بستہ قضا آئی تھی، دَم بستہ کھڑی ہے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

لب بستہ قضا آئی تھی، دَم بستہ کھڑی ہے

کونین کے والی ترے آنے کی گھڑی ہے


اک ُطرفہ نظارہ ہے ترے شہر میں آقا

بخشش ہے کہ چپ چاپ ترے در پہ پڑی ہے


ہاتھوں میں لئے پھرتا ہوں لغزش کی لکیریں

تقدیر مگر تیری شفاعت سے ُجڑی ہے


چہرہ ہے کہ ہے نور کے پردوں میں نہاں نور

زُلفیں ہیں کہ رنگوں کی ضیا بار جھڑی ہے


لا ریب سبھی ہادی و ُمرسَل ہیں چنیدہ

واللہ تری آن بڑی، شان بڑی ہے


مقصودؔ تصور میں مدینے کے رہا کر

کٹ جائے گی یہ ہجر کی شب، گرچہ کڑی ہے

حنور کے حرف ُچنوں، رنگ کا پیکر باندھوں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

کبھی سُناؤں گا آقا کو اپنا بُردۂ دل[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نظر نظر میں رہا ہے نظر نظر سے فزوں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

آنکھ کو منظر بنا اور خواب کو تعبیر کر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ہو گئے ُنطق کے پیرایۂ اِظہار تمام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حسہم جاتا ہے تصور سے، مگر چاہتا ہے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

جائے تسکین ہے اور شہرِ کرم ہے، پھر بھی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

چوم آئی ہے ثنا جھوم کے بابِ توفیق[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حیطۂ فکر کے محدود حوالوں سے پرے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

آپ کی رحمتِ بے پایاں کے اظہار کے رنگ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سارے ُسخن نواز کمالات جوڑ لوں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
نئے صفحات
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نعت کائنات پر نئی شخصیات