آپ «مالیگاؤں» میں ترمیم کر رہے ہیں
نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔
تازہ ترین نسخہ | آپ کی تحریر | ||
سطر 4: | سطر 4: | ||
[[زمرہ: شہر ]] | [[زمرہ: شہر ]] | ||
مالیگاؤں، بھارت کی ریاست مہاراشٹر کا مشہور شہر ہے جہاں اردو بولنے، لکھنے، پڑھنے والوں کی اکثریت ہے۔ اسے آج ساری دنیا میں اردو کا مرکز اور مسجدوں کا شہر کہا جاتاہے۔ یہاں بنکر برادری کی اکثریت ہے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد شمالی ہند سے، خصوصاً یوپی اور خاندیش کے مختلف علاقوں سے آنے والے مہاجرین نے مالیگاؤں کو اپنا وطن ثانی بنا لیا۔ مالیگاؤں میں ابتداً مالی سماج کے لوگ رہتے تھے جو کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے۔ شمالی ہند کے مہاجرین یہاں پارچہ بافی کی صنعت کے لئے سازگار ماحول دیکھ کر یہیں کے ہو رہے اور ہاتھ ماگ (ہتھ کرگھا) پر رنگین ساڑی بننے کا کام شروع کیا۔ اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ پورے مہاراشٹر میں اور اس سے لگے ہوئے علاقوں میں بارڈر والی رنگین ساڑی (نوگزی ساڑی) کا چلن | مالیگاؤں، بھارت کی ریاست مہاراشٹر کا مشہور شہر ہے جہاں اردو بولنے، لکھنے، پڑھنے والوں کی اکثریت ہے۔ اسے آج ساری دنیا میں اردو کا مرکز اور مسجدوں کا شہر کہا جاتاہے۔ یہاں بنکر برادری کی اکثریت ہے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد شمالی ہند سے، خصوصاً یوپی اور خاندیش کے مختلف علاقوں سے آنے والے مہاجرین نے مالیگاؤں کو اپنا وطن ثانی بنا لیا۔ مالیگاؤں میں ابتداً مالی سماج کے لوگ رہتے تھے جو کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے۔ شمالی ہند کے مہاجرین یہاں پارچہ بافی کی صنعت کے لئے سازگار ماحول دیکھ کر یہیں کے ہو رہے اور ہاتھ ماگ (ہتھ کرگھا) پر رنگین ساڑی بننے کا کام شروع کیا۔ اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ پورے مہاراشٹر میں اور اس سے لگے ہوئے علاقوں میں بارڈر والی رنگین ساڑی (نوگزی ساڑی) کا چلن تھا۔ جب ذرا فراغت نصیب ہوئی تو وہ شعرو ادب کی طرف بھی متوجہ ہوئے۔ شمالی ہند میں پریس کی آمد کے بعد شاعری اور افسانہ نگاری کو پر لگ گئے۔ اخبارات و رسائل کی اشاعت نے اس پر مہمیز کا کام کیا۔ پھر چوں کہ یہاں آنے والے اپنے ساتھ اپنی تہذیب، زبان، بول چال کا لہجہ بھی ساتھ لائے تھے اس لئے ابتداء میں بقول [[اشفاق انجم | ڈاکٹر اشفاق انجم]]: | ||
شمالی ہند میں پریس کی آمد کے بعد شاعری اور افسانہ نگاری کو پر لگ گئے۔ اخبارات و رسائل کی اشاعت نے اس پر مہمیز کا کام کیا۔ پھر چوں کہ یہاں آنے والے اپنے ساتھ اپنی تہذیب، زبان، بول چال کا لہجہ بھی ساتھ لائے تھے اس لئے ابتداء میں بقول [[اشفاق انجم | ڈاکٹر اشفاق انجم]]: | |||
’’یہاں کی ابتدائی شاعری کا بہترین نمونہ وہ ہے جس میں خاندیشی اور فارسی زبان میں کہے گئے مرثیے اور مراٹھی آمیز نعت اور غزلیں ہیں۔‘‘ | ’’یہاں کی ابتدائی شاعری کا بہترین نمونہ وہ ہے جس میں خاندیشی اور فارسی زبان میں کہے گئے مرثیے اور مراٹھی آمیز نعت اور غزلیں ہیں۔‘‘ | ||
سطر 14: | سطر 10: | ||
لیکن دھیرے دھیرے ان کی شاعری اور زبان سے خاندیشی اور فارسی کے اثرات ختم ہوتے گئے اور شعراء دبستانِ دہلی و لکھنؤ کی اتباع میں ٹکسالی اردو میں شعر کہنے لگے اور قنوج، میرٹھ، الٰہ آباد سے شائع ہونے والے رسائل اور گلدستوں میں شائع بھی ہونے لگے۔ [[اشفاق انجم | ڈاکٹر اشفاق انجمؔ]] اپنے تحقیقی مقالے ’’شعرائے مالیگاؤں‘‘ میں لکھتے ہیں: | لیکن دھیرے دھیرے ان کی شاعری اور زبان سے خاندیشی اور فارسی کے اثرات ختم ہوتے گئے اور شعراء دبستانِ دہلی و لکھنؤ کی اتباع میں ٹکسالی اردو میں شعر کہنے لگے اور قنوج، میرٹھ، الٰہ آباد سے شائع ہونے والے رسائل اور گلدستوں میں شائع بھی ہونے لگے۔ [[اشفاق انجم | ڈاکٹر اشفاق انجمؔ]] اپنے تحقیقی مقالے ’’شعرائے مالیگاؤں‘‘ میں لکھتے ہیں: | ||
’’اب تک جو سب سے [[گلدستہ | قدیم گلدستہ]] دستیاب ہوا ہے وہ ’’پیامِ عاشق‘‘ قنوج ہے جس کے ۱۸۹۲ء کے دو شمارے راقم کے پاس ہیں۔ا ن میں مالیگاؤں کے شعراء کا کلام بھی شائع ہوا ہے لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ آنے والے مہاجرین میں شعراء اور ذی علم حضرات یقیناًشامل تھے جن کے ہاتھوں یہاں اردو نے آنکھیں کھولیں اور ادب کی شمعیں روشن ہوئیں۔‘‘ | ’’اب تک جو سب سے [[گلدستہ | قدیم گلدستہ]] دستیاب ہوا ہے وہ ’’پیامِ عاشق‘‘ قنوج ہے جس کے ۱۸۹۲ء کے دو شمارے راقم کے پاس ہیں۔ا ن میں مالیگاؤں کے شعراء کا کلام بھی شائع ہوا ہے لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ آنے والے مہاجرین میں شعراء اور ذی علم حضرات یقیناًشامل تھے جن کے ہاتھوں یہاں اردو نے آنکھیں کھولیں اور ادب کی شمعیں روشن ہوئیں۔‘‘ | ||
شعر و ادب کے بڑھتے ہوئے ذوق اور فراغت کے اثرات بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں نمایاں ہوئے اور مالیگاؤں سے ’’افتخار سخن‘‘، ’’معیارِ سخن‘‘، اور ’’بہار‘‘ نامی ماہانہ گلدستے شائع ہونے لگے۔ جن میں مقامی شعراء کے علاوہ برصغیر کے شعراء کی طرحی غزلیں اور نعتیں شائع ہوتی تھیں۔ ان کے علاوہ میرٹھ، الٰہ آباد، دہلی، لکھنؤسے نکلنے والے گلدستوں میں بھی مالیگاؤں کے شعراء کے کلام شائع ہوتے تھے۔ | |||
[[ | مآخذ : [[مالیگاؤں کانعتیہ ادب اوراشفاق انجم ۔ ظہیر قدسی]] | ||
=== مالیگاوں کے کچھ اہم نعت گو شعراء === | === مالیگاوں کے کچھ اہم نعت گو شعراء === | ||
[[ | [[اثر صدیقی ]] | [[اسحق مقصد ]] | [[اشفاق انجم ]] | [[ جمال الدین لبیب]] | [[حافظ مراد ]] | [[ سراج الدین سراج]] | [[ عبدالمجید وحید ]] | [[عقیل رحمانی]] | [[ نذیر تابش ]] | [[ یوسف عزیز ]] | | ||
[[سراج الدین سراج | |||
=== مزید دیکھیے === | === مزید دیکھیے === |