عزیز احسن کا نعتیہ سفر، تہذیبی ورثے کی بازیافت ۔ کاشف عرفان

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 12:16، 30 دسمبر 2017ء از ADMIN (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search

22552547 1414849971926102 6847160094441319601 n.jpg

مضمون نگار: کاشف عرفان

مطبوعہ : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27

ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

The article presented hereunder suggests that assessment of poetry of Aziz Ahsan be made in light of Psychological and Sociological Schools of Criticism. Aesthetics of poetry have also been touched to elaborate under current thoughts of devotional poetry written by Aziz Ahsan. Sensitivity of feelings of poet has also shown conformed to Zeitgeist in order to bring the poetic diction nearer to contemporary life. Apart from discussing individual literary work of Aziz Ahsan, it has also been tried to set trends of evaluation of Naatia Poetry in the light of aesthetics of criticism.


عزیز احسن کانعتیہ سفر ، تہذیبی ورثے کی بازیافت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

عزیزاحسن دورِ حاضر میں اردو کے اہم ترین نعتیہ شاعر اورنقاد ہیں۔نعتیہ شاعری پر تنقید کورواج دینے میں عزیزاحسن کاحصہ نمایاں ہے۔ان کی نعتیہ شاعری پر گفتگو سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ شاعری کیوں ضروری ہے؟شاعری پر تنقید کی کیا اہمیت ہے اور نعتیہ شاعری آج ہمارے معاشرے میں غوروفکر کے کون سے نئے زاویے دریافت کررہی ہے؟شاعری ذات کے اظہار کاایک ایسا ذریعہ ہے جس کی تاثیر نثر سے زیادہ ہے اور اس میں لوگوں کومسحور کردینے کی خصوصیت موجود ہوتی ہے ۔مولانا الطاف حسین حالی ’’مقدمہ شعروشاعری‘‘میں لکھتے ہیں:

’’شعرکی تاثیر سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا۔سامعین کو اکثر اِس سے حُزن یانشاط یاجوش یاافسردگی ،کم یازیادہ ضرور ہوتی ہے ۔‘‘ (مقدمہ شعرو شاعری صفحہ نمبر۹)

فن جب وجدان کی بلند سطح کو چھولیتا ہے تو شاعری پیداہوتی ہے ۔بیسویں صدی میں مغرب میں یہ سوال شدومد سے اٹھایا گیاکہ کیاشاعری ہونی چا ہیے؟پھریہ سوال بھی پیدا ہواکہ کیاشاعری سائنس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے قابل ہے؟ یہ سوال مغرب میں صنعتی انقلاب کے بعدبہت سے ذہنوں میں پیدا ہورہا تھا۔مغرب میں ان سوالات کاجواب ۱۹۳۳ء میں اطالوی مفکر بینی ڈیٹو کروشے (۱۹۵۲ء۔۱۸۶۶ء) نے دیا اوراپنے جواب میں اس نے شاعری کے حق میں بہت سے نئے نکات پیش کیے ۔اُس نے شاعری کوایسا فن قرار دیا جو خالص ترین ہے بلکہ فن اورتخلیق فن پربھی سیرحاصل بحث کی ۔ کروشے نے تخلیق کوتاثرات ،جمالیاتی ترکیب ،مسرت اور جمالیاتی تحرک سے تعبیر کیا۔ڈاکٹر سیدعبداللہ نے ’’اشاراتِ تنقید‘‘ میں کروشے کے نظریات کویوں بیان کیاہے :

’’کروشے کے نزدیک فن وجدان یاتاثرات کے اظہار کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ وجدان اُس وقت فن بنتا ہے جب روح اس میں غرق رہتی ہے تاکہ مکمل اظہار معرضِ وجود میں آسکے ۔ اس عالمِ وجدان میں جھوٹ اورسچ کا مسئلہ ہی پیدا نہیں ہوتا البتہ حُسن کااحساس ضروری ہوتا ہے ۔‘‘ (اشاراتِ تنقید صفحہ ۱۰۷ )

یوں شاعری ایک ایسا فن قرار پائی جس میں معاشرے کی روح کو سمجھنے اوراُس میں مثبت تبدیلیاں پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے ۔لیکن اِس کے لیے ضروری ہے کہ شاعری کوکسی نظریے کاپابند نہ بنایا جائے بلکہ شعری فکر کی نشوونما اُس کی روح اور فطرت کے مطابق ہی ہونی چاہیے ۔شاعری میں لطیف ترین جذبات اور عقیدت سے لبریز فکر کانام نعت ہے ۔خوش نصیب ہے وہ قلم جسے حضور آقائے نامدارV کی تعریف کی سعادت نصیب ہوتی ہے ۔نعت کی تاریخ قدیم ہے ۔حضرت محمد مصطفی Vکی پیدائش سے قبل کی نعتوں کا سراغ بھی لگایا گیا ہے۔ علامہ بشیر حسین ناظم اِس حوالے سے رقمطراز ہیں:

’’پہلی نعت گوتوحضرت آمنہؓ ہیں جب کہ حضورV کی پیدائش سے بھی ۶۰۰ برس قبل کے نعت گو حضرت غالب بن لوئی کابھی پتہ ملتاہے اِسی طرح ۵۰۰ قبل مسیح کی نعت بھی ملتی ہے ۔ حضرت حسانؓ کے علاوہ اس دور میں ستر کے قریب دوسرے نعت گو بھی موجود تھے۔‘‘(مکالمہ نما صفحہ ۱۵۳۔۔۔انٹرویو)

نعتیہ تنقید ایک بلند منصب ہے۔تنقید خودایک اہم ترین کام ہے جس کے ذریعے فن پارے کی قدروقیمت کااندازہ لگا کر اُس کے محاسن بیان کیے جاتے ہیں اور دوسری جانب فن پارے کے فنی وفکری خصائص پرنظر دوڑاتے ہوئے زبان وبیان اورخیال واظہار کے نئے منطقے دریافت کیے جاتے ہیں۔

ٹی ایس ایلیٹ نے تنقید کے حوالے سے اپنے ایک مضمون میں لکھا :

’’جب تک ادب،ادب رہے گا تنقید کے لیے جگہ باقی رہے گی کیوں کہ تنقید کی بنیاد بھی اصل میں وہی ہے جو خود ادب کی ہے۔‘‘ (ایلیٹ کے مضامین صفحہ ۱۳)

تخلیق اور تنقید کے درمیان ایک نہایت گہرا رشتہ موجود ہے ۔دونوں میں جذبہ ، احساس،خیال اوراظہار ایک سے پیرائے میں وارد ہوتا ہے ۔تنقید اپنی اصل میں اس طرح انسانی ذہن کو متاثر کرتی ہے جس سے زبان،احساس،خیال اور جذبہ کی نشوونما میں بھی مدد ملتی ہے ۔تنقید تہذیبوں کے ارتقاء کی ایک کوشش ہوتی ہے ۔ڈاکٹر جمیل جالبی تنقید کے منصب کوکچھ اس طرح بیان کرتے ہیں :

’’اگر کسی دور کا علامتی اظہار تخلیق میں ہوتا تواس دور کا مکمل اظہار اچھی تنقید میں ہوتا۔‘‘ (ایضا۔۔۔پیش لفظ ،صفحہ ۱۳)

تنقید اس وقت اہم ترین صورت اختیار کرلیتی ہے جب نقاد کو نعت جیسی محترم صنفِ سخن پراظہارِ خیال کرناپڑے نعتیہ تنقید کی روایت کچھ اتنی پرانی نہیں ہے ۔کچھ عرصہ قبل نعت کو تنقید سے ماوراء صنف خیال کیاجاتا تھا۔جب کسی صنفِ سخن کو کسی بھی قسم کی بحث اور گفتگو سے ماوراء سمجھ لیاجائے تواُس صنف میں ارتقائی عمل رک جاتا ہے ۔ہمارے ہاں نعت گوئی اور نعت خوانی میں یہ صورتحال بتدریج پیداہوتی رہی یہاں تک کہ تخلیقی سطح پر نعت کاسفر متاثر ہوا ۔نعت گوشعراء نے اِس بات پر توجہ کم کردی کہ موضوعات کیسے ہوں اور زبان میں احتیاط کے تقاضے کیا ہونے چاہئیں ۔اِس ساری صورتحال میں نعتیہ تنقید کوباقاعدہ فن کا درجہ دلوانے میں دوسرے اصحاب کے ساتھ عزیز ؔ احسن کاکردار بھی نمایاں ہے ۔نعت کی گھمبیر صورت حال کو سمجھنے کے لیے عاصی کرنالی کے مضمون کایہ اقتباس بھی دیکھنا ضروری ہوگا ۔

’’کبھی کبھی ہمارے مطالعے سے یہ آشوب بھی گزرتا ہے کہ ہم حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کی توصیف میں افراط وتفریط کاشکار ہوجاتے ہیں۔کبھی تو کسرِ شان کایہ انداز کہ انہیں اپنے جیسا بشر سمجھتے ہیں یاغزل کے مضامین کاان کومورد قرار دیتے ہیں اور کبھی ازراہِ مبالغہ انہیں اللہ کی مخصوص صفات اور اختیارات کاحامل قراردیتے ہیں۔اللہ کے پلے میں وحدت کے سوا کچھ نہیں اس لیے سب کچھ حضورV سے ہی مانگنا ہے ۔۔۔کیا نعت کے ایسے مضامین قرآن وسنت کے مزاج کے مطابق اور دانش ومعرفت کے اصول واطلاق سے مناسبت رکھتے ہیں۔‘‘ (مُجلّہ نعت رنگ اپریل ۱۹۹۵ء)

نعت گوئی اور نعت خوانی کی اہمیت کوموجودہ دور میں ذرائع ابلاغ اور ذرائع نشر واشاعت کی ترقی کے تناظر میں سمجھا جاسکتا ہے۔نعت آج مذہبی اجتماعات کے علاوہ سیاسی ،سماجی اور ادبی جلسوں کی زینت بھی بنی ۔ماہ ربیع الاوّل میں محافلِ نعت کاانعقاد بھی نعت کی ترقی کاباعث بنا ۔اِس سے ایک فائدہ تو یہ حاصل ہواکہ اس صنفِ سخن پرعوام الناس کی توجہ ہوئی اور شعراء کرام نے بھی تواتر سے نعتیں لکھنا شروع کردیا ۔اسّی کی دہائی میں ایک خاص شخصیت کے زیر اثر نعت کوباقاعدہ صنفِ سخن سمجھا گیا اور نعتیہ کتب پر انعامات کاسلسلہ شروع ہوا گویا نعت جیسی متبرک صنفِ سخن میں کچھ کمرشل عناصر بھی شامل ہوگئے۔

علامہ بشیر حسین ناظم اِس صورتحال پریوں اپنی رائے کااظہار کرتے ہیں:

’’چند دہائیوں پہلے کے شاعر تواصحاب فکر ووجدان تھے اور سچ مچ ہی نظامی عروضی ثمرقندی کے بقول اپنی قوت واہمہ سے عالمِ مثال پر کمندیں ڈال کراصلی شعر عالمِ ناسو ت میں لاتے تھے اور ان شعروں پر لوگ تڑپ تڑپ جاتے تھے لیکن آج کل لوگ یہ کررہے ہیں کہ پکڑی کوئی انگریزی کی کتاب اور ترجمہ کر کے پیش کردیا لہٰذا شعر لوگوں کو متاثر نہیں کررہا ۔۔۔ نعت میں صورتحال اور بھی گھمبیر ہے ۔‘‘(مکالمہ نما صفحہ ۱۵۰؍۱۴۹۔۔۔انٹرویو)

نعت میں ایک خاص طرح کاکاروبار ی انداز آجانے سے ایک بڑا نقصان تو یہ ہوا کہ نعت گو شعراء کی توجہ موضوعات اور اندازِ بیان پر کم ہوگئی۔نعت خواں حضرات نے ایسا کلام بھی پڑھنا شروع کردیا جس میں زبان وبیان کے عیوب موجود ہوتے یوں بتدریج نعت کامعیار گرنا شروع ہوگیا ۔ایسے میں نعتیہ تنقید کوباقاعدہ رواج دینے میں ’’نعت رنگ‘‘ کراچی کی کوششیں یقیناً قابلِ ستائش ہیں ۔محترم صبیح رحمانی ، ان کے ساتھی اور خاص طور پر عزیزاحسن جنہوں نے نعتیہ تنقید کو تنقید کاایک نیا دبستان بنایا ،قابل مبارک بادہیں ۔

یہ بات طشت ازبام ہے کہ اعلیٰ شعر گوئی اپنا علامتی پیرایہ بھی رکھتی ہے ۔یہ علامتی پیرایہ تمام اصنافِ سخن کاحصّہ ہوسکتا ہے ۔غزل ، نظم،نعت اور دوسری نثریہ اصناف بھی اس علامتی نظام کے بغیر فِکر کی وسعت حاصل نہیں کرسکتیں ۔یہ علامتی نظامِ شاعری’’فن پارہ‘‘ کو ایک وسیع کینوس پر پھیلا دیتا ہے اور اِس طرح فن پارے میں علامت کے ذریعے ایک آفاقیت پیدا ہوجاتی ہے ۔میر کے ہاں یہ علامتی نظام تاثر اور کیفیت کی سطح پر ملتا ہے اوریوں میرؔ کی شاعری کو زمان ومکاں کی قید سے آزاد کردیتا ہے ۔

چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر

منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے پیچ

یہ توہم کا کارخانہ ہے

یاں وہی ہے جو اعتبار کیا

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں

تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

میرؔ کے ہاں علامت اجتماعی سطح پر برتی جاتی ہے جبکہ وہ اِس اجتماعی علامت کواپنے داخلی نظام سے کچھ اِس طرح مدغم کرتا ہے کہ معنوی سطح پرشدید احساس زندہ ہوجاتا ہے یوں قاری اُس کے تجربے سے جُڑ جاتا ہے ۔غالب کے ہاں بھی یہ علامتی نظام شعر کی سطح پر نہایت وسیع شکل اختیار کرگیا ۔ کیوں کہ غالب کے ہاں فلسفہ اور مابعد الطبیعات کے مضامین نمایاں رہے لہٰذا اُس کے ہاں علامت بھی فطرت سے آئی۔

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب

ہم نے بزمِ امکاں کوایک نقشِ پا ،پایا

دہر جز جلوۂ یکتائیِ معشوق نہیں

ہم کہاں ہوتے اگر حُسن نہ ہوتا خود بین

اقبال کے ہاں ایک خاص فکری گہرائی کے ساتھ یہ علامتی نظام غزل ،نظم اور نعت تینوں سطحوں پر نمایاں ترین نظرآتا ہے ۔

عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا

اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام

عشق دمِ جبرئیل ،عشق دلِ مصطفی

عشقؐ خدا کا رسولؐ عشق خدا کا کلام

سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے

کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں

علامتی سطح پراپنی فکر کو لفظوں کا جامہ کئی شعراء نے بھی پہنایا تاہم عزیز احسنؔ کے ہاں علامتی نظام نہایت سادہ ہے ۔وہ اپنی فکر کو لفظوں میں کچھ اس طرح ڈھا لتے ہیں کہ الفاظ اپنی سادہ ترین شکل میں بھی اجتماعی تاثر دینے لگتے ہیں اور یہ اجتماعی تاثر ان کی شاعری کو اُمّت کااستغاثہ بنا دیتا ہے ۔

اُمّت کی مشکلات کاحل صرف ایک ہے

اپنائیں ذوق وشوق سے سب اسوہِ نبیؐ

مسلم کا پستیوں سے نکلنا محال ہے

جب تک ہے اس کی شام عمل کی سحرسے دور

ان کے ہاں علامت کو معنوی سطح پر استعمال نہ کرنے سے ابلاغ کی جہت اکہری رہتی ہے یوں اُن کے ہاں ’’شام ‘‘صرف روز وشب کے وقفے کابیان ہوتی ہے لیکن اِس سے زندگی کے کسی اورواقعہ ، جذبہ یااحساس کو مراد نہیں لیاجاسکتا ۔وہ خود ’’شہپرِ توفیق‘‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں:

’’میں نے جوکچھ لکھا ہے اسے احساس کی قندیل سے روشن کرکے لکھنے کی سعی کی ہے تاہم تخلیقی قوت یاشعری صلاحیت کواپنی شعوری کوشش سے ایک خاص حد سے زیادہ جلا نہیں دی جاسکتی چناں چہ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ میری نعتیہ تخلیقات میرے تنقیدی شعور یاشعری آدرش پرپوری اترتی ہیں‘‘ (شہپر توفیق، صفحہ ۱۳)

غزل کی طرح نعت بھی دورجدید میں روایت کے ساتھ جڑ کر اپنا ایک علیحدہ لسانی نظام بنانے کی سعی کررہی ہے نعت نے اپنے لیے الفاظ ، تراکیب ،تشبیہات اور استعارات بھی نئے تلاش کیے ہیں ۔ آج کاشاعر آقائے نامدارؐ کی تعریف اور توصیف کو صرف جسمانی حسن وجمال تک محدود نہیں رکھ رہا بلکہ وہ سیرت النبیؐ کے ان گوشوں کی تلاش بھی کررہا ہے جہاں انسانی شاعرانہ فکر ابھی تک نہیں پہنچی ۔موضوعات کا تنوع آج کے شاعر کے ہاں لفظیات بھی نئی لارہا ہے ۔آج کاشاعر فکرکے نئے منطقے دریافت کرنے میں نئے تجربات کرنے سے بھی خوفزدہ نہیں ہے ۔پچھلے پچیس برس نعتیہ شاعری کے حوالے سے شعرا ء کرام اپنا علیحدہ لسانی ڈھانچہ ترتیب دینے میں کامیاب رہے ہیں ۔ چندمثالیں دیکھیں:

تجھؐ سے پہلے کچھ ایسا عالم تھا

زندگی رو رہی تھی سر کھولے (جنید آزرؔ )

______

محبت سیف ٹھاٹھیں مارنے والا سمندر ہے

میں روتا ہوں سمندر کے کنارے رخت سے پہلے(سیف علی)

______

دیکھتا ہوں میں مدینے کی حسیں شام کے خواب

اب مری شب کاوظیفہ ہیں ترے نام کے خواب

زیست احساس کے ان دونوں کناروں کا ملاپ

شہرِ طیبہ کاسفر چادرِ احرام کے خواب (کاشف عرفان)

______

جہاں تک آپ ؐ نے سو چا زمان ولامکاں کو

مرے آقا کوئی کب سوچ سکتا ہے وہاں تک (اختر شیخ)

______

مکاں ہے نور سے معمور لامکاں روشن

چراغِ ذکرِ نبیؐ ہے کہاں کہاں روشن(صبیح رحمانی)


روایت کے ساتھ جڑی ہوئی شاعری کاتعلق اُس زمین سے ہوتا ہے جس سے اِس روایت کے سوتے پھوٹتے ہیں ۔نعت کی روایت کاتعلق عرب کی سرزمین سے ہے ۔اِس روایت میں صحراؤں کی وسعت کااحساس اس لیے ہوتا ہے کہ اِ س میں محبت سے لبریز جذبوں کو لفظوں کا جامہ پہنایا جاتا ہے ۔

عزیز ؔ احسن کے ہاں نعت اُسی عربی روایت سے جڑی ہوئی ہے ۔وہ روایت میں کہیں کہیں جدید الفاظ کا استعمال کرتے ہیں ۔جدید الفاظ کی اصطلاح خاصی مبہم ہے ۔ہر لفظ جدید ہوتا ہے ۔یہاں جدید لفظ سے مراد وہ الفاظ ہیں جو عام طور پر نعت میں استعمال نہیں کیے جاتے ۔اس سے پہلے کہ عزیز احسن کی شاعری میں روایت کی اساس تلاش کی جائے یہ دیکھا جائے کہ روایت کیاہے ؟ روایت کے حوالے سے ٹی ایس ایلیٹ اپنے ایک مضمون ’’روایت اور انفرادی صلاحیت ‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’کوئی شاعر کوئی فن کارخواہ وہ کسی بھی فن سے تعلق رکھتا ہو تن تنہا اپنی کوئی مکمل حیثیت نہیں رکھتا۔ اُس کی اہمیت اور بڑائی اس میں مضمرہے کہ پچھلے شعراء اور فن کاروں سے اُس کاکیا رشتہ ہے ؟ اُسے ان سے الگ رکھ کراُس کی اہمیت متعیّن نہیں کی جاسکتی۔اسے پچھلے شعراء اور فن کارون کے درمیان رکھ کر تقابل وتفاوت کرنا ہوگا۔‘‘ (ایلیٹ کے مضامین صفحہ ۱۸۵) اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روایت سے جڑنے اور پچھلے شعراء سے تقابل سے ایلیٹ کیا مراد لیتا ہے ؟ کیا قدیم شعراء کے اندازِ سخن کو مثال بنا کران کی پیروی کی جائے ؟ میری ذاتی رائے میں روایت کی پیروی سے اُس کی مراد اُس تہذیبی ورثے کی بازیافت ہے جو سب کا مشترکہ اثاثہ ہوتا ہے ہردور اپنی فکر اوراپنا لسانیاتی ڈھانچہ خود مرتب کرتا ہے جس میں زبان کاارتقائی عمل بھی حصہ لیتا ہے ۔یوں ساتھ ہی ساتھ زبان کو نئے لفظوں کاخزانہ بھی ملتاہے اور ہردور اپنی فکر کے لحاظ سے زبان وادب میں نِت نئے لسانیاتی اضافے کرتا رہتا ہے ۔اردو ادب میں روایت کی پیروی ہمیشہ سے ہوتی آئی ہے ۔غالب نے جب کہا تھا:

طرزِ بیدل میں ریختہ کہنا

اسد اللہ خاں قیامت ہے

توایک طرف وہ مرزا عبدالقادر بیدلؔ کوخراجِ تحسین پیش کررہا تھا جبکہ دوسری طرف وہ بیدلؔ کو علامت بنا کراُس تہذیبی بازیافت کے عمل میں شریک ہورہا تھا جس کا وہ وارث بھی تھا اوراُسے آگے لے کر چلنے کی شعوری کوششوں کا علمبردار بھی تھا ۔غالب کے ہاں علامت کا نظام اکہری سطح پر نہیں تھا تو پھر یہ کیسے ممکن تھاکہ وہ بیدل ؔ سے مرادبیدلؔ ہی لیتا اور روایت کے اس گہرے رمز کو نظر انداز کردیتا کہ فکرِ انسانی کا ارتقاء دو نسلوں کی فکروں کے درمیان تقابل سے جڑا ہے ۔اسی نکتے کی طرف ایلیٹ نے بھی اپنے مضمون میں اشارہ کیاتھا ۔اب اگر ہم غور کریں تو روایت کی پیروی کرنے کے باوجود غالب اپنا لسا نیاتی نظام خود ترتیب دیتا ہے بلکہ ولیؔ سے اقبال تک ہربڑا شاعر اپنا لفظیاتی ڈھانچہ خود مرتب کرتا ہے ۔اقبال کے ہاں علامات کا ایک پرشکوہ نظام اپنی خاص تہذیبی روایت کے عکس کے ساتھ پھلتا پھولتا نظرآتا ہے ۔

عشق کی اک جست نے طے کردیا قصہ تمام

اِس زمین وآسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں

ایک اورجگہ اِسی طرح اپنی لفظیات کوخود ترتیب دیتا ہے ۔

خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہِ دانش فرنگ

سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف

مسجد قرطبہ میں اقبال لکھتے ہیں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ہے مگراُس نقش میں رنگِ ثبات دوام

جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام

مردِ خداکاعمل عشق سے صاحب فروغ

عشق ہے اصلِ حیات موت ہے اس پر حرام

واضح نظرآتا ہے کہ اقبال کی پوری شاعری میں اُس کے فکری ولفظی نظام میں ایک واضح اور نمایاں تال میل موجود ہے ۔کہاجاتا ہے کہ ہر خیال اپنے الفاظ ساتھ لے کرآتا ہے ۔راشد اور میرا جی دونوں کے ہاں اپنا اپنا لفظیاتی نظام موجود تھا ۔راشد فارسی نظامِ فکر کے قریب تھے لہٰذا زبان بھی وہیں سے لیتے تھے اقبال اور راشد دونوں کے ہاں کسی حد تک مماثلث بھی موجود تھی ۔

ڈاکٹر آفتاب احمد لکھتے ہیں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

’’اقبال سے راشد کی ایک اور مماثلث بھی قابل غور ہے ۔اقبال کے بعد اگر ہمارے ہاں کسی شاعر میں مشرق کا بطور مشرق شعوری احساس ملتا ہے تو وہ صرف راشد ہے‘‘۔

(ن ۔م راشد ۔۔۔ایک مطالعہ، صفحہ ۹۴ بحوالہ اردو ادب بیسویں صدی میں)

ن۔م راشد کی ایک نظم کاٹکڑادیکھیں ۔زبان وبیان آپ کوکس منزل کا پتہ دیں گے ؟

کرچکا ہوں آج عزم آخری

شام تک ہر روز کردیتا تھا میں

چاٹ کر دیوار کو نوکِ زباں سے ناتواں

صبح ہونے تک وہ ہو جاتی تھی دوبارہ بلند (خودکشی)

میراجی کے ہاں ہندی فکرسے دلچسپی موجود تھی لہٰذا زبان وبیان اور علامات کاسارا نظام ہندی تہذیب کے تناظر میں لیاگیا ہے ۔غالب نے ایک مقطع میں کہا تھا ۔

گنجینہء معنی کا طلسم اس کو سمجھئے

جو لفظ کہ غالب ؔ مرے اشعار میں آوے (دیوان غالب صفحہ ۲۶۹)

گویا بڑے شعراء کے ہاں لفظ کو معنی کی اکہری سطح پر برتا نہیں جاتا بلکہ لفظ کوکچھ ایسے زاویے سے استعمال کیاجاتا ہے کہ وہ مختلف السطح نظرآتا ہے یوں شاعری زمان ومکان کی قید سے آزاد ہوکر فکر کے نئے دروا کرتی نظرآتی ہے ۔

عزیزاحسن کے ہاں شعوری سطح پرروایت سے علیحدہ ہوکر نئی زبان کی تشکیل کاکوئی ثبوت نہیں ملتا ۔انہوں نے سادہ زبان میں حالِ دل بیان کرنے کی کوشش کی ہے ۔کہیں کہیں دورِ حاضر کے مسائل اور امت مسلمہ کی مشکلات کے بیان میں وہ روایت سے علیحدہ ہوکر کچھ مختلف لفظ بھی استعمال کرتے ہیں ۔

ہاں صبا کے لب پہ نغمے عظمتِ خالق کے ہیں

اور کوئی گونج در دشت و جبل ہوتی نہیں

فاصلے سارے عجم اور عرب کے مِٹ جائیں

اِس قدر روح کو،رب مائلِ تشویق کرے

میں نے اِس پہلو پر غور کیا کہ عزیز احسن جیسا نقاد جوآج کے جدید شعری منظر کوخوب سمجھتا ہے اوراپنی تنقید میں ان شعراء کاذکر نہایت محبت بھرے الفاظ میں کرتا ہے جو نعت کواپنے فکر وفن سے ایک نئی جہت دے رہے ہیں خود کیوں علامت کے اس نظام کواپنی شاعری کاحصہ نہیں بناتا ۔مجھے اس نکتے کا جواب نفسیاتی تنقید کے دبستان سے ملا ۔نفسیاتی تنقید کے ذریعے سے فن پارے کی تشریح کو سمجھنے کے لیے ڈاکٹر سلیم اختر کااِس حوالے سے اقتباس دیکھیں :

’’ادب پاروں کی نفسیاتی تشریح کے ساتھ ساتھ نفسیاتی تنقید کا دوسرا فریضہ مصنف کی نفسیاتی ساخت کے تعیّن اور پھر اس کی روشنی میں اُس کی تخلیقی کاوشوں کاجائزہ لینا ہے ۔‘‘ (تنقیدی دبستان صفحہ ۱۵۸)

نفسیاتی تنقید کے ذریعے نہ صرف شاعر اور شاعری کاداخلی سطح پر تعلق کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے بلکہ اِس بات کوبھی سمجھا جاسکتا ہے کہ کسی تحریر کو لکھتے ہوئے شاعر پر کیا کیفیت طاری ہو ئی ۔

ہربرٹ ریڈ "The true voice of feeling" میں لکھتا ہے :

’’میں تواس عقیدے کاحامل ہوں کہ شاعر کی شخصیت کی کُلّی تفہیم سے حاصل شدہ معلومات اُس کی شاعری کی تحسین کے لیے بہترین بنیاد بن سکتی ہے ۔‘‘

The true voice of feeling page 246بحوالہ (تنقیدی دبستان ،صفحہ ۱۵۹)

گویا نفسیات کاعلم ہمیں شاعر پر گزرنے والی ان کیفیات ‘جو فن پارہ تحریر کرتے ہوئے اُس پر طاری ہوئیں ،کے قریب پہنچا سکتا ہے ۔شاید اسی لیے ٹی ایس ایلیٹ نے کہا تھا کہ: ’’تخلیق کار اور نقاد میں ایک گہرا رشتہ ہوتا ہے‘‘ (ایلیٹ کے مضامین)

عزیز احسن کی نعتیہ شاعری میں ہمیں ایک کیفیت مسلسل نظرآتی ہے وہ ایک پرخلوص دعائیہ اور استغاثیہ کیفیت ہے ۔وہ اُمّت کی زبوں حالی پر ہر لمحہ ایک اضطرابی کیفیت میں مبتلا نظرآتے ہیں بے عملی اور نااتفاقی کووہ اُمّتِ مسلمہ کے لیے زہر قاتل سمجھتے ہیں ۔ان کی شاعری میں امتِ مسلمہ کے مسائل کاادراک موجود ہے ۔ان کے ہاں تقریباً ہر نعت میں ان مسائل پر بات ہوتی ہے اور اس کاحل وہ صرف اسوۂ رسولؐ پر عمل پیرا ہونے کوہی قرار دیتے ہیں ۔ان کے ہاں نعت کے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ دکھ کی کیفیت شدید سے شدیدتر ہونے لگتی ہے اور وہ استغاثہ بیان کرنے لگتے ہیں ۔اب شدتِ اظہار کی اِس کیفیت میں زبان وبیان اور علامات واستعارات کا شعوری احساس ممکن ہی نہیں رہتا ۔مجھے یقین ہے کہ عزیز احسن نعت کہنے کے دوران گریہ وزاری بھی کرتے ہوں ۔عزیزصاحب کے ہاں دعائیہ اور تبلیغی عناصر بہت زیادہ طاقت ور ہیں ۔وہ ہرگام پراپنے قارئین کوعمل کی طرف راغب کرتے نظرآتے ہیں۔

اے دوست کچھ عمل کی طرف بھی تو دھیان کر!

کب تک رہے گا زینتِ لب اسوۂِ نبیؐ

نبیؐ کاعشق عمل میں ڈھلے توبات بنے

پھرامتحان کی مدت بھی مختصر ہوجائے

اتباعِ شاہِ دیں کاعزم ہوتو آج ہو

عشق کی تقویم کے دامن میں کل ہوتی نہیں

میں تابناک ماضی کی ضو میں کھو گیا ہوں

کچھ روشنی نہ آئی پھر بھی مرے چلن میں

سچ پوچھیے توآج امت کوان تبلیغی عناصر کی جتنی ضرورت ہے شاید پہلے کبھی نہ تھی ۔عزیز احسن کی نعت کی سب سے بڑی خوبی خلوص ومحبت ہے ۔عزیز احسن اپنی نعت کو شعوری کو ششوں کے ذریعے اگر ایسے پیرائے میں ڈھال لیں جہاں یہ آفاقیت کے قریب پہنچے تو نعت عشق رسولؐ کی ترویج کے ساتھ ساتھ امکان کے نئے درواکرے گی ۔ نعتیہ شاعری میں آفاقیت کی مثالیں دیکھیں ۔

لوح بھی تُو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب

گُنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب (اقبال)

______

مرحلے تیرے سفر کے تھے ازل اور ابد

جادۂ وقت سے آگے ترا جادہ دیکھا (عارف عبدالمتین)

______

میں اُسی وقت سے منسوب تری ذات سے ہوں

جب کہ جبریلِ امیں بھی ترا دربان نہ تھا (حافظ مظہرالدین ؒ )

______

فن کی تخلیق کے لمحوں میں تصور اُس کا روشنی

میرے خیالوں میں ملا دیتا ہے (احمدندیم قاسمی)


عزیزاحسن اپنے ایک مضمون ’’اردو نعت میںآفاقی قدروں کی تلاش ‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’ہرتحریر یامتن کثیر المعانی ہوتا ہے کیوں کہ اِس میں استعمال ہونے والے لفظوں کا معیناتی رشتہ مصنف کے منشاء سے بھی قائم ہوتا ہے،تاریخی تناظر یاسباق سے بھی معنی کے عکس بدلتے ہیں ،اور متن کی عہد بہ عہد قرا ء ت سے بھی لفظوں کے مختلف ابعاد سامنے آتے ہیں۔‘‘ (اردو نعت اور جدید اسالیب صفحہ ۴۵)

گویاشاعری اپنی فکر میں کثیر المعانی اس لیے بن جاتی ہے کہ اِس میں لفظ اور معنی کے پیچیدہ نظام سے شاعر نہ صرف واقفیت رکھتا ہے بلکہ وہ ان تاریخی تناظرات سے بھی آگاہ ہوتا ہے جس سے شاعری وقتاً فوقتاً گزرتی رہی۔نعت میں موضوعات پاکیزہ ،خوبصورت اور متبرک ہوتے ہیں ۔لفظوں کاخوبصورت استعمال ،تشبیہات ،استعارات اور تلمیحات کادرست استعمال شاعری کوخوبصورت بناتا ہے ۔نعت میں اِس کاخیال رکھنا اور بھی ضروری ہوتا ہے کہ یہ سر کار دوجہاں حضرت محمدمصطفیV کی تعریف ہے جن کے لیے دو جہاں تخلیق کیے گئے ۔ عزیز احسن کے ہاں احتیاط کایہ عمل بہت نمایاں ہے۔یہی احتیاط ہے جس نے انہیں سرورِ دوعالم کی نعت کہنے کا قرینہ سکھایا اوریہی احتیاط ہے جوانہیں خدااور رسول کے مقام کوسمجھنے اور بیان کرنے کا قرینہ دیتی ہے ۔

نبی کے عشق سے روشن ہرایک جادہ کریں

انہی کی سیرتِ اطہر سے استفادہ کریں

نعت لکھنا یقیناًدو دھاری تلوار پر چلنے کے مترادف ہے ۔الفاظ کا مبہم استعمال اِس سفر کواور بھی مشکل بنادیتا ہے ۔ذرا سا کمزور شاعر جذبات کی رومیں بہہ کر منزلوں کا پتہ کھو بیٹھتا ہے کہیں مقام کویہاں تک بڑھاتا ہے کہ خدا کی خصوصیات اورصفات کاحامل بنادیتا ہے اور کہیں اپنے جیسا بشر ۔دونوں ہی باتیں قرآن اور سنت کے خلاف ہیں۔عزیز احسن کے ہاں احتیاط نے ان کی نعت کوایسے فکری نقائص سے پاک رکھا ۔وہ نہ صرف مقامِ احد ومحمود سے واقف ہیں بلکہ بیان میں بھی درجات کاخیال رکھتے ہیں ۔

عقل کیا منصبِ سرکارکی تحقیق کرے

جبکہ ایماں سے جدائی اسے زندیق کرے

ان کے ہاں جلال وجمال کی تجلیات سے منور ہونے کاانداز نہایت دلربا ہے

کعبے سے ملے مجھ کو تجلّی مرے مولا لکھوں میں ثناء روضۂ سرکار پہ جا کر

عزیز احسن اپنی نعت کے لیے مواد قرآن پاک کی آیات سے لیتے ہیں ۔نبی ؐ کے مقام کوانہوں نے قرآن کی آیات ہی سے پہچانا اور پھر نعت کاموضوع بنایا۔معاصرین میں فکر وفن کی یہ جولانی ان کے ساتھ ساتھ سیدآصف اکبر کے ہاں بھی دیکھی جاسکتی ہیں ۔عزیز احسن کی ایک نظم کی چند لائنیں دیکھیں :

طلبِ مغفرت (نظم)

مرے آقا ؐ میں حاضر ہوگیا ہوں

آپؐ کے در پر

طلب ہے مغفرت کی

معترف میں جرم کابھی ہوں

مرے آقا شفاعت میری فرمائیں

مرے اللہ نے قرآن میں نُسخہ بتایا ہے

کہ جب بھی (اہل ایماں)

اپنی جانوں پرکبھی کچھ ظلم کر بیٹھیں

توآجائیں نبیؐ کے پاس

رب سے مغفرت چاہیں

(سورۃ نساء کی آیت ۶۴ کی روشنی میں، شہپرِ توفیق صفحہ ۱۶۰؍۱۵۹)

جہاں احتیاط کے تقاضے اِس انداز میں بنا لیے جاتے ہوں اور قرآن کوسند بنا کر نبیؐ کی خدمتِ اقدس میں گزارشات پیش کی جارہی ہوں وہاں کلام میں کسی معنوی سقم کا در آنا یقیناًناممکنات میں سے ہوگا۔کسی بھی دور کی نعتیہ شاعری کا تعلق سماجیات سے نہایت گہرا ہوتا ہے ۔اچھی نعتیہ شاعری روحِ عصر کونہ صرف اپنے اندرجذب کرتی ہے بلکہ اُس کی عمدہ مصوری بھی کرتی ہے ۔حالی کی مناجات:

اے خاصۂ خاصانِ رسلؐ وقت دعا ہے

امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے

سے ہماری آنکھوں کے سامنے اُس پرآشوب دور کی تصویر سامنے آتی ہے جب مسلمان اپنی بے عملی کے باعث اپنے دونوں دشمنوں سے نبرد آزما نہیں ہوپارہے تھے ۔انگریز کی حکومت میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم اور ہندو اکثریت کے منفی ہتھکنڈے نظر کے سامنے آنے لگتے ہیں ۔گویا نعت اپنے سماج کی صحیح تصویر بھی پیش کرتی ہے اورآقائے نامدار ؐ کے حضور امت کا استغاثہ بھی پیش کرتی ہے ۔سماجی تنقید نے آج کسی فن پارے کی تفہیم کوہمارے لیے آسان بنادیا ہے ۔میرؔ جب کہتا ہے :

شہاں کہ کحل جواہر تھی خاکِ پاجن کی

انہی کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں

یا جب وہ کہتے ہیں:

اب شہر ہر طرف سے ویران ہورہا ہے

دکھلائی دے جہاں تک میدان ہورہا ہے

توہمیں مغلیہ سلطنت کے زوال کی تصویر اُس سماج کے تناظر میں نظر آنے لگتی ہے ۔مجنوں گو رکھپوری نے ادب اور سماج کے تعلق کی وضاحت کچھ اِس طرح کی:

’’ادب کے متعلق اب ہرسوال عمرانیات کاسوال بن گیا ہے کیوں کہ حالات بدل گئے ہیں۔ ادیب کواب سماج کے ایک فرد کی حیثیت سے اپنے فرائض پورے کرنے ہیں۔‘‘(بحوالہ اصول وتعارف تنقید ) عمرانیات یاسماجیات کا علم کسی معاشرے اوراُس کے رجحانات پرتفصیل سے روشنی ڈالتا ہے اور پھر اُس زمانے کے اجتماعی ذہنی پس منظر کے بارے میں بات کرتے ہوئے فن پارے کی تفہیم کی کوشش کرتا ہے اور دیکھتا ہے کہ اُن عوامل نے کس حد تک تحریر پراثر کیا اورکہاں تک ان کی عکاسی تحریر میں موجود ہے۔عمرانی تنقید سے یہ بات بھی معلوم ہوسکتی ہے کہ مخصوص حالات، لکھنے والے کی تحریر اور زبان پر کیا اثرات ڈالتے ہیں ؟عزیزاحسن کے ہاں بھی سماجیات کاگہرا ادراک موجود ہے ۔اُن کاکلام بھی آج کے مسلم معاشرے کی تصویر دکھاتا ہے ۔اِس دورِ پر آشوب میں جب امت مسلمہ ہر طرف سے اغیار میں گھری ہے اور اکیسویں صدی کے آغاز سے ہی منفی تبدیلیوں کی زد میں آئی ہوئی ہے ان کی نعت مسائل کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے اور اِن مسائل کے حل بھی دیتی ہے ۔

ایسی اِک آہ کروں قوم کے اِدبار پہ میں

کہ مری آہ سے اب عرشِ الٰہی ہِل جائے

ابھی کلیسہ کا جبر بھی ہے ابھی ہے جورِ یہود پیہم

ستم رسیدہ ہوئے مسلماں یہاں غریب الوطن ہزاروں

نعتیہ نظم ’’کاش ایسا ہو ‘‘ میں لکھتے ہیں:

کاش ایسا ہو مسلماں یاس کے پیکر نہ ہوں

ہرنظرکے سامنے وحشت کے یہ منظر نہ ہوں

اب جہاں میں یوں پریشاں کاش ہم دردر نہ ہوں

یوں پھر یرے جراتوں کے سرنگوں گھر گھر نہ ہوں

ہماری آج کی نعت سماجیات کے حوالے کے بغیر مکمل نہیں ہوتی کیوں کہ ہم ایک ایسے دور میں سانس لے رہے ہیں جب زندگی ایک پیچیدہ سانچے میں ڈھل چکی ہے ۔یہ پیچیدگی انسانی شخصیت کاحصہ بن گئی ہے ۔تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے دور میں اقدار کی شکست وریخت اور اُس کے نتیجے میں انسانی شخصیت کی ٹوٹ پھوٹ نے انسان کوکمزور کردیاہے ۔ایسے میں تمام دنیا کے مسلمان جو نامساعد حالات کاسامنا کررہے ہیں،کے لیے قوت کاسر چشمہ حضرت محمدV کی سیرت اطہر ہے ۔عزیز احسن کے ہاں بھی سیرت طیّبہ سے قوت حاصل کرنے کارجحان موجود ہے ۔وہ اِس قوت سے زمانے کو تسخیر کرنے کاخواب دیکھتے ہیں گویا وہ یہ بات جانتے ہیں کہ مسلمان کی شخصیت کوسیرت اطہر پرعمل کرکے ہی ایک مسخر کرنے والی قوت حاصل ہوسکتی ہے :

اسوۂ شاہِ دیں کا ہو دل پہ طلوع آفتاب

تاکہ شفق ٹہر سکے زیست کی شام کے لیے

کبھی اے کاش یہ نکتہ مسلماں بھی سمجھ جائیں

نبی کے عشق کی توہین ہے یہ چاک دامانی

آساں بہر زماں ہوپھر پیروی نبیؐ کی

پھر بے مثال ٹہرے امت یہ بانکپن میں

سماجی حوالوں کے بغیر کسی شاعر ی کو سمجھنا ایک دشوار امرہے ۔عزیز صاحب کے ہاں عشقِ رسول ؐ کی لازوال دولت توموجود ہے ہی ساتھ ہی ساتھ وہ عالمی سیاسی منظر نامہ پربھی گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ا ن کی نظر کلیسا سے اٹھنے والی ان عالمی تحریکوں پربھی ہے جو آنے والے دورمیں مسلمانوں کی مذہبی اور تہذیبی شناخت کوختم کرنے کے درپے ہوگی ۔نعتیہ نقاد کی حیثیت سے وہ بین السطور کے طور پران معاملات کی طرف اشارہ کرتے رہتے ہیں ۔اپنے ایک مقالے ’’نعت کے علمی وادبی افق‘‘ میں یوں رقمطراز ہیں:

’’جس طرح ادب کی تمام اصناف میں عہد بہ عہد تبدیلیاں عمل میں آتی رہتی ہیں جو کچھ شعوری اورکچھ غیرشعوری ہوتی ہیں اِسی طرح ہرعہد اپنے ساتھ ادب تخلیق کرنے اور ادب پڑھنے کا خاص شعور بھی لاتا ہے اور یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔‘‘

(اردو نعت اور جدید اسالیب صفحہ ۱۴)

گویا ہر عہد اپنے موضوعات کاانتخاب خود کرتا ہے چاہے صنفِ سخن کوئی سی بھی ہو۔نعت کے شاعر کوایک خاص طرح کا فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ اُس کے پاس محبتِ رسول کاسہارا موجود ہوتا ہے لہٰذا نفسیاتی طور پروہ خودکو اکیلا محسوس نہیں کرتا اوراپنے تمام مسائل کاحل سیرتِ رسول Vمیں تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔دور جتنا پرآشوب ہوگا نعتیہ شاعری اتنی زیادہ طاقت ور ہوگی ۔اس کی مثال پچھلے صفحات میں حالیؔ کے حوالے سے دی جاچکی ہے ۔عزیز احسنؔ کے ہاں بھی نبی Vکی ذاتِ بابرکات کی صورت ایک ایسا سہارا موجود ہے جوانہیں ہر مشکل گھڑی میں امید کی کرن دکھاتا ہے ۔عزیزاحسن کے نعتیہ مجموعے ’’کرم ونجات کاسلسلہ ‘‘ سے چند اشعار دیکھیں ۔سیرت اطہر سے محبت کاایک نیا رنگ نظرآئے گا۔

چمک جب تک رہی اعمال میں اُس پاک سیرت کی

یہ امت مستحق بھی تھی زمانے بھرمیں عزت کی

اس ایک نام کی خوشبو سے جسم وجاں مہکے

اُس ایک رنگ کی نسبت سے دِل گلاب ہوا

اسوۂ ختمِ رسل جب نظر انداز ہوا

اہلِ اسلام کے اِدبار کاآغاز ہوا

آپؐ آئے توزمانے میں اجالے پھیلے

علم و حکمت کے نئے دور کاآغاز ہوا

میری ناقص رائے میں نعت کی صنف کی ناز کی اور خوبصورتی اِس بات کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ اِس پر تنقید کے لیے نفسیاتی اور سماجیاتی حوالوں سے بات کی جائے ۔اِس پر گفتگو کرنے کے لیے جمالیات کوسہارا بنانا بہتر ہوتا ہے ۔عزیزاحسن کی نعتیہ شاعری پر گفتگو میں نفسیاتی اور سماجی حوالے کوسامنے رکھتے ہوئے گفتگو میں ایک خاص نکتہ پنہاں تھا ۔عزیزاحسن کے ہاں اپنے عصر سے رشتہ اتنا گہرا اور مضبو ط ہے کہ اِس رشتے نے ان کی شخصیت میں خاص طرح کی مثبت نفسیاتی تبدیلیاں پیدا کی ہیں ۔گویا عزیز صاحب کی نعتیہ شاعری کو سمجھنے کے لیے عصرِ حاضر کی روح کو سمجھنا ضروری ہے اور ساتھ ہی ساتھ خارجی تبدیلیوں کے داخلی تبدیلیوں پراثر کاادراک رکھنا بھی ضروری ہے ۔نعتیہ شاعری میں انسانی جمالیات کا جتنا اثر موجود ہے شاید ہی کسی اورصنف میں موجود ہو۔انسان کی باطنی خوبصورتی اُسے اُس ؐ پاکیزہ شخصیت کے محاسن کے بیان کے ذریعے اپنے کلام کوسنوارنے پراکساتی ہے گویا اندرسے صاف وشفاف شخصیت ہی تعریف مصطفی ؐ کاحق اداکرسکتی ہے ۔عزیز احسن کے ہاں بھی جمالیات سے محبت کااظہار موجود ہے ۔

اگر ہم جمالیاتی تنقید کے حوالے سے بات کریں توجمالیاتی تنقید کسی بھی فن پارے میں حسن اور جمال کی اقدار سے بحث کرتی ہے اور نعتیہ شاعری میں تو بات ہی سراپا حسن کی ہوتی ہے ۔جمالِ مصطفی ؐ کابیان ہوتا ہے اور سیرت اطہر کاذکر ہوتا ہے ۔ادب میں حسن کی تلاش ایک لحاظ سے ذاتی عمل بن جاتا ہے ۔حُسن کسی کوایک چیز میں نظرآسکتا ہے اورکسی دوسرے شخص کے ہاں وہی چیز اتنی حسین وجمیل نہیں ہوتی لیکن نعت کے دبستان میں جس شخصیت کی بات کی جاتی ہے وہ سراپا حسن ہیں۔نعت لکھنے والا ہر شاعر نبی کریم Vکی شان اِس آیت کی روشنی میں بیان کرتا ہے ۔

وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لَّلْعَالَمِیْنَ

(ترجمہ) :اور ہم نے آپ ؐ کوتمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔(الانبیآء ۲۱،آیت۱۰۷)

سراپا رحمت کی تعریف بھی عقیدت کی انتہا پر جاکر ہونی چاہیے ۔عزیز احسن کے ہاں بھی عقیدت کی اِسی انتہا پر جاکر حُسنِ مصطفی ؐ کے مختلف گوشوں اور پہلوؤں کی تلاش کاعمل نمایاں نظرآتا ہے ۔ اس سے پہلے کہ عزیز احسن کی نعتیہ شاعری سے جمالیاتی پہلوؤں کوتلاش کرنے کی کوشش کی جائے ہم جمالیات کی اصطلاح کو نیاز فتح پوری کے الفاظ میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:

’’جب میں کسی شاعر کے کلام پر انتقادی نگاہ ڈالتا ہوں تواس سے بحث نہیں کرتا کہ اُس کے جذبات کیسے ہیں بلکہ یہ کہ ان کے ظاہر کرنے میں کیااسلوب اختیار کیا ۔وہ ذہنِ سامع تک پہنچنے میں کامیاب ہوا یا نہیں ۔بیان خواہ حُسن وعشق کاہویا نہر کی پن چکی کااس سے غرض نہیں دیکھنے کی چیز صرف یہ ہے کہ شاعر جوکچھ کہنا چاہتا ہے وہ واقعی الفاظ سے اداہو ا یا نہیں ۔‘‘ (انتقادیات جلداول ،صفحہ ۲۳)

گویا شعر گوئی میں یہ دیکھنا کہ کیسے کہاگیا ہے ؟ جمالیاتی تنقید کی بنیاد ہے لیکن نعتیہ تنقید میں جتنی اہمیت کیسے کہا گیا ہے ؟ کی ہے اتنی ہی اہمیت کیا کہا گیا ہے؟ کی بھی ہے ۔حضورؐ کی شان کوکم کرکے بیان کرنا بھی گناہ ہے اور اُس شان کو بڑھا کر خدا کے مرتبے تک پہنچا دینا بھی یقیناًگناہ میں شامل ہوگا ۔

عزیزاحسن کے ہاں یہ رویہ بھی موجود ہے کہ وہ شعر کہتے ہوئے اس بات کاخیال رکھتے ہیں کہ شاعری کے فن کاخون نہ ہو اوراس بات کابھی خیال رکھتے ہیں کہ محبت اور جذبات کی دنیا میں احتیاط کادامن ہاتھ سے نہ چھوٹ جائے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں محبت کی گرمی بھی موجود ہے اور شاعرانہ محاسن بھی موجود ہیں ۔

میرے ہرشعر میں ہومدحِ رسول اکرمؐ

ہرعمل میرا مری بات کی توثیق کرے

وحشتیں تہذیب کے سانچے میں یکسر ڈھل گئیں

یوں رسولؐ اللہ نے اِس قوم کی تنظیم کی

اپنے ایک نعتیہ مضمون ’’نعت کے علمی وادبی افق‘‘میں لکھتے ہیں:

’’پھر یہ کیوں کر ممکن ہے کہ اسلامی تعلیمات سے کما حقہ‘ آگاہی حاصل کیے بغیر اور مقامِ رسالت اور منصب ومقصدِ نبوت اور نبی کریم ؐ کی بعثت کاادراک حاصل کیے بغیر کوئی شاعر غلطیوں سے پاک ایسی نعت لکھ سکے جس میں حضور ؐ سے براہِ راست مخاطبہ ہو‘‘

(اردو نعت اور جدید اسالیب صفحہ ۱۷)

منصب رسالت اور مقصد نبوت کو سمجھنا ہی عمدہ نعتیہ شاعری کا بنیادی جزو ہے ۔عزیز احسن نعت کوعبادت کے درجے پر رکھ کر مشق سخن کرتے ہیں اور اسی باعث وہ قرآن اوراحادیث کواپنی نعت میں لفظوں کی شکل دیتے ہیں۔شاید یہی احتیاط ہے جوانہیں نعت میں فکری طور پر کسی نئے تجربے کی طرف نہیں جانے دیتی اور وہ کسی حد تک روایتی شاعر ہیں ۔دراصل انہوں نے نعت کے میدان میں اپنے لیے کچھ حدود مقرر کی ہیں اوراِن حدود کووہ کبھی پار کرنے کی کوشش نہیں کرتے لہٰذا ان کے ہاں فکری اور فنی ہردوسطحوں پر موضوعات کے چناؤ اور زبان وبیان کے معاملے میں احتیاط کی روش نظر آتی ہے ۔

دعا کوبھیک مل جائے اثر کی

ملے توفیق طیبہ کے سفر کی

الفتِ شاہِ دوسرا مقصدِ زندگی بنی

تب یہ حیاتِ بے ثمر خیرکی زندگی ہوئی

اِک نظرآقا مری جانب کہ میرے زخم بھی

آپ کی بس اک نظر سے مندمل ہوجائیں گے

اسوۂ ختم الرسل سامنے رکھیں اگر

کشمکشِ زیست میں، مات کاامکاں نہیں

ایماں کے ساتھ جس نے عمل سے کیا گریز

اُس نے تواپنی آپ ہی مٹی خراب کی

یانبی آپ کے اوصاف سے دوری کے سبب

ہم جہاں بھر کی فقط خاک ہی اب چھانتے ہیں

زبان وبیان کے اعتبار سے حد درجہ روایتی ہونے کے باوجود انہوں نے زبان کی شستگی اور لفظوں کے دروبست کاخیال رکھا ہے ۔ان کے ہاں سرِ خلدِمدینہ ،ترویجِ پیام شہ ابرار ،شہپر توفیق،شہرِ ابیات ،پیشِ طاغوتِ زماں ،اتباعِ شاہ دیں،سحابِ لطف ،جیسی خوبصورت تراکیب نظرآتی ہیں جو نعت کو مرصع کرتی ہیں۔عزیزاحسن فکرِ اقبال سے متاثر ہیں ۔اُن کے ہاں تحرک کا فلسفہ اقبال سے اخذ کردہ ہے ۔عمل کو وہ بھی اقبال کی طرح انسان کی سب سے بڑی قوت قرار دیتے ہیں۔عشقِ رسولؐ کو قوت بنا کرعمل اور مسلسل جدوجہد ہی ان کی نعتیہ شاعری کی بنیاد ہے ۔اقبال ان کے پسندیدہ شاعر ہیں جس کا انداز ہ اسی بات سے ہوتا ہے کہ وہ بعض اوقات ڈکشن بھی اقبال سے لیتے ہیں ۔مرغِ چمن ،تیرہ انجمن ،عقابِ زیست جیسی تراکیب ان کی فکر اقبال سے دلچسپی کوظاہر کرتی ہیں :

عزیز نعتِ نبیؐ کے طفیل کاش کبھی

عقابِ زیست کی اونچی اڑان ہوجائے

کسی بھی صنفِ سخن کے لیے نئے تجربات تازہ خون کی طرح ہوتے ہیں۔یہ نئے تجربات اُس صنف کے ارتقائی عمل کو تیز کرتے ہیں اور صِنف ایک نئی قوت حاصل کرلیتی ہے ۔تاریخ ادب شاہد ہے کہ بادشا ہِ وقت کااستاد بھی اگر نئے راستوں پر قدم رکھنے سے کترائے توتاریخ اُسے حرفِ غلط کی طرح مٹادیتی ہے اور فکر اور فلسفے کے نئے امکانات کی تلاش کرنے والوں کو زمانے پر غالب کردیتی ہے ۔اُردو نعت کی صِنف ابھی ارتقائی مراحل میں ہے ۔اسے ا بھی نئے اور تازہ خون کی ضرورت ہے ۔فکر کے نئے دروا کرنے کا حوصلہ رکھنے والوں کو آنے والا دور یقیناًاونچا مقام دے گا ۔احتیاط نعت کے میدان میں ضروری ہے لیکن نئے تجربات کی راہ نہ بند ہوجائے ۔عزیز صاحب کی نعتیہ شاعری پڑھ کریہ احساس شدید ہوا ہے کہ نعت کے ذریعے فکر انسانی کے نئے دروا کیے جاسکتے ہیں بس ذرا سی تخلیقی اُپچ اوربہت سارے مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے ہاں اپنے اندر کے نقاّد کو ہمیشہ زندہ رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اقبال نے کہا تھا:

ع ذرا نم ہوتو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

میں عزیزاحسن کوان کے تازہ نعتیہ مجموعے ’’شہپر توفیق‘‘کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اوراِس بات کو کہنے میں فخر محسوس کررہا ہوں کہ میں نے ’’شہپرِ توفیق‘‘ سے بہت کچھ سیکھا ۔

(نوٹ: یہ تحریر ۱۳؍مئی ۲۰۰۹ء ؁ کی ہے)

کتابیات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱) مقدمہ شعروشاعری ،مولانا الطاف حسین حالی ؔ ،تاج بک ڈپو لاہور سن ندارد

۲) شہپر توفیق،عزیزاحسن ،نعت ریسرچ سنٹر کراچی ،جنوری ۲۰۰۹ء

۳) دیوان غالب ،مرزا اسداللہ خان غالب ؔ خزینۂ علم وادب اردو بازار لاہور باراول مارچ ۲۰۰۱

۴) مکالمہ نما،ڈاکٹر راشد حمید،فروغ ادب اکادمی گوجر نوالہ باراول ۱۹۹۹ء

۵) خوابوں میں سنہری جالی ہے ،صبیح رحمانی ،ممتاز پبلشرز ۲۰ ۔نو شین سنٹر اردو بازار کراچی ستمبر ۱۹۹۷ء

۶) اردو نعت اور جدید اسالیب ،عزیزاحسن ،فضلی سنز (پرائیوٹ )لمیٹڈاردو بازار کراچی دسمبر ۱۹۹۸ء

۷) نعت رنگ (مُجلّہ ) ،مُرتّبہ صبیح رحمانی ،نعت ریسرچ سنٹر دسمبر ۲۰۰۶ء

۸) تذکرہ نعت گویانِ راولپنڈی واسلام آباد،تحقیق وترتیب قمر رعینی ؔ انجم پبلی کیشنز کمال آباد نمبر۳ راولپنڈی اگست ۲۰۰۳ء

۹) کاغذ کی راکھ ،جنید آزرؔ ،بیلا پبلیکشنز اسلام آباد ۱۹۹۸ء

۱۰) اصولِ تعارف وتنقید ،صفدر علی ،عبداللہ برادرز اردو بازار لاہور سن ندارد

۱۱) میر وغالب کی شاعری کاخصوصی مطالعہ ،پروفیسر محمد اکرام خالد عبداللہ برادرز اردو بازار لاہور سن ندارد

۱۲) ایلیٹ کے مضامین ،ڈاکٹر جمیل جالبی ،سنگ میل پبلیکشنز لاہور،۲۰۰۶ء

۱۳) تنقیدی دبستان ،ڈاکٹر سلیم اختر ،سنگ میل پبلیکشنز لاہور ،۱۹۹۷ء

۱۴) اردو ادب بیسویں صدی میں ،پروفیسر خالد ندیم ،عبداللہ برادرز اردو بازار لاہور سن ندارد

۱۵) کرم ونجات کا سلسلہ ،عزیز احسن ؔ ، اقلیم نعت سیکٹر ۱۱۔اے نارتھ کراچی ۷۵۸۵۰ ،۲۰۰۵ء

۱۶) اشاراتِ تنقید ،ڈاکٹر سید عبداللہ مقتدر ہ قومی زبان اسلام آباد ۱۹۸۶ء