طیبہ کا سفر شکر ہے درپیش ہوا ہے ۔ مشاہد رضوی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

ANL Mushahid Razvi.jpg

مشاہد رضوی
مضامین
شاعری


شاعر: مشاہد رضوی

نعتِ رسولِ آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

عمرہ و زیارتِ روضۂ رسول ﷺ کے مقدس سفر پر جاتے ہوئے

طیبہ کا سفر شکر ہے درپیش ہوا ہے

خوشیوں سے مسرت سے کنول دل کا کھلا ہے

بے تابیِ دل آج سکوں پائے گی میری

ہے اُن کا کرم اِذنِ سفر مجھ کو ملا ہے

مٹ جائے گی اک پل میں سیاہی مرے دل کی

جاتا ہوں جہاں مرکزِ انوار و ضیا ہے

بے نور نگاہوں کو بھی انوار ملے گا

طیبہ ہے کہ اک مرکزِ انوار و ضیاہے

دیکھوں گا بصد ناز و ادب جالی سنہری

صدقے مرے آقا کے کرم مجھ پہ کیا ہے

اب روضۂ جنت میں مری ہوں گی نمازیں

صد شکر کہ مجھ پر درِ جنت بھی کھلا ہے

وہ اُستنِ حنّانہ بھی آئے گا نظر میں 

ہجرِ شہِ طیبہ میں جو اشک بار ہوا ہے

جاؤں گا بقیع میں تو رہے گی یہی حسرت

پیوندِ زمیں ، مَیں جہاں ہوجاؤں یہ جا ہے

پائیں گے اماں جتنے بھی غم گیں ہیں دُکھی ہیں

لاریب ! ہر اک دکھ کی دوا خاکِ شفا ہے

پلکوں سے خوشا چوموں گا طیبہ کی زمیں کو

قدموں سے بھی چلنا تو وہاں ایک خطا ہے

ہو کر درِ سرکار سے جائیں گے حرم کو

کعبہ ہمیں سرکار کے صدقے میں ملا ہے

ہر سال مدینے میں بلانا ہمیں آقا

یوں آپ کے الطاف سے یہ دور ہی کیا ہے

میں سانس بھی لوں تیز تو یہ بے ادبی ہو

رہنا ہے خبردار کہ شمشیر کی جا ہے

محروم تو اغیار بھی جس در سے نہیں ہیں 

قسمت سے مُشاہدؔ بھی اُسی در کا گدا ہے

پچھلا کلام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اب تو ہر شام و سحر طیبہ ہی یاد آتا ہے

اگلا کلام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

درِ خیرالبشر ہے اور ہم ہیں