صہبا اختر

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 07:08، 14 جنوری 2017ء از 119.157.39.76 (تبادلۂ خیال) (نیا صفحہ: ===صہبا اختر== ملف:Sehba Akhtar.jpg صہبا اختر (انگریزی: Sehba Akhtar) (پیدائش: 30 ستمبر، 1931ء - وفات: 19 فروری، 1996ء)...)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search

=صہبا اختر

Sehba Akhtar.jpg


صہبا اختر (انگریزی: Sehba Akhtar) (پیدائش: 30 ستمبر، 1931ء - وفات: 19 فروری، 1996ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعر تھے۔

فہرست [غائب کریں]

1 حالات زندگی

2 ادبی خدمات

3 نمونہ کلام

4 اعزازات

5 تصانیف

6 وفات

7 حوالہ جات


حالات زندگی[ترمیم]


صہبا اختر 30 ستمبر، 1931ء کو جموں، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے[1][2]۔ ان کے والد منشی رحمت علی کا تعلق امرتسر سے تھا،وہ آغا حشر کاشمیری کے ہم عصر تھے ۔ صہبا اختر نے بریلی سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم

یونیورسٹی میں داخلہ لیا مگر اسی دوران پاکستان کا قیام عمل میں آگیا اور انہیں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان آنا پڑا۔ پاکستان آنے کے بعد صہبا اختر نے بہت نامساعد حالات میں زندگی بسر کی[1]۔ پھر انہوں نے محکمہ خوراک میں بطور انسپکٹر ملازمت

اختیار کی اور ترقی کرکے راشننگ کنٹرولر کے عہدے تک پہنچ کر ریٹائر ہوئے۔ [3]

ادبی خدمات[ترمیم]

صہبا اختر کو شعر و سخن کا ذوق زمانہ طالب علمی سے ہی تھا۔ وہ ایک زود گو شاعر تھے۔ انہوں نے نظم، قطعہ، گیت ، ملی نغمے، دوہے اور غزل ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی[1]۔ صہبا اختر کی شاعری میں جس طرح بڑی جان تھی بڑا دم خم تھا اسی

طرح ان کے پڑھنے کے انداز میں بھی بڑی گھن گرج تھی وہ کراچی کے مشاعروں میں اپنا ایک منفرد انداز رکھتے تھے ان کی شاعری میں نظیر اکبر آبادی، جوش ملیح آبادی اور اختر شیرانی کا رنگ جھلکتا تھا۔ وہ غزل کے ساتھ ساتھ نظم کے بھی بڑے

عمدہ شاعر تھے ، ریڈیو پاکستان کے لیے بڑی پابندی سے لکھتے تھے۔ صہبا اختر نے فلم کے لیے بھی لازوال گیت لکھے۔ ان کے گیتوں میں اک اڑن کھٹولا آئے گاایک لال پری کو لائے گا، دنیا جانے میرے وطن کی شان، چندا تجھ سے ملتا جلتا اور بھی

تھا اک چاند، پریتم آن ملو، تنہا تھی اور ہمیشہ سے تنہا ہے زندگی اور چاند کی سیج پہ تاروں سے سجا کر سہرا بہت مشہور ہوئے[4]۔ان کے مجموعہ ہائے کلام میں سرکشیدہ، اقرا، سمندر اور مشعل کے نام شامل ہیں۔[1]


نمونہ کلام[ترمیم]


غزل

عہدِ حاضِر پر، مِرے افکار کا سایہ رہا! بِجلیاں چمکیں بہت، میں ابر تھا چھایا رہا

وہ خرابہ ہُوں، کہ جس پر روشنی رقصاں رہی وہ تہی دامن ہُوں جس کا فکر سرمایہ رہا

کیا حرِیفانہ گزُاری ہے حیاتِ نغمہ کار میں زمانے کا، زمانہ میرا ٹُھکرایا رہا

ایک شب، اِک غیرتِ خورشید سے مِلنے کے بعد اک اُجالا مُدّتوں آنکھوں میں لہرایا رہا

تلخیوں نے زِیست کی، کیا کیا نہ سمجھایا مگر عمر بھر صہبا تری آنکھوں کا بہکایا رہا


شعر

یہ کون دل کے اندھیروں سے شام ہوتے ہی چراغ لے کے گزرتا دکھائی دیتا ہے

شعر

ثبوت مانگ رہے ہیں مری تباہی کا مجھے تباہ کیا جن کی کج ادائی نے

شعر

صہبا بہت سیاہ سہی یہ شب ملال گونجے گی پھر سحر کی اذان جاگتے رہو

شعر

مجھے بھلانے والے تجھے بھی چین نہ آئے تو بھی جاگے، تو بھی تڑپے، تو بھی نیر بہائے

بادل گرجے بجلی چمکی، تڑپ تڑپ رہ جائے پت جھڑ آئے چھائے اداسی، من میں آگ لگائے


اعزازات[ترمیم]


حکومت پاکستان نے صہبا اختر کو ان کی وفات کے بعد ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔ [2] صہبا اختر کی ادبی خدمات کے اعتراف میں گلشن اقبال کراچی میں سڑک کا نام ان کے نام پر رکھا گیا

ہے۔


تصانیف[ترمیم]


1977ء - سرکشیدہ

1981ء - اقرا

1984ء - سمندر

1995ء - مشعل


وفات[ترمیم]


صہبا اختر 19 فروری، 1996ء کو کراچی، پاکستان میں حرکت قلب بند ہونے سبب انتقال کرگئے اور گلشن اقبال کے قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔[1][2]


حوالہ جات[ترمیم]

^ 1.0 1.1 1.2 1.3 1.4 صہبا اختر ، پاکستانی کنیکشنز، برمنگھم برطانیہ

^ 2.0 2.1 2.2 ص 776، پاکستان کرونیکل، عقیل عباس جعفری، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء

اوپر جائیں ↑ صہبا اختر تعارف، ریختہ ویب اردو، بھارت

اوپر جائیں ↑ صہبا اختر شاعری کا سمندر تھے، یونس ہمدم، ایکسپریس نیوز، ہفتہ 5 ستمبر 2015ء