آپ «صنائع و بدائع کا تقاضۂ ترویج اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضاؔ فاضل بریلوی کی شعری عظمت۔ ڈاکٹر سید شمیم گوہر مصباحی» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 1: سطر 1:
[[ملف: Dabastan_e_naat.jpg | دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2]]
[[ملف: Dabastan_e_naat.jpg ]]
 
{{ ٹکر 1 }}
{{ ٹکر 1 }}
[[شمیم گوہرؔ | ڈاکٹر سید شمیم گوہر ؔ مصباحی ( الہٰ آباد )]]


مطبوعہ: [[ دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2]]
{{صنائع و بدائع کا تقاضۂ ترویج اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضاؔ فاضل بریلوی کی شعری عظمت}}
 
مضمون نگار: [[شمیم گوہرؔ | ڈاکٹر سید شمیم گوہر ؔ مصباحی ( الہٰ آباد )]]
 
=== صنائع و بدائع کا تقاضۂ ترویج اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضاؔ فاضل بریلوی کی شعری عظمت ===


شعر و شاعری دنیا کا محبوب ترین اور پسندیدہ مشغلہ رہا ہے، دنیا کے گوشے گوشے میں اس کے چراغ روشن ہیں۔ یہ قلب و نظر کی ترجمان اور سماج و معاشرہ کی آواز ہے، جذبات واحساسات کی خوشبوؤ ںمیں ڈوبا ہوا ایک شعر اگر دل کی دھڑکن تیز کر سکتا ہے تو پرانے زخموں کو کرید بھی سکتا ہے، پرانی یادوں کو تازہ کر سکتا ہے تو آنکھوں سے آنسو بھی ٹپکا سکتا ہے، شاعری کے لطیف و دلکش سحر آگیں لہجے نے کس کو بیتاب نہیں کیا۔ یہ باد صبا کی پرکیف اداؤں پر مرنا جانتی ہے تو خار مغیلاں کی نوک کو بوسہ دینا بھی جانتی ہے، یہ زلف پیچاں اور پائے ناز پر وفور شوق کی دنیا لٹا دینا جانتی ہے تو ریگزاروں کے تپتے ہوئے سناٹوں میں گریباں بھی چاک کرنا جانتی ہے۔ رازو نیاز کے شعبوں کو ٹٹول بھی سکتی ہے تو حقائق و معارف کی میٹھی میٹھی چھاؤں میں پناہ لینا بھی جانتی ہے۔ یہ شعر و شاعری بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں حاضر ہوتی ہے تو مدح و ثنا اور حسن و جمال کا سمندر بہا دیتی ہے، میدان کربلا میں داخل ہوتی ہے تو کلیجہ چھلنی کرکے خون کے آنسو رلا دیتی ہے، محفل سماع میں قدم رکھ دیتی ہے تو وجد و کیف اور سرور و بے خودی کی آغوش میں جکڑ لیتی ہے۔ شاعری، اتحاد و یکجہتی اور انقلاب و حب الوطنی کے آداب سکھاتی ہے، میدان کارزار میں جاں بازی و فدا کاری کے حوصلے عطا کرتی ہے،بیواؤں، یتیموں اور مظلوموں کی فریاد پر تعاون و سرپرستی کا جذبہ اجاگر کرتی ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ شعری جذبات و احوال سے خالی نہیں، اس کے نرم و لطیف لہجے اور شیریں اسلوب نے بڑے بڑے بادشاہوں اور کج کلاہوں کا سر جھکانے پر مجبور کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بیشمار اوصاف و محاسن کے آئینے میں شاعری کی تصوراتی و تخیلاتی تجلی اور فکری و فنی بالید گی اس کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتا ہے، اس اثاثے کے تحفظ و سلامتی میں صنائع و بدائع کی وسعتوں کا خصوصی تعاون رہتا ہے، لازم و ملزوم کی مانند کوئی بھی شاعری صنعتی تقاضوں سے الگ نہیں رہ سکتی۔ صنعتیں کبھی دانستہ طور پر وابستہ کی جاتی ہیں کبھی غیر دانستہ طور پر خود بخود وابستہ ہو جاتی ہیں تاہم ایسی بیشمارصنعتیں ہیں جو غیر دانستہ طور پرکبھی ظاہر نہیں ہو سکتیں، شرائط و اصول نبھانے کے لئے توجہ درکار ہوتی ہے مثلاََ مندرجہ ذیل صنعتیں اب اردو شاعری میں نایاب ہو کر رہ گئیں۔  
شعر و شاعری دنیا کا محبوب ترین اور پسندیدہ مشغلہ رہا ہے، دنیا کے گوشے گوشے میں اس کے چراغ روشن ہیں۔ یہ قلب و نظر کی ترجمان اور سماج و معاشرہ کی آواز ہے، جذبات واحساسات کی خوشبوؤ ںمیں ڈوبا ہوا ایک شعر اگر دل کی دھڑکن تیز کر سکتا ہے تو پرانے زخموں کو کرید بھی سکتا ہے، پرانی یادوں کو تازہ کر سکتا ہے تو آنکھوں سے آنسو بھی ٹپکا سکتا ہے، شاعری کے لطیف و دلکش سحر آگیں لہجے نے کس کو بیتاب نہیں کیا۔ یہ باد صبا کی پرکیف اداؤں پر مرنا جانتی ہے تو خار مغیلاں کی نوک کو بوسہ دینا بھی جانتی ہے، یہ زلف پیچاں اور پائے ناز پر وفور شوق کی دنیا لٹا دینا جانتی ہے تو ریگزاروں کے تپتے ہوئے سناٹوں میں گریباں بھی چاک کرنا جانتی ہے۔ رازو نیاز کے شعبوں کو ٹٹول بھی سکتی ہے تو حقائق و معارف کی میٹھی میٹھی چھاؤں میں پناہ لینا بھی جانتی ہے۔ یہ شعر و شاعری بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں حاضر ہوتی ہے تو مدح و ثنا اور حسن و جمال کا سمندر بہا دیتی ہے، میدان کربلا میں داخل ہوتی ہے تو کلیجہ چھلنی کرکے خون کے آنسو رلا دیتی ہے، محفل سماع میں قدم رکھ دیتی ہے تو وجد و کیف اور سرور و بے خودی کی آغوش میں جکڑ لیتی ہے۔ شاعری، اتحاد و یکجہتی اور انقلاب و حب الوطنی کے آداب سکھاتی ہے، میدان کارزار میں جاں بازی و فدا کاری کے حوصلے عطا کرتی ہے،بیواؤں، یتیموں اور مظلوموں کی فریاد پر تعاون و سرپرستی کا جذبہ اجاگر کرتی ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ شعری جذبات و احوال سے خالی نہیں، اس کے نرم و لطیف لہجے اور شیریں اسلوب نے بڑے بڑے بادشاہوں اور کج کلاہوں کا سر جھکانے پر مجبور کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بیشمار اوصاف و محاسن کے آئینے میں شاعری کی تصوراتی و تخیلاتی تجلی اور فکری و فنی بالید گی اس کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتا ہے، اس اثاثے کے تحفظ و سلامتی میں صنائع و بدائع کی وسعتوں کا خصوصی تعاون رہتا ہے، لازم و ملزوم کی مانند کوئی بھی شاعری صنعتی تقاضوں سے الگ نہیں رہ سکتی۔ صنعتیں کبھی دانستہ طور پر وابستہ کی جاتی ہیں کبھی غیر دانستہ طور پر خود بخود وابستہ ہو جاتی ہیں تاہم ایسی بیشمارصنعتیں ہیں جو غیر دانستہ طور پرکبھی ظاہر نہیں ہو سکتیں، شرائط و اصول نبھانے کے لئے توجہ درکار ہوتی ہے مثلاََ مندرجہ ذیل صنعتیں اب اردو شاعری میں نایاب ہو کر رہ گئیں۔  
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)