صنائع و بدائع کا تقاضۂ ترویج اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضاؔ فاضل بریلوی کی شعری عظمت۔ ڈاکٹر سید شمیم گوہر مصباحی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

مضمون نگار: ڈاکٹر سید شمیم گوہر ؔ مصباحی ( الہٰ آباد )

صنائع و بدائع کا تقاضۂ ترویج اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضاؔ فاضل بریلوی کی شعری عظمت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شعر و شاعری دنیا کا محبوب ترین اور پسندیدہ مشغلہ رہا ہے، دنیا کے گوشے گوشے میں اس کے چراغ روشن ہیں۔ یہ قلب و نظر کی ترجمان اور سماج و معاشرہ کی آواز ہے، جذبات واحساسات کی خوشبوؤ ںمیں ڈوبا ہوا ایک شعر اگر دل کی دھڑکن تیز کر سکتا ہے تو پرانے زخموں کو کرید بھی سکتا ہے، پرانی یادوں کو تازہ کر سکتا ہے تو آنکھوں سے آنسو بھی ٹپکا سکتا ہے، شاعری کے لطیف و دلکش سحر آگیں لہجے نے کس کو بیتاب نہیں کیا۔ یہ باد صبا کی پرکیف اداؤں پر مرنا جانتی ہے تو خار مغیلاں کی نوک کو بوسہ دینا بھی جانتی ہے، یہ زلف پیچاں اور پائے ناز پر وفور شوق کی دنیا لٹا دینا جانتی ہے تو ریگزاروں کے تپتے ہوئے سناٹوں میں گریباں بھی چاک کرنا جانتی ہے۔ رازو نیاز کے شعبوں کو ٹٹول بھی سکتی ہے تو حقائق و معارف کی میٹھی میٹھی چھاؤں میں پناہ لینا بھی جانتی ہے۔ یہ شعر و شاعری بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں حاضر ہوتی ہے تو مدح و ثنا اور حسن و جمال کا سمندر بہا دیتی ہے، میدان کربلا میں داخل ہوتی ہے تو کلیجہ چھلنی کرکے خون کے آنسو رلا دیتی ہے، محفل سماع میں قدم رکھ دیتی ہے تو وجد و کیف اور سرور و بے خودی کی آغوش میں جکڑ لیتی ہے۔ شاعری، اتحاد و یکجہتی اور انقلاب و حب الوطنی کے آداب سکھاتی ہے، میدان کارزار میں جاں بازی و فدا کاری کے حوصلے عطا کرتی ہے،بیواؤں، یتیموں اور مظلوموں کی فریاد پر تعاون و سرپرستی کا جذبہ اجاگر کرتی ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ شعری جذبات و احوال سے خالی نہیں، اس کے نرم و لطیف لہجے اور شیریں اسلوب نے بڑے بڑے بادشاہوں اور کج کلاہوں کا سر جھکانے پر مجبور کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بیشمار اوصاف و محاسن کے آئینے میں شاعری کی تصوراتی و تخیلاتی تجلی اور فکری و فنی بالید گی اس کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتا ہے، اس اثاثے کے تحفظ و سلامتی میں صنائع و بدائع کی وسعتوں کا خصوصی تعاون رہتا ہے، لازم و ملزوم کی مانند کوئی بھی شاعری صنعتی تقاضوں سے الگ نہیں رہ سکتی۔ صنعتیں کبھی دانستہ طور پر وابستہ کی جاتی ہیں کبھی غیر دانستہ طور پر خود بخود وابستہ ہو جاتی ہیں تاہم ایسی بیشمارصنعتیں ہیں جو غیر دانستہ طور پرکبھی ظاہر نہیں ہو سکتیں، شرائط و اصول نبھانے کے لئے توجہ درکار ہوتی ہے مثلاََ مندرجہ ذیل صنعتیں اب اردو شاعری میں نایاب ہو کر رہ گئیں۔

صنعتِ منقوص!


ہم کیا کریں گے جی کر۔۔۔۔جی کر

گوہرؔ

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

اس صنعت کی خوبی یہ ہے کہ دوسرے ’’ جی کر ‘‘ کو مصرع میں شامل رکھا جائے یا نہ رکھا جائے دونوں صورتوں میں وزن برقرار رہتا ہے اس کے علاوہ دوسرے ’’ جی ‘‘ کو صنعتِ مستزاد کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔


تو عمر بھر خوشی کر

ہم کیا کریں گے جی کر۔۔۔جی کر

صنعتِ معرب !

یہ وہ دشوار وپیچیدہ صنعت ہے جس کے دونوں مصرعوں کے ہر حرف پر فتحہ ہو تو ضمہ و کسرہ نہ ہو یا ضمہ ہو تو فتحہ و کسرہ نہ ہو یا کسرہ ہو تو فتحہ و ضمہ نہ ہو۔


ایسا ہم پر غضب صنم مت کر

جان کر غیر پر کرم مت کر

گوہر ؔ


ہے کرم آپ کا سدا ہم پر

آستاں پر ہے خم ہمارا سر

گوہرؔ

ان دونوں اشعار کا کوئی بھی حرف ضمہ یا کسرہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوا۔


تم سبو ہو سرور تم ہو خپم

تم کو ڈھونڈھوں تو ہوش ہو گم سم

تم تو خوشبو ہو تم گل وسنبل

گوؔہر

مذکورہ مطلع و مصرع کے کسی بھی حرف پر فتحہ و کسرہ نہیں ہے۔


پھر مرے دل پہ گری بجلی سی

پھر ترے ہجر میں یہ چیز ملی

گوہر ؔ

اس مطلع کا کوئی بھی حرف فتحہ و کسرہ سے وابستہ نہیں ہے۔

صنعتِ غیر منقوطہ!


سارے درد و الم سے دور رہا

مدح سرور سے ہر سرور ملا

گوہرؔ

اس مطلع کے کسی بھی حرف پر کوئی نقطہ نہیں۔ صنعتِ غیرمنقوطہ ہونے کے باوجود یہ مطلع ’’تجنیسِ مرکب متشابہ ‘‘ سے بھی وابستہ ہو گیا کہ ’’ سُرور ‘‘ کا املا ایک جیسا ہے مگر بہ لحاظ وزن اور باعتبار حرکت معانی الگ الگ۔اسی صنعت کا دوسرا شعر ملاحظہ کریں۔


مدح ِ مولا سے دل مرا مہکے

ہر گھڑی دل الم سے دور رہے

دردِ دِل کو سکوں ملے مالک

دردِ دل کی دوا کہاں گم ہے

گوہرؔ

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

صنعتِ منقوطہ !


جشنِ تشبیبِ خُتن پیش شبِ بَث چُپ چُپ

جب شبِ جشن جچی پیش فتیقِ جنت

جشن تشبیب شب بہ پیش خُتن

گوہرؔ

ان تینوں مصرعوں کا ہر حرف منقوطہ ہے۔

صنعتِ محرف !


بعد مدت کے یہ صیاد نے ہم سے پوچھا

اب وہاں کون رَہا کون رِہا ہو بیٹھا

گوہرؔ

" رَہا اور رِہا ‘‘ کا املا اور وزن مساوی ہونے کے سبب محض حرکتِ ’ ر‘ کی بنیاد پر یہ صنعت واضح ہوئی۔

صنعتِ منقوطہ ! کا ایک ضابطہ یہ بھی ہے کہ جس کے ہر لفظ میں نقطہ ہو۔


پہونچائے مجھ کو منزلِ مقصودتک خدا

یا رب نہ بجھنے پائے کبھی شمع عشقِ شاہ

گوہرؔ

صنعت ِ نقاط ثلاثہ !


جس کے ہر لفظ میں تین نقطے پائے جائیں۔

نقشِ پا مثلِ شمع رخشندہ

آپ مشکل کشائے پاکیزہ

گوہرؔ

صنعتِ نقطہ ٔ واحدہ !

جس کے ہر لفظ میں صرف ایک نقطہ آیا ہو۔


غلبۂ شان اب کجا باقی

عظمت آن اب کجا باقی

گوہرؔ

صنعتِ خَیفا!

جس کا ایک حرف منقوطہ ہو دوسرا حرف غیر منقوطہ۔


نہ ہے کوئی محبوب سرور سے بڑھ کر

خدا کی رضا ہے رضائے محمد

گوہر ؔ

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

صنعتِ خَیفا! کی ایک دوسری صورت یہ بھی ہے کہ جس کا ایک لفظ منقوطہ ہو دوسرا غیر منقوطہ۔


آپ کی خاطر درِ انوار ہر جانب کُھلا

ساری دنیا ہے تجلی سے مجلیٰ ہر طرف

گوہرؔ ؔ

صنعت فوق النقاط! جس میں ہر نقطہ اوپر ہو نیچے ایک نہ ہو۔


الٰہی کر دے عطا نعمتِ خضوع و خشوع

ہمارے ساتھ رہے لذتِ خضوع و خشوع

گوہرؔ

صنعتِ تحت النقاط! جس کے ہر لفظ کے نیچے نقطہ ہو اوپر ایک نہ ہو۔


چوٹ گہری لگی مرے دِل کو

یاد کیوں بار بار آئے یار

گوہر ؔ

صنعتِ الفیہ !

جس کے ہر لفظ میں الف استعمال کیا گیا ہو۔


مبتلائے ثنا آرائی زبان عالم

آمد شاہ کا چرچا یہاں چاروں جانب

گوہر ؔ

صنعتِ اتصال حروف! جس کے کسی بھی لفظ میں تنہا کوئی حرف نہ آیا ہو بلکہ لفظ کے حروف ایک دوسرے سے متصل ہوں خواہ ان کی تعداد کچھ بھی ہو۔


محبت بہت مجھ سے کرتے ہو لیکن

کبھی تم کو ملنے کی فرصت ملی ہے

گوہرؔ

ان چند مثالوں پر اکتفا کرتے ہوئے عرض یہ ہے کہ اس نوعیت کی صنعتوں کی ایک بڑی تعداد ہے جن میں سے ایک بھی متروک قرار نہ دئے جانے کے باوجود اپنی تبلیغ و تکرار سے محروم ہے۔غیر دانستہ طور پر بعض صنعتیں اشعار سے منسلک تو ہوتی رہتی ہیںمگر مندرجہ بالا صنعتیں غیر دانستہ طور پر بار بار قطعی نہیں جاری ہو سکتیں۔ شعرائے متقدمین ہوں یا متاخرین، اس نوعیت کی بیشتر صنعتوں سے ہمیشہ گریز کیا۔ بندش خیالی کو فوقیت دیتے ہوئے نزاکت صنائع کا صرف اس لئے اہتمام کرنے کا مزاج نہیں رہا کہ یہ عمل متعلقہ فکری ڈھانچوں کو متاثر نہ کر سکے ہر تخیل کو مشکل صنعتوں سے بے نیاز رکھنا اچھی علامت نہیں، صنعتیں، خیال و فکر کا راستہ نہیں روکتیں بلکہ اظہار و استعمال پر عظمت شعری کا ثبوت چاہتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر شعر ایسی مشکل صنعتوں سے وابستہ رہے، ضروری یہ ہے کہ دو چار کلام کے درمیان بھی کسی ایک کا استعمال جاری رہے تو ماتم کرنے کا سلسلہ منقطع ہو جائے، فکر و خیال اور صنائع و بدائع کی روشنی میں امام احمد رضا خان کی نعتیہ شاعری دنیائے شعر و ادب میں آبرو بن کر چمک رہی ہے۔ دو مخصوص صنعتوں کی ایجاد نے مزید تقویت پہنچائی ہے۔ اس ہیئتی تجربے کو ’’قصیدہ درودیہ‘‘ میں ظاہر کرتے ہوئے ہرمصرع اولیٰ کے آخری حرف کو حروف تہجی کی ترتیب کے ساتھ پیش کیا جسے ’’صنعت تہجی‘‘ ہونے کا نمایاں فخر حاصل ہے نمونے کے طور پر چند اشعار ملاحظہ کریں۔


کعبے کے بدر الدجیٰ تم پہ کروڑوں درود

طیبہ کے شمس الضحیٰ تم پہ کروڑوں درود

ذات ہوئی انتخاب وصف ہوئے لا جواب

نام ہوا مصطفیٰ تم پہ کروڑوں درود

تم سے جہاں کی حیات تم سے جہاں کا ثبات

اصل سے ہے ظل بندھا تم پہ کروڑوں درود

تم ہو حفیظ و مغیث کیا وہ دشمن خبیث

تم ہو تو پھر خوف کیا تم پہ کروڑوں درود

وہ شب معراج راج وہ وصف محشر کا تاج

کوئی بھی ایسا ہوا تم پہ کروڑوں درود

اسی ترتیب سے ’’ے‘‘ تک مصرعے کہے گئے، چار مطلعوں کے بعد ’’ب‘‘ سے وابستہ ۲؍مصرعے، ’’ت‘‘ سے ۲؍ ’’ث‘‘ سے ۲؍’’ج‘‘ سے ۱؍’’ح‘‘ سے ۲؍ ’’خ‘‘ سے ۱؍’’د‘‘ سے ۱؍ ’’ذ‘‘ سے ۱؍’’ر‘‘ سے ۴؍ ’’ز‘‘ سے ۱؍ ’’س‘‘ سے ۱؍ ’’ش‘‘ سے ۱؍ ’’ص‘‘ سے ۱؍ ’’ض‘‘ سے ۱؍ ’’ط‘‘ سے ۱؍’’ظ‘‘ سے ۱؍ ’’ع‘‘ سے ۱؍ ’’غ‘‘ سے ۱؍ ’’ف‘‘ سے ۱؍’’ق‘‘ سے ۱؍ ’’ک‘‘ سے ۱؍’’ل‘‘ سے ۱؍ ’’م‘‘ سے ۷؍’’ن‘‘ سے ۷؍ ’’و‘‘ سے ۳؍ ’’ہ‘‘ سے ۲؍ ’’یائے معروفہ ‘‘ سے ۱؍ اور ’’یائے مجہول‘‘ سے ۳؍مصرعے وابستہ ہیں۔ حضرت رضا بریلوی کی اسی ہیئتی تقلید میں اس خاکسار نے بھی کلام کہنے کی سعادت حاصل کی ہے ملاحظہ فرمائیں۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659


ہے وقفِ عشق قلب و جگر اے شہہِ جہاں

اک بار ہم بھی دیکھ لیں دررائے شہہ جہاں

مغموم زندگی کو عطا کر رہ ِ ضیا

(الف)


دل میں ہے آرزوئے سفر اے شہہِ جہاں

بے کس کے حق میں کھول دے رحم و کرم کے باب

(ب )


پھر کون لے ہماری خبر اے شہہِ جہاں

کب تک ستائے گی یہ شب وحشتِ حیات

( ت)


حسنِ نجات کی ہو سحر اے شہہِ جہاں

ہم عاشقِ کتاب ہیں دیوانۂ حدیث

(ث)


روشن رہے یہ قلب و جگر اے شہہِ جہاں

ہے سر بلند تیرے ہی صدقے میں اپنی لاج

(ج)


قسمت ہو جیسے شمس و قمر اے شہہِ جہاں

اتنی کہاں مجال کریں کچھ بھی شرحِ مدح

( ح )


مل جائے حوصلہ جو اگر اے شہہِ جہاں

دل میں درختِ جرم کی بڑھنے لگی ہے شاخ

(خ)


للہ رحم کی ہو نظر اے شہہِ جہاں

جذبات خیر کی نہ حرارت کبھی ہو سرد

(د)


کرتے ہیں مدح شام و سحر اے شہ جہاں

حق کی مخالفت میں بناتا ہے وہ محاذ

(ذ)


سب خاک میں ملا دے یہ شر ارے شہہ جہاں

کرتا ہے التجا یہ ادب سے گناہ گار

( ر )


مقبول ہو دعائے سحر اے شہہِ جہاں

دریا دلی میں ہم بھی رہیں خوب سر فراز

(ز)


دامن میں بھر دے لعل و گہر اے شہہ جہاں

آقا خطا نواز سے کردے وفا شناس

(س)


اب ہو عطا دعا کو اثر اے شہہ جہاں

ہر دم گناہ و جرم کے سینے میں ہے خراش

(ش)


دل میں جلا دے شمع حزر اے شہہ جہاں

اللہ چشمِ بد سے بچائے ، ہے عرضِ خاص

( ص)


روشن رہے ہمارا یہ گھر اے شہہ جہاں

کرتے ہیں بارگاہ ِ رسالت میں ہم یہ عرض

(ض)


محشر کو کردے یوم ظفر اے شہہ جہاں

لکھا ہے ہم کو یار نے پھر آب زر سے خط

(ط)


کیسے کٹے گی شام و سحر اے شہہ جہاں

وابستگیٔ عشق کا ر ہتا ہے ہر لحاظ

(ظ)


اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

محتاج رحم ہے یہ بشر اے شہہ جہاں

توفیق دے کہ عمر رہے زیرِ اتباع

(ع)


محتاج رحم ہے یہ بشر اے شہہ جہاں

دل میں ہمارے عشق کا روشن وہ کر چراغ

(غ)


ہو رشکِ مہر رشکِ قمر اے شہہ جہاں انبوہِ عاشقانِ رسالت ہر اک طرف

(ف)


ہر سو اسیرِ لطف نظر اے شہہ جہاں

ہے زیرِ پائے سرور ِ عالم ہر اک فلک

(ک)


رخ پر فدا ہیں شمس و قمر اے شہہ جہاں

مدح و ثنائے شاہ سے روشن ورق ورق

(ق)


تحریر غرقِ تاب دُرر اے شہہ جہاں

حورانِ خلد بھیک میں مانگیں ترا جمال

(ل)


ہیں وصف خواں یہ لعل و گہر اے شہہ جہاں

کر دے معاف جرم کو اے رحمت تمام

(م)


آنکھیں ہماری اشک سے تر اے شہہ جہاں

عزت کی بھیک مانگتے رہتے ہیں رات دن

(ن)


رسوا نہ ہونے پائیں مگر اے شہہ جہاں

محشر میں عشق ِ شاہ مدینہ کا ساتھ ہو

(و)


ہے بس دعایہ شام و سحر اے شہہ جہاں

عرشِ بریں کہ تحتِ ثریٰ کا تو بادشاہ

(ہ)


تو ہی تو تاج دار بشر اے شہہ جہاں

ہے دل کی آخری یہ تمنا ہمارے شاہ

(ہ)


چوکھٹ پہ رگڑیں اپنا یہ سر اے شہہ جہاں

کس عاشقِ رسول کی حسرت نہیں ہے یہ

(ہ)


طیبہ میں زندگی ہو بسر اے شہہ جہاں

کر دے نصیب کو تو عطا جوش ِ بندگی

(ی)


ہر دم ہمارے دل میں ہو ڈر اے شہہ جہاں

جس کو بھی چاہے ایک نظر میں نواز دے

(ے)


ہم بھی ہیں ملتجیٔ نظر اے شہہ جہاں

جو بھی ہمارا حال ہے سب سامنے تیرے

گوہر ؔ پہ رحم کی ہو نظر اے شہہ جہاں

(ے)

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

صنعتِ تہجی کی دوسری مثال ! مندرجہ ذیل کلام میں اگر چہ تمام حروف کااستعمال نہیں ہوا مگر ترتیب حروف کے قانون کے تحت چند ہی اشعار کی روشنی میں صنعتِ تہجی کی معرفت واضح ہو جاتی ہے لہٰذا اس صنعت کی تبلیغ میں دونوں صورتوں میں اپنے فکر و فن کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔


ہنس کر وہ روز ملتا ہے لیکن دعا نہ دے

میں اس سے روٹھ جاؤں یہ جذبہ خدا نہ دے

کتنا کشادہ گھر ترا کتنا سجا ہوا

(ا)


در پر مگر فقیر کوئی بھی صدا نہ دے

یاری تری ہمارے لئے بن گئی عذاب

(ب )


ہر دم یہی ہے خدشہ کہیں تو بھلا نہ دے

اخلاق میرے بکھرے ہیں چاروں طرف بہت

(ت)


یہ اور بات ہے کوئی مجھ کو صلہ نہ دے

سلطاں کبھی تھے تیرے پدر ذکر ہے عبث

(ث)


اب کر دعا کہ نام نشاں رب مٹا نہ دے

یکبارگی سبھی کا بدلنے لگا مزاج

(ج)


ڈر تا ہوں کل کا واقعہ کوئی بتا نہ دے

مکر و فریب سے کبھی ملتی نہیں فلاح

(ح)


ایسا نہ ہو کہ تجھ کو کوئی راستہ نہ دے

گستاخ زندگی تری زیرِ مزاج تلخ

(خ)


ہر عزم نو میں آگ یہ شہرت لگا نہ دے

بچھڑا ضرور ہم سے نہ کرتا وہ ترک ِ یاد

(د)


دشمن کو بھی خدا کبھی ایسی سزا نہ دے

آوارہ ہر سو پھرتا ہے قانون کا نفاذ

(ذ)

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659


گردن مری وفا کی وہ ظالم دبا نہ دے

اسی طرح امام رضا بریلوی نے ’’صنعت محجوب‘‘ میں چہار لسانی کلام کا ایک نادر نمونہ پیش کرکے دنیائے صنائع کو حیرت میں ڈال دیا، اس صنعت کے حق میں آج تک تقلیدی عمل اجاگر نہ ہو سکا۔ حضرت رضا سے پہلے اگر اس صنعت کا کوئی استعمال نہ کر سکا تو اس خاکسار سے پہلے ’’صنعت تہجی‘‘ اور ’’صنعت محجوب‘‘ کا کوئی تعارف بھی نہ کرا سکا۔’’تلمیع‘‘ اس صنعت کو کہتے ہیں جس میں باقاعدہ فقروں کے تحت ایک شعر میں دو زبانوں کا استعمال ہوا ہو، اس کی دو قسمیں ہیں ’’مکشوف اور محجوب‘‘مکشوف کا قاعدہ بھی تلمیع ہی جیسا ہے مگر محجوب کے ہر شعر میں دو سے زیادہ زبانوں کی شرط ہے، علم بدیع میں اسے صنعت ترصیع کہتے ہیں جو ’’سجع متوازی‘‘ کی ایک قسم ہے جس کی مثالیں بعض دیگر بحروں میں توعام ہیں مگر چار رکنوں یا چار مختلف لسانی فقروں کے پیش نظر اس بحر کی کہیں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ عربی و فارسی اور اردو وہندی زبانوں کے اشتراک سے حضرت رضا نے خاصۂ محجوب ثابت کرتے ہوئے ہر مصرع اولیٰ کے عربی و فارسی فقروں کو دو ہم وزن بحروں میںمنقسم کرکے نہ صرف دو قوافی کا اہتمام کیا بلکہ اردو و ہندی فقروں کے تحت بھی مصرع ثانی کے دونوں رکنوں کے اختتام پر قوافی کا بندو بست کیا گویا بنیادی بحر کی قید کے باوجود ہر شعر میں چار زبانوں کا متوازن قرینہ پیش کرتے ہوئے صنعت محجوب کی اصل تشکیل و ایجاد کی تکمیل فرما دی کلام مندرجہ ذیل ہے۔


لم یات نظیرک فی نظرِِ مثلِ تو نہ شد پیدا جانا

جگ راج کو تاج تورے سر سو ہے تجھ کو شہ دوسرا جانا

البحر علا والموج طغیٰ من بیکس و طوفاں ہوش ربا

منجدھار میں ہوں بگڑی ہے ہوا موری نیّا پار لگا جانا

یا شمس نظرت الیٰ لیلی چو بطیبہ رسی عرضے بکنی

توری جوت کی جھل جھل جگ میں رچی مری شب نے نہ دن ہونا جانا

لک بدر فی الوجہ الاجمل خط ہالہ ٔ مہ زلف ابر اجل

تورے چندن چندر پر کنڈل رحمت کی بھرن برسا جانا

انا فی عطش و سخاک اتم اے گیسوئے پاک اے ابرِ کرم

برسن ہارے رم جھم رم جھم دو بوند ادھر بھی گرا جانا

یا قافلتی زیدی اجلک رحمے بر حسرت تشنہ لبک

مورا جیرا لرجے درک درک طیبہ سے ابھی نہ سنا جانا

وا ھا لسو یعات ذھبت آں عہدِ حضور بارگہت

جب یاد آوت موہے کر نہ پرت در داد ہ مدینہ کا جانا

القلب شج و الھم شبحون دل زار چناں جاں زیر چنوں

پت اپنی بپت میں کا سے کہوں مرا کون ہے تیرے سوا جانا

الروح فداک فزد حرقا اک شعلہ دگر بر زن عشقا

مورا تن من دھن سب پھونک دیا یہ جان بھی پیارے جلا جانا

بس خامہ ٔ خام نوائے رضاؔ نہ یہ طرز مری نہ یہ رنگ مرا

ارشادِ احبا ناطق تھا ناچار اس راہ پڑا جانا

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

کوئی بھی شے ہمیشہ ایک مقام پر کبھی نہیں ٹھہری رہتی یا تو وہ اپنے مقام سے ہٹ کر بکھرنے لگتی ہے یا پھر ارتقائی مراحل سے گزرنے لگتی ہے۔صنعت محجوب کی بابت بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ حضرت امام رضا کی تقلید و تائید میں جب اس ناچیز خاکسار نے طبع آزمائی کا ارادہ کیا تو متعدد مسائل و معاملات بھی سامنے آتے گئے، یہ مسائل بعض اضافی رابطہ و قانون کا تقاضہ کرتے ہوئے کچھ جدید ساخت و تشکیل کے طلبگار ہونے لگے تاکہ ارتقائی کاوشوں کے تسلسل سے تمام بند دروازوں کو کھولنے میں آسانی ہو۔ جب سے یہ چہار لسانی کلام وجود میں آیا ہے آج تک کوئی بھی شاعر اس کی تقلید و طبع آزمائی کی راہ پر گامزن نہ ہو سکا، اگر طبع آزمائی کا سلسلہ جاری رہا ہوتا تو نہ صرف اس نایاب صنعت کا تبلیغی سفر آگے بڑھتا رہتا بلکہ متوقع ضابطہ و قانون کی مخفی صورت حال بھی واضح ہوتی جاتی۔ ضرورت شعری کے تحت امام رضا کے محض چند اشعار مختلف اضافی قرائن و ضوابط کا خود مطالبہ کرتے ہیں۔ سب سے اہم مسئلہ فقرۂ عربی و فارسی کے آخری لفظ و حرف کا ہے کہ عربی لفظ و حرف کے مقابلہ لفظ و حرف کا متبادل کیا ہونا چاہئے پھر اسی مناسبت سے ہندی ، اردو الفاظ و حروف اور صوتی ہم آہنگی کے تعین کا کیا طریقہ ہوگا اسی توضیعی پیش رفت کے آئینے میں تجزیہ و تحلیل کی ضرورت پیش آئی ، امام رضا فرماتے ہیں۔


یا شمس نظرت الیٰ لیلی … چو بطیبہ رسی عرضے بکنی

بحر و وزن کے پیش نظر عربی فقرہ کے آخری لفظ کو کسی بھی وقف و ساکن کی ضرورت نہ پیش آئی اسی مناسبت سے قافیہ ’’بکنی‘‘ کو ترتیب دیا گیا۔


الروح فداک فزد حرقا … یک شعلہ دگر برزن عشقا

مگر عربی لفظ ’’حرقاََ‘‘ کو ساکن کرتے ہوئے اسی سطح پر ’’عشقا‘‘ منتخب کیا گیا۔ اگر حرقاََ کی قِ تنوین بالفتح کو وقف و ساکن نہ بھی کیا تو بھی وزن پر کوئی فرق نہ پڑتا حرقاََ کو بحال رکھنے پر فارسی لفظ کیا ہوتا ایسے متبادل کی تلاش یا ایسے توضیعی عمل سے صنعت محجوب کی وابستگی ضروری ہے۔


لک بدر فی الوجہ الاجمل …خط ہالۂ مہ زلف ابر اجل

اس عربی فقرے میں ’’اجمل‘‘ کے لام مکسور کو ساکن کیا گیا اسی مطابقت سے فقرۂ فارسی کے آخر میں قافیہ ’’اجل‘‘ استعمال ہے ، اگر اجمل کے لام مکسور یا کسی اور حرف مکسور کو واضح کر دیا جائے تو فارسی حرف و لفظ کے بدل کا سکہ سامنے آ جاتا ہے۔ امام رضا بریلوی کے پورے محجوبی کلام میں کسی بھی عربی جملہ و فقرہ کے آخری حرف و لفظ میں فتح، ضمہ، کسرہ اور تناوین استعمال نہیں ہوئیں، ان سب کے متبادلی قاعدے اپنے اضافی وضع کے متقاضی ہیں تاکہ اس کے فروع و ارتقاء میں مزید آسانی ہو۔ مطلع کے مصرع اولیٰ میں اگرچہ ’’فی نظرِِ‘‘ کی ترتیب آئی ہے مگر فقرۂ فارسی کو چونکہ قافیہ سے ہم آہنگ ہونا تھا اس لئے ’ ر‘‘ کی تنوین بالکسر کا بدل سامنے نہ آسکا۔ یہ مسلم ہے کہ امام رضاؔ بریلوی نے مفعول فعولن فاعلتن ، مفعول فعولن فاعلتن ، کی بحر میں چار فقروں کو وزن کے ساتھ برت کر صنعت محجوب کی تلاش کی ہے جو دنیائے شاعری میں حیرت انگیز کارنامے کی حامل ہے تا ہم اس کی ترویج و ارتقأ ہمیشہ اسی بحر میں ہو ضروری نہیں۔ چار زبانوں کا استعمال اپنے اپنے طور سے کسی بھی بحر میں کیا جا سکتا ہے اسی جذبۂ تقلید میں خاکسار نے محجوبی رنگ میں فی الحال تین کلام کہنے کی سعادت حاصل کی ہے تاکہ عربی و فارسی اور ہندی و اردو کے آخری لفظ و حرف کے تعارف و شناخت اور صوتی قرینے کے نئے سفر کو مزید آگے بڑھایا جا سکے۔


فی حُبّ رَسوُلِک َ اِبعثنَا تعظیم ترا اعلیٰ جانا

اک تو ہی جگت راجا مولیٰ غیروں کو نہ کچھ سمجھا جانا

مَن رَحمَتِکَ البَرکَاتُ لَنا ہر باب کرم راوا جانا

تورے درشن کو تڑپت ہے جیا بس ایک جھلک ہی دکھا جانا

حَاسِبنِی حِسَاباََ مِّن یُسرِِ تو رحم و کرم کن بر باطن

موری بپتا کون سنے تجھ بن مجھ پر بھی کرم فرما جانا

یَا اَحمَدُ اَحسِن عَاقِبتی فریاد کند ایں تشنہ لبی

تورے رحم کی جے جے کار مچی ترے عشق میں کھو جانا جانا

یَا صَاحِبَ نُورِ خُذ بِیَدِی تو فضل بفرمابر بے کسی

مورا پاپ بھسم سب کر دے نبی شب ِ تار میں شمع جلا جانا

مِن نُورِ حَبِیبِکَ فَی بَصرِی در سینہ ٔ من انوار نبی

موری قبر کو جھل جھل کر دے سخی رحمت کی گھٹا برسا جانا

قَد جَأَ رَسول مّن عَرشِِ قربان کنم جاں ہر ممکن

اب رات بھی چمکت جیسے دن ہر شے نے تجھے آقا جانا

فِی القَبرِی عَلیٰ عَبدِِ اُنظُر ظلمت نرسد تابد مہ و خور

پاپی کو نہ آیا پریت کا گر مشکل کی گھڑی میں آجانا

اَلحسرتُ فَی قلبِی خَلَجَت یک بار کنم دیدار درت

مورا جِیَرا دھڑکے رَہت رَہت گوہر ؔپہ کرم فرما جانا

اَنا خَزول عَلی الخَطاَیا فِگن نگاہِ کرم کریما

جُھکاؤں دوارے پہ شیش اپنا یہ سانس اُکھڑے تو زیرِ سایہ

اَنا خَزول عَلی الخَطاَیا

وَمَن ھَدَیتَہ فَلاَ مُضِلّہ کرم بکن بر کسِ بے مایہ

کریں نہ کیوں گرو دھرم پر ہم تجھی نے رستہ ہمیں دکھایا

اَنا خَزول عَلی الخَطاَیا

اَتُوبَُ رَبّیِ مِن َالمَعاصِی بِہٖ ہر گنہ کن عطا خلاصی

بنی رہے مجھ پہ کرپا تیری کرم کا سر پر ہو میرے سایہ

اَنا خَزول عَلی الخَطاَیا

حَبِیب ُ رَبّی لِیَی النِّجَاۃُ بریں عنایت نہ دل بہ قابو

میں ایسی بِھکچھا پہ واری جاؤں نبی کے احساں پہ سر جھکایا

اَنا خَزول عَلی الخَطاَیا

تَوَفّنَا فِی شُعاَعِ صِدقِِ تو دانی راز ِ ظہور وباطن

دَیا کی برکھا مزار پر ہو صلہ محبت کا تجھ سے پایا

اَنا خَزول عَلی الخَطاَیا

وَسِیلَۃُ الّرحمۃِ النّبِیُ ازا رض تالا مکاں ایں خوشبو

پڑوں میں پَیَّاں میں گوڑ لاگوں نبی کا صدقہ ہی کام آیا

اَنا خَزول عَلی الخَطاَیا

اَ عِنّی یَا اَفضلَ ا لعِبادِ منم طلب گار دل نوازی

ترے ہی اُپکار پر ہے دھیرج تجھی نے اپنا مجھے بنایا

اَنا خَزول عَلی الخَطاَیا

عَلَیّی یَا مُصطَفیٰ تَرَحّم تو بحرِ رحمت نبی اکرم

تو اپنے گوہر ؔ کی لاج رکھ لے گنوایا سب کچھ ، نہ کچھ کمایا

اَنا خَزول عَلی الخَطاَیا

فگن نگاہِ کرم کریما

اِغفِر ذَنوب عَبدِک جذبہ حق بکن عطا

مانگوں میں ہر سمے چھما بندہ ترا ہے حمد خواں

اِرحَم لَنَا نَبِیّنَا فریاد پیش خاکِ پا

کرپا نبی رہے سدا ترے کرم سے ہر اماں

اَنزِل عَلَینَا رَحمَتہ یا رب طفیل پنجتن

ہر دل میں ڈال دے کرن بگڑی بنا دے مہرباں

اصلَح لِی یَا مُحّمد دیدہ ٔ تر بہ پیش تو

تو ہی تو ہے جگت گرو بندہ ہے طالب ِ اماں

فَضلِ محمد مَعی دارم بہ قلب روشنی

سندر ہو میری ہر چھوی سُن لے دعا شہہ شہاں

اَعَتنِی نُور فَضلِکَ باشد حیات پُر ضِیأ

پاپی کو چاہئے دَیا مجھ کو بچا لے پاسباں

صَلِّ عَلیٰ محمد ورد کنم بہ ختم سِن

آساں ہو ہر ڈگر کٹھن چشم ِ کرم ہو جانِ جاں

اَحسن حِیا تنَا النّبیِ دولتِ دیں بدہ سخی

گوہر ؔ کو رکھ سدا سُکھی بس اک نظر شہہ جہاں

نوٹ۔ النبی کے یائے ضمہ کا اظہار رعایت قافیہ کے سبب نہیں کیا گیا۔

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
مضامین میں تازہ اضافہ
نئے صفحات