"شکستہ حال اپنے دل کو سمجھانے کہاں جاتے ۔ سید وحید القادری عارف" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 43: سطر 43:


بکھر جاتے تو اپنے آپ کو پانے کہاں جاتے
بکھر جاتے تو اپنے آپ کو پانے کہاں جاتے
=== مزید دیکھیے ===
[[عشقِ شاہِ طیبہ میں کاش وہ مقام آئے ۔ سید وحید القادری عارف  | پچھلا کلام ]] | [[یں ہے کام اب مجھ کو کسی سے ۔ سید وحید القادری عارف | اگلا کلام]] | [[وحید القادری عارف کی حمدیہ و نعتیہ شاعری ]] | [[ وحید القادری عارف | وحید القادری عارف کا مرکزی صفحہ ]]

نسخہ بمطابق 09:47، 9 جولائی 2017ء


شاعر: وحید القادری عارف

نعت ِ رسول ِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

شکستہ حال اپنے دل کو سمجھانے کہاں جاتے

نہ ملتا آستاں ان کا تو دیوانے کہاں جاتے


گدا ہیں ان کے در کے بس یہی پہچان ہے اپنی

نہ ہوتے ان سے وابستہ تو پہچانے کہاں جاتے


اُنہی سے عقدہء پیچیدہ سارے حل ہوئے ورنہ

جہاں میں فلسفے جتنے بھی ہوں مانے کہاں جاتے


جھکایا سر یہاں تو سربلندی ہوگئی حاصل

یہی اک در ہے ورنہ خود پہ اِترانے کہاں جاتے


حیاتِ نو یہاں ملتی ہے اپنی جاں سے جانے میں

تو پھر اس شمع سے جاتے تو پروانے کہاں جاتے


خدا کا شکر ہے قسمت مجھے اس در پہ لے آئی

اُٹھائے بوجھ عصیاں کا مرے شانے کہاں جاتے


اُنہی سے بزمِ ہستی کی نمود و نام و آرایش

نہ ہوتے وہ اگر ہم میں تو ہم جانے کہاں جاتے


ہمیں نسبت ہماری ٹوٹنے دیتی نہیں عارفؔ

بکھر جاتے تو اپنے آپ کو پانے کہاں جاتے

مزید دیکھیے

پچھلا کلام | اگلا کلام | وحید القادری عارف کی حمدیہ و نعتیہ شاعری | وحید القادری عارف کا مرکزی صفحہ