حفیظ تائب

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat kainaat hafeez taib.jpg


حفیظ تائب ایک عہدساز نعت گو تھے ۔آپ کا اصل نام عبدالحفیظ ہے اور تائؔب تخلص فرمایا کرتے تھے۔ 14 فروری 1931 کو اپنے ننھیال پشاور چھاونی میں آپ کی ولادت ہوئی ۔ آبائی شہر احمد نگر ضلع گوجرانوالہ آپ کا آبائی شہر ہے ۔ آپ کے والد کا نام حاجی چراغ دین منہاس قادری ایک مشہور معلم اور امام و خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ادیب بھی تھے ابتدائی تعلیم دلاور نگر [سکھیکی] میں ہوئی مڈل کی تعلیم احمد نگر کے سکول اور میٹرک زمیندار ہائی سکول گجرات سے کیا ۔ زمیندار کالج ، گجرات میں ایف ایس نان میڈیکل کے طالب علم ہوئے لیکن ریاضی میں دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے اس خیر آباد کہا اور اپنے ذوق کے مطابق اردو اور پنجابی زبان کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے ایف اے اور بی اے کے امتحانات پرائیویٹ پاس کئے ۔ 1949 میں واپڈا میں سرکاری نوکری پر بھرتی ہوگئے ۔ اور دوارن ملازمت 1974 میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم-اے پنجابی کیا اور 1976 سے 2003 تک مختلف اطوار سے شعبہ ِ پنجابی میں تدریسی فرائض سرانجام دئیے۔

آپ کی شاعری نے نعتیہ شاعری پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ پچپن ہی سے آپ کو نعت سے خصوصی لگاؤ تھا۔ آپ کے والد مسجد میں امام کے فرائض سر انجام دیتے تھے ۔ کبھی کبھار جمعہ کی نماز سے پہلے حفیظ تائب صاحب نعت سنایا کرتے تھے، اور کبھی ایسا ہوتا کہ وقت کی کمی کے باعث آپ کے والد آپ کو نعت پڑھنے نہ دیتے ۔ جب سب گھر لوٹتے تو حفیظ صاحب کی والدہ اپنے شوہر سے دریافت فرماتیں کہ کیا آپ نے آج حفیظ کو نعت نہ پڑھنے دی؟ تو والد مسکرا کر پوچھتے کہ کیا اس نے تم سے گلہ کیا؟ تو والدہ جواب دیتیں کہ اس نے تو گلہ نہیں کیا، لیکن جس روز وہ نعت پڑھ کر آتا ہے، اس روز اس کے چہر ے کا رنگ کچھ اور ہی ہوتا ہے۔


شاعری کی ابتدا

پی ٹی وی کو ایک انٹرویو<ref> http://www.hmongbuy.com/amdyanF2UjFVY3cz </ref> دیتے ہوئے حفیظ تائب نے فرمایا کہ وہ لڑکپن ہی میں علامہ اقبال کی شاعری سے بہت متاثر تھے ۔ اسی محبت میں انہوں نے 18 سال کی عمر میں جو پہلی نعتیہ رباعی <ref> حفیظ تائب کی پہلی رباعی درکار ہے </ref> کہی وہ علامہ اقبال کی مرد مومن کے بارے کہی ہوئی ایک رباعی کی زمین میں تھی ۔ علامہ اقبال کی رباعی یہ ہے ۔

ترا جوہر ہے نوری پاک ہے تو

فروغ دیدۂ افلاک ہے تو

ترے صید زبوں افرشتہ و حور

کہ شاہین شہ لولاک ہے تو


حفیظ تائب نے مزید فرمایا کہ اس کے بعد بھی انہوں نے علامہ اقبال کی زمین میں جو بھی کلام کہا وہ اتفاق سے نعتیہ ہوا اور اس کے بعد علامہ اقبال کی غزلوں کی زمینوں میں نعتیں کہنے کی شعوری کوشش کی ۔


نعت گوئی میں کردار

حفیظ تائب نے اپنے نعتیہ سفر کو ایک نعتیہ تحریک کی شکل دی اور بہت سے شعراء کو نعت گوئی کی طرف راغب کیا ۔ ان کی دعوت پر نعت کہنے والے بہت سے شعراء نے اپنے نعتیہ مجموعے بھی مکمل کئے جن میں احمد ندیم قاسمی کا نام سر فہرست رکھا جاتا ہے ۔


چند مقبول کلام

متقدمین کو ہدیہ تبریک

حفیظ تائب نے صنف نعت کو شہسواروں کو انتہائی دلکش انداز میں ہدیہ تبریک پیش کیا ۔ جو اس طرح ہے ۔


یارب! ثناء میں کعبؒ <ref>کعب بن زہیر </ref>کی دلکش ادا ملے

فتنوں کی دوپہر میں سکوں کی ردا ملے

حسانؒ <ref> حسان بن ثابت </ref> کا شکوہِ بیاں مجھ کو ہو عطا

تائیدِ جبرئیلؑ بوقتِ ثناء ملے

بوصیریِؒ <ref> امام بوصیری </ref>عظیم کا ہوں میں بھی مقتدی

بیماریِ الم سے مجھے بھی شفا ملے

جامیؒ <ref> عبدالرحمان جامی </ref> کا جذب‘ لہجہِ قدسیؒ <ref> حاجی محمد جان قدسی </ref> نصیب ہو

سعدیؒ <ref> شیخ سعدی شیرازی </ref> کا صدقہ شعر کو اذنِ بقا ملے

آئے قضا شہیدیِؒ <ref> کرامت علی شہیدی </ref>خوش بخت کی طرح

دوری میں بھی حضوریِ احمدؒ رضا <ref> امام احمد رضا خان بریلوی </ref> ملے

مجھ کو عطا ہو زورِ بیانِ ظفر علیؒ <ref> مولانا ظفر علی خان </ref>

محسنؒ <ref> محسن کاکوروی </ref> کی ندرتوں سے مرا سلسلا ملے

حالیؒ <ref> مولانا الطاف حسین حالی </ref> کے درد سے ہو مرا فکر استوار

ادراکِ خاص حضرتِ اقبالؒ <ref> علامہ محمد اقبال </ref> کا ملے

جو مدحتِ نبیؐ میں رہا شاد و بامراد

اس کاروانِ شوق سے تائبؔ <ref> حفیظ تائب </ref>بھی جا ملے

آنکھوں کو جستجو ہے تو طیبہ نگر کی ہے

آنکھوں کو جسجتو ہے تو طیبہ نگر کی ہے

دل کو جو آرزو ہے تو خیرالبشرﷺ کی ہے


پالی ہے میں نے دین محمدﷺ کی سیدھی راہ

الیاس کی تلاش نہ حاجت خضر کی ہے


سرکارﷺ کی نظر ہے سبھی کچھ مرے لیے

مجھ کو طلب نہ جاہ کی ناسیم و زر کی ہے


جلوے بسے ہیں آنکھ میں ماہ حجاز کے

اب کیا مری نگاہ میں تابش قمر کی ہے


یا ذکر ہے مروت و خلق حضورﷺ کا

یابات بوے گل کی نسیم سحر کی ہے


آقا کی چشم لطف و عنائت سے پوچھئے

تائب جو منزلت مری اس چشم تر کی ہے


اللہ نے پہنچایا سرکارﷺ کے قدموں میں

اللہ نے پہنچایا سرکارﷺ کے قدموں میں

کیا کیا نہ سکوں پایا سرکارﷺ کے قدموں میں


دل کا تھا عجب عالم ان کے در اقدس پر

سر پر تھا عجب سایہ سرکارﷺ کے قدموں میں


وہ رب محمدﷺ کا تھا خاص کرم جس نے

عالم نیا دیکھلایا سرکارﷺ کے قدموں میں


جب سامنے جالی کے اشکوں کی سلامی دی

سو شکر بجا لایا سرکارﷺ کے قدموں میں


تارا تھا کہ جگنو تھا گوہر تھا کہ برگ گل

جو اشک کہ لہرایا سرکارﷺ کے قدموں میں


سانسوں کا تموج بھی اک بار لگا مجھ کو

وہ مرحلہ بھی آیا سرکارﷺ کے قدموں میں


وہ اپنے گناہوں کا احساس تھا بس تائب

جس نے مجھے تڑپایا سرکارﷺ کے قدموں میں


باد رحمت سنگ سنگ جائے

باد رحمت سنگ سنگ جائے

وادی جاں مہک مہک جائے


جب چھڑے بات نطق حضرت کی

غنچہ فن چٹک چٹک جائے


ماہ طیبہ کا جب خیال آئے

شب ہجراں چمک چمک جائے


جب سمائے نظر میں وہ پیکر

ذہن میرا دمک دمک جائے


فیض چشم حضور کیا کہنا

ساغر دل چھلک چھلک جائے


نام پاک ان کا ہو لبوں سے ادا

شہد گویا ٹپک ٹپک جائے


ارض دل سے اٹھے نوائے دزود

گونج اس کی فلک فلک جائے


رہنما گر نہ ہو وہ سیرت پاک

ہر مسافر بھٹک بھٹک جائے


چشم سرکارﷺ گر نہ ہو نگراں

نسل آدم بہک بہک جائے


کون وہ فرد ہے کہ جس کیلئے

دل فطرت دھرک دھرک جائے


مطلع کائنات پر تائب

نور کس کا جھلک جھلک جائے


بارگاہ پاک میں پہنچے ثنا کرتے ہوئے

بارگاہ پاک میں پہنچے ثنا کرتے ہوئے

مدعا پایا ہے عرض مدعا کرتے ہوئے


بے نیاز نعمت کون و مکاں ہوتے گئے

کوچہ سلطان عالم میں صدا کرتے ہوئے


دیدہ و دل میں گل جلوہ سمٹتے ہیں کہاں

کب یہ صورت سامنے تھی التجا کرتے ہوئے


کب مجھے تھی جاں کی پرواہ ، کب مجھے تھا سر کا ہوش

سجدہ شکر ان کی مسجد میں ادا کرتے ہوئے


کوئی آنے جانے والا ہر گھڑی نظروں میں تھا

کھوئے یو نظارہ غار حرا کرتے ہوئے


لوگ چمکاتے چلے جائیں گے اپنے روز و شب

اسوہ سرکارﷺ سے کسب ضیاء کرتے ہوئے


رمز ہستی ، راز فطرت، سر ذات و کائنات

ہر خبر پائی تلاش مصطفی کرتے ہوئے


التفات سید سادات کب محدود ہے

وسعت دامن بھی دیتے ہیں عطا کرتے ہوئے


تھام کر دامن کو ان کے بے محاہا رو دیا

میں کہ گھبراتا تھا ان کا سامنا کرتے ہوئے


پرچم کشا جمال ہے شہر حبیبﷺ میں

پرچم کشا جمال ہے شہر حبیبﷺ میں

ہر نقش بے مثال ہے شہر حبیبﷺ میں


میری طرف بھی دیکھئے سرکارﷺ اک نظر

ہر لب پر اک سوال ہے شہر حبیبﷺ میں


بچھتا ہی جا رہا ہے ہر اک رہگذار پر

دل کا عجیب حال ہے شہر حبیبﷺ میں


جو زخم ہیں لگائے ہوئے روزگار کے

ان سب کا اندمال ہے شہر حبیبﷺ میں


کچھ ایسے غمگسار حرم کے ستون ہیں

کافور ہر ملال ہے شہر حبیبﷺ میں


منزل پہ آ گیا ہوں سفر جیسے کاٹ کر

آرام جاں بحال ہے شہر حبیبﷺ میں


تائب مدینے والے کے جلوے ہیں ہرطرف

نکھرا ہوا خیال ہے شہر حبیبﷺ میں

احباب کی نظر میں

احمد ندیم قاسمی

احمد ندیم قاسمی حیفظ تائب کے بارے فرماتے ہیں

”میں نے فارسی، اردو اور پنجابی کی بے شمار نعتیں پڑھی ہیں، ان میں آنحضرت سے عقیدت اور عشق کا اظہار تو جابجا ملتا ہے مگر حفیظ تائب کے ہاں اس عقیدت اور عشق کے پہلو بہ پہلو میں نے جو ندرت اظہار دیکھی ہے، اس کی مثال ذرا کم ہی دستیاب ہوگی۔“

اور پی ٹی وی کے ایک پروگرام میں احمد ندیم قاسمی نے فرمایا

" میں سمجھتا ہوں کہ نعت گوئی کا یہ دور جس میں سے ہم گذر رہیں ۔ حفیظ تائب کا دور ہے ۔ <ref> https://www.youtube.com/watch?v=Wk6fuvjYMPE </ref>

ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی

وہ عربی زبان سے واقف تھے۔ فارسی پر مضبوط گرفت رکھتے تھے۔ عربی، فارسی، اُردو اور پنجابی شاعری کا وسیع مطالعہ کر رکھا تھا اور ان چاروں زبانوں کے ادب پر فاضلانہ گفت گو کرتے تھے۔ بہترین کلام اُنھیں ازبر تھا۔ قرآنِ مجید اور حدیث کے مطالعے میں مستغرق رہتے تھے۔ تاریخ ِاسلام خصوصاً سیرت مبارکہ کی کتب پر اُن کی گہری نظر تھی۔ علاوہ ازیں فنی باریکیوں سے خوب واقف تھے اوراس بات سے آگاہ تھے کہ شعر کو بقائے دوام کس طرح حاصل ہوتی ہے چناں چہ اُن کی نعتوں کا مطالعہ گہرائی میں جا کر کیا جائے ،تو جلد ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ مضامین کی وسعت و ندرت کے ساتھ ساتھ فن ِ شعر میں اُن کا ریاض کس پائے کا ہے۔

ڈاکٹر عباس نجمی

ڈاکٹر عباس نجمی نے ایک انٹرویو میں فرمایا کہ

" وہ سارا خطہ کہ جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے ببانگ دہل اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ حفیظ تائب نے نہ صرف اسلوبیاتی سطح پر نعت کو نئے رنگوں سے آشنا کیا بلکہ انہوں نے فکری و فنی طور پر نعت میں ایسے تجربے کئے کہ نعت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حوالے سے ان کا نام رہتی دنیا تک روشن رہے گا ۔

کچھ اہم واقعات

کینسر کی بیماری

آفتاب اقبال اس واقعہ <ref > یوسف عالمگیری ، راولپنڈی بحوالہ اردو ویب</ref> کے راوی ہیں کہ جناب حفیظ تائب کو کینسر کا مرض لاحق ہوا تو وہ مختلف ڈاکٹروں سے علاج کراتے رہے پھر ڈاکٹروں نے انہیں کہا کہ فوری طور پر امریکہ جائیں اور وہاں سے آپریشن کروائیں۔ اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے انہوں نے جو جمع پونجی ان کے ساتھ تھی اکٹھی کی اور تقریباً چھ لاکھ روپے لے کرامریکہ روانہ ہوگئے وہاں ڈاکٹروں نے ان کا مکمل معائنہ کیا اور بتایا کہ آپ کے آپریشن کی کامیابی اور ناکامی دونوں کے چانسز ہیں گویا آپریشن کے بعد آپ ٹھیک بھی ہوسکتے ہیں اور خدانخواستہ آپ کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ جناب حفیظ تائب نے آفتاب اقبال کو بتایا کہ انہوں نے یہ سوچا کہ جتنی زندگی ہے وہ تو انشاءاللہ ضرور پوری کروں گا پھر میں جو جمع پونجی بچوں کی تعلیم و تربیت پر خرچ کرسکتا ہوں اسے ایک ”بے مقصد آپریشن“ پر کیوں ضائع کردوں۔ انہوں نے آپریشن نہ کروانے کا فیصلہ کیا اور امریکہ سے سیدھے عمرے کے لیے سعودی عرب چلے گئے جہاں نمازوں کی پنجگانہ ادائیگی کے ساتھ ساتھ روضہء رسول کے پاس بیٹھ کر روتے رہنا ان کا معمول بن گیا۔ مسلسل دو تین دن کے عمل کے بعد ایک آدمی ان کے پاس آیا اور کہنے لگا میں کئی روز سے آپ کو روضہء رسول کے پاس بیٹھے اور روتے ہوئے دیکھ رہا ہوں آپ رونے کے بجائے اپنا مدعا کیوں بیان نہیں کرتے۔ حفیظ تائب نے رونا بند کردیا اور اپنے پیارے رسول سے ”باتیں“ کرتے ہوئے اپنا مدعا بالکل ایسے انداز میں بیان کیا جیسے کسی انتہائی قریبی اور ہمدرد شخص کے سامنے بیان کیا جاتا ہے وہ باتیں کرتے ہوئے ایک اجنبی کیفیت میں کھو گئے اور جب انہیں ہوش آیا تو ان کے جسم اور کپڑے پسینے سے شرابور تھے اور وہ خود کو انتہائی تروتازہ محسوس کررہے تھے۔ وہ اٹھے اور اپنی رہائش گاہ چلے گئے اور اگلے روز کی فلائٹ سے وطن واپس پہنچ گئے یہاں انہوں نے اپنے ڈاکٹروں سے دوبارہ چیک اپ کروایا جنہوں نے تشخیص کی کہ آپ کے مرض میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے بلکہ اب صرف ایک نشان سا دکھائی دیتا ہے پھر ہم نے اور سب نے دیکھا کہ حفیظ تائب اس موذی مرض کے ساتھ بھی زندہ رہے اور خوشبوئے رسول نے ان کے دامن کو معطر کیے رکھا

مدینہ شریف میں نعت گوئی

حفیط تائب عاشق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو تھے ہی تو مدینہ شریف حاضری رہتی تھِی ۔ قلب ِ گداز اور صحبت ِ رسول ِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ نعت گوئی کو تحریک دی اور آپ نے وہاں بھی کچھ نعتیہ کلام کہے ۔ اور ادب کا یہ انداز اختیار کیا کہ ان نعتوں میں نہ کبھی مقطع کہا اور نہ کہیں تخلص استعمال کیا <ref> http://www.hmongbuy.com/Q1EyaDdNbUFSbUkz</ref>


ماہ عرب کے آگے

حفیظ تائب کی حافظ فقیر افضل سے گہری ارادت تھی ۔ ایک بار آپ نے ان کو اپنا کلام سنایا تو اس میں ان کا ایک مشہور شعر

ماہ عرب کے آگے تری بات کیا بنے

اے مہتاب روپ نے ہر شب بدل کے آ

بھی شامل تھا۔ حافظ فقیر افضل نے حفیظ تائب سے فرمایا کہ آپ محتاط شاعر ہیں تو شعر آپ کے مزاج کا نہیں لگتا ۔ اسے نکال دیں ۔ حفیظ تائب عموما حافظ فقیر افضل کی رائے قبول فرما لیتے تھے لیکن اس شعر پر آپ کا دل ان کی رائے سے مطمئن نہ ہوا ۔ اگلی دن صبح سویرے انہوں نے حافظ فقیر افضل کو اپنے دروازے پر پایا ۔ حافط فقیر افضل نے حفیظ تائب سے کہا کہ نجانے میں نے رات اس شعر کے بارے آپ سے کیوں کہا کہ اسے نکال دیں ۔ رات بھر مجھے چین نہیں آیا کہ میں نے ایسا کیوں کہا ۔ وہ شعر قطعا نہ نکالیں ۔


قناعت پسندی کا ایک واقعہ

حفیظ تائب کے بردار عزیز عبدالمجید منہاس فرماتے ہیں کہ ایک بار حفیظ تائب عمرے پر تشریف لا جارہے تھے ۔ ائیر پورٹ پر ان کو چھوڑنے گیا تو میری پاکٹ میں جتنے روپے تھے میں نے زاد راہ کے طور پر پیش کئے ۔ آپ جب عمرہ سے واپس آئے تو میری بیوی کو وہ ساری رقم اور ایک رقعہ دے گئے ۔ جس میں لکھا ہوا تھا کہ

"برادر عزیز ، آپ نے جس محبت سے یہ رقم مجھے دی تھی ۔ اس کا اجر آپ کو یقینا مل چکا ہوگا ۔ یہ رقم سفر سعادت میں میرے لئے باعثِ تقویت رہی لیکن خرچ نہ ہو سکی ۔ میں اپنے ایوارڈ کا کچھ حصہ بھی ساتھ لے گیا تھا ۔ لہذا نہایت خوشدلی سے یہ رقم واپس کر رہا ہوں ۔ اللہ کریم آپ کی توفیقات میں اضافہ کرے ۔ مجھے اگر کسی بھی وقت کوئی مالی دشواری پیش آئی تو آپ سے مالی امداد طلب کرنے میں ذرا بھر عار محسوس نہیں کروں گا۔ بہر حال آپ یہ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالی مجھ پر ایسا وقت نہ لائے " <ref> عبدا لمجید منہاس ، برادر </ref>

حفیظ تائب پر مضامین

حفیظ تائب ۔ ستارے بانٹتا ہوا اک شخص از یوسف عالمگیری راولپنڈی

"مجدد نعت حفیظ تائب از سعد اللہ شاہ

تصانیف

1۔ صلو علیہ و آلہ ۔۔ اردو مجموعہ نعت [آدم جی ادبی ایوارڈ ]

2۔ سک متراں دی ۔۔ پنجابی مجموعہ نعت [پاکستان رائٹرز گلڈ ایوارڈ ]

3۔وسلموا تسلیما پنجابی مجموعہ نعت [صدارتی ایوارد ]

4۔ وہی یسیں وہی طہ۔ 1998، اردو مجموعہ نعت ، وزیر اعظم ادبی ایوارڈ برائے نعت ، نیشنل لٹریری ایوارڈ

6۔ کوثریہ، 2003 اردو مجموعہ نعت،

7۔ اصحابی کالنجوم ، 2006

8۔ حاضریاں ، 2007، پنجابی سفر نامہ بمعہ تصاویر

9۔ حضوریاں ، 2007، حاضری کے نعتیہ کلام


اس کے علاوہ غزلیات اور تحقیق و تدوین پر چند کتابیں

ایوارڈز

1۔ تمغہ حسن کارکردگی

2۔ نقوش ایوارڈ

3۔ آدم جی ایوارڈ

4۔ ہمدرد فاونڈیشن ایوارڈ

5۔ پاکستان رائٹرز گلڈ ایوارڈ

6۔ الحاج محد حسین گوہر ایوارڈ

7۔ اکیڈمی ایوارڈ برائے نعت گوئی

اور بے شمار دیگر ایوارڈ

وفات

ممتاز نعت گو شاعر جناب حفیظ تائب13 جون2004ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے تو یوں محسوس ہوا جیسے دنیا ایک سچے عاشق رسول سے محروم ہوگئی۔انہیں ان کے گھر کے قریب علامہ اقبال ٹاون کے قبرستان میں دفن کیا گیا اور نماز جنازہ میں بیشتر نامور ادیب شامل ہوئے ۔حفیظ تائب کسی ایک شخص کا نام نہیں بلکہ رقت و محبت میں ڈوبی ہوئی ایک کیفیت کا نام تھا کہ جو لاکھوں کروڑوں کے ہجوم میں سے کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے ۔ <ref> http://www.urduweb.org </ref>

سال بہ سال

1931: پیدائش 14 فروری

1949: ملازمت محمکہ برقیات

1974: ایم اے پنجابی

1976: پارٹ ٹائم لیکچرار [پنجاب یونیورسٹی، اورئنٹیل کالج ]

1978: صلو علیہ و آلہ ۔۔ اردو مجموعہ نعت، سک متراں دی ۔۔ پنجابی مجموعہ نعت

1979: محکمہ برقیات سے ریٹائرمنٹ اور پنجابی لیکچرر شپ کا باقاعدہ آغاز

1988: کینسر کی بیماری کا شکار ہوئے

1990: وسلمموا تسلیما۔۔ پنجابی مجموعہ نعت

1991: حضرت حسان نعت ایوارڈ، نقوش ایوارڈ، لیکچرشپ سے ریٹائرمنٹ

1993: الحاج محمد حسین گوہر نعت ایوارڈ، جنگ ٹیلنٹ ایوارڈ برائے نعت گوئی

1994: اکیڈمی ایوارڈ برائے نعت گوئی، صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی، ہمدرد فاوئڈیشن ایوارڈ، نشان ِ حضرت حسان رضی اللہ تعالیِ عنہ

1995: نشان ِ امام بوصیری

1996: نشانِ مولانا جامی

1997: نشانِ احمد رضا

1998: نشان ِ اقبال ، وزیر اعظم ادبی ایوارڈ

1999: نشان ِ کعب

2000: نشان کفایت اللہ کافی

2001: نشان ِ یوسف بن اسماعیل نبہانی

2002: نشان ِ امیر مینائِ

2003: نشان ِ محسن کاکوروی ، کوثریہ اردو مجموعہ نعت

2004: وفات [13 جون ]

حفیظ تائب فاونڈیشن

نومبر 2014 میں حفیظ تائب صاحب کے غیر مدون کلام کو ترتیب دینے اور ان کے مشن کو آگے بڑھانے کے لئے محبان ِ حفیظ تائب نے حفیظ تائب فاونڈیشن کی بنیاد رکھی اور حفیظ تائب رحمتہ اللہ علیہ کے برادر عبدالحفیظ منہاس اس کے سرپرست اعلی ٹھہرے ۔ <ref>http://www.hafeeztaibfoundation.org</ref>


بیرونی روابط

اے آر وائی ڈیجیٹل نے حفیظ تائب صاحب پر جو پرگرام پیش کیے اس کا ربط : صارف: ارم نقوی  :https://www.youtube.com/watch?v=a9fglqv2IuA


کلیات ِحفیظ تائب | | حفیظ تائب فاونڈیشن

حوالہ جات

<references />