آپ «جین اورکرسچین نعت گو شعرا ۔ فاروق ارگلی» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 5: سطر 5:


=== جین اورکرسچین نعت گوشعرا===
=== جین اورکرسچین نعت گوشعرا===
ABSTRACT:  
ABSTRACT:  
Beauty reflected by atmosphere or person, is always instinctively loved by human being. Al-Mighty Allah has bestowed upon His Prophet Muhammad (S.A.W) highest degree of good qualities of character besides unique handsome personality. Hence, every sane writer praises Him (S.A.W) in the shape of prose or poem. Muhammad (S.A.W) has been paid tributes in each and every language spoken in the world without discrimination of relgion. Examples have been cited from Naatia Poetry done by Jane and Christian Urdu poets in praise of Holy Prophet Muhammad (S.A.W), in the article placed herein. Some couplets reflect so deep love for Prophet Muhammad (S.A.W.) that one can hardly belief to have been written by non Muslim poets.                                       
Beauty reflected by atmosphere or person, is always instinctively loved by human being. Al-Mighty Allah has bestowed upon His Prophet Muhammad (S.A.W) highest degree of good qualities of character besides unique handsome personality. Hence, every sane writer praises Him (S.A.W) in the shape of prose or poem. Muhammad (S.A.W) has been paid tributes in each and every language spoken in the world without discrimination of relgion. Examples have been cited from Naatia Poetry done by Jane and Christian Urdu poets in praise of Holy Prophet Muhammad (S.A.W), in the article placed herein. Some couplets reflect so deep love for Prophet Muhammad (S.A.W.) that one can hardly belief to have been written by non Muslim poets.                                       


عالم انسانیت کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اسلام رحمت عالم سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ اقدس کو دُنیا کی تمام غیر مسلم اقوام میں بھی اپنی نورانی صفات ،پاکیزہ سیرت اور اورآفاقی تعلیمات کے سبب تاریخ انسانی کی سب سے اعلیٰ ،سب سے برتر اورسب سے افضل شخصیت تسلیم کیا جاتا ہے۔اسلامی عقائد اورشعائر سے اختلاف اور مسلم قوم سے سیاسی وتہذیبی معاندت یاسخت ترین دشمنی کے باوجود غیر مسلم اقوام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عظمت کی صدیوں سے قائل ہیں۔دنیا کی تمام بڑی چھوٹی رائج و معدوم زبانوں کے علماء اور حکماء گزشتہ چودہ صدیوں سے اپنی تحریروں میں پیغمبراسلام کی تعریف وتوصیف کرتے آئے ہیں سیّدالبشر کی تعریف وتوصیف کے شاعرانہ اظہار کاہی نام [[نعت]] ہے ۔توحیدورسالت پرایمان رکھنے والے مسلمانوں کے لیے تو اپنے پیغمبر،اپنے ہادی برحق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدح وثنا اور اپنی شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے نثر ونظم میں رطب اللسان ہونا ایمانی تقاضا ہے ،لیکن ان اقوام کے لیے جو اسلامی اصولوں کے برعکس مذہبی عقائد رکھتی ہوں ان کے شعر اء اوراہل دانش کاحضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی [[نعت | توصیف]] کرنا محسن انسانیت پیغمبر اسلام کی عظمتوں کو تسلیم کرنا اور اپنے علم وفن سے مسلمان بھائیوں کی دلداری کرنا ہی کہا جاسکتا ہے۔
عالم انسانیت کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اسلام رحمت عالم سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ اقدس کو دُنیا کی تمام غیر مسلم اقوام میں بھی اپنی نورانی صفات ،پاکیزہ سیرت اور اورآفاقی تعلیمات کے سبب تاریخ انسانی کی سب سے اعلیٰ ،سب سے برتر اورسب سے افضل شخصیت تسلیم کیا جاتا ہے۔اسلامی عقائد اورشعائر سے اختلاف اور مسلم قوم سے سیاسی وتہذیبی معاندت یاسخت ترین دشمنی کے باوجود غیر مسلم اقوام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عظمت کی صدیوں سے قائل ہیں۔دنیا کی تمام بڑی چھوٹی رائج و معدوم زبانوں کے علماء اور حکماء گزشتہ چودہ صدیوں سے اپنی تحریروں میں پیغمبراسلام کی تعریف وتوصیف کرتے آئے ہیں سیّدالبشر کی تعریف وتوصیف کے شاعرانہ اظہار کاہی نام [[نعت]] ہے ۔توحیدورسالت پرایمان رکھنے والے مسلمانوں کے لیے تو اپنے پیغمبر،اپنے ہادی برحق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدح وثنا اور اپنی شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے نثر ونظم میں رطب اللسان ہونا ایمانی تقاضا ہے ،لیکن ان اقوام کے لیے جو اسلامی اصولوں کے برعکس مذہبی عقائد رکھتی ہوں ان کے شعر اء اوراہل دانش کاحضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی [[نعت | توصیف]] کرنا محسن انسانیت پیغمبر اسلام کی عظمتوں کو تسلیم کرنا اور اپنے علم وفن سے مسلمان بھائیوں کی دلداری کرنا ہی کہا جاسکتا ہے۔
سطر 12: سطر 13:
ہماراملک ہندوستان صدیوں سے مختلف مذاہب ،گوناگوں عقائد ،رنگارنگ تہذیبوں اور زبانوں کا خوبصورت گلدستہ رہا ہے ۔اس وسیع و عریض دُنیا کے کسی ملک کو یہ خصوصیت حاصل نہیں ہے جہاں اتنی مختلف الخیال قومیں بقائے باہم اور مشترک اقدارِ حیات کے ساتھ صدیوں سے شیر وشکر کی طرح ایک سا تھ رہتی آئی ہوں۔کثرت میں وحدت ،احترام کل مذاہب اور انسانی رواداری کا انقلابی فروغ اس سرزمین پر اسلام کی آمد کے بعد ظہور میں آنے والی مشترکہ تہذیب کے ارتقاء کے ساتھ خاص طورپر ہوا۔اسی مشترکہ تہذیب نے ایک نئی عوامی زبان پیدا کی جو تمام بیرونی اور ملکی تہذیبوں کے امتزاج سے بنی تھی۔یہ ہند ی یا [[اردو]] زبان ہے جس نے اس ملک کی تمام بڑی قوموں میں سماجی اورانسانی ہم آہنگی پیدا کردی اس طاقتور زبان نے رواداری ،فراخدلی ،روشن خیالی اور انسانی قدروں پر مبنی انقلاب برصغیر کی سرزمین پربرپا کیایہ اسی زبان کا کرشمہ ہے کہ توحید ورسالت پر ایمان رکھنے والے مسلمانوں نے یہاں کے غیر مسلموں کے مذہب وعقیدے کے احترام میں ان کے مذہبی پیشواؤں کااحترام کیا۔مسلمان صوفیوں اورشاعروں نے شیو جی ،شری رام اور کرشن جی کی مدح وتوصیف کے نغمے سنائے جو اسلامی تعلیمات اوراصولوں کے قطعی برعکس تھا لیکن محبت کا جواب محبت ہوتی ہے یہاں کے غیر مسلموں نے بھی پیغمبر اسلام کی ثنا خوانی میں کوئی کمی نہیں کی ۔ہندو ،مسلم ،سکھ ، جین ،عیسائی سبھی ترقی یافتہ قوموں کی مشترکہ زبان اُردو کا عظیم شعری سرمایہ شاہد ہے کہ ہندوستان مذہبی رواداری اوراحترام کل مذاہب کی دنیا میں یہ سب سے انوکھی مثال ہے۔
ہماراملک ہندوستان صدیوں سے مختلف مذاہب ،گوناگوں عقائد ،رنگارنگ تہذیبوں اور زبانوں کا خوبصورت گلدستہ رہا ہے ۔اس وسیع و عریض دُنیا کے کسی ملک کو یہ خصوصیت حاصل نہیں ہے جہاں اتنی مختلف الخیال قومیں بقائے باہم اور مشترک اقدارِ حیات کے ساتھ صدیوں سے شیر وشکر کی طرح ایک سا تھ رہتی آئی ہوں۔کثرت میں وحدت ،احترام کل مذاہب اور انسانی رواداری کا انقلابی فروغ اس سرزمین پر اسلام کی آمد کے بعد ظہور میں آنے والی مشترکہ تہذیب کے ارتقاء کے ساتھ خاص طورپر ہوا۔اسی مشترکہ تہذیب نے ایک نئی عوامی زبان پیدا کی جو تمام بیرونی اور ملکی تہذیبوں کے امتزاج سے بنی تھی۔یہ ہند ی یا [[اردو]] زبان ہے جس نے اس ملک کی تمام بڑی قوموں میں سماجی اورانسانی ہم آہنگی پیدا کردی اس طاقتور زبان نے رواداری ،فراخدلی ،روشن خیالی اور انسانی قدروں پر مبنی انقلاب برصغیر کی سرزمین پربرپا کیایہ اسی زبان کا کرشمہ ہے کہ توحید ورسالت پر ایمان رکھنے والے مسلمانوں نے یہاں کے غیر مسلموں کے مذہب وعقیدے کے احترام میں ان کے مذہبی پیشواؤں کااحترام کیا۔مسلمان صوفیوں اورشاعروں نے شیو جی ،شری رام اور کرشن جی کی مدح وتوصیف کے نغمے سنائے جو اسلامی تعلیمات اوراصولوں کے قطعی برعکس تھا لیکن محبت کا جواب محبت ہوتی ہے یہاں کے غیر مسلموں نے بھی پیغمبر اسلام کی ثنا خوانی میں کوئی کمی نہیں کی ۔ہندو ،مسلم ،سکھ ، جین ،عیسائی سبھی ترقی یافتہ قوموں کی مشترکہ زبان اُردو کا عظیم شعری سرمایہ شاہد ہے کہ ہندوستان مذہبی رواداری اوراحترام کل مذاہب کی دنیا میں یہ سب سے انوکھی مثال ہے۔


ہندوؤں کا ایک نہایت اہم فرقہ جین مت ہے ۔اس کے عقائد اور مذہبی نظریات قدیم اکثریتی ہندو دھرم سے یکسر مختلف ہیں۔مذہب کے معاملے میں یہ طبقہ خاص سخت گیر تصور کیاجاتاہے ،لیکن [[اردو]] زبان کی ہمہ گیری نے جین سماج پر گہرااثرڈالا ۔جین برادری میں بھی دوسرے ہندؤں کی طرح بڑے بڑے دانشور اور شاعر پیدا ہوئے جن کے کارنامے اُردو زبان اور تہذیب کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔اس جگہ راقم الحروف کو یاد آرہے ہیں دہلوی تہذیب کے نمائندے جین سماج کے سرکردہ رہنما اوراُردو کے قادرالکلام شاعر جناب [[گوہر دہلوی | دکَمبر پرشاد گوہرؔ دہلوی ]]۔نہایت دھارمک اور باوقار شخصیت کے مالک [[گوہر دہلوی | دکَمبر پرشاد گوہرؔ دہلوی]] شہر کے نامور جوہری تھے، دریبہ کلاں میں ان کی سونے چاندی اور جواہرات کی بہت بڑی دکان تھی۔شاعری کا شوق بچپن سے ہی تھا،اردو فارسی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اُردو کے بہت بڑے شاعر آغا شاعر قزلباش کے شاگرد ہوئے اور غزل گوئی میں خاصا کمال پیدا کیا۔
ہندوؤں کا ایک نہایت اہم فرقہ جین مت ہے ۔اس کے عقائد اور مذہبی نظریات قدیم اکثریتی ہندو دھرم سے یکسر مختلف ہیں۔مذہب کے معاملے میں یہ طبقہ خاص سخت گیر تصور کیاجاتاہے ،لیکن [[اردو]] زبان کی ہمہ گیری نے جین سماج پر گہرااثرڈالا ۔جین برادری میں بھی دوسرے ہندؤں کی طرح بڑے بڑے دانشور اور شاعر پیدا ہوئے جن کے کارنامے اُردو زبان اور تہذیب کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔اس جگہ راقم الحروف کو یاد آرہے ہیں دہلوی تہذیب کے نمائندے جین سماج کے سرکردہ رہنما اوراُردو کے قادرالکلام شاعر جناب دکَمبر پرشاد گوہرؔ دہلوی ۔نہایت دھارمک اور باوقار شخصیت کے مالک دکَمبر پرشاد گوہرؔ دہلوی شہر کے نامور جوہری تھے، دریبہ کلاں میں ان کی سونے چاندی اور جواہرات کی بہت بڑی دکان تھی۔شاعری کا شوق بچپن سے ہی تھا،اردو فارسی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اُردو کے بہت بڑے شاعر آغا شاعر قزلباش کے شاگرد ہوئے اور غزل گوئی میں خاصا کمال پیدا کیا۔


[[گوہر دہلوی | گوہر صاحب]] جب تک زندہ رہے جین سماج کی خدمت اور تجارتی مصروفیات کے ساتھ ساتھ اُردو زبان کی ترقی اور فروغ کے لیے بھی کوشاں رہے ،ان کی دکان شاعروں اور ادیبوں کا مرکزبنی رہتی تھی۔متمول اور کشادہ دست بھی تھے،بہت سے [[اردو]] والے ان سے فیض پاتے تھے۔مشاعرے اور ادبی شعری محافل کے انعقاد کا انہیں بیحد شوق تھا۔مشاعروں اور نشستوں میں بڑے اہتمام سے شریک ہوتے تھے۔اپنے استاد سے انھیں اس درجہ محبت اور عقیدت تھی کہ اپنا کلام سنانے سے پہلے کچھ اشعار اپنے استاد حضرت آغا قزلباش کے ضرور سناتے تھے۔یہ روایت انھوں نے زندگی بھر نبھائی۔اُردوو زبان وادب کی ترقی کے لیے انھوں نے ادبی جریدہ ’شعلہ وشبنم ‘ جاری کیاتھا جس میں ملک بھرکی علمی ادبی سرگرمیاں اور ہمعصر شاعروں ،ادیبوں کی تخلیقات اہتمام کے ساتھ شائع کرتے تھے۔نئے شاعروں کی خاص طور پرحوصلہ افزائی ان کا پسندیدہ کام تھا ۔[[ گوہر دہلوی | دکَمبر پرشاد گوہرؔصاحب ]] نے اسلامی تاریخ اور مذہبی امور کا خاص طور پر مطالعہ کیاتھا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ گرامی سے انھیں یقینا گہری عقیدت تھی جوان کی نعتیہ شاعری میں جھلکتی ہے۔ان کی ایک نعت میں شبِ معراج کے حوالے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعریف کس والہانہ انداز میں بیان کی گئی ہے لگتاہی نہیں کہ یہ ایک غیر مسلم کاکلام ہے جواپنے سماج کی اہم مذہبی شخصیت بھی ہے:   
گوہر صاحب جب تک زندہ رہے جین سماج کی خدمت اور تجارتی مصروفیات کے ساتھ ساتھ اُردو زبان کی ترقی اور فروغ کے لیے بھی کوشاں رہے ،ان کی دکان شاعروں اور ادیبوں کا مرکزبنی رہتی تھی۔متمول اور کشادہ دست بھی تھے،بہت سے [[اردو]] والے ان سے فیض پاتے تھے۔مشاعرے اور ادبی شعری محافل کے انعقاد کا انہیں بیحد شوق تھا۔مشاعروں اور نشستوں میں بڑے اہتمام سے شریک ہوتے تھے۔اپنے استاد سے انھیں اس درجہ محبت اور عقیدت تھی کہ اپنا کلام سنانے سے پہلے کچھ اشعار اپنے استاد حضرت آغا قزلباش کے ضرور سناتے تھے۔یہ روایت انھوں نے زندگی بھر نبھائی۔اُردوو زبان وادب کی ترقی کے لیے انھوں نے ادبی جریدہ ’شعلہ وشبنم ‘ جاری کیاتھا جس میں ملک بھرکی علمی ادبی سرگرمیاں اور ہمعصر شاعروں ،ادیبوں کی تخلیقات اہتمام کے ساتھ شائع کرتے تھے۔نئے شاعروں کی خاص طور پرحوصلہ افزائی ان کا پسندیدہ کام تھا ۔دکَمبر پرشاد گوہرؔصاحب نے اسلامی تاریخ اور مذہبی امور کا خاص طور پر مطالعہ کیاتھا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ گرامی سے انھیں یقینا گہری عقیدت تھی جوان کی نعتیہ شاعری میں جھلکتی ہے۔ان کی ایک نعت میں شبِ معراج کے حوالے سے آنحضرتصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکی تعریف کس والہانہ انداز میں بیان کی گئی ہے لگتاہی نہیں کہ یہ ایک غیر مسلم کاکلام ہے جواپنے سماج کی اہم مذہبی شخصیت بھی ہے:   




سطر 41: سطر 42:
ظلمتِ کفر میں پھیلی ہے ضیا آج کی رات
ظلمتِ کفر میں پھیلی ہے ضیا آج کی رات


 
دکَمبر پرشاد گوہرؔ دہلوی کو تقسیم وطن کے بعدپیداہونے والے نا مساعد حالات نے بہت صدمہ پہنچایا آپ کی نظروں کے سامنے دلّی کی روایات اوراس کی اقدار کوزوال آنے لگاتو دل برداشتہ ہوکر رسالہ بند کردیا اور مشاعروں ،محفلوں سے دور تارک الدنیا کی طرح زندگی بسرکی۔اسی گوشہ گمنامی میں [1988]]ء میں دنیا سے رخصت ہوئے۔
[[گوہر دہلوی | دکَمبر پرشاد گوہرؔ دہلوی ]] کو تقسیم وطن کے بعدپیداہونے والے نا مساعد حالات نے بہت صدمہ پہنچایا آپ کی نظروں کے سامنے دلّی کی روایات اوراس کی اقدار کوزوال آنے لگاتو دل برداشتہ ہوکر رسالہ بند کردیا اور مشاعروں ،محفلوں سے دور تارک الدنیا کی طرح زندگی بسرکی۔اسی گوشہ گمنامی میں [1988]]ء میں دنیا سے رخصت ہوئے۔




بیسویں صدی کے آغاز میں پانی پت کے ایک مشہور شاعر گزرے ہیں جناب [[شگن چند جین روشن]] ۔ان کا شمار اپنے وقت کے مقبول شعرامیں ہوتا تھا۔انھوں نے [[غزل]] ،[[نظم]] ،[[قصیدہ]]،[[رباعی]] سبھی اصناف میں طبع آزمائی کی ،لیکن[[ اردو]] کی بدقسمتی سے ان کے بعد ان کے ورثا کی عدم توجہی سے ان کا کلام ضائع ہوگیا۔روشنؔ صاحب کے ایک طویل نعتیہ مسدس کایہ بند دیکھئے،زبان وبیان کا کیسا پرشکوہ نمونہ ہے ،سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عظمت کاکیسا خوبصورت بیان ہے :
بیسویں صدی کے آغاز میں پانی پت کے ایک مشہور شاعر گزرے ہیں جناب شگن چند جین روشنؔ۔ان کا شمار اپنے وقت کے مقبول شعرامیں ہوتا تھا۔انھوں نے [[غزل]] ،[[نظم]] ،[[قصیدہ]]،[[رباعی]] سبھی اصناف میں طبع آزمائی کی ،لیکن[[ اردو]] کی بدقسمتی سے ان کے بعد ان کے ورثا کی عدم توجہی سے ان کا کلام ضائع ہوگیا۔روشنؔ صاحب کے ایک طویل نعتیہ مسدس کایہ بند دیکھئے،زبان وبیان کا کیسا پرشکوہ نمونہ ہے ،سرکارِ دوعالمصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عظمت کاکیسا خوبصورت بیان ہے :




سطر 61: سطر 61:




یہ اُردو زبان اور تہذیب کا کرشمہ ہی ہے کہ تقسیم وطن کے بعد جب سماجی اخلاص ومحبت اور مذہبی رواداری کے قدیم جذبوں پر مبنی ہندو مسلم اتحاد زوال پذیر ہونے لگا ،پنجاب اور سندھ سے ترکِ وطن کرکے ہندوستان آنے والوں کی اکثریت نے مسلم مخالف سیاست کا ساتھ دیا۔’پرتاب‘ جیسے پردیسی فرقہ پرست اخباروں نے پورے اُردو سماج کی فضا میں تکدر بھردیا ،لیکن اس ماحول میں بھی اُردو کے ہندوسکھ شاعروں اور ادیبوں نے مشترکہ تہذیبی روایات کے چراغ جلائے رکھے۔محبانِ اُردو کی تنظیم حلقہ تشنگانِ ادب نے اُردو کی اُجڑی ہوئی راجدھانی کوآباد کیا اور شعروادب کی روشنی سے دلوں کو منور کیا اس علمی اور ادبی تنظیم کی سر گرمیاں گزشتہ نصف صدی میں کبھی ماند نہیں پڑیں،پابندی کے ساتھ ہونے والی ادبی شعری نشستوں میں اس عہد کے نامور ہندو،مسلم،سکھ شعرا نے اُردو تہذیب کے پرچم کو نفرت انگیز سیاستوں کے شہر دلّی میں آن بان اور شان کے ساتھ بلند رکھا ۔اس تاریخ ساز تنظیم کے برسہا برس تک سربراہ رہے نامور اُردو شاعر [[ جگدیش چند جین | جناب جگدیش چند جین]] ۔یہ ان شخصیتوں میں ہیں جنھیں ہندوستان کی مشترکہ تہذیب وروایات کا علمبردار کہاجاتا ہے۔اس وقت جین صاحب اُردو دنیا کے سب سے معمر اور برگزیدہ شاعر ہیں۔۹۲سالہ [[جگدیش چند جین]] کو دہلوی تہذیب کی زندہ علامت بھی سمجھا جاتا ہے آپ کا جنم [[1922 | ۱۹۲۲]]ء میں دہلی میں ہوا ۔خاندان اور بزرگوں میں اُردو شعروادب کا ماحول تھا، شہری فضا میں بھی اُردو شعروشاعری کی گونج تھی اس کااثر ان کے ذہن پر بھی پڑا ،اسکول اور کالج کے زمانہ سے ہی علمی ادبی سرگرمیوں میں پیش پیش رہنے لگے تھے۔
یہ اُردو زبان اور تہذیب کا کرشمہ ہی ہے کہ تقسیم وطن کے بعد جب سماجی اخلاص ومحبت اور مذہبی رواداری کے قدیم جذبوں پر مبنی ہندو مسلم اتحاد زوال پذیر ہونے لگا ،پنجاب اور سندھ سے ترکِ وطن کرکے ہندوستان آنے والوں کی اکثریت نے مسلم مخالف سیاست کا ساتھ دیا۔’پرتاب‘ جیسے پردیسی فرقہ پرست اخباروں نے پورے اُردو سماج کی فضا میں تکدر بھردیا ،لیکن اس ماحول میں بھی اُردو کے ہندوسکھ شاعروں اور ادیبوں نے مشترکہ تہذیبی روایات کے چراغ جلائے رکھے۔محبانِ اُردو کی تنظیم حلقہ تشنگانِ ادب نے اُردو کی اُجڑی ہوئی راجدھانی کوآباد کیا اور شعروادب کی روشنی سے دلوں کو منور کیا اس علمی اور ادبی تنظیم کی سر گرمیاں گزشتہ نصف صدی میں کبھی ماند نہیں پڑیں،پابندی کے ساتھ ہونے والی ادبی شعری نشستوں میں اس عہد کے نامور ہندو،مسلم،سکھ شعرا نے اُردو تہذیب کے پرچم کو نفرت انگیز سیاستوں کے شہر دلّی میں آن بان اور شان کے ساتھ بلند رکھا ۔اس تاریخ ساز تنظیم کے برسہا برس تک سربراہ رہے نامور اُردو شاعر جناب جگدیش چند جین۔یہ ان شخصیتوں میں ہیں جنھیں ہندوستان کی مشترکہ تہذیب وروایات کا علمبردار کہاجاتا ہے۔اس وقت جین صاحب اُردو دنیا کے سب سے معمر اور برگزیدہ شاعر ہیں۔۹۲سالہ جگدیش چندجین کو دہلوی تہذیب کی زندہ علامت بھی سمجھا جاتا ہے آپ کا جنم ۱۹۲۲ء میں دہلی میں ہوا ۔خاندان اور بزرگوں میں اُردو شعروادب کا ماحول تھا، شہری فضا میں بھی اُردو شعروشاعری کی گونج تھی اس کااثر ان کے ذہن پر بھی پڑا ،اسکول اور کالج کے زمانہ سے ہی علمی ادبی سرگرمیوں میں پیش پیش رہنے لگے تھے۔




سطر 76: سطر 76:




[[جگدیش چند جین | جینؔ صاحب]] نے خوبصورت نعتیں کہیں جن سے شاعرانہ تصنع نہیں دل کی گہرائیوں سے محسن انسانیت ،رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عقیدت کااظہار ہوتا ہے ۔نعت کے یہ شعر ثبوت کے طور پر:
جینؔ صاحب نے خوبصورت نعتیں کہیں جن سے شاعرانہ تصنع نہیں دل کی گہرائیوں سے محسن انسانیت ،رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عقیدت کااظہار ہوتا ہے ۔نعت کے یہ شعر ثبوت کے طور پر:




سطر 96: سطر 96:




اُردو شاعری کی تاریخ میں جین شعرائے کرام کی خاصی تعداد موجود ہے۔فی زمانہ زندہ شعرا میں ایک نام مشہور ومعروف فلمی موسیقار اور گلوکار [[رویند ر جین]] کاہے۔[[رویندر جین]] بینائی سے محروم ہیں لیکن ان کی چشم بصیرت بے نظیر ہے۔انھوں نے فلموں میں لازوال نغموں کی تخلیق کی ہے۔اپنی شاعری سے گنگا جمنی اُردو تہذیب کے ایوان کو روشن کیا ہے ،بڑے معیاری شعر کہتے ہیں ،خدا نے انھیں آواز بھی بہت خوبصورت عطا کی ہے،بھجن گائیکی میں بھی ماہر ہیں ۔مشہورومقبول ٹی وی سیریل ’رامائن‘ اور ’مہابھارت ‘ میں جین صاحب کی آواز نے بھکتی کا رس برسایا ہے۔انھوں نے اُرود شاعری کی شاندار روایات کے مطابق اپنے روحانی بھکتی رس میں ڈوب کر نعتیں بھی کہیں۔[[رویندر جین]] کی ایک خوبصورت [[نعت | نعت شریف ]] ملاحظہ کریں:
اُردو شاعری کی تاریخ میں جین شعرائے کرام کی خاصی تعداد موجود ہے۔فی زمانہ زندہ شعرا میں ایک نام مشہور ومعروف فلمی موسیقار اور گلوکارر ویند ر جین کاہے۔رویندر جین بینائی سے محروم ہیں لیکن ان کی چشم بصیرت بے نظیر ہے۔انھوں نے فلموں میں لازوال نغموں کی تخلیق کی ہے۔اپنی شاعری سے گنگا جمنی اُردو تہذیب کے ایوان کو روشن کیا ہے ،بڑے معیاری شعر کہتے ہیں ،خدا نے انھیں آواز بھی بہت خوبصورت عطا کی ہے،بھجن گائیکی میں بھی ماہر ہیں ۔مشہورومقبول ٹی وی سیریل ’رامائن‘ اور ’مہابھارت ‘ میں جین صاحب کی آواز نے بھکتی کا رس برسایا ہے۔انھوں نے اُرود شاعری کی شاندار روایات کے مطابق اپنے روحانی بھکتی رس میں ڈوب کر نعتیں بھی کہیں۔رویندر جین کی ایک خوبصورت نعت شریف ملاحظہ کریں:




سطر 144: سطر 144:




۱۸۵۷ء سے نصف صدی قبل ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک بڑے افسر سرابراہام کے فرزند جان رابرٹ اُردو کے نامور شاعر گزرے ہیں۔ان کی پیدائش ہندوستان میں ہی ہوئی تھی،اس لیے اُردو ان کی مادری زبان بن گئی۔اپنے وقت کے بڑے شاعروں میں شمار ہوتے تھے ۔جان رابرٹ کاکلام مرصع ،سلیس اور پراثر ہے،انھوں نے [[غزل]] کے علاوہ [[نعت]]،[[سلام]] ،[[منقبت]] سب کچھ کہااور خوب کہا۔ انھوں نے اسلامیات کا گہرا مطالعہ کیا ۔حضوصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرت و تعلیمات سے اس قدر متاثر ہوئے کہ حمدونعت میں دل کا جذبہ بھی شامل ہوگیا اور انھوں نے مذہب اسلام قبول کرلیا۔[[جان رابرٹ]] کی یہ مرصع نعت ملاحظہ ہو:
۱۸۵۷ء سے نصف صدی قبل ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک بڑے افسر سرابراہام کے فرزند جان رابرٹ اُردو کے نامور شاعر گزرے ہیں۔ان کی پیدائش ہندوستان میں ہی ہوئی تھی،اس لیے اُردو ان کی مادری زبان بن گئی۔اپنے وقت کے بڑے شاعروں میں شمار ہوتے تھے ۔جان رابرٹ کاکلام مرصع ،سلیس اور پراثر ہے،انھوں نے [[غزل]] کے علاوہ [[نعت]]،[[سلام]] ،[[منقبت]] سب کچھ کہااور خوب کہا۔ انھوں نے اسلامیات کا گہرا مطالعہ کیا ۔حضوصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرت و تعلیمات سے اس قدر متاثر ہوئے کہ حمدونعت میں دل کا جذبہ بھی شامل ہوگیا اور انھوں نے مذہب اسلام قبول کرلیا۔جان رابرٹ کی یہ مرصع نعت ملاحظہ ہو:




سطر 168: سطر 168:




یہ [[نعت | نعت شریف]] ایک نسلاً انگریز شاعر اٹھارہویں صدی میں کہہ رہا ہے جو[[ شاہ حاتم]] کے بڑھاپے اور[[ ابرا ہیم ذوق | ذوقؔ ]] کی جوانی کازمانہ تھا۔اس لحاظ سے زبان کی سلاست اور کلام کی روانی حیرت انگیز ہے [[جان رابرٹ]] کا انتقال[[21 مئی ]] [[1828]] میں ہوا ۔یعنی ۱۸۵۷ء سے ۲۲ برس پہلے۔اسلامی ادبیات کے محقق نعت گو اور رثائی شاعری کے معروف سخنور عظیم شاعر جناب [[امن لکھنوی | گوپی ناتھ امنؔ لکھنوی ]]کے صاحبزادے ڈاکٹر دھر میندر ناتھ نے اپنی تحقیقی کتاب ’ہمارے رسول‘ میں [[جوہر دیو بندی]] ،[[مالک رام]]  اور ماہنامہ ’خاتون‘ کراچی کے ’رسول نمبر‘ کے حوالے سے ایک انگریز شاعر [[جارج فان توم]]  کاذکر کیا ہے جو [[اُردو]] اور [[فارسی]] دونوں میں طبع آزمائی کرتے تھے وہ صاحبؔ اور جرجیسؔ تخلص کرتے تھے۔۱۸۷۹ء میں ان کا انتقال مرادآباد میں ہوا تھا،انھیں بریلی کالج کے احاطے میں دفن کیاگیا۔[[جارج فان توم ]]کی ایک فارسی نعت شریف کے یہ شعر کس قدر والہانہ عقیدت کے ساتھ کہے گئے ہیں:
یہ نعت شریف ایک نسلاً انگریز شاعر اٹھارہویں صدی میں کہہ رہا ہے جو[[ شاہ حاتم]] کے بڑھاپے اور[[ ابرا ہیم ذوق | ذوقؔ ]] کی جوانی کازمانہ تھا۔اس لحاظ سے زبان کی سلاست اور کلام کی روانی حیرت انگیز ہے جان رابرٹ کاانتقال[[21 مئی ]] [[1828]] میں ہوا ۔یعنی ۱۸۵۷ء سے ۲۲ برس پہلے۔اسلامی ادبیات کے محقق نعت گو اور رثائی شاعری کے معروف سخنور عظیم شاعر جناب [[امن لکھنوی | گوپی ناتھ امنؔ لکھنوی ]]کے صاحبزادے ڈاکٹر دھر میندر ناتھ نے اپنی تحقیقی کتاب ’ہمارے رسول‘ میں جوہرؔ دیو بندی ،مالک رام صاحب اور ماہنامہ ’خاتون‘ کراچی کے ’رسول نمبر‘ کے حوالے سے ایک انگریز شاعر جارج فان توم کاذکر کیا ہے جو اُردو اور فارسی دونوں میں طبع آزمائی کرتے تھے وہ صاحبؔ اور جرجیسؔ تخلص کرتے تھے۔۱۸۷۹ء میں ان کا انتقال مرادآباد میں ہوا تھا،انھیں بریلی کالج کے احاطے میں دفن کیاگیا۔جارج فان کی ایک فارسی نعت شریف کے یہ شعر کس قدر والہانہ عقیدت کے ساتھ کہے گئے ہیں:




سطر 192: سطر 192:




دیسی عیسائی شعرائے کرام میں [[ہیریسن قربان  | مسٹر ڈی اے ہیریسن]] کا شمار بیسویں صدی کے نامور بزرگ شعرا میں ہوتا ہے ۔آپ کی پیدائش [[1919 | ۱۹۱۹]]ء میں مرادآباد میں ہوئی تھی،یہ معلوم نہ ہوسکا کہ ابھی حیات ہیں یانہیں ،اگر موجود ہیں تو ان کی عمر ۹۳ سال کی ہوگی ۔ [[ہیریسن قربان| ہیریسن صاحب قربانؔ]] نے اُردو ادبیات اورانگریزی میں ڈبل ایم اے اور بی ٹی کی اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں اور محکمہ تعلیم میں ذمہ دار عہدے پرفائز رہے۔ان کی کتابیں شائع ہوکر مقبول ہوئیں جن میں شیکسپئیر کی کہانیاں ،مثنوی داستانِ عجیب ، مسیح جہاں (ڈرامہ) ، علمی ادبی مضامین کا مجموعہ ’فکرحسین‘،حرفِ آرزو‘،’صلیب کادور‘ (شعری مجموعہ) ڈرامہ ’تصویر غالب‘، افسانوی مجموعہ ’سلگتے خواب‘ ۔ شاعری میں محبوب علی اختر فیروزآبادی ،[[ منور لکھنوی | علامہ بشیشور پرشاد منورؔ لکھنوی]] ،پادری ایس ایس ریحانی لکھنوی ،رتن ؔ پنڈ وری اور بخشی اخترؔ امرتسری جیسے مقتدر شعرا سے فن شعر میں رہنمائی حاصل کی آپ نے اُردو کے مسیحی شعرا کاایک مبسوط تذکرہ بھی مرتب کیا جس میں ہندوستان کے تمام ہی عیسائی شاعروں کاذکر اور نمونۂ کلام تحریر کیا ہے۔[[ہیریسن قربان | قربانؔ]] کی ایک مرصع نعت شریف دیکھیں ،اگر نام چھپا لیا جائے توکوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ ایک غیر مسلم کا کلام ہے:
دیسی عیسائی شعرائے کرام میں مسٹر ڈی اے ہیریسن کا شمار بیسویں صدی کے نامور بزرگ شعرا میں ہوتا ہے ۔آپ کی پیدائش [[1919 | ۱۹۱۹]]ء میں مرادآباد میں ہوئی تھی،یہ معلوم نہ ہوسکا کہ ابھی حیات ہیں یانہیں ،اگر موجود ہیں تو ان کی عمر ۹۳ سال کی ہوگی ۔ ہیریسن صاحب قربانؔ نے اُردو ادبیات اورانگریزی میں ڈبل ایم اے اور بی ٹی کی اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں اور محکمہ تعلیم میں ذمہ دار عہدے پرفائز رہے۔ان کی کتابیں شائع ہوکر مقبول ہوئیں جن میں شیکسپئیر کی کہانیاں ،مثنوی داستانِ عجیب ، مسیح جہاں (ڈرامہ) ، علمی ادبی مضامین کا مجموعہ ’فکرحسین‘،حرفِ آرزو‘،’صلیب کادور‘ (شعری مجموعہ) ڈرامہ ’تصویر غالب‘، افسانوی مجموعہ ’سلگتے خواب‘ ۔ شاعری میں محبوب علی اختر فیروزآبادی ،علامہ بشیشور پرشاد منورؔ لکھنوی،پادری ایس ایس ریحانی لکھنوی ،رتن ؔ پنڈ وری اور بخشی اخترؔ امرتسری جیسے مقتدر شعرا سے فن شعر میں رہنمائی حاصل کی آپ نے اُردو کے مسیحی شعرا کاایک مبسوط تذکرہ بھی مرتب کیا جس میں ہندوستان کے تمام ہی عیسائی شاعروں کاذکر اور نمونۂ کلام تحریر کیا ہے۔قربانؔ کی ایک مرصع نعت شریف دیکھیں ،اگر نام چھپا لیا جائے توکوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ ایک غیر مسلم کا کلام ہے:




سطر 224: سطر 224:




[[ نحیف دہلوی | جو لیئس نحیف دہلوی]] بیسویں صدی کے شعرا میں جانا پہچانا نام ہے۔گزشتہ ساتویں اور آٹھویں دہائی میں ان کے کلام کی خاصی شہرت تھی۔مشاعروں اور نشستوں میں کلام ترنم سے سناتے تھے اور پسند کیے جاتے تھے ۱۹۸۴ء میں ان کا مجموعہ کلام’آوازِدل‘ مکتبہ شانِ ہند سے شائع ہوا تھا۔اس کا پیش لفظ علامہ بشیشور پرشاد منورؔ لکھنوی نے تحریر کیاتھا۔[[نحیف دہلوی]] ۱۷ ستمبر ۱۹۲۷ء کو تحصیل باغبث کے موضع جگھولی میں پیدا ہوئے۔ان کے والد پادری تھے،نحیفؔ نے یو نائٹیڈ کرسچین کالج دہلی میں تعلیم پائی۔اس کے بعد فوج میں بھرتی ہو گئے،ان کا گھریلو نام جمشید اللہ بخش تھا،یہی نام ان کے اسکولی سرٹیفکیٹ میں درج تھا ۔۱۹۴۷ء میں اسی وجہ سے فوج کی نوکری چھوڑنی پڑی،اوراس کے بعد اپنانام جولیئس رکھ لیا۔زمانہ طالب علمی سے ہی شعروادب کا شوق تھا۔جب استاد شاعر موجؔ زیبائی سے تلمذ اختیار کیاتو نحیفؔ تخلص اختیار کیا ۔ان کا بے حد معیاری کلام ملک کے اخبارات وجرائد میں مسلسل شائع ہوتا رہا ۔[[منور لکھنوی | منورؔ لکھنوی]] نے ’آوازِ دل‘ کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ جو لئیس کے اشعار میں داغؔ کا رنگ جھلکتا ہے۔[[عرش صہبائی | عرشؔ صہبائی]]  کاخیال ہے کہ [[نحیف دہلوی | نحیفؔ ]] کے کلام میں اس دور کے جدید شاعروں کی طرح اُلجھاؤ اور ابہام نہیں ہے،بلکہ بڑے صاف اورواضح انداز میں شعر کہتے ہیں۔[[نحیف دہلوی |
جو لیئس [[نحیف دہلوی]] بیسویں صدی کے شعرا میں جانا پہچانا نام ہے۔گزشتہ ساتویں اور آٹھویں دہائی میں ان کے کلام کی خاصی شہرت تھی۔مشاعروں اور نشستوں میں کلام ترنم سے سناتے تھے اور پسند کیے جاتے تھے ۱۹۸۴ء میں ان کا مجموعہ کلام’آوازِدل‘ مکتبہ شانِ ہند سے شائع ہوا تھا۔اس کا پیش لفظ علامہ بشیشور پرشاد منورؔ لکھنوی نے تحریر کیاتھا۔[[نحیف دہلوی]] ۱۷ ستمبر ۱۹۲۷ء کو تحصیل باغبث کے موضع جگھولی میں پیدا ہوئے۔ان کے والد پادری تھے،نحیفؔ نے یو نائٹیڈ کرسچین کالج دہلی میں تعلیم پائی۔اس کے بعد فوج میں بھرتی ہو گئے،ان کا گھریلو نام جمشید اللہ بخش تھا،یہی نام ان کے اسکولی سرٹیفکیٹ میں درج تھا ۔۱۹۴۷ء میں اسی وجہ سے فوج کی نوکری چھوڑنی پڑی،اوراس کے بعد اپنانام جولیئس رکھ لیا۔زمانہ طالب علمی سے ہی شعروادب کا شوق تھا۔جب استاد شاعر موجؔ زیبائی سے تلمذ اختیار کیاتو نحیفؔ تخلص اختیار کیا ۔ان کا بے حد معیاری کلام ملک کے اخبارات وجرائد میں مسلسل شائع ہوتا رہا ۔[[منور لکھنوی | منورؔ لکھنوی]] نے ’آوازِ دل‘ کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ جو لئیس کے اشعار میں داغؔ کا رنگ جھلکتا ہے۔[[عرش صہبائی | عرشؔ صہبائی]]  کاخیال ہے کہ [[نحیف دہلوی | نحیفؔ ]] کے کلام میں اس دور کے جدید شاعروں کی طرح اُلجھاؤ اور ابہام نہیں ہے،بلکہ بڑے صاف اورواضح انداز میں شعر کہتے ہیں۔[[نحیف دہلوی |
  نحیفؔ ]]کی شاعری سلاستِ بیان اورصلابت زبان،سادگی اور بے تکلفی کا بہترین نمونہ ہے۔نحیفؔ دہلوی نے بہترین نعتیں بھی کہیں ‘ ملاحظہ کریں:
  نحیفؔ ]]کی شاعری سلاستِ بیان اورصلابت زبان،سادگی اور بے تکلفی کا بہترین نمونہ ہے۔نحیفؔ دہلوی نے بہترین نعتیں بھی کہیں ‘ ملاحظہ کریں:


براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)

اِس صفحہ پر مستعمل سانچہ حسب ذیل ہے: