"تبادلۂ خیال:کلیات" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 32: سطر 32:
* کلیات عزیز احسن، 2018  
* کلیات عزیز احسن، 2018  


ایسا گمان ہے کہ نعتیہ کلیات کی روایت ۱۳۳۴ ھ سے "کلیات محسن کاکوروی
ایسا گمان ہے کہ نعتیہ کلیات کی روایت ۱۳۳۴ ھ سے "کلیات محسن کاکوروی" کی طباعت ہوئی ۔  اُترپردیش اُردو اکادمی لکھنؤ (بھارت) نے 1982 میں اس کا آفسٹ ایڈیشن شائع کیا۔
   
   



نسخہ بمطابق 13:59، 23 جنوری 2018ء

دنیائے نعت کے معروف محقق و شاعر جناب عزیز احسن صاحب کو ان کے کلیات کی اشاعت پر بہت بہت مبارکباد ۔ اس سے پہلے گذشتہ سال علامہ شہزاد مجددی کے کلیات بھی منظرِ عام پر آئے تھے ۔ لفظ کلیات کو مد نظر رکھتے ہوئے دونوں بار ذہن میں ایک سوال نے سر اٹھایا کہ خاکم بدہن کیا شاعر نے مزید شاعری سے ہاتھ اٹھا لیا ہے ؟ لیکن اس سوال کو زبان تک لانے سے پہلے ضروری تھا کہ میں اصطلاح " کلیات" کا کچھ جائزہ لے لیتا ۔ حاصل مطالعہ پیش خدمت ہے

لغوی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو اردو لغت میں کلیات کی بابت کچھ یوں درج ہے

عربی زبان سے مشتق اسم 'کلیہ' کا 'ہ' حذف کر 'ات' بطور لاحقۂ جمع ملنے سے 'کلیات' بنا۔ اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨١٨ء کو "کلیات انشا" میں مستعمل ملتا ہے۔ <ref>http://urdulughat.info/words/8711-%DA%A9%D9%84%DB%8C%D8%A7%D8%AA </ref>

یہاں سے ایک اہم بات بھی معلوم ہوئی کہ اردو تاریخ کے سب سے پہلے کلیات ، "کلیات انشا" ہیں ۔ "کلیات انشاء" ان کے بیٹے خلیل نے شائع کیے ۔ یاد رہے کہ انشا کی وفات ۱۸۰۸ میں ہوئی <ref> ڈاکٹر آمنہ خاتون، مجلس ترقی ادب لاہور، کلیات انشا، مقدمہ، ص 29 </ref> ۔اور ان کے کلیات ۱۸۱۸ میں شائع ہوئے ۔ "کلیات انشا " انشا کی تمام معلوم شاعری پر مشتمل ہیں ۔ تا ہم نہایت معتبر محقق ڈاکٹر شہزاد احمد، کراچی اپنے مضمون " نعتیہ کلیات کی روایت ۔ایک مطالعاتی جائزہ <ref> نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 25 </ref> میں کلیات کے بارے فرماتے ہیں

" کلیات (کل۔لی۔یات) عربی اسم ہے مذکر اور مونث دونوں طرح سے بولا جاسکتا ہے۔ کُلّی کی جمع ہے۔ ایک ہی شخص کی منظومات یا تصنیفات کے مجموعے کو کلیات کہہ سکتے ہیں۔ نظم اور نثر کی اس میں قید نہیں۔ دونوں طریقوں سے یہ کلیات ہی کہلائے گا۔"

"کلیات " کے کسی بھی حوالے سے میری نظر میں یہ واحد مضمون ہے ۔ اس لیے اسی کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہوگا ۔ ڈاکٹر صاحب نے اصناف و موضوعات کے تحت بھی کلیات کی تقسیم کی ہے ۔ آپ فرماتے ہیں

کلیات کی روایت کو ہم بظاہردو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ درحقیقت یہ الگ الگ دو موضوعات ہیں جس کی اہمیت اپنے اپنے شعبے میں مسلّم ہے۔

۱۔ عام شعری منظومات جنھیں کلیات غزل کی شکل دے دی جاتی ہے۔

۲۔ نعتیہ شعری منظومات جنھیں کلیات نعت سے مزین کیا جاتا ہے۔

گذشتہ سال اس تقسیم میں اس وقت اضافہ ہوگیا راجا رشید محمود، لاہور کی حمد سے رغبت پر بزم رنگ ِ ادب کی طرف سے جناب شاعر علی شاعر، کراچی نے "شاعر ِ حمد و نعت" کا خطاب دیتے ہوئے " کلیات ِ حمد " بھی شائع کر دیے ۔

ڈاکٹر شہزاد احمد صاحب نے اس مضمون میں کل 28 نعتیہ کلیات کا ذکر کیا ہے ۔ اور میری معلومات کے مطابق اب تک ان میں 4 مزید کلیات کا اضافہ ہو چکا ہے ۔

  • کلیات عزیز الدین خاکی ، 2017
  • کلیات حمد، رشید محمود راجا، 2017
  • کلیات شہزاد مجددی، 2017
  • کلیات عزیز احسن، 2018

ایسا گمان ہے کہ نعتیہ کلیات کی روایت ۱۳۳۴ ھ سے "کلیات محسن کاکوروی" کی طباعت ہوئی ۔ اُترپردیش اُردو اکادمی لکھنؤ (بھارت) نے 1982 میں اس کا آفسٹ ایڈیشن شائع کیا۔


اپنی کم مطالعگی کا احساس ہے اسی لیے یہ موضوع آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں ۔

مجھے روایتی شعراء کے کلیات کی تاریخ کا زیادہ علم نہیں لیکن نعت گو شعراء میں اپنی زندگی ہی میں کلام کو اکٹھا کرکے طباعت کا انتظام کرنے کی رسم شاید پروفیسر عاصی کرنالی سے چلی تھی انہیں نے 1994 میں اپنی اس وقت کی تک کی شاعری کو اکٹھا کرکے "تمام و نا تمام" کے نام سے شائع کیا اور اسے بعد ان کا ایک اور مجموعہ کلام بھی منصہ شہود پر آیا ۔ عاصی کرنالی صاحب کو بہر حال یہ مارجن ضرور ملتا ہے کہ انہوں نے اس مجموعے کا نام " تمام و نا تمام رکھا ۔ وہ چونکہ حیات تھے اور جانتے تھے کہ مزید شاعری ابھی سامنے آئے گی تو اسے "کلیات ِ عاصی کرنالی " کے نام سے شائع نہ کروایا ۔

لیکن ابھی حال میں یہ اپنے کلیات کی طباعت کی گویا ایک رسم چل پڑی ہے ۔ جناب شاعر علی شاعر، جناب عزیز الدین خاکی جناب شہزاد مجددی اور اب جناب عزیز احسن صاحب کے کلیات منظر عام پر ائے ہیں ۔ اللہ کریم ان صاحبان کو صحت و سلامتی والی زندگی دے ۔ ان سے ابھِی اور عمدہ شاعری کی توقع ہے تو ان "کلیات" کو "کلیات" کیوں کر کہا جائے ؟ مجھے یہ کچھ عجیب لگتا ہے ۔ یسے لفظ "کل " کی تاثیر کو بدلا جا رہا ہو۔

میری زیادہ توجہ نعت کی طرف رہتی ہے تو میں نے نعت گو شعراء کی مثالیں دی وگرنہ مجھے یقین ہے کہ بہت سے شعراء کے کلیات بھی ان کے زندگی ہی میں شائع کیے گئے ہوں گے ۔

عین ممکن ہے کہ اس رسم کی جڑیں روایت میں اتر چکی ہوں یا یا رسم پھوٹی ہی روایت سے ہو اور مجھے علم نہ ہو۔ ایسی صورت میں سمع خراشی کی معذرت بصورت دیگر،

اہلیان علم سے درخواست ہے کہ وہ روشنی ڈالیں

1۔ زندگی کے کسی خاص مقام تک ہونے والی کل شاعری کو اگر شائع کیا جائے تو کیا اسے کلیات کی معروف تعریف کے مطابق کلیات کہا جا سکتا ہے ؟

2۔ اگر یہ کلیات کی تعریف پر پورے نہیں اترتے تو کیا ان کے لیے ایک نئی اصطلاح کی ضرورت نہیں ؟ مثلا حالیات، دستیات ، مجموعات وغیرہ وغیرہ ۔ لازمی بات شروع میں کچھ ناموس لگے گا پھر رائج ہو جائے گا ۔ اگر حالیات بطرز اقبالیات و غالیبات ، حالی تک نہ جاتا تو شاید سب سے مناسب رہتا۔ لیکن اب زرخیز ذہن کوئی نئی اور مربوط اصطلاح نکال سکتے ہیں ۔