"تبادلۂ خیال:نعت ورثہ - تنقیدی نشیست 134" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
(نیا صفحہ: مطلع بہت خوبصورت ہے..... آنکھ کے تل میں سجائے شہر طیبہ کا جمال... واااااااہ واااااااہ واااااااہ چھوڑ...)
 
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{بسم اللہ  }}
=== تنقیدی نشست - 134 ===
شاعر :  [[کاشف عرفان ]]
شرکاء : [[حافظ محبوب احمد ]] | [[مسعود رحمان ]] | [[ڈاکٹر صغیر احمد صغیر ]] | [[صابر رضوی ]] | [[اشرف یوسفی ]] | [[فیض احمد شعلہ ]] | [[ابو الحسن خاور ]]
=== {{نعت }} ===


مطلع بہت خوبصورت ہے.....
آنکھ کے تل میں سجائے شہر طیبہ کا جمال... واااااااہ واااااااہ واااااااہ
چھوڑ کر اپنی زمیں اور لوگ ان کے نام پر...
ناران جسا تھر... ترکیب درست نہیں. (ناران خوبصورت لہلہاتے پہاڑوں کے درمیان وادی ہے جبکہ تھر ایک ریگستان ہے)
باقی اشعار پر داد.....
(ڈاکٹر صغیر احمد صغیر)
1
Manage
Like
· Reply · 2d
Hafiz Mehboob Ahmad
Hafiz Mehboob Ahmad
بحر عشق شاہ بحر و بر نکل آیا ہوں میں
بحر عشق شاہ بحر و بر نکل آیا ہوں میں
چھوڑ کر دنیا ترا محور نکل آیا ہوں میں
چھوڑ کر دنیا ترا محور نکل آیا ہوں میں
........مطلع کےدونوں مصرع اپنےابلاغ سےقاصرنظرآرہےہیں. بحرعشق شاہ، کیامنادی ہے؟ اگرہےتواسکی کوئی علامتی تصریح نہیں ہے.اور "بحروبرنکل آیاہوں میں "اسکےکیامعنی ہیں؟ کیاشاعرکواپنےبحروبرہونےکاادراک ہؤاہے یاکیاشاعربھروبرکی طرف نکل آیاہے.ایسالگتاہےکہ شاعرنےمطلع آخرمیں کہاہےاوروہ تھکاوٹ اورعجلت کی نذرہوتانظرآرہے
 
میں جریدہ ہوں زمیں پر عشق کی تنظیم کا
میں جریدہ ہوں زمیں پر عشق کی تنظیم کا
نعت کا اسلوب ہوں گھر گھر نکل آیا ہوں میں
نعت کا اسلوب ہوں گھر گھر نکل آیا ہوں میں
........شعرکےمفہوم میں صراحت نہیں ہے.گھرگھرنکل آنےسےکیامرادہے.اگریہ مرادہےکہ شاعرکےاسلوبِ نعت کوگھرگھرمیں دیکھاجاسکتاہےتواس کی کوئی دلیل اورقرینہ بھی ساتھ مذکورہوناچاہئےتھا
 
آنکھ کے تل میں سجائے شہر طیبہ کا جمال
آنکھ کے تل میں سجائے شہر طیبہ کا جمال
اور نظر پر باندھ کر منظر نکل آیا ہوں میں
اور نظر پر باندھ کر منظر نکل آیا ہوں میں
........دوسرامصرع پھرمشکل ردیف کی نزرہوتانظرآرہاہے.بالکل غیرواضح ہے
 
پیش کی میں نے درودوں میں سجا کر ہر دعا
پیش کی میں نے درودوں میں سجا کر ہر دعا
اور غم دنیا سے پھر اکثر نکل آیا ہوں میں
اور غم دنیا سے پھر اکثر نکل آیا ہوں میں
........یہ پہلاشعر ہؤاہےجس میں ردیف نبھتی نظرآرہی ہے
 
لیکن دوسرےمصرع میں اگر "پھر "کی جگہ یوں ہوتاتوشعر شعر سریع الفہم ہوتا
سلسبیل جنت ارضی سے سیرابی کے بعد
سلسبیل جنت ارضی سے سیرابی کے بعد
بوند تھا اور بن کے اب ساگر نکل آیا ہوں میں
بوند تھا اور بن کے اب ساگر نکل آیا ہوں میں
......ماشاء اللہ بہت پیاراشعر شاعرکےلئےبہت بہت داد
 
چھوڑ کر اپنی زمیں اور لوگ تیرے نام پر
چھوڑ کر اپنی زمیں اور لوگ تیرے نام پر
فیصلہ مشکل بہت تھا، پر، نکل آیا ہوں میں
فیصلہ مشکل بہت تھا، پر، نکل آیا ہوں میں
......ماشاء اللہ یہ بھی اچھاشعر ہے اگرچہ پرنکلنا..چونکہ بزات خود ایک فعل ہے لہذاتعقیدِ معنوی کاامکان پیداہورہاہے
 
مضمحل دل پر فراق شہر طیبہ کا اثر
مضمحل دل پر فراق شہر طیبہ کا اثر
چھوڑ کر ناران جیسے تھر نکل آیا ہوں میں
چھوڑ کر ناران جیسے تھر نکل آیا ہوں میں
........ماشاء اللہ یہ بھی اچھاشعرہے بالخصوص عصر حاضرکےدومعروف مقامات کواستعارہ کےطورپرشاعرنےاستعمال کیاہے.شاعرکےلئےبہت بہت داد
 
ایک ہجرت ذات کے اندر ، سفر تیری طرف
ایک ہجرت ذات کے اندر ، سفر تیری طرف
اے مرے آقا، مرے سرور نکل آیا ہوں میں
اے مرے آقا، مرے سرور نکل آیا ہوں میں
...دونوں مصرعے تعقیدسےلبریزہیں لہذاریاضیاتی محنت سےگزرکرتب معنوی تفہیم ہوتی ہے پھرقوموں کادرست جگہ لگنا بہت اہم ہے. جوکہ نہیں لگائےگئے
 
میں تھا کاشف کنکر بے مایہ اپنی کھوج میں
میں تھا کاشف کنکر بے مایہ اپنی کھوج میں
بن کے بحر شاہ سے گوہر نکل آیا ہوں میں
بن کے بحر شاہ سے گوہر نکل آیا ہوں میں
...کھوج مونث باندھاہے.اسےدیکھ لیناچاہئے.شعر واضح المفہوم ہے.اگرچہ مناسبت کالحاظ نہیں رکھاگیا.گوہر میں کنکر تبدیل نہیں ہوتابلکہ آپ نیساں کاقطرہ نکلتاہے.تواس شعر میں اگرکنکرکی جگہ قطرہ کرلیاجائےتومسئلہ حل ہوجائے
میں تھاکاشف قطرۂ بےمایہ اپنےکھوج میں
بن کےبحرِشاہ سےگوہرنکل آیاہوں میں
مجموعی طورپریہ نعت مشکل ردیف کی وجہ سےشاعرکےلئےمشکل پیداکرتی نظرآرہی ہے.اورزیادہ تراشعارمیں ردیف مصرعےکےپیوست نظرنہیں آرہی
2
Manage
Like
· Reply · 2d
View 1 more reply
Hafiz Mehboob Ahmad
Hafiz Mehboob Ahmad Masood Akhtar
شکریہ سر.آپ جیسےصاحب علم وہنرلوگوں کی مصاحبت میں بہت کچھ سیکھنےکومل رہاہے.جزاک اللہ
Manage
Like
· Reply · 2d
ابوالحسن خاور
ابوالحسن خاور
حافظ صاحب ، آپ تو کمال در کمال کرتے جا رہے ہیں
1
Edit or delete this
Like
· Reply · 20h
ابوالحسن خاور
Write a reply...


Faiz Ahmad Shola
=== گفتگو ===
Faiz Ahmad Shola
 
واہ محترم۔ بہت تفصیلی گفتگو ہے اور بہت کچھ علمی بھی ہے۔اس کے لےء حافظ صاحب کوبہت بہت داد ۔ میں نے بھی اس پر کچھ اپنی رائے رکھی ہے لیکن طویل ہونے کی وجہ سے کمنٹ باکس میں نہیں آ سکی۔اس لےء ایڈمن صاحب کو پوسٹ کر دیا ہے۔ اگر انھوں نے موزوں سمجھا تو شاید پوسٹ کر دیں گے ۔
 
1
بحر عشق شاہ بحر و بر نکل آیا ہوں میں
Manage
Like
· Reply · 2d
Hide 12 Replies
ابوالحسن خاور
ابوالحسن خاور
جی ضرور،میں ا س کے لیے تیار ہوں ۔ آپ کی رائے بہت اہم ہے ۔ ایک ممکنہ حل یہ بھی ہے کہ آپ دو یا تین حصوں میں لگا دیں تاکہ رائے آپ ہی کی آئی ڈی سے آجائے ۔ جیسے آپ حکم کریں ۔ میں بھی اجزاء کی شکل میں یہاں پیش کر سکتا ہوں ۔
1
Edit or delete this
Like
· Reply · 1d · Edited
Faiz Ahmad Shola
Faiz Ahmad Shola
ابوالحسن خاور میں نے تو کل رات ہی ایڈمن کی منظوری کے لےء پوسٹ کر دی ہے۔ آپ جیسا بہتر سمجھیں کریں۔
Manage
Like
· Reply · 1d
Faiz Ahmad Shola
Faiz Ahmad Shola
تبصرہ:
معنوی اعتبار سے مطلع بہت عمدہ ہے۔ لیکن لفظوں کے نامناسب انتخاب نے شعر کی معنوی و صوروی حسن کو متاثر کر دیا ہے۔مصرع اولیٰ میں دو جگہ "بحر" کا استعمال ہوا ہے۔ اول مقام پر بحر بہ ہاےء ہوز یعنی "بہر" کا محل ہے۔ بہر عشق یعنی عشق کے لےء۔اس سے مفہوم و…See More
Manage
Like
· Reply · 1d
Faiz Ahmad Shola
Faiz Ahmad Shola
دوسرا شعر:
واہ۔واہ۔واہ۔ مصرع اولیٰ میں شعریت بھرپور ہے۔ روانی بھی متاثر کن ہے۔ لیکن مصرع ثانی میں اظہار کی شگفتگی کا فقدان ہے۔ نظر پر باندھنا کی ترکیب خوبصورت نہیں لگ رہی ہے اور شاید خلاف محاورہ بھی ہو۔ دوسرا مصرع یوں ہو سکتا تھا۔۔ ع آنکھ میں رکھ کر ہر…See More
Manage
Like
· Reply · 1d
Faiz Ahmad Shola
Faiz Ahmad Shola
چھٹا شعر:
بہت خوب۔ ناران اور تھر جیسے جگہوں کے نام کی شمولیت سے اس شعر میں جان آ گیء ہے۔ " تھر " بطور قافیہ استعمال کرنے پر شاعر خصوصی داد کا مستحق ہے۔ نعت میں اس قافیہ کو کھپانا زرا مشکل تھا۔…See More
Manage
Like
· Reply · 1d
Faiz Ahmad Shola
Faiz Ahmad Shola
پانچواں شعر:
یہ شعر بھی قابلِ داد ہے۔ عشق رسول میں سب کچھ تیاگ دینے کی ترغیب دیتا ہوا یہ شعر ہمیں ہمالیایء سلطنت کپل وستو کے اس سدھارتھ کی یا پھر مخدوم سمنانی رحمۃ اللہ علیہ کی یاد دلاتا ہے جنھوں نے بادشاہت کی شان و شوکت کو ٹھکرا کر تلاش حق میں رخت سفر…See More
Manage
Like
· Reply · 1d
Faiz Ahmad Shola
Faiz Ahmad Shola
مقطع:
مقطع بھی اچھے خیال کا ترجمان ہے۔ یہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و کمال کا اعتراف ہے جن کے زیر سایہ عرب کے بدو، سلطنت عظمی کے مالک و مختار ہوگےء۔ ان میں نہ صرف مادی ترقی ہویء بلکہ وہ روحانی اقدار کے بھی امین ہو گےء۔ مصرع اولیٰ میں "کھوج" شعر م…See More
Manage
Like
· Reply · 1d
ابوالحسن خاور
ابوالحسن خاور
اوہ سر بہت شکریہ ۔ لیکن اگر مین کمنٹس میں لگایا ہوتا جیسے صابر بھائی نے لگایا ہے تو اور دوست بھِی دیکھتے
Edit or delete this
Like
· Reply · 1d
Faiz Ahmad Shola
Faiz Ahmad Shola
ابوالحسن خاور اوہ! سوری۔ یہ بعد میں سمجھا۔ کیا اب ممکن ہے؟
Manage
Like
· Reply · 1d
ابوالحسن خاور
ابوالحسن خاور
جی جی
Edit or delete this
Like
· Reply · 1d
ابوالحسن خاور
ابوالحسن خاور
کیوں نہیں ۔ لگا دیں
Edit or delete this
Like
· Reply · 1d
Faiz Ahmad Shola
Faiz Ahmad Shola
اوکے۔
1
Manage
Love
· Reply · 1d
ابوالحسن خاور
Write a reply...


ابوالحسن خاور
ابوالحسن خاور Mtmrahi Rahi
Edit or delete this
Like
· Reply · 1d
Sabir Rizvi
Sabir Rizvi
بحرِ عشقِ شاہِ بحر و بر نکل آیا ہوں میں
چھوڑ کر دنیا ترا محور نکل آیا ہوں میں
چھوڑ کر دنیا ترا محور نکل آیا ہوں میں
مطلع میں پہلا لفظ املاء کی غلطی کا شکار ہوا ۔۔۔بحرِ عشقِ بحر و بر ۔۔۔۔بہرِ عشقِ بحر بر ۔۔۔۔ کریں تو بحر اور بہر میں جو رعایتِ لفظی ہے اس سے شعر میں حسن پیدا ہوتا ہے۔ میرے خیال میں شاعر نے مطلع یوں کہاں ہے
بہرِ عشقِ شاہِ بحر بر نکل آیا ہوں میں
چھوڑ کر دنیا ترا محور نکل آیا ہوں میں
یعنی شاہِ بحر و بر کے عشق کے لیے میں دنیا کا محور چھوڑ کر نکل آیا ہوں ۔۔۔۔اب محور سے نکلنا خود مرکز گریز قوت کی نشان دہی کرتا ہے اس سے نفسانی خواہشات کے چنگل سے عشقِ محمدی کی طرف سفر کا اظہار ہوتا ہے جو بہر صورت بہت خوب ہے۔ مطلع کی بہت داد
1
Manage
Like
· Reply · 1d
Sabir Rizvi
Sabir Rizvi
میں جریدہ ہوں زمیں پر عشق کی تنظیم کا
نعت کا اسلوب ہوں گھر گھر نکل آیا ہوں میں
نعت کا لفظ آنے کے باوجود یہ نعت کا شعر نہیں ہے۔ کیوں کہ مدحِ سرکار سے زیادہ اس میں تعلی ہے۔ پھر یہ کہ دوسرا مصرع عمدہ ہوا تھا ۔۔۔ پہلا مصرع اس کے ساتھ تطابق نہیں کر پایا۔ دو مصرعے ہیں اور دونوں دعوے ہیں ۔۔۔پہلے میں خود کو جریدہ اور دوسرے میں اسلوب ۔۔۔ لیکن دونوں دعووں کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ دوسرے مصرع کے ساتھ کوئی اور گرہ لگائیں تو امکان ہے کہ اچھا شعر عطا ہو کیوں کہ دوسرا مصرع بہت عمدہ ہے
1
Manage
Like
· Reply · 1d
Sabir Rizvi
Sabir Rizvi
آنکھ کے تل میں سجا کر شہرِ طیبہ کا جمال
اور نظر میں باندھ کر منظر نکل آیا ہوں میں
شہرطیبہ کے جمال کو آنکھ کے تل میں سجا لیا اور نظر پر منظر باندھ کر مدینہ سے واپس آ رہے ہیں ۔۔۔۔ مضمون عمدہ ہے لیکن دوسرے مصرع کی بندش کچھ کمزور محسوس ہو رہی ہے۔ اور کی جگہ کوئی اور لفظ آتا تو شاید شعر اعلا ہو جاتا
1
Manage
Like
· Reply · 1d
Sabir Rizvi
Sabir Rizvi
پیش کی میں نے درودوں میں سجا کر ہر دعا
اور غمِ دنیا سے پھر اکثر نکل آیا ہوں میں
اور ۔۔۔پھر ۔۔۔حشو ہیں ۔۔۔مصرع نہایت کمزور ہو گیا ہے اس سے
1
Manage
Like
· Reply · 1d
Sabir Rizvi
Sabir Rizvi
سلسبیل جنت ارضی سے سیرابی کے بعد
بوند تھا اور بن کے اب ساگر نکل آیا ہوں میں
دوسرا مصرع کمزور ہے لیکن شعر کا مضمون اچھا ہے۔ ساگر سے پہلے والا حصہ کمزور ہے۔ بن کے ان کے لطف کا / سے ۔۔ ۔ کچھ اس انداز کا مصرع
چھوڑ کر اپنی زمیں اور لوگ تیرے نام پر
فیصلہ مشکل بہت تھا، پر، نکل آیا ہوں میں
بہت عمدہ۔ مطلع کی بازگشت ہے اس شعر میں
مضمحل دل پر فراق شہر طیبہ کا اثر
چھوڑ کر ناران جیسے تھر نکل آیا ہوں میں
بہت عمدہ ۔۔۔۔ تھر نکل آیا ہوں میں ۔۔۔ اس کو تھر میں نکل آیا ہوں ۔۔۔۔ سمجھا جائے ۔۔۔۔تو مفہوم و معانی پرکیف نظر آتے ہیں۔۔۔ پھر شعر میں ناران کا ہرکیف ماحول جسے مدینہ سے مماثل کہا گیا ہے اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو تھر کہا گیا ہے ۔۔۔ کیا خوب تشابہ ہے ۔۔۔یعنی مدینہ کے جنتِ ارضی کا مفہوم اور اپنے گھر کو صحرا کہنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور بھی پہلو ہیں اس شعر کے ۔۔۔۔۔ بہت اچھا شعر ہے ۔۔۔۔۔۔ بہت داد
ایک ہجرت ذات کے اندر ، سفر تیری طرف
اے مرے آقا، مرے سرور نکل آیا ہوں میں
یہ بھی اچھا ہے۔ پہلے مصرع کی بنت کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔ مصرع کا نثری پیرایہ اگر نحوی اعتبار سے مکمل نہ ہو تو کوشش کر کے اسے بہتر کیا جائے ۔۔۔اس مصرع کا نثری پیکر ہی کمزور ہے تو شعر میں مصرع اولا کے طور پر کیا کشش ہو گی؟ ؟؟ دوبارہ کہہ لیں مصرع۔۔۔۔ مطلع پھر سے گونج رہا ہے یہاں بھی
میں تھا کاشف کنکر بے مایہ اپنی کھوج میں
بن کے بحر شاہ سے گوہر نکل آیا ہوں میں
واہ واہ واہ ۔۔۔ بہت ہی اعلا اور شاندار شعر ہے۔ کنکر کی تطہیر کیسے ہوئی ہو گی بحرِ شاہ میں کہ وہ بھی گوہر بن گیا ۔۔۔۔ کیا کہنے ۔۔۔ رسالت مآب صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک شان ۔۔۔ ویزکیہم ۔۔۔۔ نفوس کا تذکیہ کرنا بھی ہے۔ اور مدینہ کی فضا بھی وہ تزکیہ کرتی ہے۔۔۔۔ کیا عمدگی سے آپ نے اس آیت کو بیان کیا ہے ۔۔۔۔سبحان اللہ سبحان اللہ
1
Manage
Like
· Reply · 1d · Edited
Hafiz Mehboob Ahmad
Hafiz Mehboob Ahmad Sabir Rizvi
کنکرِ بےمایہ کی ترکیب کیادرست ہے؟ کنکرغالباہندی لفظ نہیں ..؟
Manage
Like
· Reply · 1d
Sabir Rizvi
Sabir Rizvi Hafiz Mehboob Ahmad
عربی اور فارسی کے مرکبات درست ہونے کی توضیحات کیا کیا ہیں ؟؟؟؟
1
Manage
Like
· Reply · 1d
Sabir Rizvi
Sabir Rizvi Hafiz Mehboob Ahmad
کنکر پراکرت زبان کا لفظ ہے
1
Manage
Like
· Reply · 1d
ابوالحسن خاور
ابوالحسن خاور Sabir Rizvi
کیا کمال ہے کہ ہم یہاں بھی ہم خیال ہیں :)
1
Edit or delete this
Like
· Reply · 1d
Hafiz Mehboob Ahmad
Hafiz Mehboob Ahmad Sabir Rizvi
موجودہ رائج الوقت قواعدکےمطابق توپھریہ ترکیب درست نہیں ہے..
1
Manage
Like
· Reply · 1d
Muhammad Ramzan Madni
Muhammad Ramzan Madni Sabir Rizvi بن کےان کے لطف کا مظہر نکل آیا ہوں میں
1
Manage
Like
· Reply · 1d
ابوالحسن خاور
Write a reply...


Ashraf YousafiActive Now
صغیر احمد صغیر : مطلع بہت خوبصورت ہے
Ashraf Yousafi
 
تنقیدی نشست : 134
حافظ محبوب احمد: مطلع کےدونوں مصرع اپنےابلاغ سےقاصرنظرآرہےہیں. بحرعشق شاہ، کیامنادی ہے؟ اگرہےتواسکی کوئی علامتی تصریح نہیں ہے.اور "بحروبرنکل آیاہوں میں "اسکےکیامعنی ہیں؟ کیاشاعرکواپنےبحروبرہونےکاادراک ہؤاہے یاکیاشاعربھروبرکی طرف نکل آیاہے.ایسالگتاہےکہ شاعرنےمطلع آخرمیں کہاہےاوروہ تھکاوٹ اورعجلت کی نذرہوتانظرآرہے
ان دوستوں کا شکریہ جنہوں نے اپنی نعتیں تنقیدی نشست کے لیے بھیج رکھی ہیں ۔ باری آنے پر ضرور پیش کی جائیں گے ۔ باقی دوستوں سے بھی درخواست ہے کہ اپنی تخلیق پر " برائے گفتگو" ضرور لکھا کریں ۔ …See More
2
Manage
Love
· Reply · 1d · Edited
Sabir Rizvi
Sabir Rizvi Ashraf Yousafi
جس نعت کو آپ مکمل ہڑھ نہیں سکتے اس پر فتویٰ کیسے صادر کر سکتے ہیں۔ نعت میں ایک شعر ایسا ہے جس میں تعلی زیادہ ہونے سے شعر نعت سے خارج ہوگیا پر آپ نے مکمل نعت پر اس کا حکم لگا دیا ۔۔۔ اچھے شعر بھی ہیں ۔۔۔
Manage
Like
· Reply · 1d · Edited
ابوالحسن خاور
ابوالحسن خاور
سر نعت ورثہ ایک پینل ہی تو ہے ۔ احباب دوستوں میں اور وال پر نعت مبارکہ پیش کرنے سے قبل یہاں پر نعت پیش کرتے ہیں ۔
نعت کے دائرے میں کیا آتا ہے اور کیا نہیں اس پر علمائے نعت اور احباب میں اختلاف ہے ۔ سب کا ایک نقطے پر اکٹھے ہونا مشکل ہے ۔ …See More
Edit or delete this
Like
· Reply · 1d
ابوالحسن خاور
ابوالحسن خاور
نعت میں اگر کوئی
خود کو دیکھا تو ترا جود کرم یاد آیا …See More
Edit or delete this
Like
· Reply · 1d · Edited
Ashraf YousafiActive Now
Ashraf Yousafi
ابوالحسن خاور صاحب اصل بات کو قرینے کی ہے نا
1
Manage
Love
· Reply · 1d
ابوالحسن خاور
Write a reply...


Hafiz Mehboob Ahmad
صابر رضوی: مطلع میں پہلا لفظ املاء کی غلطی کا شکار ہوا ۔۔۔بحرِ عشقِ بحر و بر ۔۔۔۔بہرِ عشقِ بحر بر ۔۔۔۔ کریں تو بحر اور بہر میں جو رعایتِ لفظی ہے اس سے شعر میں حسن پیدا ہوتا ہے۔ میرے خیال میں شاعر نے مطلع یوں کہاں ہے ۔ بہر عشق شاہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی شاہِ بحر و بر کے عشق کے لیے میں دنیا کا محور چھوڑ کر نکل آیا ہوں ۔۔۔۔اب محور سے نکلنا خود مرکز گریز قوت کی نشان دہی کرتا ہے اس سے نفسانی خواہشات کے چنگل سے عشقِ محمدی کی طرف سفر کا اظہار ہوتا ہے جو بہر صورت بہت خوب ہے۔ مطلع کی بہت داد
Hafiz Mehboob Ahmad
صابررضوی صاحب..اس مسئلےپرکبھی بھرپوررہنماگفتگوفرمائیں کہ اگرشاعراپنےاندرکسی تجلی تاتعلی کاژکرکررہاہےاورساتھ میں یہ بھی مذکورہےکہ اس کاسببِ محض خورشیدِرسالت ہےتوایسےشعرکوغیرنعتیہ کیونکرقراردیاجاسکتاہے.
اصل میں نعتیہ مضامین کی جس طرح اقسام وانواع ہیں اسی طرح ان مضامین کوپیش کرنےکےاسالیب بھی مختلف النوع ہیں
3
Manage
Love
· Reply · 1d
ابوالحسن خاور
ابوالحسن خاور
نعت میں اگر کوئی
خود کو دیکھا تو ترا جود کرم یاد آیا
کے ذیل میں کوئی قرینے سے شعر کہتا ہے تو میں اسے نعت ہی مانتا ہوں
Edit or delete this
Like
· Reply · 1d · Edited
Sabir Rizvi
Sabir Rizvi Hafiz Mehboob Ahmad
بہت عمدہ سوال اٹھایا آپ نے۔ ہم اس پر گفتگو خود بھی کرتے ہیں اور احباب کو بھی دعوت دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ لیکن الگ پوسٹ میں کریں گے ان شاء اللہ
2
Manage
Like
· Reply · 1d
Hafiz Mehboob Ahmad
Hafiz Mehboob Ahmad Sabir Rizvi
شکریہ..
Manage
Like
· Reply · 1d
ابوالحسن خاور
Write a reply...


Faiz Ahmad Shola
فیض احمد شعلہ :معنوی اعتبار سے مطلع بہت عمدہ ہے۔ لیکن لفظوں کے نامناسب انتخاب نے شعر کی معنوی و صوروی حسن کو متاثر کر دیا ہے۔مصرع اولیٰ میں دو جگہ "بحر" کا استعمال ہوا ہے۔ اول مقام پر بحر بہ ہاےء ہوز یعنی "بہر" کا محل ہے۔ بہر عشق یعنی عشق کے لےء۔اس سے مفہوم واضح ہوتا۔ شاہ بحر وبر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے لےء بطور استعارہ لایا گیا ہے۔ اس طرح مصرع اولیٰ میں کہا گیا ہے کہ حضور پر نور کے عشق میں شاعر دنیا کی لذتوں یا آشاءسوں سے نکل آیا ہے۔
Faiz Ahmad Shola
تبصرہ:
معنوی اعتبار سے مطلع بہت عمدہ ہے۔ لیکن لفظوں کے نامناسب انتخاب نے شعر کی معنوی و صوروی حسن کو متاثر کر دیا ہے۔مصرع اولیٰ میں دو جگہ "بحر" کا استعمال ہوا ہے۔ اول مقام پر بحر بہ ہاےء ہوز یعنی "بہر" کا محل ہے۔ بہر عشق یعنی عشق کے لےء۔اس سے مفہوم واضح ہوتا۔ شاہ بحر وبر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے لےء بطور استعارہ لایا گیا ہے۔ اس طرح مصرع اولیٰ میں کہا گیا ہے کہ حضور پر نور کے عشق میں شاعر دنیا کی لذتوں یا آشاءسوں سے نکل آیا ہے۔
لیکن مصرع ثانی میں لفظ محور محل نظر ہے۔یہ حرف حشو محسوس ہورہاہے۔ اس کی جگہ لفظ چکر اگر لا یا جاےء تو کچھ بات بن سکتی ہے ۔ہر چند کہ یہ لفظ سماعت پر گراں گزر سکتا ہے۔ لیکن کم از کم معنوی سقم دور ہو جائے گا۔ دوسرا مصرع یوں ہوسکتا ہے۔ ع۔ چھوڑ کر دنیا ترا چکر نکل آیا ہوں میں
لیکن مصرع ثانی میں لفظ محور محل نظر ہے۔یہ حرف حشو محسوس ہورہاہے۔ اس کی جگہ لفظ چکر اگر لا یا جاےء تو کچھ بات بن سکتی ہے ۔ہر چند کہ یہ لفظ سماعت پر گراں گزر سکتا ہے۔ لیکن کم از کم معنوی سقم دور ہو جائے گا۔ دوسرا مصرع یوں ہوسکتا ہے۔ ع۔ چھوڑ کر دنیا ترا چکر نکل آیا ہوں میں
پہلا شعر:
 
ایک عمدہ خیال پر مبنی شعر ہے۔ لیکن عجز بیان سے خیال کی واضح ترسیل نہیں ہو سکی ہے۔ شاعر کہنا چاہتا ہے کہ وہ روےء زمین پر عشق کی تنظیم کا جریدہ ہے۔ وہ خود کو ایک سفیر عشق یا عشق مصطفیٰ میں سفیر نعت کے طور پر پیش کرتے ہوئے اپنے منفرد اسلوب نعت کی وجہ سے گھر گھر میں مقبول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ گھر گھر نکل آیا ہوں سے شاعر کی یہی مراد ہے۔ عشق کی تنظیم کا جریدہ جیسی ترکیب اور منفرد اسلوب کی وجہ سے ہر گھر سے نکلنا خیال کی جدت پر ضرور دلالت کرتے ہیں۔ ایسا مضمون غزل میں تو نظر آتا ہے لیکن نعت میں عنقا ہے۔ اس کے لےء شاعر داد کا مستحق ہے۔
ابو الحسن خاور : املا کی نشاندہی پر تو میں بھی متفق ہوں کہ "بہر" ہونا چاہیے ۔ تفہم کے اعتبار سے "محور" مرکزی نقطہ یا خط ہے جس کے گرد کوئی شے گھومتی ہے ۔شاعر نے محور "حیطے"، "دائرے" یا "کشش" کے معنوں میں استعمال کیا ہے ۔ فیض احمد شعلہ صاحب کی تجویز"چکر" معنوی طور پر نسبتا بہتر ہے لیکن مجھے صوتی و لفظی تا اثر کی وجہ سے محور ہی بہتر محسوس ہوا ۔ مطلع کا مضمون اچھا ہے لیکن "بہر" اور ایک لمبی ترکیب " عشق شاہ ِ بحر و بر" کی وجہ سے کچھ مشکل ہوتی ہے ۔فنی طور پر شعر کی تفہیم میں ایک مسئلہ "[[ردیف]]" کے درست استعمال نہ ہونے کی وجہ سے بھی ہے ۔ ایک [[ردیف]] ادا نہیں ہو رہی ہے ۔ نثر دیکھیے ۔۔۔۔ دنیا، بہر عشق و شاہ و بحر و بر ترا محور چھوڑ کر نکل آیا ہوں ۔ بات مکمل ۔ دوسری ردیف زائد ہے ۔ طویل، ،منفرد اور خطابیہ  ردیفوں کے ساتھ مطلع میں دونوں مصرعوں کے ردیفوں کے جواز کے لیے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے ۔
3
 
Manage
 
Love
 
· Reply · 1d
Faiz Ahmad Shola
Faiz Ahmad Shola
دوسرا شعر:
واہ۔واہ۔واہ۔ مصرع اولیٰ میں شعریت بھرپور ہے۔ روانی بھی متاثر کن ہے۔ لیکن مصرع ثانی میں اظہار کی شگفتگی کا فقدان ہے۔ نظر پر باندھنا کی ترکیب خوبصورت نہیں لگ رہی ہے اور شاید خلاف محاورہ بھی ہو۔ دوسرا مصرع یوں ہو سکتا تھا۔۔ ع آنکھ میں رکھ کر ہر اک منظر نکل آیا ہوں میں۔
تیسرا شعر:
ایک اچھا شعر۔ اس پر حافظ محبوب صاحب قبلہ نے کار آمد گفتگو کی ہے۔ میں ان سے متفق ہوں۔ میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ دونوں مصرعوں میں زمانے کا فرق گراں بار سماعت ہے۔ ردیف کی وجہ سے مصرع ثانی زمانہ حال کا پابند ہے۔ اس لےء مصرع اولیٰ بھی زمانۂ ماضی کے بجائے زمانۂ حال کا تقاضا کرتا ہے۔ ویسے اس شعر کے لےء بھی داد بنتی ہے۔
چوتھا شعر:
بہت خوب شعر ہے۔سلسبیل جنت ارضی کی ترکیب اور اس سے سیرابی۔ پھر مصرع ثانی میں بوند اور ساگر کے استعمال سے شعر میں مناسبات لفظی کی ایک حسین فضا قائم ہو گیء ہے۔ البتہ مصرع ثانی میں "اب" کی جگہ "اک" میرے خیال سے زیادہ موزوں ہوتا۔
پانچواں شعر:
یہ شعر بھی قابلِ داد ہے۔ عشق رسول میں سب کچھ تیاگ دینے کی ترغیب دیتا ہوا یہ شعر ہمیں ہمالیایء سلطنت کپل وستو کے اس سدھارتھ کی یا پھر مخدوم سمنانی رحمۃ اللہ علیہ کی یاد دلاتا ہے جنھوں نے بادشاہت کی شان و شوکت کو ٹھکرا کر تلاش حق میں رخت سفر باندھ لیا تھا۔ مصرع ثانی میں پر کے بعد کوما کا نشان لگانا ضروری نہیں تھا۔یہ شاید ٹاءپو ہے۔ "پر نکلنا" کے استعمال سے حافظ محبوب صاحب نے جس معنوی تعقید کا خدشہ ظاہر کیا ہے میرے خیال ردیف کا ٹکڑا "نکل آیا ہوں میں" اس امکان کو مسترد کر دیتا ہے۔
3
Manage
Love
· Reply · 1d
Faiz Ahmad Shola
Faiz Ahmad Shola
چھٹا شعر:
بہت خوب۔ ناران اور تھر جیسے جگہوں کے نام کی شمولیت سے اس شعر میں جان آ گیء ہے۔ " تھر " بطور قافیہ استعمال کرنے پر شاعر خصوصی داد کا مستحق ہے۔ نعت میں اس قافیہ کو کھپانا زرا مشکل تھا۔
ساتواں شعر:
بہت عمدہ خیال ہے۔ لیکن شعر میں ڈھلتے وقت کچھ کمی رہ گیء ہے۔ مصرع اولیٰ مزید سلیقہ اور قرینہ کا متلاشی ہے۔ شاعر کہنا چاہتا ہے کہ اس کی ذات میں ایک فکری انقلاب برپا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ طبیعی ہجرت پر مجبور ہوا اور دنیوی مآحصل سے اب حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گامزن ہے۔یعنی جہل سے علم کی طرف اور تیرگی سے روشنی کی طرف نکل آیا ہے۔ پیرایۂ اظہار جیسا بھی ہو لیکن فکر کی داد بنتی ہے۔
مقطع:
مقطع بھی اچھے خیال کا ترجمان ہے۔ یہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و کمال کا اعتراف ہے جن کے زیر سایہ عرب کے بدو، سلطنت عظمی کے مالک و مختار ہوگےء۔ ان میں نہ صرف مادی ترقی ہویء بلکہ وہ روحانی اقدار کے بھی امین ہو گےء۔ مصرع اولیٰ میں "کھوج" شعر میں محض وزن کی تکمیل کرتا ہے ورنہ معنویت پیدا کرنے میں یہ بے اثر ہے۔ حافظ صاحب نے اس طرف اشارہ بھی کیا ہے۔ کنکر اور گوہر کے سلسلے میں حافظ صاحب کی دلیل درست ہے لیکن شعروں کو ہمیشہ ساءنسی استدلال کی روشنی میں برکھا جانا کویء ضروری نہیں۔ کنکر بے مایہ کا گوہر میں تبدیل ہونا گوارہ کیا جا سکتا ہے۔ اصل چیز شعر کی تاثیر ہوتی ہے۔ اگر اسے سن کر کویء کیفیت نہیں پیدا ہوتی تو شعر بے جان سمجھا جائے گا۔
مجموعی طور پر یہ شعری کاوش قابل داد ہے اور شاعر سے مستقبل میں مزید پختہ اور وجدانی شاعری کی امید کی جا سکتی ہے
3
Manage
Love
· Reply · 1d
ابوالحسن خاور
ابوالحسن خاور
بحر عشق شاہ بحر و بر نکل آیا ہوں میں
چھوڑ کر دنیا ترا محور نکل آیا ہوں میں
املا کی نشاندہی پر تو میں بھی متفق ہوں کہ "بہر" ہونا چاہیے ۔ تفہم کے اعتبار سے "محور" ہو مرکزی نقطہ یا خط ہے جس کے گرد کوئی شے گھومتی ہے ۔شاعر نے محور "حیطے"، "دائرے" یا "کشش" کے معنوں میں استعمال کیا ہے ۔ فیض احمد شعلہ صاحب کی تجویز"چکر" معنوی طور پر نسبتا بہتر ہے لیکن مجھے صوتی و لفظی تا اثر کی وجہ سے محور ہی بہتر محسوس ہوا ۔
مطلع کا مضمون اچھا ہے لیکن "بہر" اور ایک لمبی ترکیب " عشق شاہ ِ بحر و بر" کی وجہ سے کچھ مشکل ہوتی ہے ۔
فنی طور پر شعر کی تفہیم میں ایک مسئلہ "ردیف" کے درست استعمال نہ ہونے کی وجہ سے بھی ہے ۔ ایک ردیف ادا نہیں ہو رہی ہے ۔ نثر دیکھیے ۔
دنیا، بہر عشق و شاہ و بحر و بر ترا محور چھوڑ کر نکل آیا ہوں ۔ بات مکمل ۔
دوسری ردیف زائد ہے ۔ اور لمبی اور قدرے منفرد ردیفوں والے مطلع میں یہ مسئلہ عام ہے ۔
Edit or delete this
Like
· Reply · 20h
ابوالحسن خاور
ابوالحسن خاور
میں جریدہ ہوں زمیں پر عشق کی تنظیم کا
میں جریدہ ہوں زمیں پر عشق کی تنظیم کا
نعت کا اسلوب ہوں گھر گھر نکل آیا ہوں میں
نعت کا اسلوب ہوں گھر گھر نکل آیا ہوں میں
دوستوں نے اس شعر کی تفہیم میں "میں" کو شاعر کے لیے لیا ہے ۔ مجھَے لگتا ہے یہ شعر "نعت کے اسلوب" کی طرف سے ہے ۔
 
میں، نعت کا اسلوب ، زمین عشق کی تنیظم کا جریدہ ہوں، [ اور] گھر گھر نکل آیا ہوں ۔ اگر کسی طور شعر میں "اور" آجائے تو تفہم واضح ہو۔
 
"نعت کا اسلوب" میں اسلوب بھی ایک خالصتا ادبی اصطلاح ہے ۔ یہ بھی تھوڑا سے واضح ہوتا تو تفہم اور آسان ہو جاتی
حافظ محبوب احمد: شعرکےمفہوم میں صراحت نہیں ہے.گھرگھرنکل آنےسےکیامرادہے.اگریہ مرادہےکہ شاعرکےاسلوبِ نعت کوگھرگھرمیں دیکھاجاسکتاہےتواس کی کوئی دلیل اورقرینہ بھی ساتھ مذکورہوناچاہئےتھا۔
Edit or delete this
 
Like
صابر رضوی :  نعت کا لفظ آنے کے باوجود یہ نعت کا شعر نہیں ہے۔ کیوں کہ مدحِ سرکار سے زیادہ اس میں تعلی ہے۔ پھر یہ کہ دوسرا مصرع عمدہ ہوا تھا ۔۔۔ پہلا مصرع اس کے ساتھ تطابق نہیں کر پایا۔ دو مصرعے ہیں اور دونوں دعوے ہیں ۔۔۔پہلے میں خود کو جریدہ اور دوسرے میں اسلوب ۔۔۔ لیکن دونوں دعووں کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ دوسرے مصرع کے ساتھ کوئی اور گرہ لگائیں تو امکان ہے کہ اچھا شعر عطا ہو کیوں کہ دوسرا مصرع بہت عمدہ ہے
· Reply · 19h
 
ابوالحسن خاور
فیض احمد شعلہ : ایک عمدہ خیال پر مبنی شعر ہے۔ لیکن عجز بیان سے خیال کی واضح ترسیل نہیں ہو سکی ہے۔ شاعر کہنا چاہتا ہے کہ وہ روےء زمین پر عشق کی تنظیم کا جریدہ ہے۔ وہ خود کو ایک سفیر عشق یا عشق مصطفیٰ میں سفیر نعت کے طور پر پیش کرتے ہوئے اپنے منفرد اسلوب نعت کی وجہ سے گھر گھر میں مقبول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ گھر گھر نکل آیا ہوں سے شاعر کی یہی مراد ہے۔ عشق کی تنظیم کا جریدہ جیسی ترکیب اور منفرد اسلوب کی وجہ سے ہر گھر سے نکلنا خیال کی جدت پر ضرور دلالت کرتے ہیں۔ ایسا مضمون غزل میں تو نظر آتا ہے لیکن نعت میں عنقا ہے۔ اس کے لےء شاعر داد کا مستحق ہے۔
ابوالحسن خاور
 
 
ابو الحسن خاور : دوستوں نے اس شعر کی تفہیم میں "میں" کو شاعر کے لیے لیا ہے ۔ مجھَے لگتا ہے یہ شعر "نعت کے اسلوب" کی طرف سے ہے ۔ میں، نعت کا اسلوب ، زمین عشق کی تنیظم کا جریدہ ہوں، [ اور] گھر گھر نکل آیا ہوں ۔ اگر کسی طور شعر میں "اور" آجائے تو تفہم واضح ہو۔"نعت کا اسلوب" میں اسلوب بھی ایک خالصتا ادبی اصطلاح ہے ۔ یہ بھی تفہیم میں مسئلہ پیدا کرتی ہے کہ "نعت کے اسلوب" سے کیا مراد ہے ؟
 
 


آنکھ کے تل میں سجائے شہر طیبہ کا جمال
آنکھ کے تل میں سجائے شہر طیبہ کا جمال
اور نظر پر باندھ کر منظر نکل آیا ہوں میں
اور نظر پر باندھ کر منظر نکل آیا ہوں میں
دوستوں نے بھر پور بات کی ۔ دوسرے مصرعے کا ابہام سنبھالا نہیں جا رہا ۔
 
Edit or delete this
 
Like
ڈاکٹر صغیر احمد صغیر: آنکھ کے تل میں سجائے شہر طیبہ کا جمال... واااااااہ واااااااہ واااااااہ
· Reply · 19h
 
ابوالحسن خاور
حافظ محبوب احمد : دوسرامصرع پھرمشکل ردیف کی نذ ہوتانظرآرہاہے.بالکل غیرواضح ہے
ابوالحسن خاور
 
 
صابر رضوی : شہرطیبہ کے جمال کو آنکھ کے تل میں سجا لیا اور نظر پر منظر باندھ کر مدینہ سے واپس آ رہے ہیں ۔۔۔۔ مضمون عمدہ ہے لیکن دوسرے مصرع کی بندش کچھ کمزور محسوس ہو رہی ہے۔ اور کی جگہ کوئی اور لفظ آتا تو شاید شعر اعلٰی ہو جاتا
 
فیض احمد شعلہ : واہ۔واہ۔واہ۔ مصرع اولیٰ میں شعریت بھرپور ہے۔ روانی بھی متاثر کن ہے۔ لیکن مصرع ثانی میں اظہار کی شگفتگی کا فقدان ہے۔ نظر پر باندھنا کی ترکیب خوبصورت نہیں لگ رہی ہے اور شاید خلاف محاورہ بھی ہو۔ دوسرا مصرع یوں ہو سکتا تھا۔۔ ع آنکھ میں رکھ کر ہر اک منظر نکل آیا ہوں میں۔
 
 
[[فیض احمد شعلہ ]]: دوستوں نے بھر پور بات کی ۔ دوسرے مصرعے کا [[ابہام]] سنبھالا نہیں جا رہا ۔
 
 
پیش کی میں نے درودوں میں سجا کر ہر دعا
پیش کی میں نے درودوں میں سجا کر ہر دعا
اور غم دنیا سے پھر اکثر نکل آیا ہوں میں
اور غم دنیا سے پھر اکثر نکل آیا ہوں میں
حافظ صاحب اور صابر بھائی سے اتفاق کہ "پھر" حشو ہے اور تا اثر کو کمزور کرتا ہے ۔
 
محترم فیض احمد شعلہ صاحب کو زمانوں کا فرق محسوس ہوا لیکن مجھے ایسا محسوس نہیں ہوا ۔
 
شعر اچھا ہے لیکن مجھے پہلے مصرعے کی بندش بھِی اچھی نہیں لگی ۔ "دعا" اور "پیش کرنا" بہت دور ہو گئے ہیں ۔
حافظ محبوب احمد : یہ پہلاشعر ہوا ہےجس میں ردیف نبھتی نظرآرہی ہے ۔ لیکن دوسرےمصرع میں اگر "پھر "کی جگہ یوں ہوتاتوشعر شعر سریع الفہم ہوتا
1
 
Edit or delete this
صابر رضوی : اور ۔۔۔پھر ۔۔۔[[حشو]]  ہیں ۔۔۔[[مصرع]] نہایت کمزور ہو گیا ہے اس سے
Like
 
· Reply · 19h
فیض احمد شعلہ : ایک اچھا شعر۔ اس پر حافظ محبوب احمد صاحب  قبلہ نے کار آمد گفتگو کی ہے۔ میں ان سے متفق ہوں۔ میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ دونوں مصرعوں میں زمانے کا فرق گراں بار سماعت ہے۔ ردیف کی وجہ سے مصرع ثانی زمانہ حال کا پابند ہے۔ اس لےء مصرع اولیٰ بھی زمانۂ ماضی کے بجائے زمانۂ حال کا تقاضا کرتا ہے۔ ویسے اس شعر کے لےء بھی داد بنتی ہے۔
ابوالحسن خاور
 
ابوالحسن خاور
ابو الحسن خاور : حافظ صاحب اور صابر بھائی سے اتفاق کہ "پھر" [[حشو]] ہے اور تا اثر کو کمزور کرتا ہے ۔ محترم فیض احمد شعلہ صاحب کو زمانوں کا فرق محسوس ہوا لیکن مجھے ایسا محسوس نہیں ہوا ۔ شعر اچھا ہے لیکن مجھے پہلے مصرعے کی بندش بھِی اچھی نہیں لگی ۔ "دعا" اور "پیش کرنا" بہت دور ہو گئے ہیں ۔ اساتذہ کے زمانے میں [[تعقید لفظی]] کی طرف ایسا دھیان نہیں دیا جاتا تھا ۔ تاہم آج کل مصرع کی ایک خوبی یہ بھی سمجھی جاتی ہے کہ الفاظ کی نشست و برخاست فطری اور نثر کے قریب ہو ۔
 
 
سلسبیل جنت ارضی سے سیرابی کے بعد
سلسبیل جنت ارضی سے سیرابی کے بعد
بوند تھا اور بن کے اب ساگر نکل آیا ہوں میں
بوند تھا اور بن کے اب ساگر نکل آیا ہوں میں
اچھا شعر ہو سکتا تھا لیکن معذرت ۔ سیراب پیاسا ہوتا ہے ۔ اس حوالے سے زمین سیراب ہو سکتی ہے ۔ ۔ بوند کیسے سیراب ہو تی ہے ؟ یہ ممکن ہے کہ شاعر بوند ہو اور سلسبیل جنت ارضی "میں ملنے" کے بعد ساگر ہو کر نکل آئے ۔
 
دوسرے مصرعے میں فیض احمد شعلہ صاحب کی تجویز بہت عمدہ ہے ۔ "اب" کی جگہ "اک" بہتر رہے گا ۔
 
Edit or delete this
حافظ محبوب احمد : ماشاء اللہ بہت پیاراشعر شاعرکےلئےبہت بہت داد
Like
 
· Reply · 19h · Edited
صابر رضوی :  صابر رضوی : دوسرا [[کمزور مصرع | مصرع کمزور ]] ہے لیکن شعر کا مضمون اچھا ہے۔ ساگر سے پہلے والا حصہ کمزور ہے۔ بن کے ان کے لطف کا / سے ۔۔ ۔ کچھ اس انداز کا مصرع ----
ابوالحسن خاور
 
ابوالحسن خاور
فیض احمد شعلہ : بہت خوب شعر ہے۔سلسبیل جنت ارضی کی ترکیب اور اس سے سیرابی۔ پھر مصرع ثانی میں بوند اور ساگر کے استعمال سے شعر میں مناسبات لفظی کی ایک حسین فضا قائم ہو گیء ہے۔ البتہ مصرع ثانی میں "اب" کی جگہ "اک" میرے خیال سے زیادہ موزوں ہوتا۔
 
سلسبیل جنت ارضی سے سیرابی کے بعد
بوند تھا اور بن کے اب ساگر نکل آیا ہوں میں
 
شعر کا تاثر اچھا ہے تا ہم سیراب پیاسا ہوتا ہے ۔ اس حوالے سے زمین سیراب ہو سکتی ہے ۔ ۔ بوند کیسے سیراب ہو تی ہے ؟ یہ ممکن ہے کہ شاعر بوند ہو اور سلسبیل جنت ارضی "میں ملنے" کے بعد ساگر ہو کر نکل آئے ۔ دوسرے مصرعے میں فیض احمد شعلہ صاحب کی تجویز بہت عمدہ ہے ۔ "اب" کی جگہ "اک" بہتر رہے گا ۔
 
 
 
چھوڑ کر اپنی زمیں اور لوگ تیرے نام پر
چھوڑ کر اپنی زمیں اور لوگ تیرے نام پر
فیصلہ مشکل بہت تھا، پر، نکل آیا ہوں میں
فیصلہ مشکل بہت تھا، پر، نکل آیا ہوں میں
واہ واہ وا۔ بہت عمدہ
 
میرا خیال ہے ایک وقفے سے کام چلتا ہے
 
فیصلہ مشکل بہت تھا پر، نکل آیا ہوں میں ۔
حافظ محبوب احمد : ماشاء اللہ یہ بھی اچھاشعر ہے اگرچہ پرنکلنا..چونکہ بزات خود ایک فعل ہے لہذاتعقیدِ معنوی کاامکان پیداہورہاہے
Edit or delete this
 
Like
صابر رضوی : بہت عمدہ۔ [[مطلع]] کی بازگشت ہے اس شعر میں
· Reply · 19h · Edited
 
ابوالحسن خاور
فیض احمد شعلہ : یہ شعر بھی قابلِ داد ہے۔ عشق رسول میں سب کچھ تیاگ دینے کی ترغیب دیتا ہوا یہ شعر ہمیں ہمالیائی سلطنت کپل وستو کے اس سدھارتھ کی یا پھر مخدوم سمنانی رحمۃ اللہ علیہ کی یاد دلاتا ہے جنھوں نے بادشاہت کی شان و شوکت کو ٹھکرا کر تلاش حق میں رخت سفر باندھ لیا تھا۔ مصرع ثانی میں پر کے بعد کوما کا نشان لگانا ضروری نہیں تھا۔یہ شاید ٹائپو ہے۔ "پر نکلنا" کے استعمال سے حافظ محبوب صاحب نے جس معنوی تعقید کا خدشہ ظاہر کیا ہے میرے خیال ردیف کا ٹکڑا "نکل آیا ہوں میں" اس امکان کو مسترد کر دیتا ہے۔
ابوالحسن خاور
 
 
ابو الحسن خاور : واہ واہ وا۔ بہت عمدہ ۔ فیض احمد شعلہ صاحب سے متفق ہوں ۔ میرا بھی یہی خیال ہے ایک وقفے سے کام چلتا ہے  
 
 
مضمحل دل پر فراق شہر طیبہ کا اثر
مضمحل دل پر فراق شہر طیبہ کا اثر
چھوڑ کر ناران جیسے تھر نکل آیا ہوں میں
چھوڑ کر ناران جیسے تھر نکل آیا ہوں میں
اچھا شعر ہے ۔ احباب نے اچھی گفتگو کی ۔
 
اگرچہ دل بھی ہستی کانمائندہ ہے لیکن دوسرے مصرع میں ردیف "میں" بہت زور دار ہے تو اگر مصرع اولی میں دل کے بجائے اپنی ذات کی بات "میں" ، مجھ " وغیرہ سے ہو تو شعر زیادہ زود اثر ہو ۔ ابھی کیفیت ایک مصرع سے دوسرے مصرع میں آتے ہوئے کچھ وقت لیتی ہے
 
Edit or delete this
ڈاکٹر صغیر احمد صغیر : ناران جیسا تھر... ترکیب درست نہیں. (ناران خوبصورت لہلہاتے پہاڑوں کے درمیان وادی ہے جبکہ تھر ایک ریگستان ہے)
Like
 
· Reply · 12h · Edited
حافظ محبوب احمد : .ماشاء اللہ یہ بھی اچھاشعرہے بالخصوص عصر حاضرکےدومعروف مقامات کواستعارہ کےطورپرشاعرنےاستعمال کیاہے.شاعرکےلئےبہت بہت داد
ابوالحسن خاور
 
ابوالحسن خاور
صابر رضوی : بہت عمدہ ۔۔۔۔ تھر نکل آیا ہوں میں ۔۔۔ اس کو تھر میں نکل آیا ہوں ۔۔۔۔ سمجھا جائے ۔۔۔۔تو مفہوم و معانی پرکیف نظر آتے ہیں۔۔۔ پھر شعر میں ناران کا ہرکیف ماحول جسے مدینہ سے مماثل کہا گیا ہے اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو تھر کہا گیا ہے ۔۔۔ کیا خوب تشابہ ہے ۔۔۔یعنی مدینہ کے جنتِ ارضی کا مفہوم اور اپنے گھر کو صحرا کہنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور بھی پہلو ہیں اس شعر کے ۔۔۔۔۔ بہت اچھا شعر ہے ۔۔۔۔۔۔ بہت داد
 
 
فیض احمد شعلہ : بہت خوب۔ ناران اور تھر جیسے جگہوں کے نام کی شمولیت سے اس شعر میں جان آ گیء ہے۔ " تھر " بطور قافیہ استعمال کرنے پر شاعر خصوصی داد کا مستحق ہے۔ نعت میں اس قافیہ کو کھپانا ذرا مشکل تھا۔
 
 
ابو الحسن خاور : اگرچہ دل بھی ہستی کانمائندہ ہے لیکن دوسرے مصرع میں ردیف "میں" بہت زور دار ہے تو اگر مصرع اولی میں دل کے بجائے اپنی ذات کی بات "میں" ، مجھ " وغیرہ سے ہو تو شعر زیادہ زود اثر ہو ۔ ابھی کیفیت ایک مصرع سے دوسرے مصرع میں آتے ہوئے کچھ وقت لیتی ہے
 
 
ایک ہجرت ذات کے اندر ، سفر تیری طرف
ایک ہجرت ذات کے اندر ، سفر تیری طرف
اے مرے آقا، مرے سرور نکل آیا ہوں میں
اے مرے آقا، مرے سرور نکل آیا ہوں میں
شاعر کے اندر کونسی ہجرت ہو رہی ہے یہ واضح نہیں ہوا ۔ اگر مفہوم ہی نکالنا ہو تو نکالا جا سکتا ہے لیکن متن سے نا مکمل خاکہ بنتا ہے
 
Edit or delete this
 
Like
حافظ محبوب احمد : دونوں مصرعے تعقیدسےلبریزہیں لہذاریاضیاتی محنت سےگزرکرتب معنوی تفہیم ہوتی ہے پھرقوموں کادرست جگہ لگنا بہت اہم ہے. جوکہ نہیں لگائےگئے
· Reply · 12h
 
ابوالحسن خاور
صابر رضوی : یہ بھی اچھا ہے۔ پہلے مصرع کی بنت کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔ مصرع کا نثری پیرایہ اگر نحوی اعتبار سے مکمل نہ ہو تو کوشش کر کے اسے بہتر کیا جائے ۔۔۔اس مصرع کا نثری پیکر ہی کمزور ہے تو شعر میں مصرع اولا کے طور پر کیا کشش ہو گی؟ ؟؟ دوبارہ کہہ لیں مصرع۔۔۔۔ مطلع پھر سے گونج رہا ہے یہاں بھی
ابوالحسن خاور
 
 
فیض احمد شعلہ: بہت عمدہ خیال ہے۔ لیکن شعر میں ڈھلتے وقت کچھ کمی رہ گئی ہے۔ مصرع اولیٰ مزید سلیقہ اور قرینہ کا متلاشی ہے۔ شاعر کہنا چاہتا ہے کہ اس کی ذات میں ایک فکری انقلاب برپا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ طبیعی ہجرت پر مجبور ہوا اور دنیوی مآحصل سے اب حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گامزن ہے۔یعنی جہل سے علم کی طرف اور تیرگی سے روشنی کی طرف نکل آیا ہے۔ پیرایۂ اظہار جیسا بھی ہو لیکن فکر کی داد بنتی ہے۔
 
ابو الحسن خاور : شاعر کے اندر کونسی ہجرت ہو رہی ہے یہ واضح نہیں ہوا ۔ اگر مفہوم ہی نکالنا ہو تو نکالا جا سکتا ہے لیکن متن سے نا مکمل خاکہ بنتا ہے
 
 
میں تھا کاشف کنکر بے مایہ اپنی کھوج میں
میں تھا کاشف کنکر بے مایہ اپنی کھوج میں
بن کے بحر شاہ سے گوہر نکل آیا ہوں میں…See More
Edit or delete this
Like
· Reply · 12h · Edited
ابوالحسن خاور
ابوالحسن خاور
مجموعی طور پر تازہ کاری متاثر کن ہے اور شاعرکی زرخیز فکر کا پتا دیتی ہے ۔ اشعار کی صراحت و تفہیم قاری کی اپنی فہم کے مطابق کم زیادہ ہو جاتی ہے ۔ ممکن ہے جن اشعار میں مجھے ابہام محسوس ہوا ہو وہ کسی اور قاری کے لیے بہت پر لطف ہوں لیکن ایسی تازہ شاعری اپنا ایک مقام رکھتی ہے ۔ میری طرف سے بہت داد ۔
Edit or delete this
Like
· Reply · 12h
Kashif Irfan
Kashif Irfan
تمام احباب کا بہت شکریہ جنہوں نے میری نعت پر گفتگو کی، اسے پسند یا نا پسند کیا اور اس کو بہتر بنانے کے لیے عمدہ مشوروں سے نوازا..... ان شاء اللہ آپ کی آراء تخلیق کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوں گی..... سلامت رہیں 🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
1
Manage
Love
· Reply · 10h · Edited
ابوالحسن خاور
Write a comment...


بن کے بحر شاہ سے گوہر نکل آیا ہوں میں
حافظ محبوب احمد : کھوج مونث باندھاہے.اسےدیکھ لیناچاہئے.شعر واضح المفہوم ہے.اگرچہ مناسبت کالحاظ نہیں رکھاگیا.گوہر میں کنکر تبدیل نہیں ہوتابلکہ آپ نیساں کاقطرہ نکلتاہے.تواس شعر میں اگرکنکرکی جگہ قطرہ کرلیاجائےتومسئلہ حل ہوجائے
صابر رضوی : واہ واہ واہ ۔۔۔ بہت ہی اعلا اور شاندار شعر ہے۔ کنکر کی تطہیر کیسے ہوئی ہو گی بحرِ شاہ میں کہ وہ بھی گوہر بن گیا ۔۔۔۔ کیا کہنے ۔۔۔ رسالت مآب صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک شان ۔۔۔ ویزکیہم ۔۔۔۔ نفوس کا تذکیہ کرنا بھی ہے۔ اور مدینہ کی فضا بھی وہ تزکیہ کرتی ہے۔۔۔۔ کیا عمدگی سے آپ نے اس آیت کو بیان کیا ہے ۔۔۔۔سبحان اللہ سبحان اللہ
فیض احمد شعلہ : [[مقطع]] بھی اچھے خیال کا ترجمان ہے۔ یہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و کمال کا اعتراف ہے جن کے زیر سایہ عرب کے بدو، سلطنت عظمی کے مالک و مختار ہوگےء۔ ان میں نہ صرف مادی ترقی ہویء بلکہ وہ روحانی اقدار کے بھی امین ہو گےء۔ مصرع اولیٰ میں "کھوج" شعر میں محض وزن کی تکمیل کرتا ہے ورنہ معنویت پیدا کرنے میں یہ بے اثر ہے۔ حافظ صاحب نے اس طرف اشارہ بھی کیا ہے۔ کنکر اور گوہر کے سلسلے میں حافظ صاحب کی دلیل درست ہے لیکن شعروں کو ہمیشہ سائنسی استدلال کی روشنی میں پرکھا جانا کوئی ضروری نہیں۔ کنکر بے مایہ کا گوہر میں تبدیل ہونا گوارہ کیا جا سکتا ہے۔
ابو الحسن خاور :  مضمون یہ ہے کہ میں اپنی تلاش میں نکلا توبے وقعت تھا اور  لطف شاہ سے باوقار ہوگیا ۔  پتھرکا لمس سے گوہر ہونا اور قطرے کا سیپ میں گوہر ہونا واضح ہیں ۔ "کنکر" کا گوہر ہونا ایک نئی فکر ہے ۔  نیا کہنا کچھ غلط نہیں ۃوتا لیکن مضبوط جواز کے ساتھ ہو تو قاری اسے زیادہ قبول کرتا ہے ۔ کنکر ِبے مایہ  میں ہندی فارسی اضافت اگرچہ اہل زبان قبول نہیں کرتے تاہم ایک قلیل گروہ اس بات کا قائل ہے کہ اگر ایسی کوئی ترکیب بہت عجیب نہ لگ رہی ہو تو قبول کی جا سکتی ہے ۔
=== مجموعی تا اثر ===
ڈاکٹر صغیر احمد صغیر : ناران جیسا تھر کے سوا باقی اشعار پر داد..
حافظ محبوب احمد : مجموعی طورپریہ نعت مشکل ردیف کی وجہ سےشاعرکےلئےمشکل پیداکرتی نظرآرہی ہے.اورزیادہ تراشعارمیں ردیف مصرعےکےپیوست نظرنہیں آرہی
اشرف یوسفی :  یہ کیا نعت ہے شاعر نے سرکار دوعالم کی بجائے اپنی ذات کو محور اور توجہ کا مرکز بنایا ہوا ہے ۔ میں نے پہلے تین اشعار پڑھے ہیں اور آگے پڑھنے کا حوصلہ نہیں ہوا جس نعت کی ردیف کی بنیاد ہی میں پر ہو اس کے لئے بہت محتاط ہونا پڑتا ہے۔ نعت ِ شاہ ِ دوعالم پل صراط ہے ۔
فیض احمد شعلہ: مجموعی طور پر یہ شعری کاوش قابل داد ہے اور شاعر سے مستقبل میں مزید پختہ اور وجدانی شاعری کی امید کی جا سکتی ہے ۔
[[ابو الحسن خاور ]] : مجموعی طور پر نعت میں تازہ کاری نہ صرف متاثر کرتی ہے  بلکہ شاعرکی زرخیز فکر کا پتا دیتی ہے ۔  اشعار کی صراحت و تفہیم قاری کی اپنی فہم کے مطابق کم زیادہ ہو جاتی ہے ۔ ممکن ہے جن اشعار میں مجھے [[ابہام]] محسوس ہوا ہو وہ کسی اور قاری کے لیے بہت پر لطف ہوں لیکن ایسی تازہ شاعری اپنا ایک مقام رکھتی ہے ۔ میری طرف سے بہت داد ۔
=== ضمنی مباحث ===
کنکر ِ بے مایہ :
-----------
حافظ محبوب احمد: کنکرِ بےمایہ کی ترکیب کیادرست ہے؟ کنکرغالباہندی لفظ نہیں ..؟ موجودہ رائج الوقت قواعدکےمطابق توپھریہ ترکیب درست نہیں ہے.
صابر رضوی : کنکر پراکرت زبان کا لفظ ہے ۔ اگر ہندی فارسی مرکبات درست نہیں تو عربی اور فارسی کے مرکبات درست ہونے کی توضیحات کیا کیا ہیں ؟؟؟؟
ابو الحسن خاور:  کنکر ِبے مایہ  میں ہندی فارسی اضافت اگرچہ اہل زبان قبول نہیں کرتے تاہم ایک قلیل گروہ اس بات کا قائل ہے کہ اگر ایسی کوئی ترکیب بہت عجیب نہ لگ رہی ہو تو قبول کی جا سکتی ہے ۔ جیسے "سطح ِ سمندر" کی اصطلاح نثر میں بھی رواج پا چکی ہے
نعت کیا ہے ؟
----------
اشرف یوسفی : یہ کیا نعت ہے شاعر نے سرکار دوعالم کی بجائے اپنی ذات کو محور اور توجہ کا مرکز بنایا ہوا ہے ۔


ابوالحسن خاور
ابو الحسن خاور: نعت کے دائرے میں کیا آتا ہے اور کیا نہیں اس پر علمائے نعت اور احباب میں اختلاف ہے ۔ سب کا ایک نقطے پر اکٹھے ہونا مشکل ہے ۔ ذاتی طور پر میں نعت کے عنوان سے پیش کیے جانے والے ہر اس شعر کو نعت سمجھتا ہوں جسے پڑھ کی دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا چراغ روشن ہو اور ان کی شان مبارکہ کے جلوے جھلملانے لگیں ۔
Admin · July 10 at 10:06 AM · tag‎انا للہ و انا الیہ راجعون‎
10 جولائی احمد ندیم قاسمی صاحب کا یوم وفات ہے ۔ میں نعت گوئی پر ان کے اثرات کا بہت معتقد ہوں انہوں نے نہ صرف حفیظ تائب صاحب حوصلہ افزائی بلکہ اپنی نعتیہ شاعری سے اردو ادب میں صنف نعت کی بھر پور آبیاری کی ۔


ان کی کچھ نعتیں پہلے ہی فورم میں لگائی جا چکی ہیں ۔ احباب توجہ فرما سکتے ہیں ۔ احمد ندیم قاسمی صاحب کی نعتیہ شاعری کے بارے اگر آپ کے دل میں بھی کچھ ہے تو ضرور عنایت کریں
=== یاد دہانیاں ===


-------------------...
* اصل چیز شعر کی تاثیر ہوتی ہے۔ اگر اسے سن کر کوئی کیفیت نہیں پیدا ہوتی تو شعر بے جان سمجھا جائے گا ۔ فیض احمد شعلہ
See More
Image may contain: 1 person, eyeglasses and closeup
Image may contain: Saail Nizami, outdoor and nature
68Muhammad Iftikhar Ul Haq, Fraz Arfan and 66 others
42 Comments
3 Shares
Like
Comment
Share
Comments
View 10 more comments
محمد نورالله
محمد نورالله https://www.youtube.com/playlist...
ریڈیو پاکستان اور احمد ندیم قاسمی رح کی نعوت رسول مکرمﷺ
Manage
Ahmad Nadim Qasmi - YouTube
YOUTUBE.COM
Ahmad Nadim Qasmi - YouTube
Ahmad Nadim Qasmi - YouTube
Like
· Reply · 1d
View 3 more replies
Bilal AmjadActive Now
Bilal Amjad
محمد نورالله صاحب
جزاک اللہ خیر
Manage
Like
· Reply · 20h
Khurshid Rabbani
Khurshid Rabbani Allah nadeem sb sy razi ho
1
Manage
Like
· Reply · 1d
View 13 more comments
ابوالحسن خاور
Write a comment...


* مصرع کا نثری پیرایہ اگر نحوی اعتبار سے مکمل نہ ہو تو کوشش کر کے اسے بہتر کیا جائے ۔ صابر رضوی


ابوالحسن خاور
* طویل، ،منفرد اور خطابیہ  ردیفوں کے ساتھ مطلع میں دونوں مصرعوں کے ردیفوں کے جواز کے لیے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے ۔ ابو الحسن خاور
Admin · July 15, 2015
نعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم


شاعر: احمد ندیم قاسمی
* اساتذہ کے زمانے میں [[تعقید لفظی]] کی طرف ایسا دھیان نہیں دیا جاتا تھا ۔ تاہم آج کل مصرع کی ایک خوبی یہ بھی سمجھی جاتی ہے کہ الفاظ کی نشست و برخاست فطری اور نثر کے قریب ہو ۔ ابو الحسن خاور
انتخاب : Khawar Asad...

نسخہ بمطابق 03:42، 12 جولائی 2020ء


تنقیدی نشست - 134

شاعر : کاشف عرفان

شرکاء : حافظ محبوب احمد | مسعود رحمان | ڈاکٹر صغیر احمد صغیر | صابر رضوی | اشرف یوسفی | فیض احمد شعلہ | ابو الحسن خاور


نعتِ رسولِ آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

بحر عشق شاہ بحر و بر نکل آیا ہوں میں

چھوڑ کر دنیا ترا محور نکل آیا ہوں میں

میں جریدہ ہوں زمیں پر عشق کی تنظیم کا

نعت کا اسلوب ہوں گھر گھر نکل آیا ہوں میں

آنکھ کے تل میں سجائے شہر طیبہ کا جمال

اور نظر پر باندھ کر منظر نکل آیا ہوں میں

پیش کی میں نے درودوں میں سجا کر ہر دعا

اور غم دنیا سے پھر اکثر نکل آیا ہوں میں

سلسبیل جنت ارضی سے سیرابی کے بعد

بوند تھا اور بن کے اب ساگر نکل آیا ہوں میں

چھوڑ کر اپنی زمیں اور لوگ تیرے نام پر

فیصلہ مشکل بہت تھا، پر، نکل آیا ہوں میں

مضمحل دل پر فراق شہر طیبہ کا اثر

چھوڑ کر ناران جیسے تھر نکل آیا ہوں میں

ایک ہجرت ذات کے اندر ، سفر تیری طرف

اے مرے آقا، مرے سرور نکل آیا ہوں میں

میں تھا کاشف کنکر بے مایہ اپنی کھوج میں

بن کے بحر شاہ سے گوہر نکل آیا ہوں میں

گفتگو

بحر عشق شاہ بحر و بر نکل آیا ہوں میں

چھوڑ کر دنیا ترا محور نکل آیا ہوں میں

صغیر احمد صغیر : مطلع بہت خوبصورت ہے

حافظ محبوب احمد: مطلع کےدونوں مصرع اپنےابلاغ سےقاصرنظرآرہےہیں. بحرعشق شاہ، کیامنادی ہے؟ اگرہےتواسکی کوئی علامتی تصریح نہیں ہے.اور "بحروبرنکل آیاہوں میں "اسکےکیامعنی ہیں؟ کیاشاعرکواپنےبحروبرہونےکاادراک ہؤاہے یاکیاشاعربھروبرکی طرف نکل آیاہے.ایسالگتاہےکہ شاعرنےمطلع آخرمیں کہاہےاوروہ تھکاوٹ اورعجلت کی نذرہوتانظرآرہے

صابر رضوی: مطلع میں پہلا لفظ املاء کی غلطی کا شکار ہوا ۔۔۔بحرِ عشقِ بحر و بر ۔۔۔۔بہرِ عشقِ بحر بر ۔۔۔۔ کریں تو بحر اور بہر میں جو رعایتِ لفظی ہے اس سے شعر میں حسن پیدا ہوتا ہے۔ میرے خیال میں شاعر نے مطلع یوں کہاں ہے ۔ بہر عشق شاہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی شاہِ بحر و بر کے عشق کے لیے میں دنیا کا محور چھوڑ کر نکل آیا ہوں ۔۔۔۔اب محور سے نکلنا خود مرکز گریز قوت کی نشان دہی کرتا ہے اس سے نفسانی خواہشات کے چنگل سے عشقِ محمدی کی طرف سفر کا اظہار ہوتا ہے جو بہر صورت بہت خوب ہے۔ مطلع کی بہت داد

فیض احمد شعلہ :معنوی اعتبار سے مطلع بہت عمدہ ہے۔ لیکن لفظوں کے نامناسب انتخاب نے شعر کی معنوی و صوروی حسن کو متاثر کر دیا ہے۔مصرع اولیٰ میں دو جگہ "بحر" کا استعمال ہوا ہے۔ اول مقام پر بحر بہ ہاےء ہوز یعنی "بہر" کا محل ہے۔ بہر عشق یعنی عشق کے لےء۔اس سے مفہوم واضح ہوتا۔ شاہ بحر وبر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے لےء بطور استعارہ لایا گیا ہے۔ اس طرح مصرع اولیٰ میں کہا گیا ہے کہ حضور پر نور کے عشق میں شاعر دنیا کی لذتوں یا آشاءسوں سے نکل آیا ہے۔ لیکن مصرع ثانی میں لفظ محور محل نظر ہے۔یہ حرف حشو محسوس ہورہاہے۔ اس کی جگہ لفظ چکر اگر لا یا جاےء تو کچھ بات بن سکتی ہے ۔ہر چند کہ یہ لفظ سماعت پر گراں گزر سکتا ہے۔ لیکن کم از کم معنوی سقم دور ہو جائے گا۔ دوسرا مصرع یوں ہوسکتا ہے۔ ع۔ چھوڑ کر دنیا ترا چکر نکل آیا ہوں میں

ابو الحسن خاور : املا کی نشاندہی پر تو میں بھی متفق ہوں کہ "بہر" ہونا چاہیے ۔ تفہم کے اعتبار سے "محور" مرکزی نقطہ یا خط ہے جس کے گرد کوئی شے گھومتی ہے ۔شاعر نے محور "حیطے"، "دائرے" یا "کشش" کے معنوں میں استعمال کیا ہے ۔ فیض احمد شعلہ صاحب کی تجویز"چکر" معنوی طور پر نسبتا بہتر ہے لیکن مجھے صوتی و لفظی تا اثر کی وجہ سے محور ہی بہتر محسوس ہوا ۔ مطلع کا مضمون اچھا ہے لیکن "بہر" اور ایک لمبی ترکیب " عشق شاہ ِ بحر و بر" کی وجہ سے کچھ مشکل ہوتی ہے ۔فنی طور پر شعر کی تفہیم میں ایک مسئلہ "ردیف" کے درست استعمال نہ ہونے کی وجہ سے بھی ہے ۔ ایک ردیف ادا نہیں ہو رہی ہے ۔ نثر دیکھیے ۔۔۔۔ دنیا، بہر عشق و شاہ و بحر و بر ترا محور چھوڑ کر نکل آیا ہوں ۔ بات مکمل ۔ دوسری ردیف زائد ہے ۔ طویل، ،منفرد اور خطابیہ ردیفوں کے ساتھ مطلع میں دونوں مصرعوں کے ردیفوں کے جواز کے لیے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے ۔


میں جریدہ ہوں زمیں پر عشق کی تنظیم کا

نعت کا اسلوب ہوں گھر گھر نکل آیا ہوں میں


حافظ محبوب احمد: شعرکےمفہوم میں صراحت نہیں ہے.گھرگھرنکل آنےسےکیامرادہے.اگریہ مرادہےکہ شاعرکےاسلوبِ نعت کوگھرگھرمیں دیکھاجاسکتاہےتواس کی کوئی دلیل اورقرینہ بھی ساتھ مذکورہوناچاہئےتھا۔

صابر رضوی : نعت کا لفظ آنے کے باوجود یہ نعت کا شعر نہیں ہے۔ کیوں کہ مدحِ سرکار سے زیادہ اس میں تعلی ہے۔ پھر یہ کہ دوسرا مصرع عمدہ ہوا تھا ۔۔۔ پہلا مصرع اس کے ساتھ تطابق نہیں کر پایا۔ دو مصرعے ہیں اور دونوں دعوے ہیں ۔۔۔پہلے میں خود کو جریدہ اور دوسرے میں اسلوب ۔۔۔ لیکن دونوں دعووں کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ دوسرے مصرع کے ساتھ کوئی اور گرہ لگائیں تو امکان ہے کہ اچھا شعر عطا ہو کیوں کہ دوسرا مصرع بہت عمدہ ہے

فیض احمد شعلہ : ایک عمدہ خیال پر مبنی شعر ہے۔ لیکن عجز بیان سے خیال کی واضح ترسیل نہیں ہو سکی ہے۔ شاعر کہنا چاہتا ہے کہ وہ روےء زمین پر عشق کی تنظیم کا جریدہ ہے۔ وہ خود کو ایک سفیر عشق یا عشق مصطفیٰ میں سفیر نعت کے طور پر پیش کرتے ہوئے اپنے منفرد اسلوب نعت کی وجہ سے گھر گھر میں مقبول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ گھر گھر نکل آیا ہوں سے شاعر کی یہی مراد ہے۔ عشق کی تنظیم کا جریدہ جیسی ترکیب اور منفرد اسلوب کی وجہ سے ہر گھر سے نکلنا خیال کی جدت پر ضرور دلالت کرتے ہیں۔ ایسا مضمون غزل میں تو نظر آتا ہے لیکن نعت میں عنقا ہے۔ اس کے لےء شاعر داد کا مستحق ہے۔


ابو الحسن خاور : دوستوں نے اس شعر کی تفہیم میں "میں" کو شاعر کے لیے لیا ہے ۔ مجھَے لگتا ہے یہ شعر "نعت کے اسلوب" کی طرف سے ہے ۔ میں، نعت کا اسلوب ، زمین عشق کی تنیظم کا جریدہ ہوں، [ اور] گھر گھر نکل آیا ہوں ۔ اگر کسی طور شعر میں "اور" آجائے تو تفہم واضح ہو۔"نعت کا اسلوب" میں اسلوب بھی ایک خالصتا ادبی اصطلاح ہے ۔ یہ بھی تفہیم میں مسئلہ پیدا کرتی ہے کہ "نعت کے اسلوب" سے کیا مراد ہے ؟


آنکھ کے تل میں سجائے شہر طیبہ کا جمال

اور نظر پر باندھ کر منظر نکل آیا ہوں میں


ڈاکٹر صغیر احمد صغیر: آنکھ کے تل میں سجائے شہر طیبہ کا جمال... واااااااہ واااااااہ واااااااہ

حافظ محبوب احمد : دوسرامصرع پھرمشکل ردیف کی نذ ہوتانظرآرہاہے.بالکل غیرواضح ہے


صابر رضوی : شہرطیبہ کے جمال کو آنکھ کے تل میں سجا لیا اور نظر پر منظر باندھ کر مدینہ سے واپس آ رہے ہیں ۔۔۔۔ مضمون عمدہ ہے لیکن دوسرے مصرع کی بندش کچھ کمزور محسوس ہو رہی ہے۔ اور کی جگہ کوئی اور لفظ آتا تو شاید شعر اعلٰی ہو جاتا

فیض احمد شعلہ : واہ۔واہ۔واہ۔ مصرع اولیٰ میں شعریت بھرپور ہے۔ روانی بھی متاثر کن ہے۔ لیکن مصرع ثانی میں اظہار کی شگفتگی کا فقدان ہے۔ نظر پر باندھنا کی ترکیب خوبصورت نہیں لگ رہی ہے اور شاید خلاف محاورہ بھی ہو۔ دوسرا مصرع یوں ہو سکتا تھا۔۔ ع آنکھ میں رکھ کر ہر اک منظر نکل آیا ہوں میں۔


فیض احمد شعلہ : دوستوں نے بھر پور بات کی ۔ دوسرے مصرعے کا ابہام سنبھالا نہیں جا رہا ۔


پیش کی میں نے درودوں میں سجا کر ہر دعا

اور غم دنیا سے پھر اکثر نکل آیا ہوں میں


حافظ محبوب احمد : یہ پہلاشعر ہوا ہےجس میں ردیف نبھتی نظرآرہی ہے ۔ لیکن دوسرےمصرع میں اگر "پھر "کی جگہ یوں ہوتاتوشعر شعر سریع الفہم ہوتا

صابر رضوی : اور ۔۔۔پھر ۔۔۔حشو ہیں ۔۔۔مصرع نہایت کمزور ہو گیا ہے اس سے

فیض احمد شعلہ : ایک اچھا شعر۔ اس پر حافظ محبوب احمد صاحب قبلہ نے کار آمد گفتگو کی ہے۔ میں ان سے متفق ہوں۔ میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ دونوں مصرعوں میں زمانے کا فرق گراں بار سماعت ہے۔ ردیف کی وجہ سے مصرع ثانی زمانہ حال کا پابند ہے۔ اس لےء مصرع اولیٰ بھی زمانۂ ماضی کے بجائے زمانۂ حال کا تقاضا کرتا ہے۔ ویسے اس شعر کے لےء بھی داد بنتی ہے۔

ابو الحسن خاور : حافظ صاحب اور صابر بھائی سے اتفاق کہ "پھر" حشو ہے اور تا اثر کو کمزور کرتا ہے ۔ محترم فیض احمد شعلہ صاحب کو زمانوں کا فرق محسوس ہوا لیکن مجھے ایسا محسوس نہیں ہوا ۔ شعر اچھا ہے لیکن مجھے پہلے مصرعے کی بندش بھِی اچھی نہیں لگی ۔ "دعا" اور "پیش کرنا" بہت دور ہو گئے ہیں ۔ اساتذہ کے زمانے میں تعقید لفظی کی طرف ایسا دھیان نہیں دیا جاتا تھا ۔ تاہم آج کل مصرع کی ایک خوبی یہ بھی سمجھی جاتی ہے کہ الفاظ کی نشست و برخاست فطری اور نثر کے قریب ہو ۔


سلسبیل جنت ارضی سے سیرابی کے بعد

بوند تھا اور بن کے اب ساگر نکل آیا ہوں میں


حافظ محبوب احمد : ماشاء اللہ بہت پیاراشعر شاعرکےلئےبہت بہت داد

صابر رضوی : صابر رضوی : دوسرا مصرع کمزور ہے لیکن شعر کا مضمون اچھا ہے۔ ساگر سے پہلے والا حصہ کمزور ہے۔ بن کے ان کے لطف کا / سے ۔۔ ۔ کچھ اس انداز کا مصرع ----

فیض احمد شعلہ : بہت خوب شعر ہے۔سلسبیل جنت ارضی کی ترکیب اور اس سے سیرابی۔ پھر مصرع ثانی میں بوند اور ساگر کے استعمال سے شعر میں مناسبات لفظی کی ایک حسین فضا قائم ہو گیء ہے۔ البتہ مصرع ثانی میں "اب" کی جگہ "اک" میرے خیال سے زیادہ موزوں ہوتا۔

سلسبیل جنت ارضی سے سیرابی کے بعد بوند تھا اور بن کے اب ساگر نکل آیا ہوں میں

شعر کا تاثر اچھا ہے تا ہم سیراب پیاسا ہوتا ہے ۔ اس حوالے سے زمین سیراب ہو سکتی ہے ۔ ۔ بوند کیسے سیراب ہو تی ہے ؟ یہ ممکن ہے کہ شاعر بوند ہو اور سلسبیل جنت ارضی "میں ملنے" کے بعد ساگر ہو کر نکل آئے ۔ دوسرے مصرعے میں فیض احمد شعلہ صاحب کی تجویز بہت عمدہ ہے ۔ "اب" کی جگہ "اک" بہتر رہے گا ۔


چھوڑ کر اپنی زمیں اور لوگ تیرے نام پر

فیصلہ مشکل بہت تھا، پر، نکل آیا ہوں میں


حافظ محبوب احمد : ماشاء اللہ یہ بھی اچھاشعر ہے اگرچہ پرنکلنا..چونکہ بزات خود ایک فعل ہے لہذاتعقیدِ معنوی کاامکان پیداہورہاہے

صابر رضوی : بہت عمدہ۔ مطلع کی بازگشت ہے اس شعر میں

فیض احمد شعلہ : یہ شعر بھی قابلِ داد ہے۔ عشق رسول میں سب کچھ تیاگ دینے کی ترغیب دیتا ہوا یہ شعر ہمیں ہمالیائی سلطنت کپل وستو کے اس سدھارتھ کی یا پھر مخدوم سمنانی رحمۃ اللہ علیہ کی یاد دلاتا ہے جنھوں نے بادشاہت کی شان و شوکت کو ٹھکرا کر تلاش حق میں رخت سفر باندھ لیا تھا۔ مصرع ثانی میں پر کے بعد کوما کا نشان لگانا ضروری نہیں تھا۔یہ شاید ٹائپو ہے۔ "پر نکلنا" کے استعمال سے حافظ محبوب صاحب نے جس معنوی تعقید کا خدشہ ظاہر کیا ہے میرے خیال ردیف کا ٹکڑا "نکل آیا ہوں میں" اس امکان کو مسترد کر دیتا ہے۔


ابو الحسن خاور : واہ واہ وا۔ بہت عمدہ ۔ فیض احمد شعلہ صاحب سے متفق ہوں ۔ میرا بھی یہی خیال ہے ایک وقفے سے کام چلتا ہے


مضمحل دل پر فراق شہر طیبہ کا اثر

چھوڑ کر ناران جیسے تھر نکل آیا ہوں میں


ڈاکٹر صغیر احمد صغیر : ناران جیسا تھر... ترکیب درست نہیں. (ناران خوبصورت لہلہاتے پہاڑوں کے درمیان وادی ہے جبکہ تھر ایک ریگستان ہے)

حافظ محبوب احمد : .ماشاء اللہ یہ بھی اچھاشعرہے بالخصوص عصر حاضرکےدومعروف مقامات کواستعارہ کےطورپرشاعرنےاستعمال کیاہے.شاعرکےلئےبہت بہت داد

صابر رضوی : بہت عمدہ ۔۔۔۔ تھر نکل آیا ہوں میں ۔۔۔ اس کو تھر میں نکل آیا ہوں ۔۔۔۔ سمجھا جائے ۔۔۔۔تو مفہوم و معانی پرکیف نظر آتے ہیں۔۔۔ پھر شعر میں ناران کا ہرکیف ماحول جسے مدینہ سے مماثل کہا گیا ہے اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو تھر کہا گیا ہے ۔۔۔ کیا خوب تشابہ ہے ۔۔۔یعنی مدینہ کے جنتِ ارضی کا مفہوم اور اپنے گھر کو صحرا کہنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور بھی پہلو ہیں اس شعر کے ۔۔۔۔۔ بہت اچھا شعر ہے ۔۔۔۔۔۔ بہت داد


فیض احمد شعلہ : بہت خوب۔ ناران اور تھر جیسے جگہوں کے نام کی شمولیت سے اس شعر میں جان آ گیء ہے۔ " تھر " بطور قافیہ استعمال کرنے پر شاعر خصوصی داد کا مستحق ہے۔ نعت میں اس قافیہ کو کھپانا ذرا مشکل تھا۔


ابو الحسن خاور : اگرچہ دل بھی ہستی کانمائندہ ہے لیکن دوسرے مصرع میں ردیف "میں" بہت زور دار ہے تو اگر مصرع اولی میں دل کے بجائے اپنی ذات کی بات "میں" ، مجھ " وغیرہ سے ہو تو شعر زیادہ زود اثر ہو ۔ ابھی کیفیت ایک مصرع سے دوسرے مصرع میں آتے ہوئے کچھ وقت لیتی ہے


ایک ہجرت ذات کے اندر ، سفر تیری طرف

اے مرے آقا، مرے سرور نکل آیا ہوں میں


حافظ محبوب احمد : دونوں مصرعے تعقیدسےلبریزہیں لہذاریاضیاتی محنت سےگزرکرتب معنوی تفہیم ہوتی ہے پھرقوموں کادرست جگہ لگنا بہت اہم ہے. جوکہ نہیں لگائےگئے

صابر رضوی : یہ بھی اچھا ہے۔ پہلے مصرع کی بنت کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔ مصرع کا نثری پیرایہ اگر نحوی اعتبار سے مکمل نہ ہو تو کوشش کر کے اسے بہتر کیا جائے ۔۔۔اس مصرع کا نثری پیکر ہی کمزور ہے تو شعر میں مصرع اولا کے طور پر کیا کشش ہو گی؟ ؟؟ دوبارہ کہہ لیں مصرع۔۔۔۔ مطلع پھر سے گونج رہا ہے یہاں بھی


فیض احمد شعلہ: بہت عمدہ خیال ہے۔ لیکن شعر میں ڈھلتے وقت کچھ کمی رہ گئی ہے۔ مصرع اولیٰ مزید سلیقہ اور قرینہ کا متلاشی ہے۔ شاعر کہنا چاہتا ہے کہ اس کی ذات میں ایک فکری انقلاب برپا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ طبیعی ہجرت پر مجبور ہوا اور دنیوی مآحصل سے اب حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گامزن ہے۔یعنی جہل سے علم کی طرف اور تیرگی سے روشنی کی طرف نکل آیا ہے۔ پیرایۂ اظہار جیسا بھی ہو لیکن فکر کی داد بنتی ہے۔

ابو الحسن خاور : شاعر کے اندر کونسی ہجرت ہو رہی ہے یہ واضح نہیں ہوا ۔ اگر مفہوم ہی نکالنا ہو تو نکالا جا سکتا ہے لیکن متن سے نا مکمل خاکہ بنتا ہے


میں تھا کاشف کنکر بے مایہ اپنی کھوج میں

بن کے بحر شاہ سے گوہر نکل آیا ہوں میں

حافظ محبوب احمد : کھوج مونث باندھاہے.اسےدیکھ لیناچاہئے.شعر واضح المفہوم ہے.اگرچہ مناسبت کالحاظ نہیں رکھاگیا.گوہر میں کنکر تبدیل نہیں ہوتابلکہ آپ نیساں کاقطرہ نکلتاہے.تواس شعر میں اگرکنکرکی جگہ قطرہ کرلیاجائےتومسئلہ حل ہوجائے

صابر رضوی : واہ واہ واہ ۔۔۔ بہت ہی اعلا اور شاندار شعر ہے۔ کنکر کی تطہیر کیسے ہوئی ہو گی بحرِ شاہ میں کہ وہ بھی گوہر بن گیا ۔۔۔۔ کیا کہنے ۔۔۔ رسالت مآب صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک شان ۔۔۔ ویزکیہم ۔۔۔۔ نفوس کا تذکیہ کرنا بھی ہے۔ اور مدینہ کی فضا بھی وہ تزکیہ کرتی ہے۔۔۔۔ کیا عمدگی سے آپ نے اس آیت کو بیان کیا ہے ۔۔۔۔سبحان اللہ سبحان اللہ

فیض احمد شعلہ : مقطع بھی اچھے خیال کا ترجمان ہے۔ یہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و کمال کا اعتراف ہے جن کے زیر سایہ عرب کے بدو، سلطنت عظمی کے مالک و مختار ہوگےء۔ ان میں نہ صرف مادی ترقی ہویء بلکہ وہ روحانی اقدار کے بھی امین ہو گےء۔ مصرع اولیٰ میں "کھوج" شعر میں محض وزن کی تکمیل کرتا ہے ورنہ معنویت پیدا کرنے میں یہ بے اثر ہے۔ حافظ صاحب نے اس طرف اشارہ بھی کیا ہے۔ کنکر اور گوہر کے سلسلے میں حافظ صاحب کی دلیل درست ہے لیکن شعروں کو ہمیشہ سائنسی استدلال کی روشنی میں پرکھا جانا کوئی ضروری نہیں۔ کنکر بے مایہ کا گوہر میں تبدیل ہونا گوارہ کیا جا سکتا ہے۔

ابو الحسن خاور : مضمون یہ ہے کہ میں اپنی تلاش میں نکلا توبے وقعت تھا اور لطف شاہ سے باوقار ہوگیا ۔ پتھرکا لمس سے گوہر ہونا اور قطرے کا سیپ میں گوہر ہونا واضح ہیں ۔ "کنکر" کا گوہر ہونا ایک نئی فکر ہے ۔ نیا کہنا کچھ غلط نہیں ۃوتا لیکن مضبوط جواز کے ساتھ ہو تو قاری اسے زیادہ قبول کرتا ہے ۔ کنکر ِبے مایہ میں ہندی فارسی اضافت اگرچہ اہل زبان قبول نہیں کرتے تاہم ایک قلیل گروہ اس بات کا قائل ہے کہ اگر ایسی کوئی ترکیب بہت عجیب نہ لگ رہی ہو تو قبول کی جا سکتی ہے ۔

مجموعی تا اثر

ڈاکٹر صغیر احمد صغیر : ناران جیسا تھر کے سوا باقی اشعار پر داد..

حافظ محبوب احمد : مجموعی طورپریہ نعت مشکل ردیف کی وجہ سےشاعرکےلئےمشکل پیداکرتی نظرآرہی ہے.اورزیادہ تراشعارمیں ردیف مصرعےکےپیوست نظرنہیں آرہی

اشرف یوسفی : یہ کیا نعت ہے شاعر نے سرکار دوعالم کی بجائے اپنی ذات کو محور اور توجہ کا مرکز بنایا ہوا ہے ۔ میں نے پہلے تین اشعار پڑھے ہیں اور آگے پڑھنے کا حوصلہ نہیں ہوا جس نعت کی ردیف کی بنیاد ہی میں پر ہو اس کے لئے بہت محتاط ہونا پڑتا ہے۔ نعت ِ شاہ ِ دوعالم پل صراط ہے ۔

فیض احمد شعلہ: مجموعی طور پر یہ شعری کاوش قابل داد ہے اور شاعر سے مستقبل میں مزید پختہ اور وجدانی شاعری کی امید کی جا سکتی ہے ۔

ابو الحسن خاور  : مجموعی طور پر نعت میں تازہ کاری نہ صرف متاثر کرتی ہے بلکہ شاعرکی زرخیز فکر کا پتا دیتی ہے ۔ اشعار کی صراحت و تفہیم قاری کی اپنی فہم کے مطابق کم زیادہ ہو جاتی ہے ۔ ممکن ہے جن اشعار میں مجھے ابہام محسوس ہوا ہو وہ کسی اور قاری کے لیے بہت پر لطف ہوں لیکن ایسی تازہ شاعری اپنا ایک مقام رکھتی ہے ۔ میری طرف سے بہت داد ۔

ضمنی مباحث

کنکر ِ بے مایہ :



حافظ محبوب احمد: کنکرِ بےمایہ کی ترکیب کیادرست ہے؟ کنکرغالباہندی لفظ نہیں ..؟ موجودہ رائج الوقت قواعدکےمطابق توپھریہ ترکیب درست نہیں ہے.

صابر رضوی : کنکر پراکرت زبان کا لفظ ہے ۔ اگر ہندی فارسی مرکبات درست نہیں تو عربی اور فارسی کے مرکبات درست ہونے کی توضیحات کیا کیا ہیں ؟؟؟؟

ابو الحسن خاور: کنکر ِبے مایہ میں ہندی فارسی اضافت اگرچہ اہل زبان قبول نہیں کرتے تاہم ایک قلیل گروہ اس بات کا قائل ہے کہ اگر ایسی کوئی ترکیب بہت عجیب نہ لگ رہی ہو تو قبول کی جا سکتی ہے ۔ جیسے "سطح ِ سمندر" کی اصطلاح نثر میں بھی رواج پا چکی ہے


نعت کیا ہے ؟


اشرف یوسفی : یہ کیا نعت ہے شاعر نے سرکار دوعالم کی بجائے اپنی ذات کو محور اور توجہ کا مرکز بنایا ہوا ہے ۔

ابو الحسن خاور: نعت کے دائرے میں کیا آتا ہے اور کیا نہیں اس پر علمائے نعت اور احباب میں اختلاف ہے ۔ سب کا ایک نقطے پر اکٹھے ہونا مشکل ہے ۔ ذاتی طور پر میں نعت کے عنوان سے پیش کیے جانے والے ہر اس شعر کو نعت سمجھتا ہوں جسے پڑھ کی دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا چراغ روشن ہو اور ان کی شان مبارکہ کے جلوے جھلملانے لگیں ۔

یاد دہانیاں

  • اصل چیز شعر کی تاثیر ہوتی ہے۔ اگر اسے سن کر کوئی کیفیت نہیں پیدا ہوتی تو شعر بے جان سمجھا جائے گا ۔ فیض احمد شعلہ
  • مصرع کا نثری پیرایہ اگر نحوی اعتبار سے مکمل نہ ہو تو کوشش کر کے اسے بہتر کیا جائے ۔ صابر رضوی
  • طویل، ،منفرد اور خطابیہ ردیفوں کے ساتھ مطلع میں دونوں مصرعوں کے ردیفوں کے جواز کے لیے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے ۔ ابو الحسن خاور
  • اساتذہ کے زمانے میں تعقید لفظی کی طرف ایسا دھیان نہیں دیا جاتا تھا ۔ تاہم آج کل مصرع کی ایک خوبی یہ بھی سمجھی جاتی ہے کہ الفاظ کی نشست و برخاست فطری اور نثر کے قریب ہو ۔ ابو الحسن خاور