"تبادلۂ خیال:اختر شمار" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
(نیا صفحہ: ڈاکٹر اختر شمار نعت یہ جو ذرّے نے چمک آپ سے لے رکھی ہے پھُول نے اپنی مہک آپ سے لے رکھی ہے اِس ک...)
 
(تمام مندرجات حذف)
 
سطر 1: سطر 1:
    ڈاکٹر اختر شمار
    نعت


یہ جو ذرّے نے چمک آپ سے لے رکھی ہے
پھُول نے اپنی مہک آپ سے لے رکھی ہے
اِس کی آواز فلک تا بہ فلک سنتا ہُوں
یہ جو مٹّی نے کھنک آپ سے لے رکھی ہے
آپ کے دم سے ہی قائم ہیں سبھی رنگِ زمیں
آسماں نے بھی دھنک آپ سے لے رکھی ہے
ورنہ ہو جاتے یہ برباد، اُجڑ جانے تھے
سب جہانوں نے کمک آپ سے لے رکھی ہے
مَیں کہ مخلوق پہ حیراں ہُوں یہاں کِس کِس نے
روزی نان و نمک آپ سے لے رکھی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نعت ۔۔۔۔ اختر شمار
رحمتِ باراں سے جب مہکی ہَوَا صلِّ علیٰ
آسماں نے سات رنگوں سے لکھا صلِّ علیٰ
ڈالی ڈالی کا وظیفہ آپ کا ذِکرِ جمیل
ہر شجر کے پتّے پتّے کی دُعا صلِّ علیٰ
مَیں سکوتِ حجرئہ دِل میں مصلّے پر نہ تھا
رات کے پچھلے پہر کِس نے کہا صلِّ علیٰ
سوچ میں نورِ محمد کی کِرن اُتری تھی اور
کھُل گیا  تھا مجھ پہ میرا آئنہ صلِّ علیٰ
ہولے ہولے سانس میں مہکی جو خوشبوے درُود
دِھیرے دِھیرے میری دھڑکن نے کہا صلِّ علیٰ
پا لیا ہے اسمِ اعظم دِل نے جینے کے لیے
ہر گھڑی وردِ زباں صلِّ علیٰ صل ِ علیٰ ِّ علیٰ
دیکھتا ہُوں منکشف ہوتے ہوئے مَیں کائنات
ہر قدم پر دم بہ دم اور جابہ جا صلِ علیٰ
مرحبا آنکھیں جو لپکیں سبز گنبد کو شمار
دِل سنہری جالیوں سے جا لگا صلِّ علیٰ
    ۔٭۔
نعت ۔۔۔۔ اختر شمار
سوچتے سوچتے جب سوچ اُدھر جاتی ہے
روشنی روشنی ہر سمت بکھر جاتی ہے
دھیان سے جاتا ہے غم بے سروسامانی کا
جب مدینے کی طرف میری نظر جاتی ہے
اُڑتے اُڑتے ہی کبوتر کی طرح آخرِکار
سبز گنبد پہ مری آنکھ ٹھہر جاتی ہے
میں گذرتا ، تو وہاں جاں سے گذرتا چُپ چاپ
یہ ہَوَاکیسے مدینے سے گذر جاتی ہے
بخت میں مجھ سے تو اچھّی ہے رسائی اس کی
جو مدینے کو ترے، راہگذر جاتی ہے
رات جب الٹے قدم آتی ہے دِیدار کے بعد
چُومنے آپ کے قدموں کو سحر جاتی ہے
چاہے یہ ڈور سی اُلجھی رہے دُنیا میں شمار
زِندگی جا کر مدینے میں سنور جاتی ہے
  ۔٭۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نعت ۔۔۔۔ اختر شمار
آگہی کی وہ جو خیرات مدینے میں ہُوئی
مجھ سے میری بھی مُلاقات مدینے میں ہُوئی
کیا بتاﺅں جو اِن آنکھوں کا ہُوا حال وہاں
اور اُس روز جو برسات مدینے میں ہُوئی
صبح آنکھیں بھی تو وہ دیکھنے والی ہوں گی
ہاں بسر جن کی ہر اِک رات مدینے میں ہُوئی
ناز کرتا ہے مقدّر پہ زمانہ ، اُن کے
آپ سے جن کی مُلاقات مدینے میں ہُوئی
مَیں نے تو مصر میں چپکے سے کہا صلِّ علیٰ
عرش پر گونج گئی بات مدینے میں ہُوئی
دو جہانوں پہ شمار اُس کا کرم پھیل گیا
رحمتِ ربِّ عنایات مدینے میں ہُوئی
  ۔٭۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نعت ۔۔۔ اختر شمار
آنکھےں سجود مےں ہےں تو دِل کا قےام ہے
حیران ہیں کہاں پہ یہ اپنا قیام ہے
اشکوں کے ساتھ ساتھ ہے تاروں کا قافلہ
اور نعت کے سفر میں مدینہ قیام ہے
دِل سے نکال جتنے بھی وہم و گمان ہیں 
اِس راہ میں یقین ہی پہلا قیام ہے
اب اپنی زِندگی ہے مسلسل سفر کا نام
منزل قیام ہے نہ یہ رستہ قیام ہے
مَیں سوچتا ہُوں غارِحرا میں گزار لُوں
دِل کے سفر میں ایک مہینا قیام ہے
سجدہ ضرور آئے گا اگلے پڑاو میں
فی الحال تو یہ سارا زمانہ قیام ہے
  ۔٭۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حالیہ نسخہ بمطابق 09:34، 4 فروری 2019ء