آپ «اُردو کا اوّلین نعت گو۔ڈاکٹر افضال احمد انور» میں ترمیم کر رہے ہیں
نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔
تازہ ترین نسخہ | آپ کی تحریر | ||
سطر 324: | سطر 324: | ||
عمر یا فعی نے تین صفحات پر مشتمل جو رسالہ دریافت کیا تھا‘ (جس میں پندرہ سطریں نثر میں اور اڑتیس ابیات ہیں) کے آخر میں ’’من تصنیف سید محمد اکبر حسینی بندہ نواز‘‘ کے الفاظ ملتے ہیں۔ اس رسالے کی نسبت معراج العاشقین کی زبان صاف ہے۔ ’’اہل دکن نے…… تین صفحوں کے اس مختصر رسالے کو نویں صدی ہجری کے دکنی ادب کے دامن میں ٹانک کر یقینا تحقیقی ستم ظریفی‘‘ کا ثبوت دیا ہے۔‘‘ (ایضاًص:۳۳) معراج العاشقین کو مولوی عبدالحق نے ڈرتے ڈرتے شائع تو کردیا لیکن زندگی بھر اصرار نہیں کیا…… شاہ محمد علی سامانی نے (جو خواجہ بندہ نواز کے مرید و خادم تھے) ۸۳۱ھ میں ’’سیرِ محمدیؐ‘‘ نامی کتاب لکھی۔ اس میں خواجہ بندہ نواز کی چھوٹی بڑی ۳۶ تصانیف کا ذکر ہے۔ یہ سب عربی فارسی میں ہیں۔ | عمر یا فعی نے تین صفحات پر مشتمل جو رسالہ دریافت کیا تھا‘ (جس میں پندرہ سطریں نثر میں اور اڑتیس ابیات ہیں) کے آخر میں ’’من تصنیف سید محمد اکبر حسینی بندہ نواز‘‘ کے الفاظ ملتے ہیں۔ اس رسالے کی نسبت معراج العاشقین کی زبان صاف ہے۔ ’’اہل دکن نے…… تین صفحوں کے اس مختصر رسالے کو نویں صدی ہجری کے دکنی ادب کے دامن میں ٹانک کر یقینا تحقیقی ستم ظریفی‘‘ کا ثبوت دیا ہے۔‘‘ (ایضاًص:۳۳) معراج العاشقین کو مولوی عبدالحق نے ڈرتے ڈرتے شائع تو کردیا لیکن زندگی بھر اصرار نہیں کیا…… شاہ محمد علی سامانی نے (جو خواجہ بندہ نواز کے مرید و خادم تھے) ۸۳۱ھ میں ’’سیرِ محمدیؐ‘‘ نامی کتاب لکھی۔ اس میں خواجہ بندہ نواز کی چھوٹی بڑی ۳۶ تصانیف کا ذکر ہے۔ یہ سب عربی فارسی میں ہیں۔ | ||
٭٭٭ | ٭٭٭ | ||