اُردو کا اوّلین نعت گو۔ڈاکٹر افضال احمد انور

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat Kainaat Afzal Ahmad Anwar.jpg

مضمون نگار : پروفیسر ڈاکٹر افضال احمد انور (فیصل آباد)

مطبوعہ : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27


اُردو کا اوّلین نعت گو[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT: The history of Urdu Naat is as old as the history of Urdu poetry because signs of Naat in the beginning of Urdu Poetry have also been traced out. There is a hot debate among scholars as to who wrote the very first regular Naat in Urdu . Broadly speaking, there are three different opinions regarding this issue. Some scholars think that Hazrat Khawaja Syyed Muhammad Hussaini, Banda Nawaaz, Gaesoo Daraaz)r.h. ( is the first person who wrote Naat at the very first time in Urdu language. Some scholars argue that Fakhr-ud-Din Nizami is the man who did this job. For some, Mullaa Daood has the honour of being the first Urdu Naat 's poet. In this research paper, all historical aspects of the issue have been recorded and concluded comprehensively. In the light of available material, this article proves that Hazrat Khawaja Syyed Muhammad Hussaini, Banda Nawaaz, Gaesoo Daraaz)r.h( holds privilege of being the very first regular Urdu Naat's Poet.


اُردو ادب کے محققین میں یہ مسٔلہ لائقِ توجہ رہا ہے کہ سب سے پہلے اردو نعت لکھنے کاشرف کس خوش نصیب کو حاصل ہوا؟ کسی کے نزدیک اوّلیت کا یہ اعزاز حضرت خواجہ گیسو دراز بندہ نواز ؒ کو حاصل ہوا۔ کسی نے یہ سہرا فخرالدین نظامی کے سر باندھا اور کسی نے اس کا مستحق ملا داؤد کو قرار دیا۔یہاں اس مسٔلہ کے اہم پہلوؤں پر تحقیقی نظر ڈال کر کچھ نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ (۱)


اس ضمن میں بابائے اردو مولوی عبدالحق ‘ سید یونس شاہ اورراجارشید محمود کا نقطۂ نظر ہے کہ حضرت سید محمد حسینی گیسو دراز‘ بندہ نوازؒ نے سب سے پہلے اردو نعت لکھنے کا شرف حاصل کیا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی‘ ڈاکٹر ریاض مجید اور معروف نعت گو حفیظ تائب ؒ کا خیال ہے کہ پہلی اردو نعت لکھنے کی سعادت مثنوی کدم راؤ پدم راؤ کے مصنف فخرالدین نظامی کو حاصل ہے۔ڈاکٹر محمد اسماعیل آزاد فتح پوری (بھارت) کا لکھنا ہے کہ مُلا داؤد پہلے اردو نعت نگار ہیں۔


اردو میں سب سے پہلے منظوم نعت کہنے کا شرف کسے حاصل ہے؟مندرجہ بالا بیانیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ناقدین و محققین میں یہ بحث خاصی متنازعہ ہے‘ پھر بھی اس کی اہمیت کے پیشِ نظر اس کا تجزیہ ضروری ہے۔


نصیر الدین ہاشمی نے قدیم دکنی شعراء کا ذکر کرتے ہوئے ’’دکن کا پہلا شاعر اور نظم کی ابتدا‘‘ کے زیرِ عنوان لکھا:


’’موجودہ تحقیقات کے لحاظ سے خواجہ بندہ نواز سید محمد حسینی گیسو درازؒ (متوفی۸۲۵ھ) دکن کے پہلے شاعر قرار پاتے ہیں۔‘‘ (۲)


ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاق نے اردو نعت کے موضوع پر پہلی پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی‘ انھوں نے قدیم دور کے اردو نعت گو شعراء اور نعتیہ مخطوطات کے باب میں سب سے پہلے حضرت سید محمد حسینی گیسودرازؒ کا ذکر کیا ۔ (۳)


ان کی نعتوں کا نمونہ بھی دیا۔ ان کے اس عمل سے ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک حضرت گیسو درازؒ اردو کے پہلے نعت گو شاعر ہیں۔ انہوں نے مولوی عبدالحق کی کتاب ’’اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیائے کرام کا کام‘‘ میں موجود حضرت گیسو درازؒ کا وہ کلام درج کیا ہے جو‘ ان کے بقول آغا حیدر حسن کی مملوکہ بیاض میں بھی درج ہے‘ اور وہ یوں ہے:


"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

میں عاشق اس پیو کا جنے مجھے جیو دیا ہے

او پیو میرے جیو کا بر مالیا ہے


اور معشوق بے مثال ہے نور نبیؐ پایا

نور نبی رسول کا او میرے جیو میں بہایا

اپسکوں اپنے دیکھنے کیسی آرسی لایا


کھڑے کھڑے پیو جیو میں‘ آپسیں آپ دکھاوے

ایسی میٹھی معشوق کوں کوئی کیوں دیکھے پاوے

جنہہ دیکھے او سی کوں اسے اور نہ بہاوے


کل شے محیط ہے اس کون پچھانے

جو کوئی عاشق اس پیو کے اسی جیو میں جانے

اسی دیکھت کم ہو رہے جیسی میں دیوانے


خواجہ نصیر الدین جنے سائیاں پیو بنائی

جیو کا کہوں کٹہ کھول کر پیا مکّہ آپ دکھائی

رکھے سید محمد حسینی پیو سنکہہ کہیا نہ جائی (۴)

مثلث کی اسی ہیئت میں دو منظومات مزید دی گئی ہیں‘ پہلا مثلث تو نعت کا دقیع نمونہ ہے۔


اے محمدؐ ہجلو جم جم جلوہ تیرا

ذات تجلّی ہوے گی سیس سپور نہ سیہرا


واحد اپنی آپ تھا‘ اپیں آپ نجہایا

پر کٹہ جلوے کار نے الف میم ہو آیا

عشقوں جلوہ دینے کر کاف نون بسایا


لولاک لما خلقت الافلاک خالق پالائے

فاضل افضل جتنے مرسل ساجد سجود ہو آئے

امت رحمت بخشش ہدایت تشریف پائے (۵)


اس مثلث کا تیسرا بند درج کرنے سے پہلے اقبال الدین احمد نے لکھا: ’’بندہ نواز شہبازؒ حیات النبیؐ کے قائل تھے‘‘ جیسا کہ فرماتے ہیں:


مخفی نانوں معشوق رکھ ظاہر شہباز کہلائے

عشق کے جینی چندر بند اپنی آپ دکھائے

الآن کما کان پھر آپسیں آپ سمائے (۶)


خواجہ گیسو درازؒ کا ’’چکّی نامہ‘‘ حمد‘ نعت اور مضامینِ تصوف پر مشتمل ہے۔ مربع ہیئت کی اس نظم کے کل بارہ بند ہیں‘ جن میں سے پانچ بند نصیر الدین ہاشمی نے نقل کیے ہیں۔ ایک بند میں نعتیہ مضمون یوں بہار دکھا رہا ہے:


الف اﷲ اس کا دستا

میانے محمد ہوکر بستا

پہنچی طلب یوں کو دستا

کہے بسم اﷲ ہو ہو اﷲ (۷)


ترقی‘ اردو بیورو نئی دہلی (بھارت) سے ڈاکٹر فہمیدہ بیگم نے ’’دکن میں اردو‘‘ کا جو ایڈیشن شائع کیا ہے‘ اس میں خواجہ گیسو درازؒ کی بطور نمونہ دو اردو غزلیں بھی درج ہیں۔ (۸)

ان کی غزل چونکہ ہمارے دائرہ تحقیق سے باہر ہے لہٰذا وہ اشعار درج نہیں کیے جاتے‘ تاہم ان اشعار سے یہ تو بخوبی واضح ہوتا ہے کہ وہ ایک قادر الکلام شاعر تھے۔سید یونس شاہ نے خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ کی ایک رباعی بھی نقل کی ہے:

پانی میں نمک ڈال مزا دیکھنا دسے

جب گُھل گیا نمک تو نمک بولنا کسے

یوں کہوی خودی اپنی خدا ساتھ محمدؐ

جب گُھل گئی خودی تو خدا بولنا کسے (۹)


سید یونس شاہ نے ان کے ایک نعتیہ مخمس کا پہلا بند بھی درج کیا ہے:


کہاں لک کھینچیا رہے گا توں دنیا کی پریشانی

چئے لک فکر ہی دینے کی دنیا دیکھے تو ہے فانی

دنیا میں یوں ہمیں آئے کہ چون آئے ہیں مہمانی

توسٹ غفلت آپسی تن کی کہ ہوشتیار اے گیانی

سمجھ کر دیکھ ہے تجھ میں نبی کا نور نورانی (۱۰)


سید یونس شاہ کے بقول  :

’’بعض تذکرہ نگاروں نے آپ کی تصنیفات کی تعداد ۱۰۵ بتائی ہے۔ اس وقت کم و بیش آپ کی ۴۰ تصنیفات دستیاب ہیں۔ جن میں کچھ دکنی رسائل بھی ہیں… اس بناء پر سید سلیمان ندوی نے انہیں چشتیہ سلسلے کے ’’سلطان القلم‘‘ کا خطاب دیا ہے۔‘‘ (۱۱)

وہ حضرت خواجہ گیسو درازؒ کے ایسے کلام کی نشاندہی بھی کرتے ہیں جو کتابی شکل میں محفوظ نہیں ہوسکا:

’’آپؒ کا بہت سا کلام سینہ بہ سینہ چلا آرہا ہے اور یہ وہ راگ راگنیاں ہیں جو قوّال گاتے چلے آرہے ہیں اور جن کا کوئی تحریری ثبوت آج نہیں ہے۔‘‘ (۱۲) خواجہ گیسو درازؒ ‘حضرت نصیر الدین محمود چراغ دہلویؒ کے مرید و خلیفہ تھے اور کلام میں شہباز تخلص استعمال کرتے تھے۔ ان کا جو کلام بطور نمونہ اوپر درج کیا گیا ہے اس کی داخلی شہادتیں بھی انہیں قادر الکلام شاعر ثابت کرتی ہیں۔ ان سے پہلے کسی نے اردو میں کوئی باقاعدہ نعت کہی تو اس کا کوئی سراغ یا ثبوت نہیں ملتا‘ لہٰذا اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اردو نعت گوئی میں ان کی اولیت کو تسلیم کیا جائے۔ سید رفیع الدین اشفاق نے پہلے باقاعدہ نعت گو کے طور پر ان کا ذکر سب سے پہلے کیا۔ پروفیسر سید یونس شاہ نے بھی انہیں اولین اردو نعت گو تسلیم کیا:


’’ہمیں یہ دیکھ کر حقیقی مسرت ہوتی ہے کہ اردو کے پہلے شاعر نے ایک مکمل نعتِ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم دکنی میں لکھی۔ گویایہ کہا جاسکتا ہے کہ اردو زبان نے جب ادبی میدان میں قدم رکھا تو من جملہ اور اصنافِ شاعری کے نعتِ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی حیثیت سے بھی خواجہ بندہ نواز‘ گیسو درازؒ کا نام یاد رہے گا۔‘‘ (۱۳)


ڈاکٹر جمیل جالبی نے جب مثنوی کدم راؤ پدم راؤ مدوّن کی تو اس کے شاعر فخر الدین نظامی کے سر اردو کے اولین شاعر ہونے کا سہرا باندھ دیا۔ انہوں نے خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ سے منسوب رسالہ ’’معراج العاشقین‘‘ کی خواجہ گیسو درازؒ سے نسبت کی تغلیط کی اور اس نظریے پر زور دیا کہ مثنوی کدم راؤ پدم راؤ ہی اردو کی پہلی تصنیف ہے۔ (۱۴)


بھارت میں شائع ’’دکن میں اردو‘‘ کے آغاز میں ڈاکٹر فہمیدہ بیگم نے ’’اپنی بات‘‘ کے زیرِ عنوان لکھا:

’’حضرت خواجہ بندہ نواز‘ گیسو درازؒ کو اس صدی کی ابتدا میں اردو کا پہلا شاعر اور نثر نگار مانا گیا تھا‘ مگر عہدِ جدید کی تحقیق نے ان تمام رسائل کو حضرت سے منسوب کردہ ثابت کیا… معراج العاشقین کوایک اور بزرگ مخدوم حسینی کی کتاب ثابت کرنے کے لئے ڈاکٹر حفیظ قتیل نے ایک مکمل کتاب تصنیف کر ڈالی ہے۔‘‘ (۱۵)


ڈاکٹر جمیل جالبی‘ ڈاکٹر حفیظ قتیل اور ڈاکٹر فہمیدہ بیگم جیسے محققین کی آرا کے باعث یہ نظریہ پھیلتا گیا کہ چوںکہ معراج العاشقین‘ خواجہ گیسو درازؒ کی تصنیف نہیں لہٰذا خواجہ گیسو درازؒ پہلے اردو شاعر بھی نہیں‘ نتیجۃً پہلے نعت گو بھی نہیں۔ ڈاکٹر حفیظ قتیل کی کتاب ’’معراج العاشقین کا مصنف‘‘ حیدر آباد‘ دکن سے ۱۹۶۴ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب کی تلخیص نجم الاسلام نے بڑی محنت سے تیار کی جو شعبۂ اردو سندھ یونیورسٹی کے مجلہ ’’تحقیق‘‘ کے دسویں گیارہویں مشترکہ شمارے میں شائع ہوئی۔ اس سے ڈاکٹر حفیظ قتیل کے طریق کار کی نشاندہی ہوتی ہے۔ اس کے مطابق مولوی عبدالحق نے جب ’’معراج العاشقین‘‘ مرتب کی تو اس کے پیشِ نظر دو مخطوطے تھے ایک قلمی نسخہ ان کی ذاتی ملکیت تھا جبکہ دوسرا ڈاکٹر محمد قاسم کے کتب خانے میں تھا۔ ڈاکٹر محمد قاسم کے نسخے میں صراحت تھی کہ یہ ۹۰۶ھ میں کتابت ہوا۔ خود ڈاکٹر حفیظ قتیل نے اپنی تحقیق کے لیے جن چار قلمی نسخوں سے مدد لی ان پر نام ’’معراج العاشقین‘‘ درج تھا۔ ایک نسخہ پر سنِ کتابت‘ مصنف کا نام درج نہیں جبکہ تین نسخوں پر بطور مصنف خواجہ گیسو دراز بندہ نوازؒ کا نام درج ہے۔ مولوی عبدالحق نے جس نسخے کو بنیاد بنایا تھا وہ ۹۰۶ھ کے نسخے کی نقل تھا اسی بنا پر مولوی عبدالحق کو حضرت خواجہ بندہ نوازؒ سے اس کتاب کے انتساب کا یقین بھی ہوا لیکن ڈاکٹر حفیظ قتیل نے اپنی تحقیق کی بنیاد اس مفروضے پر رکھی کہ معراج العاشقین دراصل مخدوم شاہ حسینی کی تصنیف ہے۔ ان کے بقول مخدوم شاہ حسینی کی تاریخِ پیدائش و وفات تو کجا ان کی جائے تدفین کا بھی پتا نہیں چل سکا(۱۶)۔ البتہ قیاس ہے کہ گیارہویں صدی ہجری کے اواخر اور بارہویں صدی ہجری کے اوائل کے بزرگ ہوں گے۔(۱۷)

ان سے منسوب تین رسالے (۱)تلاوت الوجود (ب)دس مختلف ناموں سے ملنے والا ایک اور رسالہ اور (ج)تین ناموں سے ملنے والا ایک اور‘ رسالہ۔ معراج العاشقین منسوب بہ خواجہ بندہ نواز اٹھارہ صفحات کا ایک نثری رسالہ ہے جبکہ شاہ حسینی کا رسالہ ب تقریباً سو صفحات پر مشتمل ہے۔ معراج العاشقین کی عبارت رسالہ ب میں موجود ہے۔ اگرچہ ابواب کی سرخیاں نہیں ہیں لیکن مباحث کی ترتیب وہی ہے۔ اس سے قتیل نتیجہ نکالتے ہیں کہ:


’’معراج العاشقین تلاوۃ الوجود کا خلاصہ ہے نہ کہ تلاوۃ الوجود معراج العاشقین کی شرح ہے۔‘‘ (۱۸)


سوچا تو یوں بھی جاسکتا تھا کہ خواجہ محمد حسینی گیسو درازؒ کے ما بعد کے زمانے کے مصنف (یا کاتب) شاہ حسینی نے معراج العاشقین کی عبارت اپنے رسالے میں کھپالی ہے لیکن خلاصہ اور شرح کی اصطلاحوں کا سہارا لے کر یہ طے کرلیا گیا کہ معراج العاشقین نہیں بلکہ تلاوۃ الوجود اصل کتاب ہے۔ اس کے لیے بعض الفاظ و تراکیب کے استعمال کے پیشِ نظر زمانۂ تصنیف کا تعین کیا گیا۔ مولوی عبدالحق کے بارے میں طے کرلیا گیا کہ مولوی عبدالحق نے اس رسالے کے متن پر غور نہیں فرمایا اس کی ایک وجہ یہ بتائی گئی کہ غالباً انہیں علم تصوف سے کچھ زیادہ دلچسپی نہیں تھی‘ لہٰذا مولوی صاحب اس رسالے کی عبارت بوجوہ نہ سمجھ سکے۔ (۱۹)


جس قلمی نسخے کو ۹۰۶ھ کے نسخے کی نقل ہونے کا امتیاز حاصل تھا‘ اس کے سالِ کتابت پر عجیب و غریب قیاس آرائی کی گئی کہ دکنی مخطوطات میں کثرتِ اغلاط کی بناء پر اسے بھی غلط قیاس کرلیا جائے۔ (۲۰)


ڈاکٹر حفیظ قتیل نے بتایا کہ معراج العاشقین دراصل صوفیائے بیجاپور کے اجتہادی تصوف کے مضامین سے متعلق ہے اور خواجہ بندہ نواز کی تعلیمات کا مرکزی موضوع عشق ہے۔ لہٰذا ان کا فلسفہ اصلاً جذبہ ہے فلسفہ نہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’بیجاپوری مصنفین میں مختلف رسائل سے اقتباسات لے کر ایک علیحدہ رسالہ مرتب کرنے کا رجحان عام ہے۔‘‘ (۲۱)


مولوی عبدالحق رسالے کی عبارت سمجھ سکے یا نہیں‘ لیکن عام قاری اس بات کو نہیں سمجھ رہا کہ اندازوں پر مبنی یہ اندازِ تحقیق کیسا ہے؟ دو بزرگ ہیں۔ ایک کا نام سیّد محمد حسینی ہے دوسرے کا شاہ حسینی۔ پہلے کا تعلق نویں صدی ہجری سے ہے دوسرے کا بارہویں صدی ہجری سے۔ ایک کے سوانحِ حیات معلوم ہیں اور مزار کی سب کو خبر ہے۔ دوسرے کے حالاتِ زندگی تو کجا‘ جائے تدفین کی بھی خبر نہیں۔ دونوں کا نام ’’حسینی‘‘ ایک ہے۔ کہیں یہ ایک ہی شخصیت کو دو مرتبہ تو پیش نہیں کر دیا گیا؟ اگر اس خبر کو حقیقت مان لیا جائے کہ ’’مصنفین میں مختلف رسائل سے اقتباسات لے کر ایک علیحدہ رسالہ مرتب کرنے کا رجحان عام ہے‘‘ تو اصولاً کس نے کس کے اقتباسات لیے؟ پہلے بزرگ نے چار سو سال بعد کے بزرگ کا کام اپنے نام کر لیا یا بعد والے نے پہلے دور کے مصنف کا کام اپنے نام کر لیا۔ اس گورکھ دھندے سے بچنے کے لیے لسانی مباحث کو بنیاد بنا کر نتائج اخذ کر لیے گئے۔ یہ تمام تحقیق، اُس وقت مشکوک ہو جاتی ہے جب ہم مولوی عبدالحق جیسے فاضل مصنف سے سنتے ہیں کہ معراج العاشقین ۹۰۶ھ میں کتابت ہوئی تھی اس اندراج کو کیسے نظر انداز کر دیا جائے؟ کیا ’’اسے بھی غلط قیاس کر لیا جائے۔‘‘ کوئی تسلی بخش جواب ہے؟؟؟ حیرت ہے کہ تمام زورِ تحقیق یک رُخا ہے۔ یقینا اسے من و عن تسلیم کرنے میں بہت سے تحفظات ہیں لیکن‘ اگر بالفرض یہ ثابت ہوبھی جائے کہ نثری تصنیف معراج العاشقین حضرت گیسو درازؒ کی تصنیف نہیں تو اس سے یہ نتیجہ کیسے نکل سکتا ہے کہ ان کا شعری سرمایہ بھی ان کا نہیں؟


اگر یوں ہوتا کہ نصیر الدین ہاشمی نے ’’دکن میں اردو‘‘ میں جن مخطوطات اور قلمی نسخوں کی مدد سے کلام نقل کیا‘ ان پر بحث کی جاتی اور دلائل سے ثابت کیا جاتا کہ یہ کلام حضرت خواجہ گیسو دراز ؒ کا نہیں بلکہ فلاں بزرگ کا ہے تو اولین نعت گو ہونے کا شرف بھی انہی بزرگ کو حاصل ہوتا‘ لیکن جب ایسا نہیں ہوسکا تو محض ان کے نثری رسالے کو ان سے غلط منسوب ظاہر کرکے (جسے تسلیم کرنے میں تحفظات بھی ہیں) ان کے نعتیہ کلام کو بھی ان کا کلام تسلیم نہ کرنا تحقیق کی کون سی خدمت ہے؟ بہرحال بات چل نکلی تو بعض نقّاد اور محقق یہ لکھنے لگے کہ اولین اردو نعت گو حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ (المتوفی۸۲۵ھ) نہیں بلکہ ان کے بعد کے ایک بزرگ فخر الدین نظامی ہیں۔ ان کی مثنوی کدم راؤ پدم راؤ میں پائے جانے والے مثنوی کے نعتیہ اشعار ہی اردو کی قدیم ترین نعت کا اولین نمونہ ہیں۔ اس بناء پر اردو نعت کے بعض ناقدین و محققین سخت تذبذب کا شکار ہوئے۔ اس کی ایک مثال ڈاکٹر عاصی کرنالی کے مقالے ’’اردو حمد و نعت پر فارسی شعری روایت کا اثر‘‘ میں اس وقت نظر آتی ہے جب وہ خواجہ بندہ نوازؒ(متوفی۸۲۵ھ) کا مقالے میں ذکر پہلے کرتے ہیں‘ ان کی حمد و نعت کے نمونے بھی دیتے ہیں۔ پھر فخر الدین نظامی کا ذکر کرتے ہیں (جن کی مثنوی کدم راؤ پدم راؤ۸۲۵ھ سے ۸۳۹ھ کے درمیانی عرصہ میں لکھی گئی) اور ان کے حمدیہ و نعتیہ اشعار کا انتخاب درج کرتے ہیں۔ چوںکہ آغازِ بحث میں وہ ڈاکٹر جمیل جالبی کے نقطۂ نظر کے ہمنوائی کرچکے تھے لہٰذا مجبوراً لکھنا پڑا: ’’نظامی کا ذکر اوپر آچکا ہے جس میں کدم راؤ پدم راؤ کو اردو کی پہلی تصنیف قرار دیتے ہوئے اسی مثنوی کو اولین حمد و نعت کا حامل کہا جاچکا ہے اور اس اعتبار سے فخر الدین نظامی ہی اردو کا پہلا حمد و نعت نگار ثابت ہوتا ہے۔‘‘ (۲۲)


جب یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ خواجہ گیسو درازؒ۸۲۵ھ میں واصل بحق ہوئے اور مثنوی کدم راؤ پدم راؤ ۸۲۵ھ سے ۸۳۹ھ کے درمیانی عرصہ میں لکھی گئی تو خواجہ گیسو دراز کی نعتوں کو ان کا کلام تسلیم کرتے ہوئے بھی اور اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں ان کا نعتیہ نمونۂ کلام دینے کے باوجود مابعد کے کلام کو اوّلیت دینے کا سبب کیا ہے؟


ڈاکٹر ریاض مجید نے اپنے مقالہ ’’اردو میں نعت گوئی‘‘ کے تیسرے باب میں خواجہ گیسو دراز ؒ کا نعتیہ کلام‘ مولوی عبدالحق اور نصیر الدین ہاشمی کے حوالے سے دیا ہے‘ لیکن خواجہ گیسو درازؒ سے اس کلام کی نسبت کو مشکوک کہا ہے اور اس کا سبب یہ بتایا ہے:

’’ڈاکٹر جمیل جالبی نے اس بارے میں محققانہ انداز سے صراحت کی ہے کہ خواجہ گیسو درازؒ اور سید محمد اکبر حسینی ؒ کی کوئی اردو تصنیف نہیں۔‘‘ (۲۳)


حفیظ تائب نے بھی تحقیق کے اسی اسلوب کو اختیار کرتے ہوئے لکھا:

’’مولوی عبدالحق نے خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ (م۸۲۵ھ) کے کچھ اشعار کو اردو نعت کا اولین نمونہ قرار دیا ہے‘ تاہم جمیل جالبی کی تحقیق کی رو سے فخر الدین نظامی کی مثنوی کدم راؤ پدم راؤ (تصنیف ۸۲۵ھ تا ۸۳۸ھ) میں حمد کے بعد آنے والے اشعار کو اردو نعت کا پہلا مستند نمونہ سمجھنا چاہیے۔‘‘ (۲۴)

یہی بات انہوں نے نقوش کے رسول نمبر میں بھی کہی لیکن اس لفظی تغیّر کے ساتھ کہ

’’…… اردو نعت کا پہلا نمونہ سمجھا جاتا ہے۔‘‘ (۲۵)


گویا تشکیک کی جگہ کامل یقین نے لے لی ہے۔ لیکن یہ تشکیک بعض ناقدین کا پیچھا نہ چھوڑ سکی‘ چناںچہ اکرم رضا نے لکھا:

’’اردو نعت میں اولیت کا شرف (غالباً) حضرت سید محمد حسینی خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ کو حاصل ہے۔‘‘ (۲۶)


معراج العاشقین متعدد اہلِ قلم نے مدّون کرکے شائع کرائی جیسے مولوی عبدالحق‘ خلیق انجم‘ گوپی چند نارنگ اور تحسین سروری…… خلیق انجم نے معراج العاشقین کے آخر میں بطور ضمیمہ حضرت خواجہ گیسو درازؒ کا نعتیہ کلام بھی دیا ہے۔ نصیر الدین ہاشمی نے ’’دکن میں اردو‘‘ میں صراحت کی ہے کہ خواجہ گیسو درازؒ کا نعتیہ کلام آغا حیدر حسن صاحب پروفیسر اردو‘ نظام کالج حیدر آباد کی مملوکہ بیاض سے لیا گیا ہے۔ نیز وہ سید اکبر علی کی مملوکہ بیاض کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ معراج العاشقین ایک نثری رسالہ ہے‘ اصلاً جس کا خواجہ گیسو درازؒ کے نعتیہ کلام موزوں سے کوئی علاقہ نہیں (اسی لیے مولوی عبدالحق نے معراج العاشقین کے آخر میں ان کا کلام نہیں دیا) خلیق انجم نے خواجہ گیسوؒ دراز کا نعتیہ کلام مفید اضافہ سمجھ کر دیا ہوگا۔ اب اگر یہ ثابت بھی ہوجائے کہ معراج العاشقین حضرت خواجہ گیسو درازؒ کی تصنیف نہیں تو یہ کیسے ثابت ہوگا کہ ان کا نعتیہ کلام بھی ان کا نہیں؟ اسی حوالے سے ماہنامہ ’’نعت‘‘ لاہور کے مدیر اعلیٰ اور اہم محققِ نعت راجا رشید محمود نے ڈاکٹر جالبی کے نظریے کا محاکمہ کیا ہے۔


ڈاکٹر جمیل جالبی نے فخر الدین نظامی سے پہلے پائی جانے والی تصانیف کی اولیت کو مشکوک ثابت کرنے کے لیے جو طریقِ کار اپنایا ہے‘ اس کے متعلق راجا رشید محمود لکھتے ہیں:

’’……ڈاکٹر جمیل جالبی کسی کتاب کو اب ناپید قرار دے کر اولیت کے زمرے سے خارج کررہے ہیں اور کسی کتاب میں الحاقی عنصر کی موجودگی کی وجہ سے اس کی تغلیط کرتے ہیں‘ پھر جس کتاب سے اردو زبان کے قدیم ترین نمونے اخذ کیے جانے کو تسلیم کرتے ہیں‘ اسے بھی اولیت کی فہرست سے نکال رہے ہیں‘ اور سید محمد اکبر حسینی کا رسالہ چوںکہ اڑتیس ابیات اور پندرہ نثری سطروں پر مشتمل ہے اس لیے اسے بھی قابلِ اعتناء نہیں سمجھتے‘ یعنی ان کی تحقیق کی بنیاد یہ ہے کہ اگر کوئی کتاب اب ناپید ہوگئی تو اس کی حیثیت صفر ہوجائے گی‘ کسی کتاب میں الحاقی عنصر کی موجودگی کا شائبہ ہوگیا تو وہ بھی گئی اور اگر کسی رسالے کے صفحے کم ہوئے تو وہ بھی ان کی نگاہ میں وقعت نہیں پاتا۔‘‘ (۲۷)


راجا رشید محمود نے معراج العاشقین کی خواجہ گیسو درازؒ سے نسبت کی تغلیط کے حوالے سے ڈاکٹر جمیل جالبی کے دلائل کو بے وزن قرار دیاہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ ایک نثری تصنیف کی نسبت مشکوک ثابت بھی ہوجائے تو صاحبِ نسبت کے دیگر کام یا کلام کو کس بناء پر قلمزد کیا جاسکتا ہے؟ ڈاکٹر جمیل جالبی‘ ریاض مجید‘ حفیظ تائب اور اکرم رضا جیسے بزرگوں کو چاہیے تو یہ تھا کہ نصیر الدین ہاشمی‘ خلیق انجم‘ وغیرہ بزرگوں نے جن مخطوطوں‘ بیاضوں اور قلمی نسخوں سے خواجہ گیسور درازؒ کا نعتیہ کلام لیا ہے‘ ان کی صحت پر بات کرتے‘ اس سارے کلام کو سرقہ‘ مشکوک یا الحاقی ثابت کرتے‘ اس کے بعد کہتے کہ چوںکہ نظامی سے پہلے اردو نعت کا کوئی نمونہ ملتا ہی نہیں لہٰذا دستیاب معلومات کی حد تک فخرالدین نظامی ہی پہلا نعت گو ہے‘ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ حیرت تو اس پر ہے کہ محققین اس نعتیہ کلام کو مستند مانتے ہوئے اپنے تحقیقی مقالوں کی زینت بھی بناتے ہیں لیکن اس کی اوّلیت کے بھی انکاری ہیں۔ چناںچہ راجا رشید محمود نے دو ٹوک الفاظ میں لکھا:

’’جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ جو نعتیہ اشعار حضرت خواجہ گیسو درازؒ سے منسوب ہیں‘ وہ ان کے نہیں ہیں‘ نعت گوئی میں اولیت کا سہرا انہی کے سر رہے گا۔‘‘ (۲۸)


ایک اشکال کا ازالہ البتہ ضروری ہے‘ وہ خواجہ گیسو درازؒ اور (ما بعد کے) فخرالدین نظامی کے نعتیہ اشعار کے ذخیرۂ الفاظ‘ اسلوب اور معیار کا ہے۔ خواجہ گیسو درازؒ کا ایک شعر ہے:

واحد اپنی آپ تھا اپیں آپ نجہایا

پر کٹہ جلوے کارنے الف میم ہو آیا (۲۹)


فخر الدین نظامی کا ایک نعتیہ شعر ہے:


تہیں ایک سا چا گسائیں امر

سری و دی تیں جگ تورا دگر (۳۰)


اس نمونۂ کلام سے ظاہر ہے کہ نظامی کی نسبت خواجہ بندہ نوازؒ کا کلام زیادہ صاف‘ سہل اور رواں ہے حالاںکہ ماقبل شاعر کا کلام تو ادق‘ پیچیدہ اور نسبۃً غیر صاف ہونا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خواجہ گیسو درازؒ (۷۲۱ھ تا ۸۲۵ھ) کی زندگی کا بیشتر حصہ دہلی میں گزرا۔ وہ دہلی میں پیدا ہوئے۔ پانچ برس کی عمر میں اپنے والد سید یوسف راجو قتالؒ کے ساتھ دیوگیر (دولت آباد) چلے گئے۔ ۷۳۶ھ میں والد کے انتقال کے پانچ سال بعد پھر دہلی آگئے‘ (۳۱) ۸۱۵ھ میں سلطان فیروز شاہ بہمنی کے عہد میں گلبرگہ آئے اور وفات تک یہیں رہے۔ دہلی میں گزری اس طویل زندگی کے اثرات ان کے کلام پر نمایاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں عربی فارسی کے الفاظ بہار دکھاتے ہیں۔ روانی و سلاست اپنی چھب دکھاتی ہے۔ وہ چشتیہ سلسلے سے تعلق رکھتے تھے اور سماع انہیں مرغوب تھا‘ ان کے کلام میں راگ راگنیوں کا لحاظ انہی کے کلام ہونے کی ایک مزید داخلی شہادت ہے۔ جبکہ نظامی کی زبان نسبۃً ادق ہے اس میں سنسکرت‘ پراکرت اور علاقائی زبانوں جیسے پنجابی‘ راجستھانی‘ سندھی‘ گجراتی اور مرہٹی وغیرہ کے اثرات نمایاں ہیں۔ عربی فارسی کا اثر نسبۃً کم ہے۔


یاد رہے کہ اولین اردو نعت گو ہونے کا سہرا خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ سے چھین کر فخرالدین نظامی کے سر باندھنے پر بات ختم نہیں ہوئی بلکہ ایک اور خیال یہ پیش کیا گیا کہ اولین نعت گو خواجہ گیسو درازؒ کے بجائے ملّا داؤد ہیں۔ اس نظریے نے فخرالدین نظامی کے اولین نعت گو ہونے کا نظریہ بھی دھندلا دیا ہے۔ ڈاکٹر محمد اسماعیل آزاد فتح پوری نے ’’اردو شاعری میں نعت‘‘ کے موضوع پر بھارت میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ ان کا مقالہ ۱۹۹۲ء میں شائع ہوا۔ ان کی تحقیق کے مطابق اردو کے پہلے نعت گو ملّا داؤد ہیں:

’’ملّا داؤد نہ صرف یہ کہ اردو کے پہلے شاعر ہیں‘ بلکہ وہ اردو کے پہلے نعت گو بھی ہیں۔ مثنوی چندائن میں شامل نعت کو اردو کی پہلی نعت ہونے کا فخر حاصل ہے۔‘‘ (۳۲)


ان کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق:’’اردو کی سب سے پہلی تصنیف ملّا داؤد کی مثنوی چندائن ہے‘ جو اردو زبان کا اولین لسانی و ادبی نمونہ ہے۔ ملّا داؤد شمالی ہند میں واقع قصبہ ڈلمؤ کے رہنے والے تھے‘ جو اس وقت رائے بریلی کا ایک قریہ ہے۔ ملّا داؤد نے’’چندائن‘‘ اردو کی علاقائی زبان اودھی میں لکھی تھی۔‘‘ (۳۳)


وہ مزید رقم طراز ہیں:’’ملّا داؤد نے چندائن ۷۸۱ء ھ = ۱۳۷۹ء میں بعہدِ فیروز شاہ تغلق تصنیف کی تھی۔ اس میں لور کا اور چاند کی داستانِ عشق بیان کی گئی ہے۔ ملّا داؤد کا عرصۂ حیات شیخ بہاؤ الدین باجن (۷۹۰ھ -۹۱۲ھ) خواجہ بندہ نواز گیسو دراز متوفی۸۲۵ھ اور سید محمد اکبر حسینی متوفی۸۱۲ھ سے قبل کا ہے۔‘‘ (۳۴)


تحقیق‘ بے جا طرفداری کی متحمل نہیں ہوسکتی لہٰذا اگر ثابت ہوجائے کہ چندائن کے نعتیہ اشعارِ مثنوی‘ خواجہ گیسو درازؒ کے نعتیہ کلام سے پہلے لکھے گئے تو اب تک کی دستیاب معلومات کے مطابق ملّا داؤد ہی پہلے نعت گو ٹھہریں گے لیکن اپنے نظریے اور تحقیق کے ثبوت کے لئے جتنے دلائل ڈاکٹر محمد اسماعیل آزاد کو دینا ضروری تھے‘ وہ مقالے میں نہیں ملتے۔ آسان اور سیدھا اصول تو یہ تھا کہ ملّا داؤد کی تاریخِ پیدائش و وفات بعد از تحقیق درج کی جاتی پھر اس کا تقابل دیگر شعراء سے کیا جاتا۔ متعلقہ کلام کی تاریخِ تخلیق دریافت کی جاتی اور تقدم کا فیصلہ کیا جاتا۔ ڈاکٹر محمد اسماعیل خود لکھتے ہیں کہ ملّا داؤد نے چندائن۷۸۱ھ میں لکھی۔ خواجہ گیسو درازؒ کی تاریخِ ولادت۴ رجب ۷۲۰ھ ہے۔ (۳۵) گویا جب ملّا داؤد نے بقول محمد اسماعیل آزاد چندائن۷۸۱ھ میں تصنیف کی تو خواجہ گیسو درازؒ کی عمر اس وقت اکسٹھ برس تھی۔ خواجہ گیسوؒ دراز کو خدا نے طویل عمر سے نوازا‘ وہ چندائن کی تصنیف۷۸۱ھ کے بعد بھی چوالیس برس زندہ رہے اور ۸۲۵ھ میں بعمر ایک سو پانچ برس وفات پائی۔ ملّا داؤد کی تاریخِ ولادت و وفات کی نشاندہی ضروری تھی جو نہیں کی گئی۔ بہرحال یہ تو واضح ہے کہ چندائن کی تاریخِ تصنیف (۷۸۱ھ) کے وقت خواجہ گیسو درازؒ اکسٹھ برس کے تھے یعنی بڑھاپے میں تھے لہٰذا یہ کہنا کہ ’’ملّا داؤد کا عرصۂ حیات شیخ بہاؤ الدین باجن متوفی۹۱۲ھ‘ خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ متوفی ۸۲۵ھ اور سید محمد اکبر حسینی متوفی۸۱۲ھ سے قبل کا ہے۔‘‘(۳۶) بے دلیل ہونے کے باعث مبنی برحقیقت نہیں۔ خواجہ گیسو درازؒ کے ذکر کے ساتھ ہی صرف ان کے سالِ رحلت ۸۲۵ھ کی طرف اشارہ کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔ کیا انہوں نے تمام نعتیہ کلام زندگی کے آخری سال ۸۲۵ھ میں لکھا ہے؟


صورتِ حال تو یہ ہے کہ ان کا کلام ان کی زندگی ہی میں مقبولِ عام ہوچکا تھا۔ قوال اسے گاتے تھے اور صوفیاء کے سماع میں وہ بڑے شوق سے سنا جاتا تھا لہٰذا یقینا ان کی وفات کے سال ۸۲۵ھ سے بہت پہلے لکھا گیا ہوگا۔ یہاں بہاؤ الدین باجن (۷۹۰ھ۔۹۱۲ھ) کی طرح ملّا داؤد اور خواجہ گیسو درازؒ کے سنینِ ولادت و رحلت کا اندراج بھی ضروری تھا۔ خواجہ گیسو درازؒ کا سالِ ولادت ۷۲۰ھ کیوں نہیں دیا گیا؟ اور محمد اکبر حسینی کے ذکر و تقابل کا یہ کیا مقام ہے کیوںکہ وہ تو خواجہ گیسو دراز کے فرزندِ ارجمند تھے اور ۸۱۲ھ میں اپنے والد کی زندگی ہی میں وفات پاگئے تھے۔ مندرجہ بالا شواہد سے ظاہر ہے کہ پہلے نعت گو کی نشاندہی کے لیے جن ضروری کوائف کی ضرورت تھی وہ اس مقالے میں درج نہیں ہوسکے۔ چندائن کے سالِ تحریر ۷۸۱ھ کی نشاندہی سے تو یہ ثابت نہیں ہوجاتا کہ چندائن کے نعتیہ اشعار۷۲۰ھ میں پیدا ہونے والے خواجہ گیسو درازؒ کے کلام سے پہلے لکھے گئے۔


خواجہ بندہ نواز‘ گیسو درازؒ ایک مشہور صوفی سید یوسف راجو قتالؒ کے صاحبزادے تھے۔ ان کے گھرانے کو پیروں کا آستانہ ہونے کا شرف حاصل تھا۔ کثیر تعداد میں لوگ خواجہ گیسو دراز کے مرید تھے اور ان کا کلام سماع کی محفلوں میں خصوصی اہتمام سے گایا جاتا تھا۔ ڈاکٹر الف۔ د۔ نسیم لکھتے ہیں:


’’خواجہ بندہ نوازؒ کی زیادہ تر شاعری موسیقی یا راگ راگنیوں کے تابع ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ موسیقی کے ماہر بھی تھے‘ خواجہ بندہ نوازؒ کے کچھ شعر سینہ بہ سینہ چلے آتے ہیں‘ جن کے متعلق مشہور ہے کہ یہ بند حجرے کی قوالی کے لیے ہیں۔ یہ بند حجرے کی قوالی جو مخصوص ماحول اور مخصوص ذہنی و قلبی کیفیت کے لوگوں کے لیے ہوتی ہے‘ صوفیانہ سماع کا مقصد و منتہا ہے۔ عوام میں آکر اس نے اپنی حقیقی صورت بدل دی ہے اور اصلی مقصود گم کردیا ہے۔۔۔ سلطان ابراہیم عادل شاہ والی بیجاپور نے جو موسیقی کا عاشق اور ماہر تھا ’’نورس‘‘ کے نام سے ایک کتاب میں ہندی راگ راگنیوں کے تحت جو شعر یا کبت لکھے ہیں‘ اس میں انہوں نے خواجہ بندہ نوازؒ کو جس انداز سے خراجِ عقیدت پیش کیا ہے اس سے خواجہ موصوف کے ہندی موسیقی میں مقام کا اندازہ ہوتا ہے۔‘‘ (۳۷)


فاضل محقق نے ایک اور پتے کی بات بتائی ہے:


’’حضرت خواجہ بندہ نوازؒ کا مقابلہ ہندو جوگیوں‘ عالموں اور برہمنوں سے تھا‘ جنہوں نے جنوبی ہند کی دراوڑی اقوام کو قعرِ مذلّت میں گرا رکھا تھا۔ حضرت خواجہ بندہ نوازؒ ان قوموں کو انسانی برتری اور کمتری کی ذلیل کن تمیز سے نکال کر انسانی حقیقت کی سطح پر لانا چاہتے تھے۔ اس لیے انہوں نے سنسکرت سیکھی‘ ہندوؤں کے علوم پڑھے اور ہندی موسیقی میں مہارت حاصل کی۔‘‘ (۳۸)


اس طویل اقتباس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس پس منظر کا حامل انسان جو سنسکرت سیکھ چکا ہو‘ فارسی موسیقی کے بجائے ہندی موسیقی کو ترجیح دیتا ہو‘ سماع کو اسلام پھیلانے کا وسیلہ بنائے ہوئے ہو‘ جس کا کلام مخصوص مزاج کے لوگ بند حجرے میں سنتے ہوں‘ موسیقی کے قدردان اور آشنا جس کی خدمات کی تحسین کرتے ہوں جس نے چکی نامہ‘ رباعی‘ مثلث‘ مسدس جیسی شعری ہیئتوں میں دادِ سخن دی ہو‘ جسے سید سلمان ندوی جیسے نابغہ انسان نے صوفیاء کے چشتیہ سلسلے کا ’’سلطان القلم‘‘ قرار دیا ہو۔‘‘ (۳۹)بعض شعراء اپنی مثنویوں میں‘ حمد و نعت کے بعد جس کی منقبت لکھتے رہے ہوں‘ اس نے ساٹھ برس تک خود کوئی شعر نہ کہا ہوگا؟ یہ جذباتی تحقیق یا بے جا اصرار نہیں محض حق کو حق دار تک پہنچانے کا اصول ہے۔ ڈاکٹر اسماعیل آزاد نے جس سادے سے انداز میں کہہ دیا ہے کہ ڈلمؤ کے ملّا داؤد کا نعتیہ کلام خواجہ گیسو درازؒ سے پہلے کا ہے‘ کیا اسے مانا جاسکتا ہے؟ جب ملّا داؤد کے عرصۂ حیات کا تعین ہی نہیں تو خواجہ بندہ نوازؒ سے تقابل کیسا اور دعویٰ کیسا؟ عرض صرف اتنی ہے کہ چندائن کو اردو کی اولین مثنوی مانا جاسکتا ہے اور یہ بھی تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ چندائن میں موجود نعتیہ اشعار ’’کدم راؤ پدم راؤ‘‘ سے پہلے لکھے گئے لیکن خواجہ بندہ نواز‘ گیسو درازؒ کا نعتیہ کلام (جو مثنوی کی ہیئت میں نہیں بلکہ رباعی‘ مثلث وغیرہ ہیئت میں ہے اور جسے خود اسماعیل آزاد تسلیم کرتے اور اپنے مقالے میں اس کے نمونے دیتے ہیں) اگر چندائن کے بعد لکھا گیا تو اس کا ثبوت کیا ہے؟ اس نظریے کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے؟ جب تک ٹھوس اور مسکت دلائل سے کسی اور کی اوّلیت ثابت نہیں کر دی جاتی یہی حقیقت مسلمہ رہے گی کہ خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ ہی اردو کے اولین نعت گو ہیں‘ اگرچہ مثنوی کی مخصوص ہیئت میں رسمی طور پر ذیلی حیثیت سے سب سے پہلے لکھئے گئے نعتیہ اشعار ملّا داؤد کی ’’چندائن‘‘ کے ہیں پھر ’’کدم راؤ پدم راؤ‘‘ کے نعتیہ اشعار کا نمبر ہے۔


ڈاکٹر جمیل جالبی نے نظامی دکنی کی مثنوی ’’کدم راؤ پدم راؤ‘‘ کے مقدمے میں اس مثنوی کو اردو کی پہلی باقاعدہ تصنیف قرار دیا ہے۔ (۴۰) اگر کسی طرح یہ ثابت بھی ہوجائے کہ خواجہ گیسو درازؒ کا کلام جو مختلف بیاضوں میں بکھرا ہوا ہے یا اہلِ سماع سے سینہ بہ سینہ آگے پھیلا ہے‘ کسی باقاعدہ تصنیف کی ذیل میں نہیں آتا تو بھی یہ حقیقت تو اپنی جگہ قائم رہے گی کہ بات باقاعدہ کتابی شکل (یا تصنیف) کی نہیں۔ سب سے پہلے اردو نعت لکھنے کی ہے تو کیا خواجہ گیسو درازؒ کے اس کلام سے صرفِ نظر ممکن ہوگا؟


لے دے کے بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ جب تک خواجہ گیسو درازؒ کے نعتیہ کلام سے پہلے کے کلام کی نشاندہی تحقیقی انداز سے نہیں ہوپاتی اور جب تک خواجہ گیسو درازؒ سے منسوب کلام کا انتساب تحقیقی انداز سے غلط ثابت نہیں ہوجاتا‘ اولین اردو نعت گو ہونے کا شرف انہی کو حاصل رہے گا۔ عین ممکن ہے کسی وقت ایسے قدیم مخطوطات اور قلمی نسخے نیز بیاضیں دریافت ہوجائیں جن کے حوالے سے اولیت کے کچھ دوسرے دعوی دار بھی سامنے آجائیں۔ تاریخِ ادب گواہ ہے کہ شعری عمل صدیوں پر محیط تسلسل سے نکھرتا اور ارتقائی منازل طے کرتا ہے لہٰذا عین ممکن ہے کسی نے حضرت خواجہ گیسو درازؒ سے پہلے اردو نعت کہی ہو لیکن جب تک تحقیقات سے کچھ مزید ثابت نہیں ہوتا‘ تب تک اردو نعت گوئی کی اولیت کا سہرا حضرت خواجہ گیسو دراز بندہ نوازؒ کے سر ہی رہے گا۔ بہرحال یہ مقامِ شکر ہے کہ جب اردو زبان نے نظم کی صورت میں باقاعدہ اظہار کا قرینہ سیکھا تو اس کے پہلے باقاعدہ شاعر (خواجہ گیسو درازؒ) نے مکمل نعتیں کہہ کر اردو ادب کے سر پر کلاہِ عظمت سجا دی۔ نہ صرف یہ بلکہ مثلث‘ رباعی‘ مخمس‘ مربع وغیرہ ہیئتوں میں نعتیہ مضامین پیش کرکے اردو نعت کے ہیئتی ارتقاء کی بنیاد بھی رکھ دی۔


حوالہ جات و حواشی


۱۔ یہ تحقیقی مضمون راقم الحروف کے غیر مطبوعہ تحقیقی مقالہ ’’ اردو نعت کا ہیئتی مطالعہ‘‘ مملوکہ پنجاب یونی ورسٹی لاہور ۲۰۰۷ء کے پہلے باب کا ذیلی حصہ ہے۔ مدیر’’ِ نعت رنگ ‘‘ کے توجہ دلانے پر اسے اشاعت کے لیے ارسال کیا گیا ہے۔ ۲۔ نصیر الدین ہاشمی‘ دکن میں اردو‘ لاہور: اردو مرکز‘ طبع۵ ‘ ۱۹۶۰ء‘ ص:۲۱ ۳۔ رفیع الدین اشفاق‘ اردو میں نعتیہ شاعری‘ کراچی: اردو اکیڈمی سند۱۹۷۶ء‘ ص:۱۲۵ ۴۔ نصیر الدین ہاشمی‘ دکن میں اردو‘ (پاکستانی ایڈیشن) ص:۱۲۸ ۵۔ نصیر الدین ہاشمی‘ دکن میں اردو‘ ص:۲۹ ۶۔ اقبال الدین احمد‘ تذکرہ خواجہ گیسو درازؒ ‘اقبال پبلشرز‘ کراچی ۱۹۶۶ء‘ ص:۱۴۹ ۷۔ نصیر الدین ہاشمی‘ دکن میں اردو‘ (پاکستانی ایڈیشن) ص:۳۰ ۸۔ نصیر الدین ہاشمی‘ دکن میں اردو‘ (بھارتی ایڈیشن) ترقی اردو بیورو نئی دہلی ۱۹۸۵‘ ص:۵۷۔۵۵ ۹۔ یونس شاہ سید پروفیسر‘ تذکرہ نعت گویانِ اردو‘ ج:ا‘ مکہ بکس لاہور‘ ۱۹۸۲ء‘ ص:۱۲۹ ۱۰۔ معراج العاشقین‘ مرتبہ خلیق انجم (منقولہ تذکرہ نعت گویانِ اردو جلد ا‘ ص:۱۲۹) ۱۱۔ یونس شاہ سید‘ تذکرہ نعت گویانِ اردو‘ جلد ا‘ ص:۱۳۰ ۱۲۔ ایضاً ص:۱۳۱ ۱۳۔ ایضاً ص:۱۲۸ ۱۴۔ فخر الدین نظامی‘ مثنوی کدم راؤ پدم راؤ (مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی) (مقدمہ ص:۳۰ تاص:۳۲) طبع جدید‘ ایجوکیشنل ہاؤس‘ دہلی۱۹۷۹ء‘ ص:۳۰تا۳۲ ]نیز نعت کائنات (مرتبہ راجا رشید محمود) مقدمہ ص:۳۱تا۳۲[ ۱۵۔ نصیر الدین ہاشمی‘ دکن میں اردو‘ بھارتی ایڈیشن (ابتدائیہ از ڈاکٹر فہمیدہ بیگم) ص:۴ ۱۶۔ حفیظ قتیل ڈاکٹر‘ معراج العاشقین کا مصنف‘ (بحوالہ تلخیص از نجم الاسلام) مشمولہ مجلہ ’’تحقیق‘ ‘دسواں گیارہواں مشترکہ شمارہ جامشورو‘ سندھ یونیورسٹی‘۱۹۹۷۔۱۹۹۶ء‘ ص:۸۷۵ ۱۷۔ ایضاً ص:۸۷۵ ۱۸۔ ایضاً ص:۸۶۶ ۱۹۔ ایضاً ص:۸۶۴۔۸۶۵ ۲۰۔ ایضاً ص:۸۷۶ ۲۱۔ ایضاً ص:۸۶۷ ۲۲۔ عاصی کرنالی ڈاکٹر‘ اردو حمد و نعت پر فارسی شعری روایت کا اثر‘ کراچی: اقلیمِ نعت۲۰۰۱ء‘ ص:۲۵۰ ۲۳۔ ریاض مجید ڈاکٹر‘ اردو میں نعت گوئی‘ اقبال اکادمی پاکستان‘ لاہور۱۹۹۰ء‘ ص:۱۷۰ ۲۴۔ حفیظ تائب‘ مقالہ نعت مشمولہ‘ اردو دائرہ معارف اسلامیہ‘ جلد۲۲‘ پنجاب یونیورسٹی لاہور۱۹۸۹ء‘ ص:۴۰۳‘ عمود۔اا ۲۵۔ حفیظ تائب مقالہ اردو نعت‘ مشمولہ نقوش رسول نمبر۱۰‘ ادارہ فروغ اردو لاہور۱۹۸۴ء‘ ص:۱۶۹ ۲۶۔ محمد اکرم رضا‘ نعت (تعریف‘ تاریخ‘ رجحانات‘ تقاضے) مشمولہ شام و سحر نمبر۶‘ لاہور‘۱۹۸۷ء‘ ص:۶۷ ۲۷۔ رشید محمود راجا‘ نعت کائنات‘ (مقدمہ) جنگ پبلشرز لاہور‘۱۹۹۳ء‘ ص:۳۲ ۲۸۔ ایضاً ص:۳۲ ۲۹۔ نصیر الدین ہاشمی‘ دکن میں اردو‘ (پاکستان ایڈیشن) ص:۲۹ ۳۰۔ ایضاً ص:۳۶ ۳۱۔ الف۔ د۔ نسیم ڈاکٹر‘ (مقالہ نگار)تاریخِ ادبیات مسلمانانِ پاک و ہند‘ جلد ۶‘ پنجاب یونیورسٹی‘ لاہور‘۱۹۷۱ء ص:۲۵۵ ۳۲۔ محمد اسماعیل آزاد‘ اردو شاعری میں نعت (ابتداء سے عہدِ محسن تک) لکھنؤ‘ بھارت: نسیم بک ڈپو‘۱۹۹۲ء‘ ص:۴۱ ۳۳۔ ایضاً ص:۴۰ ۳۴۔ ایضاً ص:!۴ ۳۵۔ اقبال الدین احمد‘ تذکرہ خواجہ گیسو دراز ؒ ‘ کراچی: اقبال پبلشرز‘ ۱۹۶۶ء‘ ص:۲۸ ۳۶۔ محمد اسماعیل آزاد‘ اردو شاعری میں نعت‘ (ابتدا سے عہدِ محسن تک) ص:۴۱ ۳۷۔ الف۔د۔ نسیم‘ مقالہ‘ مشمولہ‘ تاریخِ ادبیاتِ مسلمانانِ پاکستان و ہند‘ جلد ۶‘ لاہور: پنجاب یونیورسٹی‘ طبع اول۱۹۷۱ء‘ ص:۲۵۶ ۳۸۔ ایضاً ص:۲۵۸ ۳۹۔ ایضاً ص:۲۵۶ ۴۰۔ جمیل جالبی ڈاکٹر‘ ’’مثنوی نظامی دکنی المعروف بہ کدم راؤ پدم راؤ‘ ‘کراچی: انجمنِ ترقی اردو ‘پاکستان۔ طبع اول۱۹۷۳ء‘ ص:۳۰تا۳۵ اس ضمن میں ڈاکٹر جمیل جالبی نے لکھا ہے کہ ’’اس (مثنوی کدم راؤ پدم راؤ) سے فوراً پہلے جو تصانیف ہمارے سامنے آتی ہیں۔ ان میں ایک مختصر رسالہ ہے جسے سید محمد اکبر حسینی (م۸۱۲ھ) سے منسوب کیا جاتا ہے اور دوسری تصنیف ’’معراج العاشقین‘‘ ہے جس کے مصنف خواجہ بندہ نواز گیسو دراز ؒ بتائے جاتے ہیں۔ نویں صدی ہجری میں ہمیں شیخ باجن کی جکریاں ملتی ہیں اور ان سے پہلے امیر خسرو کی خالق باری کے علاوہ دوہرے‘ کہہ مکرنیاں اور پہیلیاں بھی ملتی ہیں۔ امیر خسرو سے پہلے ہماری نظر بابا فرید گنج شکر کے کلام پر پڑتی ہے اور ان سے پہلے کتبِ تواریخ میں مسعود سعد سلمان (م۵۱۵ھ) کے دیوانِ ہندوی کا ذکر ملتا ہے۔‘‘ (حوالہ بالا ص:۳۰) مسعود سعد سلمان کا دیوانِ ہندوی چونکہ ناپید ہے لہٰذا ’’اظہارِ افسوس کے ساتھ اس کا ذکر تو کیا جاسکتا ہے لیکن اولین کا سہرا اس کے سر نہیں باندھا جاسکتا۔‘‘(ایضاًص۳۱) شیخ فرید الدین مسعود گنجِ شکر (۵۶۹ھ۔۶۶۴ھ) کا کلام (دوہرے اور اقوال) بکھرے ہوئے تبرکات ہیں‘ ان کو باقاعدہ تصنیف کے ذیل میں نہیں لایا جاسکتا۔ (ایضاً ص:۳۱) امیر خسرو کے کلام کو عوام نے سینے سے لگایا۔ یہ سینہ بہ سینہ ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچتا رہا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں الحاقی عنصر شامل ہوتا گیا۔ اب اصل کلام کتنا ہے…… بتانا مشکل ہے۔ ’’خالق باری‘‘ اولاً تو یہ لغت کی کتاب ہے۔ ثانیاً ان کے دوسرے ہندوی کلام کی طرح اس میں بھی الحاقی عنصر شامل ہوگیا ہے۔…… شیخ بہاؤ الدین باجن(۷۹۰ھ۔۹۱۲ھ) کی تصنیف ’’خزائن رحمت اﷲ‘‘ میں ان کے پیرو مرشد کے ملفوظات و اقوال جمع کیے گئے ہیں۔ باجن نے اس کتاب کے باب ہفتم میں اپنے دوہرے اور جکریاں بھی جمع کر دیے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ فارسی کی کتاب ہے۔ اس سے اردو زبان کے قدیم نمونے تو اخذ کیے جاسکتے ہیں لیکن اسے اردو زبان کی پہلی باقاعدہ تصنیف کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ (ایضاًص:۳۲) عمر یا فعی نے تین صفحات پر مشتمل جو رسالہ دریافت کیا تھا‘ (جس میں پندرہ سطریں نثر میں اور اڑتیس ابیات ہیں) کے آخر میں ’’من تصنیف سید محمد اکبر حسینی بندہ نواز‘‘ کے الفاظ ملتے ہیں۔ اس رسالے کی نسبت معراج العاشقین کی زبان صاف ہے۔ ’’اہل دکن نے…… تین صفحوں کے اس مختصر رسالے کو نویں صدی ہجری کے دکنی ادب کے دامن میں ٹانک کر یقینا تحقیقی ستم ظریفی‘‘ کا ثبوت دیا ہے۔‘‘ (ایضاًص:۳۳) معراج العاشقین کو مولوی عبدالحق نے ڈرتے ڈرتے شائع تو کردیا لیکن زندگی بھر اصرار نہیں کیا…… شاہ محمد علی سامانی نے (جو خواجہ بندہ نواز کے مرید و خادم تھے) ۸۳۱ھ میں ’’سیرِ محمدیؐ‘‘ نامی کتاب لکھی۔ اس میں خواجہ بندہ نواز کی چھوٹی بڑی ۳۶ تصانیف کا ذکر ہے۔ یہ سب عربی فارسی میں ہیں۔ ٭٭٭


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سانچہ:باکس