الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 21:29، 30 ستمبر 2017ء از Admin (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search


وصل چہارم در منافحت اعداءو استعانت از آقا


از امام احمد رضا خان بریلوی


الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا


بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی

ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا


عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے

چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا


کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے

ہاتھ پڑتا ہی نہیں بھول کے اوچھا تیرا


اس پہ یہ قہر کہ اب چند مخالف تیرے

چاہتے ہیں کہ گھٹا دیں کہیں پایہ تیرا


عقل ہوتی تو خدا سے نہ لڑائی لیتے

یہ گھٹائیں، اسے منظور بڑھانا تیرا


ورفعنا لک ذکرک کا ہے سایہ تجھ پر

بول بالا ہے ترا ذکر ہے اونچا تیرا


مٹ گئے مٹتے ہیں مٹ جائیں گے اعدا تیرے

نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا


تو گھٹائے سے کسی کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹے

جب بڑھائے تجھے اللہ تعالیٰ تیرا


سم قاتل ہے خدا کی قسم ان کا انکار

منکرِ فضل حضور آہ یہ لکھا تیرا


میرے سیاف کے خنجر سے تجھے باک نہیں

چیر کر دیکھے کوئی آہ کلیجا تیرا


ابن زہرا سے ترے دل میں ہین یہ زہر بھرے

بل بے او منکر بے باک یہ زہرا تیرا


بازِ اشہب کی غلامی سے یہ آنکھیں پھرنی

دیکھ اڑ جائے گا ایمان کا طوطا تیرا


شاخ پر بیٹھ کے جڑ کاٹنے کی فکر میں ہے

کہیں نیچا نہ دکھائے تجھے شجرا تیرا


حق سے بد ہو کے زمانہ کا بھلا بنتا ہے

ارے میں خوھتا ہوں معما تیرا


سگ در قہر سے دیکھے تو بکھرتا ہے ابھی

بند بندِ بدن اے رو بہ دنیا تیرا


غرض آقا سے کروں عرض کہ تیری ہے پناہ

بند مجبور ہے خاطر پہ ہے قبضہ تیرا


حکم نافذ ہے ترا خامہ ترا سیف تری

دم میں جو چاہے کرے دور ہے شاہا تیرا


جس کو للکار دے آتا ہو تو الٹا پھر جائے

جس کو چمکار لے ہر پھر کے وہ تیرا تیرا


کنجیاں دل کی خدا نے تجھے دیں ایسی کر

کہ یہ سینہ ہو محبت کا خزینہ تیرا


دل پہ کندہ ہو ترا نام کہ وہ دزد رجیم

الٹے ہی پاﺅں پھرے دیکھ کے طغرا تیرا


نزع میں گور میں، میزاں پہ، سرِ پل پہ کہیں

نہ چھٹے ہاتھ سے دامان معلیٰ تیرا


دھوپ محشر کی وہ جاں سوز قیامت ہے مگر

مطمئن ہوں کہ مرے سر پہ ہے پلّا تیرا


بہجت اس سر کی ہے جو ”بہجة الاسرار“ میں ہے

کہ فلک وار مریدوں پہ ہے سایہ تیرا


اے رضا چیست غم ارجملہ جہاں دشمن تست

کردہ ام ما من خود قبلہ حاجاتے را


پچھلا کلام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

تو ہے وہ غوث کہ ہر غوث ہے شیدا تیرا


اگلا کلام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ہم خاک ہیں اور خاک ہی ماوا ہے ہمارا


مزید کلام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حدائق بخشش