"الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا" کے نسخوں کے درمیان فرق
Admin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (نیا صفحہ: __TOC__ '''وصل چہارم در منافحت اعداءو استعانت از آقا''' از امام احمد رضا خان بریلوی الاماں قہر ہے...) |
Admin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
{{#seo: | |||
|title= حدائق بخشش ۔ امام احمد رضا خان کی شاعری | |||
|titlemode=append | |||
|keywords=نعت، نعت گوئی ، نعت خوانی، نعت پاک، نعت رسول، نعت مقبول، نعت رسول، احمد رضا خان بریلوی، امام احمد رضا، صبح طیبہ میں ہوئی ۔ مصطفی جان رحمت، زمین و زماں تمہارے لیے ، واہ کیا جود و کرم ، ahmed raza, naat | |||
|description= اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ عظیم المرتبت مفسر،جلیل القدر محدث اور بلند پایہ فقیہ تھے۔نعتیہ کلاموں کی مقبولیت کے حوالے جو پذیرائی احمد رضا خان بریلوی کی نعتوں کو ملی ہے وہ بے مثال ہے ۔ ہر قابل ذکر نعت خواں نے آپ کے کلاموں سے اپنی آوازوں کو مزین کیا ۔ | |||
}} | |||
'''وصل چہارم در منافحت اعداءو استعانت از آقا''' | '''وصل چہارم در منافحت اعداءو استعانت از آقا''' |
حالیہ نسخہ بمطابق 21:29، 30 ستمبر 2017ء
وصل چہارم در منافحت اعداءو استعانت از آقا
الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا
مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا
بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی
ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا
عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے
چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا
کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے
ہاتھ پڑتا ہی نہیں بھول کے اوچھا تیرا
اس پہ یہ قہر کہ اب چند مخالف تیرے
چاہتے ہیں کہ گھٹا دیں کہیں پایہ تیرا
عقل ہوتی تو خدا سے نہ لڑائی لیتے
یہ گھٹائیں، اسے منظور بڑھانا تیرا
ورفعنا لک ذکرک کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے ترا ذکر ہے اونچا تیرا
مٹ گئے مٹتے ہیں مٹ جائیں گے اعدا تیرے
نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا
تو گھٹائے سے کسی کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹے
جب بڑھائے تجھے اللہ تعالیٰ تیرا
سم قاتل ہے خدا کی قسم ان کا انکار
منکرِ فضل حضور آہ یہ لکھا تیرا
میرے سیاف کے خنجر سے تجھے باک نہیں
چیر کر دیکھے کوئی آہ کلیجا تیرا
ابن زہرا سے ترے دل میں ہین یہ زہر بھرے
بل بے او منکر بے باک یہ زہرا تیرا
بازِ اشہب کی غلامی سے یہ آنکھیں پھرنی
دیکھ اڑ جائے گا ایمان کا طوطا تیرا
شاخ پر بیٹھ کے جڑ کاٹنے کی فکر میں ہے
کہیں نیچا نہ دکھائے تجھے شجرا تیرا
حق سے بد ہو کے زمانہ کا بھلا بنتا ہے
ارے میں خوھتا ہوں معما تیرا
سگ در قہر سے دیکھے تو بکھرتا ہے ابھی
بند بندِ بدن اے رو بہ دنیا تیرا
غرض آقا سے کروں عرض کہ تیری ہے پناہ
بند مجبور ہے خاطر پہ ہے قبضہ تیرا
حکم نافذ ہے ترا خامہ ترا سیف تری
دم میں جو چاہے کرے دور ہے شاہا تیرا
جس کو للکار دے آتا ہو تو الٹا پھر جائے
جس کو چمکار لے ہر پھر کے وہ تیرا تیرا
کنجیاں دل کی خدا نے تجھے دیں ایسی کر
کہ یہ سینہ ہو محبت کا خزینہ تیرا
دل پہ کندہ ہو ترا نام کہ وہ دزد رجیم
الٹے ہی پاﺅں پھرے دیکھ کے طغرا تیرا
نزع میں گور میں، میزاں پہ، سرِ پل پہ کہیں
نہ چھٹے ہاتھ سے دامان معلیٰ تیرا
دھوپ محشر کی وہ جاں سوز قیامت ہے مگر
مطمئن ہوں کہ مرے سر پہ ہے پلّا تیرا
بہجت اس سر کی ہے جو ”بہجة الاسرار“ میں ہے
کہ فلک وار مریدوں پہ ہے سایہ تیرا
اے رضا چیست غم ارجملہ جہاں دشمن تست
کردہ ام ما من خود قبلہ حاجاتے را
پچھلا کلام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
تو ہے وہ غوث کہ ہر غوث ہے شیدا تیرا
اگلا کلام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
ہم خاک ہیں اور خاک ہی ماوا ہے ہمارا