الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا
وصل چہارم در منافحت اعداءو استعانت از آقا
الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا
مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا
بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی
ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا
عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے
چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا
کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے
ہاتھ پڑتا ہی نہیں بھول کے اوچھا تیرا
اس پہ یہ قہر کہ اب چند مخالف تیرے
چاہتے ہیں کہ گھٹا دیں کہیں پایہ تیرا
عقل ہوتی تو خدا سے نہ لڑائی لیتے
یہ گھٹائیں، اسے منظور بڑھانا تیرا
ورفعنا لک ذکرک کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے ترا ذکر ہے اونچا تیرا
مٹ گئے مٹتے ہیں مٹ جائیں گے اعدا تیرے
نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا
تو گھٹائے سے کسی کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹے
جب بڑھائے تجھے اللہ تعالیٰ تیرا
سم قاتل ہے خدا کی قسم ان کا انکار
منکرِ فضل حضور آہ یہ لکھا تیرا
میرے سیاف کے خنجر سے تجھے باک نہیں
چیر کر دیکھے کوئی آہ کلیجا تیرا
ابن زہرا سے ترے دل میں ہین یہ زہر بھرے
بل بے او منکر بے باک یہ زہرا تیرا
بازِ اشہب کی غلامی سے یہ آنکھیں پھرنی
دیکھ اڑ جائے گا ایمان کا طوطا تیرا
شاخ پر بیٹھ کے جڑ کاٹنے کی فکر میں ہے
کہیں نیچا نہ دکھائے تجھے شجرا تیرا
حق سے بد ہو کے زمانہ کا بھلا بنتا ہے
ارے میں خوھتا ہوں معما تیرا
سگ در قہر سے دیکھے تو بکھرتا ہے ابھی
بند بندِ بدن اے رو بہ دنیا تیرا
غرض آقا سے کروں عرض کہ تیری ہے پناہ
بند مجبور ہے خاطر پہ ہے قبضہ تیرا
حکم نافذ ہے ترا خامہ ترا سیف تری
دم میں جو چاہے کرے دور ہے شاہا تیرا
جس کو للکار دے آتا ہو تو الٹا پھر جائے
جس کو چمکار لے ہر پھر کے وہ تیرا تیرا
کنجیاں دل کی خدا نے تجھے دیں ایسی کر
کہ یہ سینہ ہو محبت کا خزینہ تیرا
دل پہ کندہ ہو ترا نام کہ وہ دزد رجیم
الٹے ہی پاﺅں پھرے دیکھ کے طغرا تیرا
نزع میں گور میں، میزاں پہ، سرِ پل پہ کہیں
نہ چھٹے ہاتھ سے دامان معلیٰ تیرا
دھوپ محشر کی وہ جاں سوز قیامت ہے مگر
مطمئن ہوں کہ مرے سر پہ ہے پلّا تیرا
بہجت اس سر کی ہے جو ”بہجة الاسرار“ میں ہے
کہ فلک وار مریدوں پہ ہے سایہ تیرا
اے رضا چیست غم ارجملہ جہاں دشمن تست
کردہ ام ما من خود قبلہ حاجاتے را
پچھلا کلام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
تو ہے وہ غوث کہ ہر غوث ہے شیدا تیرا
اگلا کلام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
ہم خاک ہیں اور خاک ہی ماوا ہے ہمارا