کائناتِ نعت ۔ ڈاکٹر رضوان انصاری

نعت کائنات سے
نظرثانی بتاریخ 11:15، 23 مارچ 2018ء از سید عرفان عرفی (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (نیا صفحہ: کائناتِ نعت ( نعتیہ مجمو عو ں پر تبصرے) لکھتا ہوں اسدؔ سوزش دل سے سخن گرم تا رکھ نہ سکے کوئی مرے حر...)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
Jump to navigationJump to search

کائناتِ نعت ( نعتیہ مجمو عو ں پر تبصرے)


لکھتا ہوں اسدؔ سوزش دل سے سخن گرم

تا رکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پہ انگشت

غالب ؔ دہلوی

حمد ربِ جلیل نعت رسول کریم

شاعر : ڈاکٹر جلال توقیر مبصر : ڈاکٹر رضوان انصاری

زیرمطالعہ تقدیسی شعر پر مبنی کتاب ’’حمد رب جلیل نعت رسول کریم‘‘ ڈاکٹر جلال توقیرؔ کی سعی جمیلہ کا ثمرہ ہے۔ ڈاکٹر موصوف کا اصلی نام شیخ جلال الدین صدیقی ہے۔ ڈاکٹر توقیر صاحب کا تعلق نہایت مردم خیز مقام کوٹہ (راجستھان) سے ہے۔ آپ نے اردو وفارسی کی تعلیم اپنے تایا امام الدین سے حاصل کی۔ اس کے بعد جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب کامل کی سند حاصل کی، نیز اودے پور (راجستھان) سے M.B.B.S.D.C.H. کی ڈگری لی۔ فی الحال ملازمت سے سبکدوش ہوکر شعر گوئی میں بھی اپنا قیمتی وقت صرف فرماتے ہیں۔

کتاب حمد ربِ جلیل نعت رسول کریم میں 7عدد حمد، 2مناجاتا، 37لغوت، 6حمدیہ قطعات اور 2مناقب شامل ہیں۔ اس حمدیہ اور نعتیہ کتاب کا تعارف عرض مصنف کے علاوہ اردو کی عظیم المرتبت شخصیتوں نے کرایا ہے۔ جن میں محترم ابرارؔ کرتپوری، ڈاکٹر تابش مہدی اور معروف عالم اور محقق مولانا عبداللہ طارق نیز ڈاکٹر فرازؔ حامدی صاحب وغیرہ خاص ہیں۔

ڈاکٹر توقیر نے عرضِ مصنف کے عنوان سے تقدیسی شعر کی اہمیت پر حضرت علامہ شیخ سعدی علیہ الرحمہ سے متعلق ایک واقعہ دربارِ خداوندی میں قبولیت پر تحریر کی ہے۔ راقم الحروف کو فارسی اور اردو کی اعلیٰ حصول تعلیم کے دوران درسی و غیر درسی کتابوں میں تاہنوز یہ واقعہ زیر مطالعہ نہیں آیا۔ مجھے واقعہ کی حقیقت پر شک نہیں کیونکہ اس کی نسبت اللہ کے رسول سے ہے۔ مگر اپنی بات کو درج کرنے سے قبل مستند حوالہ تلاش کرلینا چاہئے۔ اور کتاب میں سند و حوالہ درج کرنا لازمی ہے۔

جناب ابرار کرتپوری، ڈاکٹر تابش مہدی اور ڈاکٹر فراز حامدی اردو زبان و ادب کے نامور دانشور ہیں۔ ان کے علاوہ معروف عالم دین اسلام حضرت مولانا عبداللہ طارق کے بھی تاثرات شامل ہیں۔ مولانا موصوف نے نعت کے موضوع پر سیر حاصل تحریر پیش کی ہے۔ متذکرہ تمام اصحاب قلم نے ڈاکٹر جلال توقیر کے کلام کے محاسن پر روشنی ڈالی ہے۔ مگر کلام پر دوسرا پہلو زبان و بیان اور اصل واقعہ جو ہے اس سے چشم پوشی کرتے ہوئے اصول تنقید کی خلاف وزری کی ہے۔شاعری رب العالمین کی عطا کردہ ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ وہبی ہوتی ہے کسبی نہیں۔ عربی و فارسی اور اردو کے کلاسیکل شعراء کا کلام شاہد ہے۔ متنبی، فردوسی اور غالبؔ کسی اعلیٰ دانشگاہ کے تعلیم یافتہ نہ تھے۔ مگر کلام میں وہی تازگی اور شعور و فکر کی آگہی باقی ہے۔ خیر۔

ڈاکٹر جلال توقیر کی تقدیسی شعر و کلام پر مذکورہ مبنی کتاب کابالاستیعاب مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ڈاکٹر موصوف کی شعری سفر کا دوسرا زینہ ہے۔ اس سے قبل ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’رہنمائے توقیر‘‘ شائع ہوچکا ہے۔

’’حمد رب جلیل نعت رسول کریم‘‘‘ میں ڈاکٹر جلال توقیر نے اپنے قلبی واردات کا ذکر بہت ہی والہانہ فکر و شعور کے ساتھ کیا ہے۔ ان کا دل عشق رسول پاک سے سرشار نظر آتا ہے۔ وہ اپنی کیفیتِ اندروں کو بیان کرنے میں بڑی دانائی سے کام لیتے ہیں۔ ان کی زبان و بیان میں عمومیت ہے۔ مطالعہ وسیع نہ ہونے سے رفعتِ تخیل میں وہ روانی و تسلسل برقرار نہیں رہ پاتی ہے۔ جو کلام کو انفرادیت بخشتا ہے اور جس کی جانب خواجہ حالیؔ (1914-1837ء) نے مقدمہ شعر و شاعری میں لکھا ہے۔ پھر بھی اس مجموعہ میں بہت سے ایسے اشعار مل جاتے ہیں، جو کتاب کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہیں نیز ڈاکٹر جلال توقیر کے دلی جذبات اور عشق حقیقی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ حمد سے متعلق شعر ملاحظہ ہوں:


رُخ ہوائوں کا کون بدلے ہے

یہ اشارے کہاں سے آئے ہیں

رحمت کو جوش آہی گیا دیکھ کر مجھے

عاصی تو ہے ضرور، مگر شرمسار ہے

مجھ سے ہوئیں خطائیں یکے بعد دیگرے

لیکن کمی نہ آئی تیرے التفات میں

ڈاکٹر صاحب کے تقدیسی مجموعہ میں جابجا صنائع و بدائع کا برمحل استعمال ملتا ہے۔ بالخصوص تلمیح نے کلام میں چار چاند لگادیئے ہیں معراج شریف کا واقعہ بڑے والہانہ انداز میں ملتا ہے۔ شعر ملاحظہ ہو:-


جبریل کی جس حد سے نہیں آگے رسائی

اس حد سے بھی آگے مرے آقا کا گذر ہے

لیکن معراج شریف کے واقعے کے حوالے سے ہی ڈاکٹر صاحب نے اپنے درج ذیل شعر میں ایک ایسی روایت کو اپنی فکر کا موضوع بنایا ہے جسے علمائے کرام نے باطل و موضوع قرار دیا ہے ملاحظہ ہو ؎


نعلین پہنے کون گیا عرش پاک پر

یہ مرتبہ ہے آپ کا یہ شان یا رسول

مصرع اوّل میں مذکور روایت کے بارے میں جب مولانا احمد رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا۔

سوال :- یہ صحیح ہے کی شب ِ معراج مبارک جب حضور اقدس ﷺ عرش بریں پر پہنچے نعلین پاک اُتارنا چاہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو و دی ایمن میں نعلین شریف اتارنے کا حُکم تھا۔ فوراً ندا آئی اے حبیب تمہارے مع نعلین شریفین رونق افروز ہونے سے عرش کی زینت و عزت زیادہ ہوگی۔

ارشاد:- یہ روایت محض باطل و موضوع ہے۔ معارف رضا۔ دوازدہم ۱۹۹۲؁ء ادارہ تحقیقات امام احمد رضا۔ کراچی ص ۹۹

متذکرہ اشعار میں امید و رجا اور تصوف کے عنصر ملتے ہیں مگر ان ہی حمدیہ اشعار میں یہ شعر بھی ہے کہ:


تو شجر میں ہے تو حجر میں ہے ترا رنگ برگ و ثمر میں ہے

تو محیط ارض و سماء پہ ہے بھلا کس میں تیرا نشاں نہیں

رب العالمین کے لئے لفظ ’’محیط‘‘ اور ’’شجر و حجر‘‘ میں ہونے کا استعمال سراسر غلط ہے اور اس کا شجر و حجر میں ہونا بھی غلط استعمال ہوا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ لاانتہا اور غیر محیط ہے اسی طرح شجر و حجر میں ہونا ذات الٰہی کو محدود کرنا ہوا۔ شجر و حجر میں اس کا جلوہ توضرور ہے مگر وہ خود نہیں۔

آئیے نعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند روح پرور اور قلب و فکر و شعور کو پاکیزگی، طہارت اور بالیدگی عطا کرنے والے اشعار ملاحظہ کرلیں:


اللہ کا محبوب ہے وہ فخر بشر ہے

قدرت کے خزانے کا جو نایاب گہر ہے

واقعہ معراج پر یہ شعر توجہ کا طالب ہے:


جبریل کی جس حد سے نہیں آگے رسائی

اس حد سے بھی آگے مرے آقا کا گزر ہے

مدینۃ النبی دیکھنے کی تمنا دیکھئے:


نیند آئے نہ مجھے اور نہ جھپکیں پلکیں

مسجد نبوی سے جب گنبد خضریٰ دیکھوں

جو شفیع المذنبیں ہیں، وہ پیمبر آپ ہیں

جن کی مانے گا سفارش رب اکبر، آپ ہیں

آپ نے جب ذرا سا اشارہ کیا، چاند دو ٹکڑے ہوکر جدا ہوگیا

سنگریزوں نے بھی جس کا کلمہ پڑھا اور کوئی نہیں ہے حضور آپ ہیں

اسی شعری مجموعہ میں چند اشعار ایسے بھی مل رہے ہیں جن کا تعلق تخیل کے ماسوا نہیں شعر دیکھئے:


پھولوں میں چمن کے کوئی خوشبو نہیں ہوتی

گر ان میں محمد کا پسینہ نہیں ملتا

دامن مرے آقا کا پکڑ کیوں نہیں لیتے

گر تم کو خدا حضرت موسیٰ نہیں ملتا

متذکرہ شعر اول میں چمن کے پھولوں میں خوشبو کا حضور کے پسینہ سے تلعق ہونا غلط اور غیر مصدقہ ہے۔ پھولوں میں خوشبو کا وجود رب العالمین کی ذات اور شان اعلیٰ سے ہے۔ وہ جس پھول میں جیسی خوشبو چاہتا ہے۔ عطا فرماتا ہے۔ جب کہ شعر ثانی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خدا تک رسائی کے لئے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن پکڑنے کے لئے ترغیب دینا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کے شایان شان نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے نبی کا مقام و مرتبہ سب سے اعلیٰ ہے مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی تو نبی ہیں اور کلیم اللہ کے خطاب یافتہ ہیں۔


اور نبیوں کو تو ہوگی فکر خود کی حشر میں

اپنی امت کے لئے جو ہوں گے مضطرب آپ

تمام انبیاء کرام معصوم ہوتے ہیں۔ ان کو میدانِ حشر کے حساب و کتاب اور اعمال کے خیر و شر کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اس لئے حشر میں خود کی فکر چہ معنیٰ دارد؟


ہر سو پھیلی ہوئی آپ کی ہے ضیاء

ہیں یہ شمس و قمر آپ کے نقش پا

مصرعہ ثانی کا تعلق مصرعہ اولیٰ سے ربط نہیں رکھتا۔ نقش پا کو شمس و قمر سے تعلق بتانا یا مماثل قرار دینا سراسر غلط ہے۔


انبیاء کو رشک ہم پر آئے گا روزِ حساب

جب شفاعت امت عاصی کی فرمائیں گے آپ

انبیاء سابقہ کو موجودہ امت سے کمتر اظہار کرنا شرعی نقطۂ نظر سے گناہ ہے۔اس قبیل کے مزید اشعار اس شعری مجموعہ میں ہیں۔ بہتر ہوتا کہ کتاب کی اشاعت سے قبل مولانا عبداللہ طارق صاحب سے نظرثانی فرمانے کے لئے مجموعہ عنایت کردیتے۔

کتاب کی طباعت عمدہ ہے اورسرورق دیدہ زیب۔ قیمت بھی مناسب۔ میں ڈاکٹر جلال توقیر صاحب کو مبارکباد پیش کرنے کے ساتھ دعا گو ہوں کہ رب العالمین ان کی دلی آرزو یعنی مدینۃ النبی اور روضہ اقدس کی حاضری بار بار نصیب فرمائے۔ آمین

اردو کے ایک معروف شاعر کا یہ شعر قابلِ رشک ہے کہ:


اگر کچھ ہے تو سب یہ ہے تمنا آخری اپنی

کہ تم ساحل پہ ہوتے اور کشتی ڈوبتی اپنی

ڈاکٹر صاحب کی تمنا بھی نہایت خوب اور قابلِ رشک ہے:


دل میں ہے میرے ایک ہی ارمان یا رسول

نکلے تمہارے در پہ مری جان یا رسول