کائناتِ نعت ۔ ڈاکٹر رضوان انصاری

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

مضمون نگار: رضوان انصاری

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

کائناتِ نعت : ( نعتیہ مجمو عو ں پر تبصرے)[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

لکھتا ہوں اسدؔ سوزش دل سے سخن گرم

تا رکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پہ انگشت

غالب ؔ دہلوی

حمد ربِ جلیل نعت رسول کریم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعر : ڈاکٹر جلال توقیر

مبصر : ڈاکٹر رضوان انصاری

زیرمطالعہ تقدیسی شعر پر مبنی کتاب ’’حمد رب جلیل نعت رسول کریم‘‘ ڈاکٹر جلال توقیرؔ کی سعی جمیلہ کا ثمرہ ہے۔ ڈاکٹر موصوف کا اصلی نام شیخ جلال الدین صدیقی ہے۔ ڈاکٹر توقیر صاحب کا تعلق نہایت مردم خیز مقام کوٹہ (راجستھان) سے ہے۔ آپ نے اردو وفارسی کی تعلیم اپنے تایا امام الدین سے حاصل کی۔ اس کے بعد جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب کامل کی سند حاصل کی، نیز اودے پور (راجستھان) سے M.B.B.S.D.C.H. کی ڈگری لی۔ فی الحال ملازمت سے سبکدوش ہوکر شعر گوئی میں بھی اپنا قیمتی وقت صرف فرماتے ہیں۔

کتاب حمد ربِ جلیل نعت رسول کریم میں 7عدد حمد، 2مناجاتا، 37لغوت، 6حمدیہ قطعات اور 2مناقب شامل ہیں۔ اس حمدیہ اور نعتیہ کتاب کا تعارف عرض مصنف کے علاوہ اردو کی عظیم المرتبت شخصیتوں نے کرایا ہے۔ جن میں محترم ابرارؔ کرتپوری، ڈاکٹر تابش مہدی اور معروف عالم اور محقق مولانا عبداللہ طارق نیز ڈاکٹر فرازؔ حامدی صاحب وغیرہ خاص ہیں۔

ڈاکٹر توقیر نے عرضِ مصنف کے عنوان سے تقدیسی شعر کی اہمیت پر حضرت علامہ شیخ سعدی علیہ الرحمہ سے متعلق ایک واقعہ دربارِ خداوندی میں قبولیت پر تحریر کی ہے۔ راقم الحروف کو فارسی اور اردو کی اعلیٰ حصول تعلیم کے دوران درسی و غیر درسی کتابوں میں تاہنوز یہ واقعہ زیر مطالعہ نہیں آیا۔ مجھے واقعہ کی حقیقت پر شک نہیں کیونکہ اس کی نسبت اللہ کے رسول سے ہے۔ مگر اپنی بات کو درج کرنے سے قبل مستند حوالہ تلاش کرلینا چاہئے۔ اور کتاب میں سند و حوالہ درج کرنا لازمی ہے۔

جناب ابرار کرتپوری، ڈاکٹر تابش مہدی اور ڈاکٹر فراز حامدی اردو زبان و ادب کے نامور دانشور ہیں۔ ان کے علاوہ معروف عالم دین اسلام حضرت مولانا عبداللہ طارق کے بھی تاثرات شامل ہیں۔ مولانا موصوف نے نعت کے موضوع پر سیر حاصل تحریر پیش کی ہے۔ متذکرہ تمام اصحاب قلم نے ڈاکٹر جلال توقیر کے کلام کے محاسن پر روشنی ڈالی ہے۔ مگر کلام پر دوسرا پہلو زبان و بیان اور اصل واقعہ جو ہے اس سے چشم پوشی کرتے ہوئے اصول تنقید کی خلاف وزری کی ہے۔شاعری رب العالمین کی عطا کردہ ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ وہبی ہوتی ہے کسبی نہیں۔ عربی و فارسی اور اردو کے کلاسیکل شعراء کا کلام شاہد ہے۔ متنبی، فردوسی اور غالبؔ کسی اعلیٰ دانشگاہ کے تعلیم یافتہ نہ تھے۔ مگر کلام میں وہی تازگی اور شعور و فکر کی آگہی باقی ہے۔ خیر۔

ڈاکٹر جلال توقیر کی تقدیسی شعر و کلام پر مذکورہ مبنی کتاب کابالاستیعاب مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ڈاکٹر موصوف کی شعری سفر کا دوسرا زینہ ہے۔ اس سے قبل ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’رہنمائے توقیر‘‘ شائع ہوچکا ہے۔

’’حمد رب جلیل نعت رسول کریم‘‘‘ میں ڈاکٹر جلال توقیر نے اپنے قلبی واردات کا ذکر بہت ہی والہانہ فکر و شعور کے ساتھ کیا ہے۔ ان کا دل عشق رسول پاک سے سرشار نظر آتا ہے۔ وہ اپنی کیفیتِ اندروں کو بیان کرنے میں بڑی دانائی سے کام لیتے ہیں۔ ان کی زبان و بیان میں عمومیت ہے۔ مطالعہ وسیع نہ ہونے سے رفعتِ تخیل میں وہ روانی و تسلسل برقرار نہیں رہ پاتی ہے۔ جو کلام کو انفرادیت بخشتا ہے اور جس کی جانب خواجہ حالیؔ (1914-1837ء) نے مقدمہ شعر و شاعری میں لکھا ہے۔ پھر بھی اس مجموعہ میں بہت سے ایسے اشعار مل جاتے ہیں، جو کتاب کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہیں نیز ڈاکٹر جلال توقیر کے دلی جذبات اور عشق حقیقی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ حمد سے متعلق شعر ملاحظہ ہوں:


رُخ ہوائوں کا کون بدلے ہے

یہ اشارے کہاں سے آئے ہیں

رحمت کو جوش آہی گیا دیکھ کر مجھے

عاصی تو ہے ضرور، مگر شرمسار ہے

مجھ سے ہوئیں خطائیں یکے بعد دیگرے

لیکن کمی نہ آئی تیرے التفات میں

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

ڈاکٹر صاحب کے تقدیسی مجموعہ میں جابجا صنائع و بدائع کا برمحل استعمال ملتا ہے۔ بالخصوص تلمیح نے کلام میں چار چاند لگادیئے ہیں معراج شریف کا واقعہ بڑے والہانہ انداز میں ملتا ہے۔ شعر ملاحظہ ہو:-


جبریل کی جس حد سے نہیں آگے رسائی

اس حد سے بھی آگے مرے آقا کا گذر ہے

لیکن معراج شریف کے واقعے کے حوالے سے ہی ڈاکٹر صاحب نے اپنے درج ذیل شعر میں ایک ایسی روایت کو اپنی فکر کا موضوع بنایا ہے جسے علمائے کرام نے باطل و موضوع قرار دیا ہے ملاحظہ ہو ؎


نعلین پہنے کون گیا عرش پاک پر

یہ مرتبہ ہے آپ کا یہ شان یا رسول

مصرع اوّل میں مذکور روایت کے بارے میں جب مولانا احمد رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا۔

سوال :- یہ صحیح ہے کی شب ِ معراج مبارک جب حضور اقدس ﷺ عرش بریں پر پہنچے نعلین پاک اُتارنا چاہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو و دی ایمن میں نعلین شریف اتارنے کا حُکم تھا۔ فوراً ندا آئی اے حبیب تمہارے مع نعلین شریفین رونق افروز ہونے سے عرش کی زینت و عزت زیادہ ہوگی۔

ارشاد:- یہ روایت محض باطل و موضوع ہے۔ معارف رضا۔ دوازدہم ۱۹۹۲؁ء ادارہ تحقیقات امام احمد رضا۔ کراچی ص ۹۹

متذکرہ اشعار میں امید و رجا اور تصوف کے عنصر ملتے ہیں مگر ان ہی حمدیہ اشعار میں یہ شعر بھی ہے کہ:


تو شجر میں ہے تو حجر میں ہے ترا رنگ برگ و ثمر میں ہے

تو محیط ارض و سماء پہ ہے بھلا کس میں تیرا نشاں نہیں

رب العالمین کے لئے لفظ ’’محیط‘‘ اور ’’شجر و حجر‘‘ میں ہونے کا استعمال سراسر غلط ہے اور اس کا شجر و حجر میں ہونا بھی غلط استعمال ہوا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ لاانتہا اور غیر محیط ہے اسی طرح شجر و حجر میں ہونا ذات الٰہی کو محدود کرنا ہوا۔ شجر و حجر میں اس کا جلوہ توضرور ہے مگر وہ خود نہیں۔

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

آئیے نعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند روح پرور اور قلب و فکر و شعور کو پاکیزگی، طہارت اور بالیدگی عطا کرنے والے اشعار ملاحظہ کرلیں:


اللہ کا محبوب ہے وہ فخر بشر ہے

قدرت کے خزانے کا جو نایاب گہر ہے

واقعہ معراج پر یہ شعر توجہ کا طالب ہے:


جبریل کی جس حد سے نہیں آگے رسائی

اس حد سے بھی آگے مرے آقا کا گزر ہے

مدینۃ النبی دیکھنے کی تمنا دیکھئے:


نیند آئے نہ مجھے اور نہ جھپکیں پلکیں

مسجد نبوی سے جب گنبد خضریٰ دیکھوں

جو شفیع المذنبیں ہیں، وہ پیمبر آپ ہیں

جن کی مانے گا سفارش رب اکبر، آپ ہیں

آپ نے جب ذرا سا اشارہ کیا، چاند دو ٹکڑے ہوکر جدا ہوگیا

سنگریزوں نے بھی جس کا کلمہ پڑھا اور کوئی نہیں ہے حضور آپ ہیں

اسی شعری مجموعہ میں چند اشعار ایسے بھی مل رہے ہیں جن کا تعلق تخیل کے ماسوا نہیں شعر دیکھئے:


پھولوں میں چمن کے کوئی خوشبو نہیں ہوتی

گر ان میں محمد کا پسینہ نہیں ملتا

دامن مرے آقا کا پکڑ کیوں نہیں لیتے

گر تم کو خدا حضرت موسیٰ نہیں ملتا

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

متذکرہ شعر اول میں چمن کے پھولوں میں خوشبو کا حضور کے پسینہ سے تلعق ہونا غلط اور غیر مصدقہ ہے۔ پھولوں میں خوشبو کا وجود رب العالمین کی ذات اور شان اعلیٰ سے ہے۔ وہ جس پھول میں جیسی خوشبو چاہتا ہے۔ عطا فرماتا ہے۔ جب کہ شعر ثانی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خدا تک رسائی کے لئے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن پکڑنے کے لئے ترغیب دینا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کے شایان شان نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے نبی کا مقام و مرتبہ سب سے اعلیٰ ہے مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی تو نبی ہیں اور کلیم اللہ کے خطاب یافتہ ہیں۔


اور نبیوں کو تو ہوگی فکر خود کی حشر میں

اپنی امت کے لئے جو ہوں گے مضطرب آپ

تمام انبیاء کرام معصوم ہوتے ہیں۔ ان کو میدانِ حشر کے حساب و کتاب اور اعمال کے خیر و شر کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اس لئے حشر میں خود کی فکر چہ معنیٰ دارد؟


ہر سو پھیلی ہوئی آپ کی ہے ضیاء

ہیں یہ شمس و قمر آپ کے نقش پا

مصرعہ ثانی کا تعلق مصرعہ اولیٰ سے ربط نہیں رکھتا۔ نقش پا کو شمس و قمر سے تعلق بتانا یا مماثل قرار دینا سراسر غلط ہے۔


انبیاء کو رشک ہم پر آئے گا روزِ حساب

جب شفاعت امت عاصی کی فرمائیں گے آپ

انبیاء سابقہ کو موجودہ امت سے کمتر اظہار کرنا شرعی نقطۂ نظر سے گناہ ہے۔اس قبیل کے مزید اشعار اس شعری مجموعہ میں ہیں۔ بہتر ہوتا کہ کتاب کی اشاعت سے قبل مولانا عبداللہ طارق صاحب سے نظرثانی فرمانے کے لئے مجموعہ عنایت کردیتے۔

کتاب کی طباعت عمدہ ہے اورسرورق دیدہ زیب۔ قیمت بھی مناسب۔ میں ڈاکٹر جلال توقیر صاحب کو مبارکباد پیش کرنے کے ساتھ دعا گو ہوں کہ رب العالمین ان کی دلی آرزو یعنی مدینۃ النبی اور روضہ اقدس کی حاضری بار بار نصیب فرمائے۔ آمین

اردو کے ایک معروف شاعر کا یہ شعر قابلِ رشک ہے کہ:


اگر کچھ ہے تو سب یہ ہے تمنا آخری اپنی

کہ تم ساحل پہ ہوتے اور کشتی ڈوبتی اپنی

ڈاکٹر صاحب کی تمنا بھی نہایت خوب اور قابلِ رشک ہے:


دل میں ہے میرے ایک ہی ارمان یا رسول

نکلے تمہارے در پہ مری جان یا رسول

محمد نہ ہوتے توکچھ بھی نہ ہوتا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعر : نذیر فتح پوری

مبصر : ڈاکٹر رضوان انصاری

میرے مطالعہ کی میز پر تبصرہ کے لئے اردو کے نامور شاعر، نثرنگار اور ’’اسباق‘‘ کے معروف مدیر محترم نذیر فتح پوری کی تقدیسی شاعری (نعت) پر مبنی کتاب ’’محمد نہ ہوتے…‘‘ ہے۔ کتاب ہذا کی اہمیت، نعت گوئی کی افادیت اور فن نعت گوئی پر احسان دانش، ابوالمجاہد زاہدؔ اور محمدادریس رضوی کے مقالات نہایت پُرمغز ہیں۔ اس سے قبل موصوف کی 72کتابیں مختلف موضوعات پر شائع ہوچکی ہیں۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

جناب نذیر فتح پوری کی زیرمطالعہ کتاب ’’محمد نہ ہوتے تو…‘‘ ان کے عشق رسول دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم پر مبنی ہے، جس کا اظہار آپ نے اپنے مافی الضمیر کو الفاظ کے سہارے فرمایا ہے۔ نعت گوئی اردو اصناف شعری میں سب سے زیادہ مشکل ہے مگر ایک سچے عاشقِ رسول کے لئے بہت آسان بھی ہے۔ شرط صرف عشق ہے۔ تطہیر قلب کے ساتھ اگر کوئی خوش فکر اپنے جذب اندروں کو شعر کا جامہ عطا کرتا ہے تو وہ نعت کا شعر کہلاتا ہے۔ اور یہی تخیل اور فکر شاعر اور قاری کو قلبی سکون عطا کرتا ہے۔

جناب نذیرؔ فتح پوری کو نثر و نظم دونوں پر یکساں قدرت حاصل ہے انہیں زبان و بیان اور الفاظ کے در و بست پر کماحقہٗ دسترس ہے۔ چونکہ نعت گوئی ایک سچے عاشقِ رسول کا وطیرہ رہا ہے اور اس کا اظہار دنیا کی ہر زبان و ادب میں ہورہا ہے اردو میں بدرجہ اولیٰ۔ نذیرؔ فتح پوری نے بھی اپنے جذبات کا حقیقی اظہار تقدیسی شاعری میں کیا ہے۔ کلام میں روانی اور دلکشی خوب خوب ہے۔ دلی جذبات کا اظہار بہت والہانہ اور سرشاری کیفیت میں ملتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:


ہے دیوانہ مدینے کی جانب رواں

چہرہ پُرنور ہے اور قدم تیز ہے

دیارِ حبیب خدا کی وہ گلیاں

حقیقت میں فردوس کی کیاریاں ہیں

وہاں تک زمیں بوس ہوتے ہیں قدسی

جہاں تک مدینے کی پرچھائیاں ہیں

دیوانو! زمانے سے دامن بچاکر

مدینے کی جانب چلو والہانہ

محشر کی تمیز دھوپ سے بچنے کے واسطے

بے سایہ جس کی ذات ہے سایہ اسی کی ڈھونڈ

نذیرؔ فتح پوری نے تقدیسی شاعری کے بیشتر اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ کتاب ’’محمد نہ ہوتے تو…‘‘ میں ان تمام اصناف میں کہے گئے اشعار شامل ہیں۔ مثلاً توشیحی نظم، حمد باری کربیاں، توشیحی نظم، محمد کی بارگاہ میں، آزاد نظم، نعتیہ تضمین، گیت، قطعات نعتیہ ماہیے، نعتیہ دوہے، راجستھانی نعت، آزاد نعت، اور مناقب بحضور حسین رضی اللہ عنہ وغیرہ کے علاوہ بیشتر لغوت کی سرخی یا عنوان نعت پاک کے کسی مصرعہ کو بنایا گیا ہے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر کل 4مناقب کہے ہیں۔ ان میں سادگی کے ساتھ جوش و جذبہ اور روانی ہے۔ الفاظ کے برمحل استعمال نے انگشتری میں نگینہ کا کام کیا ہے۔ شعر دیکھئے:


ثانی کوئی ہوا ہے نہ ہوگا حسین کا

اب تک زمیں پہ قرض ہے سجدہ حسین کا

میں ہار کر بھی نہ ہارا ہوا لگوں گا تجھے

یزید وقت! مجھے کربلا سے نسبت ہے

دیکھوں تو یہی دیکھوں

نور جسم کے

چہرے کی چھبیہ دیکھوں

……(6 ماہیے سے)

دین و دنیا کے ہر سفینے کو

وہی گرداب سے نکالے گا بحر و حدت کا جو شناور ہے

ہے وہی واقف رموزِ حیات

اور وہی زندگی کا مظہر ہے

……(آزاد نعت سے)

یوں تو کتاب میں موجود تمام نعتیہ کلام ایک سے بڑھ کر ایک ہیں جن پر اظہار خیال کرنا ممکن نہیں۔ آخر میں نعتیہ تضمین اور ’’کیا پوچھتے ہو دوستو! کردار مصطفی‘‘ سے ایک ایک بند نذر قارئین ہے۔ ملاحظہ ہو:


عطا کی محمد نے دولت یقیں کی

محمد جو آئے تو ایمان آیا

محمد نے سمجھائی عظمت خدا کی

محمد جو آئے تو قرآن آیا

خدا کا نہ بندوں کو عرفان ہوتا

دعا کا دوا کا نہ سامان ہوتا

محمد نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا

یہ نعتیہ تضمین کل 11 بندوں پر مشتمل ہے جو مسدس کی شکل میں ہے۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

دوسری نعتیہ نظم سے بند ملاحظہ ہو:


چھوٹی سی اک چٹائی تھی ادنیٰ سا اک لباس

کالی سی ایک کملی تھی میرے نبی کے پاس

صبر و وفا کا ایسا نمونہ دکھا دیا

خود بھوکا رہ کے اوروں کو کھانا کھلا دیا

سب جانتے ہیں، ایسا تھا ایثار مصطفی

کیا پوچھتے ہو دوستو! کردار مصطفی

حاصل کلام یہ کہ پوری کتاب علم و حکمت اور عشق نبی کا گنجینہ ہے۔ کتاب کا سرورق، کاغذ معیاری ہے۔ قیمت مناسب ہے۔ باذوق حضرات کتاب خرید کر مطالعہ کریں۔ مکرمی نذیر فتح پوری مبارکباد کے مستحق ہیں۔

نوٹ : لفظ کملی ’’تصغیر کمبل کی ہے)۔ مولانا احمد رضا خاں بریلوی نے حدائق بخشش کے کسی شعر میں کالی کملی کا استعمال نہیں فرمایا ہے۔ عصرحاضر کے نعت گو شعراء کرام براہ کرم احتراز فرمائیں۔ تفصیل کے لئے رجوع فرمائیں۔ ’’بدرکامل‘‘ از مولانا بدرالدین قادری۔

پیمانِ قلم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت نگار : مختار عاشقی جونپوری

مبصر : ڈاکٹر رضوان انصاری

زیرنظر کتاب ’’پیمانِ قلم‘‘ مختار عاشقی جونپوری کی شعر و نغمہ پر مبنی تیسری تصنیف ہے۔ اس سے قبل ’’گلشنِ اسلام‘‘ 1968ء (نعت و منقبت کا مجموعہ) اور ’’انداز بیاں اور‘‘ 2007ء (نعت و غزلوں کا مجموعہ) مجموعہائے کلام شائع ہوچکے ہیں۔

مختارعاشقی جونبوری ایک کہنہ مشق شاعر ہیں۔ ان کی ولادت 25مئی 1929ء کو جونپور میں ہوئی۔ تلاش معاش میں احمدآباد آگئے اور یہیں ہوکے رہ گئے۔ اس وقت عمر کی 88 بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ فی الحال علیل ہیں۔ یہ کتاب سلمان جونپوری جو موصوف کے پسر زادہ ہیں۔ نے مرتب کی ہے۔ ’’پیمانِ قلم‘‘ دو حصوں میں منقسم ہے۔ 1-تقدیسی شاعری۔ 2-بہاریہ شاعری۔ اس تبصرہ میں ان کی تقدیسی شاعری کو موضوع بنایا جارہا ہے۔

پیمان قلم میں مختار عاشقی کی نعتیں، قطعات، منقبتیں اور قصائد شامل ہیں۔ گوکہ حمد صرف ایک ہے مگر بہت خوب ہے۔ کتاب میں طفیل انصاری۔ ایس۔ ایم۔ عباس۔ عارف برقی، شاطر انصاری، وفاجونپوری اور محمد عرفان جونبوری کے تعارفی نگارشات شامل ہیں۔ اگرچہ وفاؔ جونپوری کا مضمون ’’انداز بیاں اور‘‘ پر مبنی ہے۔

جیسا کہ ماقبل تحریر کیا جاچکا ہے کہ مختار عاشقی صاحب ایک کہنہ مشق شاعر ہیں۔ اگرچہ انہوں نے شاعری کو اپنا ذریعہ معاش نہیں بنایا بلکہ تفریح طبع اور عشق حقیقی کو اپنی تقدیسی شاعری اور بہاریہ شاعری کے اظہار کے لئے فکر رواں کو موزوں کیا ہے۔ ان کو زبان و بیان پر مکمل قدرت حاصل ہے۔ قادرالکلامی نے حسنِ کلام کو دوبالا کردیا ہے۔ قرآن و احادیث وغیرہ پر گہری نظر ہے۔ خدا اور اس کے محبوب رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مابین فرق مراتب کا بخوبی علم ملتا ہے۔ کوئی شعر خلاف مراتب نہیں۔ وہ رب العالمین کی شان اورقدرت کاملہ کا اظہار بڑے والہانہ شعور و آگہی کے ساتھ کرتے ہیں۔ شعر ملاحظہ فرمائیں:


ذروں کو آبداری، تاروں کو روشنی دی

ہر شے میں دیکھتا ہوں حسن و جمال تیرا

قاصر ہوئی ہے یا رب عقل سلیم سب کی

ادراک سے ہے بالا اک اک کمال تیرا


"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

مختار عاشقی کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔ ان کی جودت طبع میں روانی ہے۔ عشق حقیقی کا جذبہ ہر نعتیہ شعر میں ملتا ہے۔ عشقِ رسول میں ان کا دل سرشار رہتا ہے۔ ان کا ہر ہر لمحہ شہر مصطفی کی یاد میں گزرتا ہے۔ تقدیسی شاعری کے لئے جن لوازمات کی ضرورت ہے وہ ان میں بھرپور ہے۔ ان کے مجموعۂ کلام کے تقدیسی حصہ میں متعدد اشعار ایسے ہیں جن میں رِقّت ہے اوردل کی گہرائیوں کو چھولیتے ہیں۔ کلام میں صنائع و بدائع کا بھی برمحل استعمال ملتا ہے۔ خاص طور سے تلمیحات نے حسن کلام میں چار چاند لگادیئے ہیں۔ چند اشعار سے شاعر کے تخیل اور اس کے کلام سے لطف اندوز ہوں:


عشق نبی نے صاحبِ ایماں بنادیا

داغ جگر کو گلشنِ رضواں بنادیا

بیکسوں کا چارہ گر اور عاصیوں کا غم لئے

رحمۃ للعالمیں حق آشنا پیدا کیا

بخشوائیں گے اسے حشر میں محبوبِ خدا

جس کو سرکار کے روضے کی زیارت ہوگی

اثر اللہ اکبر دیکھئے لحن بلالی کا

فرشتوں کی طبیعت آسماں پر جھوم جاتی ہے

یہی تو کہتے ہیں الیاس و خضر بھی مختارؔ

زہے نصیب شہ بحر و بر کی آمد ہے

مختار عاشقی جونپوری کے شعری مجموعہ ’’پیمانِ قلم‘‘ کے تقدیسی جزو کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان کے کلام میں عشق رسول کا حقیقی جذبہ کارفرما ہے۔ ان کا کلام عطائی ہے۔ بیان میں انفرادیت ہے۔

کتاب کی طباعت اور کاغذ عمدہ ہے۔ قیمت بھی مناسب ہے۔ باذوق اہل ادب اور نعتیہ کلام سے دلچسپی رکھنے والے حضرات کتاب خرید کر صاحبِ کتاب یعنی مختارعاشقی صاحب کی ہر وقت اعانت فرمائیں اور نعت پاک کے مطالعہ سے اپنی روحانی فکر کو سکون عطا کریں۔

ادارہ دبستانِ نعت ان کی صحت کے لئے دعا گو ہے۔

مجموعۂ حمد و نعت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعر : عبدالقادر عارفؔ مبصر : ڈاکٹر رضوان انصاری

زیرنظر ’’مجموعۂ حمد و نعت‘‘ عبدالقادر عارفؔ (کرناٹک) کا ہے۔ جسے انہوں نے اپنے 5شعری مطبوعات میں شامل حمد و نعت و مناقب کو الگ سے کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔ عارفؔ صاحب کی ولادت 5ستمبر 1938ء میں ہوئی۔ 38سال سرکاری ملازمت کرنے کے بعد نائب تحصیلدار کے عہدہ سے سبکدوش ہوئے۔ ان کا پہلا مجموعہ ’’پھول اور کانٹے‘‘ (شعری و نثری طنز مزاح) 2009ء میں شائع ہوکر منظرعام پر آیا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے ’’نشاطِ سخن‘‘ پیام عارف، صدائے انقلاب اور اصلاح المسلمین شعری مجموعہائے کلام شائع ہوکر عوام و خواص میں سند قبولیت حاصل کرچکے ہیں۔

مجموعۂ حمد و نعت میں کل 2عدد حمد۔ 1عدد مناجات 27لغوت، 13مناقب اور 2قصائد شامل ہیں۔ مناقب شہیدانِ کربلا اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات پر مبنی ہیں جب کہ پہلا قصیدہ حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرا سیدنا اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی شان میں ہے۔

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

عارفؔ صاحب نے گرچہ پوری زندگی سرکاری ملازمت میں گزاری مگر دل میں عشق رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شمع بھی روشن رہی۔ جو ایک مومن کی ایمان اور پہچان ہے۔ ان کا کلام روایتی ذہن و فکر پر مبنی نہیں بلکہ دل کی ترجمان ہے۔ شعر میں رقت اور سوزدروں کا فقدان ہونے سے آمد کا شعور جلوہ گر نہیں۔ اور نہ قاری کو تادیر اُن فضائوں میں گم کرپاتا ہے۔ پھر بھی بعض اشعار عمدہ اور ایمان افروز ہیں۔ ملاحظہ ہوں:


اس روضۂ اقدس پہ نظر جب سے پڑی ہے

ہر وقت تصور میں میرے روئے نبی ہے

جب وقت رخصتی ہو دیار حبیب سے

روضہ کو بار بار تو گردن گھما کے دیکھ

خلوت تو بس خدا کا اک اعجاز ہے مگر

لیکن نبی خدا کی ہیں جلوت کا آئینہ

منصور کی باتوں کو نہ سمجھا یہ زمانہ

یہ فیصلہ حق کا تھا سرِ دار ہوا ہے

نعت گوئی کے لئے تاریخ اسلام اور قرآن و احادیث کا وسیع مطالعہ درکار ہے۔ جس سے کلام میں تازگی اور حسن پیدا ہوتا ہے۔ عبدالقادر عارفؔ کے کلام میں اس کمی کا احساس ہوتا ہے۔

کتاب کی طباعت کاغذ عمدہ اور معیاری ہے۔قیمت مناسب اور سرورق دیدہ زیب ہے۔ عارف صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں کہ اپنے لیے زاد آخرت کے طور پر حمد و نعت کا مجموعہ اہل ایمان کے روبرو پیش کیا ہے۔ باذوق حضرات کتاب ہذا سے مستفیض ہوں۔


اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png


محبتوں کے چراغ =[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت نگار : قاری اخلاقؔ احمد فتح پوری مبصر : ڈاکٹر شکیل احمد اعظمی

قاری اخلاق ؔاحمد فتح پوری کا گل دستہ صفت نعتیہ مجموعہ اس وقت میرے مطالعے کی میز پر ہے۔جو ایک سو ساٹھ صفحات پر مشتمل ہے۔ ابتدا میں حضرت سید نور الحسن نوابی عزیزی ، محترم یاور وارثی عزیزی نوابی اور جناب سرور عزیزی نوابی کے دعائیہ کلمات ، تاثرات اور تبصرے ہیں۔ ان تینوں تحریروں کے آئینے میں قاری اخلاق ؔکی نعت نگاری کے بنیادی پہلو نمایاںنظر آتے ہیں۔ اس مجموعہ ٔ کلام میں ایک حمد، ایک مناجات، چوالیس نعتیں اور چھتیس مناقب کل بیاسی کلام شامل ہیں۔ اس نعتیہ مجوعے میں سلام کی شدّت سے کمی محسوس ہو رہی ہے۔ اگر سلام بھی شامل ٔ کلام ہوتا تو یہ شعری گل دستہ تقدیسی شاعری کے تمام اصناف کو محیط ہوتا۔ منشورات کے بعد مجموعہ ٔ کلام کا آغاز مندرجہ ذیل ’’ حمد باری تعالیٰ ‘‘ سے شروع ہوتاہے جس کے دو شعر نذر قارئین ہیں۔ ؎


جلوہ فرما ہے میرا خدا ہر طرف

اس کی بکھری ہوئی ہے ضیأ ہر طرف

یا خدا تیری حمد و ثنا کے طفیل

ہو گیا شہرہ اخلاقؔ کا ہر طرف

اور مجموعہ ٔ کلام کا اختتام حضرت صاحب سجادہ خانقاہ عالیہ ابو العلائیہ ، قاضی پور ، کھاگا فتح پور کے مندرجہ ذیل تہنیتی منقبتی کلام پر ہوا ہے۔ ؎


وہ اوج وہ مقام عزیزالحسن کا ہے

ولیوں کے لب پہ نام عزیزالحسن کا ہے

جمشید ! تیرا جام مبارک رہے تجھے

ہاتھوں میں میرے جام عزیزالحسن کا ہے

قاری اخلاقؔ فتح پوری صرف اسٹیج کے شاعر نہیں ہیں بلکہ ادب فن اورصنائع کا پاس و لحاظ رکھنے والے مقتدر سخنور ہیں۔ مگر اس مجموعہ میں قارئین کے ذوق کوملحوظ خاطر رکھتے ہوئے آسان بحروں ، معروف ردیف و قوافی اور سہل و شستہ الفاظ و معانی کے ساتھ اپنے پاکیزہ خیالات کو شعر کا پیکر عطا کیا ہے جو براہِ راست ذہن و فکر کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ یہ مجموعہ عوام و خواص کے ساتھ نعت خواں حضرات کے لئے خصوصیت کے ساتھ گراں قدر تحفہ ہے۔ چھوٹی بحروں ، آسان ترکیبوں اور شیریں لفظوں میں اعلیٰ فکر پیش کرنا یہ کمال ِ فن کی علامت ہے۔ اس مجموعہ کے ہر کلام کی طرزِ ادا بول رہی ہے۔ نعت خواں خلوص و محبت سے ان اشعار کو گنگنا کر سامعین کے خوبیدہ جذبات کو بیدار کر سکتا ہے ملاحظہ ہوں ۔ ؎


کاش مل جائے گھر مدینے میں

میں رہوں عمر بھر مدینے میں

چاند سورج سے الگ میں نے ضیأ مانگی ہے

یعنی خاکِ درِ محبوبِ خدا مانگی ہے

اُس کا سب کچھ ہو گیا جو ہو گیا سرکار کا

تاج داری بانٹتا ہے ہر گدا سرکار کا

پھر مدینے کی یاد آئی ہے

بزم دل پھر سے جگمگائی ہے

یا رب تمام خلق کی اُلفت نکال دے

سینے میں الفتِ شہِ ابرار ڈال دے

قصہ ہی جانفزا ہے معراج مصطفی کا

ہر سمت تذکرہ ہے معراج مصطفی کا

عالم کی ابتدا ہے محمد ﷺ کے نام سے

عالم کی انتہا ہے محمد ﷺ کے نام سے

نعت نگاری کا بنیادی عنصر عشقِ رسول ﷺ ہے اور یہی والہانہ محبت شاعر کو بر انگیختہ کرتی ہے اور وہ سوزش باطن کی تسکین کے لئے اپنے جذبات کو شعر کے قالب میں ڈھالتا ہے۔ یہ عشق جتنا عمیق ہوگا کلام اُتنا ہی موثر ہو گا۔ یقینا قاری اخلاقؔ فتح پوری کے دل کا گوشہ گوشہ سرکار دو عالم علیہ السلام کی پاکیزہ محبت سے لبریز ہے اور ان یہ نعتیہ مجموعہ ’’محبتوں کے چر ا غ‘ ‘ میں عشق رسول ﷺ کی وہ روشنی ہے جو دل کے نہاں خانے کو بھی منوّر و مجلیٰ کرنے کی توانائی رکھتی ہے۔ ان کی شاعری میں عشق رسول کی سر مستی ، عقیدہ و عقیدت کی ہم آہنگی ، حُسنِ بیان کی چاشنی ، روضہ ٔ رسول پر پہنچنے کی تڑپ، حُسنِ طلب اور استغاثے کے نمونے ملتے ہیں ان کے یہاں دردِ دل اور دوائے دِل دونوں کے سامان موجود ہیں۔

اے طبیبو! علاج رہنے دو

ہے مرا چارہ گر مدینے میں

اپنے دیوانوں کے دل میں ان کا ہوتا ہے قیام

کیا عجب دل میں مرے تشریف لائیں مصطفی

کر نہ دیں اس کو زمانے کی ہوائیں تاراج

کشت جاں کے لئے رحمت کی گھٹا مانگی ہے

کیا ہو گا ترا سوچ لے اے گردشِ دوراں

اب اور ستائے گی تو کہ دونگا نبی ﷺ سے

بے شک طبیب دیتے ہیں بیمار کو دوا

ملتی مگر شفا ہے محمد ﷺ کے نام سے

رنج و غم کے طوفاں میں کب کے بہ گئے ہوتے

تیری یاد کے سائے آج تک سنبھالے ہیں

سیلِ رنج و الم ہے زوروں پر

میرے آقا تیری دہائی ہے

لب سے کبھی کرتے نہیں ہم عرضِ تمنا

سرکار سمجھ لیتے ہیں آنکھوں کی نمی سے


"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

قاری اخلاق ؔفتح پوری کو نعت کہنے کا سلیقہ ہے وہ جذبات کی رو میں بہتے نہیں ہیں۔ اعتدال کا دامن تھامے رہتے ہیں ہاں انہوں نے مضامین میں تنوع پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی حالانکہ ان کو یہ ہنر بھی معلوم ہے جس کی غمازی مندرجہ ذیل اشعار سے ہوتی ہے۔ ؎


جیسے تم نے رکھ دیا اس طاق سے اس طاق پر

بس یوں ہی نہیں سورج بھی ہے ادنیٰ دیا سرکار کا

غلے میں اس کسان کی ہوتی ہیں برکتیں

جو کھیت بو رہا ہے محمد ﷺ کے نام سے

اے صبا مدینے سے اس کا ہم سفر لے آ

دل میں سج کے بیٹھی ہے آرزو مدینے کی

مدینہ منوّرہ خاکدانِ گیتی کا مرکزِ عقیدت ہے جہاں رحمت و نور اور برکت و سرور کی ہر آن پھوار پڑتی رہتی ہے۔ مدینہ منورّہ کو یہ شرف و اعزاز حاصل ہے کہ سرورِ کائنات ﷺ کا قدمِ ناز اس سرزمین پر پڑا ہی نہیں بلکہ اللہ کے حبیب بنفس نفیس چودہ سو برس سے اسی مقدس سرزمین میں آرام فرما ہیں اس پاک سرزمین کو سرورِ کونین ﷺ سے نسبت حاصل ہے اس لئے یہ بے پایاں عظمت و بزرگی کا مینارہ ٔ نور ہے۔

ہر دور کے شعرأ نعت نے اپنے کلام میں اس ارضِ پاک کو عقیدتوں کا خراج پیش کیا ہے۔ وہاں پہنچے کی تمنا ظاہر کی ہے اور اس مقدس سر زمین میں پیوند خاک ہونے کی آرزو کی ہے۔ ’’ محبتوں کے چراغ ‘‘ میں بھی نوع بنوع انداز میں مدینہ منوّرہ کو یاد کیا گیا ہے۔ ؎


چاروں سمتوں سے آکے ملتی ہے

خلد کی رہ گزر مدینے میں

آرزو ہے مری میں زندۂ جاید رہوں

اس لئے میں نے مدینے میں قضا مانگی ہے

مفلسی رلاتی ہے دیر تک مجھے اخلاقؔ

جب بھی کوئی کرتا ہے گفتگو مدینے کی

ٹھہر جا اجل دیکھ لینے دے طیبہ

ابھی زندگی مسکرائی نہیں ہے

لب پہ نامِ مصطفی دل میں مدینہ چاہئے

مومنو! اس طرح تم کو مرنا جینا چاہئے

مدینے کے زروں میں ایسی چمک ہے

فلک کے ستارے بھی شرما رہے ہیں

سرکاردو عالم ﷺ کے لئے ’’ کملی والے ‘‘ کا لفظ عرصہ ٔ دراز سے اردو شاعری میں مستعمل ہے اور تلاش و تتبع کیا جائے تو قدیم و جدید شعرأ کے پچاسوں اشعار مل سکتے ہیں اس حوالے سے ارباب نقد ونظر کے دو نظریئے ہیں۔(۱) کملی کمبل کی تصغیر ہے اس لئے سرکار علیہ السلام کے لئے مصغر کا استعمال نا روا ہے۔(۲) کملی مستقل لفظ ہے اس کی تصغیر کملیاہے اس لئے سرکار کے لئے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

حسان الہند اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے رسول اکرم ﷺ کے لئے ’’کملی والے ‘‘ کا لفظ نہ تو اپنی نثر میں استعمال کیا ہے اور نہ ہی اپنی شاعری میں۔ ماضی قریب کے دو مشہور عالم ِ دین شارحِ بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ اور بدرِ ملت حضرت علامہ بدر الدین صاحب قادری علیہ الرحمہ نے سرکار کے لئے لفظ ’’ کملی والے ‘‘ کے استعمال پر سخت مواخذہ کیا ہے۔

’’ محبتوں کے چراغ‘‘ میں شامل چوالیس نعتوں میں صرف اور صرف ایک نعت میں جو مثلث کی ہیئت میں ہے اس لفظ کو استعمال کیا گیا ہے۔ ؎


سینے سے غم زدوں کو اپنے لگانے والا

ہر غم میں ہر الم میں وہ کام آنے والا

لو آگیا ہماری قسمت جگانے والا

وہ کالی کملی والا

پورے نعتیہ مجموعے میں ہر تین مصرع پر اس کی تکرار ہے۔ مجموعۂ کلام کا ٹائٹل دیدہ زیب ورق دبیز کمپوزنگ خوبصورت اور طباعت معیاری ہے۔ اس نازک صنف کا یہی تقاضہ بھی ہے کہ اس کی طباعت اعلیٰ سے اعلیٰ ترین معیار پر کی جائے ۔ میں اس کی حُسنِ طباعت پر قاری اخلاق ؔفتح پوری کو مبارک باد پیس کرتا ہوں دعا ٔ ہے کہ ’’ محبتوں کے چراغ‘‘ کی روشنی ہمیں دارین میں اُجالا بخشے۔(آمین)۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659


=== چراغً حرا ===

نعت نگار : پروفیسر ڈاکٹر ناز ؔقادری مبصر : ڈاکٹر سراج احمد قادری( مدیر مجلہ)

پروفیسرنازؔ قادری اردو ادب کا وہ جانا پہچانا نام ہے جو علم و ادب کی دنیا میں کسی کے لئے بھی غیر مانوس نہیں۔میں نے خود انکو اپنی آنکھوںسے دیکھا ہے میری ان سے ملاقات بہت تھوڑے وقت کی ر ہی مگر اتنے ہی وقت میں میں نے پایا کہ وہ بہت ہی مخلص ،نیک دل اور سا دہ لوح انسان ہیں۔دوسروں کے ساتھ بھلا ئی اورایثار کا جذبہ انکے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہواہے۔ چھوٹوں کے ساتھ وہ بہت ہی شفقت و محبّت سے پیش آتے ہیں۔اگر میں یہ کہوں کہ انکے اندر یہ اوصاف نعت نبیٔ اکرم ﷺ کی رقم طراز ی کے سبب ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔نعت پاک کا یہ اعجاز ہے کہ وہ انسان کو ایک جامع انسان بناتی ہے۔

پروفیسر نازؔ قادری کا نعتیہ مجموعہ ــــــ ’’چراغ حرا‘‘ جو اس وقت میرے پیش نظر ہے۔ انہوں نے بڑی ہوش مندی اور دیدہ وری سے اس مجمؤکو ’’غار حرا‘‘سے منسوب کیا ہے یعنی اس کا نام ’’چراغ حرا ‘‘ رکھا ہے۔میں نے غارحر ا کی بھی زیارت کی ہے، اور ’’ چراغ حرا ‘‘ کا مطالعہ بھی۔ اگر چہ غار حرا بہت چھو ٹی سی جگہ کا نام ہے، مگر اس کی وسعت وہمہ گیریت کا یہ عالم ہے کہ ’’ وسعت کونین میں سما نہ سکے‘‘۔ یہی وہ مقام مقدس ہے جہاں پر اﷲ کے پیارے رسول سرور انبیأ ﷺ جلوس فرماکر ربّ کریم سے لو لگاکر بنی نوع انساں کی فلاح و بہبود کا خاکہ تیار فرماتے تھے اور وہاں سے تشریف لانے کے بعد فروغ انسانیت اور فلاح امت میں جی جان سے جٹ جایا کرتے تھے۔ اگر گہرائی و گیرائی سے د یکھا جائے تو غارحرا کو رشد و ہدایت کا وہ مقام و مرتبہ حاصل ہے جہاں سے پوری کائنات میں اجالا پھیلا۔غار حرا کی عظمت کے پیش نظر پروفیسر نازؔ قادری فرماتے ہیں۔ ؎


کوہ فاراں کی تجلی سے ہے دنیا روشن

آج بھی حق کی صدا غار حرا دیتا ہے

غار حرا کے وہ ذرّات کتنے مقدس وپاکیزہ ہیں جن سے میرے آقا و مولیٰ روحی فدا جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ﷺ کا جسم اطہر ایک عرصۂ دراز تک مس ہوتا رہا۔ آقا علیہم السلام کے جس مقدس و مطہر کے مس ہونے کے بارے میںحضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ اپنی کتاب ’’ جذب القلوب الیٰ دیارالمحبوب‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:-

’’بعد اجماع تمام علما ٔ رحمۃ اﷲ علیہم کے ُاس مقام کو فضیلت دی ہے جو اعضاے شریفہ سید کائنات ﷺ کو موضع قبر شریف سے ملاے ہوے ہے تمام اجزاے زمین کے افضل ہے۔ یہاں تک کہ خانٔہ کعبہ سے بھی اور بعض علماء نے تو یہاں تک کہا ہے کہ تمام سماوات حتیٰ کہ عرش سے بھی۔ ‘‘

بات نسبت کی میں کر رہا تھا۔ ان ذرّات کو چوم کر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں نے جسم اطہر ﷺ کو بو سہ دیا ہے۔عظیم نعت گو حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے اس شعر کی روشنی میںاس نسبت کواچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے آپ فرماتے ہیں۔ ؎


تجھ سے در ا،در سے سگ ،اورسگ سے ہے مجھ کو نسبت

میری گردن میں بھی ہے دور کا ڈور تیرا

پروفیسر نازؔ قادری کایہ نعتیہ مجموعہ’’چراغ حرا‘‘ بظاہر ۱۹۲؍صفحات پر مشتمل نعت نبی اکرم ﷺ کا مجموعہ اور ایک چھوٹی سی کتاب ہے۔مگرباطنی طور پر یہ نعتیہ مجموعہ رشد و ہدایت کا وہ مینارۂ نوراور اجالوں کا وہ مرکز و منبع ہے جس کا ایک ایک حرف فلاح و بہبود کا سیل رواںہے۔اس نعتیہ مجموعے میں پروفیسر ناز ؔقادری کے افکار و خیلات اور جذبہ ٔ دروں کے وہ اسرار و رموزپنہاں ہیںجسکو انہوں نے محبت رسول ﷺ میں نہ جانے کتنے شب وروز تپ کر تیار کیا ہے ،تب جاکر یہ نعتیہ مجموعہ ’’چراغ حرا ‘بنا۔

پروفیسر نازؔقادری کے اس مجموعے کی شروعات حمد باری تعالیٰ سے ہوئی ہے ، جیسا کہ مصنّفین ومولفین اور شعراے کرام اپنی تخلیقات کی شروعات حمد باری تعالی ٰ سے کرتے رہے ہیں پروفیسر نازؔ قادری نے بھی اسی روش پر کار بند رہ کر اپنے ا س مجموعے کی شروعات حمد باری تعالیٰ سے کی ہے۔اور اس کے بعد نعت نبی اکرم ﷺ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ان کی پہلی نعت پاک کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔ ؎


وہ سر عرش معلی جو گیا رات کی رات

اس کے پرتو سے گل افشاں ہے یہ نغمات کی رات

بارش نور سے ہم تزکیۂ نفس کریں

آج کی رات ہے پاکیزہ خیا لات کی رات

کر دیا اس نے عیاں آدم خاکی کا مقام

باعث رشک سحر ہے یہ ملاقات کی رات

دے دیا سرور کونین نے بخشش کا پیام

آج کی رات ہے تقدیس و مناجات کی رات

نازؔ بھی مد ح سرا ہے سر دربار حضور

اﷲ اﷲیہ تہذیب خیالات کی رات

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

نفس ا لامر میں اگر دیکھا جاے تو پروفیسر نازؔ قادری نے اپنی نعت گوئی کا آغاز قرآن پاک سے فرمایا ہے جو معیار نعت گوئی اور وصول نعت گوئی ہے۔ شب معراج کے واقعے کو آپ نے اپنی فکر و فن کا موضوع بنا کرامام احمد رضا کی زبان میں یہ اعلا ن فر مادیا۔ ؎


قرآن سے میںنے نعت گوئی سیکھی

یعنی رہے احکام شریعت ملحوظ

جس کی فکر و فن کا موضوع قرآن و حدیث ہو تو اس کی نعت گوئی یقینا اعلیٰ معیار کی ہوگی۔ اصناف ادب میں نعتیہ شاعری کو ہی یہ شرف حاصل ہے کہ کسی بھی نعتیہ مجموعے کی تنقید و تبصرہ کرتے وقت مبصر یہ نہیں کہ سکتا کہ فلاں شعر بہت اچھا ہے یا فلاں شعر خراب ہے۔ جبکہ دوسری اصناف غزل،قصیدہ ،مرثیہ ،رباعی وغیرہ کی تنقید و تبصرہ کرتے وقت مبصر بر جستہ کہ دیتے ہیں کی یہ شعر بہت اچھا ہے ،یا یہ شعر معیار شاعری سے گرا ہوا ہے یا اس شعر میں اس طرح کا سقم پایا جاتا ہے۔ نعتیہ شاعری کی یہی وہ خوبی ہے جو دیگر اصناف سے اس کو ممتاز کرتی ہے۔ میرے اپنے خیال میں نعتیہ مجموعوں کا تنقیدی جایٔزہ لیتے وقت یا ان پر تبصرہ تحریر کرتے وقت نعت کے اشعار میں فرق امتیازی کی بنا پر ہی یہ حکم لگایا جاتا ہے کہ یہ شعر بہت عمدہ یا بہت اچھا ہے۔ یا اس شعر میں اگر یہ لفظ آجاتا تو اس کے معانی ومفا ہیم میں ترفع پیدا ہو جاتا ، نعت کے کسی بھی شعر کو ہم یک لخت مسترد نہیں کرتے بلکہ اس کے متعلق اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں۔ لیکن جب کوئی شعر کفر و شرک کی ضد میں ہوتا ہے ، یا خلاف شرع ہوتا ہے تو ہم برجستہ کہتے ہیں کہ یہ شعر نا جائز و حرام یا خلاف شرع ہے۔ اچھے اشعار کے بارے میں علامہ حسرت ؔ موہانی نے کہا تھا۔ ؎


شعر در اصل ہیں وہی حسرتؔ

سنتے ہی دل میں جو اتر جأیں

مگر میں اس حکم یا نظریے سے پوری طرح متفق نہیں ہوں اس لیے کہ بہت سے اشعار بہت عمدہ ہوتے ہیں مگر سننے کے بعد ان کی تفہیم میں ترددہوتا ہے ، اس لئے کہ ان میں تلمیحات یا استعارے کا استعمال ہوتا ہے ان کا سننے کے بعد دل میں اتر جا نا کوئی ضروری نہیں ہے۔ چنانچہ پروفیسر ناز ؔقادری فرماتے ہیں۔ ؎


جو اس حقیقت سے آشنا ہیں وہ واقف سرّ آگہی ہیں

نبی کے رخ پر نقاب ہے یا تجلیّ حق حجاب میں ہے

شعرأ کے کلام کے مطالے سے پتہ چلتا ہے کہ کبھی کبھی ایک شعر دوسرے شعر کی توضیح و تشریح ہوا کرتے ہیں۔ پروفیسر نازؔ قادری کے اس شعر کی توضیح و تشریح امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے درج ذیل شعر سے کی جا سکتی ہے آپ فرماتے ہیں۔ ؎


اٹھا دو پردہ دکھا دو چہرہ کہ نور باری حجاب میں ہے

زمانہ تاریک ہو رہا ہے کہ مہر کب سے نقاب میں ہے

شعرا کے دوا وین اور مجموعہ کلام کے تبصروں کے درمیان کچھ منتخب اشعار پیش کیٔ جاتے ہیں جنکا مقصد صرف اتنا سا ہوتا ہے کہ اہل علم و دانش انہیں اشعار کی مدد سے شاعر کے فکر و فن کے معیار کا اندازہ لگا لیں کہ اس سخنور کی سخن گوئی کا معیار کیا ہے؟ اور اگر مزید انہیں رغبت ہے تو وہ شاعر کے مجموعہ کلام یا دیوان کی طرف رجو ع کرسکتے ہیں۔ میں نے بھی ـ’’چراغ حرا‘‘کے مطالعے کے درمیان چند اشعار کی نشان دہی کی ہے ، جو پیش خدمت ہیں جنکی مدد سے اہل فکر و دانش پروفیسر نازؔ قادری کی نعتیہ شاعری کا معیار متعین کر سکتے ہیں،اور اس سے محظو ظ بھی ہو سکتے ہیں۔ ؎


میں قتیل ہجر ر سول ہوں،مجھے زندگی کی طلب نہیں

مرے دل کو جس کی تلاش ہے وہ میٔ نشا ط وصال ہے 

خبر ہے قبر میں ہوگی زیارت روئے انور کی

نبی کے ہجر میں یہ زندگی کانٹوں کا بستر ہے

خدا توفیق دے تو زندگی رخت سفر باندھے

مدینے کی زیارت کو مچلتا قلب مضطر ہے

میں چاہے جہاں بھی رہوںاحساس ہے مجھ کو

طیبہ ہو تصور میں تو آرام بہت ہے

مری زندگی میں ہے تیرگی ،مجھے بخش دے نئی زندگی

میں اسیر رنج و ملال ہوں مرے دل کو غم سے نجات دے

تراذکر، ذکر حبیب ہو، تری مدح مرا نصیب ہو

مجھے دن دے اپنے خیال کا ،مجھے اپنے قرب کی رات دے

جو آنکھ لا نہ سکی تاب حسن یوسف کی

وہ کیا ٹکے گی شہ دیں کے روے انور پر

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

پروفیسر نازؔ قادری جدید لب و لہجے کے شاعر ہیں۔ اپنی نعتیہ شاعری کے توسط سے جدید دنیا کو یا ترقی پسند شعرأ کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ صنف نعت کے اندر یہ وسعت و تنوع ہے کہ وہ مذہبی شاعری ہونے کے باوجود جدیدیت کی ایسی متحمل ہے کہ اس میں جدید رنگ و روپ میں اظہار خیال کیا جا سکتا ہے۔چنانچہ وہ ایک مقام پر بڑے ہی لطیف انداز میں فرماتے ہیں۔ ؎


روح د ر روح بسی تیرے بدن کی خوشبو

مشک و عنبرسے بھی بڑھ کر تھا پسینہ تیرا

سامنے ہوتا ہے جب روضۂ محبوب خدا

جذ بۂ حسن طلب اور سوا ہوتا ہے

اور جب وہ حق کی آواز بلند کر تے ہیں ہیں تو ان کا انداز حق گوئی بہت ہی واضح اور حقانیت سے لبریز ہوتاہے۔ وہ جوش وجذبے سے اس قدر سرشار ہوتے ہیں کہ گویاان کا سراپا حقانیت میں ڈوبا ہوا ہے چنانچہ وہ ایک مقام پر فرماتے ہیں۔ ؎


جن سے جہان تیرہ میں ہے روشنی امن

بہتاں انہی پہ ظالمو دہشت گری کا ہے

ایسے میں ان کی یاد ہی درماں ہے درد کا

چاروں طرف سے سلسلہ نشتر زنی کا ہے

پروفیسر نازؔ قادری اردو کے ان نعت گو شعر أ میں ایک ہیں جن کے سبب فروغ نعت کا کا رواں آگے بڑھ رہا ہے۔آج صنف نعت انہی نعت گو شعرا ٔکی کاوشوں کی وجہ سے جدید شعرأ کی فکری توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔کل تک جو شاعر غزل اور نظم کے شاعرکہلوا نے میں فخر محسوس کرتے تھے آج وہ نعت کے شاعر یا مداّح رسول کہلوانے میں فخر و انبساط محسوس کر رہے ہیں۔چنانچہ راجا رشید محمود (پاکستان )نعتیہ ادب کے حوالے سے جن کی بڑی خدمات ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ ’’عہدحاضر نعت کا دور ہے‘‘شمأیم ا لنعت۔ڈاکٹر سراج احمد قادری ۔ رضوی کتاب گھر دہلی صفحہ۱۸۴۔

پروفیسر ناز ؔ قادری کا مذکورہ نعتیہ مجموعہ ’’چراغ حرا ‘‘میزان شریعت پہ نپا، تلا ہے۔ لب و لہجے کا انوکھا پن ،نیرنگیٔ خیال ، طرز ادا کی انفرادیت کلام میں جا بجا چستی و بر جستگی جلوہ فرما ہے اگر وہ اسی طرح متوجہ ہو کر نعت مصطفی ﷺ کی رقم طرازی کرتے رہے تو یقیناً مستقبل قریب میں ان کی ذات ایک نعت گو اور ایک نعت شناس کی حیثیت سے عالمی سطح پر نمایاں انفرادیت کی حامل ہوگی اور اس کے سبب وہ کل میدان حشر میں سرخرو بھی ہوں گے اور شاد کام بھی انہوں نے سچ ہی کہا ہے۔ ؎


اعجاز نعت پاک ہے تہذیب فکر و فن

میرے لیے تو باعث تو قیر بن گئی

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
اس سال کی کچھ اہم کتابیں

اس سیکشن میں اپنے کتابیں متعارف کروانے کے لیے "نعت کائنات" کو دو کاپیاں بھیجیں

نئے صفحات