کائناتِ نعت ۔ ڈاکٹر رضوان انصاری

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

کائناتِ نعت ( نعتیہ مجمو عو ں پر تبصرے)


لکھتا ہوں اسدؔ سوزش دل سے سخن گرم

تا رکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پہ انگشت

غالب ؔ دہلوی

حمد ربِ جلیل نعت رسول کریم

شاعر : ڈاکٹر جلال توقیر مبصر : ڈاکٹر رضوان انصاری

زیرمطالعہ تقدیسی شعر پر مبنی کتاب ’’حمد رب جلیل نعت رسول کریم‘‘ ڈاکٹر جلال توقیرؔ کی سعی جمیلہ کا ثمرہ ہے۔ ڈاکٹر موصوف کا اصلی نام شیخ جلال الدین صدیقی ہے۔ ڈاکٹر توقیر صاحب کا تعلق نہایت مردم خیز مقام کوٹہ (راجستھان) سے ہے۔ آپ نے اردو وفارسی کی تعلیم اپنے تایا امام الدین سے حاصل کی۔ اس کے بعد جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب کامل کی سند حاصل کی، نیز اودے پور (راجستھان) سے M.B.B.S.D.C.H. کی ڈگری لی۔ فی الحال ملازمت سے سبکدوش ہوکر شعر گوئی میں بھی اپنا قیمتی وقت صرف فرماتے ہیں۔

کتاب حمد ربِ جلیل نعت رسول کریم میں 7عدد حمد، 2مناجاتا، 37لغوت، 6حمدیہ قطعات اور 2مناقب شامل ہیں۔ اس حمدیہ اور نعتیہ کتاب کا تعارف عرض مصنف کے علاوہ اردو کی عظیم المرتبت شخصیتوں نے کرایا ہے۔ جن میں محترم ابرارؔ کرتپوری، ڈاکٹر تابش مہدی اور معروف عالم اور محقق مولانا عبداللہ طارق نیز ڈاکٹر فرازؔ حامدی صاحب وغیرہ خاص ہیں۔

ڈاکٹر توقیر نے عرضِ مصنف کے عنوان سے تقدیسی شعر کی اہمیت پر حضرت علامہ شیخ سعدی علیہ الرحمہ سے متعلق ایک واقعہ دربارِ خداوندی میں قبولیت پر تحریر کی ہے۔ راقم الحروف کو فارسی اور اردو کی اعلیٰ حصول تعلیم کے دوران درسی و غیر درسی کتابوں میں تاہنوز یہ واقعہ زیر مطالعہ نہیں آیا۔ مجھے واقعہ کی حقیقت پر شک نہیں کیونکہ اس کی نسبت اللہ کے رسول سے ہے۔ مگر اپنی بات کو درج کرنے سے قبل مستند حوالہ تلاش کرلینا چاہئے۔ اور کتاب میں سند و حوالہ درج کرنا لازمی ہے۔

جناب ابرار کرتپوری، ڈاکٹر تابش مہدی اور ڈاکٹر فراز حامدی اردو زبان و ادب کے نامور دانشور ہیں۔ ان کے علاوہ معروف عالم دین اسلام حضرت مولانا عبداللہ طارق کے بھی تاثرات شامل ہیں۔ مولانا موصوف نے نعت کے موضوع پر سیر حاصل تحریر پیش کی ہے۔ متذکرہ تمام اصحاب قلم نے ڈاکٹر جلال توقیر کے کلام کے محاسن پر روشنی ڈالی ہے۔ مگر کلام پر دوسرا پہلو زبان و بیان اور اصل واقعہ جو ہے اس سے چشم پوشی کرتے ہوئے اصول تنقید کی خلاف وزری کی ہے۔شاعری رب العالمین کی عطا کردہ ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ وہبی ہوتی ہے کسبی نہیں۔ عربی و فارسی اور اردو کے کلاسیکل شعراء کا کلام شاہد ہے۔ متنبی، فردوسی اور غالبؔ کسی اعلیٰ دانشگاہ کے تعلیم یافتہ نہ تھے۔ مگر کلام میں وہی تازگی اور شعور و فکر کی آگہی باقی ہے۔ خیر۔

ڈاکٹر جلال توقیر کی تقدیسی شعر و کلام پر مذکورہ مبنی کتاب کابالاستیعاب مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ڈاکٹر موصوف کی شعری سفر کا دوسرا زینہ ہے۔ اس سے قبل ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’رہنمائے توقیر‘‘ شائع ہوچکا ہے۔

’’حمد رب جلیل نعت رسول کریم‘‘‘ میں ڈاکٹر جلال توقیر نے اپنے قلبی واردات کا ذکر بہت ہی والہانہ فکر و شعور کے ساتھ کیا ہے۔ ان کا دل عشق رسول پاک سے سرشار نظر آتا ہے۔ وہ اپنی کیفیتِ اندروں کو بیان کرنے میں بڑی دانائی سے کام لیتے ہیں۔ ان کی زبان و بیان میں عمومیت ہے۔ مطالعہ وسیع نہ ہونے سے رفعتِ تخیل میں وہ روانی و تسلسل برقرار نہیں رہ پاتی ہے۔ جو کلام کو انفرادیت بخشتا ہے اور جس کی جانب خواجہ حالیؔ (1914-1837ء) نے مقدمہ شعر و شاعری میں لکھا ہے۔ پھر بھی اس مجموعہ میں بہت سے ایسے اشعار مل جاتے ہیں، جو کتاب کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہیں نیز ڈاکٹر جلال توقیر کے دلی جذبات اور عشق حقیقی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ حمد سے متعلق شعر ملاحظہ ہوں:


رُخ ہوائوں کا کون بدلے ہے

یہ اشارے کہاں سے آئے ہیں

رحمت کو جوش آہی گیا دیکھ کر مجھے

عاصی تو ہے ضرور، مگر شرمسار ہے

مجھ سے ہوئیں خطائیں یکے بعد دیگرے

لیکن کمی نہ آئی تیرے التفات میں

ڈاکٹر صاحب کے تقدیسی مجموعہ میں جابجا صنائع و بدائع کا برمحل استعمال ملتا ہے۔ بالخصوص تلمیح نے کلام میں چار چاند لگادیئے ہیں معراج شریف کا واقعہ بڑے والہانہ انداز میں ملتا ہے۔ شعر ملاحظہ ہو:-


جبریل کی جس حد سے نہیں آگے رسائی

اس حد سے بھی آگے مرے آقا کا گذر ہے

لیکن معراج شریف کے واقعے کے حوالے سے ہی ڈاکٹر صاحب نے اپنے درج ذیل شعر میں ایک ایسی روایت کو اپنی فکر کا موضوع بنایا ہے جسے علمائے کرام نے باطل و موضوع قرار دیا ہے ملاحظہ ہو ؎


نعلین پہنے کون گیا عرش پاک پر

یہ مرتبہ ہے آپ کا یہ شان یا رسول

مصرع اوّل میں مذکور روایت کے بارے میں جب مولانا احمد رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا۔

سوال :- یہ صحیح ہے کی شب ِ معراج مبارک جب حضور اقدس ﷺ عرش بریں پر پہنچے نعلین پاک اُتارنا چاہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو و دی ایمن میں نعلین شریف اتارنے کا حُکم تھا۔ فوراً ندا آئی اے حبیب تمہارے مع نعلین شریفین رونق افروز ہونے سے عرش کی زینت و عزت زیادہ ہوگی۔

ارشاد:- یہ روایت محض باطل و موضوع ہے۔ معارف رضا۔ دوازدہم ۱۹۹۲؁ء ادارہ تحقیقات امام احمد رضا۔ کراچی ص ۹۹

متذکرہ اشعار میں امید و رجا اور تصوف کے عنصر ملتے ہیں مگر ان ہی حمدیہ اشعار میں یہ شعر بھی ہے کہ:


تو شجر میں ہے تو حجر میں ہے ترا رنگ برگ و ثمر میں ہے

تو محیط ارض و سماء پہ ہے بھلا کس میں تیرا نشاں نہیں

رب العالمین کے لئے لفظ ’’محیط‘‘ اور ’’شجر و حجر‘‘ میں ہونے کا استعمال سراسر غلط ہے اور اس کا شجر و حجر میں ہونا بھی غلط استعمال ہوا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ لاانتہا اور غیر محیط ہے اسی طرح شجر و حجر میں ہونا ذات الٰہی کو محدود کرنا ہوا۔ شجر و حجر میں اس کا جلوہ توضرور ہے مگر وہ خود نہیں۔

آئیے نعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند روح پرور اور قلب و فکر و شعور کو پاکیزگی، طہارت اور بالیدگی عطا کرنے والے اشعار ملاحظہ کرلیں:


اللہ کا محبوب ہے وہ فخر بشر ہے

قدرت کے خزانے کا جو نایاب گہر ہے

واقعہ معراج پر یہ شعر توجہ کا طالب ہے:


جبریل کی جس حد سے نہیں آگے رسائی

اس حد سے بھی آگے مرے آقا کا گزر ہے

مدینۃ النبی دیکھنے کی تمنا دیکھئے:


نیند آئے نہ مجھے اور نہ جھپکیں پلکیں

مسجد نبوی سے جب گنبد خضریٰ دیکھوں

جو شفیع المذنبیں ہیں، وہ پیمبر آپ ہیں

جن کی مانے گا سفارش رب اکبر، آپ ہیں

آپ نے جب ذرا سا اشارہ کیا، چاند دو ٹکڑے ہوکر جدا ہوگیا

سنگریزوں نے بھی جس کا کلمہ پڑھا اور کوئی نہیں ہے حضور آپ ہیں

اسی شعری مجموعہ میں چند اشعار ایسے بھی مل رہے ہیں جن کا تعلق تخیل کے ماسوا نہیں شعر دیکھئے:


پھولوں میں چمن کے کوئی خوشبو نہیں ہوتی

گر ان میں محمد کا پسینہ نہیں ملتا

دامن مرے آقا کا پکڑ کیوں نہیں لیتے

گر تم کو خدا حضرت موسیٰ نہیں ملتا

متذکرہ شعر اول میں چمن کے پھولوں میں خوشبو کا حضور کے پسینہ سے تلعق ہونا غلط اور غیر مصدقہ ہے۔ پھولوں میں خوشبو کا وجود رب العالمین کی ذات اور شان اعلیٰ سے ہے۔ وہ جس پھول میں جیسی خوشبو چاہتا ہے۔ عطا فرماتا ہے۔ جب کہ شعر ثانی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خدا تک رسائی کے لئے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن پکڑنے کے لئے ترغیب دینا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کے شایان شان نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے نبی کا مقام و مرتبہ سب سے اعلیٰ ہے مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی تو نبی ہیں اور کلیم اللہ کے خطاب یافتہ ہیں۔


اور نبیوں کو تو ہوگی فکر خود کی حشر میں

اپنی امت کے لئے جو ہوں گے مضطرب آپ

تمام انبیاء کرام معصوم ہوتے ہیں۔ ان کو میدانِ حشر کے حساب و کتاب اور اعمال کے خیر و شر کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اس لئے حشر میں خود کی فکر چہ معنیٰ دارد؟


ہر سو پھیلی ہوئی آپ کی ہے ضیاء

ہیں یہ شمس و قمر آپ کے نقش پا

مصرعہ ثانی کا تعلق مصرعہ اولیٰ سے ربط نہیں رکھتا۔ نقش پا کو شمس و قمر سے تعلق بتانا یا مماثل قرار دینا سراسر غلط ہے۔


انبیاء کو رشک ہم پر آئے گا روزِ حساب

جب شفاعت امت عاصی کی فرمائیں گے آپ

انبیاء سابقہ کو موجودہ امت سے کمتر اظہار کرنا شرعی نقطۂ نظر سے گناہ ہے۔اس قبیل کے مزید اشعار اس شعری مجموعہ میں ہیں۔ بہتر ہوتا کہ کتاب کی اشاعت سے قبل مولانا عبداللہ طارق صاحب سے نظرثانی فرمانے کے لئے مجموعہ عنایت کردیتے۔

کتاب کی طباعت عمدہ ہے اورسرورق دیدہ زیب۔ قیمت بھی مناسب۔ میں ڈاکٹر جلال توقیر صاحب کو مبارکباد پیش کرنے کے ساتھ دعا گو ہوں کہ رب العالمین ان کی دلی آرزو یعنی مدینۃ النبی اور روضہ اقدس کی حاضری بار بار نصیب فرمائے۔ آمین

اردو کے ایک معروف شاعر کا یہ شعر قابلِ رشک ہے کہ:


اگر کچھ ہے تو سب یہ ہے تمنا آخری اپنی

کہ تم ساحل پہ ہوتے اور کشتی ڈوبتی اپنی

ڈاکٹر صاحب کی تمنا بھی نہایت خوب اور قابلِ رشک ہے:


دل میں ہے میرے ایک ہی ارمان یا رسول

نکلے تمہارے در پہ مری جان یا رسول

محمد نہ ہوتے توکچھ بھی نہ ہوتا

شاعر : نذیرؔ فتح پوری مبصر : ڈاکٹر رضوان انصاری

میرے مطالعہ کی میز پر تبصرہ کے لئے اردو کے نامور شاعر، نثرنگار اور ’’اسباق‘‘ کے معروف مدیر محترم نذیر فتح پوری کی تقدیسی شاعری (نعت) پر مبنی کتاب ’’محمد نہ ہوتے…‘‘ ہے۔ کتاب ہذا کی اہمیت، نعت گوئی کی افادیت اور فن نعت گوئی پر احسان دانش، ابوالمجاہد زاہدؔ اور محمدادریس رضوی کے مقالات نہایت پُرمغز ہیں۔ اس سے قبل موصوف کی 72کتابیں مختلف موضوعات پر شائع ہوچکی ہیں۔

جناب نذیر فتح پوری کی زیرمطالعہ کتاب ’’محمد نہ ہوتے تو…‘‘ ان کے عشق رسول دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم پر مبنی ہے، جس کا اظہار آپ نے اپنے مافی الضمیر کو الفاظ کے سہارے فرمایا ہے۔ نعت گوئی اردو اصناف شعری میں سب سے زیادہ مشکل ہے مگر ایک سچے عاشقِ رسول کے لئے بہت آسان بھی ہے۔ شرط صرف عشق ہے۔ تطہیر قلب کے ساتھ اگر کوئی خوش فکر اپنے جذب اندروں کو شعر کا جامہ عطا کرتا ہے تو وہ نعت کا شعر کہلاتا ہے۔ اور یہی تخیل اور فکر شاعر اور قاری کو قلبی سکون عطا کرتا ہے۔

جناب نذیرؔ فتح پوری کو نثر و نظم دونوں پر یکساں قدرت حاصل ہے انہیں زبان و بیان اور الفاظ کے در و بست پر کماحقہٗ دسترس ہے۔ چونکہ نعت گوئی ایک سچے عاشقِ رسول کا وطیرہ رہا ہے اور اس کا اظہار دنیا کی ہر زبان و ادب میں ہورہا ہے اردو میں بدرجہ اولیٰ۔ نذیرؔ فتح پوری نے بھی اپنے جذبات کا حقیقی اظہار تقدیسی شاعری میں کیا ہے۔ کلام میں روانی اور دلکشی خوب خوب ہے۔ دلی جذبات کا اظہار بہت والہانہ اور سرشاری کیفیت میں ملتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:


ہے دیوانہ مدینے کی جانب رواں

چہرہ پُرنور ہے اور قدم تیز ہے

دیارِ حبیب خدا کی وہ گلیاں

حقیقت میں فردوس کی کیاریاں ہیں

وہاں تک زمیں بوس ہوتے ہیں قدسی

جہاں تک مدینے کی پرچھائیاں ہیں

دیوانو! زمانے سے دامن بچاکر

مدینے کی جانب چلو والہانہ

محشر کی تمیز دھوپ سے بچنے کے واسطے

بے سایہ جس کی ذات ہے سایہ اسی کی ڈھونڈ

نذیرؔ فتح پوری نے تقدیسی شاعری کے بیشتر اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ کتاب ’’محمد نہ ہوتے تو…‘‘ میں ان تمام اصناف میں کہے گئے اشعار شامل ہیں۔ مثلاً توشیحی نظم، حمد باری کربیاں، توشیحی نظم، محمد کی بارگاہ میں، آزاد نظم، نعتیہ تضمین، گیت، قطعات نعتیہ ماہیے، نعتیہ دوہے، راجستھانی نعت، آزاد نعت، اور مناقب بحضور حسین رضی اللہ عنہ وغیرہ کے علاوہ بیشتر لغوت کی سرخی یا عنوان نعت پاک کے کسی مصرعہ کو بنایا گیا ہے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر کل 4مناقب کہے ہیں۔ ان میں سادگی کے ساتھ جوش و جذبہ اور روانی ہے۔ الفاظ کے برمحل استعمال نے انگشتری میں نگینہ کا کام کیا ہے۔ شعر دیکھئے:


ثانی کوئی ہوا ہے نہ ہوگا حسین کا

اب تک زمیں پہ قرض ہے سجدہ حسین کا

میں ہار کر بھی نہ ہارا ہوا لگوں گا تجھے

یزید وقت! مجھے کربلا سے نسبت ہے

دیکھوں تو یہی دیکھوں

نور جسم کے

چہرے کی چھبی دیکھوں

……(6 ماہیے سے)

دین و دنیا کے ہر سفینے کو

وہی گرداب سے نکالے گا بحر و حدت کا جو شناور ہے

ہے وہی واقف رموزِ حیات

اور وہی زندگی کا مظہر ہے

……(آزاد نعت سے)

یوں تو کتاب میں موجود تمام نعتیہ کلام ایک سے بڑھ کر ایک ہیں جن پر اظہار خیال کرنا ممکن نہیں۔ آخر میں نعتیہ تضمین اور ’’کیا پوچھتے ہو دوستو! کردار مصطفی‘‘ سے ایک ایک بند نذر قارئین ہے۔ ملاحظہ ہو:


عطا کی محمد نے دولت یقیں کی

محمد جو آئے تو ایمان آیا

محمد نے سمجھائی عظمت خدا کی

محمد جو آئے تو قرآن آیا

خدا کا نہ بندوں کو عرفان ہوتا

دعا کا دوا کا نہ سامان ہوتا

محمد نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا

یہ نعتیہ تضمین کل 11 بندوں پر مشتمل ہے جو مسدس کی شکل میں ہے۔

دوسری نعتیہ نظم سے بند ملاحظہ ہو:


چھوٹی سی اک چٹائی تھی ادنیٰ سا اک لباس

کالی سی ایک کملی تھی میرے نبی کے پاس

صبر و وفا کا ایسا نمونہ دکھا دیا

خود بھوکا رہ کے اوروں کو کھانا کھلا دیا

سب جانتے ہیں، ایسا تھا ایثار مصطفی

کیا پوچھتے ہو دوستو! کردار مصطفی

حاصل کلام یہ کہ پوری کتاب علم و حکمت اور عشق نبی کا گنجینہ ہے۔ کتاب کا سرورق، کاغذ معیاری ہے۔ قیمت مناسب ہے۔ باذوق حضرات کتاب خرید کر مطالعہ کریں۔ مکرمی نذیر فتح پوری مبارکباد کے مستحق ہیں۔

نوٹ : لفظ کملی ’’تصغیر کمبل کی ہے)۔ مولانا احمد رضا خاں بریلوی نے حدائق بخشش کے کسی شعر میں کالی کملی کا استعمال نہیں فرمایا ہے۔ عصرحاضر کے نعت گو شعراء کرام براہ کرم احتراز فرمائیں۔ تفصیل کے لئے رجوع فرمائیں۔ ’’بدرکامل‘‘ از مولانا بدرالدین قادری۔