حُضور کو جو بڑھائے رَبّ سے کمی اگرچہ شعور کی ہے ۔ واجد امیر

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

شاعر : واجد امیر

نعتِ رسولِ آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

جب مجھے نعت کا اِک شعر عطا ہوتا ہے

میرے احساس کا عالم ہی جدا ہوتا ہے


اُنؐ کے دربار سے ہو اِذن تو ہر حرفِ جہاں

ہاتھ باندھے سرِ قرطاس کھڑا ہوتا ہے


گیان کی آنکھ سے جب گنبدِ خضرا دیکھوں

دھیان کا زرد شجر پل میں ہرا ہوتا ہے


طائرِ فکر اُڑے جانبِ طیبہ جب بھی

غم کے زندان سے وجدان رِہا ہوتا ہے


اُن کے نعلین کو جب دستِ تخیُّل چُھو لے

مشک و عنبر سے مرا سینہ بھرا ہوتا ہے


نعت لکھتے ہوئے جب اشک رواں ہو جائیں

اِک خطا کار کا وہ وقتِ دُعا ہوتا ہے


شہرِ سرکارؐ میں قامت کو جُھکاؤ صاحِب!

اِس طرح جھکنے سے قد اور بڑا ہوتا ہے


یاد آ جاتی ہے مکڑی کی فضیلت مجھ کو

جب مرے گھر میں کہیں جالا تنا ہوتا ہے


چڑھ کے نیزے پہ وہ کرتا ہے تلاوت واصفؔ

جو مرے شاہؐ کے شانوں پہ چڑھا ہوتا ہے