آپ «پیغمبرِ اسلام کی بار گاہ میں غیر مسلم شعراء کا خراجِ احترام -ڈاکٹر راہی فدائی» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 1: سطر 1:
[[ملف:Rahi Fidai.jpg|راہی فدائی]]
ڈاکٹر راہی فدائی( بنگلور )


{{ ٹکر 1 }}
پیغمبر اسلام کی بارگاہ میں غیر مسلم


مضمون نگار: [[ راہی فدائی | ڈاکٹر راہی فدائی( بنگلور )]]
شعراء کا خراج احترام
 
مطبوعہ: [[ دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2]]
 
=== پیغمبر اسلام کی بارگاہ میں غیر مسلم شعراء کا خراج احترام ===


نعت شریف کے سلسلہ میں عام طور پر اہل علم کایہ رجحان ہے کہ ان کے نزدیک نعت پاک کہنے والے شعرا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت ومحبت میں ڈوبے ہوئے رہتے ہیں اوران کا ایک ایک شعر بلکہ ایک ایک مصرع عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نشاندہی کرتا ہوا نظر آتا ہے اور ان کے خیال میں شاعر نعتوں میں جس قدر وارفتگی کا اظہار کرے گا اسی قدر اس کے اشعار میں تاثیر پیدا ہوگی، یہی سبب ہے کہ شعر کو دلی جذبات کا آئینہ کہا گیا ہے اور ایسے موقع پر ہی ’’ از دل خیزد بردل ریزد‘‘ (دل سے نکلنے والی بات ضرور دل پر اثر کرتی ہے) کا مقولہ استعمال کیا جاتا ہے۔
نعت شریف کے سلسلہ میں عام طور پر اہل علم کایہ رجحان ہے کہ ان کے نزدیک نعت پاک کہنے والے شعرا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت ومحبت میں ڈوبے ہوئے رہتے ہیں اوران کا ایک ایک شعر بلکہ ایک ایک مصرع عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نشاندہی کرتا ہوا نظر آتا ہے اور ان کے خیال میں شاعر نعتوں میں جس قدر وارفتگی کا اظہار کرے گا اسی قدر اس کے اشعار میں تاثیر پیدا ہوگی، یہی سبب ہے کہ شعر کو دلی جذبات کا آئینہ کہا گیا ہے اور ایسے موقع پر ہی ’’ از دل خیزد بردل ریزد‘‘ (دل سے نکلنے والی بات ضرور دل پر اثر کرتی ہے) کا مقولہ استعمال کیا جاتا ہے۔


راقم الحروف( راہی فدائی) اسلامیات وادبیات کا ایک ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناطے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق ومحبت ایمان کی سلامتی کے لئے لازم وشرطِ اوّلین ہے نہ کہ نعت گوئی کے لئے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں مروی ہے ’’ لا یؤمن احدکم حتیٰ اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین ‘‘ ( متفق علیہ ) یعنی تم میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)اس کی ذات، اس کے ماں باپ، اس کی اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ اس کا محبوب نہ رہوں۔ نعت گوئی کے لئے شرط یہ ہے کہ شاعر کو فن شاعری پر دسترس حاصل ہو اور وہ اپنے ممدوح کے اوصاف وکمالات کا بخوبی علم وادراک رکھتا ہو ، پھر اس علم کو جذبہ میں اور جذبہ کو شعر میں تبدیل کرنے کا میلان طبع اپنے اندر پاتا ہوتو اس کی کہی ہوئی نعتوں میں دلکشی اوراثر انگیزی پیدا ہوگی۔ مزید براں اگر وہ لفظوں کی معنویت کو ملحو ظ رکھتے ہوئے صنائع وبدائع کا استعمال اپنے اشعار میں مناسب طور پر کرے تو اثر آفرینی میں غیر معمولی اضافہ ہوگا اوریہ تأثر تادیر قائم بھی رہے گا۔
راقم الحروف( راہی فدائی) اسلامیات وادبیات کا ایک ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناطے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق ومحبت ایمان کی سلامتی کے لئے لازم وشرطِ اوّلین ہے نہ کہ نعت گوئی کے لئے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں مروی ہے ’’ لا یؤمن احدکم حتیٰ اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین ‘‘ ( متفق علیہ ) یعنی تم میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)اس کی ذات، اس کے ماں باپ، اس کی اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ اس کا محبوب نہ رہوں۔ نعت گوئی کے لئے شرط یہ ہے کہ شاعر کو فن شاعری پر دسترس حاصل ہو اور وہ اپنے ممدوح کے اوصاف وکمالات کا بخوبی علم وادراک رکھتا ہو ، پھر اس علم کو جذبہ میں اور جذبہ کو شعر میں تبدیل کرنے کا میلان طبع اپنے اندر پاتا ہوتو اس کی کہی ہوئی نعتوں میں دلکشی اوراثر انگیزی پیدا ہوگی۔ مزید براں اگر وہ لفظوں کی معنویت کو ملحو ظ رکھتے ہوئے صنائع وبدائع کا استعمال اپنے اشعار میں مناسب طور پر کرے تو اثر آفرینی میں غیر معمولی اضافہ ہوگا اوریہ تأثر تادیر قائم بھی رہے گا۔
{{ ٹکر 2 }}


غرض کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم کسی شاعر کا نعتیہ کلام پڑھتے یا سنتے ہیں اوروہ دل کو چھوجاتا ہے تو فوراً کہہ اٹھتے ہیں شاعر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں ڈوب کر شعر کہا ہے۔ حالانکہ حقیقت حال ایسی نہیں ہوتی ہے ، چنانچہ بعض نعت گو شعراایسے بھی ہیں جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کا خیال تو کجا اسلام کے فرائض وواجبات کا بھی لحاظ نہیں رہتا مگر وہ بہترین نعتیہ اشعار کہہ رہے ہیں اور ’’ لِم تقولون مالا تفعلون‘‘ کی منہ بولتی تصویر پیش کررہے ہیں۔ اگر واقعتاً وہ ’’ حُبّ رسول ﷺ ‘‘ میں غرق رہتے تو بمصداق ’’الاناء یتر شّح بمافیہ‘‘ یعنی برتن وہی چیز انڈیلتا ہے جو اس میں موجود ہے، ان کا ظاہر بھی باطن کا عکس جمیل ہوتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نعت پاک کی طرف شاعر کا میلان اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ذات واعلیٰ صفات سے کسی نہ کسی حد تک لگاؤ اورتعلق ہے جس کے زیر اثر وہ نعت کہنے پر آمادہ ہوا ہے۔ اس لگاؤ ار ربط وتعلق کی تعبیر ’’ عشق رسول ﷺ ‘ جیسے پُر معنیٰ وپُر وقار لفظ سے کرنے کی بجائے چاہت اور احترام کے الفاظ سے کریں تو مناسب ہوگا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ محبت کے کئی درجے ہیں ، اس کااعلیٰ درجہ عشق ہے اور ادنیٰ درجہ احترام۔ اسی احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے بہت سارے شعرائے کرام نے نعتیں کہی ہیں جن میں غیر مسلم شعرا ٔکی تعداد بھی معتدبہ ہے ، ان غیر مسلم حضرات ِ شعرأ کے یہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں رطب اللسان ہونے کا جذبہ اسی احترام کے راستے سے در آیا ہے جسے احترام انسانیت کا نا م بھی دیا جاسکتا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام اقوام عالم کے اہل علم وفضل اور اصحاب دانش وبینش کے نزدیک ’’ انسان کامل‘‘ ہیں۔ آپ ﷺ کا اسوئہ حسنہ اورآپ ﷺ کے عظیم اخلاق دوست ودشمن ، اپنا پرایا اورادنیٰ واعلیٰ سبھی کے حق میں یکساں ہیں ، یہی سبب ہے کہ مسلمان تو مسلمان غیر مسلم اہل سخن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متاثر ومرعوب ہیں۔ اس تاثر کے پیش نظر جناب پنڈت بال مکند عرشؔ ملسیانی (ولادت ۱۹۰۸ء وفات ۱۹۷۹ء) ابن وتلمیذ جوشؔ ملسیانی نے کیا خوب کہا ہے۔  ؎
غرض کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم کسی شاعر کا نعتیہ کلام پڑھتے یا سنتے ہیں اوروہ دل کو چھوجاتا ہے تو فوراً کہہ اٹھتے ہیں شاعر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں ڈوب کر شعر کہا ہے۔ حالانکہ حقیقت حال ایسی نہیں ہوتی ہے ، چنانچہ بعض نعت گو شعراایسے بھی ہیں جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کا خیال تو کجا اسلام کے فرائض وواجبات کا بھی لحاظ نہیں رہتا مگر وہ بہترین نعتیہ اشعار کہہ رہے ہیں اور ’’ لِم تقولون مالا تفعلون‘‘ کی منہ بولتی تصویر پیش کررہے ہیں۔ اگر واقعتاً وہ ’’ حُبّ رسول ﷺ ‘‘ میں غرق رہتے تو بمصداق ’’الاناء یتر شّح بمافیہ‘‘ یعنی برتن وہی چیز انڈیلتا ہے جو اس میں موجود ہے، ان کا ظاہر بھی باطن کا عکس جمیل ہوتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نعت پاک کی طرف شاعر کا میلان اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ذات واعلیٰ صفات سے کسی نہ کسی حد تک لگاؤ اورتعلق ہے جس کے زیر اثر وہ نعت کہنے پر آمادہ ہوا ہے۔ اس لگاؤ ار ربط وتعلق کی تعبیر ’’ عشق رسول ﷺ ‘ جیسے پُر معنیٰ وپُر وقار لفظ سے کرنے کی بجائے چاہت اور احترام کے الفاظ سے کریں تو مناسب ہوگا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ محبت کے کئی درجے ہیں ، اس کااعلیٰ درجہ عشق ہے اور ادنیٰ درجہ احترام۔ اسی احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے بہت سارے شعرائے کرام نے نعتیں کہی ہیں جن میں غیر مسلم شعرا ٔکی تعداد بھی معتدبہ ہے ، ان غیر مسلم حضرات ِ شعرأ کے یہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں رطب اللسان ہونے کا جذبہ اسی احترام کے راستے سے در آیا ہے جسے احترام انسانیت کا نا م بھی دیا جاسکتا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام اقوام عالم کے اہل علم وفضل اور اصحاب دانش وبینش کے نزدیک ’’ انسان کامل‘‘ ہیں۔ آپ ﷺ کا اسوئہ حسنہ اورآپ ﷺ کے عظیم اخلاق دوست ودشمن ، اپنا پرایا اورادنیٰ واعلیٰ سبھی کے حق میں یکساں ہیں ، یہی سبب ہے کہ مسلمان تو مسلمان غیر مسلم اہل سخن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متاثر ومرعوب ہیں۔ اس تاثر کے پیش نظر جناب پنڈت بال مکند عرشؔ ملسیانی (ولادت ۱۹۰۸ء وفات ۱۹۷۹ء) ابن وتلمیذ جوشؔ ملسیانی نے کیا خوب کہا ہے۔  ؎
سطر 20: سطر 15:


شانِ پیمبری سے ہے سرورِ کائنات تو ﷺ
شانِ پیمبری سے ہے سرورِ کائنات تو ﷺ
{{ ٹکر 1 }}


آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ، آپ ﷺکے مبارک ومقدس عادات واطوار اورآپ ﷺ کے شمائل وفضائل سے متاثر ہوکر پروفیسر تلوک چند محروم ؔ( ولادت ۱۸۸۷ء وفات ۱۹۶۶ء) نے یہ اقرار کیا ہے۔  ؎
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ، آپ ﷺکے مبارک ومقدس عادات واطوار اورآپ ﷺ کے شمائل وفضائل سے متاثر ہوکر پروفیسر تلوک چند محروم ؔ( ولادت ۱۸۸۷ء وفات ۱۹۶۶ء) نے یہ اقرار کیا ہے۔  ؎
سطر 71: سطر 65:


میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا
میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا
{{ ٹکر 2 }}


پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفیؔ ( ولادت ۱۸۶۶ء وفات ۱۹۵۵ء) تلمیذ شمس العلماء الطاف حسین حالی ؔ(متوفی ۱۹۱۵ء ) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن ِگفتار وبلندیٔ کردار پر اس قدر وارفتہ ہوئے کہ انہوں نے محسوس کیا ، ان کے پاس سب کچھ موجود ہے مگر ایک چیز کی کمی ہے جس کے بغیر زندگی لایعنی سی لگتی ہے وہ ہے دل کی تاریکی کو دور کرنے کا واحد ذریعہ ’’ نور ایمانی‘‘۔ اسی کی آرزو میں حضرت کیفیؔ نے بارگاہ الٰہی میں یہ دعا کی۔  ؎
پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفیؔ ( ولادت ۱۸۶۶ء وفات ۱۹۵۵ء) تلمیذ شمس العلماء الطاف حسین حالی ؔ(متوفی ۱۹۱۵ء ) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن ِگفتار وبلندیٔ کردار پر اس قدر وارفتہ ہوئے کہ انہوں نے محسوس کیا ، ان کے پاس سب کچھ موجود ہے مگر ایک چیز کی کمی ہے جس کے بغیر زندگی لایعنی سی لگتی ہے وہ ہے دل کی تاریکی کو دور کرنے کا واحد ذریعہ ’’ نور ایمانی‘‘۔ اسی کی آرزو میں حضرت کیفیؔ نے بارگاہ الٰہی میں یہ دعا کی۔  ؎
سطر 119: سطر 112:


بیکلؔ امرتسری کے آخری بند کے آخری شعر پر غور کریں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ ہندو حضرات کے یہاں جو ’’ اوتار ‘‘ کا عقیدہ ہے اس کی ترجمانی شاعر نے اپنے شعر…’’ گو مسلمانوں کا اک پیغمبر ہے تو-:-  اپنی آنکھوں میں بھی اک اوتار سے کب کم ہے تو ‘‘… میں کی ہے۔ ان کے مذہب میں ’’ اوتار‘‘ کا عقیدہ یہی ہے جتنے مہاپُرش اورمقدس ہستیاں ہیں وہ سب بھگوان اور خدا کے نہ صرف مظاہر ہیں بلکہ ’’ اوتار‘‘ ہیں۔ یعنی ان بزرگوں میں نعوذ باللہ خدا حلول کئے ہوئے ہے۔ یہاں یہ فرق ملحوظ رہے کہ ’’ اوتار ‘‘کااعتقاد اسلام میں صریح کفر وباطل ہے۔ اور مظاہرِ حق ہونے کا اعتقاد صحیح اور درست ہے۔ ایک مؤمنِ کامل رب تعالیٰ کا مظہر جمیل اوراس کی قدرت کا عکس حسین ہوتا ہے ، جس کے اشارے قرآن پاک اور حدیث شریف میں پائے جاتے ہیں اوریہ حقیقت اہل علم وعرفان کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہے ، اس مقام پر تفصیل غیر ضروری ہے۔
بیکلؔ امرتسری کے آخری بند کے آخری شعر پر غور کریں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ ہندو حضرات کے یہاں جو ’’ اوتار ‘‘ کا عقیدہ ہے اس کی ترجمانی شاعر نے اپنے شعر…’’ گو مسلمانوں کا اک پیغمبر ہے تو-:-  اپنی آنکھوں میں بھی اک اوتار سے کب کم ہے تو ‘‘… میں کی ہے۔ ان کے مذہب میں ’’ اوتار‘‘ کا عقیدہ یہی ہے جتنے مہاپُرش اورمقدس ہستیاں ہیں وہ سب بھگوان اور خدا کے نہ صرف مظاہر ہیں بلکہ ’’ اوتار‘‘ ہیں۔ یعنی ان بزرگوں میں نعوذ باللہ خدا حلول کئے ہوئے ہے۔ یہاں یہ فرق ملحوظ رہے کہ ’’ اوتار ‘‘کااعتقاد اسلام میں صریح کفر وباطل ہے۔ اور مظاہرِ حق ہونے کا اعتقاد صحیح اور درست ہے۔ ایک مؤمنِ کامل رب تعالیٰ کا مظہر جمیل اوراس کی قدرت کا عکس حسین ہوتا ہے ، جس کے اشارے قرآن پاک اور حدیث شریف میں پائے جاتے ہیں اوریہ حقیقت اہل علم وعرفان کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہے ، اس مقام پر تفصیل غیر ضروری ہے۔
{{ ٹکر 2 }}


راقم نے مقالہ کی تمہید میںاس بات کی وضاحت کی تھی کہ غیر مسلم شعرا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ اور آپ ﷺکی منور ومسعود شخصیت سے متاثر ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہت واحترام میں نعت گوئی پر از خود آمادہ ہوجاتے ہیں اور آپ ﷺکی ثنا خوانی ومدح سرائی میں رطب اللسان ہونے کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ اس جذبہ واحساس کو عشق ومحبت کا نام دینا اور اس شاعری کو عشقیہ شاعری کہنا جیسا کہ ہمارے عام نقادوں کا خیال ہے، غیر حقیقی رویہ بھی ہے اور بعید از قیاس رجحان بھی ، اگر واقعتا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے ان غیر مسلم شعرا کا عشق سچا اور پکا ہوتو ضرور انہیں حلقہ بگوش ِاسلام ہونے کی توفیق ملی ہوتی۔ اس بات کا انہیں خوب علم ہے کہ وہ اسلام کے عقیدئہ توحید پر نہیں ہیں اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھرپور تعریف وتوصیف کرنے کے باوجود اصل ِدین وتوحیدِ الٰہی کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں کہلاتا اوراسے دیا رِ رسول کی زیارت کا شرف حاصل نہیں ہوتا۔یہی وہ احساس ہے شاعر کودرج ذیل شعر کہنے پر مجبور کردیا، ٹھاکر دامودر ذکیؔ محبوب نگری (تلنگانہ) شاگردِ ازلؔ لاہوری وحبیب اللہ وفاؔ حیدرآبادی (ولادت ۱۹۰۳ء وفات ۱۹۷۶ء) نے اپنی شدید خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے۔
راقم نے مقالہ کی تمہید میںاس بات کی وضاحت کی تھی کہ غیر مسلم شعرا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ اور آپ ﷺکی منور ومسعود شخصیت سے متاثر ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہت واحترام میں نعت گوئی پر از خود آمادہ ہوجاتے ہیں اور آپ ﷺکی ثنا خوانی ومدح سرائی میں رطب اللسان ہونے کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ اس جذبہ واحساس کو عشق ومحبت کا نام دینا اور اس شاعری کو عشقیہ شاعری کہنا جیسا کہ ہمارے عام نقادوں کا خیال ہے، غیر حقیقی رویہ بھی ہے اور بعید از قیاس رجحان بھی ، اگر واقعتا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے ان غیر مسلم شعرا کا عشق سچا اور پکا ہوتو ضرور انہیں حلقہ بگوش ِاسلام ہونے کی توفیق ملی ہوتی۔ اس بات کا انہیں خوب علم ہے کہ وہ اسلام کے عقیدئہ توحید پر نہیں ہیں اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھرپور تعریف وتوصیف کرنے کے باوجود اصل ِدین وتوحیدِ الٰہی کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں کہلاتا اوراسے دیا رِ رسول کی زیارت کا شرف حاصل نہیں ہوتا۔یہی وہ احساس ہے شاعر کودرج ذیل شعر کہنے پر مجبور کردیا، ٹھاکر دامودر ذکیؔ محبوب نگری (تلنگانہ) شاگردِ ازلؔ لاہوری وحبیب اللہ وفاؔ حیدرآبادی (ولادت ۱۹۰۳ء وفات ۱۹۷۶ء) نے اپنی شدید خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے۔
سطر 168: سطر 159:


راجیہ دیا بھبیشن محمدکھیل کھلانے آیا محمد ﷺ۴؎
راجیہ دیا بھبیشن محمدکھیل کھلانے آیا محمد ﷺ۴؎
{{ ٹکر 1 }}


اردو میں غیر مسلم نعت گو شعرا کی تعداد سیکڑوں میں ہے جن میں سے بعض منتخب شعرا کو تاریخی ترتیب کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے تاکہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں خراج احترام ونذرانۂ عقیدت گزارنے والوں کے جذبات واحساسات کی کماحقہٗ قدر افزائی ہوسکے اور ساتھ ہی ان کے اسلوب ادا اور طرز نگارش کا کسی قدر اندازہ بھی لگایا جاسکے، راقم کی گذاش ہے کہ منصب نقد وانتقاد پر فائز حضرات نعت کی وسعت ووقعت ، اس کے تنوع وترفع اور اس کی رنگا رنگی وہمہ جہتی کا صحیح ادارک کرتے ہوئے نعت گو شعرا کو ان کا مناسب مقام ومرتبہ دینے میں تکلفات وتعصبات سے کام نہ لیں۔
اردو میں غیر مسلم نعت گو شعرا کی تعداد سیکڑوں میں ہے جن میں سے بعض منتخب شعرا کو تاریخی ترتیب کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے تاکہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں خراج احترام ونذرانۂ عقیدت گزارنے والوں کے جذبات واحساسات کی کماحقہٗ قدر افزائی ہوسکے اور ساتھ ہی ان کے اسلوب ادا اور طرز نگارش کا کسی قدر اندازہ بھی لگایا جاسکے، راقم کی گذاش ہے کہ منصب نقد وانتقاد پر فائز حضرات نعت کی وسعت ووقعت ، اس کے تنوع وترفع اور اس کی رنگا رنگی وہمہ جہتی کا صحیح ادارک کرتے ہوئے نعت گو شعرا کو ان کا مناسب مقام ومرتبہ دینے میں تکلفات وتعصبات سے کام نہ لیں۔
سطر 176: سطر 165:




یہ لکھتے ہیں نعتِ رسولِ ﷺ خدا
یہ لکھتے ہے نعتِ رسولِ ﷺ خدا


مغیث الورا ﷺ خواجۂ دوسرا
مغیث الورا ﷺ خواجۂ دوسرا
سطر 228: سطر 217:


۷؎
۷؎
 
(
(۴) شادؔ ، مہاراجہ کشن پرشاد ولد راجہ ہری کشن پرشاد( ۱۸۶۴ء…۱۹۴۰ء) وزیراعظم سلطنت آصفیہ، حیدرآباد ،مصنف مجموعہ نعت’’ ہدیۂ شاد‘‘( مطبوعہ ۱۳۲۶ھ)۔ شادؔ صاحب کے کلام سے یہ اندازہ لگانا دشوار ہے کہ یہ ایک غیر مسلم کا کلام ہے۔ وہ نعت گوئی کی توفیق پر خدائے تعالیٰ کا شکر بجالاتے ہوئے کہتے ہیں۔  ؎
۴) شادؔ ، مہاراجہ کشن پرشاد ولد راجہ ہری کشن پرشاد( ۱۸۶۴ء…۱۹۴۰ء) وزیراعظم سلطنت آصفیہ، حیدرآباد ،مصنف مجموعہ نعت’’ ہدیۂ شاد‘‘( مطبوعہ ۱۳۲۶ھ)۔ شادؔ صاحب کے کلام سے یہ اندازہ لگانا دشوار ہے کہ یہ ایک غیر مسلم کا کلام ہے۔ وہ نعت گوئی کی توفیق پر خدائے تعالیٰ کا شکر بجالاتے ہوئے کہتے ہیں۔  ؎




سطر 235: سطر 224:


بعد مدت کے یہ ہاتھ آیا ہے مقصد مجھ کو
بعد مدت کے یہ ہاتھ آیا ہے مقصد مجھ کو
{{ ٹکر 1 }}


شادؔ کی وارفتگی اور جذبات کی فراوانی کا عالم دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ رب تعالیٰ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی ثنا خوانی کس کس زبان وکس کس قلم سے کروارہا ہے اورکن کن زاویوںسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح سرائی ہورہی ہے۔ مہاراجہ شادؔ کے یہ اشعار ملاحظہ کیجئے۔  ؎
شادؔ کی وارفتگی اور جذبات کی فراوانی کا عالم دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ رب تعالیٰ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی ثنا خوانی کس کس زبان وکس کس قلم سے کروارہا ہے اورکن کن زاویوںسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح سرائی ہورہی ہے۔ مہاراجہ شادؔ کے یہ اشعار ملاحظہ کیجئے۔  ؎
سطر 293: سطر 280:


واقف نہیں تو میرے دلِ حق شناس کا
واقف نہیں تو میرے دلِ حق شناس کا
{{ ٹکر 3 }}


انہیں یقین ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت حاصل ہوگی جس کے وسیلے سے خدائے رب العزت کاساتھ بھی میسرآئے گا، چنانچہ وہ اس طرح رقم طراز ہیں۔  ؎
انہیں یقین ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت حاصل ہوگی جس کے وسیلے سے خدائے رب العزت کاساتھ بھی میسرآئے گا، چنانچہ وہ اس طرح رقم طراز ہیں۔  ؎
سطر 429: سطر 414:


(۱۱) حامیؔ بریلوی ، بشن نارائن ولد پنڈت دیبی پرشاد صادقؔ بریلوی( ولادت تقریباً ۱۸۹۶ء) صاحب ِدیوان شاعر تھے ، شاعری انہیں ورثہ میں ملی تھی، تاریخ روہیل کھنڈمع تاریخ بریلی کے مؤلف مولانا عبدالعزیز خان بریلوی نے جناب حامیؔ کی خوب تعریف کی ہے۔
(۱۱) حامیؔ بریلوی ، بشن نارائن ولد پنڈت دیبی پرشاد صادقؔ بریلوی( ولادت تقریباً ۱۸۹۶ء) صاحب ِدیوان شاعر تھے ، شاعری انہیں ورثہ میں ملی تھی، تاریخ روہیل کھنڈمع تاریخ بریلی کے مؤلف مولانا عبدالعزیز خان بریلوی نے جناب حامیؔ کی خوب تعریف کی ہے۔
{{ ٹکر 3 }}




سطر 484: سطر 467:


۱۷؎
۱۷؎
{{ ٹکر 4 }}


(۱۴)  دلؔکشمیری ، منوہر لال ولد گوندامل آنند شاگر د اثرؔ لکھنؤی وجوشؔ ملسیانی (ولادت ۱۹۱۲ء) مصنف مجموعۂ کلام ’’ نقدِ دل‘‘ (مطبوعہ ۱۹۷۳ء) دلؔاسٹیٹ بینک آف انڈیا جمو کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوکر وظیفہ یاب ہوئے ، دل ؔ صاحب نے جمو میں ایک ادبی انجمن کی بنیاد ڈالی ، جو اولاً ’’بزم سخن‘‘ کے نام سے اور بعد میں ’’ بزم اردو‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ دلؔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ کی تعریف وتوصیف میں اس طرح رطب اللسان ہیں۔  ؎
(۱۴)  دلؔکشمیری ، منوہر لال ولد گوندامل آنند شاگر د اثرؔ لکھنؤی وجوشؔ ملسیانی (ولادت ۱۹۱۲ء) مصنف مجموعۂ کلام ’’ نقدِ دل‘‘ (مطبوعہ ۱۹۷۳ء) دلؔاسٹیٹ بینک آف انڈیا جمو کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوکر وظیفہ یاب ہوئے ، دل ؔ صاحب نے جمو میں ایک ادبی انجمن کی بنیاد ڈالی ، جو اولاً ’’بزم سخن‘‘ کے نام سے اور بعد میں ’’ بزم اردو‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ دلؔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ کی تعریف وتوصیف میں اس طرح رطب اللسان ہیں۔  ؎
سطر 558: سطر 539:


۲۱؎
۲۱؎
{{ ٹکر 1 }}


حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں خراج عقید ت پیش کرنے کاسلسلہ صدیوں سے جاری ہے اور آج بھی بہت سارے غیر مسلم شعراء اس پاک شغل میں ہمہ تن مصروف ہیں اوراسے اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ ان شعرا میں جناب چندر بھان خیالؔ (ولادت ۱۹۴۶ء) اس حیثیت سے ممتاز ہیں کہ انہوں نے ’’ لولاک‘‘ (مطبوعہ ۲۰۰۲ء) کے نام سے منظوم سیرت طیبہ تحریرکی، خیالؔ صاحب اولین غیر مسلم منظوم سیرت نگار ہیں۔ ’’لولاک‘‘ کے چند بند ملاحظہ ہوں۔  ؎
حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں خراج عقید ت پیش کرنے کاسلسلہ صدیوں سے جاری ہے اور آج بھی بہت سارے غیر مسلم شعراء اس پاک شغل میں ہمہ تن مصروف ہیں اوراسے اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ ان شعرا میں جناب چندر بھان خیالؔ (ولادت ۱۹۴۶ء) اس حیثیت سے ممتاز ہیں کہ انہوں نے ’’ لولاک‘‘ (مطبوعہ ۲۰۰۲ء) کے نام سے منظوم سیرت طیبہ تحریرکی، خیالؔ صاحب اولین غیر مسلم منظوم سیرت نگار ہیں۔ ’’لولاک‘‘ کے چند بند ملاحظہ ہوں۔  ؎
سطر 594: سطر 574:
جزاکم اللّٰہ خیر الجزاء
جزاکم اللّٰہ خیر الجزاء


=== مآخذ ===
مآخذ  
۱؎ مسلم سلیم ، ہندوگو شعرا، کھوج خبر نیوز ڈاٹ کامMuslim salum.blogspot.in
۱؎ مسلم سلیم ، ہندوگو شعرا، کھوج خبر نیوز ڈاٹ کامMuslim salum.blogspot.in


سطر 638: سطر 618:


۲۲؎ چندر بھان خیالؔ’’ لولاک ‘‘ فرید بک ڈپو ، دہلی ، مطبوعہ ۲۰۰۲ء ص: ۴۴
۲۲؎ چندر بھان خیالؔ’’ لولاک ‘‘ فرید بک ڈپو ، دہلی ، مطبوعہ ۲۰۰۲ء ص: ۴۴
=== مزید دیکھیے ===
{{ ٹکر 2 }}
{{ باکس 2 }}
{{باکس مضامین }}
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)