پیغمبرِ اسلام کی بار گاہ میں غیر مسلم شعراء کا خراجِ احترام -ڈاکٹر راہی فدائی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

راہی فدائی

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

مضمون نگار: ڈاکٹر راہی فدائی( بنگلور )

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

پیغمبر اسلام کی بارگاہ میں غیر مسلم شعراء کا خراج احترام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت شریف کے سلسلہ میں عام طور پر اہل علم کایہ رجحان ہے کہ ان کے نزدیک نعت پاک کہنے والے شعرا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت ومحبت میں ڈوبے ہوئے رہتے ہیں اوران کا ایک ایک شعر بلکہ ایک ایک مصرع عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نشاندہی کرتا ہوا نظر آتا ہے اور ان کے خیال میں شاعر نعتوں میں جس قدر وارفتگی کا اظہار کرے گا اسی قدر اس کے اشعار میں تاثیر پیدا ہوگی، یہی سبب ہے کہ شعر کو دلی جذبات کا آئینہ کہا گیا ہے اور ایسے موقع پر ہی ’’ از دل خیزد بردل ریزد‘‘ (دل سے نکلنے والی بات ضرور دل پر اثر کرتی ہے) کا مقولہ استعمال کیا جاتا ہے۔

راقم الحروف( راہی فدائی) اسلامیات وادبیات کا ایک ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناطے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق ومحبت ایمان کی سلامتی کے لئے لازم وشرطِ اوّلین ہے نہ کہ نعت گوئی کے لئے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں مروی ہے ’’ لا یؤمن احدکم حتیٰ اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین ‘‘ ( متفق علیہ ) یعنی تم میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)اس کی ذات، اس کے ماں باپ، اس کی اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ اس کا محبوب نہ رہوں۔ نعت گوئی کے لئے شرط یہ ہے کہ شاعر کو فن شاعری پر دسترس حاصل ہو اور وہ اپنے ممدوح کے اوصاف وکمالات کا بخوبی علم وادراک رکھتا ہو ، پھر اس علم کو جذبہ میں اور جذبہ کو شعر میں تبدیل کرنے کا میلان طبع اپنے اندر پاتا ہوتو اس کی کہی ہوئی نعتوں میں دلکشی اوراثر انگیزی پیدا ہوگی۔ مزید براں اگر وہ لفظوں کی معنویت کو ملحو ظ رکھتے ہوئے صنائع وبدائع کا استعمال اپنے اشعار میں مناسب طور پر کرے تو اثر آفرینی میں غیر معمولی اضافہ ہوگا اوریہ تأثر تادیر قائم بھی رہے گا۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

غرض کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم کسی شاعر کا نعتیہ کلام پڑھتے یا سنتے ہیں اوروہ دل کو چھوجاتا ہے تو فوراً کہہ اٹھتے ہیں شاعر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں ڈوب کر شعر کہا ہے۔ حالانکہ حقیقت حال ایسی نہیں ہوتی ہے ، چنانچہ بعض نعت گو شعراایسے بھی ہیں جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کا خیال تو کجا اسلام کے فرائض وواجبات کا بھی لحاظ نہیں رہتا مگر وہ بہترین نعتیہ اشعار کہہ رہے ہیں اور ’’ لِم تقولون مالا تفعلون‘‘ کی منہ بولتی تصویر پیش کررہے ہیں۔ اگر واقعتاً وہ ’’ حُبّ رسول ﷺ ‘‘ میں غرق رہتے تو بمصداق ’’الاناء یتر شّح بمافیہ‘‘ یعنی برتن وہی چیز انڈیلتا ہے جو اس میں موجود ہے، ان کا ظاہر بھی باطن کا عکس جمیل ہوتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نعت پاک کی طرف شاعر کا میلان اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ذات واعلیٰ صفات سے کسی نہ کسی حد تک لگاؤ اورتعلق ہے جس کے زیر اثر وہ نعت کہنے پر آمادہ ہوا ہے۔ اس لگاؤ ار ربط وتعلق کی تعبیر ’’ عشق رسول ﷺ ‘ جیسے پُر معنیٰ وپُر وقار لفظ سے کرنے کی بجائے چاہت اور احترام کے الفاظ سے کریں تو مناسب ہوگا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ محبت کے کئی درجے ہیں ، اس کااعلیٰ درجہ عشق ہے اور ادنیٰ درجہ احترام۔ اسی احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے بہت سارے شعرائے کرام نے نعتیں کہی ہیں جن میں غیر مسلم شعرا ٔکی تعداد بھی معتدبہ ہے ، ان غیر مسلم حضرات ِ شعرأ کے یہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں رطب اللسان ہونے کا جذبہ اسی احترام کے راستے سے در آیا ہے جسے احترام انسانیت کا نا م بھی دیا جاسکتا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام اقوام عالم کے اہل علم وفضل اور اصحاب دانش وبینش کے نزدیک ’’ انسان کامل‘‘ ہیں۔ آپ ﷺ کا اسوئہ حسنہ اورآپ ﷺ کے عظیم اخلاق دوست ودشمن ، اپنا پرایا اورادنیٰ واعلیٰ سبھی کے حق میں یکساں ہیں ، یہی سبب ہے کہ مسلمان تو مسلمان غیر مسلم اہل سخن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متاثر ومرعوب ہیں۔ اس تاثر کے پیش نظر جناب پنڈت بال مکند عرشؔ ملسیانی (ولادت ۱۹۰۸ء وفات ۱۹۷۹ء) ابن وتلمیذ جوشؔ ملسیانی نے کیا خوب کہا ہے۔ ؎


حاصلِ جلوئہ ازل ، پیکرِ نورِ ذات تو ﷺ

شانِ پیمبری سے ہے سرورِ کائنات تو ﷺ

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ، آپ ﷺکے مبارک ومقدس عادات واطوار اورآپ ﷺ کے شمائل وفضائل سے متاثر ہوکر پروفیسر تلوک چند محروم ؔ( ولادت ۱۸۸۷ء وفات ۱۹۶۶ء) نے یہ اقرار کیا ہے۔ ؎


مبارک پیشرو جس کی ہے شفقت دوست و دشمن پر

مبارک پیش رو جس کا ہے سینہ صاف کینے سے

آ پ ﷺ کی سیرت پاک کے مطالعے سے کنور مہندرسنگھ بیدی سحرؔ (ولادت ۱۹۰۹ء ) کا جذبۂ احترام چاہت ومحبت میں بدل گیا ، چنانچہ ان کا ارشاد ہے۔ ؎


تکمیل معرفت ہے محبت رسول ﷺ کی

ہے بندگی خدا کی ، اطاعت رسول کی

عشق ہوجائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں

کچھ مسلماں کا محمد ﷺ پہ اجارہ تو نہیں

آخر الذکر شعر کے مضمون کو چندر پر کاش جوہرؔ بجنوری (ولادت ۱۹۲۳ء) نے اس طرح ادا کیا ہے ۔ ؎


نہیں ذکر محمد ﷺ کے لئے تخصیص مذہب کی

یہ کس نے کہہ دیا ، یہ صرف مسلم کی زباں تک ہے

اسی طرح جناب جوش ملسیانی کے شاگرد کالی داس گپتا رضاؔ(ولادت ۱۹۲۵ء) کا یہ شعر ملاحظہ کیجئے :


جام و مینا سے نہیں ہم کو سروکار مگر

آپ ﷺکے نام سے آجائے تو مستی اچھی

پنڈت لبھورام جوش ملسیانی ( وفات ۱۹۷۶ء) کے ایک شاگرد امیر چند قیسیؔ جالندھری کا یہ اعتراف بھی خوب ہے۔


حیات سادہ کے اسباق دے کے عالم کو

تکلفات کے پردے اٹھا دئیے تو نے

حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند ترین اخلاق اور اعلیٰ وارفع اقدار سے متاثر ہوکر کرشن بہار ی نورؔ نے خود کو آپ ﷺ کے قدموں میں ڈال دیا اور اس عمل کو اپنی معراج قرار دیا ، اس طرح انہوں نے اپنے تخلص نورؔ کا گویا حق ادا کیا۔ ان کا قطعہ۔ ؎


دَیر سے نورؔ چلا اور حرم تک پہنچا

سلسلہ میرے گناہوں کا کرم تک پہنچا

تیری معراج محمد ﷺ تو خدا ہی جانے

میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفیؔ ( ولادت ۱۸۶۶ء وفات ۱۹۵۵ء) تلمیذ شمس العلماء الطاف حسین حالی ؔ(متوفی ۱۹۱۵ء ) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن ِگفتار وبلندیٔ کردار پر اس قدر وارفتہ ہوئے کہ انہوں نے محسوس کیا ، ان کے پاس سب کچھ موجود ہے مگر ایک چیز کی کمی ہے جس کے بغیر زندگی لایعنی سی لگتی ہے وہ ہے دل کی تاریکی کو دور کرنے کا واحد ذریعہ ’’ نور ایمانی‘‘۔ اسی کی آرزو میں حضرت کیفیؔ نے بارگاہ الٰہی میں یہ دعا کی۔ ؎


یوں روشنی ایمان کی دے دل میں کہ جیسے

بطحیٰ سے ہوا جلوہ فگن نور ﷺ خدا کا ۱؎ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس حالات وکمالات کا تہ دل سے اعتراف کرتے ہوئے جناب بابو برج گوپی ناتھ صاحب بیکل ؔ امرتسری نے کس عمدگی سے اپنے جذبات کا اظہار نظم مسدس میں کیا ہے ، ملاحظہ فرمائیں۔ ؎


اے رسول پاک، اے پیغمبر عالی وقار

چشم باطن بیں نے دیکھی تجھ میں شانِ کردگار

تیرے دم سے گل نظر آئے رہ عرفاں کے خار

خوبیوں کا ہو تری کیونکر بھلا ہم سے شمار

نور سے تیرے اندھیرے میں درخشانی ہوئی

تیرے آگے آبرو کفّار کی پانی ہوئی

اک جہالت کی گھٹا تھی چار سو چھائی ہوئی

ہر طرف خلقِ خدا پھرتی تھی گھبرائی ہوئی

شاخ دیدار کی بھی بے طرح مرجھائی ہوئی

لہلہا اٹھی تری جب جلوہ آرائی ہوئی

تیرے دم سے ہوگئیں تاریکیاں سب منتشر

پاگئی راحت ترے آنے سے چشم ِمنتظر

کیوں نہ ہم بھی اس جہاں کا پیشوا مانیں تجھے

کیوں نہ راہ حق میں اپنا رہنما مانیں تجھے

دیکھنے دے خدا آنکھیں تو پہچانیں تجھے

حق کی ہے بیکلؔ صدا شمس الضحیٰ مانیں تجھے

گو مسلمانوں کا اک پیغمبرِ اعظم ہے تو

اپنی آنکھوں میں بھی اک اوتار سے کب کم ہے تو ۲؎

بیکلؔ امرتسری کے آخری بند کے آخری شعر پر غور کریں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ ہندو حضرات کے یہاں جو ’’ اوتار ‘‘ کا عقیدہ ہے اس کی ترجمانی شاعر نے اپنے شعر…’’ گو مسلمانوں کا اک پیغمبر ہے تو-:- اپنی آنکھوں میں بھی اک اوتار سے کب کم ہے تو ‘‘… میں کی ہے۔ ان کے مذہب میں ’’ اوتار‘‘ کا عقیدہ یہی ہے جتنے مہاپُرش اورمقدس ہستیاں ہیں وہ سب بھگوان اور خدا کے نہ صرف مظاہر ہیں بلکہ ’’ اوتار‘‘ ہیں۔ یعنی ان بزرگوں میں نعوذ باللہ خدا حلول کئے ہوئے ہے۔ یہاں یہ فرق ملحوظ رہے کہ ’’ اوتار ‘‘کااعتقاد اسلام میں صریح کفر وباطل ہے۔ اور مظاہرِ حق ہونے کا اعتقاد صحیح اور درست ہے۔ ایک مؤمنِ کامل رب تعالیٰ کا مظہر جمیل اوراس کی قدرت کا عکس حسین ہوتا ہے ، جس کے اشارے قرآن پاک اور حدیث شریف میں پائے جاتے ہیں اوریہ حقیقت اہل علم وعرفان کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہے ، اس مقام پر تفصیل غیر ضروری ہے۔


"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

راقم نے مقالہ کی تمہید میںاس بات کی وضاحت کی تھی کہ غیر مسلم شعرا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ اور آپ ﷺکی منور ومسعود شخصیت سے متاثر ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہت واحترام میں نعت گوئی پر از خود آمادہ ہوجاتے ہیں اور آپ ﷺکی ثنا خوانی ومدح سرائی میں رطب اللسان ہونے کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ اس جذبہ واحساس کو عشق ومحبت کا نام دینا اور اس شاعری کو عشقیہ شاعری کہنا جیسا کہ ہمارے عام نقادوں کا خیال ہے، غیر حقیقی رویہ بھی ہے اور بعید از قیاس رجحان بھی ، اگر واقعتا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے ان غیر مسلم شعرا کا عشق سچا اور پکا ہوتو ضرور انہیں حلقہ بگوش ِاسلام ہونے کی توفیق ملی ہوتی۔ اس بات کا انہیں خوب علم ہے کہ وہ اسلام کے عقیدئہ توحید پر نہیں ہیں اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھرپور تعریف وتوصیف کرنے کے باوجود اصل ِدین وتوحیدِ الٰہی کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں کہلاتا اوراسے دیا رِ رسول کی زیارت کا شرف حاصل نہیں ہوتا۔یہی وہ احساس ہے شاعر کودرج ذیل شعر کہنے پر مجبور کردیا، ٹھاکر دامودر ذکیؔ محبوب نگری (تلنگانہ) شاگردِ ازلؔ لاہوری وحبیب اللہ وفاؔ حیدرآبادی (ولادت ۱۹۰۳ء وفات ۱۹۷۶ء) نے اپنی شدید خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے۔


اتنی سکت کہاں ہے میں آسکوں وہاں تک

توخواب میں تو آجا اک بار اے مدینہ

زیارت مدینہ منور ہ کی آرزومیں بابو رو شن لعل صاحب نعیم ؔڈیرہ غازی خاں نے اپنے جذبات وتصورات کو اشعار کے قالب میں ڈھال کر اس طرح پیش کیا ہے:


للہ بلا لیجئے سرکارِ مدینہ

مرجائے نہ یہ ہند میں بیمار ِمدینہ

حسرت ہے کہ دم نکلے درِ شاہِ ﷺ عرب پر

مدفن ہو تہہِ سایۂ دیوارِ مدینہ

اے شیخ تجھی کو رہِ فردوس مبارک

کافی ہے مجھے گوشۂ گلزارِ مدینہ

مرجائے نعیمؔ الفتِ سرور ﷺ میں الٰہی

تعویذِ لحد ہو در دربارِ مدینہ

اوّلین نعت گو غیر مسلم شاعر:

دکن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جس طرح اردو زبان کے اوّلین شاعر حضرت بندہ نواز گیسودراز( ولاد ۷۲۱ ھ م ۱۳۲۱ء وفات۸۲۵ھ م ۱۴۲۱ء ) گلبرگہ کی سرزمین میں آسودہ ہیں اسی طرح اردو کے اوّلین نعت گو غیرمسلم شاعر جن کا نام نامی ایکناتھ مہاراج ہے، دکن ہی کی خاک سے اٹھے ہیں۔ ایکناتھ جیؔ مہارشڑا کے متوطن تھے ، مراٹھی کے قدیم واہم شعرا میں مہاراج کا شمار ہوتا ہے۔ انہوں نے مراٹھی کی صنف شاعری’ بھاروڑ‘ میں خوب طبع آزمائی کی ہے ، ایک سنت ہونے کے اعتبار سے ان کا کلام عوام وخواص میں مشہور ہے۔ ایکناتھ جی ؔکی ولادت حضرت بندہ نواز کے وصال کے ایک صدی بعد (۱۵۳۳ء۔ ۱۵۹۹ء) ہوئی تھی۔مشہور محقق وادیب ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط صاحب نے ایکناتھ جی ؔکو کھوج نکالا ہے، ان کی نعتیہ شاعری پہلی بار ڈاکٹر نشیط کے توسط سے اہل علم میں روشناس ہوئی ہے۔ ایکناتھؔ کے چند شعر ملاحظہ ہوں۔


خیال کیا ،مچھلی والے و لیکن

دریا وڈھونڈے گوؤند محمد ﷺ

کھیل کھلانے آیا محمد ﷺ

دشرتھ ، رام رانا و لیکن

دیو چھراوے بند محمد ﷺ

کھیل کھلانے آیا محمد ﷺ

لنکا پتی راون مارا ولیکن

راجیہ دیا بھبیشن محمدکھیل کھلانے آیا محمد ﷺ۴؎

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

اردو میں غیر مسلم نعت گو شعرا کی تعداد سیکڑوں میں ہے جن میں سے بعض منتخب شعرا کو تاریخی ترتیب کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے تاکہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں خراج احترام ونذرانۂ عقیدت گزارنے والوں کے جذبات واحساسات کی کماحقہٗ قدر افزائی ہوسکے اور ساتھ ہی ان کے اسلوب ادا اور طرز نگارش کا کسی قدر اندازہ بھی لگایا جاسکے، راقم کی گذاش ہے کہ منصب نقد وانتقاد پر فائز حضرات نعت کی وسعت ووقعت ، اس کے تنوع وترفع اور اس کی رنگا رنگی وہمہ جہتی کا صحیح ادارک کرتے ہوئے نعت گو شعرا کو ان کا مناسب مقام ومرتبہ دینے میں تکلفات وتعصبات سے کام نہ لیں۔

(۱) عاشقؔ دہلوی ، مہارانہ کلیان سنگھ (ولادت ۱۷۴۹ء وفات ۱۸۲۲ء)


یہ لکھتے ہیں نعتِ رسولِ ﷺ خدا

مغیث الورا ﷺ خواجۂ دوسرا

محمد ﷺ ہیں محبوبِ پروردگار

محمد ﷺ ہیں مطلوبِ پروردگار

۵؎

(۲) ساقیؔ سہارن پوری ، منشی شنکر لال ولد خوب چند( ۱۸۶۰ء …۱۸۹۰ء) تلمیذ منشی لال کمند بے صبر (وفات:۱۸۸۵ء) وفیضیافتۂ

مرزا غالبؔ ومنشی تفتہؔ۔ ؎


مرا ہر لفظ نعتِ احمدی درّ یکتا ہے

لکھا جو دائرہ ہے وہ مہِ کامل کا ہالا ہے

صفاتِ ذات احمد لکھ سکوں کیا میری طاقت ہے

خیالِ اہلِ دانش جب یہاں مکڑی کا جالا ہے

نعت لکھتا ہوں مگر شرم مجھے آتی ہے

کیا مری ان ﷺ کے مدح خوانوں میں پیشی ہوگی

ساقیؔ نے کفر وشرک کے خلاف بلا تکلف لکھا ہے ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی غیر مسلم کا کلام نہیں بلکہ خدا ترس مؤمن کا کلام ہے ، یہ شعر دیکھئے۔ ؎


ہوئی کافور نورِ مصطفی ﷺ سے شرک کی ظلمت

سیاہی سے ندامت کی دلِ کفار کالا ہے

۶؎

(۳) ساحرؔدہلوی پنڈت امرناتھ مون (۱۸۶۳ء…۱۹۴۲ء )وظیفہ یاب ڈپٹی کلکٹر


مرا قلب مطلعِ نور ہے کہ حرم میں جلوئہ یار ہے

دل ودیدہ محوِ نظارہ ہیں کہ نہ گرد ہے نہ غبار ہے

بے سایہ نور باعث ایجاد ومغفرت

جس کے وجودِ جود سے رحمت نہال ہے

امت کااپنی شافعِ روز جزا بنا

اب پرسشِ جواب نہ روئے سوال ہے

۷؎

(۴) شادؔ ، مہاراجہ کشن پرشاد ولد راجہ ہری کشن پرشاد( ۱۸۶۴ء…۱۹۴۰ء) وزیراعظم سلطنت آصفیہ، حیدرآباد ،مصنف مجموعہ نعت’’ ہدیۂ شاد‘‘( مطبوعہ ۱۳۲۶ھ)۔ شادؔ صاحب کے کلام سے یہ اندازہ لگانا دشوار ہے کہ یہ ایک غیر مسلم کا کلام ہے۔ وہ نعت گوئی کی توفیق پر خدائے تعالیٰ کا شکر بجالاتے ہوئے کہتے ہیں۔ ؎


مشغلہ نعتِ نبی ﷺ کا ہے مجھے شکرِ خدا

بعد مدت کے یہ ہاتھ آیا ہے مقصد مجھ کو

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

شادؔ کی وارفتگی اور جذبات کی فراوانی کا عالم دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ رب تعالیٰ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی ثنا خوانی کس کس زبان وکس کس قلم سے کروارہا ہے اورکن کن زاویوںسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح سرائی ہورہی ہے۔ مہاراجہ شادؔ کے یہ اشعار ملاحظہ کیجئے۔ ؎

کافر عشق محمد ﷺ خلق کہتی ہے مجھے

سب مسلماں قدر کرتے ہیں مرے زنّار کی

کافر ہوں کہ مؤمن ہوں، خدا جانے میں کیا ہوں

پر بندہ ہوں ان کا جو ہیں سلطانِ مدینہ ﷺ

ہم خیالِ رخِ پُر نور میں حیراں ہوں گے

یاد آئیں گے جو گیسو تو پریشاں ہوں گے

لے گیا بخت اگر روضۂ اقدس کی طرف

جان ودل سے کبھی صدقے کبھی قرباں ہوں گے

ہم کو تو گلشنِ طیبہ میں اڑا کر لے جا

ہم ترے باد صبا ، بندئہ احساں ہوں گے

جب سے وحدت کا ہوا دل میں خیال

تھا جو بیگانہ، یگانہ ہوگیا

کفر چھوڑا پی کے مئے توحید کی

رنگ شادؔ اب عاشقانہ ہوگیا ۸؎

(۵) کوثریؔ ، چودھری دِلّو رام ولد بھورا رام حصاری (۱۸۸۲ء…۱۹۳۳ء) اردو کے ممتاز نعت گو شاعر ہیں جنہیں پیر جماعت علی شاہ صاحب علی پوری نے ’’ حسان الہند‘‘ کے خطاب سے سرفراز فرمایا تھا۔کوثریؔ نے دولت ایمانی سے محرومی کے باوجود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں نعتوں کا نذرانہ پیش کیا ، آل اطہار واصحاب کبار کی منقبتیں لکھیں اوراسلامی روایات پر بہترین نظمیں قلمبند کیں، زندگی بھریہی مشغلہ رہا، حیدرآباد ،بھوپال ، رام پور وغیرہ درباروں میں انہیں نعت خوانی کی دعوت دی جاتی تھی اور ان کی عزت افزائی کی جاتی تھی۔ کوثریؔ نے کیا خوب کہا ہے۔ ؎


کر اے ہندو بیاں اس طرز سے تو وصف احمد ﷺکا

مسلماں مان جائیں لوہا سب تیغِ مُہنّد کا

محمد ﷺ اور دِلّو رام میں نقطہ نہیں کوئی

کہ ہے مداح اور ممدوح میں یہ ربط کس حد کا

دِلّو رام کوثریؔ کو یہ اعتماد ہے کہ دوزخ کی آگ انہیں جلائے گی نہیں ، کیونکہ وہ مداح نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، جس کا اظہار انہوں نے اس طرح کیا ہے۔ ؎


ہندو سمجھ کے مجھ کو جہنم نے دی صدا

میں پاس جب گیا تو نہ مجھ کو جلا سکا

بولا کہ تجھ پہ کیوں مری آتش ہوئی حرام

کیا وجہ تجھ پہ شعلہ جو قابو نہ پاسکا

میں نے کہا کہ جائے تعجُّب نہیں ذرا

واقف نہیں تو میرے دلِ حق شناس کا

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

انہیں یقین ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت حاصل ہوگی جس کے وسیلے سے خدائے رب العزت کاساتھ بھی میسرآئے گا، چنانچہ وہ اس طرح رقم طراز ہیں۔ ؎


کوثریؔ تنہا نہیں ہے مصطفی ﷺ کے ساتھ ہے

جو نبی ﷺ کے ساتھ ہے وہ کبریا کے ساتھ ہے

لے کے دِلّو رام کو حضرت گئے جنت میں جب

غُل ہوا ہندو بھی محبوبِ خدا کے ساتھ ہے

۹؎

(۶) فلکؔ لاہوری ، لالہ لال چند ، تلمیذ دوارکا پرساد افقؔ لکھنؤی (۱۸۷۷ء… ۱۹۶۷ء)


نغمۂ وحدت حق دہر میں گایا تو ﷺ نے

کملی والے ﷺیہ عجب گیت سنایا تو ﷺ نے

ربِّ بے مثل کا دنیا میں بٹھاکر سکّہ

نقش، اوہام پرستی کا مٹایا تو ﷺ نے

ریت کے ذروں کو بارود کی طاقت بخشی

خاکِ ناچیز کو اکسیر بنایا تو ﷺ نے

گنبد وسقفِ فلک، گوش زمیں گونج اٹھے

کوسِ توحید عرب میں جو بجایا تو ﷺ نے

۱۰؎

(۷) جواںؔسندیلوی، منی لال ، تلمیذ ہنرؔ سندیلوی وآرزو لکھنؤی (۱۸۸۹ء… ۱۹۷۴ء) کے مسدس کا یہ بندملاحظہ فرمائیں جس میں انہوں نے واقعہ معراج کو کس خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔


آج کیا ہے جو سجاوٹ ہے سرِ چرخِ بریں

چاندنی رات بھی دلکش ہے ، ستارے بھی حسیں

نور ہی نور ہے ظلمت کا کہیں نام نہیں

قابلِ دید ہے گلزارِ جناں کی تزئیں

حکم خالق ہے، فرشتے سبھی ہشیار رہیں

مرے محبوب ﷺکی تعظیم کو تیار رہیں

۱۱؎

(۸) جو ہرؔ بلگرامی ، شنکر سہائے ولد بابو سری واستو (۱۸۹۰ء…۱۹۷۱ء) منصف وناظم دیوانی وفوجداری ، حیدرآباد دکن۔


یوں تو دنیا میں بہت سے ہوئے مولیٰ والے

پر تری ﷺ شان ہی کچھ اور تھی بطحیٰ والے

تو وہ مخلوق کہ خالق تری تخلیق پہ خوش

بعد مولیٰ تجھے ﷺ کیوں مانیں نہ مولیٰ والے

آئے گا سوا نیزے پر جب نیّر اعظم

ہم ہوں گے تہِ دامنِ سلطانِ ﷺ مدینہ

۱۲؎

(۹) جذبؔ رائچوری ، پنڈت رگھوندر راؤ، تلمیذ ترکیؔ وشوکت میرٹھی(۱۸۹۴ء …۱۹۷۳ء) ایڈوکیٹ :


لکھتا ہوں ثنائے رخِ نیکوئے محمد ﷺ

روکش خورشید فلک روئے محمد ﷺ

مکے سے مدینہ سے ہی پہنچی سرِ افلاک

بوئے گلِ رخسارہ و گیسوئے محمد ﷺ

اس جذبؔ دل افگار کو رویا میں کسی شب

یا رب تو دکھادے رخ نیکوئے محمد ﷺ

۱۳؎

(۱۰) سامیؔ جبلپوری، منشی مہادیو پرساد تلمیذ مضطرؔ خیر آبادی (۱۸۹۵ء… ۱۹۷۱ء) بڑے پُر گو شاعر گذرے ہیں ، سامیؔ نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی مدحت وثنا کرتے ہوئے قربت رسول اکرم ﷺ کی تمنا میں خود کو وقف کیا ہے اور اپنے گناہوں کی مغفرت بھی طلب کی ہے۔ جناب سامیؔ اپنا مدعیٰ پیش کرتے ہوئے عرض گزار ہیں۔ ؎


جنت کی سمت رخ نہ کروں آپ ﷺ کے بغیر

حضرت ﷺ کا ہوں گدا تو طبیعت غیور ہے

ممکن ہے مدح کس سے ہو اس ذات پاک کی

مدحت طراز جس کا خدائے غفور ہے

کافی ہے یہ نصیحت اغیار کے لئے

وہ دور ہے خدا سے ، نبی ﷺسے جو دور ہے

مقصود عرض حال ہے ورنہ غلام کو

دعویٰ کلام کا نہ زباں کا غرور ہے

خادم کا بال بال گنہگار ہے تو ہو

مداح ہے حضور ﷺ کا اتنا ضرور ہے

لاکھوں خطائیں کی ہیں بس اتنی امید پر

حضرت ﷺ بھی ہیں کریم ، خدا بھی غفور ہے

محشر میں دیکھ لیں گے جنہیں اشتباہ ہو

سامیؔ ہے اور جامِ شرابِ طہور ہے

جناب سامیؔ نے مقطع کے بعد ایک تاریخی شعر رقم کیا ہے ،جس میں اس واقعہ کا سَن ہے جبکہ جبلپور میں۶؍ شعبان ۱۳۴۵ء مطابق فروری ۱۹۲۷ء کو بعد مغرب ایک روشن ستارہ ٹوٹا اور وہ صاف طور پر آپ ﷺ کا اسم گرامی’’ محمد ﷺ ‘‘ کی شکل اختیار کرگیا ، اس نظارہ سے بہت سارے خوش نصیب بہرہ ور ہوئے ، اسی کی طرف سامیؔ نے اپنے دوشعر میں اشارہ کیا ہے۔ ؎


تارے سے نامِ نامیٔ حضرت عیاں ہوا

یہ معجزہ حضور کرامت ظہور ہے

تھی مجھ کو فکرِ سال کہ ہاتف نے دی ندا

لوحِ فلک پہ جلوئہ نامِ حضور ﷺ ہے

۱۳۴۵ء

۱۴؎

(۱۱) حامیؔ بریلوی ، بشن نارائن ولد پنڈت دیبی پرشاد صادقؔ بریلوی( ولادت تقریباً ۱۸۹۶ء) صاحب ِدیوان شاعر تھے ، شاعری انہیں ورثہ میں ملی تھی، تاریخ روہیل کھنڈمع تاریخ بریلی کے مؤلف مولانا عبدالعزیز خان بریلوی نے جناب حامیؔ کی خوب تعریف کی ہے۔

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی


ہو کیوں نہ بشر تابعِ فرمانِ محم ﷺ

فردوس میں جائیں گے غلامانِ محمد ﷺ

عاشق تپشِ مہر قیامت سے ڈریں کیوں

کافی ہے انہیں سایہﷺ دامان محمد ﷺ

از بسکہ گنہگار ہوں ، محشر میں الٰہی

چھوٹے نہ مرے ہاتھ سے دامانِ محمد ﷺ

بخشیں مجھے توفیق اگر نعت کی حامیؔ

بھولوں نہ کبھی عمر بھر احسانِ محمد ﷺ

۱۵؎

(۱۲) اخترؔ ہوشیار پوری ، پنڈت ہر ی چند تلمیذحفیظؔ جالندھری (۱۹۰۰ء …۱۹۵۸ء) کو اپنے وسعت مشرب پر فخر ہے اوروہ تصور میں سبز گنبد کی زیارت سے مشرف ہوکر انتہائی خوش ہیں۔


وسعتِ مشرب سے ہیں اک مخزن اسرار ہم

کفر ہم ، اسلام ہم ، تسبیح ہم ، زنّار ہم

سبز گنبد کے اشارے کھینچ لائے ہیں ہمیں

لیجئے دربار میں حاضر ہیں اے سرکار ہم

نام پاک احمدِ مرسل سے ہم کو پیار ہے

اس لئے لکھتے ہیں اخترؔ نعت میں اشعار ہم

۱۶؎

(۱۳) باغؔ اکبر آبادی ، حکیم بال کشن داس ولد حکیم ہنومان سہائے تلمیذ حضرت سید محمد علی شاہ میکشؔ اکبر آبادی وفلکؔ حیدرآبادی (۱۹۰۶ء…۱۹۵۹ء) بڑے شائستہ وشستہ مذاق کے حامل تھے ، حکیم باغؔ صاحب کی نعتوں میں دلکشی ودل آویزی موجود ہے ، یہ شعر دیکھئے۔ ؎


رہا کرتا ہے اس میں جلوئہ یکتا محمد ﷺ کا

مرا دل ہے ازل سے آئینہ خانہ محمد ﷺ کا

گلہ غم کا نہیں ، غم دینے والے یہ شکایت ہے

جو تجھ کو غم ہی دینا تھا ، تو غم دیتا محمد ﷺ کا

اگر تجھ کو محبت ہے جو تیرا عشق صادق ہے

تو آنکھیں بند کرکے کھینچ لے نقشہ محمد ﷺکا

۱۷؎


"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

(۱۴) دلؔکشمیری ، منوہر لال ولد گوندامل آنند شاگر د اثرؔ لکھنؤی وجوشؔ ملسیانی (ولادت ۱۹۱۲ء) مصنف مجموعۂ کلام ’’ نقدِ دل‘‘ (مطبوعہ ۱۹۷۳ء) دلؔاسٹیٹ بینک آف انڈیا جمو کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوکر وظیفہ یاب ہوئے ، دل ؔ صاحب نے جمو میں ایک ادبی انجمن کی بنیاد ڈالی ، جو اولاً ’’بزم سخن‘‘ کے نام سے اور بعد میں ’’ بزم اردو‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ دلؔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ کی تعریف وتوصیف میں اس طرح رطب اللسان ہیں۔ ؎


آقا جو محمد ﷺ ہے عرب اور عجم کا

بے مثل نمونہ ہے مروّت کا کرم کا

حاصل ہے جنہیں تیرے غلاموں کی غلامی

لیتے نہیں وہ نام کبھی قیصر وجم کا

فردوس نظر ہے ترے مسکن کی زیارت

روضہ ترا ﷺ دنیا میں بدل باغِ ارم کا

کیا دلؔ سے یہاں ہو تیرے ﷺ اخلاق کی توصیف

عالم ہوا مدّاح تیرے لطف وکرم کا

۱۸؎

(۱۵) مکھنؔ حیدرآبادی، راجہ مکھن لال ( وفات مابعد ۱۸۴۴ء) صاحب دیوان شاعر تھے، جس کا ایک نسخہ کتب خانہ آصفیہ ’’گورنمنٹ میانسکرپٹ لایبریری‘‘ کی زینت ہے۔ انہوں نے نعتیں فارسی اوراردو دونوں زبانوں میں کہی ہیں ، ۱۲۶۰ء مطابق ۱۸۴۱ء میں عمر خیام کی رباعیات کا منظوم ترجمہ صنف رباعی ہی میں کیا ، مکھن ؔ لال کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پایا ں عقیدت تھی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کی آرزومیں اشعار کہے ہیں۔ ؎


بسکہ تو نے کیا ہے جرم عظیم

جا پکڑ دامنِ شفیعِ رحیم

عرض کر بندگی بصد تعظیم

بول اپنا پکار حال سقیم

کر مدد مجھ پہ یا رسول اللہ

تا نہ دیکھوں عذاب نارِ حجیم

۱۹؎

(۱۶) رونقؔ دہلوی، منشی پیارے لال تلمیذ راسخؔ دہلوی (وفات ۱۹۳۴ء) بلند پایہ شاعر تھے ، زباں وبیان پر قدر ت حاصل تھی، نعتوں میں طباعی کا مظاہرہ خوب کیا ہے۔ ؎


کلمہ صلّ علیٰ وردِ زباں رکھتا ہوں

خواب میں دیکھ لیا ہے قدِ بالا تیرا

عفو ہوجائیں گی محشر میں خطائیں ساری

داورِ حشر کو دوں گا میں حوالا تیرا

آہ کر ہجر محمد ﷺ میں سنبھل کر اے دل

عرش کے پار نکل جائے گا نالا تیرا

۲۰؎

(۱۷) منظرؔ ، ڈاکٹر کے، مدنا منظر تماپوری ابن پربھوراؤ (ولادت : ۱۹۲۰ء وفات ۱۹۸۲ء) سول سرجن ہونے کے باوجود فطرتاً صوفی منش تھے ، اردو ، ہندی ، کنڑی اور انگریزی میں شعر کہتے تھے۔ اردوشاعری میں نعتوں کی طرف ان کامیلان زیادہ تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان یکتائی میں شعر کہتے ہوئے ان پر محویت کا عالم طاری رہتا تھا۔ اسی لئے ڈاکٹر صاحب کے اشعار میں تاثیر کا عنصر نمایاں ہے۔ ؎


تمہارے چہرئہ زیبا کو ہم قرآں سمجھتے ہیں

تمہاری ہر ادا کو معنیٔ فرقاں سمجھتے ہیں

تمہارے عشق میں جینا، تمہارے عشق میں مرنا

اسے ہم دین کہتے ہیں ، اسے ایماں سمجھتے ہیں

الٰہی زندگی میں ایک ایسا وقت بھی آئے

کروں سجدہ جہاں نقشِ کفِ پا ہو محمد ﷺکا

۲۱؎

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں خراج عقید ت پیش کرنے کاسلسلہ صدیوں سے جاری ہے اور آج بھی بہت سارے غیر مسلم شعراء اس پاک شغل میں ہمہ تن مصروف ہیں اوراسے اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ ان شعرا میں جناب چندر بھان خیالؔ (ولادت ۱۹۴۶ء) اس حیثیت سے ممتاز ہیں کہ انہوں نے ’’ لولاک‘‘ (مطبوعہ ۲۰۰۲ء) کے نام سے منظوم سیرت طیبہ تحریرکی، خیالؔ صاحب اولین غیر مسلم منظوم سیرت نگار ہیں۔ ’’لولاک‘‘ کے چند بند ملاحظہ ہوں۔ ؎


اوج بخش وبخت آور، نام تھا محمد ﷺ کا

آسروں نے ڈھونڈا تھا آسرا محمد ﷺ کا

رفعتوں کی خاموشی، وسعتوں کی تاریکی

ختم ہوگئی جیسے مصطفے ﷺ کی آمد پر

برق سی گری اک دم واہموں کے برگد پر

ہل اٹھا نظامِ شر خیر کی اس آمد پر

جذبہ ﷺ صداقت اب زندگی کے صحرا میں

چہچہاتی چڑیوں سا چہچہاتے پھرتا تھا

آخر میں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اورحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ِ اقدس کاکرشمہ ہے کہ آج کے لسانی ومذہبی تعصب کے زمانے میں بھی اردو کے غیر مسلم شعراہی نہیں بلکہ ہندی کے غیر مسلم شعرا بھی نعتیں کہنے کو اپنی خوش قسمتی تصور کررہے ہیں ، جس کی ایک مثال جواں سال شاعرگیان چند مرمکیاؔ بنگلور (ولادت ۱۹۵۹ء) کی ہے جن کا کلام ہندی رسائل میں شائع ہوتا رہتاہے ، دیکھئے کہ مرمکیاؔ کے یہ شعر کس قدر سادگی وشائستگی کا نمونہ ہیں۔ ؎


کرنے دو مجھے صاحبِ ایمان کو سلام

حضرت رسول ﷺ پاکِ مہربان کو سلام

جب آپ ﷺ نے انسانیت کی راہ دکھائی

انسان بھی کرنے لگے انسان کو سلام

راقم کو اس مقالے کی تیاری میں محترم ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط کا تعاون حاصل رہا جس کے لئے وہ ڈاکٹر صاحب کا شکر گزارہے۔

جزاکم اللّٰہ خیر الجزاء

مآخذ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱؎ مسلم سلیم ، ہندوگو شعرا، کھوج خبر نیوز ڈاٹ کامMuslim salum.blogspot.in

۲؎ ’’ مسلمان لاہور‘‘ کا غیر مسلم نعت گو شعرا نمبر جلد ۷؍ شمارہ۸؍ ص: ۳۱،۳۲

۳؎ وایضاً …ص: ۳۶

۴؎ ڈاکٹرسید یحییٰ نشیط، اردو مراٹھی کے تہذیبی رشتے، بہار آفسٹ ، اکولہ (مہاراشٹر) ۱۹۹۵ء ص: ۵۴

۵؎ علیم صبا ؔنویدی ، نعتیہ شاعری میں ہیئیتی تجربے، مطبوعہ تمل ناڈو اردو پبلی کیشنز، چینائی۔۲ /۲۰۰۲؁ ء ص: ۳۱

۶؎ ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاقؔ، اردو میں نعتیہ شاعری، مطبوعہ کراچی (پاکستان) ۱۹۷۶ء ص: ۲۷۵۔۲۷۶

۷؎ ’’ مسلمان لاہور‘‘ ص: ۴۲۔۴۷

۸؎ ’’ اردو میں نعتیہ شاعری ‘‘ ص: ۴۹۲۔۴۹۳

۹؎ ’’ مسلمان لاہور‘‘ ص:۲۵۔۲۶

۱۰؎ ’’ اردو میں نعتیہ شاعری ‘‘ ص: ۵۳۳۔ ۵۳۴۔۵۳۵

۱۱؎ ’’ نعتیہ شاعری میں ہیئتی تجربے‘‘ ص: ۴۹

۱۲؎ نور احمد میرٹھی ’’ بہر زباں بہر زماں صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ ادارئہ فکرِ نو، کراچی۔ ۱۹۹۶ء ص: ۲۲۸

۱۳؎ ’’ مسلمان لاہور ‘‘ ص : ۴۷۔۴۸

۱۴؎ وایضاً…۳۸۔۳۹

۱۵؎ ’’ بہرزماں بہر زباں صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ ص: ۲۴۳

۱۶؎ ’’ مسلمان لاہور‘‘ ص: ۳۴۔۳۵

۱۷؎ ’’ بہر زماں بہرزباں صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ ص: ۱۶۴

۱۸؎ وایضاً… ۲۶۴

۱۹؎ ’’ اردو میں نعتیہ شاعری‘‘ ص: ۲۴۳۔ ۲۳۴

۲۰؎ ’’ مسلمان لاہور‘‘ ص: ۳۳

۲۱؎ ڈاکٹر مدّنا منظرؔ ’’ منظر بہ منظر ‘‘ انجمن ترقی اردو ہند (کرناٹک) بنگلور۔ مطبوعہ ۱۹۸۲ء۔ ص: ۱۷۔۲۵

۲۲؎ چندر بھان خیالؔ’’ لولاک ‘‘ فرید بک ڈپو ، دہلی ، مطبوعہ ۲۰۰۲ء ص: ۴۴

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
گذشتہ ماہ زیادہ پڑھے جانے والے موضوعات
مضامین میں تازہ اضافہ