آپ «نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26 ۔ نعت نامے» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 1: سطر 1:
[[ملف:Naat_Kainaat_Naat_Rang.jpg|200px|link=نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26]]
=== پروفیسر سحر انصاری۔کراچی ===
{{ بسم اللہ }}
 
=== نعت نامے ===
 
==== پروفیسر سحر انصاری۔کراچی ====


۲۳/اکتوبر۲۰۱۵
۲۳/اکتوبر۲۰۱۵
سطر 51: سطر 46:
ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمیں باد  
ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمیں باد  


==== ریاض حسین چودھری۔سیالکوٹ ۔ ۳  دسمبر ۲۰۱۵ ====
=== ریاض حسین چودھری۔سیالکوٹ ===
 


۳/ دسمبر۲۰۱۵




سطر 169: سطر 164:
ہوائیں دروازوں پردستک دے رہی ہیں ہم گہری نیند کے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔  
ہوائیں دروازوں پردستک دے رہی ہیں ہم گہری نیند کے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔  


====ریاض حسین چودھری۔سیالکوٹ ۔ ۳   جون  ۲۰۱۶ ====
===ریاض حسین چودھری۔سیالکوٹ ۔ ۳/ جون۲۰۱۶ ===


آپ کو یہ جان کرخوشی ہوگی کہ میرابارھواں نعتیہ مجموعہ’’تحدیثِ نعمت‘‘شائع ہوگیاہے۔آپ اوراحباب  کے لیے کتاب کے دس نسخے آپ کی خدمت میں بھجوارہاہوں متعلقہ احباب تک پہنچانے کی زحمت گوارا فرمالیجئے۔چنداضافی نسخے بھی ہیں۔آپ کی صوابدید پر۔۔۔۔۔۔دبستان ِنو،لامحدود اورشام ِدرود کی کتابت مکمل ہوچکی ہے۔
آپ کو یہ جان کرخوشی ہوگی کہ میرابارھواں نعتیہ مجموعہ’’تحدیثِ نعمت‘‘شائع ہوگیاہے۔آپ اوراحباب  کے لیے کتاب کے دس نسخے آپ کی خدمت میں بھجوارہاہوں متعلقہ احباب تک پہنچانے کی زحمت گوارا فرمالیجئے۔چنداضافی نسخے بھی ہیں۔آپ کی صوابدید پر۔۔۔۔۔۔دبستان ِنو،لامحدود اورشام ِدرود کی کتابت مکمل ہوچکی ہے۔
سطر 179: سطر 174:
خضرحیات صاحب اوردیگراحباب کی طرف سے سلام قبول فرمائیے گا۔
خضرحیات صاحب اوردیگراحباب کی طرف سے سلام قبول فرمائیے گا۔


====ریاض حسین چودھری۔سیالکوٹ ۔۲۱ اگست۲۰۱۶ء ====
=== =ریاض حسین چودھری۔سیالکوٹ ۔۲۱/ اگست۲۰۱۶ء ===


آپ کا ای۔میل موصول ہوا۔بستر علالت پرہوں۔شوگر کی وجہ سے پاؤں زخموں کے پیرہن میں ہے دواؤں کے ساتھ دعائوں کوبھی اشدضرورت ہے۔کراچی کے احباب کی دعاؤں کی التماس ہے۔تحدیث نعمت کے دس نسخے آپ اورآپ کے احباب کے لیے بذریعہ TCSبھجوائے تھے یقینا مل گئے ہوں گے اورمتعلقہ احباب میں تقسیم بھی ہوچکے ہوں گے۔
آپ کا ای۔میل موصول ہوا۔بستر علالت پرہوں۔شوگر کی وجہ سے پاؤں زخموں کے پیرہن میں ہے دواؤں کے ساتھ دعائوں کوبھی اشدضرورت ہے۔کراچی کے احباب کی دعاؤں کی التماس ہے۔تحدیث نعمت کے دس نسخے آپ اورآپ کے احباب کے لیے بذریعہ TCSبھجوائے تھے یقینا مل گئے ہوں گے اورمتعلقہ احباب میں تقسیم بھی ہوچکے ہوں گے۔
سطر 187: سطر 182:




==== ڈاکٹر اشفاق انجم۔بھارت ====
=== ڈاکٹر اشفاق انجم۔بھارت ===


۲/اکتوبر۲۰۱۶
۲/اکتوبر۲۰۱۶
سطر 1,425: سطر 1,420:
(صبیح رحمانی)
(صبیح رحمانی)


====  ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی۔بھارت ====
===  ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی۔بھارت ===
۲۵/ستمبر۲۰۱۶
۲۵/ستمبر۲۰۱۶
خدا کرے آپ سب ہرطرح بخیر وعافیت ہوں۔آپ کی ارسال کردہ دونوں کتابیں میرے وطن عزیز گیا کے پتے پرموصول ہوئی تھیں۔جب عیدالضحیٰ کے موقع پر میراگیا جانا ہواتوضخیم مجموعۂ مضامین’’ اردو نعت کی شعری روایت‘‘ اوررسالہ’’نعت رنگ‘‘کی سلور جوبلی کے موقع پر شائع ہونے والاکتابچہ دونوں دیکھنے کوملے۔ان قیمتی تحائف کے لیے بے حد شکرگزار ہوں۔
خدا کرے آپ سب ہرطرح بخیر وعافیت ہوں۔آپ کی ارسال کردہ دونوں کتابیں میرے وطن عزیز گیا کے پتے پرموصول ہوئی تھیں۔جب عیدالضحیٰ کے موقع پر میراگیا جانا ہواتوضخیم مجموعۂ مضامین’’ اردو نعت کی شعری روایت‘‘ اوررسالہ’’نعت رنگ‘‘کی سلور جوبلی کے موقع پر شائع ہونے والاکتابچہ دونوں دیکھنے کوملے۔ان قیمتی تحائف کے لیے بے حد شکرگزار ہوں۔
واقعہ یہ ہے کہ مجلہ’’نعت رنگ‘‘کے ذریعہ خاص طورسے اردو نعت کی تحقیق وتنقید کے باب میں آپ نے معرکہ آرا خدمات انجام دی ہیں جو ناقابل فراموش ہیں اورجس پربجاطورسے آپ کوایک نہیں دو ،دو صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیاہے۔دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارک باد قبول فرمائیے۔سچ تویہ ہے کہ آج نعت رنگ محض ایک مجلہ نہیں بلکہ فروغ نعت،ترقی نعت اوراستحکام نعت کی ایک عالمگیر ادبی تحریک ہے اورمجھے فخر ہے کہ کسی نہ کسی حیثیت سے اس عظیم ادبی تحریک کا میں بھی ایک ادنیٰ رکن ہوں۔
واقعہ یہ ہے کہ مجلہ’’نعت رنگ‘‘کے ذریعہ خاص طورسے اردو نعت کی تحقیق وتنقید کے باب میں آپ نے معرکہ آرا خدمات انجام دی ہیں جو ناقابل فراموش ہیں اورجس پربجاطورسے آپ کوایک نہیں دو ،دو صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیاہے۔دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارک باد قبول فرمائیے۔سچ تویہ ہے کہ آج نعت رنگ محض ایک مجلہ نہیں بلکہ فروغ نعت،ترقی نعت اوراستحکام نعت کی ایک عالمگیر ادبی تحریک ہے اورمجھے فخر ہے کہ کسی نہ کسی حیثیت سے اس عظیم ادبی تحریک کا میں بھی ایک ادنیٰ رکن ہوں۔
آپ کی مرتبہ کتاب ’’اردو نعت کی شعری روایت‘‘میں مبسوط ومعتبر اوربصیرت افروز مضامین شامل ہیں۔جنہیں بڑے سلیقے اورہنرمندی سے آپ کے ترتیب دیاہے۔آئندہ اردو نعت کی تعریف،تاریخ اورعصری تقاضوں پرکوئی گفتگو اس کتاب کے حوالہ کے بغیر مکمل نہ ہوسکے گی۔یقینا یہ اپنے موضوع پرایک دستاویز ہے۔
آپ کی مرتبہ کتاب ’’اردو نعت کی شعری روایت‘‘میں مبسوط ومعتبر اوربصیرت افروز مضامین شامل ہیں۔جنہیں بڑے سلیقے اورہنرمندی سے آپ کے ترتیب دیاہے۔آئندہ اردو نعت کی تعریف،تاریخ اورعصری تقاضوں پرکوئی گفتگو اس کتاب کے حوالہ کے بغیر مکمل نہ ہوسکے گی۔یقینا یہ اپنے موضوع پرایک دستاویز ہے۔
 
میں شکر گزار ہوں کہ اس کتاب میں آپ نے میرابھی اردونعت کے ارتقاء پرایک مضمون شامل کیاہے۔ادھر نعت پرمیرے چند مضامین ادبی رسائل میںشائع ہوئے ہیں جن کی نقل منسلک ہے۔کارلائقہ سے یاد فرماتے رہیں پرسان حال کو سلام کہہ دیں۔ادارہ نعت رنگ کے اراکین ڈاکٹر شہزاد احمد اورڈاکٹر عزیز احسن صاحبان کی خدمت میں مودٔبانہ سلام عرض ہے۔  
 
ee
میں شکر گزار ہوں کہ اس کتاب میں آپ نے میرابھی اردونعت کے ارتقاء پرایک مضمون شامل کیاہے۔ادھر نعت پرمیرے چند مضامین ادبی رسائل میںشائع ہوئے ہیں جن کی نقل منسلک ہے۔کارلائقہ سے یاد فرماتے رہیں پرسان حال کو سلام کہہ دیں۔ادارہ نعت رنگ کے اراکین ڈاکٹر شہزاد احمد اورڈاکٹر عزیز احسن صاحبان کی خدمت میں مودٔبانہ سلام عرض ہے۔
ڈاکٹر صابرسنبھلی ۔بھارت
 
۱۴/اکتوبر۲۰۱۵ء
==== ڈاکٹر صابرسنبھلی ۔بھارت ۔۱۴/اکتوبر۲۰۱۵ء====
 
امید ہے مع اہل وعیال بخیروعافیت ہوں گے۔آج سے ٹھیک ایک سال پہلے آپ کے مجلے’’نعت رنگ‘‘کے لیے آپ کی فرمائش پر تین مضمون برائے اشاعت ارسال کیے تھے۔اُس دن۱۴/اکتوبر ۲۰۱۴ء تھی۔مضامین کی رسید ایس۔ایم۔ایس سے مل گئی تھی۔اشاعت کی اطلاع ابھی تک نہیں ملی ہے۔مضامین بھیجنے کی برسی پرآپ سے تحریری طور پرمخاطب ہوں۔
امید ہے مع اہل وعیال بخیروعافیت ہوں گے۔آج سے ٹھیک ایک سال پہلے آپ کے مجلے’’نعت رنگ‘‘کے لیے آپ کی فرمائش پر تین مضمون برائے اشاعت ارسال کیے تھے۔اُس دن۱۴/اکتوبر ۲۰۱۴ء تھی۔مضامین کی رسید ایس۔ایم۔ایس سے مل گئی تھی۔اشاعت کی اطلاع ابھی تک نہیں ملی ہے۔مضامین بھیجنے کی برسی پرآپ سے تحریری طور پرمخاطب ہوں۔
تاریخ اورمہینہ تویادنہیںسردیوں میں میرے پڑوس Voda Fone کاٹاور خراب ہوگیا۔ایک ماہ سے زیادہ پریشان رہا۔اُس وقت کمپنی بدلنے کاخیال تھا۔سم میں اچھی خاصی رقم تھی۔کمپنی بدلنے پروہ ضائع ہوجاتی  اس لیے بے وجہ اوربے سبب بھی دوردور فون کیے۔ٹاور کے زیرسایہ کھڑے ہوکر کچھ بات چیت ہوجاتی تھی آپ سے بھی رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی مگررابطہ قائم نہیں ہوا۔معلوم ہواکہ اُس وقت آپ یورپ کے کسی ملک میں تھے۔واضح ہوکہ بھارت میں قاعدہ  یہ ہے کہ کمپنی بدلنے پر نمبر پہلا ہی رہتاہے گویا میرانمبراب بھی9719268584ہی ہے لیکن یہ سم اب ووڈافون کانہیں ہے  بلکہ ائرٹیل کاہے۔
تاریخ اورمہینہ تویادنہیںسردیوں میں میرے پڑوس Voda Fone کاٹاور خراب ہوگیا۔ایک ماہ سے زیادہ پریشان رہا۔اُس وقت کمپنی بدلنے کاخیال تھا۔سم میں اچھی خاصی رقم تھی۔کمپنی بدلنے پروہ ضائع ہوجاتی  اس لیے بے وجہ اوربے سبب بھی دوردور فون کیے۔ٹاور کے زیرسایہ کھڑے ہوکر کچھ بات چیت ہوجاتی تھی آپ سے بھی رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی مگررابطہ قائم نہیں ہوا۔معلوم ہواکہ اُس وقت آپ یورپ کے کسی ملک میں تھے۔واضح ہوکہ بھارت میں قاعدہ  یہ ہے کہ کمپنی بدلنے پر نمبر پہلا ہی رہتاہے گویا میرانمبراب بھی9719268584ہی ہے لیکن یہ سم اب ووڈافون کانہیں ہے  بلکہ ائرٹیل کاہے۔
ہاں توعرض کرنے مقصد یہ ہے کہ ایک سال کی مدت کم نہیں ہوتی جب اس مدت میں کسی طرح کی کوئی اطلاع نہیں ملی توسوچتاہوں کہ تینوں مضامین بھارت میں بھی اشاعت کے لیے بھیج دوںدونوں ملکوں کے قارئین الگ الگ ہیں محنت ضائع نہ ہوتواچھا ہی ہے ایک نعت بھی بھیج رہاہوں اگر پسند آئے تو کسی اشاعت میں شامل کرلیجیے گا۔
ہاں توعرض کرنے مقصد یہ ہے کہ ایک سال کی مدت کم نہیں ہوتی جب اس مدت میں کسی طرح کی کوئی اطلاع نہیں ملی توسوچتاہوں کہ تینوں مضامین بھارت میں بھی اشاعت کے لیے بھیج دوںدونوں ملکوں کے قارئین الگ الگ ہیں محنت ضائع نہ ہوتواچھا ہی ہے ایک نعت بھی بھیج رہاہوں اگر پسند آئے تو کسی اشاعت میں شامل کرلیجیے گا۔
ایروگرام کوموڑ کرلکھ رہاتھا۔جب پشت کے صفحے پرپانچ سطریں آگئیں تواحساس ہوااوران کو قلم زد کرکے اسی مضمون کودوبارہ لکھا ہے۔ہائی اسکول کے سر ٹیفکیٹ میں میری تاریخ ولادت ۱۵/جولائی ۱۹۴۱ء درج ہے۔یادداشت کی حالت ٹھیک نہیں۔پوتوں کے نام بھی بھول جاتا ہوں۔ بیٹھنے میں بھی پریشانی ہونے لگی ہے اتنی خراب حالت اس لیے کہ عمر بھر بلڈ پریشر Lowرہا۔
ایروگرام کوموڑ کرلکھ رہاتھا۔جب پشت کے صفحے پرپانچ سطریں آگئیں تواحساس ہوااوران کو قلم زد کرکے اسی مضمون کودوبارہ لکھا ہے۔ہائی اسکول کے سر ٹیفکیٹ میں میری تاریخ ولادت ۱۵/جولائی ۱۹۴۱ء درج ہے۔یادداشت کی حالت ٹھیک نہیں۔پوتوں کے نام بھی بھول جاتا ہوں۔ بیٹھنے میں بھی پریشانی ہونے لگی ہے اتنی خراب حالت اس لیے کہ عمر بھر بلڈ پریشر Lowرہا۔
احباب ومتعلقین کوسلام ودعائیں۔دعا کی ضرورت ہے۔
احباب ومتعلقین کوسلام ودعائیں۔دعا کی ضرورت ہے۔
 
ee
==== ڈاکٹر محمد افتخار شفیع۔ساہیوال ====
ڈاکٹر محمد افتخار شفیع۔ساہیوال
 
۲۳/ اگست۲۰۱۶
۲۳/ اگست۲۰۱۶
آپ کی فرستادہ کتابیں نظرنوازہوئیں۔یقین کیجئے یوں محسوس ہواجیسے جناب سرکار صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے آپ کواس سعادت کے لیے چن لیاہے۔کتابوں کوچوما اورسرپررکھا اصل کام تویہ ہے جوآپ لوگ کررہے ہیں۔ایک ایک سطر نورونکہت اورصدق رس جذبوں میں رچی ہوئی ہے۔آپ اور آپ کاصنفِ نعت کے حوالے سے ہونے والا کام پہلے بھی میرے لیے تعارف کا محتاج نہ تھا اب دیکھا تو پتہ چلا کہ یہ سعادت روزِبازو کی محتاج نہیں بلکہ اس میں رضائے الٰہی کاحصول اولیت رکھتاہے۔ان کتب ورسائل کے مندرجات کوابھی ایک نظردیکھا ہے آپ نے بہت سے نئے موضوعات پرکام کروایا ہے۔یہ اس بابرکت صنف کے نئے امکانات کی طرف اشارہ کررہاہے۔اس کا مستقبل اوربھی روشن ہے کیونکہ یہ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘کی عملی تعبیر کی کوشش میں اپنا حصّہ ڈالنے کی ادنیٰ سے کوشش ہے۔اس طرح نعت کے نئے خدوخال واضح ہوتے دکھائی دے رہے ہیں امید ہے کہ آنے والے دور میں اردونعت اسی کو بنیاد بنائے گی۔میں بہت جلد آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا میری مثال بھی سوت کی اٹی والی بڑھیا کی ہے جوعشاق میں نام درج کروانا چاہتی تھی ورنہ تومجھے اپنے اعمال کے سبب آقا  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے حجاب آتاہے۔میرے لیے دعا کیجئے گا۔
آپ کی فرستادہ کتابیں نظرنوازہوئیں۔یقین کیجئے یوں محسوس ہواجیسے جناب سرکار صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے آپ کواس سعادت کے لیے چن لیاہے۔کتابوں کوچوما اورسرپررکھا اصل کام تویہ ہے جوآپ لوگ کررہے ہیں۔ایک ایک سطر نورونکہت اورصدق رس جذبوں میں رچی ہوئی ہے۔آپ اور آپ کاصنفِ نعت کے حوالے سے ہونے والا کام پہلے بھی میرے لیے تعارف کا محتاج نہ تھا اب دیکھا تو پتہ چلا کہ یہ سعادت روزِبازو کی محتاج نہیں بلکہ اس میں رضائے الٰہی کاحصول اولیت رکھتاہے۔ان کتب ورسائل کے مندرجات کوابھی ایک نظردیکھا ہے آپ نے بہت سے نئے موضوعات پرکام کروایا ہے۔یہ اس بابرکت صنف کے نئے امکانات کی طرف اشارہ کررہاہے۔اس کا مستقبل اوربھی روشن ہے کیونکہ یہ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘کی عملی تعبیر کی کوشش میں اپنا حصّہ ڈالنے کی ادنیٰ سے کوشش ہے۔اس طرح نعت کے نئے خدوخال واضح ہوتے دکھائی دے رہے ہیں امید ہے کہ آنے والے دور میں اردونعت اسی کو بنیاد بنائے گی۔میں بہت جلد آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا میری مثال بھی سوت کی اٹی والی بڑھیا کی ہے جوعشاق میں نام درج کروانا چاہتی تھی ورنہ تومجھے اپنے اعمال کے سبب آقا  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے حجاب آتاہے۔میرے لیے دعا کیجئے گا۔
 
ee
==== احمد جاوید۔بھارت ====
احمد جاوید۔بھارت
 
۲۷/ دسمبر۲۰۱۲
۲۷/ دسمبر۲۰۱۲
ویسے تو آپ ان ہی دنوں سے ہماری ادبی مجلسوں کا حصہ ہیں جب ’نعت رنگ‘ کا پہلا شمارہ آیا تھااور اپنے معیار و مشمولات کے لیے مخصوص علمی و ادبی حلقوں میں موضوع گفتگوبن گیا تھا۔ پھر ٹی وی پر آپ کے پروگراموں اور خود آپ کے نغمات سرمدی نے آپ کو گھر اور خاندان کا حصہ بھی بنا دیا۔
ویسے تو آپ ان ہی دنوں سے ہماری ادبی مجلسوں کا حصہ ہیں جب ’نعت رنگ‘ کا پہلا شمارہ آیا تھااور اپنے معیار و مشمولات کے لیے مخصوص علمی و ادبی حلقوں میں موضوع گفتگوبن گیا تھا۔ پھر ٹی وی پر آپ کے پروگراموں اور خود آپ کے نغمات سرمدی نے آپ کو گھر اور خاندان کا حصہ بھی بنا دیا۔
 
رہی سہی دوری بھی عزیزگرامی قدر مولانا خوشتر نورانی اور صاحبزادہ علامہ اسیدالحق عاصم قادری عثمانی بدایونی( زاداللہ عمرہما و اقبالہما) کے دم قدم نے دور کردی لیکن یہ میری کوتاہ دستی ہے کہ آپ تقاضے کے باوجود کبھی ’نعت رنگ‘ کی محفل میں باریاب نہ ہوسکا۔ادھر چند ماہ سے لکھنؤ میں مقیم ہوں اور میں چاہوں گا کہ اب آپ جب بھی دہلی اور اجمیر معلی آئیں، اپنے سفر میں لکھنؤ کوبھی ضرور شامل کریں۔ کاش! مستقبل قریب میں ملاقات کی کوئی سبیل نکل سکتی۔
 
پیش خدمت مضمون( وسیم ؔ بریلوی: نئی نعت کا پیشرو شاعر) میرے کرم فرما شاعرو ادیب قمرؔ گونڈوی صاحب کے تقاضوں کا نتیجہ ہے جن کی کتاب’ وسیم بریلوی شخص و شاعر ‘ زیر طبع ہے۔ موصوف بڑے جواں حوصلہ بزرگ ہیں ورنہ ستر اسی سال کی عمر میں ایک ایسے شخص کا اس شاعر کی شخصیت اور شاعری پرقلم اٹھانا جو ان کو چچا کہہ کر مخاطب کرتا ہے، چہ معنی دارد؟قمر ؔ صاحب اگلے وقتوں کی نشانی ہیں۔ حضرت جگرؔ مراد آبادی کے خادم خاص رہے ہیں۔جگر ؔ، حیرتؔ اور مجروحؔ کی یادوں کو سینے سے لگائے پھرتے ہیں۔ مجروحؔ سلطانپوری پر ان کی کتاب یوپی اردو اکادمی کے مالی تعاون سے شائع ہوئی تھی اور اس حوالہ سے کہ مجروح ؔ غزل کے بڑے شاعر ہیں یا فیض،ؔ بہت دنوں تک بحث میںرہی تھی۔ وسیمؔ جن کو اردو کے عام نقاد مشاعرے کا شاعر باورکرکے زحمت توجہ نہیں اٹھاتے،ان کے تعلق سے موصوف کی رائے ہے کہ وہ کسی ادبی آستانہ کے دریوزہ گر یا کسی گروہ کا حصہ ہوتے تو یہ بے اعتنائی ہرگز روانہ رکھی جاتی۔ضروری نہیں ہے کہ ہم ان سے صد فیصد متفق ہوں لیکن اس میں کچھ نہ کچھ سچائی ضرور ہے۔
رہی سہی دوری بھی عزیزگرامی قدر مولانا خوشتر نورانی اور صاحبزادہ علامہ اسیدالحق عاصم قادری عثمانی بدایونی( زاداللہ عمرہما و اقبالہما) کے دم قدم نے دور کردی لیکن یہ میری کوتاہ دستی ہے کہ آپ تقاضے کے باوجود کبھی ’نعت رنگ‘ کی محفل میں باریاب نہ ہوسکا۔ادھر چند ماہ سے لکھنؤ میں مقیم ہوں اور میں چاہوں گا کہ اب آپ جب بھی دہلی اور اجمیر معلی آئیں، اپنے سفر میں لکھنؤ کوبھی ضرور شامل کریں۔ کاش! مستقبل قریب میں ملاقات کی کوئی سبیل نکل سکتی۔
جہاں تک میری معروضات کا تعلق ہے، میں اس لیے بھی آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کررہاہوں کہ آپ اس عہد کے سب سے کامیاب اور منفرد شاعر بھی ہیں اور نعتیہ شاعری کے اسکالر بھی۔ قابل اشاعت ہوتو شامل کرلیں ورنہ خیال نہ فرمالیں، مجھے صرف آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔میری آراء کسی محقق یا نقاد کی نہیں، شعرو ادب کے ایک عام قاری و سامع کی ہیں۔مضمون کے اس حصہ میں جہاں اردوکی نعتیہ شاعری کا پس منظر و پیش منظرآیا ہے ضروری سمجھیں تو ان شعراء کا نام جوڑ دیں جن کا نام رہ گیا ہو۔خاص طور پر پاکستانی شعراء کا۔کیونکہ ہمارے درمیان سرحدوں کے آر پارکی دوری اوراطلاعاتی فاصلہ بھی حایل ہے اور میری یاد داشت کا قصوربھی ان کے چھوٹ جانے کے لیے ذمہ دار ہوسکتا ہے۔اسی طرح’ نعت رنگ ‘کے حوالے سے جہاںپر نعتیہ ادب کے محققین و نقاد کا نام آیا ہے ، آپ اس پر ضرور نظر ثانی فرمالیں تاکہ کوئی اہم نام چھوٹ نہ جائے ۔   
 
گفتگو طویل ہوگئی ، بار خاطر نہ ہوتو روحی جاویدبھی سلام عرض کر رہی ہیںاور طارق، خالد، راشد،صادق، صبا اور ندابھی آپ کو سلام لکھوا رہے ہیں ، آپ ان کے محبوب شاعر و ثنا خوان رسول جو ٹھہرے۔اب دہلی آئیں تو آپ انہیں شرف ملاقات ضرور بخشیں۔
 
  ee
پیش خدمت مضمون( وسیم ؔ بریلوی: نئی نعت کا پیشرو شاعر) میرے کرم فرما شاعرو ادیب قمرؔ گونڈوی صاحب کے تقاضوں کا نتیجہ ہے جن کی کتاب’ وسیم بریلوی شخص و شاعر ‘ زیر طبع ہے۔ موصوف بڑے جواں حوصلہ بزرگ ہیں ورنہ ستر اسی سال کی عمر میں ایک ایسے شخص کا اس شاعر کی شخصیت اور شاعری پرقلم اٹھانا جو ان کو چچا کہہ کر مخاطب کرتا ہے، چہ معنی دارد؟قمر ؔ صاحب اگلے وقتوں کی نشانی ہیں۔ حضرت جگرؔ مراد آبادی کے خادم خاص رہے ہیں۔جگر ؔ، حیرتؔ اور مجروحؔ کی یادوں کو سینے سے لگائے پھرتے ہیں۔ مجروحؔ سلطانپوری پر ان کی کتاب یوپی اردو اکادمی کے مالی تعاون سے شائع ہوئی تھی اور اس حوالہ سے کہ مجروح ؔ غزل کے بڑے شاعر ہیں یا فیض،ؔ بہت دنوں تک بحث میں رہی تھی۔ وسیمؔ جن کو اردو کے عام نقاد مشاعرے کا شاعر باورکرکے زحمت توجہ نہیں اٹھاتے،ان کے تعلق سے موصوف کی رائے ہے کہ وہ کسی ادبی آستانہ کے دریوزہ گر یا کسی گروہ کا حصہ ہوتے تو یہ بے اعتنائی ہرگز روانہ رکھی جاتی۔ضروری نہیں ہے کہ ہم ان سے صد فیصد متفق ہوں لیکن اس میں کچھ نہ کچھ سچائی ضرور ہے۔
احسان اکبر۔اسلام آباد
 
یکم/ مئی۲۰۱۶
 
جہاں تک میری معروضات کا تعلق ہے، میں اس لیے بھی آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کررہاہوں کہ آپ اس عہد کے سب سے کامیاب اور منفرد شاعر بھی ہیں اور نعتیہ شاعری کے اسکالر بھی۔ قابل اشاعت ہوتو شامل کرلیں ورنہ خیال نہ فرمالیں، مجھے صرف آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔میری آراء کسی محقق یا نقاد کی نہیں، شعرو ادب کے ایک عام قاری و سامع کی ہیں۔مضمون کے اس حصہ میں جہاں اردوکی نعتیہ شاعری کا پس منظر و پیش منظرآیا ہے ضروری سمجھیں تو ان شعراء کا نام جوڑ دیں جن کا نام رہ گیا ہو۔خاص طور پر پاکستانی شعراء کا۔کیونکہ ہمارے درمیان سرحدوں کے آر پارکی دوری اوراطلاعاتی فاصلہ بھی حایل ہے اور میری یاد داشت کا قصوربھی ان کے چھوٹ جانے کے لیے ذمہ دار ہوسکتا ہے۔اسی طرح’ نعت رنگ ‘کے حوالے سے جہاںپر نعتیہ ادب کے محققین و نقاد کا نام آیا ہے ، آپ اس پر ضرور نظر ثانی فرمالیں تاکہ کوئی اہم نام چھوٹ نہ جائے ۔   
 
 
گفتگو طویل ہوگئی ، بار خاطر نہ ہوتو روحی جاویدبھی سلام عرض کر رہی ہیں اور طارق، خالد، راشد،صادق، صبا اور ندابھی آپ کو سلام لکھوا رہے ہیں ، آپ ان کے محبوب شاعر و ثنا خوان رسول جو ٹھہرے۔اب دہلی آئیں تو آپ انہیں شرف ملاقات ضرور بخشیں۔
 
====احسان اکبر۔اسلام آباد ====
 
یکم/ مئی۲۰۱۶
 
 
بہت عرصے سے مجھے خط لکھنا نصیب نہیں ہوا۔کوئی چیز بھی چھپنے کونہ بھیجی ساراعرصہ آپ کی طرف سے بھی کوئی سلسلہ جنبانی نہ ہوئی۔خداکرے سب خیرہو حضرت مولانا جامیؒ کی مشہور ومعروف نعت’’وصل اللہ علیٰ نورکزوشد نورھا  پیدا‘‘کااردومیں منظوم ترجمہ کیا تھا۔آپ کوبھجوانے میں تامل کیاکہ بعض مسائل ان کی یادگار نعت کے ترجمے میں بڑی بڑی رکاوٹوں کی شکل بن گئے تھے مثلاً پہلے ہی شعر(مطلع)کے دوسرے مصرعے میں جب وہ زمیں کوساکن کہتے ہیں تواکیسویں صدی میں بیٹھا ہوا آدمی کیسے ترجمہ میں زمیں کوساکن باندھ دے پھر ایسانہ کرے تونہ ترجمہ ہوانہ ترجمانی۔
بہت عرصے سے مجھے خط لکھنا نصیب نہیں ہوا۔کوئی چیز بھی چھپنے کونہ بھیجی ساراعرصہ آپ کی طرف سے بھی کوئی سلسلہ جنبانی نہ ہوئی۔خداکرے سب خیرہو حضرت مولانا جامیؒ کی مشہور ومعروف نعت’’وصل اللہ علیٰ نورکزوشد نورھا  پیدا‘‘کااردومیں منظوم ترجمہ کیا تھا۔آپ کوبھجوانے میں تامل کیاکہ بعض مسائل ان کی یادگار نعت کے ترجمے میں بڑی بڑی رکاوٹوں کی شکل بن گئے تھے مثلاً پہلے ہی شعر(مطلع)کے دوسرے مصرعے میں جب وہ زمیں کوساکن کہتے ہیں تواکیسویں صدی میں بیٹھا ہوا آدمی کیسے ترجمہ میں زمیں کوساکن باندھ دے پھر ایسانہ کرے تونہ ترجمہ ہوانہ ترجمانی۔
یونہی چوتھے شعر کے دوسرے مصرعہ میں مولانا نے آنحضور  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خال کوخال ہندی سے تشبہیہ دیتے ہیں تومیں ہندی خال کومشبہ بہٖ کادرجہ دیتے ہوئے لرز گیا اسی طرح آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زلف مبارک کامشبہ بہٖ(یا مسقاررمنہ)شب تاریک کونہیں بناسکا ۔ تیسراالجھن کامقام یہ بناکہ آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کالقب مُزّمّل قرآن پاک میں بیان ہوا مگر وزن کی ضرورت کے تحت حضرت مولانا نے اسے مُزمّل ہی باندھ دیاتھا میں نے اسے بھی قرآنی تشدید مکرر کے ساتھ باندھا۔
یونہی چوتھے شعر کے دوسرے مصرعہ میں مولانا نے آنحضور  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خال کوخال ہندی سے تشبہیہ دیتے ہیں تومیں ہندی خال کومشبہ بہٖ کادرجہ دیتے ہوئے لرز گیا اسی طرح آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زلف مبارک کامشبہ بہٖ(یا مسقاررمنہ)شب تاریک کونہیں بناسکا ۔ تیسراالجھن کامقام یہ بناکہ آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کالقب مُزّمّل قرآن پاک میں بیان ہوا مگر وزن کی ضرورت کے تحت حضرت مولانا نے اسے مُزمّل ہی باندھ دیاتھا میں نے اسے بھی قرآنی تشدید مکرر کے ساتھ باندھا۔
اس ترجمے نے میرابہت وقت لیا بارگاہ رسالت  میں اگرقبول ومنظور ہوجائے توسمجھوں گا کہ حق ترجمہ اداکرنے میں غفلت نہیںہوئی اس عریضہ کوبھی نعت کے متن اورترجمہ کے ہمراہ طبع کردیاجائے تومحبان رسول کیاجانب کچھ دعائیں مل جائیں گی۔
اس ترجمے نے میرابہت وقت لیا بارگاہ رسالت  میں اگرقبول ومنظور ہوجائے توسمجھوں گا کہ حق ترجمہ اداکرنے میں غفلت نہیںہوئی اس عریضہ کوبھی نعت کے متن اورترجمہ کے ہمراہ طبع کردیاجائے تومحبان رسول کیاجانب کچھ دعائیں مل جائیں گی۔
 
ee
====ڈاکٹر مجید اللہ قادری۔کراچی ====
ڈاکٹر مجید اللہ قادری۔کراچی
 
۲۵/ اپریل۲۰۱۶  
۲۵/ اپریل۲۰۱۶  
کچھ نعت کے طبقے کاعالم ہی نرالا ہے
کچھ نعت کے طبقے کاعالم ہی نرالا ہے
 
سکتہ میں پڑی ہے عقل چکر میںگماں آیا
سکتہ میں پڑی ہے عقل چکر میں گماں آیا


(حسان الہند امام احمد رضا)
(حسان الہند امام احمد رضا)
اللہ عزوجل نے اپنی آخری کتاب میں اپنے آخری نبی  حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدح سرائی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:ورفعنا لک ذکرک’’اورہم نے تمہارے لیے تمہاراذکر بلند کردیاہے۔‘‘اورنام چونکہ محمد رسو ل اللہ رکھا جس کی تعریف مکمل ہی نہیںہوسکتی اس لیے ہرزمانے میں اہل محبت میں اہل محبت آپ کی نعت کہہ کراپنے رنگ کاحصّہ آپ کے حضور پیش کرکے اللہ عزوجل کی رضا حاصل کرتے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ:
اللہ عزوجل نے اپنی آخری کتاب میں اپنے آخری نبی  حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدح سرائی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:ورفعنا لک ذکرک’’اورہم نے تمہارے لیے تمہاراذکر بلند کردیاہے۔‘‘اورنام چونکہ محمد رسو ل اللہ رکھا جس کی تعریف مکمل ہی نہیںہوسکتی اس لیے ہرزمانے میں اہل محبت میں اہل محبت آپ کی نعت کہہ کراپنے رنگ کاحصّہ آپ کے حضور پیش کرکے اللہ عزوجل کی رضا حاصل کرتے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ:
اے رضاؔ خودصاحب قرآں ہے  مداح حضور
اے رضاؔ خودصاحب قرآں ہے  مداح حضور
تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت رسول اللہ کی
تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت رسول اللہ کی


(حسان الہند امام احمد رضا)
(حسان الہند امام احمد رضا)
دورحاضر میں پچھلے ۲۵سالوں سے مسلسل نعت کی رنگت بکھیرنے والے اسی صاحب نعت حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نور کاحصّہ پانے والے!واجب التعظیم محترم سید صبیح الدین رحمانی اپنے آقاومولا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمپرہزاروں اہل محبت کی طرف سے پیش کئے گئے رنگوں کوجمع کررہے ہیں اورچند ماہ قبل ہی اس فقیر کو’’نعت رنگ کا۲۵واں گلدستہ پیش کیا اورحکم دیا کہ اس گلدستے کی جو خوشبو آپ کو محسوس  ہو اس کابھی اظہار بھی فرمائیے۔
دورحاضر میں پچھلے ۲۵سالوں سے مسلسل نعت کی رنگت بکھیرنے والے اسی صاحب نعت حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نور کاحصّہ پانے والے!واجب التعظیم محترم سید صبیح الدین رحمانی اپنے آقاومولا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمپرہزاروں اہل محبت کی طرف سے پیش کئے گئے رنگوں کوجمع کررہے ہیں اورچند ماہ قبل ہی اس فقیر کو’’نعت رنگ کا۲۵واں گلدستہ پیش کیا اورحکم دیا کہ اس گلدستے کی جو خوشبو آپ کو محسوس  ہو اس کابھی اظہار بھی فرمائیے۔
راقم نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کی تعمیل کرتے ہوئے نہ صرف اس گلدستے کی مہک کوسونگھا بلکہ راقم کے پاس کئی پچھلے گلدستے  تھے ان کوبھی سامنے رکھا اور ان کی خوشبوؤں سے اپنی روح کومعطر کرتارہا اور پھر آہستہ آہستہ ان خوشبوؤں کی لہروں کوالفاظوں کی صورت میں منتقل کرناشروع کیا اور اب پیش خدمت ہے رنگ مجید۔
راقم نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کی تعمیل کرتے ہوئے نہ صرف اس گلدستے کی مہک کوسونگھا بلکہ راقم کے پاس کئی پچھلے گلدستے  تھے ان کوبھی سامنے رکھا اور ان کی خوشبوؤں سے اپنی روح کومعطر کرتارہا اور پھر آہستہ آہستہ ان خوشبوؤں کی لہروں کوالفاظوں کی صورت میں منتقل کرناشروع کیا اور اب پیش خدمت ہے رنگ مجید۔
  راقم اردو ادب سے بالکل کوراہے اورساری زندگی کی علم تجربات پڑھانے میں گزار دی البتہ اس علم حجریات کے ذریعہ نعت ضرور سمجھ میں آئی۔
  راقم اردو ادب سے بالکل کوراہے اورساری زندگی کی علم تجربات پڑھانے میں گزار دی البتہ اس علم حجریات کے ذریعہ نعت ضرور سمجھ میں آئی۔
اے مدعیو!خاک کوتم خاک نہ سمجھے
اے مدعیو!خاک کوتم خاک نہ سمجھے
اس خاک میں مدفون شہہ بطحا ہے ہمارا
اس خاک میں مدفون شہہ بطحا ہے ہمارا
اسی شہہ بطحا سے محبت اورعقیدت کرنے والے سینکڑوں نہیں بلکہ عشاق رسول کے منظور ومنشور کلام کو حضرت سید صبیح الدین رحمانی اپنے سالانہ نعت رنگ کے گلدستے میں سجاتے ہیں آپ یہ کام تسلسل کے ساتھ پچھلے ۲۵سالوں سے انجام دئے رہے ہیں اس استقامت پرلاکھوں سلام کہ اس دور نفسہ نفسی میں بھی نورمجسم حضرت محمد مصطفی  کے چشم وچراغ  اس سلسلے کوجاری رکھے ہوئے ہیں۔اللہ پاک ان کواوران کے ادارۂ نعت ریسرچ سینٹر کے تمام ہی احباب کو نظر بد سے بچائے اور تادم حیات اس کام کویعنی اس گلدستہ کوہرسال اسی طرح سجانے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین۔
اسی شہہ بطحا سے محبت اورعقیدت کرنے والے سینکڑوں نہیں بلکہ عشاق رسول کے منظور ومنشور کلام کو حضرت سید صبیح الدین رحمانی اپنے سالانہ نعت رنگ کے گلدستے میں سجاتے ہیں آپ یہ کام تسلسل کے ساتھ پچھلے ۲۵سالوں سے انجام دئے رہے ہیں اس استقامت پرلاکھوں سلام کہ اس دور نفسہ نفسی میں بھی نورمجسم حضرت محمد مصطفی  کے چشم وچراغ  اس سلسلے کوجاری رکھے ہوئے ہیں۔اللہ پاک ان کواوران کے ادارۂ نعت ریسرچ سینٹر کے تمام ہی احباب کو نظر بد سے بچائے اور تادم حیات اس کام کویعنی اس گلدستہ کوہرسال اسی طرح سجانے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین۔
حضرت صبیح الدین دورحاضر میں اس کام کوجس طرح آگے بڑھایاہے قابل تحسین ہے۔ برصغیر میں درجنوں ادارۂ اردو ادب کے حوالے سے کام کررہے ہیں مگراردو ادب کے اس شعبۂ ’’نعت‘‘میں حضرت والا نے۲۵سال میں اتنا تحقیقی وعلمی کام جمع کرلیا ہے کہ اگر ادارے کے افراد ’’اردو نعت انسائیکلو پیڈیا‘‘تیار کرنا چاہیں تابآسانی یہ کام چند ضخیم جلدوں میںمکمل کرسکتے ہیں ساتھ ہی ساتھ برصغیر کی ان تمام جامعات میںجہاں شعبہ اردو قائم ہے وہاں گوشہ نعت قائم کر کے M.A کی سطح پراردوادب میں نعت گوئی پرSpecializationبھی کراسکتے ہیں۔
حضرت صبیح الدین دورحاضر میں اس کام کوجس طرح آگے بڑھایاہے قابل تحسین ہے۔ برصغیر میں درجنوں ادارۂ اردو ادب کے حوالے سے کام کررہے ہیں مگراردو ادب کے اس شعبۂ ’’نعت‘‘میں حضرت والا نے۲۵سال میں اتنا تحقیقی وعلمی کام جمع کرلیا ہے کہ اگر ادارے کے افراد ’’اردو نعت انسائیکلو پیڈیا‘‘تیار کرنا چاہیں تابآسانی یہ کام چند ضخیم جلدوں میںمکمل کرسکتے ہیں ساتھ ہی ساتھ برصغیر کی ان تمام جامعات میںجہاں شعبہ اردو قائم ہے وہاں گوشہ نعت قائم کر کے M.A کی سطح پراردوادب میں نعت گوئی پرSpecializationبھی کراسکتے ہیں۔
اس’’گوشۂ نعت‘‘کے لیے ادارہ نعت ریسرچ سینٹر کے۲۵گلدستے اوراس سے متعلق متعدد کتب Specializationکے Course Contentکی ٹیکسٹ بکس کے طورپر استعمال کی جاسکتی ہیں اس سلسلے میں ڈاکٹر سہیل شفیق جو جامعہ کراچی میں شعبۂ اسلامی تاریخ کے ایک سینئر استاد ہیں اور نعت رنگ کے ابتدائی۲۰گلدستوں کے اشاریہ کے مرتب نگار ہیںکارہانمایاں انجام دے سکتے ہیں۔ ادارے کے ایک ایک فرد جن میں ڈاکٹر عزیزاحسن،ڈاکٹر شہزاد احمد،ڈاکٹر محمدطاہرقریشی اورڈاکٹر داؤد عثمانی شامل ہیں اس نعت رنگ کے گلدستے کامہکتا پھول ہیں نعت کےSpecializationکا Syllabus باسآنی تیارکرسکتے ہیں۔آخر میں اس گلدستہ نعت رنگ کے روح رواں کوہدیہ تبریک پیش کرتاہوں جو نہ صرف اپنے گلدستے کوہری بھری ڈالیوں اورتازہ مہکتے پھولوں سے سجا رہے ہیں بلکہ اس میں جگہ جگہ وہ خشک شاخیں بھی پرورہے ہیں  جوآہستہ آہستہ ہری بھری ہوتی جارہیں ہیں:
اس’’گوشۂ نعت‘‘کے لیے ادارہ نعت ریسرچ سینٹر کے۲۵گلدستے اوراس سے متعلق متعدد کتب Specializationکے Course Contentکی ٹیکسٹ بکس کے طورپر استعمال کی جاسکتی ہیں اس سلسلے میں ڈاکٹر سہیل شفیق جو جامعہ کراچی میں شعبۂ اسلامی تاریخ کے ایک سینئر استاد ہیں اور نعت رنگ کے ابتدائی۲۰گلدستوں کے اشاریہ کے مرتب نگار ہیںکارہانمایاں انجام دے سکتے ہیں۔ ادارے کے ایک ایک فرد جن میں ڈاکٹر عزیزاحسن،ڈاکٹر شہزاد احمد،ڈاکٹر محمدطاہرقریشی اورڈاکٹر داؤد عثمانی شامل ہیں اس نعت رنگ کے گلدستے کامہکتا پھول ہیں نعت کےSpecializationکا Syllabus باسآنی تیارکرسکتے ہیں۔آخر میں اس گلدستہ نعت رنگ کے روح رواں کوہدیہ تبریک پیش کرتاہوں جو نہ صرف اپنے گلدستے کوہری بھری ڈالیوں اورتازہ مہکتے پھولوں سے سجا رہے ہیں بلکہ اس میں جگہ جگہ وہ خشک شاخیں بھی پرورہے ہیں  جوآہستہ آہستہ ہری بھری ہوتی جارہیں ہیں:
گبند خضرا کے فیض عام سے  
گبند خضرا کے فیض عام سے  
ہرجگہ جلوہ نما ہے نعت رنگ
ہرجگہ جلوہ نما ہے نعت رنگ
اور بھی ارضِ وطن میں ہیں ولے  
اور بھی ارضِ وطن میں ہیں ولے  
سب شماروں سے جداہے نعت رنگ
سب شماروں سے جداہے نعت رنگ
 
ee
====تنویرپھول۔امریکہ ====
تنویرپھول۔امریکہ
۱۵/ اکتوبر۲۰۱۶
۱۵/ اکتوبر۲۰۱۶
’’نعت رنگ‘‘ کا شمارہ نمبر ۲۵(سلور جوبلی نمبر) برادرم شبیراحمد انصاری صاحب اور برادرم امتیاز الملک آسی سلطانی صاحب کی وساطت سے موصول ہُوا جسے دیکھ کر مسرت ہوئی ۔ مضامین نثر  و نظم کاانتخاب خوب ہے جس کے لئے آپ مبارک باد کے مستحق ہیں ۔ کمپوزر صاحب کی توجہ کے لئے عرض ہے کہ صفحہ نمبر ۳۱ پر دوسری سطر میں سورۃ الانبیاء کی آیت درست تحریر نہیں کی گئی ۔ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب سے آپ کی ملاقات اور اُن کی طرف سے منہاج یونیورسٹی میں نعت چیئر قائم کرنے کا  ارادہ نہایت خوش آئند ہے ۔ اس شمارے میں ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کا  پُر مغز مقالہ پسند آیا ، اس مقالے میں بھی کمپوزنگ کی غلطی ہے ، صفحہ نمبر ۱۰۸ پر ’’ الفقر فخری‘‘ والی روایت تحریر کرتے ہوئے دونوں الفاظ کے درمیان حرف’’ وائو‘‘ لگانا درست نہیں ہے ۔ یاد رہے کہ فقر کا  لفظ  محتاجی کے علاوہ  درویشی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے (بحوالہ فیروزاللغات) ۔  عام طور پر ’’فقیر‘‘ کا لفظ ’’غنی‘‘ کے مقابلے میں آتا ہے ، علامہ اقبال نے کہا  :
’’نعت رنگ‘‘ کا شمارہ نمبر ۲۵(سلور جوبلی نمبر) برادرم شبیراحمد انصاری صاحب اور برادرم امتیاز الملک آسی سلطانی صاحب کی وساطت سے موصول ہُوا جسے دیکھ کر مسرت ہوئی ۔ مضامین نثر  و نظم کاانتخاب خوب ہے جس کے لئے آپ مبارک باد کے مستحق ہیں ۔ کمپوزر صاحب کی توجہ کے لئے عرض ہے کہ صفحہ نمبر ۳۱ پر دوسری سطر میں سورۃ الانبیاء کی آیت درست تحریر نہیں کی گئی ۔ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب سے آپ کی ملاقات اور اُن کی طرف سے منہاج یونیورسٹی میں نعت چیئر قائم کرنے کا  ارادہ نہایت خوش آئند ہے ۔ اس شمارے میں ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کا  پُر مغز مقالہ پسند آیا ، اس مقالے میں بھی کمپوزنگ کی غلطی ہے ، صفحہ نمبر ۱۰۸ پر ’’ الفقر فخری‘‘ والی روایت تحریر کرتے ہوئے دونوں الفاظ کے درمیان حرف’’ وائو‘‘ لگانا درست نہیں ہے ۔ یاد رہے کہ فقر کا  لفظ  محتاجی کے علاوہ  درویشی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے (بحوالہ فیروزاللغات) ۔  عام طور پر ’’فقیر‘‘ کا لفظ ’’غنی‘‘ کے مقابلے میں آتا ہے ، علامہ اقبال نے کہا  :
 
  تو غنی از ہر دوعالم ، من فقیر  
 
  مولانا ماہرالقادری کے سلام کے یہ اشعار اسی حوالے سے ہیں :  
تو غنی از ہر دوعالم ، من فقیر  
سلام اُس  پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی   
 
  سلام  اُس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی
 
مولانا ماہرالقادری کے سلام کے یہ اشعار اسی حوالے سے ہیں :  
 
 
سلام اُس  پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی   
 
سلام  اُس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی
 
سلام اُس پر کہ تھا  ’’الفقر فخری‘‘ جس کا سرمایہ
سلام اُس پر کہ تھا  ’’الفقر فخری‘‘ جس کا سرمایہ
سلام اُس پر کہ جس کے جسم اطہر کا  نہ تھا  سایہ
سلام اُس پر کہ جس کے جسم اطہر کا  نہ تھا  سایہ
 
سلام اُس پر جو امت کے لئے راتوںکوروتاتھا
سلام اُس پر جو امت کے لئے راتوںکوروتاتھا
سلام اُس پر جو فرشِ خاک پر جاڑوںمیںسوتاتھا
 
صفحہ نمبر ۱۱۷ پر استاد قمر جلالوی کے جس شعر کا حوالہ ہے اُس میں چُپ بیٹھنے اور اپنے گھر میں شرمانے کا ذکر نعتیہ ہرگز نہیں بلکہ غزلیہ ہے ۔ اسی طرح کا ایک شعر اعجاز رحمانی کے مجموعہ ٔ  نعت ’’آسمان رحمت‘‘ کے صفحہ نمبر ۷۴ پر بھی ہے :
سلام اُس پر جو فرشِ خاک پر جاڑوںمیںسوتاتھا
 
 
صفحہ نمبر ۱۱۷ پر استاد قمر جلالوی کے جس شعر کا حوالہ ہے اُس میں چُپ بیٹھنے اور اپنے گھر میں شرمانے کا ذکر نعتیہ ہرگز نہیں بلکہ غزلیہ ہے ۔ اسی طرح کا ایک شعر اعجاز رحمانی کے مجموعہ ٔ  نعت ’’آسمان رحمت‘‘ کے صفحہ نمبر ۷۴ پر بھی ہے :
 
 
ہر اِک موسم ہے اُن کے گیسو  و رخسار کا موسم
ہر اِک موسم ہے اُن کے گیسو  و رخسار کا موسم
  نہ کوئی شب ہماری ہے ، نہ کوئی دن ہمارا ہے
  نہ کوئی شب ہماری ہے ، نہ کوئی دن ہمارا ہے
 
یہ حقیقت ہے کہ غلطیاں سبھی سے ہوتی ہیں کیونکہ سب انسان ہیں ۔ استاد قمر جلالوی کی غزل کا یہ مشہور مصرعہ بھی معیاری نہیں لگتا : غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں اس مصرعے میں ’’آوازوں میں‘‘ کا استعمال کھٹکتا ہے ، اس کی جگہ شاید یہ مناسب ہوتا : خاموش زباں سے غنچے بھی بجلی کو پکارا کرتے ہیں۔
 
صفحہ نمبر ۱۳۲ پر تحریر ہے ’’ کبریا کا لفظ ہمارے ہاں بڑے بڑوں نے اللہ کے صفاتی نام کے طور پر استعمال کیا ہیــ‘‘ ۔ یہ حقیقت ہے کہ اُردو میں ایسا ہی ہے ، اسی سے لفظ ’’کبریائی‘‘ بھی بنا ہے جس طرح رحمن سے رحمانی اور رحیم و کریم سے رحیمی و کریمی ۔ علامہ اقبال کے اس شعر میں بھی یہی صورت ہے :  
یہ حقیقت ہے کہ غلطیاں سبھی سے ہوتی ہیں کیونکہ سب انسان ہیں ۔ استاد قمر جلالوی کی غزل کا یہ مشہور مصرعہ بھی معیاری نہیں لگتا : غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں اس مصرعے میں ’’آوازوں میں‘‘ کا استعمال کھٹکتا ہے ، اس کی جگہ شاید یہ مناسب ہوتا : خاموش زباں سے غنچے بھی بجلی کو پکارا کرتے ہیں۔
 
 
صفحہ نمبر ۱۳۲ پر تحریر ہے ’’ کبریا کا لفظ ہمارے ہاں بڑے بڑوں نے اللہ کے صفاتی نام کے طور پر استعمال کیا ہیــ‘‘ ۔ یہ حقیقت ہے کہ اُردو میں ایسا ہی ہے ، اسی سے لفظ ’’کبریائی‘‘ بھی بنا ہے جس طرح رحمن سے رحمانی اور رحیم و کریم سے رحیمی و کریمی ۔ علامہ اقبال کے اس شعر میں بھی یہی صورت ہے :  
 
 
اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں
اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں
 
تو اقبالؔ اُس کو بتلاتا ، مقامِ کبریا کیا ہے
تو اقبالؔ اُس کو بتلاتا ، مقامِ کبریا کیا ہے
بات دراصل یہ ہے کہ ہر زبان کا الگ الگ انداز ہے ۔ایک زبان کا لفظ جب دوسری زبان میں آجائے تو ضروری نہیں کہ معانی و اعراب و قواعد ہوبہو ایک ہی ہوں ، مثال کے طور پر عربی میں ’’رقیب‘‘ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے لیکن فارسی اور اُردو میں یہ لفظ جن معنوں میں استعمال ہوتا ہے اسے سب ہی جانتے ہیں۔عربی لفظ ’’ صَدَقہ‘‘ اُردو میں حرف دال کے سکون کے ساتھ استعمال ہوتا ہے ، ’’کلمہ‘‘ عربی میںمونث ہے جبکہ اُردو میں مذکر ، علیٰ ہذا القیاس لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اس میں کھلی چھوٹ ہو ۔ صفحہ نمبر ۲۶۶ پر عزیز لدھیانوی کے اس شعر میں لفظ ’’عرب‘‘ کے درمیانی حرف کو مفتوح کی جگہ ساکن باندھنا غلط ہے :
 
حق کی مدد سے بالیقیں
 
حامی شہِ عرب و عجم
بات دراصل یہ ہے کہ ہر زبان کا الگ الگ انداز ہے ۔ایک زبان کا لفظ جب دوسری زبان میں آجائے تو ضروری نہیں کہ معانی و اعراب و قواعد ہوبہو ایک ہی ہوں ، مثال کے طور پر عربی میں ’’رقیب‘‘ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے لیکن فارسی اور اُردو میں یہ لفظ جن معنوں میں استعمال ہوتا ہے اسے سب ہی جانتے ہیں۔عربی لفظ ’’ صَدَقہ‘‘ اُردو میں حرف دال کے سکون کے ساتھ استعمال ہوتا ہے ، ’’کلمہ‘‘ عربی میں مونث ہے جبکہ اُردو میں مذکر ، علیٰ ہذا القیاس لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اس میں کھلی چھوٹ ہو ۔ صفحہ نمبر ۲۶۶ پر عزیز لدھیانوی کے اس شعر میں لفظ ’’عرب‘‘ کے درمیانی حرف کو مفتوح کی جگہ ساکن باندھنا غلط ہے :
’’حامی شہ ارض و سما ‘‘ والا مصرعہ درست ہے لیکن مذکورہ بالامصرعہ درست نہیں ۔ صفحہ نمبر ۲۸۸ پر ڈاکٹر اشفاق انجم برافروختہ نظر آئے ۔ ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میری تحریر ان کے مضمون کاردّ عمل نہیں ہے  بلکہ یہ تبصرہ ’’جہانِ نعت‘‘ کرناٹک  کے شمارہ ۶ مطبوعہ ۲۰۱۲ ء میں شائع شدہ حلیم حاذق  کے مضمون کے جواب میں تھا جس میں موصوف نے حمد و نعت میں لفظ ’’عشق‘‘ لانے والوں کو بھی’’جاہل شعراء‘‘ کے نام سے یاد کیا تھا ۔ مزید یہ کہ میرے اس تبصرے میںجو لہجہ اختیار کیا گیا ہے وہ جارحانہ نہیں بلکہ نہایت نرم ہے جسے پڑھنے والے محسوس کر سکتے ہیں ۔ ۲۰۱۲ ء میں ہی میرے تبصرے کا یہ حصہ اُردو نیٹ جاپان اور اُردو بندھن جدہ میں شائع ہوچکا ہے ۔ انھوں نے آخر میں جو استفسار فرمایا ہے اس کے جواب میں عرض ہے کہ جنت کی زبان عربی ہوگی وہاں ’’تو‘‘ اور ’’آپ‘‘ دونوں کے لئے ایک ہی ضمیر (واحد حاضر) استعمال ہوگی اور یہاں بھی نماز میں ’’السلام علیک ایحاالنبی  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم!‘‘ ہی کہتے ہیں ۔ مزید یہ کہ اگر خطاب بزبانِ شعر ہوگا تو ’’آپ‘‘ کہنا بہر صورت لازمی نہیں ، یہ صرف نثر میں ضروری ہے۔علامہ اقبال کے اس شعر کے متعلق موصوف کا کیا خیال ہے ؟ :
 
 
حق کی مدد سے بالیقیں
 
حامی شہِ عرب و عجم
 
 
’’حامی شہ ارض و سما ‘‘ والا مصرعہ درست ہے لیکن مذکورہ بالامصرعہ درست نہیں ۔ صفحہ نمبر ۲۸۸ پر ڈاکٹر اشفاق انجم برافروختہ نظر آئے ۔ ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میری تحریر ان کے مضمون کاردّ عمل نہیں ہے  بلکہ یہ تبصرہ ’’جہانِ نعت‘‘ کرناٹک  کے شمارہ ۶ مطبوعہ ۲۰۱۲ ء میں شائع شدہ حلیم حاذق  کے مضمون کے جواب میں تھا جس میں موصوف نے حمد و نعت میں لفظ ’’عشق‘‘ لانے والوں کو بھی’’جاہل شعراء‘‘ کے نام سے یاد کیا تھا ۔ مزید یہ کہ میرے اس تبصرے میں جو لہجہ اختیار کیا گیا ہے وہ جارحانہ نہیں بلکہ نہایت نرم ہے جسے پڑھنے والے محسوس کر سکتے ہیں ۔ ۲۰۱۲ ء میں ہی میرے تبصرے کا یہ حصہ اُردو نیٹ جاپان اور اُردو بندھن جدہ میں شائع ہوچکا ہے ۔ انھوں نے آخر میں جو استفسار فرمایا ہے اس کے جواب میں عرض ہے کہ جنت کی زبان عربی ہوگی وہاں ’’تو‘‘ اور ’’آپ‘‘ دونوں کے لئے ایک ہی ضمیر (واحد حاضر) استعمال ہوگی اور یہاں بھی نماز میں ’’السلام علیک ایحاالنبی  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم!‘‘ ہی کہتے ہیں ۔ مزید یہ کہ اگر خطاب بزبانِ شعر ہوگا تو ’’آپ‘‘ کہنا بہر صورت لازمی نہیں ، یہ صرف نثر میں ضروری ہے۔علامہ اقبال کے اس شعر کے متعلق موصوف کا کیا خیال ہے ؟ :
 
 
جھلکتی ہے تری امت کی آبرو اس میں  
جھلکتی ہے تری امت کی آبرو اس میں  
طرابلس کے شہیدوںکا ہے لہو اس میں
اور حضرت شمس تبریزی کی نعت کا یہ شعر بھی موصوف کے نزدیک قابلِ اعتراض ہوگا :
شمس تبریزی چہ داند نعت تو پیغمبرا !
مصطفی  و مجتبیٰ و سیدِ اعلیٰ توئی
صفحہ نمبر ۳۰۰ اور صفحہ نمبر ۳۰۱ پر سورۃ الفتح اور سورہ ء توبہ کی آیات میں پھر کمپوزنگ کی بے احتیاطی ہے ، موخرالذکر میں ـ’’مُشرکون‘‘ کی جگہ ’’مشرقین‘‘ کمپوز  ہُوا ہے جو افسوس ناک ہے ۔ براہ کرم کمپوزر اور پروف ریڈر صاحبان اس طرف خصوصی توجہ دیں ۔
صفحہ نمبر ۳۹۸ پر ’’چٹائی  ، غار حرا ، جو کے تذکار‘‘ کے بارے میں جو مضمون ہے اسے پڑھ کر احساس ہُوا کہ اس میں تنقید برائے تنقیص کی گئی ہے ۔ نعت گو شعراء نے بوریا اور چٹائی کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ سلطان مدینہ  ، سرور دوعالم اور بادشاہ عرب و عجم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سادگی اور قناعت پسندی کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا جائے ورنہ کرسی ، مسند ، چادر ، بستر وغیرہ تو دنیوی بادشاہوں نے بھی استعمال کیا ہے۔
یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ آپ نے صرف چٹائی کو ہی پسند فرمایا اور باقی چیزوں سے بیزاری کا اظہار فرمایا ۔ یہ مقالہ نگار کے اپنے ذہن کی اختراع ہے ورنہ شعرائے نعت نے آپ کی سادگی کو ہی بیان کیا ہے۔
  سلام اُس  پر کہ جس کے گھر میں چاندی تھی ، نہ سونا تھا
سلام اُس پر کہ ٹوٹا بوریا جس کا بچھونا تھا
سلام اُس پر جو امت کے لئے راتوںکو روتا  تھا
سلام اُس پر جو فرش خاک پر جاڑوںمیںسوتا تھا


طرابلس کے شہیدوںکا ہے لہو اس میں
(ماہرالقادری)
 
بوریا ، ٹوٹی چٹائی ، زیر پا عرشِ علیٰ
 
عیش کوشو ! بادشاہِ دو سرا ، سرکار ہیں  
اور حضرت شمس تبریزی کی نعت کا یہ شعر بھی موصوف کے نزدیک قابلِ اعتراض ہوگا :
 
 
شمس تبریزی چہ داند نعت تو پیغمبرا !
 
مصطفی  و مجتبیٰ و سیدِ اعلیٰ توئی
 
 
صفحہ نمبر ۳۰۰ اور صفحہ نمبر ۳۰۱ پر سورۃ الفتح اور سورہ ء توبہ کی آیات میں پھر کمپوزنگ کی بے احتیاطی ہے ، موخرالذکر میں ـ’’مُشرکون‘‘ کی جگہ ’’مشرقین‘‘ کمپوز  ہُوا ہے جو افسوس ناک ہے ۔ براہ کرم کمپوزر اور پروف ریڈر صاحبان اس طرف خصوصی توجہ دیں ۔
 
 
صفحہ نمبر ۳۹۸ پر ’’چٹائی  ، غار حرا ، جو کے تذکار‘‘ کے بارے میں جو مضمون ہے اسے پڑھ کر احساس ہُوا کہ اس میں تنقید برائے تنقیص کی گئی ہے ۔ نعت گو شعراء نے بوریا اور چٹائی کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ سلطان مدینہ  ، سرور دوعالم اور بادشاہ عرب و عجم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سادگی اور قناعت پسندی کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا جائے ورنہ کرسی ، مسند ، چادر ، بستر وغیرہ تو دنیوی بادشاہوں نے بھی استعمال کیا ہے۔
 
 
یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ آپ نے صرف چٹائی کو ہی پسند فرمایا اور باقی چیزوں سے بیزاری کا اظہار فرمایا ۔ یہ مقالہ نگار کے اپنے ذہن کی اختراع ہے ورنہ شعرائے نعت نے آپ کی سادگی کو ہی بیان کیا ہے۔
 
 
سلام اُس  پر کہ جس کے گھر میں چاندی تھی ، نہ سونا تھا
 
سلام اُس پر کہ ٹوٹا بوریا جس کا بچھونا تھا
 
سلام اُس پر جو امت کے لئے راتوںکو روتا  تھا
 
سلام اُس پر جو فرش خاک پر جاڑوںمیں سوتا تھا
 
 
(ماہرالقادری)
 
 
بوریا ، ٹوٹی چٹائی ، زیر پا عرشِ علیٰ
 
عیش کوشو ! بادشاہِ دو سرا ، سرکار ہیں  
 
(تنویرپھولؔ)
 


(تنویرپھولؔ)
کیا فاضل مقالہ نگار کی نظر سے وہ روایت نہیں گزری کہ حضرت عمر فاروق ؓ جسم اطہر پر چٹائی یا بوریا کے نشانات دیکھ کر آبدیدہ ہوگئے تھے اور جب اُنھوں نے قیصر و کسریٰ کے عیش و آرام کا ذکر کیا تو آپ  نے جواب میں کیا ارشاد فرمایا؟ یاد رہے کہ آپ  کی یہ سادگی اختیاری تھی ورنہ اگر آپ  چاہتے تو پورا کوہِ اُحد سونے کا بنا دیا جاتا جیسا کہ حدیث میں آیا ہے ۔
کیا فاضل مقالہ نگار کی نظر سے وہ روایت نہیں گزری کہ حضرت عمر فاروق ؓ جسم اطہر پر چٹائی یا بوریا کے نشانات دیکھ کر آبدیدہ ہوگئے تھے اور جب اُنھوں نے قیصر و کسریٰ کے عیش و آرام کا ذکر کیا تو آپ  نے جواب میں کیا ارشاد فرمایا؟ یاد رہے کہ آپ  کی یہ سادگی اختیاری تھی ورنہ اگر آپ  چاہتے تو پورا کوہِ اُحد سونے کا بنا دیا جاتا جیسا کہ حدیث میں آیا ہے ۔
 
صفحہ نمبر ۴۰۲ پر مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ ’’عموماََ‘‘ لوگ ’’حفصہ ؓ‘‘ کو ’’حصفہ‘‘ پڑھتے ہیں ۔ ایسا ہرگز نہیں ہے ، جہلاء کی بات اور ہے ۔
 
مقالہ نگار نے غار حرا کی اہمیت کو بھی کم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ غار حرا اور اس کے بعد غار ثور دونوں کو جو مقام حاصل ہے وہ دنیا کے کسی اور غار کو نہیں(یادرہے کہ اصحاب کہف کے غار میں کسی نبی ؑ نے قیام نہیں کیا) ۔ غار حرا میں پہلی وحی ( جو سورۃ العلق کی ابتدائی ۵آیات پر مشتمل ہے) سے نزول قرآن کا آغاز ایک تابناک حقیقت ہے جس کا انکار کوئی کور چشم ہی کرسکتا ہے اور یہ حق ہے کہ ’’ ممتاز حرا ہے آج تلک اس دنیا کے سب غاروں میں ‘‘ ۔ علامہ اقبال غار حرا میں آپ  کے ذکرالٰہی ،مراقبے اور نزول وحی کے حوالے سے فرماتے ہیں:  
صفحہ نمبر ۴۰۲ پر مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ ’’عموماََ‘‘ لوگ ’’حفصہ ؓ‘‘ کو ’’حصفہ‘‘ پڑھتے ہیں ۔ ایسا ہرگز نہیں ہے ، جہلاء کی بات اور ہے ۔
 
 
مقالہ نگار نے غار حرا کی اہمیت کو بھی کم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ غار حرا اور اس کے بعد غار ثور دونوں کو جو مقام حاصل ہے وہ دنیا کے کسی اور غار کو نہیں(یادرہے کہ اصحاب کہف کے غار میں کسی نبی ؑ نے قیام نہیں کیا) ۔ غار حرا میں پہلی وحی ( جو سورۃ العلق کی ابتدائی ۵آیات پر مشتمل ہے) سے نزول قرآن کا آغاز ایک تابناک حقیقت ہے جس کا انکار کوئی کور چشم ہی کرسکتا ہے اور یہ حق ہے کہ ’’ ممتاز حرا ہے آج تلک اس دنیا کے سب غاروں میں ‘‘ ۔ علامہ اقبال غار حرا میں آپ  کے ذکرالٰہی ،مراقبے اور نزول وحی کے حوالے سے فرماتے ہیں:  
 
 
در شبستان ِحرا  خلوت گزید
در شبستان ِحرا  خلوت گزید
 
قوم و آئین و حکومت آفرید
قوم و آئین و حکومت آفرید
صبیح رحمانی نے اپنے خوب صورت اشعار میں اسی حقیقت کا اظہار کیا ہے :
 
 
صبیح رحمانی نے اپنے خوب صورت اشعار میں اسی حقیقت کا اظہار کیا ہے :
 
 
معمور ہیں حضور کے قدموں کی آہٹیں
معمور ہیں حضور کے قدموں کی آہٹیں
 
کیسا  نصیب آج بھی غارِ حرا کا ہے !
کیسا  نصیب آج بھی غارِ حرا کا ہے !
حرا کے سوچتے لمحوں کو زندہ ساعتیں لکھ کر
 
صفا کی گفتگو کو آبشارِ آگہی لکھوں
حرا کے سوچتے لمحوں کو زندہ ساعتیں لکھ کر
لوگ عام طور پر آپ  کو ’’ مدینے والے آقا ‘‘ کہتے ہیں لیکن ایک مصرعہ ایسا بھی ہے جو خواب میں عطا کیا گیا :  
 
’’ اے غارِ حرا والے آقا  ! ہم پر ہو کرم کی ایک نظر ‘‘
صفا کی گفتگو کو آبشارِ آگہی لکھوں
اس مقالے میں بھائی شبیر احمد انصاری صاحب کی مرتب کردہ کتاب ’’ شبستانِ حرا‘‘ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔ حُسن اتفاق سے یہ کتاب یہاں میرے پاس موجود ہے اور صفحہ نمبر ۱۲ پر مولف نے کتاب کی تدوین و تکمیل میں مکمل رہنمائی اور خصوصی معاونت کے سلسلے میں جن اصحاب کا شکریہ ادا کیا ہے اُن میں فاضل مقالہ نگار کا نام بھی شامل ہے یعنی اس ’’کارِ لاحاصل‘‘ میں وہ بھی شریک ہیں اور اس طرح وہ خود اپنی تنقید کا ہدف بن رہے ہیں !
 
مزید لطف کی بات یہ ہے کہ ’’حرا‘‘ ہی کے موضوع پر صفحہ نمبر ۱۴۳ پر موصوف کے متفرق اشعار ، صفحہ نمبر ۱۹۸ پر ’’حرا کی روشنی‘‘ کی ردیف میں ان کی نظم ، صفحہ نمبر ۱۹۹ تا صفحہ نمبر۲۰۲ حرا کے بارے میں ان کی معرّا نظمیں اور صفحہ نمبر ۲۲۹ پر ثلاثی ’’شبستان ِ حرا‘‘ میں شامل ہیں یعنی ’’حرا‘‘ کو ایک سے زیادہ بار اپنی شاعری کا موضوع بنانے کا ’’جرم‘‘ انھوں نے خود بھی کیا ہے !!
 
اسی طرح جو یعنی شعیر کے ذکر کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی کھانے میں آپ کی سادگی کا ذکر ہے اور مکرر عرض ہے کہ یہ سادگی اختیاری تھی ۔ مقالہ نگار صفحہ نمبر ۴۱۸ پر خود تحریر فرماتے ہیں کہ ’’حضور کا فقر و فاقہ اختیاری تھا اور قیامت تک کے ناداروں ، مسکینوں اور فاقہ مستوں کے لئے تسلی اور دلاسے کا سبب تھا ورنہ حدیث شریف سے ہی ثابت ہے کہ اگر حضور  پسند فرماتے تو آپ  کے لئے پہاڑ سونے کے ہوجاتے۔‘‘   
لوگ عام طور پر آپ  کو ’’ مدینے والے آقا ‘‘ کہتے ہیں لیکن ایک مصرعہ ایسا بھی ہے جو خواب میں عطا کیا گیا :
 
 
’’ اے غارِ حرا والے آقا  ! ہم پر ہو کرم کی ایک نظر ‘‘
 
 
اس مقالے میں بھائی شبیر احمد انصاری صاحب کی مرتب کردہ کتاب ’’ شبستانِ حرا‘‘ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔ حُسن اتفاق سے یہ کتاب یہاں میرے پاس موجود ہے اور صفحہ نمبر ۱۲ پر مولف نے کتاب کی تدوین و تکمیل میں مکمل رہنمائی اور خصوصی معاونت کے سلسلے میں جن اصحاب کا شکریہ ادا کیا ہے اُن میں فاضل مقالہ نگار کا نام بھی شامل ہے یعنی اس ’’کارِ لاحاصل‘‘ میں وہ بھی شریک ہیں اور اس طرح وہ خود اپنی تنقید کا ہدف بن رہے ہیں !
 
 
مزید لطف کی بات یہ ہے کہ ’’حرا‘‘ ہی کے موضوع پر صفحہ نمبر ۱۴۳ پر موصوف کے متفرق اشعار ، صفحہ نمبر ۱۹۸ پر ’’حرا کی روشنی‘‘ کی ردیف میں ان کی نظم ، صفحہ نمبر ۱۹۹ تا صفحہ نمبر۲۰۲ حرا کے بارے میں ان کی معرّا نظمیں اور صفحہ نمبر ۲۲۹ پر ثلاثی ’’شبستان ِ حرا‘‘ میں شامل ہیں یعنی ’’حرا‘‘ کو ایک سے زیادہ بار اپنی شاعری کا موضوع بنانے کا ’’جرم‘‘ انھوں نے خود بھی کیا ہے !!
 
 
اسی طرح جو یعنی شعیر کے ذکر کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی کھانے میں آپ کی سادگی کا ذکر ہے اور مکرر عرض ہے کہ یہ سادگی اختیاری تھی ۔ مقالہ نگار صفحہ نمبر ۴۱۸ پر خود تحریر فرماتے ہیں کہ ’’حضور کا فقر و فاقہ اختیاری تھا اور قیامت تک کے ناداروں ، مسکینوں اور فاقہ مستوں کے لئے تسلی اور دلاسے کا سبب تھا ورنہ حدیث شریف سے ہی ثابت ہے کہ اگر حضور  پسند فرماتے تو آپ  کے لئے پہاڑ سونے کے ہوجاتے۔‘‘   
 
 
آپ  سرکارِ  دوعالم ، ہے غذا نانِ شعیر
آپ  سرکارِ  دوعالم ، ہے غذا نانِ شعیر
بے کس  و نادار کے حاجت روا سرکار  ہیں
بے کس  و نادار کے حاجت روا سرکار  ہیں
 
  علامہ اقبال آپ  اور آپ  کے اصحاب ؓ کی اسی سادگی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
 
  تری خاک میں ہے اگر شرر تو خیالِ فقر و غنا نہ کر
علامہ اقبال آپ  اور آپ  کے اصحاب ؓ کی اسی سادگی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
 
 
تری خاک میں ہے اگر شرر تو خیالِ فقر و غنا نہ کر
 
  کہ جہاں میں نانِ شعیرپر ہے مدارِ قوتِ حیدری ؓ
  کہ جہاں میں نانِ شعیرپر ہے مدارِ قوتِ حیدری ؓ
صفحہ نمبر ۴۲۳ پر حضرت عبداللہ بن علی ؓ کی جو روایت مقالہ نگار نے پیش کی ہے اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جُو کی روٹی بڑے شوق سے تناول فرماتے تھے۔ اسی طرح اور بھی روایات انھوں نے درج کی ہیں جن میں جُو اور غارِحرا میں خصوصی عبادت بشمول رمضان میں پورے مہینے کی عبادت کا ذکر ہے ۔ اس طرح ان کا یہ مقالہ تنقید برائے تنقیص اور تضادات کا مجموعہ بن کر رہ گیا  ہے۔  
صفحہ نمبر ۴۲۳ پر حضرت عبداللہ بن علی ؓ کی جو روایت مقالہ نگار نے پیش کی ہے اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جُو کی روٹی بڑے شوق سے تناول فرماتے تھے۔ اسی طرح اور بھی روایات انھوں نے درج کی ہیں جن میں جُو اور غارِحرا میں خصوصی عبادت بشمول رمضان میں پورے مہینے کی عبادت کا ذکر ہے ۔ اس طرح ان کا یہ مقالہ تنقید برائے تنقیص اور تضادات کا مجموعہ بن کر رہ گیا  ہے۔  
 
صفحہ نمبر ۷۹۳ پر ’’حاصل مطالعہ‘‘ کے زیر عنوان ڈاکٹر عزیزاحسن صاحب کی یہ وقیع تحریرقابل غور ہے:  
 
’’بعض ادبی حلقوں میں یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ حضور نبی کریم علیہ الصلٰوۃ والتسلیم کے لئے ’’ تو ، تیرا،تم،تمھارا‘‘ کے ضمائر استعمال کرنا سوئِ ادب ہے ، لیکن وہ لوگ شعر کی نزاکتوںاور لفظ کی حرمتوں سے یا تو واقف نہیں ہیںیا شعر گوئی کے لئے بھی اپنا کوئی نصاب مقررکرناچاہتے ہیں۔ اس ضمن میں میری رائے اس ادبی حلقے کے ساتھ ہے جو شاعری کے تقاضوں اورلفظوں کے برتنے کے سلیقوں کا ادراک رکھتے ہوئے ان ضمائر کے استعمال کو معیوب نہیں جانتا۔‘‘
صفحہ نمبر ۷۹۳ پر ’’حاصل مطالعہ‘‘ کے زیر عنوان ڈاکٹر عزیزاحسن صاحب کی یہ وقیع تحریرقابل غور ہے:  
’’ایوان مدحت‘‘ میں ’’اوّل سے آخر تک‘‘ کی منفرد ردیف میںجناب صبیح رحمانی کی نعت بہت دل نشیں ہے ۔ شاعر کے لئے داد اور دلی مبارک باد ۔
 
  ’’نعت نامے‘‘ میں احمد صغیر صدیقی صاحب کا مکتوب زیر نظر آیا۔ افسوس ہے کہ ان کو راقم الحروف کی حمد کا یہ سادہ مقطع پسند نہیں آیا :
 
’’بعض ادبی حلقوں میں یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ حضور نبی کریم علیہ الصلٰوۃ والتسلیم کے لئے ’’ تو ، تیرا،تم،تمھارا‘‘ کے ضمائر استعمال کرنا سوئِ ادب ہے ، لیکن وہ لوگ شعر کی نزاکتوں اور لفظ کی حرمتوں سے یا تو واقف نہیں ہیں  ا شعر گوئی کے لئے بھی اپنا کوئی نصاب مقررکرناچاہتے ہیں۔ اس ضمن میں میری رائے اس ادبی حلقے کے ساتھ ہے جو شاعری کے تقاضوں اورلفظوں کے برتنے کے سلیقوں کا ادراک رکھتے ہوئے ان ضمائر کے استعمال کو معیوب نہیں جانتا۔‘‘
 
’’ایوان مدحت‘‘ میں ’’اوّل سے آخر تک‘‘ کی منفرد ردیف میںجناب صبیح رحمانی کی نعت بہت دل نشیں ہے ۔ شاعر کے لئے داد اور دلی مبارک باد ۔
   
’’نعت نامے‘‘ میں احمد صغیر صدیقی صاحب کا مکتوب زیر نظر آیا۔ افسوس ہے کہ ان کو راقم الحروف کی حمد کا یہ سادہ مقطع پسند نہیں آیا :
 
 
پامال ہے یہ گلشن ہستی میں ہو رہا
پامال ہے یہ گلشن ہستی میں ہو رہا
 
فریاد لایا پھولؔ ہے تیری جناب میں
فریاد لایا پھولؔ ہے تیری جناب میں
وہ لکھتے ہیں :
 
 
وہ لکھتے ہیں :
 
 
’’ یہ شعر کوئی بہت کمزور اور اناڑی شاعر لکھتا تو اس سے صرف نظر کیا جاسکتا تھا۔‘‘
’’ یہ شعر کوئی بہت کمزور اور اناڑی شاعر لکھتا تو اس سے صرف نظر کیا جاسکتا تھا۔‘‘
 
اس محبت اور عزت افزائی پر ان کا ممنون ہوں ۔ یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی شاعر کے تمام اشعار ایک ہی معیار کے نہیں ہوسکتے۔ صغیر بھائی کو حمد و نعت میں الفاظ کے مناسب استعمال پر لکھا ہوا میرا مقالہ نہایت دلچسپ اور فکرانگیزلگا جس پر اُن کا شکریہ۔ ــ’’خیرالامم ‘‘کے استعمال کے بارے میں شاید میں اپنی بات پوری طرح سمجھا نہیں سکا ۔ ’’خیرالامم‘‘ کا مطلب ہے ’’اُمتوں میں خیر‘‘ اور یہ اعزاز حضورکی امت کو  دیا گیا ہے(بحوالہ قرآن : سورہ آل عمران ،آیت نمبر ۱۱۰) ۔ علامہ اقبال نے بھی اپنی نظم ’’بلاد ِ اسلامیہ ‘‘ میں اسے ان ہی معنوںمیںاستعمال کیا ہے :   
 
اس محبت اور عزت افزائی پر ان کا ممنون ہوں ۔ یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی شاعر کے تمام اشعار ایک ہی معیار کے نہیں ہوسکتے۔ صغیر بھائی کو حمد و نعت میں الفاظ کے مناسب استعمال پر لکھا ہوا میرا مقالہ نہایت دلچسپ اور فکرانگیزلگا جس پر اُن کا شکریہ۔ ــ’’خیرالامم ‘‘کے استعمال کے بارے میں شاید میں اپنی بات پوری طرح سمجھا نہیں سکا ۔ ’’خیرالامم‘‘ کا مطلب ہے ’’اُمتوں میں خیر‘‘ اور یہ اعزاز حضورکی امت کو  دیا گیا ہے(بحوالہ قرآن : سورہ آل عمران ،آیت نمبر ۱۱۰) ۔ علامہ اقبال نے بھی اپنی نظم ’’بلاد ِ اسلامیہ ‘‘ میں اسے ان ہی معنوںمیںاستعمال کیا ہے :   
 
 
سوتے ہیں اس خاک میں خیرالامم کے تاجدار
سوتے ہیں اس خاک میں خیرالامم کے تاجدار
نظمِ  عالم کا رہا جن کی حکومت پر مدار
نظمِ  عالم کا رہا جن کی حکومت پر مدار
 
’’ اُمم‘‘ جمع ہے ’’اُمت‘‘ کی اس لئے اُس میں خیر کوئی امت ہی ہوسکتی ہے، فرد نہیں۔ حضور  کو ’’خیر البشر‘‘ کہنا درست ہے لیکن آپ  کو ــ’’خیرالامم‘‘ کہناایسا ہی ہے جیسے’’شہروں میں اہم‘‘ کی جگہ یہ کہا جائے کہ ’’ ٹوکیو ملکوں میں اہم ہے۔ ‘‘ امید ہے کہ اب یہ بات واضح ہوگئی ہوگی۔
 
  صغیر صاحب لکھتے ہیں کہ:
’’ اُمم‘‘ جمع ہے ’’اُمت‘‘ کی اس لئے اُس میں خیر کوئی امت ہی ہوسکتی ہے، فرد نہیں۔ حضور  کو ’’خیر البشر‘‘ کہنا درست ہے لیکن آپ  کو ــ’’خیرالامم‘‘ کہناایسا ہی ہے جیسے’’شہروں میں اہم‘‘ کی جگہ یہ کہا جائے کہ ’’ ٹوکیو ملکوں میں اہم ہے۔ ‘‘ امید ہے کہ اب یہ بات واضح ہوگئی ہوگی۔   
’’ڈاکٹر عزیز احسن نے اپنے مقالے میںایک حدیث نوٹ کی ہے۔ ’’اے اللہ!روح القدس کے ساتھ حسانؓ کی مددفرما۔‘‘ مجھے سمجھانے کے لئے بتائیں یہ ’’روح القدس کے ساتھ ‘‘ کا اضافہ کیوں کیا گیا ہے؟‘‘ عرض ہے کہ اس حدیث کے الفاظ کو سورۃ البقرہ ، آیت نمبر ۸۷ کی روشنی میں دیکھئے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ’’ ہم نے عیسیٰ ؑ ابن مریم کو روح القدس کے ساتھ مدد دی‘‘ : وَ اَیّد نٰہُ بِرُوح ِالقُدُس :( واضح ہو کہ ’’روح القدس‘‘ حضرت جبریل علیہ السلام کو کہتے ہیں)۔
 
صفحہ نمبر ۸۹۶ کی سطر نمبر ۱۳ میں غالباََ کمپوزر صاحب نے ’’واضح‘‘ کو ’’واضع‘‘ کر دیا ہے ۔
 
صفحہ نمبر ۹۱۲ پر سعیدبدر صاحب نے ’’خطائے بزرگاں گرفتن خطااست‘‘ کاحوالہ دیا ہے مگر یہ قول ’’نعت رنگ‘‘ کے مزاج کے خلاف ہے ۔ یہ بات یاد رہے کہ صحت مند تنقید فن پر کی جاتی ہے ، ذاتیات پر نہیں اس لئے اسے ذات سے الگ کر کے دیکھنا چاہئے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ کا مشہور قول ہے کہ یہ مت دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے؟یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے؟عصر حاضر کے ایک دانشور پروفیسر ڈاکٹر خورشید خاور امروہوی کا کہنا ہے کہ لوگ خطائے بزرگاں گرفتن خطا است کا مفہوم غلط سمجھتے ہیں ، اس کا مطلب ہے کہ بزرگوں کی خطا کو پکڑے رہنا یعنی اس پر کاربند رہنا خطا ہے ۔  قرآن پاک بھی باپ دادا کی اندھی تقلید سے منع کرتا ہے ( سورۃ البقرہ، آیت نمبر ۱۷۰) ۔ صفحہ نمبر ۹۱۴ پر انھوں نے راقم الحروف کے مقالے کو قابل قدرقرار دیا ہے جس کا شکریہ ۔ ــچالیس برس تک غاروں میں اجالا کرنے والی بات پر تنقید سعید صاحب کوناگوار گزری اور انھوں نے اسے ’’شعری ضرورت‘‘ کہا مگر ایسی جگہ’’ضرورتِ شعری‘‘ کا حوالہ ہونا چاہئے اور اگر بہتر صورت ہو تو اسے ہی اختیار کرنا چاہئے جیسے ’’غاروں میں‘‘ بطور قافیہ و ردیف استعمال کرنے کے لئے یہ کہا جاسکتا تھا:
صغیر صاحب لکھتے ہیں کہ:
’’ ممتاز حرا ہے آج تلک اس دنیا کے سب غاروں میں‘‘ ،’’ارم‘‘ ، ’’عشق‘‘ اور ’’خدا‘‘ جیسے الفاظ کے استعمال کے بارے میں اُن کی رائے سے راقم الحروف کو اتفاق ہے۔صفحہ نمبر ۹۳۴ پر سمیعہ نازصاحبہ نے راقم الحروف کے مقالے ’’حمد ونعت میں الفاظ کا مناسب استعمال‘‘ کو  پسند کرنے کی اطلاع دی جس پر اُن کا ممنون ہوں۔ سب کو سلام کہئے۔  
 
 
’’ڈاکٹر عزیز احسن نے اپنے مقالے میں ایک حدیث نوٹ کی ہے۔ ’’اے اللہ!روح القدس کے ساتھ حسانؓ کی مددفرما۔‘‘ مجھے سمجھانے کے لئے بتائیں یہ ’’روح القدس کے ساتھ ‘‘ کا اضافہ کیوں کیا گیا ہے؟‘‘  
 
عرض ہے کہ اس حدیث کے الفاظ کو سورۃ البقرہ ، آیت نمبر ۸۷ کی روشنی میں دیکھئے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ’’ ہم نے عیسیٰ ؑ ابن مریم کو روح القدس کے ساتھ مدد دی‘‘ : وَ اَیّد نٰہُ بِرُوح ِالقُدُس :( واضح ہو کہ ’’روح القدس‘‘ حضرت جبریل علیہ السلام کو کہتے ہیں)۔
صفحہ نمبر ۸۹۶ کی سطر نمبر ۱۳ میں غالباََ کمپوزر صاحب نے ’’واضح‘‘ کو ’’واضع‘‘ کر دیا ہے ۔
 
 
صفحہ نمبر ۹۱۲ پر سعیدبدر صاحب نے ’’خطائے بزرگاں گرفتن خطااست‘‘ کاحوالہ دیا ہے مگر یہ قول ’’نعت رنگ‘‘ کے مزاج کے خلاف ہے ۔ یہ بات یاد رہے کہ صحت مند تنقید فن پر کی جاتی ہے ، ذاتیات پر نہیں اس لئے اسے ذات سے الگ کر کے دیکھنا چاہئے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ کا مشہور قول ہے کہ یہ مت دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے؟یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے؟عصر حاضر کے ایک دانشور پروفیسر ڈاکٹر خورشید خاور امروہوی کا کہنا ہے کہ لوگ خطائے بزرگاں گرفتن خطا است کا مفہوم غلط سمجھتے ہیں ، اس کا مطلب ہے کہ بزرگوں کی خطا کو پکڑے رہنا یعنی اس پر کاربند رہنا خطا ہے ۔  قرآن پاک بھی باپ دادا کی اندھی تقلید سے منع کرتا ہے ( سورۃ البقرہ، آیت نمبر ۱۷۰) ۔ صفحہ نمبر ۹۱۴ پر انھوں نے راقم الحروف کے مقالے کو قابل قدرقرار دیا ہے جس کا شکریہ ۔ ــچالیس برس تک غاروں میں اجالا کرنے والی بات پر تنقید سعید صاحب کوناگوار گزری اور انھوں نے اسے ’’شعری ضرورت‘‘ کہا مگر ایسی جگہ’’ضرورتِ شعری‘‘ کا حوالہ ہونا چاہئے اور اگر بہتر صورت ہو تو اسے ہی اختیار کرنا چاہئے جیسے ’’غاروں میں‘‘ بطور قافیہ و ردیف استعمال کرنے کے لئے یہ کہا جاسکتا تھا:
 
 
’’ ممتاز حرا ہے آج تلک اس دنیا کے سب غاروں میں‘‘ ،’’ارم‘‘ ، ’’عشق‘‘ اور ’’خدا‘‘ جیسے الفاظ کے استعمال کے بارے میں اُن کی رائے سے راقم الحروف کو اتفاق ہے۔صفحہ نمبر ۹۳۴ پر سمیعہ نازصاحبہ نے راقم الحروف کے مقالے ’’حمد ونعت میں الفاظ کا مناسب استعمال‘‘ کو  پسند کرنے کی اطلاع دی جس پر اُن کا ممنون ہوں۔ سب کو سلام کہئے۔  
 
 
اور دعائوں میں یاد رکھئے ۔ ای ، میل سے رابطہ رکھئے گا ۔
اور دعائوں میں یاد رکھئے ۔ ای ، میل سے رابطہ رکھئے گا ۔
 
ee 
====سعدیہ سیٹھی۔برطانیہ ====
سعدیہ سیٹھی۔برطانیہ
۱۸/اکتوبر۲۰۱۶
۱۸/اکتوبر۲۰۱۶
میں پہلی بار نعت رنگ کی محفل میں شامل ہو رہی ہے۔میں بھی نعت رنگ جیسے خوبصورت جریدے کی قاری ہوں۔ آج اگر قلم اُٹھا یا ہے تو میں بہت خوش ہوں کہ مجھے بھی سعادت ملی ۔نعت رنگ کے پچیس شمارے مکمل ہونے پر یہاں برطانیہ میں نعت ریسرچ سینٹر کی وائس چیئر پرسن سمیعہ نازؔ نے ایک خوبصورت تقریب لیڈز میں منعقد کی جس میں مجھے بطور خاص بلایا گیااور مجھے بیحد اچھا لگا۔
میں پہلی بار نعت رنگ کی محفل میں شامل ہو رہی ہے۔میں بھی نعت رنگ جیسے خوبصورت جریدے کی قاری ہوں۔ آج اگر قلم اُٹھا یا ہے تو میں بہت خوش ہوں کہ مجھے بھی سعادت ملی ۔نعت رنگ کے پچیس شمارے مکمل ہونے پر یہاں برطانیہ میں نعت ریسرچ سینٹر کی وائس چیئر پرسن سمیعہ نازؔ نے ایک خوبصورت تقریب لیڈز میں منعقد کی جس میں مجھے بطور خاص بلایا گیااور مجھے بیحد اچھا لگا۔
۱۹  مارچ  ۲۰۱۶ کو ہونے والی تقریب پذیرائی ایک خوبصورت اور کامیاب ترین تقریب قرار پائی ہے۔اس تقریب کی کمپیرنگ سمیعہ ناز نے کی۔اور آغاز میںہی سمیعہ ناز نے اپنی تحریر کردہ نظم بعنوان نعت رنگ سب کو سنائی ۔جسے سن کرسب کو بہت اچھا لگا۔
۱۹  مارچ  ۲۰۱۶ کو ہونے والی تقریب پذیرائی ایک خوبصورت اور کامیاب ترین تقریب قرار پائی ہے۔اس تقریب کی کمپیرنگ سمیعہ ناز نے کی۔اور آغاز میںہی سمیعہ ناز نے اپنی تحریر کردہ نظم بعنوان نعت رنگ سب کو سنائی ۔جسے سن کرسب کو بہت اچھا لگا۔
اس کے بعد سمیعہ ناز نے تقریب پذیرائی کے شرکاء کو نعت رنگ پر اظہار خیال کرنے کی دعوت دی ۔جن میں تسنیم حسن، طلعت سلیم ،ڈاکٹر عزیز احسن،ڈاکٹر مقصود الٰہی شیخ اور مجھے بھی اظہار خیال کے لیے سٹیج پر آنے کی دعوت دی۔’’ میں خود کو اس قابل تو نہیں سمجھتی کہ میں نعت رنگ کے حوالے سے کچھ کہہ سکوں لیکن مجھے بہت اچھا لگا کہ سمیعہ ناز نے بڑی فراخدلی سے مجھے اظہار خیال کے لیے بلایا اور موقع فراہم کیا کہ میںاپنی بات کہہ پائوں۔میں نے سب سے پہلے اپنی دوست سمیعہ ناز کا شکریہ ادا کیا اور سب کو مبارکباد پیش کی۔
اس کے بعد سمیعہ ناز نے تقریب پذیرائی کے شرکاء کو نعت رنگ پر اظہار خیال کرنے کی دعوت دی ۔جن میں تسنیم حسن، طلعت سلیم ،ڈاکٹر عزیز احسن،ڈاکٹر مقصود الٰہی شیخ اور مجھے بھی اظہار خیال کے لیے سٹیج پر آنے کی دعوت دی۔’’ میں خود کو اس قابل تو نہیں سمجھتی کہ میں نعت رنگ کے حوالے سے کچھ کہہ سکوں لیکن مجھے بہت اچھا لگا کہ سمیعہ ناز نے بڑی فراخدلی سے مجھے اظہار خیال کے لیے بلایا اور موقع فراہم کیا کہ میںاپنی بات کہہ پائوں۔میں نے سب سے پہلے اپنی دوست سمیعہ ناز کا شکریہ ادا کیا اور سب کو مبارکباد پیش کی۔
مجھے آج بھی یاد ہے۲۰۰۸ ء میں جب پہلی بار آپ یوکے آئے توآپ نے مجھے نعت رنگ کے بارے میں بتایا تھا۔اور آپ نعت ریسرچ سینٹر کا قیام بھی چاہتے تھے۔اور اس پر مزید کام بھی کرنا چاہتے تھے۔لیکن میں خود کو اس ذمہ داری کا اہل نہ سمجھ پائی۔مجھے پتہ تھا میری طبیعت میں کچھ لاپرواہی سی ہے اور یہ بہت ذمہ دارانہ کام تھا جس کو کرنا میرے بس میں نہ تھا۔اور اس وقت مجھے اپنی پیاری سی دوست سمیعہ جی یاد آئیںجو بخوبی یہ ذمہ داری نبھاسکتیں تھیں ۔سمیعہ ناز اُس وقت میرے ساتھ نور ٹی وی پر بطور مہمان نعت خوان،اور نعت گو شاعرہ کی حثییت سے شریک ہوا کرتی تھیں۔ایک نعتیہ مجموعہ کلام کی خالق بھی ہیں۔اور جہاں تک مجھے یاد ہے سمیعہ جی کی نعتیہ کتاب ’’خزینہ ء نور ‘‘ کی رسم اجراء آپ ہی کے نیک ہاتھوں سے سر انجام پائی تھی۔اور اس تقریب میں میری بھی شرکت تھی ۔
مجھے آج بھی یاد ہے۲۰۰۸ ء میں جب پہلی بار آپ یوکے آئے توآپ نے مجھے نعت رنگ کے بارے میں بتایا تھا۔اور آپ نعت ریسرچ سینٹر کا قیام بھی چاہتے تھے۔اور اس پر مزید کام بھی کرنا چاہتے تھے۔لیکن میں خود کو اس ذمہ داری کا اہل نہ سمجھ پائی۔مجھے پتہ تھا میری طبیعت میں کچھ لاپرواہی سی ہے اور یہ بہت ذمہ دارانہ کام تھا جس کو کرنا میرے بس میں نہ تھا۔اور اس وقت مجھے اپنی پیاری سی دوست سمیعہ جی یاد آئیںجو بخوبی یہ ذمہ داری نبھاسکتیں تھیں ۔سمیعہ ناز اُس وقت میرے ساتھ نور ٹی وی پر بطور مہمان نعت خوان،اور نعت گو شاعرہ کی حثییت سے شریک ہوا کرتی تھیں۔ایک نعتیہ مجموعہ کلام کی خالق بھی ہیں۔اور جہاں تک مجھے یاد ہے سمیعہ جی کی نعتیہ کتاب ’’خزینہ ء نور ‘‘ کی رسم اجراء آپ ہی کے نیک ہاتھوں سے سر انجام پائی تھی۔اور اس تقریب میں میری بھی شرکت تھی ۔
 
یوں برطانیہ میںنعت ریسرچ سینٹر کی ایک شاخ کھولنے کا ذمہ سمیعہ جی کے سپرد کیا گیا جسے انہوں نے خوب نبھایااور جنوری ۲۰۰۹ء میںسمیعہ جی نے نعت رنگ اور نعت ریسرچ سینٹر یوکے کو پہلی باربرطانیہ کے شہر لیڈز میں متعارف کروایا۔اور مجھے بطور خاص اس تقریب میں مہمان خصوصی کے اعزاز سے نوازا گیا ۔مجھے یہ باتیں سب کے ساتھ کرتے ہوئے بہت خوشی ہے کہ گذرتے رواں سالوں نے بتا دیا کہ سمیعہ ناز کو جو ذمہ سونپا گیا اسکو بہت اچھی طرح سے انہوں نے سر انجام دیا ۔ برطانیہ میںوہ نعت ریسرچ سینٹر یوکے کی روح رواں ہیں اور فروغ نعت کے کاموں میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔اور یہ بہت ہی اچھی بات ہے۔نیکی کے کاموں میں سبقت لے جانے کی کوشش کرنی چاہیے۔مجھے اب افسوس ہوتا ہے کہ میں نے کیوںنہیں سمیعہ جی کے شانہ بہ شانہ کام کیا ۔
 
یوں برطانیہ میں نعت ریسرچ سینٹر کی ایک شاخ کھولنے کا ذمہ سمیعہ جی کے سپرد کیا گیا جسے انہوں نے خوب نبھایااور جنوری ۲۰۰۹ء میںسمیعہ جی نے نعت رنگ اور نعت ریسرچ سینٹر یوکے کو پہلی باربرطانیہ کے شہر لیڈز میں متعارف کروایا۔اور مجھے بطور خاص اس تقریب میں مہمان خصوصی کے اعزاز سے نوازا گیا ۔مجھے یہ باتیں سب کے ساتھ کرتے ہوئے بہت خوشی ہے کہ گذرتے رواں سالوں نے بتا دیا کہ سمیعہ ناز کو جو ذمہ سونپا گیا اسکو بہت اچھی طرح سے انہوں نے سر انجام دیا ۔ برطانیہ میںوہ نعت ریسرچ سینٹر یوکے کی روح رواں ہیں اور فروغ نعت کے کاموں میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔اور یہ بہت ہی اچھی بات ہے۔نیکی کے کاموں میں سبقت لے جانے کی کوشش کرنی چاہیے۔مجھے اب افسوس ہوتا ہے کہ میں نے کیوںنہیں سمیعہ جی کے شانہ بہ شانہ کام کیا ۔
لیکن میں خوش ہوں کہ جو کام بھی سمیعہ جی کر رہی ہیں ۔نعت رنگ کے حوالے سے نعت ریسرچ سینٹر یوکے کے حوالے سے وہ بہت احسن ہے اور پاکستان میں آپ اور ڈاکٹر عزیز احسن صاحب اور دیگر جو احباب آپ کا ساتھ دے رہے ہیں نعت رنگ کے کاموں میں اللہ تعالی سب کو اجر عظیم سے نوازے اور مزید کامیابیاں نصیب ہوں۔ آمین
لیکن میں خوش ہوں کہ جو کام بھی سمیعہ جی کر رہی ہیں ۔نعت رنگ کے حوالے سے نعت ریسرچ سینٹر یوکے کے حوالے سے وہ بہت احسن ہے اور پاکستان میں آپ اور ڈاکٹر عزیز احسن صاحب اور دیگر جو احباب آپ کا ساتھ دے رہے ہیں نعت رنگ کے کاموں میں اللہ تعالی سب کو اجر عظیم سے نوازے اور مزید کامیابیاں نصیب ہوں۔ آمین
اس تقریب کے آخر میں ڈاکٹر عزیز احسن صاحب نے نعت رنگ اور نعت ریسرچ سینٹر کے حوالے سے بہت ساری باتیں سب شرکائے محفل کے گوش گذار کیں۔اور نعت رنگ کے ان پچیس شماروں میں بیس سالوں کی طویل محنت پر بھی روشنی ڈالی کہ کس طرح سے آپ نے اپنی لگن اور محنت سے نعت رنگ کا کام سر انجام دیا۔
اس تقریب کے آخر میں ڈاکٹر عزیز احسن صاحب نے نعت رنگ اور نعت ریسرچ سینٹر کے حوالے سے بہت ساری باتیں سب شرکائے محفل کے گوش گذار کیں۔اور نعت رنگ کے ان پچیس شماروں میں بیس سالوں کی طویل محنت پر بھی روشنی ڈالی کہ کس طرح سے آپ نے اپنی لگن اور محنت سے نعت رنگ کا کام سر انجام دیا۔
اس تقریب کے ختم ہوتے ہی سمیعہ ناز نے ’’نعت ریسرچ سینٹر یوکے ‘‘ کی جانب سے دو ایوارڈ خصوصاََ دینے کا اعلان کیا ۔ جس پر سب کو بہت مسرت ہوئی۔ایک ایوارڈ ’’بہترین نعتیہ تنقید نگار‘‘  جو ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کو ملا ۔اور دوسرا ایوارڈ ’’بہترین نعت ایڈیٹر‘‘کا جو آپ( سیّد صبیح رحمانی )کو آپ کی بہترین کارکردگی پر دیا گیا آپ کی غیر موجودگی کی بنا پر اس ایوارڈ کو ڈاکٹر عزیز احسن صاحب نے لیا۔آپ کو اور ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کو بہت مبارک ہو ۔
اس تقریب کے ختم ہوتے ہی سمیعہ ناز نے ’’نعت ریسرچ سینٹر یوکے ‘‘ کی جانب سے دو ایوارڈ خصوصاََ دینے کا اعلان کیا ۔ جس پر سب کو بہت مسرت ہوئی۔ایک ایوارڈ ’’بہترین نعتیہ تنقید نگار‘‘  جو ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کو ملا ۔اور دوسرا ایوارڈ ’’بہترین نعت ایڈیٹر‘‘کا جو آپ( سیّد صبیح رحمانی )کو آپ کی بہترین کارکردگی پر دیا گیا آپ کی غیر موجودگی کی بنا پر اس ایوارڈ کو ڈاکٹر عزیز احسن صاحب نے لیا۔آپ کو اور ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کو بہت مبارک ہو ۔
یہ شام میری یادگار شاموں میں سے ایک ہے اس ایک شام میں میں نے کتنے ہی حسین پل ایک ساتھ کتنے ہی دمکتے لوگوں کے ساتھ جی لیے۔ نعت رنگ ۲۵ کی سلور جوبلی کی خوشی میں سمیعہ جی نے خاصا اہتمام کیا ہوا تھا کہ دل خوش ہوگیا۔ ایک بہت بڑے کیک پر نعت رنگ ۲۵ کے سر ورق کی خوبصورت تصویر چھپوائی گئی تھی جو نہایت دیدہ زیب لگ رہی تھی۔کیک کو مہمان خصوصی ڈاکٹر عزیز احسن اور دیگر لوگوں نے مل کر کاٹا اور خو شی منائی۔آخر میں ایک خوبصورت نعتیہ مشاعرہ ہوا جس میں تمام شعراء نے اپنا اپنا نعتیہ کلام سنا کر بہت داد پائی ۔
یہ شام میری یادگار شاموں میں سے ایک ہے اس ایک شام میں میں نے کتنے ہی حسین پل ایک ساتھ کتنے ہی دمکتے لوگوں کے ساتھ جی لیے۔ نعت رنگ ۲۵ کی سلور جوبلی کی خوشی میں سمیعہ جی نے خاصا اہتمام کیا ہوا تھا کہ دل خوش ہوگیا۔ ایک بہت بڑے کیک پر نعت رنگ ۲۵ کے سر ورق کی خوبصورت تصویر چھپوائی گئی تھی جو نہایت دیدہ زیب لگ رہی تھی۔کیک کو مہمان خصوصی ڈاکٹر عزیز احسن اور دیگر لوگوں نے مل کر کاٹا اور خو شی منائی۔آخر میں ایک خوبصورت نعتیہ مشاعرہ ہوا جس میں تمام شعراء نے اپنا اپنا نعتیہ کلام سنا کر بہت داد پائی ۔
 
ee
 
طلعت سلیم ۔برطانیہ
====طلعت سلیم ۔برطانیہ ====
 
۱۸/اکتوبر۲۰۱۶ء
۱۸/اکتوبر۲۰۱۶ء
مقامِ مسرت ہے کہ نعت رنگ (کتابی سلسلہ) ۱۹۹۵ء میں قافلۂ نعت نگاراں آپ (صبیح رحمانی) کے ہاتھوںچمنستان علم و ادب میں نیک تمنائوں ،خوبصورت خوابوں اور روشن امیدوں کے ساتھ لگایا ہوا پودا ماشاء اللہ ۲۵ برسوں کی سردی گرمی سہتا آج ایک حسین و جمیل سر سبز و شاداب پیڑ کی صورت ہمارے سامنے قلب و تظر کی شادابی و شادمانی کا ساماں لیے شان سے ایستادہ ہے ۔
مقامِ مسرت ہے کہ نعت رنگ (کتابی سلسلہ) ۱۹۹۵ء میں قافلۂ نعت نگاراں آپ (صبیح رحمانی) کے ہاتھوںچمنستان علم و ادب میں نیک تمنائوں ،خوبصورت خوابوں اور روشن امیدوں کے ساتھ لگایا ہوا پودا ماشاء اللہ ۲۵ برسوں کی سردی گرمی سہتا آج ایک حسین و جمیل سر سبز و شاداب پیڑ کی صورت ہمارے سامنے قلب و تظر کی شادابی و شادمانی کا ساماں لیے شان سے ایستادہ ہے ۔
روح پرور نعتوں کے خو ش رنگ پھولوں، بلند پایہ مضامین، تحقیقی مقالوں، بحثوں،تبصروں اور تذکروں کی دنیا پہلو میں لیے ایک ٹھنڈی پھوار کی صورت دل و جاں کو ٹھنڈک بخش رہا ہے۔تاجدار انبیاء آقائے نامدار حضرت محمدمصطفٰے  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں رنگا رنگ نعتوں کے گلدستے پیش کر کے قارئین کے مشام جاں کو مہکاتے اور دین و دنیا کو سنوارنے میں اپنی توانائیاں صرف کر کے ہر کتابی شمارے میں کیا کیا کچھ آپ پیش کر تے چلے آرہے ہیں ۔
روح پرور نعتوں کے خو ش رنگ پھولوں، بلند پایہ مضامین، تحقیقی مقالوں، بحثوں،تبصروں اور تذکروں کی دنیا پہلو میں لیے ایک ٹھنڈی پھوار کی صورت دل و جاں کو ٹھنڈک بخش رہا ہے۔تاجدار انبیاء آقائے نامدار حضرت محمدمصطفٰے  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں رنگا رنگ نعتوں کے گلدستے پیش کر کے قارئین کے مشام جاں کو مہکاتے اور دین و دنیا کو سنوارنے میں اپنی توانائیاں صرف کر کے ہر کتابی شمارے میں کیا کیا کچھ آپ پیش کر تے چلے آرہے ہیں ۔
آپ کے مبارک ہاتھوں سے نعت رنگ(کتابی سلسلہ) کا لگایا ہوا اور خونِ جگر سے سینچا ہوا پودااب ماشاء اللہ عمر کے بیس برس پورے کر کے بلند قامت پیڑ کا روپ دھارے شان سے کھڑا ہے۔نعت ریسرچ سینٹر سے شائع ہونے والی دلآویز کتابیں اپنی جگہ دامن ِ دل کو کھینچتی ہیں ۔ صنفِ نعت کو متبرک صنف سمجھتے ہوئے اس پر تنقید نہ کرنے کے اندازِ فکر کو نعت رنگ نے تبدیل کرکے بہت بڑی خدمت سرانجام دی ہے۔
آپ کے مبارک ہاتھوں سے نعت رنگ(کتابی سلسلہ) کا لگایا ہوا اور خونِ جگر سے سینچا ہوا پودااب ماشاء اللہ عمر کے بیس برس پورے کر کے بلند قامت پیڑ کا روپ دھارے شان سے کھڑا ہے۔نعت ریسرچ سینٹر سے شائع ہونے والی دلآویز کتابیں اپنی جگہ دامن ِ دل کو کھینچتی ہیں ۔ صنفِ نعت کو متبرک صنف سمجھتے ہوئے اس پر تنقید نہ کرنے کے اندازِ فکر کو نعت رنگ نے تبدیل کرکے بہت بڑی خدمت سرانجام دی ہے۔
 
نعت کا ناقدانہ جائزہ لے کر محترم ادبا، شعراء وقیع مضامین لکھ کر اسکی نوک پلک سنوارتے اور اس کا ظاہری و باطنی اور فنی حسن نکھارتے ہیں۔ نعت رنگ کے نگراں اور اپنی ذات میں ایک ادارے کی حثییت رکھنے والے ہمارے محترم ڈاکٹر عزیز احسن صاحب یہی خدمت سر انجام دے رہے ہیں ۔  ماشاء اللہ !
 
نعت کا ناقدانہ جائزہ لے کر محترم ادبا، شعراء وقیع مضامین لکھ کر اسکی نوک پلک سنوارتے اور اس کا ظاہری و باطنی اور فنی حسن نکھارتے ہیں۔ نعت رنگ کے نگراں اور اپنی ذات میں ایک ادارے کی حثییت رکھنے والے ہمارے محترم ڈاکٹر عزیز احسن صاحب یہی خدمت سر انجام دے رہے ہیں ۔  ماشاء اللہ !
اور ہماری خوش قسمتی ہے کہ سمیعہ نازؔ صاحبہ نے نعت رنگ (کتابی سلسلہ) کی سلور جوبلی کی خوبصورت تقریب محترم ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کے ساتھ لیڈز میں منعقد کی جس میں ہم سب کی بھرپور شرکت رہی ۔نعت رنگ کے کتابی سلسلے کی سلور جوبلی پر سب کی خدمت میں مبارکبادپیش کرتی ہوں اور ایک شعرجو محترم ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کی نذر کیا تھا دورانِ تقریب جب وہ ہم سب کے درمیان تشریف فرما تھے۔   
اور ہماری خوش قسمتی ہے کہ سمیعہ نازؔ صاحبہ نے نعت رنگ (کتابی سلسلہ) کی سلور جوبلی کی خوبصورت تقریب محترم ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کے ساتھ لیڈز میں منعقد کی جس میں ہم سب کی بھرپور شرکت رہی ۔نعت رنگ کے کتابی سلسلے کی سلور جوبلی پر سب کی خدمت میں مبارکبادپیش کرتی ہوں اور ایک شعرجو محترم ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کی نذر کیا تھا دورانِ تقریب جب وہ ہم سب کے درمیان تشریف فرما تھے۔   
دل  مسرت  کی  فراوانی  سے  دیوانہ  ہے  آج
دل  مسرت  کی  فراوانی  سے  دیوانہ  ہے  آج
دیکھئیے  یہ  کون  آخر  زیب  ِ کاشانہ  ہے  آج  
دیکھئیے  یہ  کون  آخر  زیب  ِ کاشانہ  ہے  آج  
یہاں برطانیہ کے شہر لیڈز میں محترمہ سمیعہ ناز صاحبہ بڑی دلجمعی شوق و محبت سے بطورِ معاون چیئر پرسن قابلِ قدر خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ مجھے نعت رنگ سے انہوں نے متعارف کروایا اور بہت سارے لوگوں کو کئی سالوںسے کرواتی چلی آرہی ہیں۔
یہاں برطانیہ کے شہر لیڈز میں محترمہ سمیعہ ناز صاحبہ بڑی دلجمعی شوق و محبت سے بطورِ معاون چیئر پرسن قابلِ قدر خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ مجھے نعت رنگ سے انہوں نے متعارف کروایا اور بہت سارے لوگوں کو کئی سالوںسے کرواتی چلی آرہی ہیں۔
کتابی صورت میں سینکڑوں صفحات پر مشتمل نہایت اعلیٰ نعتوں اور مضامین سے مزیّن تحفہ پیش کرنا آپ اور آپ کے تمام رفقائے کار کا بیش قیمت کارنامہ ہے جس کے لیے ہم نہایت شوق سے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے منتظر بیٹھے ہوتے ہیں کہ سمندر پار سے کب یہ گراں بہا تحفہ یہاں پہنچ کر دل و جاں کی شادمانی کا ساماں مہیّا کرتا ہے ۔ نعت رنگ کے اس خوبصورت کارواں کے لیے ڈھیروں مبارکباد اور دعائیں۔
کتابی صورت میں سینکڑوں صفحات پر مشتمل نہایت اعلیٰ نعتوں اور مضامین سے مزیّن تحفہ پیش کرنا آپ اور آپ کے تمام رفقائے کار کا بیش قیمت کارنامہ ہے جس کے لیے ہم نہایت شوق سے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے منتظر بیٹھے ہوتے ہیں کہ سمندر پار سے کب یہ گراں بہا تحفہ یہاں پہنچ کر دل و جاں کی شادمانی کا ساماں مہیّا کرتا ہے ۔ نعت رنگ کے اس خوبصورت کارواں کے لیے ڈھیروں مبارکباد اور دعائیں۔
ترا  آفتابِ  قسمت  رہے  تا  ابد  فروزاں
ترا  آفتابِ  قسمت  رہے  تا  ابد  فروزاں
تری  صبح  روزِ  کامل  کبھی  شام  تک  نہ  پہنچے  
تری  صبح  روزِ  کامل  کبھی  شام  تک  نہ  پہنچے  
 
ee
====سمیعہ نازؔ اقبال ۔برطانیہ ====
سمیعہ نازؔ اقبال ۔برطانیہ
 
۲۰/اکتوبر۲۰۱۶ء
۲۰/اکتوبر۲۰۱۶ء
جب بھی قلم اٹھاتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ میں ایک کم فہم اور کم علم کیا لکھوں گی اور کہاں تک لکھ پائوں گی۔ جس جریدے میں اعلیٰ فکر و نظر کے لوگ لکھتے ہوں۔اللہ کریم کا بے پایاں کرم ہے کہ ’’نعت رنگ ‘‘  بتدریج درخشاں زینے طے کرتے ہوئے اپنے جلو میں نقدو نعت کے دفینوں کو لیے رواں دواں ہے اور اللہ تعالیٰ یوں ہی مزید برکتوں اور رحمتوں سے مالا مال رکھے۔ آمین
جب بھی قلم اٹھاتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ میں ایک کم فہم اور کم علم کیا لکھوں گی اور کہاں تک لکھ پائوں گی۔ جس جریدے میں اعلیٰ فکر و نظر کے لوگ لکھتے ہوں۔اللہ کریم کا بے پایاں کرم ہے کہ ’’نعت رنگ ‘‘  بتدریج درخشاں زینے طے کرتے ہوئے اپنے جلو میں نقدو نعت کے دفینوں کو لیے رواں دواں ہے اور اللہ تعالیٰ یوں ہی مزید برکتوں اور رحمتوں سے مالا مال رکھے۔ آمین
محترم ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کی برطانیہ آمد سے تمام نعت سے محبت کرنے والوں کو از حد خوشی ہوئی اور وہ اپنے ساتھ نعت رنگ  شمارہ نمبر ۲۵  سلور جوبلی نمبر لے کر آئے۔ماشاء اللہ دیدہ زیب سر ورق خوبصورت آیہ نورکے ساتھ نہایت عمدہ کاوش ہے اور بیس برس کی محنتوں کا ثمر!   
محترم ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کی برطانیہ آمد سے تمام نعت سے محبت کرنے والوں کو از حد خوشی ہوئی اور وہ اپنے ساتھ نعت رنگ  شمارہ نمبر ۲۵  سلور جوبلی نمبر لے کر آئے۔ماشاء اللہ دیدہ زیب سر ورق خوبصورت آیہ نورکے ساتھ نہایت عمدہ کاوش ہے اور بیس برس کی محنتوں کا ثمر!   
’’نعت رنگ ‘‘  ایک سنگ میل کی حثییت رکھتا ہے میں اپنی جانب سے اور نعت ریسرچ سینٹر یوکے کے تمام بورڈ ممبران کی جانب سے آپ اورتمام ارباب نقد و نظر جنہوں نے دامے، درمے، قدمے، سخنے جیسے بھی جتنا بھی کسی نے حصہ ڈالا ان سب کو اور ’’نعت رنگ ‘‘  کے تمام قارئین کو بہت مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ اللہ کریم ’’نعت رنگ ‘‘  جیسے وقیع اور خوبصورت جریدے کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے اور مزید توفیقات عطا ہوں ۔آمین ثم آمین
’’نعت رنگ ‘‘  ایک سنگ میل کی حثییت رکھتا ہے میں اپنی جانب سے اور نعت ریسرچ سینٹر یوکے کے تمام بورڈ ممبران کی جانب سے آپ اورتمام ارباب نقد و نظر جنہوں نے دامے، درمے، قدمے، سخنے جیسے بھی جتنا بھی کسی نے حصہ ڈالا ان سب کو اور ’’نعت رنگ ‘‘  کے تمام قارئین کو بہت مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ اللہ کریم ’’نعت رنگ ‘‘  جیسے وقیع اور خوبصورت جریدے کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے اور مزید توفیقات عطا ہوں ۔آمین ثم آمین
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی خوبصورت دھنک بکھری ہے ’’نعت رنگ ‘‘  کے ابتدائیہ سے لے کر آخر تک۔دلی مسرت ہوئی کہ آپ نے اس خوبصورت شمارے سلور جوبلی نمبر ’’نعت رنگ ‘‘  ۲۵ کو محترم جناب ’’پروفیسر انوار احمد زئی ‘‘صاحب کے نام کیا۔پروفیسرڈاکٹر ریاض مجید صاحب نے بہت محبت اور وارفتگی سے ’’نعت رنگ‘‘کے لیے جو قصیدہء دعائیہ قلمبند کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔بہت مبارکباد پیش کرتی ہوں پروفیسرڈاکٹر ریاض مجید صاحب کو جنہوں نے اس قدر خوبصورت اور تحسین آمیز قصیدہ پیش کیا ہے۔ماشاء اللہ!
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی خوبصورت دھنک بکھری ہے ’’نعت رنگ ‘‘  کے ابتدائیہ سے لے کر آخر تک۔دلی مسرت ہوئی کہ آپ نے اس خوبصورت شمارے سلور جوبلی نمبر ’’نعت رنگ ‘‘  ۲۵ کو محترم جناب ’’پروفیسر انوار احمد زئی ‘‘صاحب کے نام کیا۔پروفیسرڈاکٹر ریاض مجید صاحب نے بہت محبت اور وارفتگی سے ’’نعت رنگ‘‘کے لیے جو قصیدہء دعائیہ قلمبند کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔بہت مبارکباد پیش کرتی ہوں پروفیسرڈاکٹر ریاض مجید صاحب کو جنہوں نے اس قدر خوبصورت اور تحسین آمیز قصیدہ پیش کیا ہے۔ماشاء اللہ!
تمام مقالات بہت جامع اور پر اثر ہیں اور بہت پسند آئے لیکن ہر ایک پر بات کرنا محال ہے۔ان میں چند ایک پر ضرور بات کرنا چاہتی ہوں۔پروفیسرڈاکٹر ریاض مجید صاحب نے’’ برسبیلِ نعت ۔۔الفاظ و تراکیب‘‘ پر ایک عمدہ تحریر پیش کی ہے۔ایسے مضامین کی اشد ضرورت ہے جن سے نوآموز شعرا کو بہتر سے بہترین لکھنے کی ترغیب و تحریک ملے۔
تمام مقالات بہت جامع اور پر اثر ہیں اور بہت پسند آئے لیکن ہر ایک پر بات کرنا محال ہے۔ان میں چند ایک پر ضرور بات کرنا چاہتی ہوں۔پروفیسرڈاکٹر ریاض مجید صاحب نے’’ برسبیلِ نعت ۔۔الفاظ و تراکیب‘‘ پر ایک عمدہ تحریر پیش کی ہے۔ایسے مضامین کی اشد ضرورت ہے جن سے نوآموز شعرا کو بہتر سے بہترین لکھنے کی ترغیب و تحریک ملے۔
اس کے علاوہ ڈاکٹر عزیز احسن صاحب نے’’نعتیہ ادب کی تخلیق، تنقید اور تحقیق کے تلازمے‘‘  ہمیشہ کی طرح ایک جامع اور اصلاحی تحریر پیش کی ہے ۔ ماشاء اللہ! محترم ڈاکٹر شبیر احمد قادری اور محترم ڈاکٹر اصغر علی بلوچ کا تحریر کردہ مقالہ بعنوانِ  ’’مذاہب عالم کا فلسفہء اخلاق اور اردو نعت نگار‘‘  ایک نہایت تحقیقی،معلوماتی اور عمدہ کاوش ہے۔جسے پڑھ کر بہت اچھا لگااور جس میں دیگر مذاہب کے بارے میں آگاہی دی گئی ہے۔
اس کے علاوہ ڈاکٹر عزیز احسن صاحب نے’’نعتیہ ادب کی تخلیق، تنقید اور تحقیق کے تلازمے‘‘  ہمیشہ کی طرح ایک جامع اور اصلاحی تحریر پیش کی ہے ۔ ماشاء اللہ! محترم ڈاکٹر شبیر احمد قادری اور محترم ڈاکٹر اصغر علی بلوچ کا تحریر کردہ مقالہ بعنوانِ  ’’مذاہب عالم کا فلسفہء اخلاق اور اردو نعت نگار‘‘  ایک نہایت تحقیقی،معلوماتی اور عمدہ کاوش ہے۔جسے پڑھ کر بہت اچھا لگااور جس میں دیگر مذاہب کے بارے میں آگاہی دی گئی ہے۔
کاشف عرفان نے ’’اردو نعت نگاری پر ما بعد جدیدیت کے اثرات‘‘ کے عنوان سے ایک لاجواب کاوش’’ نعت رنگ ‘‘کے تمام قارئین کی نذر کی ہے۔ان کی تحریر بہت شستہ اور اجلی ہے۔نعت رسول کے لیے فکر کو جو بلندی اور رسائی عطا ہونی چاہیے وہ بہت کم دیکھنے میں آتی ہے جس کے عوامل بے شمار ہوسکتے ہیں لیکن مجھے کاشف عرفان کی یہ بات بہت واضح محسوس ہوئی۔ وہ اس ضمن میں یوں لکھتے ہیںکہ:
کاشف عرفان نے ’’اردو نعت نگاری پر ما بعد جدیدیت کے اثرات‘‘ کے عنوان سے ایک لاجواب کاوش’’ نعت رنگ ‘‘کے تمام قارئین کی نذر کی ہے۔ان کی تحریر بہت شستہ اور اجلی ہے۔نعت رسول کے لیے فکر کو جو بلندی اور رسائی عطا ہونی چاہیے وہ بہت کم دیکھنے میں آتی ہے جس کے عوامل بے شمار ہوسکتے ہیں لیکن مجھے کاشف عرفان کی یہ بات بہت واضح محسوس ہوئی۔ وہ اس ضمن میں یوں لکھتے ہیںکہ:
’’ نعتیہ میدان میں مابعد جدیدیت کے حوالے سے اقبال کی شاعری اس آفاقی سطح کو چھوتی نظر آتی ہے جس کی جانب مابعد جدیدیت کا نظریہ اشارہ کرتا ہے ۔ اردو میں نعتیہ تنقید کو سب سے بڑا مسئلہ یہی درپیش رہا کہ اس نے اقبال کو معیار اورمرکز مان کر بات کو آگے بڑھانے کے بجائے ایسے کلام پر گفتگو کی جو خود اس درجے کو نہیں چھوتا جہاں شعر آفاقیت حاصل کر لیتا ہے ما بعد جدیدیت کا ایک اہم نکتہ کائنات کی حدود میں پھیلائو اور کائنات کی لامحدودیت کو سمجھنے کے عمل سے متعلق ہے۔‘‘
’’ نعتیہ میدان میں مابعد جدیدیت کے حوالے سے اقبال کی شاعری اس آفاقی سطح کو چھوتی نظر آتی ہے جس کی جانب مابعد جدیدیت کا نظریہ اشارہ کرتا ہے ۔ اردو میں نعتیہ تنقید کو سب سے بڑا مسئلہ یہی درپیش رہا کہ اس نے اقبال کو معیار اورمرکز مان کر بات کو آگے بڑھانے کے بجائے ایسے کلام پر گفتگو کی جو خود اس درجے کو نہیں چھوتا جہاں شعر آفاقیت حاصل کر لیتا ہے ما بعد جدیدیت کا ایک اہم نکتہ کائنات کی حدود میں پھیلائو اور کائنات کی لامحدودیت کو سمجھنے کے عمل سے متعلق ہے۔‘‘
کاشف عرفان کی اس خوبصورت تحریر کو پڑھ کر ازحد خوشی ہوئی ۔انہوں نے بہت جامع اور واضع دلیلوں کے ساتھ ایک وسیع موضوع کو بیان کیا ہے ۔اس پر سیر حاصل بات کی جا سکتی ہے ، لیکن میں اسی پر اکتفا کروں گی کیونکہ خط بہت طویل ہو چکا ہے ۔
کاشف عرفان کی اس خوبصورت تحریر کو پڑھ کر ازحد خوشی ہوئی ۔انہوں نے بہت جامع اور واضع دلیلوں کے ساتھ ایک وسیع موضوع کو بیان کیا ہے ۔اس پر سیر حاصل بات کی جا سکتی ہے ، لیکن میں اسی پر اکتفا کروں گی کیونکہ خط بہت طویل ہو چکا ہے ۔
ایک مقالہ جو ڈاکٹر شہزاد احمد نے ’’نعتیہ کلیات کی روایت (ایک مطالعاتی جائزہ )پیش کیا ہے۔ بلاشبہ یہ ایک بہت ہی معلوماتی اور مطالعاتی جائزہ ہے۔ اور جس کی افادیت مسلم ہے،جیسا کہ اس کے آغاز میں ہی نعت کی صدی کا حوالہ دے دیا گیا ہے۔آپ اور ڈاکٹر شہزاد احمدبہت مبارکباد کے مستحق ہیںاتنی عمدہ کاوش پر۔اس جائزے کو پڑھ کر اچھا تو لگا لیکن اختصار کی وجہ سے بڑے سے بڑے شعرائے کرام کی نعتوں کے ایک یادو عدد اشعار پیش کیے گئے ان کے تعارف کے ساتھ جبکہ قارئین کی تشنگی کو بڑھا دیا گیا۔
ایک مقالہ جو ڈاکٹر شہزاد احمد نے ’’نعتیہ کلیات کی روایت (ایک مطالعاتی جائزہ )پیش کیا ہے۔ بلاشبہ یہ ایک بہت ہی معلوماتی اور مطالعاتی جائزہ ہے۔ اور جس کی افادیت مسلم ہے،جیسا کہ اس کے آغاز میں ہی نعت کی صدی کا حوالہ دے دیا گیا ہے۔آپ اور ڈاکٹر شہزاد احمدبہت مبارکباد کے مستحق ہیںاتنی عمدہ کاوش پر۔اس جائزے کو پڑھ کر اچھا تو لگا لیکن اختصار کی وجہ سے بڑے سے بڑے شعرائے کرام کی نعتوں کے ایک یادو عدد اشعار پیش کیے گئے ان کے تعارف کے ساتھ جبکہ قارئین کی تشنگی کو بڑھا دیا گیا۔
محترم منظر عارفی صاحب نے ’’اُردو کے نعتیہ اشعار میں’ چٹائی ، غارِ حرا، جو، ‘ کے تذکار اور سیرت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حقائق‘‘ پر جو عمدہ کاوش کی ہے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔میری ادنیٰ سی عرض ہے کہ ایسے مزید مقالے منظر ِ عام پر آئیں تاکہ ہمارے جیسے نوآموز شعرا کے لیے مزید آگاہی اور سیکھنے کا سبب ہوں۔اور اصل حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے قدرے بہتر سے بہترین سیکھنے کی سعی کی جا سکے۔ ڈاکٹر دائود عثمانی صاحب نے ’’نعت نامے‘‘ اور نقدِ نعت  کے حوالے سے ایک خوبصورت اور عمدہ مقالہ پیش کیا ہے۔جہاں انہوں نے خوب سے خوب تر نعت ناموں کا حوالہ شامل کیا وہاں پر مجھے اپنا نام دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ۔جزاک اللہ خیرا!
محترم منظر عارفی صاحب نے ’’اُردو کے نعتیہ اشعار میں’ چٹائی ، غارِ حرا، جو، ‘ کے تذکار اور سیرت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حقائق‘‘ پر جو عمدہ کاوش کی ہے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔میری ادنیٰ سی عرض ہے کہ ایسے مزید مقالے منظر ِ عام پر آئیں تاکہ ہمارے جیسے نوآموز شعرا کے لیے مزید آگاہی اور سیکھنے کا سبب ہوں۔اور اصل حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے قدرے بہتر سے بہترین سیکھنے کی سعی کی جا سکے۔ ڈاکٹر دائود عثمانی صاحب نے ’’نعت نامے‘‘ اور نقدِ نعت  کے حوالے سے ایک خوبصورت اور عمدہ مقالہ پیش کیا ہے۔جہاں انہوں نے خوب سے خوب تر نعت ناموں کا حوالہ شامل کیا وہاں پر مجھے اپنا نام دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ۔جزاک اللہ خیرا!
  ’’نعت رنگ‘‘ کی ایک خصوصیت ہے کہ اس میںنعت کے بہت اُجلے رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں۔اس بار بھی’’ سرائیکی شاعری میں نعت‘‘ کے عنوان سے خوبصورت تحقیقی مقالہ محترم خورشید ربانی نے پیش کیا ہے۔جہاںبہت سے نام اور کلام پڑھ کر دل خوش ہوا وہاں سلطان باہو ؒ اور خواجہ فریدؒ کے کلام دیکھ کر خود کو لکھنے سے روک نہ پائی۔
  ’’نعت رنگ‘‘ کی ایک خصوصیت ہے کہ اس میںنعت کے بہت اُجلے رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں۔اس بار بھی’’ سرائیکی شاعری میں نعت‘‘ کے عنوان سے خوبصورت تحقیقی مقالہ محترم خورشید ربانی نے پیش کیا ہے۔جہاںبہت سے نام اور کلام پڑھ کر دل خوش ہوا وہاں سلطان باہو ؒ اور خواجہ فریدؒ کے کلام دیکھ کر خود کو لکھنے سے روک نہ پائی۔
ب  
ب  
بسم اللہ دا ایہہ گہنا وی بھارا ہو
بسم اللہ دا ایہہ گہنا وی بھارا ہو
سطر 1,839: سطر 1,605:


میں قربان انہاں توں باہو جنہاں ملیا نبی دلارا ہو  
میں قربان انہاں توں باہو جنہاں ملیا نبی دلارا ہو  
’’بسم اللہ خداوند تعالیٰ کا نام ہے اور یہ گہنا انمول ہے، سرکارِ دوعالم کی شفاعت سے ساری دنیا نجات حاصل کرئے گی، ایسے با کمال نبی  پر بے شمار درود و سلام ،باہو! میں ان لوگوں پر قربان جائوں جنہیں ایسا دلارا نبی ملا ہے۔‘‘
’’بسم اللہ خداوند تعالیٰ کا نام ہے اور یہ گہنا انمول ہے، سرکارِ دوعالم کی شفاعت سے ساری دنیا نجات حاصل کرئے گی، ایسے با کمال نبی  پر بے شمار درود و سلام ،باہو! میں ان لوگوں پر قربان جائوں جنہیں ایسا دلارا نبی ملا ہے۔‘‘
  سرائیکی شاعری کے اولین دور سے متعلق پروفیسر عامر فہیم رقم طراز ہیں:
  سرائیکی شاعری کے اولین دور سے متعلق پروفیسر عامر فہیم رقم طراز ہیں:
’’ سرائیکی شاعری کا ارتقا تو ہوتا ہی حمدِ باری تعالیٰ اور نعت ِ رسولِ کریم سے ہے ، جتنی پرانی کہانیاں ہیں، مثنویاں ہیں،لوک قصے ہیں، سب کے آغاز میں دعا ہے کہ بارگاہِ رسالت میں اسے قبولیت کا درجہ ملے۔‘‘
’’ سرائیکی شاعری کا ارتقا تو ہوتا ہی حمدِ باری تعالیٰ اور نعت ِ رسولِ کریم سے ہے ، جتنی پرانی کہانیاں ہیں، مثنویاں ہیں،لوک قصے ہیں، سب کے آغاز میں دعا ہے کہ بارگاہِ رسالت میں اسے قبولیت کا درجہ ملے۔‘‘
  خورشید صاحب خواجہ فریدؒ کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں، کہ خواجہ فرید ؒ  ۱۹ویں صدی کے وہ واحد اہم ترین شاعر ہیں جنہیں عالمی شہرت نصیب ہوئی۔ ان کے کلام کا سوز و گداز ، مٹھاس اور نغمگی اپنی مثال آپ ہے۔جیسا کہ ڈاکٹر طاہر تونسوی لکھتے ہیں:
  خورشید صاحب خواجہ فریدؒ کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں، کہ خواجہ فرید ؒ  ۱۹ویں صدی کے وہ واحد اہم ترین شاعر ہیں جنہیں عالمی شہرت نصیب ہوئی۔ ان کے کلام کا سوز و گداز ، مٹھاس اور نغمگی اپنی مثال آپ ہے۔جیسا کہ ڈاکٹر طاہر تونسوی لکھتے ہیں:
’’خواجہ فریدؒ نے لحنِ دائودی میں سچے حسن اور سچے عشق کی تلاش کا جو نغمہ تخلیق کیا اور عقیدت و محبتِ رسول کا جو مست کر دینے والا سُر چھیڑا ہے اس کے باعث وہ سب کے دل کی دھڑکن بن گئے۔ علامتوں اور اسرار کے حوالے سے انہوںنے تصوف کے جو مسائل بیان کئے اور جس طرح علاقہ کی علامت کو اظہار کا ذریعہ بنایا اس میں ان کا ثانی کوئی نہیں۔‘‘
’’خواجہ فریدؒ نے لحنِ دائودی میں سچے حسن اور سچے عشق کی تلاش کا جو نغمہ تخلیق کیا اور عقیدت و محبتِ رسول کا جو مست کر دینے والا سُر چھیڑا ہے اس کے باعث وہ سب کے دل کی دھڑکن بن گئے۔ علامتوں اور اسرار کے حوالے سے انہوںنے تصوف کے جو مسائل بیان کئے اور جس طرح علاقہ کی علامت کو اظہار کا ذریعہ بنایا اس میں ان کا ثانی کوئی نہیں۔‘‘
خورشید صاحب مزید لکھتے ہیں کہ ،خواجہ فریدؒ ایک صوفی شاعر تھے۔ اس لیے ان کی شاعری میں وحدت الوجود کے نظریے کے اثرات بھی نظر آتے ہیں اور ایک عاشقِ کامل کی صدائے درد مند بھی سنائی دیتی ہے۔صوفیانہ شاعری کے ساتھ ساتھ ان کے کلام میں حمد اور نعت کے مضامین بھی اپنے منفرد انداز میں موجود ہیں۔
خورشید صاحب مزید لکھتے ہیں کہ ،خواجہ فریدؒ ایک صوفی شاعر تھے۔ اس لیے ان کی شاعری میں وحدت الوجود کے نظریے کے اثرات بھی نظر آتے ہیں اور ایک عاشقِ کامل کی صدائے درد مند بھی سنائی دیتی ہے۔صوفیانہ شاعری کے ساتھ ساتھ ان کے کلام میں حمد اور نعت کے مضامین بھی اپنے منفرد انداز میں موجود ہیں۔
 
حریم عقیدت میں ،گوشہء انور شعور پڑھ کر بہت اچھا لگا اور ساتھ میںڈاکٹر عزیز احسن صاحب کی خوبصورت تحریر ’’انور شعور کا شعر عقیدت‘‘  ایک جامع تحریر ہے۔ اس کے علاوہ گوشہء جمیل عالی نہایت عمدہ کاوش ہے ۔خصوصاََ جگمگ نور نہایا رستہ ، امین راحت چغتائی نے جو مطالعہ پیش کیا ہے۔گوشہء سید ضیا الدین نعیم دیکھ اور پڑھ کر بہت لطف آیا ۔ان کی نعتیں سوشل میڈیا پہ جب بھی دیکھیں پڑھ کر ہمیشہ اک روشنی کا احساس ملا ۔ان کی نعت میں سادگی سے کہے گئے اشعار میں ہمیشہ ایک خوبصورت پیغام جو آقا  کی عظمت کو اجاگر کرتا ہوا قلب و روح میں اترتا ہوا محسوس ہوا۔
 
حریم عقیدت میں ،گوشہء انور شعور پڑھ کر بہت اچھا لگا اور ساتھ میںڈاکٹر عزیز احسن صاحب کی خوبصورت تحریر ’’انور شعور کا شعر عقیدت‘‘  ایک جامع تحریر ہے۔ اس کے علاوہ گوشہء جمیل عالی نہایت عمدہ کاوش ہے ۔خصوصاََ جگمگ نور نہایا رستہ ، امین راحت چغتائی نے جو مطالعہ پیش کیا ہے۔گوشہء سید ضیا الدین نعیم دیکھ اور پڑھ کر بہت لطف آیا ۔ان کی نعتیں سوشل میڈیا پہ جب بھی دیکھیں پڑھ کر ہمیشہ اک روشنی کا احساس ملا ۔ان کی نعت میں سادگی سے کہے گئے اشعار میں ہمیشہ ایک خوبصورت پیغام جو آقا  کی عظمت کو اجاگر کرتا ہوا قلب و روح میں اترتا ہوا محسوس ہوا۔
 
 
یہ خدا کا حکم ہے ، ہر آدمی کے واسطے
یہ خدا کا حکم ہے ، ہر آدمی کے واسطے
ان کی جانب دیکھنا ہے پیروی کے واسطے
ان کی جانب دیکھنا ہے پیروی کے واسطے
ان کی آمد سے مٹا  رنگ و نسب کا امتیاز
ان کی آمد سے مٹا  رنگ و نسب کا امتیاز
صرف تقویٰ، شرط ٹھہرا ، برتری کے واسطے  
صرف تقویٰ، شرط ٹھہرا ، برتری کے واسطے  
 
رواں سال میں میرے پاس نعت ریسرچ سینٹر کی بہت ساری نادر اور اہم کتب پہنچی ہیں جس کے لیے میں خصوصی طور پر ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کی بہت مشکور ہوں جنہوں نے اپنی تمام کتابوں کے نایاب نسخے مجھ ناچیز کو دیے اور’’ نعت نامے‘‘ جیسی کتاب بھی موصول ہوئی۔جو ایک مکمل دستاویز بن چکی ہے ۔اور اس ضمن میں محترم اقبال جاوید صاحب اپنے خط میں کیا خوب فرماتے ہیںکہ:
 
’’خط شخصیت کا عکس ہوتا ہے۔اور شخصیت مسرت کے قہقہوں، غم کے آنسوئوں ،
رواں سال میں میرے پاس نعت ریسرچ سینٹر کی بہت ساری نادر اور اہم کتب پہنچی ہیں جس کے لیے میں خصوصی طور پر ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کی بہت مشکور ہوں جنہوں نے اپنی تمام کتابوں کے نایاب نسخے مجھ ناچیز کو دیے اور’’ نعت نامے‘‘ جیسی کتاب بھی موصول ہوئی۔جو ایک مکمل دستاویز بن چکی ہے ۔اور اس ضمن میں محترم اقبال جاوید صاحب اپنے خط میں کیا خوب فرماتے ہیں کہ:
بے نیازی کی داستانوں اور نیاز مندی کی تمنائوں سے عبارت ہے۔‘‘
 
اور جو ایسے کئی خوبصورت خطوط سے بھری پڑی ہے۔آپ کی ممنون ہوں کہ آپ نے’’ نعت نامے‘‘ جیسی تاریخی شاہکار کتاب ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کے توسط سے ارسال کی ۔ڈاکٹر سہیل شفیق صاحب کو بہت مبارکباد پیش کرتی ہوں جنہوں نے یہ تحسین آمیز کام سر انجام دیا اور مشکور ہوں کہ میرے تین خط اس تاریخی دستاویز میں شامل کیے ۔دعا ہے اللہ کریم آپ تمام احباب کی توفیقات ہیں مزید برکتیں عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین!
 
آ پ کی ممنون ہوں کہ میرے بصد اصرار پر اپنی مرتب شدہ کتب بھی ارسال کیںجن میں ’’اردو نعت میں تجلیات سیرت، ڈاکٹر عزیز احسن اور مطالعات ِ حمد و نعت ، اردو نعت کی شعری روایت‘‘۔ان کے ساتھ ساتھ کاشف عرفان کی خوبصورت کتاب’’ نعت اوجدید ر تنقیدی رحجانات‘‘ بھی بھیجی ۔
’’خط شخصیت کا عکس ہوتا ہے۔اور شخصیت مسرت کے قہقہوں، غم کے آنسوئوں ،بے نیازی کی داستانوں اور نیاز مندی کی تمنائوں سے عبارت ہے۔‘‘
 
 
اور جو ایسے کئی خوبصورت خطوط سے بھری پڑی ہے۔آپ کی ممنون ہوں کہ آپ نے’’ نعت نامے‘‘ جیسی تاریخی شاہکار کتاب ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کے توسط سے ارسال کی ۔ڈاکٹر سہیل شفیق صاحب کو بہت مبارکباد پیش کرتی ہوں جنہوں نے یہ تحسین آمیز کام سر انجام دیا اور مشکور ہوں کہ میرے تین خط اس تاریخی دستاویز میں شامل کیے ۔دعا ہے اللہ کریم آپ تمام احباب کی توفیقات ہیں مزید برکتیں عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین!
 
 
آ پ کی ممنون ہوں کہ میرے بصد اصرار پر اپنی مرتب شدہ کتب بھی ارسال کیںجن میں ’’اردو نعت میں تجلیات سیرت، ڈاکٹر عزیز احسن اور مطالعات ِ حمد و نعت ، اردو نعت کی شعری روایت‘‘۔ان کے ساتھ ساتھ کاشف عرفان کی خوبصورت کتاب’’ نعت اوجدید ر تنقیدی رحجانات‘‘ بھی بھیجی ۔
 
 
اس کے علاوہ ’’نعت ریسرچ سینٹریوکے‘‘ کو فروغِ نعت اکیڈمی کی جانب سے ’’فروغِ نعت‘‘ کے تمام شمارے موصول ہوئے جس کے لیے ہم سب ’’فروغِ نعت اکیڈمی‘‘  کے چیئر مین محترم سید شاکر القادری صاحب اور جملہ اراکین کے بے حد مشکور ہیںجنہوں نے فروغ نعت کے مجلّے ارسال کیے۔
اس کے علاوہ ’’نعت ریسرچ سینٹریوکے‘‘ کو فروغِ نعت اکیڈمی کی جانب سے ’’فروغِ نعت‘‘ کے تمام شمارے موصول ہوئے جس کے لیے ہم سب ’’فروغِ نعت اکیڈمی‘‘  کے چیئر مین محترم سید شاکر القادری صاحب اور جملہ اراکین کے بے حد مشکور ہیںجنہوں نے فروغ نعت کے مجلّے ارسال کیے۔
  ڈاکٹرعزیز احسن صاحب کی برطانیہ آمد سے ہم سب نے خوب استفادہ کیا۔ نعت ریسرچ سینٹر یوکے کے زیر اہتمام ایک تقریب تو منعقد کی لیکن یوکے کے ایک مقامی چینل نور ٹی وی جس پر میں اپنے پروگراموں کی کمپیئرنگ کرتی رہتی ہوں۔ایک براہ راست نعتیہ مشاعرے کا اہتمام کیا جس کے مہمانِ خصوصی محترم ڈاکٹر عزیز احسن صاحب تھے اور جس میں یوکے کے تمام مقامی شہروں سے شعرائے کرام نے شرکت کی۔اور جس کی صدارت محترم جناب قبلہ پیرمحمد علائوالدین صدیقی صاحب (چیئرمین آف نور ٹی وی )نے فرمائی ۔
  ڈاکٹرعزیز احسن صاحب کی برطانیہ آمد سے ہم سب نے خوب استفادہ کیا۔ نعت ریسرچ سینٹر یوکے کے زیر اہتمام ایک تقریب تو منعقد کی لیکن یوکے کے ایک مقامی چینل نور ٹی وی جس پر میں اپنے پروگراموں کی کمپیئرنگ کرتی رہتی ہوں۔ایک براہ راست نعتیہ مشاعرے کا اہتمام کیا جس کے مہمانِ خصوصی محترم ڈاکٹر عزیز احسن صاحب تھے اور جس میں یوکے کے تمام مقامی شہروں سے شعرائے کرام نے شرکت کی۔اور جس کی صدارت محترم جناب قبلہ پیرمحمد علائوالدین صدیقی صاحب (چیئرمین آف نور ٹی وی )نے فرمائی ۔
سب سے اہم بات یہ بتانی مقصود ہے کہ نعتیہ مشاعرہ تو روایتی انداز سے کیا گیا۔جس میں تمام شعرائے کرام نے اپنے اپنے نعتیہ کلام تمام سامعین و ناظرین کی سماعتوں کی نذر کیے ۔آخر میں مہمانِ خصوصی جناب ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کو( راقمہ)نے  نعت اور تنقید نعت پر گفتگو کی دعوت دی تاکہ تمام عالم اسلام میں جہاں جہاں نور ٹی وی دیکھا جارہا ہو یہ بات بھی سب تک پہنچ جائے۔کہ صحیح معنوں میں نعتِ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح سے کرنی چاہیے اور اس کے کیا تقاضے ہیں۔
سب سے اہم بات یہ بتانی مقصود ہے کہ نعتیہ مشاعرہ تو روایتی انداز سے کیا گیا۔جس میں تمام شعرائے کرام نے اپنے اپنے نعتیہ کلام تمام سامعین و ناظرین کی سماعتوں کی نذر کیے ۔آخر میں مہمانِ خصوصی جناب ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کو( راقمہ)نے  نعت اور تنقید نعت پر گفتگو کی دعوت دی تاکہ تمام عالم اسلام میں جہاں جہاں نور ٹی وی دیکھا جارہا ہو یہ بات بھی سب تک پہنچ جائے۔کہ صحیح معنوں میں نعتِ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح سے کرنی چاہیے اور اس کے کیا تقاضے ہیں۔
 
  اور آخر میںجناب قبلہ پیرمحمد علائوالدین صدیقی صاحب (چیئرمین آف نور ٹی وی ) نے صدارتی فرائض انجام دیتے ہوئے اس نعتیہ مشاعرے کو اور خصوصاََ ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کی نعت اور تنقید نعت پر گفتگو کو بہت پسند فرمایا اور اس بات کی تائید و تاکید بھی فرمائی کہ ہمیں نعتِ رسولِ کریم  کس طرح سے کرنی چاہیے اور بحثییت نعت گو ،نعت خوان اور نقاد کے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم نبی کریم کی شان اور ان کے ادب کے تقاضوں کو مدنظر  رکھتے ہوئے اس کام کو احسن طریقے سے لے کر چلیں۔الحمدللہ! اس پروگرام کو بہت پذیرائی ملی بہت سراہا گیا اور نور ٹی وی پر اس کو باردگر دکھایابھی گیا۔
 
  اور آخر میں جناب قبلہ پیرمحمد علائوالدین صدیقی صاحب (چیئرمین آف نور ٹی وی ) نے صدارتی فرائض انجام دیتے ہوئے اس نعتیہ مشاعرے کو اور خصوصاََ ڈاکٹر عزیز احسن صاحب کی نعت اور تنقید نعت پر گفتگو کو بہت پسند فرمایا اور اس بات کی تائید و تاکید بھی فرمائی کہ ہمیں نعتِ رسولِ کریم  کس طرح سے کرنی چاہیے اور بحثییت نعت گو ،نعت خوان اور نقاد کے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم نبی کریم کی شان اور ان کے ادب کے تقاضوں کو مدنظر  رکھتے ہوئے اس کام کو احسن طریقے سے لے کر چلیں۔الحمدللہ! اس پروگرام کو بہت پذیرائی ملی بہت سراہا گیا اور نور ٹی وی پر اس کو باردگر دکھایابھی گیا۔
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انٹرنیشنل نعت ریسرچ سینٹر ، یوکے،کی تقریبِ پذیرائی۔۔۔۔اور نعتیہ مشاعرہ:  
انٹرنیشنل نعت ریسرچ سینٹر ، یوکے،کی تقریبِ پذیرائی۔۔۔۔اور نعتیہ مشاعرہ:  
  لیڈز میں’’انٹرنیشنل نعت ریسرچ سینٹر ، یوکے‘‘ کی وائس چئیر پرسن سمیعہ نازؔ (راقمہ )نے خصوصی طور پر نعتیہ ادب کے مقبول ترین کتابی سلسلے، نعت رنگ کے پچیس شمارے مکمل ہونے پر سلور جوبلی کی تقریب پذیرائی منعقد کی ۔یہ تقریب، بروز ہفتہ ، ۱۹ ؍مارچ ۲۰۱۶ء کو لیڈز میں منعقد ہوئی۔ جس میں انٹرنیشنل نعت ریسرچ سینٹر ، کراچی ، پاکستان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عزیز احسن کی برطانیہ آمد پر ان کے اعزاز میں ایک نعتیہ مشاعرے کا اہتمام بھی کیاگیا۔
  لیڈز میں’’انٹرنیشنل نعت ریسرچ سینٹر ، یوکے‘‘ کی وائس چئیر پرسن سمیعہ نازؔ (راقمہ )نے خصوصی طور پر نعتیہ ادب کے مقبول ترین کتابی سلسلے، نعت رنگ کے پچیس شمارے مکمل ہونے پر سلور جوبلی کی تقریب پذیرائی منعقد کی ۔یہ تقریب، بروز ہفتہ ، ۱۹ ؍مارچ ۲۰۱۶ء کو لیڈز میں منعقد ہوئی۔ جس میں انٹرنیشنل نعت ریسرچ سینٹر ، کراچی ، پاکستان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عزیز احسن کی برطانیہ آمد پر ان کے اعزاز میں ایک نعتیہ مشاعرے کا اہتمام بھی کیاگیا۔
تقریبِ پذیرائی کی نظامت کے تمام فرائض (راقمہ ) نے سر انجام دیے۔تقریب کا باقاعدہ آغاز اشتیاق میر صاحب کی تلاوت قرآنِ حکیم سے ہوا۔ اس کے بعد ثوبیہ ملک کی خوبصورت آواز میں سمیعہ نازؔ (راقمہ) کا لکھا ہوا نعتیہ کلام سب کی سماعتوں تک پہنچا۔جس کو سن کرسب بہت لطف اندوز ہوئے۔
تقریبِ پذیرائی کی نظامت کے تمام فرائض (راقمہ ) نے سر انجام دیے۔تقریب کا باقاعدہ آغاز اشتیاق میر صاحب کی تلاوت قرآنِ حکیم سے ہوا۔ اس کے بعد ثوبیہ ملک کی خوبصورت آواز میں سمیعہ نازؔ (راقمہ) کا لکھا ہوا نعتیہ کلام سب کی سماعتوں تک پہنچا۔جس کو سن کرسب بہت لطف اندوز ہوئے۔
  جھوم کر آئی صبا تیری ثنا سے پہلے
  جھوم کر آئی صبا تیری ثنا سے پہلے
  خوب برسی بھی گھٹا تیری ثنا سے پہلے
  خوب برسی بھی گھٹا تیری ثنا سے پہلے
(راقمہ ) نے نعت رنگ کے پچیس شمارے مکمل ہونے پر سلور جوبلی کی تقریب کے لیے ایک بہت بڑا خوبصورت کیک نعت رنگ کے پچیسویں شمارے کے سر ورق کی مکمل تصویر کے ساتھ تیار کروارکھا تھا۔(راقمہ ) نے ،مہمان خصوصی محترم ڈاکٹر عزیز احسن صاحب ، ڈاکٹر مختار الدین صاحب ، ڈاکٹر مقصود الٰہی شیخ صاحب ، محترمہ طلعت سلیم صاحبہ اور فراز یونس صاحب کو سٹیج پر آنے کی دعوت دی۔اوریوںکیک کو مہمانِ خصوصی نے دیگر مہمانوں کی شمولیت کے ساتھ کاٹا۔اس کے بعد نعتیہ ادب کے بہترین نقاد کا ایوارڈ، طلعت سلیم صاحبہ کے ہاتھوں سے ،ڈاکٹر عزیز احسن کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ نعتیہ ادب کے بہترین مدیرکا ایوارڈ صبیح رحمانی کو دیا گیاجو صبیح رحمانی کی غیر موجودگی میں، سمیعہ ناز (راقمہ )ؔ کے شوہر پرویز اقبال کے ہاتھوں سے ،ڈاکٹر عزیز احسن نے وصول کیا۔
(راقمہ ) نے نعت رنگ کے پچیس شمارے مکمل ہونے پر سلور جوبلی کی تقریب کے لیے ایک بہت بڑا خوبصورت کیک نعت رنگ کے پچیسویں شمارے کے سر ورق کی مکمل تصویر کے ساتھ تیار کروارکھا تھا۔(راقمہ ) نے ،مہمان خصوصی محترم ڈاکٹر عزیز احسن صاحب ، ڈاکٹر مختار الدین صاحب ، ڈاکٹر مقصود الٰہی شیخ صاحب ، محترمہ طلعت سلیم صاحبہ اور فراز یونس صاحب کو سٹیج پر آنے کی دعوت دی۔اوریوںکیک کو مہمانِ خصوصی نے دیگر مہمانوں کی شمولیت کے ساتھ کاٹا۔اس کے بعد نعتیہ ادب کے بہترین نقاد کا ایوارڈ، طلعت سلیم صاحبہ کے ہاتھوں سے ،ڈاکٹر عزیز احسن کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ نعتیہ ادب کے بہترین مدیرکا ایوارڈ صبیح رحمانی کو دیا گیاجو صبیح رحمانی کی غیر موجودگی میں، سمیعہ ناز (راقمہ )ؔ کے شوہر پرویز اقبال کے ہاتھوں سے ،ڈاکٹر عزیز احسن نے وصول کیا۔
(راقمہ )نے تقریب پذیرائی کے لیے مہمانانِ اعزاز ڈاکٹر مقصود الہٰی شیخ ، طلعت سلیم صاحبہ اور مہمانِ خصوصی محترم ڈاکٹر عزیزاحسن صاحب کو سٹیج پر متمکن ہونے کی دعوت دی۔سب سے پہلے (راقمہ ) نے ’’نعت رنگ‘‘ کے پچیس شمارے مکمل ہونے پر شکریے کے طور پر ’’نعت رنگ‘‘ کے عنوان سے اپنی ایک نظم سب شرکائے محفل کی نذر کی ۔
(راقمہ )نے تقریب پذیرائی کے لیے مہمانانِ اعزاز ڈاکٹر مقصود الہٰی شیخ ، طلعت سلیم صاحبہ اور مہمانِ خصوصی محترم ڈاکٹر عزیزاحسن صاحب کو سٹیج پر متمکن ہونے کی دعوت دی۔سب سے پہلے (راقمہ ) نے ’’نعت رنگ‘‘ کے پچیس شمارے مکمل ہونے پر شکریے کے طور پر ’’نعت رنگ‘‘ کے عنوان سے اپنی ایک نظم سب شرکائے محفل کی نذر کی ۔
مہمانِ خصوصی ڈاکٹر عزیز احسن نے نعت رنگ کے اجراء کی تاریخ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اپریل ۱۹۹۵ء میں نعت رنگ،کتابی سلسلے کا پہلاشمارہ تنقیدنمبر کی صورت میں منظرِ عام پر آیا تھا۔ اب تک نعت رنگ کے پچیس شمارے شائع ہوچکے ہیںجن کی پذیرائی کا دائرہ بین الاقوامی سطح تک پھیل چکا ہے۔انہوں نے صبیح رحمانی کی مدیرانہ صلاحیتوں کی تعریف کی اور نعتیہ ادب سے ان کی دلچسپی کے باعث نعت ریسرچ سینٹر کے زیرِ اہتمام شائع ہونے والی کتب کا تذکرہ کیا۔
مہمانِ خصوصی ڈاکٹر عزیز احسن نے نعت رنگ کے اجراء کی تاریخ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اپریل ۱۹۹۵ء میں نعت رنگ،کتابی سلسلے کا پہلاشمارہ تنقیدنمبر کی صورت میں منظرِ عام پر آیا تھا۔ اب تک نعت رنگ کے پچیس شمارے شائع ہوچکے ہیںجن کی پذیرائی کا دائرہ بین الاقوامی سطح تک پھیل چکا ہے۔انہوں نے صبیح رحمانی کی مدیرانہ صلاحیتوں کی تعریف کی اور نعتیہ ادب سے ان کی دلچسپی کے باعث نعت ریسرچ سینٹر کے زیرِ اہتمام شائع ہونے والی کتب کا تذکرہ کیا۔
نعتیہ ادب میں تنقیدی سرگرمیوں کے آغاز کا سہرہ نعت رنگ کے سر ہے۔ نعتیہ ادب میں تنقیدی عمل کے بہت تاخیر سے شروع ہونے کے اسباب پر بھی ڈاکٹر صاحب نے روشنی ڈالی۔ وقت کی قلت کے باعث ڈاکٹر مقصود الہٰی شیخ صاحب ، محترمہ طلعتؔ سلیم ، تسنیمؔ حسن اور سمیعہ نازؔ (راقمہ ) نے بھی نعت رنگ کی ادبی انفرادیت کے حوالے سے بات کی۔ سب مقررین نے صبیح رحمانی کی مدیرانہ صلاحیتوں کی تعریف کی اور مہمانِ خصوصی کی ناقدانہ کاوشوں کو سراہا۔
نعتیہ ادب میں تنقیدی سرگرمیوں کے آغاز کا سہرہ نعت رنگ کے سر ہے۔ نعتیہ ادب میں تنقیدی عمل کے بہت تاخیر سے شروع ہونے کے اسباب پر بھی ڈاکٹر صاحب نے روشنی ڈالی۔ وقت کی قلت کے باعث ڈاکٹر مقصود الہٰی شیخ صاحب ، محترمہ طلعتؔ سلیم ، تسنیمؔ حسن اور سمیعہ نازؔ (راقمہ ) نے بھی نعت رنگ کی ادبی انفرادیت کے حوالے سے بات کی۔ سب مقررین نے صبیح رحمانی کی مدیرانہ صلاحیتوں کی تعریف کی اور مہمانِ خصوصی کی ناقدانہ کاوشوں کو سراہا۔
تقریب پذیرائی کے بعد نعتیہ مشاعرہ ہوا جس کی نظامت کے فرائض اشتیاق میر صاحب نے انجام دیے اور اس کی صدارت معروف شاعرڈاکٹر مختار الدین احمدنے کی۔ ڈاکٹر عزیز احسن مہمانِ خصوصی کی حثییت سے شریک ہوئے۔ اس مشاعرے میں بر طانیہ کے مختلف شہروں سے آئے ہوئے شعراء نے اپنا نعتیہ کلام سنایا۔جس میں سر فہرست ڈاکٹر مختار الدین احمد، اشتیاق میر، سمیعہ ناز (راقمہ )ؔ،تسنیم حسن،طلعت سلیم،سعدیہ سیٹھی،جاوید اقبال ستار،ڈاکٹر قیصر زیدی، خواجہ محمد عارف، مختار آذر کربلائی تھے ۔
تقریب پذیرائی کے بعد نعتیہ مشاعرہ ہوا جس کی نظامت کے فرائض اشتیاق میر صاحب نے انجام دیے اور اس کی صدارت معروف شاعرڈاکٹر مختار الدین احمدنے کی۔ ڈاکٹر عزیز احسن مہمانِ خصوصی کی حثییت سے شریک ہوئے۔ اس مشاعرے میں بر طانیہ کے مختلف شہروں سے آئے ہوئے شعراء نے اپنا نعتیہ کلام سنایا۔جس میں سر فہرست ڈاکٹر مختار الدین احمد، اشتیاق میر، سمیعہ ناز (راقمہ )ؔ،تسنیم حسن،طلعت سلیم،سعدیہ سیٹھی،جاوید اقبال ستار،ڈاکٹر قیصر زیدی، خواجہ محمد عارف، مختار آذر کربلائی تھے ۔
ee
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)

اِس صفحہ پر مستعمل سانچہ حسب ذیل ہے: