آپ «نعت اور تنقید نعت از ابوالخیر کشفی» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 1: سطر 1:
===’’نعت اور تنقیدِ نعت‘‘ از ڈاکٹر پروفیسر ابوالخیر کشفی===
===’’نعت اور تنقیدِ نعت‘‘ از ڈاکٹر پروفیسر ابوالخیر کشفی===


مضمون نگار : [[پروفیسر محمد اکرم رضا]]
مضمون نگار : [[پروفیسر محمد اکرم رضا]]


یہ تنقیدی کتاب برصغیر پاک و ہند کے ممتاز صاحب قلم، معروف [[نعت گو]] اور بزرگ نقاد [[ڈاکٹر پروفیسر سیّد ابوالخیر کشفی]] کی ہے۔ اس میں پانچ مقالات ہیں۔ اسے طاہرہ کشفی میمویل سوسائٹی کراچی نے [[2001]]ء میں شائع کیا ہے۔ مدیر ’’[[نعت رنگ]]‘‘ [[ صبیح رحمانی]] نے ڈاکٹر صاحب سے اصرار کرکے یہ مقالے لکھوائے اور کتابی سلسلے ’’[[نعت رنگ]]‘‘ میں شائع کیے۔ ڈاکٹر کشفی بذاتِ خود ایک عہد ہیں۔ ادب و انشا کا زریں دور ہیں۔ اور [[صبیح رحمانی]] بھی بلا کی چیز ہے۔ نہ کسی کی جوانی دیکھتا ہے نہ بڑھاپا۔ جوانی تو خیر دیکھنے والی چیز نہیں ہوتی (صاحبِ نعت کے لیے) لیکن صبیح رحمانیؔ تو بڑھاپے کو بھی معاف نہیں کرتا۔ اس کی اہم دلیل کشفی صاحب سے لکھوائے ہوئے یہ مضامین ہیں دراصل کشفی انتہائی ملنسار، مشفق مزاج اور نرم گوشہ ہیں کہ کسی کو نہ کہہ ہی نہیں سکتے کشفی صاحب کی اسی خداداد لطافت کا فائدہ صبیح رحمانیؔ نے اٹھایا اور نعت کا حسن جو پہلے ہی بکھرنے کے لیے ہوتا ہے اور زیادہ آب و تاب دکھانے لگا۔ اس کتاب میں شامل مضامین کے عنوانات ہیں’’ نعت کے موضوعات‘‘ ،’’نعت گنجینۂ معانی کا طلسم‘‘، ’’غزل میں نعت کی جلوہ گری‘‘، ’’اردو میںنعت کا مستقبل‘‘ ، ’’ ہیں مواجہہ پہ ہم‘‘۔
یہ تنقیدی کتاب برصغیر پاک و ہند کے ممتاز صاحب قلم، معروف [[نعت گو]] اور بزرگ نقاد [[ڈاکٹر پروفیسر سیّد ابوالخیر کشفی]] کی ہے۔ اس میں پانچ مقالات ہیں۔ اسے طاہرہ کشفی میمویل سوسائٹی کراچی نے [[2001]]ء میں شائع کیا ہے۔ مدیر ’’[[نعت رنگ]]‘‘ [[سیّد صبیح رحمانی]] نے ڈاکٹر صاحب سے اصرار کرکے یہ مقالے لکھوائے اور کتابی سلسلے ’’[[نعت رنگ]]‘‘ میں شائع کیے۔ ڈاکٹر کشفی بذاتِ خود ایک عہد ہیں۔ ادب و انشا کا زریں دور ہیں۔ اور [[صبیح رحمانی]] بھی بلا کی چیز ہے۔ نہ کسی کی جوانی دیکھتا ہے نہ بڑھاپا۔ جوانی تو خیر دیکھنے والی چیز نہیں ہوتی (صاحبِ نعت کے لیے) لیکن صبیح رحمانیؔ تو بڑھاپے کو بھی معاف نہیں کرتا۔ اس کی اہم دلیل کشفی صاحب سے لکھوائے ہوئے یہ مضامین ہیں دراصل کشفی انتہائی ملنسار، مشفق مزاج اور نرم گوشہ ہیں کہ کسی کو نہ کہہ ہی نہیں سکتے کشفی صاحب کی اسی خداداد لطافت کا فائدہ صبیح رحمانیؔ نے اٹھایا اور نعت کا حسن جو پہلے ہی بکھرنے کے لیے ہوتا ہے اور زیادہ آب و تاب دکھانے لگا۔ اس کتاب میں شامل مضامین کے عنوانات ہیں’’ نعت کے موضوعات‘‘ ،’’نعت گنجینۂ معانی کا طلسم‘‘، ’’غزل میں نعت کی جلوہ گری‘‘، ’’اردو میںنعت کا مستقبل‘‘ ، ’’ ہیں مواجہہ پہ ہم‘‘۔


[[ڈاکٹرکشفی]] کے لکھنے کا اپنا ایک مخصو ص انداز ہے۔ وہ زورِ قلم سے مخصوص فضا پیدا کرلیتے اور قاری ان کا ہم سفر ہو جاتا ہے۔ ان کا مطالعہ صرف قدیم اور جدید علوم تک ہی محدود نہیں بلکہ گردوپیش کے زمانہ سے بھی باخبر ہیں۔ اس کتاب میںاگرچہ تمام مقالات کا تعلق نعت سے ہے مگر کتنے ہی موضوعات ان کے مضامین کی زینت بن گئے ہیں۔ ان کی تحریر میں معلوماتی عنصر کا غلبہ اس قدر ہے کہ ۱۷۴ صفحات کی یہ کتاب کئی کتابوں پر بھاری معلوم ہوتی ہے۔ کشفی صاحب نظریاتی شخصیت ہیں اقبال سے غایت درجہ عقیدت رکھتے ہیں فرماتے ہیں:
[[ڈاکٹرکشفی]] کے لکھنے کا اپنا ایک مخصو ص انداز ہے۔ وہ زورِ قلم سے مخصوص فضا پیدا کرلیتے اور قاری ان کا ہم سفر ہو جاتا ہے۔ ان کا مطالعہ صرف قدیم اور جدید علوم تک ہی محدود نہیں بلکہ گردوپیش کے زمانہ سے بھی باخبر ہیں۔ اس کتاب میںاگرچہ تمام مقالات کا تعلق نعت سے ہے مگر کتنے ہی موضوعات ان کے مضامین کی زینت بن گئے ہیں۔ ان کی تحریر میں معلوماتی عنصر کا غلبہ اس قدر ہے کہ ۱۷۴ صفحات کی یہ کتاب کئی کتابوں پر بھاری معلوم ہوتی ہے۔ کشفی صاحب نظریاتی شخصیت ہیں اقبال سے غایت درجہ عقیدت رکھتے ہیں فرماتے ہیں:
سطر 22: سطر 21:
اس کتاب میں ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کا ایک مضمون شاملِ اشاعت ہے ’’غزل میں نعت کی جلوہ گری‘‘ ڈاکٹر صاحب نے اپنے بیان کی وضاحت اور اپنے عنوان کو برحق ثابت کرنے کے لیے غزل گوشعرا کی درجنوں مثالیں دی ہیں۔ یہی مقام افسوس ہے کہ شاعر تو اسے غزل کہے اور ہر شعر کو اپنی غزل کا مستند شعر کہے اور کشفی صاحب جیسا صاحب فضیلت و نظریہ مسلمان اس بات پر بضد ہو کہ یہ نعت کا شعر ہے۔ مدتوں پہلے راقم اور محترم جناب پروفیسر محمد اقبال جاوید ایک ہی جگہ گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ میں پڑھاتے تھے۔ جب غالب پڑھاتے ہوئے یہ شعر آجاتا:
اس کتاب میں ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کا ایک مضمون شاملِ اشاعت ہے ’’غزل میں نعت کی جلوہ گری‘‘ ڈاکٹر صاحب نے اپنے بیان کی وضاحت اور اپنے عنوان کو برحق ثابت کرنے کے لیے غزل گوشعرا کی درجنوں مثالیں دی ہیں۔ یہی مقام افسوس ہے کہ شاعر تو اسے غزل کہے اور ہر شعر کو اپنی غزل کا مستند شعر کہے اور کشفی صاحب جیسا صاحب فضیلت و نظریہ مسلمان اس بات پر بضد ہو کہ یہ نعت کا شعر ہے۔ مدتوں پہلے راقم اور محترم جناب پروفیسر محمد اقبال جاوید ایک ہی جگہ گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ میں پڑھاتے تھے۔ جب غالب پڑھاتے ہوئے یہ شعر آجاتا:


[[زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا]]
زبان پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا
 
کہ میرے نطق نے بوسے مری زبان کے لیے
کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے


تو ہم یک زبان ہوکر یہی کہتے کہ غالب! تو نے کیا غضب کیا۔ کاش تو نے تجمل حسین خاں کے آرام کو خراج پیش کرنے کے بجائے اسے صاف طو رپر نعت کا شعر قرار دے دیا ہوتا تو بات ہی کچھ اور ہوتی، عاقبت بھی سنور جاتی (بہر حال عاقبت تو خدا کے حوالے ہے) نعت کا یہ شعر حضورﷺ کی کسی نہ کسی ادا سے تعلق رکھتا ہے ۔ پھر یہ اشعار نعت کے کیسے ہوگئے۔ زیادہ سے زیادہ محبت اظہار کرنے کے لیے ڈاکٹر صاحب یہ فرما سکتے تھے۔
تو ہم یک زبان ہوکر یہی کہتے کہ غالب! تو نے کیا غضب کیا۔ کاش تو نے تجمل حسین خاں کے آرام کو خراج پیش کرنے کے بجائے اسے صاف طو رپر نعت کا شعر قرار دے دیا ہوتا تو بات ہی کچھ اور ہوتی، عاقبت بھی سنور جاتی (بہر حال عاقبت تو خدا کے حوالے ہے) نعت کا یہ شعر حضورﷺ کی کسی نہ کسی ادا سے تعلق رکھتا ہے ۔ پھر یہ اشعار نعت کے کیسے ہوگئے۔ زیادہ سے زیادہ محبت اظہار کرنے کے لیے ڈاکٹر صاحب یہ فرما سکتے تھے۔
سطر 30: سطر 28:
کہ کاش انھوںنے اتنے خوب صورت اشعار نعت کی نذر کیے ہوتے
کہ کاش انھوںنے اتنے خوب صورت اشعار نعت کی نذر کیے ہوتے


معلوم نہیں اتنا بڑا محقق نے یہ اصرار کیوں کیا۔ ہمیں ہر لحاظ سے [[ڈاکٹر کشفی]] کا بلند مقام مقصود ہے۔ لیکن کیا بڑے غلطی نہیں کرسکتے۔ انھی کا تو فرمانا ہے کہ تنقید پر تنقید بھی نظریات، عقائد اور نعتیہ کلام اور مقالات کو پہلے سے بہتر بناتی اور سنوارتی ہے۔ اس حوالے سے تو ’’[[نعت رنگ]]‘‘ میں بحث چھڑ گئی تھی بہرحال ڈاکٹر صاحب نے بعد میں اپنی بات پر اصرار نہیں کیا۔ وہ بڑے آدمی تھے۔ اس لیے بات بھی دب گئی۔ انھی دونوں میں [[احمد صغیر صدیقی]] نے لکھا تھا:
معلوم نہیں اتنا بڑا محقق نے یہ اصرار کیوں کیا۔ ہمیں ہر لحاظ سے ڈاکٹر کشفی کا بلند مقام مقصود ہے۔ لیکن کیا بڑے غلطی نہیں کرسکتے۔ انھی کا تو فرمانا ہے کہ تنقید پر تنقید بھی نظریات، عقائد اور نعتیہ کلام اور مقالات کو پہلے سے بہتر بناتی اور سنوارتی ہے۔ اس حوالے سے تو ’’[[نعت رنگ]]‘‘ میں بحث چھڑ گئی تھی بہرحال ڈاکٹر صاحب نے بعد میں اپنی بات پر اصرار نہیں کیا۔ وہ بڑے آدمی تھے۔ اس لیے بات بھی دب گئی۔ انھی دونوں میں [[احمد صغیر صدیقی]] نے لکھا تھا:


میں اس حد تک جناب کشفی سے متفق ہوں کہ اُردو غزل کے بے شمار اشعار میں نعت کے اشعار جیسا رنگ ہے لیکن میں اس بات کی تائید نہیں کرسکتا کہ انھیں نعت کا شعر کہہ کر مشتہر کیا جائے۔ یوں سمجھ لیں کہ غزل میں نعت کی جلوہ گری دیکھنے پرکوئی پابندی نہیں مگر ان اشعار کو نعت کا شعر نہیں کہا جاسکتا۔ نماز پڑھنے کے لیے ہم جو حرکات کرتے ہیں انھیں ’’نیت ‘‘ کے بغیر کریں تو یہ حرکات نماز نہیں کہیں جاسکتیں۔ کوئی ان میں نماز کی جلوہ گری دیکھے تو یہ ایک دوسری بات ہوگی۔ بالکل اسی طرح جب تک واضح طو رپر شاعر نے اعلان نہ کیا ہو کہ شعر نعتیہ ہے یا اس کے اندر ایسے الفاظ نہ آئے ہوں تو اسے نعت کا شعر ہی بناتے ہوں تب تک غزل کے اشعار کو نعت کا شعر نہیں کہا جاسکتا۔ <ref> ’’نعت رنگ‘‘، کراچی ، غزل میں نعت کی جلوہ گری ایک جائزہ از احمد صغیر صدیقی ص۱۵۷ </ref>
میں اس حد تک جناب کشفی سے متفق ہوں کہ اُردو غزل کے بے شمار اشعار میں نعت کے اشعار جیسا رنگ ہے لیکن میں اس بات کی تائید نہیں کرسکتا کہ انھیں نعت کا شعر کہہ کر مشتہر کیا جائے۔ یوں سمجھ لیں کہ غزل میں نعت کی جلوہ گری دیکھنے پرکوئی پابندی نہیں مگر ان اشعار کو نعت کا شعر نہیں کہا جاسکتا۔ نماز پڑھنے کے لیے ہم جو حرکات کرتے ہیں انھیں ’’نیت ‘‘ کے بغیر کریں تو یہ حرکات نماز نہیں کہیں جاسکتیں۔ کوئی ان میں نماز کی جلوہ گری دیکھے تو یہ ایک دوسری بات ہوگی۔ بالکل اسی طرح جب تک واضح طو رپر شاعر نے اعلان نہ کیا ہو کہ شعر نعتیہ ہے یا اس کے اندر ایسے الفاظ نہ آئے ہوں تو اسے نعت کا شعر ہی بناتے ہوں تب تک غزل کے اشعار کو نعت کا شعر نہیں کہا جاسکتا۔ <ref> ’’نعت رنگ‘‘، کراچی ، غزل میں نعت کی جلوہ گری ایک جائزہ از احمد صغیر صدیقی ص۱۵۷ </ref>
سطر 46: سطر 44:
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
=== حواشی و حوالہ جات ===
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)