نعت اور تنقید نعت از ابوالخیر کشفی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

’’نعت اور تنقیدِ نعت‘‘ از ڈاکٹر پروفیسر ابوالخیر کشفی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مضمون نگار : پروفیسر محمد اکرم رضا

یہ تنقیدی کتاب برصغیر پاک و ہند کے ممتاز صاحب قلم، معروف نعت گو اور بزرگ نقاد ڈاکٹر پروفیسر سیّد ابوالخیر کشفی کی ہے۔ اس میں پانچ مقالات ہیں۔ اسے طاہرہ کشفی میمویل سوسائٹی کراچی نے 2001ء میں شائع کیا ہے۔ مدیر ’’نعت رنگ‘‘ صبیح رحمانی نے ڈاکٹر صاحب سے اصرار کرکے یہ مقالے لکھوائے اور کتابی سلسلے ’’نعت رنگ‘‘ میں شائع کیے۔ ڈاکٹر کشفی بذاتِ خود ایک عہد ہیں۔ ادب و انشا کا زریں دور ہیں۔ اور صبیح رحمانی بھی بلا کی چیز ہے۔ نہ کسی کی جوانی دیکھتا ہے نہ بڑھاپا۔ جوانی تو خیر دیکھنے والی چیز نہیں ہوتی (صاحبِ نعت کے لیے) لیکن صبیح رحمانیؔ تو بڑھاپے کو بھی معاف نہیں کرتا۔ اس کی اہم دلیل کشفی صاحب سے لکھوائے ہوئے یہ مضامین ہیں دراصل کشفی انتہائی ملنسار، مشفق مزاج اور نرم گوشہ ہیں کہ کسی کو نہ کہہ ہی نہیں سکتے کشفی صاحب کی اسی خداداد لطافت کا فائدہ صبیح رحمانیؔ نے اٹھایا اور نعت کا حسن جو پہلے ہی بکھرنے کے لیے ہوتا ہے اور زیادہ آب و تاب دکھانے لگا۔ اس کتاب میں شامل مضامین کے عنوانات ہیں’’ نعت کے موضوعات‘‘ ،’’نعت گنجینۂ معانی کا طلسم‘‘، ’’غزل میں نعت کی جلوہ گری‘‘، ’’اردو میںنعت کا مستقبل‘‘ ، ’’ ہیں مواجہہ پہ ہم‘‘۔

ڈاکٹرکشفی کے لکھنے کا اپنا ایک مخصو ص انداز ہے۔ وہ زورِ قلم سے مخصوص فضا پیدا کرلیتے اور قاری ان کا ہم سفر ہو جاتا ہے۔ ان کا مطالعہ صرف قدیم اور جدید علوم تک ہی محدود نہیں بلکہ گردوپیش کے زمانہ سے بھی باخبر ہیں۔ اس کتاب میںاگرچہ تمام مقالات کا تعلق نعت سے ہے مگر کتنے ہی موضوعات ان کے مضامین کی زینت بن گئے ہیں۔ ان کی تحریر میں معلوماتی عنصر کا غلبہ اس قدر ہے کہ ۱۷۴ صفحات کی یہ کتاب کئی کتابوں پر بھاری معلوم ہوتی ہے۔ کشفی صاحب نظریاتی شخصیت ہیں اقبال سے غایت درجہ عقیدت رکھتے ہیں فرماتے ہیں:

اقبال کی پوری شاعری اور اس کا فلسفہ خودی عشق عمل تعلق بالرسولﷺ سے عبارت ہے۔ اقبال ملتِ اسلامیہ کے حدی خواں ہیں۔ اقبال کی شاعری اُردو نعتیہ شاعری کی معراج ہے جس نے ہماری اجتماعی فکر اور فن کو نئے دھارے اور رجحانات عطا کیے۔

دوسرے حصے میں انھوںنے علمائے حق کے خیالات قلم بند کیے ہیں اس مقالے میں طالبانِ علم کو نعت کے آداب، خصوصیت اور خاصیت علوم کے بڑے سبق آموز اشارات ملتے ہیں۔ ’’نعت کے عناصر‘‘ اور نعت کے مضامین بڑے معلوماتی اور علم و حکمت کی اک نئی دنیا اپنے دامن میں لیے ہوئے ہیں۔ اس میں نعت کے حوالے سے گھسے پٹے خیالات یا الفاظ قلم بند نہیں کیے بلکہ ہر جگہ اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے اک نئی دنیا آباد کی ہے۔ انھوںنے نعت پر لکھتے ہوئے شریعت کے تقاضوں کو مدنظر رکھا ہے مگر اپنے زیر موضوع شعرا کی تنقیص یا تحقیر نہیں کی۔ کشفی صاحب کا یہ بیان درست ہے کہ نعت میں ہم جو لفظ بھی استعمال کرتے ہیںاس کا قبلہ درست ہونا چاہئے۔ ہمارے الفاظ سے ہی نبی کریمﷺ سے ہماری عقیدت اور فکری تفہیم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کشفی صاحب اپنے حسنِ بیان سے زبان کے مزاج اور حدود کے اندر رہتے ہوئے نئے الفاظ اور تراکیب ایجاد کرتے ہیں۔ وہ اپنی بلندی فکر سے بوسیدہ لفظوں کو نئی قبا عطا کرجاتے ہیں۔ صبیح رحمانی کے حوالے سے ان کا مضمون ’’ہیں مواجہ پہ ہم‘‘ ایک یادگار مضمون ہے۔ ہم اس پر ’’جادئہ رحمت کا مسافر‘‘ کے حوالے سے ڈاکٹر کشفی کی تحریر سے مثالیں دے چکے ہیں۔ صبیح رحمانیسے انھیں بہت پیار تھا، یہ مردِ طرار انھیں نعت سنانے گیا تھا مگر قفس محبت میں انھیں قید کردیا۔ اس مضمون میںڈاکٹر کشفی نے مواجہہ میں حاضری کی کیفیت کو اپنے وجود پر طاری کیا ہے۔ انھیں صبیح رحمانی سے اس قدر پیار ہے کہ اس کتاب کا انتساب بھی صبیح رحمانی کے نام کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب میں تنقید اور تنقیدِ نعت پر تحریر کیا ہے کہ کبھی تو شاعر کو خود بھی اپنے کہے ہوئے شعر کے معانی منکشف نہیں ہوتے۔ ’’ہیں مواجہہ پہ ہم‘‘ میں ڈاکٹر کشفی نے خود کو اس کیفیت سے دوچارکیاہے جس سے صبیح رحمانی گزرے ہیں۔اس ضمن میںڈاکٹرصاحب لکھتے ہیں:

صبیح نے اس نغمے کی تشکیل کے وقت اس بات کا التزام نہیں کیا ہوگا۔ ایسے نغمے تو آدمی کی روح میں ربِ صوت و آہنگ، مالکِ حرف و نوا اور خالقِ اظہار و بیان رکھ دیتا ہے۔ یہ صوت و آہنگ آدمی کے ساتھ ساتھ نشوونما پاتے ہیں اور پھر کسی لمحے اس کا اظہار ہو جاتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ اس نعت کے لفظ ’’ہم‘‘ کو کھینچ کر پڑھیے اور آنکھیں بند کرکے محسوس کیجیے ’’ہم‘‘ کی گونج میں ایک ایسی موسیقیت کا ظہو رہوتا ہے کہ اس کی گونج سے اسمِ محمدﷺ ادا ہورہا ہے۔‘‘

یوں تو ڈاکٹر کشفی اپنے حُسنِ تصنیف و تنقید کے لحاظ سے کسی تبصرے کے محتاج نہیں مگر ہم سرشار صدیقی کے حوالے سے ان کی یہ سطور ضرور رقم کرنا چاہیںگے:

نعتیہ تصنیف کے عصری ہجوم میں یہ کتاب اس لیے بھی منفرد و ممتاز ہے کہ اس کے کسی مصرعے یاموضوع پر روایتی نعت کا سایہ نہیں۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب خود ایک زندہ روایت کی طرح ایک عہد ساز کردار ادا کرے گی۔ اس کتاب میں ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کا ایک مضمون شاملِ اشاعت ہے ’’غزل میں نعت کی جلوہ گری‘‘ ڈاکٹر صاحب نے اپنے بیان کی وضاحت اور اپنے عنوان کو برحق ثابت کرنے کے لیے غزل گوشعرا کی درجنوں مثالیں دی ہیں۔ یہی مقام افسوس ہے کہ شاعر تو اسے غزل کہے اور ہر شعر کو اپنی غزل کا مستند شعر کہے اور کشفی صاحب جیسا صاحب فضیلت و نظریہ مسلمان اس بات پر بضد ہو کہ یہ نعت کا شعر ہے۔ مدتوں پہلے راقم اور محترم جناب پروفیسر محمد اقبال جاوید ایک ہی جگہ گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ میں پڑھاتے تھے۔ جب غالب پڑھاتے ہوئے یہ شعر آجاتا:

زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا

کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے

تو ہم یک زبان ہوکر یہی کہتے کہ غالب! تو نے کیا غضب کیا۔ کاش تو نے تجمل حسین خاں کے آرام کو خراج پیش کرنے کے بجائے اسے صاف طو رپر نعت کا شعر قرار دے دیا ہوتا تو بات ہی کچھ اور ہوتی، عاقبت بھی سنور جاتی (بہر حال عاقبت تو خدا کے حوالے ہے) نعت کا یہ شعر حضورﷺ کی کسی نہ کسی ادا سے تعلق رکھتا ہے ۔ پھر یہ اشعار نعت کے کیسے ہوگئے۔ زیادہ سے زیادہ محبت اظہار کرنے کے لیے ڈاکٹر صاحب یہ فرما سکتے تھے۔

کہ کاش انھوںنے اتنے خوب صورت اشعار نعت کی نذر کیے ہوتے

معلوم نہیں اتنا بڑا محقق نے یہ اصرار کیوں کیا۔ ہمیں ہر لحاظ سے ڈاکٹر کشفی کا بلند مقام مقصود ہے۔ لیکن کیا بڑے غلطی نہیں کرسکتے۔ انھی کا تو فرمانا ہے کہ تنقید پر تنقید بھی نظریات، عقائد اور نعتیہ کلام اور مقالات کو پہلے سے بہتر بناتی اور سنوارتی ہے۔ اس حوالے سے تو ’’نعت رنگ‘‘ میں بحث چھڑ گئی تھی بہرحال ڈاکٹر صاحب نے بعد میں اپنی بات پر اصرار نہیں کیا۔ وہ بڑے آدمی تھے۔ اس لیے بات بھی دب گئی۔ انھی دونوں میں احمد صغیر صدیقی نے لکھا تھا:

میں اس حد تک جناب کشفی سے متفق ہوں کہ اُردو غزل کے بے شمار اشعار میں نعت کے اشعار جیسا رنگ ہے لیکن میں اس بات کی تائید نہیں کرسکتا کہ انھیں نعت کا شعر کہہ کر مشتہر کیا جائے۔ یوں سمجھ لیں کہ غزل میں نعت کی جلوہ گری دیکھنے پرکوئی پابندی نہیں مگر ان اشعار کو نعت کا شعر نہیں کہا جاسکتا۔ نماز پڑھنے کے لیے ہم جو حرکات کرتے ہیں انھیں ’’نیت ‘‘ کے بغیر کریں تو یہ حرکات نماز نہیں کہیں جاسکتیں۔ کوئی ان میں نماز کی جلوہ گری دیکھے تو یہ ایک دوسری بات ہوگی۔ بالکل اسی طرح جب تک واضح طو رپر شاعر نے اعلان نہ کیا ہو کہ شعر نعتیہ ہے یا اس کے اندر ایسے الفاظ نہ آئے ہوں تو اسے نعت کا شعر ہی بناتے ہوں تب تک غزل کے اشعار کو نعت کا شعر نہیں کہا جاسکتا۔ <ref> ’’نعت رنگ‘‘، کراچی ، غزل میں نعت کی جلوہ گری ایک جائزہ از احمد صغیر صدیقی ص۱۵۷ </ref>

جہاں تک اس کتاب میں شامل ]]ڈاکٹر کشفی ]]صاحب کے دوسرے نعتیہ مضامین تو وہ خوب خوب دل نشین اور ان کے تحقیقی جذبے اور تنقید کی سربلندیوں کا منھ بولتا ثبوت ہیں۔ نعت کے موضوعات کے اختتام پر لکھتے ہیں:

اپنے آپ کو حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرار دینے والے شاعروں کو بلند بانگ دعوے کرنے کی جگہ ان کے قدموں میں بیٹھ کر نعت کے آداب کا سبق لینا چاہیے۔ صحابہ کرام کے انداز کی شاعری اس وقت ممکن ہے جب ہماری زندگی اور فکر کے تضادات ختم ہوجائیں صحابہ کرام سے نعت گوئی کے آداب جس طرح بوصیری، سعدی اور جامی و قدسی اور اقبال و ظفر علی خاں نے سیکھے ، اسے سامنے رکھ کر ہی سفینۂ نعت آگے اور آگے گہرے پانیوں میں سفر کرسکتا ہے۔ <ref> نعت اور تنقید نعت صفحہ 44 </ref>

اس طرح ان کا مضمون نعت کے عناصر پیش نظر ہے جو ’’نعت اور گنجینۂ معانی کا طلسم‘‘ کی توسیع ہے اور ایک طویل مقالے کی تلخیص ہے۔ اس میں انھوںنے نعت، اس کے تقاضوں، اس کی جدید ہیئت اور عصر حاضر کے اسلوب کے حوالے سے کئی پہلوئو ںکو موضوع سخن بنایا ہے۔ ہم یہاں بھی ان کی دل کشا تحریر سے ایک اقتباس اپنے قارئین کی نذر کرنا چاہیںگے:

نعت کا اہم پہلو اور عنصر نبی آخرالزماںﷺ کے مرتبۂ بلند کا شعور اور آگاہی ہے۔ آپ کے مقام کو قرآن اور احادیث نبویﷺ کے مطالعے سے سمجھا جاسکتا ہے اس کے بغیر افراط و تفریط کا ہی عالم رہے گا جو آج ہے۔ ہمارے بہت سے شاعر بعض وہ القاب و خطابات استعمال کرتے ہیںجن سے اللہ تعالیٰ نے فخرِبنی آدمﷺ کو اپنی کتاب میں سرفراز فرمایا ہے۔۔۔۔ ضروری ہے کہ اپنی نعت کو معنوی طور پر سرمایہ بنانے کے لیے ہمارے شاعر اس طرف توجہ (یعنی مقامات ربانی اور القاب محمدیہ) دیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ سیّدالبشرﷺ کا علم تمام انسانوں کے مجموعی علم سے زیادہ ہے۔ آپ پر تمام زمانوں کے ان رازوں کو فاش کردیا تھا جن کا رشتہ انسانی نجات اور بہبود سے ہے لیکن عالم الغیب و الشہادۃ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔<ref> نعت اور تنقید نعت صفحہ 30 </ref>

بلاشبہ ڈاکٹر سیّد ابوالخیر کشفی اُردو ادب کی آبرو تھے۔ نعت گوئوں سے والہانہ محبت رکھتے تھے۔ ان کے نظریات پر مادیت کے تقاضوں کی گرد کا ذرہ بھی نہ پڑ سکا دل یہ کہتا ہے کہ آج وہ شاد کام و مسرور اپنے خالق و مالک کی بارگاہ میں تذکارِ خیر کی جزا پارہے ہوںگے۔

زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]