آپ «نعت اورجدید تنقیدی رحجانات۔ایک تجزیاتی مطالعہ ۔ ڈاکٹر عزیز احسن» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 1: سطر 1:
[[ملف:Naat kainaat aziz ahsan 10.jpg|link=عزیز احسن]]
{{بسم اللہ }}


مضمون نگار : [[عزیز احسن | ڈاکٹر عزیز احسن۔کراچی ]]


مطبوعہ : [[نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26]]
ڈاکٹر عزیز احسن۔کراچی


== نعت  اور جدید تنقیدی رجحانات…ایک تجزیاتی مطالعہ ==
نعت  اور جدید تنقیدی رجحانات…ایک تجزیاتی مطالعہ
ABSTRACT:
 
ABSTRACT:  
Kashif Irfan's book "Naat Aur Jadeed Tanqidi Rujhanaat" has been reviewed in this article. The poetry of genre of Naat has first time been discussed in light of Modernism, Post-Modernism and Structuralism. Anthropological aspects have also been hinted for understanding the under current of Islamic ideology and love of Prophet Muhammad (S.A.W) in Muslim Society. Kashif has tried to apply the Critical theories of Modernism, Post Modernism and Structuralism to elaborate poetic attempts of Naatia Poets in praise of Holy Prophet Muhammad (S.A.W).Taking the modernity in consideration, the book is aptly received as blossom of Spring of Criticism in the literature of genre of Naat.                                                                                 
Kashif Irfan's book "Naat Aur Jadeed Tanqidi Rujhanaat" has been reviewed in this article. The poetry of genre of Naat has first time been discussed in light of Modernism, Post-Modernism and Structuralism. Anthropological aspects have also been hinted for understanding the under current of Islamic ideology and love of Prophet Muhammad (S.A.W) in Muslim Society. Kashif has tried to apply the Critical theories of Modernism, Post Modernism and Structuralism to elaborate poetic attempts of Naatia Poets in praise of Holy Prophet Muhammad (S.A.W).Taking the modernity in consideration, the book is aptly received as blossom of Spring of Criticism in the literature of genre of Naat.                                                                                 


اردو شاعری کے ارتقا کے ساتھ ہی [[نعتیہ شاعری]] بھی اپنے بھرپور نقوش قائم کرنے لگی تھی لیکن بالوجوہ اس کی ادبی قدر افزائی (EVALUATION)  کی طرف، ایک طویل عرصے تک،  ناقدین  متوجہ نہیں ہوسکے۔ تکلف برطرف ، یہ کام ’’[[نعت رنگ]]‘‘ کے اجرا (اپریل ۱۹۹۵ء) سے قبل، خواب و خیال ہی تھا۔ اب جبکہ [[نعت رنگ]] کے اجرا کو بیس برس پوری ہوچکے ہیں اور اس کتابی سلسلے کا [[نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 25  | پچیسواں شمارہ]] اکیسویں برس میں شائع ہوچکا ہے۔ نعت کی تنقیدی جہتیں مختلف مضامین ، مقالات اور کتب کے ذریعے سامنے آنے لگی ہیں۔ [[کاشف عرفان]] نے نعتیہ شعری سرمائے کو جدید اور مابعد جدید تنقیدی رجحانات کی روشنی میں پرکھنے کی کوشش کی ہے اور [[نعت ریسرچ سینٹر]] کو ان کی کتاب ’’[[نعت اور جدید تنقیدی رجحانات]]‘‘شائع کرنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ کاشف کی یہ کتاب ان کے جدید ادب اورجدید تنقیدی رجحانات کے سنجیدہ مطالعے کی روشن مثال ہے۔ جس کو انھوں نے چھ ابواب میں تقسیم کیا ہے:
اردو شاعری کے ارتقا کے ساتھ ہی [[نعتیہ شاعری]] بھی اپنے بھرپور نقوش قائم کرنے لگی تھی لیکن بالوجوہ اس کی ادبی قدر افزائی (EVALUATION)  کی طرف، ایک طویل عرصے تک،  ناقدین  متوجہ نہیں ہوسکے۔ تکلف برطرف ، یہ کام ’’[[نعت رنگ]]‘‘ کے اجرا (اپریل ۱۹۹۵ء) سے قبل، خواب و خیال ہی تھا۔ اب جبکہ [[نعت رنگ]] کے اجرا کو بیس برس پوری ہوچکے ہیں اور اس کتابی سلسلے کا [[نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 25  | پچیسواں شمارہ]] اکیسویں برس میں شائع ہوچکا ہے۔ نعت کی تنقیدی جہتیں مختلف مضامین ، مقالات اور کتب کے ذریعے سامنے آنے لگی ہیں۔ [[کاشف عرفان]] نے نعتیہ شعری سرمائے کو جدید اور مابعد جدید تنقیدی رجحانات کی روشنی میں پرکھنے کی کوشش کی ہے اور [[نعت ریسرچ سینٹر]] کو ان کی کتاب ’’[[نعت اور جدید تنقیدی رجحانات]]‘‘شائع کرنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ کاشف کی یہ کتاب ان کے جدید ادب اورجدید تنقیدی رجحانات کے سنجیدہ مطالعے کی روشن مثال ہے۔ جس کو انھوں نے چھ ابواب میں تقسیم کیا ہے:
سطر 23: سطر 22:


مصنف کے نزدیک، روایت ہمہ سمتی (MultiDimensional ) عمل ہے جو ادب،تہذیب ،تاریخ اور ثقافت سے منسلک ہے۔ اس کا تعلق ماضی ،حا ل اور مستقبل تینوں زمانوں سے ہے۔اس کی ایک  چوتھی سمت (Dimension Fourth )’’ ماورائی یا مابعدالطبیعاتی ‘‘سمت بھی ہے جو اس پر اثر انداز ہوتی ہے۔ کاشف کے بقول ماورائی یا مابعدالطبیعاتی حقائق خودروایت کو زمان و مکان ( Time & space) ایک نئی جہت عطا کرتے ہیں۔
مصنف کے نزدیک، روایت ہمہ سمتی (MultiDimensional ) عمل ہے جو ادب،تہذیب ،تاریخ اور ثقافت سے منسلک ہے۔ اس کا تعلق ماضی ،حا ل اور مستقبل تینوں زمانوں سے ہے۔اس کی ایک  چوتھی سمت (Dimension Fourth )’’ ماورائی یا مابعدالطبیعاتی ‘‘سمت بھی ہے جو اس پر اثر انداز ہوتی ہے۔ کاشف کے بقول ماورائی یا مابعدالطبیعاتی حقائق خودروایت کو زمان و مکان ( Time & space) ایک نئی جہت عطا کرتے ہیں۔
پھر وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ادبی روایت کا تعلق زبان سے ہے اور یہ ایساثقافتی ورثہ ہوتی ہے جوایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتا ہے۔یہ ماضی حا ل اور مستقبل کو ان کی مشترک اور مختلف ہر دو خصوصیات کے باعث ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔  اس کے بعد وہ ایک نقش یعنی گرافیکل شکل بنا کر بتاتے ہیں کہ’’ روایت موجود سے ناموجود کی جانب سفر ہے اور یہ سفر یک سمتی نہیں ہوتا۔‘‘گرافیکل شکل میں انھوں نے ’’روایت…ماضی…حا ل… مستقبل … ماورائیت ‘‘ کو دکھایا ہے۔
پھر وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ادبی روایت کا تعلق زبان سے ہے اور یہ ایساثقافتی ورثہ ہوتی ہے جوایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتا ہے۔یہ ماضی حا ل اور مستقبل کو ان کی مشترک اور مختلف ہر دو خصوصیات کے باعث ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔  اس کے بعد وہ ایک نقش یعنی گرافیکل شکل بنا کر بتاتے ہیں کہ’’ روایت موجود سے ناموجود کی جانب سفر ہے اور یہ سفر یک سمتی نہیں ہوتا۔‘‘گرافیکل شکل میں انھوں نے ’’روایت…ماضی…حا ل… مستقبل … ماورائیت ‘‘ کو دکھایا ہے۔  
  
  روایت کے ارتقائی عمل پر اثرانداز عوامل کی فہرست  بھی وہ یہ کہہ کر پیش کرتے ہیں کہ نہ تو یہ مکمل ہے اور نہ ہی مکمل ہوسکتی ہے کیوں کہ روایت کا ارتقائی عمل پیچیدہ اور وسیع ہے:
روایت کے ارتقائی عمل پر اثرانداز عوامل کی فہرست  بھی وہ یہ کہہ کر پیش کرتے ہیں کہ نہ تو یہ مکمل ہے اور نہ ہی مکمل ہوسکتی ہے کیوں کہ روایت کا ارتقائی عمل پیچیدہ اور وسیع ہے:
 


i۔تاریخی تناظر
i۔تاریخی تناظر
سطر 131: سطر 130:
اس باب میں کاشف نے جدیدیت کی تفہیم کے لیے چار نکات پیش کیے ہیں:زمین سے رشتہ اور جڑوں کی تلاش اور اجتماعی شعورسے آگاہی ،نفسیات کی مدد سے لاشعور میں جھانکنے کا عمل جو لاشعور سے اجتماعی لاشعور تک پہنچتا ہے ،اساطیری حوالوں سے ادب کی ماہیت کو سمجھنے کی کوشش،جدیدیت لفظ و معنی کے رشتے تلاش کرتی ہے ۔جدیدیت کا تعلق ساختیات سے ہے ۔
اس باب میں کاشف نے جدیدیت کی تفہیم کے لیے چار نکات پیش کیے ہیں:زمین سے رشتہ اور جڑوں کی تلاش اور اجتماعی شعورسے آگاہی ،نفسیات کی مدد سے لاشعور میں جھانکنے کا عمل جو لاشعور سے اجتماعی لاشعور تک پہنچتا ہے ،اساطیری حوالوں سے ادب کی ماہیت کو سمجھنے کی کوشش،جدیدیت لفظ و معنی کے رشتے تلاش کرتی ہے ۔جدیدیت کا تعلق ساختیات سے ہے ۔


مابعد جدیدیت کو بھی انھوں نے درجِ ذیل نکات کی صورت میں سمجھانے کی کوشش کی ہے:
مابعد جدیدیت کو بھی انھوں نے درجِ ذیل نکات کی صورت میں سمجھانے کی کوشش کی ہے:




سطر 145: سطر 144:
مابعدالطبیعات ہمیں وقت کی ماہیت کی مختلف سطحوں سے بھی روشناس کرواتی ہے ۔کائنات میں وقت کا تصور (جدید سائنسی تحقیق کے مطابق )خود اضافی (Relative)ہے۔اضافی یا Relative سے مراد ایسی اشیاء جن کی پیمائش کے پیمانے مختلف اوقات یا مقامات پر مختلف ہو جائیں ۔وقت کی جہات مختلف اوقات یا مقامات پر اﷲ کے حکم سے مختلف ہونے کا عمل ہمیں قرآن کریم میں تین مختلف واقعات سے ملتا ہے۔
مابعدالطبیعات ہمیں وقت کی ماہیت کی مختلف سطحوں سے بھی روشناس کرواتی ہے ۔کائنات میں وقت کا تصور (جدید سائنسی تحقیق کے مطابق )خود اضافی (Relative)ہے۔اضافی یا Relative سے مراد ایسی اشیاء جن کی پیمائش کے پیمانے مختلف اوقات یا مقامات پر مختلف ہو جائیں ۔وقت کی جہات مختلف اوقات یا مقامات پر اﷲ کے حکم سے مختلف ہونے کا عمل ہمیں قرآن کریم میں تین مختلف واقعات سے ملتا ہے۔


حضرت عزیر ؑکا  واقعہ ۔ واقعۂ معراج اور واقعۂ اصحابِ کہف…لہٰذا کاشف کے خیال میں ،موجود اور ماوراء کے درمیان وقت کی گمشدہ کڑیوں کی دریافت اِن تینوں واقعات کی بنیاد بنتی ہے۔
حضرت عزیر ؑکا  واقعہ ۔ واقعۂ معراج اور واقعۂ اصحابِ کہف…لہٰذا کاشف کے خیال میں ،موجود اور ماوراء کے درمیان وقت کی گمشدہ کڑیوں کی دریافت اِن تینوں واقعات کی بنیاد بنتی ہے۔


پھر وہ کہتے ہیں کہ مابعد جدیدیت زمانے کی سیاسی ،سماجی ،ثقافتی ،علمی ،نظریاتی اور ادبی کروٹوں کو اپنے عہد کے تناظرمیں دیکھنے کا عمل ہے ۔اردو نعت نگاری کا رشتہ جہاں برصغیر کی مٹی سے ہے وہیں عرب کی سرزمین سے بھی ہے ۔برصغیر کی ثقافت اور زبان کا رچائو جتنا امام احمد خان بریلویؒ کے ہاں نظر آتا ہے شاید ہی کسی شاعر کے ہاں فنی سطح پر یہ رچائو موجود ہو۔
پھر وہ کہتے ہیں کہ مابعد جدیدیت زمانے کی سیاسی ،سماجی ،ثقافتی ،علمی ،نظریاتی اور ادبی کروٹوں کو اپنے عہد کے تناظرمیں دیکھنے کا عمل ہے ۔اردو نعت نگاری کا رشتہ جہاں برصغیر کی مٹی سے ہے وہیں عرب کی سرزمین سے بھی ہے ۔برصغیر کی ثقافت اور زبان کا رچائو جتنا امام احمد خان بریلویؒ کے ہاں نظر آتا ہے شاید ہی کسی شاعر کے ہاں فنی سطح پر یہ رچائو موجود ہو۔
سطر 160: سطر 159:


=== اُردو نعت اور وقت کی ماورائی جہات===
=== اُردو نعت اور وقت کی ماورائی جہات===
اس باب میں [[کاشف عرفان | کاشف ]]  نے بتایا ہے کہ اُردو نعت میں وقت کا تصورماضی ،حال، مستقبل اور ماورائیت پر بھی مشتمل رہا ہے  اور واقعۂ معراج  کے معجزے سے وقت کی ماورائیت کا تصور منسلک ہے۔انسان کو جب پہلی بار فنا  اور بقا  کے فلسفے کا ادراک ہوا تو اُس کو وقت کے موجود ہونے کا احساس ہوا …گویا وقت ایسا پُل ہے جو بقا کو فنا سے ملاتا ہے ۔
اس باب میں [[کاشف عرفان | کاشف ]]  نے بتایا ہے کہ اُردو نعت میں وقت کا تصورماضی ،حال، مستقبل اور ماورائیت پر بھی مشتمل رہا ہے  اور واقعۂ معراج  کے معجزے سے وقت کی ماورائیت کا تصور منسلک ہے۔انسان کو جب پہلی بار فنا  اور بقا  کے فلسفے کا ادراک ہوا تو اُس کو وقت کے موجود ہونے کا احساس ہوا …گویا وقت ایسا پُل ہے جو بقا کو فنا سے ملاتا ہے ۔


آئن سٹائن نے کہا تھا :
آئن سٹائن نے کہا تھا :
سطر 166: سطر 165:
"Time is the fourth dimension of the universe"   
"Time is the fourth dimension of the universe"   


آئن سٹائن کی تھیوری آف ریلیٹیوٹی (Theorey of Relativity)سے ہی یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ کائنات میں کسی بھی چیز کی حد ِرفتا ر روشنی کی رفتار ہے ۔اس نظریے نے وقت کی ماہیّت کے حوالے سے بہت سے نئے سوالوں کو جنم دیا ۔کیا وقت ایک حقیقت ہے یا محض فریب ؟،کیا وقت کائنات کی معروضی حقیقت ہے یا موضوعی ؟،کیا وقت کاکوئی آغاز وانجام ہے ؟،کیا وقت مستقل حقیقت ہے یا اٖاضافی (Relative)؟وقت جن چیزوں کے تّقابل سے وجود پاتا ہے کیا اُن اشیاء سے وقت کا کوئی حقیقی تعلق ہے ؟
آئن سٹائن کی تھیوری آف ریلیٹیوٹی (Theorey of Relativity)سے ہی یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ کائنات میں کسی بھی چیز کی حد ِرفتا ر روشنی کی رفتار ہے ۔اس نظریے نے وقت کی ماہیّت کے حوالے سے بہت سے نئے سوالوں کو جنم دیا ۔کیا وقت ایک حقیقت ہے یا محض فریب ؟،کیا وقت کائنات کی معروضی حقیقت ہے یا موضوعی ؟،کیا وقت کاکوئی آغاز وانجام ہے ؟،کیا وقت مستقل حقیقت ہے یا اٖاضافی (Relative)؟وقت جن چیزوں کے تّقابل سے وجود پاتا ہے کیا اُن اشیاء سے وقت کا کوئی حقیقی تعلق ہے ؟


سائنسی نظریات کے حوالے سے وقت کو تین مختلف نظریات کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے :
سائنسی نظریات کے حوالے سے وقت کو تین مختلف نظریات کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے :
سطر 204: سطر 203:
* زمان (Time)  پر قابو پاکر ہی زندگی کے ممکنات کو نمایاں کیاجاسکتا ہے۔
* زمان (Time)  پر قابو پاکر ہی زندگی کے ممکنات کو نمایاں کیاجاسکتا ہے۔
* زمان کی دو شکلیں ہیں پہلی شکل زمانِ حقیقی ہے جولمحوں کا مرکب ہے اور اس میں تسلسل بھی نہیں ہے جبکہ دوسری شکل زمانِ مسلسل ہے جو مختلف اکائیوں (لمحات ) کا مرکب ہوتا ہے ۔
* زمان کی دو شکلیں ہیں پہلی شکل زمانِ حقیقی ہے جولمحوں کا مرکب ہے اور اس میں تسلسل بھی نہیں ہے جبکہ دوسری شکل زمانِ مسلسل ہے جو مختلف اکائیوں (لمحات ) کا مرکب ہوتا ہے ۔


[[اقبا ل]] کے ہاں زمانِ حقیقی کا بیان جگہ جگہ ہوا ہے :
[[اقبا ل]] کے ہاں زمانِ حقیقی کا بیان جگہ جگہ ہوا ہے :
سطر 221: سطر 221:
[[کاشف عرفان]] کو یقین ہے کہ فلسفے کے مضامین پر مشتمل شاعری کا دور قرآن و سیرت کے گہرے مطالعے کے بعد شعراء،سامع اور قاری  کی ذہنی تربیت کے بعد شروع ہوگا!
[[کاشف عرفان]] کو یقین ہے کہ فلسفے کے مضامین پر مشتمل شاعری کا دور قرآن و سیرت کے گہرے مطالعے کے بعد شعراء،سامع اور قاری  کی ذہنی تربیت کے بعد شروع ہوگا!


وقت کی ماوارئیت ، انتہائی گہرا اور پیچیدہ  مسئلہ ہے ۔ کاشف نے اس مسئلے کو چھیڑ کر اچھی خاصی سائنسی اور فلسفیانہ گفتگو کی ہے۔ جس معیار کی نثر لکھی گئی ہے اس معیار کے اشعار ،نعتیہ شاعری کے روایتی سرمائے میں  تلاش کرنا صحرا کی ریت کو چھلنی سے چھاننے کے مانند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کاشف نے بڑی دیانتداری سے دو تین نام گنوانے کے بعد مستقبل میں آنے والے شعراء کے انتظار کی راہ دکھائی ہے۔
وقت کی ماوارئیت ، انتہائی گہرا اور پیچیدہ  مسئلہ ہے ۔ کاشف نے اس مسئلے کو چھیڑ کر اچھی خاصی سائنسی اور فلسفیانہ گفتگو کی ہے۔ جس معیار کی نثر لکھی گئی ہے اس معیار کے اشعار ،نعتیہ شاعری کے روایتی سرمائے میں  تلاش کرنا صحرا کی ریت کو چھلنی سے چھاننے کے مانند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کاشف نے بڑی دیانتداری سے دو تین نام گنوانے کے بعد مستقبل میں آنے والے شعراء کے انتظار کی راہ دکھائی ہے۔  


=== اُردو نعت پر ساختیات (Structuralism)کے اثرات ===
=== اُردو نعت پر ساختیات (Structuralism)کے اثرات ===
سطر 255: سطر 255:




اس باب میں[[ کاشف عرفان]] نے بڑے سنبھل کر شعری نمونے پیش کیے ہیں۔ جن میں ساختیاتی کوڈ کی نشاندہی آسان ہوجاتی ہے۔ اقبال کے علاوہ عہدِ حاضر کے جن  شعراکے کلام کی مثالیں دی گئی ہیں وہ خاصی حد تک جدید اسلوب  کی عکاس ہیں۔ کاشف نے بتایا ہے کہ ’’ساختیات بنیادی طور پر اسلوبیات کا حصہ ہے‘‘ ۔ ان شعراء میں [[جنید آزر]]، [[اختر  شیخ]]، [[طارق نعیم]]، [[حسن رضوی]]، [[واجد امیر]]، [[وقار صدیقی اجمیری]]، [[صبیح رحمانی]] ،[[کاشف عرفان]]، [[سلیم گیلانی]]، [[حسن نثار،فرحان]]، [[سعود عثمانی]]، [[عابد سیال]]، [[شوکت مہدی]]، [[منظر عارفی]] ،[[ستیہ پال آنند]]، [[ثروت حسین]] اور[[ خورشید رضوی]]  وغیرہم شامل ہیں۔ [[کاشف عرفان | کاشف ]]  نے ان شعراء کے کلام کی مثالیں دے کر اپنا موقف واضح کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
اس باب میں[ کاشف عرفان]] نے بڑے سنبھل کر شعری نمونے پیش کیے ہیں۔ جن میں ساختیاتی کوڈ کی نشاندہی آسان ہوجاتی ہے۔ اقبال کے علاوہ عہدِ حاضر کے جن  شعراکے کلام کی مثالیں دی گئی ہیں وہ خاصی حد تک جدید اسلوب  کی عکاس ہیں۔ کاشف نے بتایا ہے کہ ’’ساختیات بنیادی طور پر اسلوبیات کا حصہ ہے‘‘ ۔ ان شعراء میں [[جنید آزر]]، [[اختر  شیخ]]، [[طارق نعیم]]، [[حسن رضوی]]، [[واجد امیر]]، [[وقار صدیقی اجمیری]]، [[صبیح رحمانی]] ،[[کاشف عرفان]]، [[سلیم گیلانی]]، [[حسن نثار،فرحان]]، [[سعود عثمانی]]، [[عابد سیال]]، [[شوکت مہدی]]، [[منظر عارفی]] ،[[ستیہ پال آنند]]، [[ثروت حسین]] اور[[ خورشید رضوی]]  وغیرہم شامل ہیں۔ [[کاشف عرفان | کاشف ]]  نے ان شعراء کے کلام کی مثالیں دے کر اپنا موقف واضح کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔  


=== حمد ونعت اورفرد کا نفسیاتی نظام ===
=== حمد ونعت اورفرد کا نفسیاتی نظام ===
بچپن کے ماحول سے اخذ کیے ہوئے عقائد، فکری زاویے، رسم و رواج، تہذیبی عناصر اور زندگی کے چلن عام طور سے تا حیات انسان کے ساتھ رہتے ہیں۔ ایک معاشرے میں جو مشترک اقدار ہوتی ہیں وہ بھی فرد اور سوسائٹی کے لیے ذہنی انسلاکات کا سبب بنتی ہیں۔ کاشف نے اپنے مضمون کا آغاز [[ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی ]]کے بیانیے سے کیا ہے۔ [[ابوالخیر کشفی | کشفی صاحب]] نے یہ مضمون اپنی آخری عمر میں لکھا تھا۔وہ بتاتے ہیں:
بچپن کے ماحول سے اخذ کیے ہوئے عقائد، فکری زاویے، رسم و رواج، تہذیبی عناصر اور زندگی کے چلن عام طور سے تا حیات انسان کے ساتھ رہتے ہیں۔ ایک معاشرے میں جو مشترک اقدار ہوتی ہیں وہ بھی فرد اور سوسائٹی کے لیے ذہنی انسلاکات کا سبب بنتی ہیں۔ کاشف نے اپنے مضمون کا آغاز [[ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی ]]کے بیانیے سے کیا ہے۔ [[ابوالخیر کشفی | کشفی صاحب]] نے یہ مضمون اپنی آخری عمر میں لکھا تھا۔وہ بتاتے ہیں:




سطر 276: سطر 276:
کشاف تنقیدی اصطلاحات میں لکھا ہے:
کشاف تنقیدی اصطلاحات میں لکھا ہے:


’’اجتماعی لاشعور کا مواد ذاتی نہیں بلکہ اجتماعی ہوتاہے۔ یعنی یہ کسی فرد ِ واحد سے مخصوص نہیں بلکہ کم از کم کسی ایک گروہ بلکہ اصولی طور سے تو کسی ایک قوم اور بالآخر تمام انسانیت پر حاوی ہوتا ہے۔ اجتماعی لاشعور کا مواد فرد اپنی زندگی کے دوران حاصل نہیں کرتا بلکہ یہ تو ورثے میں ملے ہوئے جبلی سانچے ہیں۔تفہیم کی اساسی صورتیں اور بنیادی علامات…انھی کو اصطلاح میں آرکی ٹائپ کہا جاتا ہے‘‘(کشاف  تنقیدی اصطلاحات، مرتبہ: ابوالاعجاز حفیظ صدیقی، نظرِ ثانی: ڈاکٹر آفتاب احمد خاں)
’’اجتماعی لاشعور کا مواد ذاتی نہیں بلکہ اجتماعی ہوتاہے۔ یعنی یہ کسی فرد ِ واحد سے مخصوص نہیں بلکہ کم از کم کسی ایک گروہ بلکہ اصولی طور سے تو کسی ایک قوم اور بالآخر تمام انسانیت پر حاوی ہوتا ہے۔ اجتماعی لاشعور کا مواد فرد اپنی زندگی کے دوران حاصل نہیں کرتا بلکہ یہ تو ورثے میں ملے ہوئے جبلی سانچے ہیں۔تفہیم کی اساسی صورتیں اور بنیادی علامات…انھی کو اصطلاح میں آرکی ٹائپ کہا جاتا ہے‘‘(کشاف  تنقیدی اصطلاحات، مرتبہ: ابوالاعجاز حفیظ صدیقی، نظرِ ثانی: ڈاکٹر آفتاب احمد خاں)


آرکی ٹائپ کی اصطلاح نفسیاتی تنقید میں استعمال ہوتی ہے۔ نعت کے قارئین کے لیے اس کی وضاحت ضروری سمجھ کر میں نے یہاں کتب کی مدد سے اس کا مفہوم لکھ دیا ۔آرکی ٹائپ کے مفہوم کو ذہن میں رکھیں تب کاشف کی یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ :
آرکی ٹائپ کی اصطلاح نفسیاتی تنقید میں استعمال ہوتی ہے۔ نعت کے قارئین کے لیے اس کی وضاحت ضروری سمجھ کر میں نے یہاں کتب کی مدد سے اس کا مفہوم لکھ دیا ۔آرکی ٹائپ کے مفہوم کو ذہن میں رکھیں تب کاشف کی یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ :
سطر 296: سطر 296:




انسان کے فکری نظام پر اثر انداز ہونے والے سات منطقوں کی بھی انھوں نے نشاندہی کی ہے: الہامی کتب ،کائناتی اسرار،عصری حقائق،تبدیل ہوتا ہوا فکری منظر نامہ، شعوری کیفیات، لاشعور سے حاصل پیچیدگی ،مذاہب کے معاشرتی تغیرات ۔
انسان کے فکری نظام پر اثر انداز ہونے والے سات منطقوں کی بھی انھوں نے نشاندہی کی ہے: الہامی کتب ،کائناتی اسرار،عصری حقائق،تبدیل ہوتا ہوا فکری منظر نامہ، شعوری کیفیات، لاشعور سے حاصل پیچیدگی ،مذاہب کے معاشرتی تغیرات ۔


نعت کی شاعری بھی[[کاشف عرفان | کاشف ]]  کے بقول دو طرح کے شعراء کرتے ہیں:
نعت کی شاعری بھی[[کاشف عرفان | کاشف ]]  کے بقول دو طرح کے شعراء کرتے ہیں:
سطر 311: سطر 311:




یہ بات بتا کر انھوں نے چند اشعار نقل کیے ہیں جن میں [[عثمان ناعم]]، [[سرو سہارنپوری]] ،[[سلمان رضوی]] ،[[ہلال جعفری]] اور [[احسان اکبر]] کے ایسے اشعار دیئے ہیں جن میں روایت سے انسلاک ظاہر ہوتا ہے۔
یہ بات بتا کر انھوں نے چند اشعار نقل کیے ہیں جن میں عثمان ناعم، سروسہارنپوری،سلمان رضوی،ہلال جعفری اور احسان اکبر  کے ایسے اشعار دیئے ہیں جن میں روایت سے انسلاک ظاہر ہوتا ہے۔




روایتی نعت گو شعرا کے برعکس انھوں نے ایسے شعرا کے اشعار بھی نقل کیے ہیں جن میں نئے انداز سے موضوعاتِ نعت کی تشکیل ہورہی ہے۔ ایسے شعرا میں انھوں نے [[عقیل عباس جعفری]] ،[[نثار ترابی]] ،[[اسلم راہی]] ، [[اختر شیخ]]، [[وفا چشتی]]،[[انجم خلیق]]،[[ڈاکٹر محمد حامد]]،[[افتخار عارف]]، [[شبنم رومانی]]، [[وسیم بریلوی]]، [[سیدصبیح رحمانی]]، [[محسن احسان]] وغیرہم کو شامل کیا ہے۔ لیکن یہاں بھی  سب کے سب اشعار جدید طرزکے  نمائندہ اشعار نہیں کہے جاسکتے ہیں۔ ایسی مثالوں کے لیے[[کاشف عرفان | کاشف ]]  کو کچھ زیادہ تلاش و جستجو کی راہ اختیار کرنی چاہیے تھی۔  
روایتی نعت گو شعرا کے برعکس انھوں نے ایسے شعرا کے اشعار بھی نقل کیے ہیں جن میں نئے انداز سے موضوعاتِ نعت کی تشکیل ہورہی ہے۔ ایسے شعرا میں انھوں نے عقیل عباس جعفری،نثار ترابی،اسلم راہی، اختر شیخ، وفا چشتی،انجم خلیق،ڈاکٹر محمد حامد،افتخار عارف، شبنم رومانی، وسیم بریلوی، سیدصبیح رحمانی، محسن احسان وغیرہم کو شامل کیا ہے۔ لیکن یہاں بھی  سب کے سب اشعار جدید طرزکے  نمائندہ اشعار نہیں کہے جاسکتے ہیں۔ ایسی مثالوں کے لیے[[کاشف عرفان | کاشف ]]  کو کچھ زیادہ تلاش و جستجو کی راہ اختیار کرنی چاہیے تھی۔  




سطر 331: سطر 331:




[[کاشف عرفان]] نے تنقید و تفہیم کے لیے جو راستہ اختیار کیا ہے، وہ آسان نہیں، بلکہ خاصا مشکل ہے۔ تاہم یہ بات اطمینان کا باعث ہے کہ مزاجاً وہ عامی اور اوسط درجے کا آدمی نہیں ہے۔ قدرت نے اُسے بہتر صلاحیتوں سے نوازا ہے اور وہ نئے راستوں کا مسافر ہے۔ کچھ نیا کرنے کی دُھن اُس کے لیے آئندہ زیادہ بڑی اور زیادہ بامعنی منزلوں تک رسائی کا ذریعہ ثابت ہوگی۔ ان شاء اللہ۔‘‘  
[[’کاشف عرفان]] نے تنقید و تفہیم کے لیے جو راستہ اختیار کیا ہے، وہ آسان نہیں، بلکہ خاصا مشکل ہے۔ تاہم یہ بات اطمینان کا باعث ہے کہ مزاجاً وہ عامی اور اوسط درجے کا آدمی نہیں ہے۔ قدرت نے اُسے بہتر صلاحیتوں سے نوازا ہے اور وہ نئے راستوں کا مسافر ہے۔ کچھ نیا کرنے کی دُھن اُس کے لیے آئندہ زیادہ بڑی اور زیادہ بامعنی منزلوں تک رسائی کا ذریعہ ثابت ہوگی۔ ان شاء اللہ۔‘‘  




کچھ عرصہ قبل تک نعتیہ شاعری پر تنقیدی رجحانات کے دروازے بند تھے۔ پھر جیسا کہ میں نے مختصراً عرض کیا ’’[[نعت رنگ]]‘‘ کے اجرا کے بعد نقدِ نعت کی راہ ہموار ہوئی۔ نعتیہ ادب کی تخلیقی سرگرمیوں سے منسلک روایتی لوگوں کی نظر میں یہ بدعت (بلکہ گناہ)تھی۔لیکن اہلِ فکر و نظر نے نعتیہ شاعری کے لیے تنقیدی رجحانات کے پھیلاؤ کو تائیدِ ربانی سے تعبیر کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ نعت رنگ کے اجرا کے فوراً بعد راقم الحروف اور صبیح رحمانی نے بیت اللہ میں یہ دعا کی تھی کہ نعت پر تنقید کرنا اگر سود مند ہے تو یہ تحریک آگے بڑھے ، بصورتِ دیگر یہ سلسلہ یہیں رک جائے!… اللہ رب العزت نے اس نظریئے کے فروغ کی راہ ہموار فرمادی… الحمدللہ! …یہی وجہ ہے کہ آج نعتیہ ادب میں نئے ذائقے کی تنقیدی کتاب متعارف کرواتے ہوئے مجھے مسرت ہورہی ہے۔ میں اس کتاب میں ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی شمولیت کو بھی نیک فال سمجھتا ہوں۔ اللہ انھیں خوش رکھے (آمین)!
کچھ عرصہ قبل تک نعتیہ شاعری پر تنقیدی رجحانات کے دروازے بند تھے۔ پھر جیسا کہ میں نے مختصراً عرض کیا ’’[[نعت رنگ]]‘‘ کے اجرا کے بعد نقدِ نعت کی راہ ہموار ہوئی۔ نعتیہ ادب کی تخلیقی سرگرمیوں سے منسلک روایتی لوگوں کی نظر میں یہ بدعت (بلکہ گناہ)تھی۔لیکن اہلِ فکر و نظر نے نعتیہ شاعری کے لیے تنقیدی رجحانات کے پھیلاؤ کو تائیدِ ربانی سے تعبیر کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ نعت رنگ کے اجرا کے فوراً بعد راقم الحروف اور صبیح رحمانی نے بیت اللہ میں یہ دعا کی تھی کہ نعت پر تنقید کرنا اگر سود مند ہے تو یہ تحریک آگے بڑھے ، بصورتِ دیگر یہ سلسلہ یہیں رک جائے!… اللہ رب العزت نے اس نظریئے کے فروغ کی راہ ہموار فرمادی… الحمدللہ! …یہی وجہ ہے کہ آج نعتیہ ادب میں نئے ذائقے کی تنقیدی کتاب متعارف کرواتے ہوئے مجھے مسرت ہورہی ہے۔ میں اس کتاب میں ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی شمولیت کو بھی نیک فال سمجھتا ہوں۔ اللہ انھیں خوش رکھے (آمین)!
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)

اِس صفحہ پر مستعمل سانچہ حسب ذیل ہے: