آپ «مقام محمود اور محمود الزمان کی نعتیہ شاعری ۔ آصف اکبر» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 1: سطر 1:
{{بسم اللہ }}
[[Category: کتابوں پر تبصرے]]
[[Category: نعت گوئی کے آداب ]]
از [[آصف اکبر ]]
از [[آصف اکبر ]]




سطر 20: سطر 12:
اردو کی [[نعتیہ شاعری]] کا اپنا ایک رنگ ہے جو الحمد للہ دن بدن نکھرتا جا رہا ہے۔ پچھلی صدی کے وسط تک جہاں یہ حال تھا کہ غزل گو شعراء زندگی میں ایک آدھ حمد یا نعت تبرکاً ہی کہتے تھے، اور بھرپور مذہبی شاعری کرنے والے خال خال ہی ہوتے تھے، وہاں آج یہ کیفیت ہے کہ شائد ہی کوئی غزل گو شاعر ایسا ہو جو پابندی سے نعت بھی نہ کہتا ہو، یہاں تک کہ معروف مزاح گو شعراء بھی انتہائی دلکش نعتیں کہتے ہیں جس کو سن کر آنکھیں بھیگ بھیگ جاتی ہیں۔ساتھ ہی متعدد کمال کے شعراء ایسے بھی ہیں جو صرف نعت و حمد ہی کہتے ہیں اور غزل یا تو انہوں نے کبھی کہی ہی نہیں یا پھر نعت کی وادیوں میں راہ پانے کے بعد غزل کے میدانوں کو انہوں نے مستقل طور پر تج دیا ہے۔ اسلام آباد میں ایسے شاعروں میں[[ عزیز احسن]]، [[عرش ہاشمی]]، [[حافظ نور احمد قادری]] سرِ فہرست ہیں۔
اردو کی [[نعتیہ شاعری]] کا اپنا ایک رنگ ہے جو الحمد للہ دن بدن نکھرتا جا رہا ہے۔ پچھلی صدی کے وسط تک جہاں یہ حال تھا کہ غزل گو شعراء زندگی میں ایک آدھ حمد یا نعت تبرکاً ہی کہتے تھے، اور بھرپور مذہبی شاعری کرنے والے خال خال ہی ہوتے تھے، وہاں آج یہ کیفیت ہے کہ شائد ہی کوئی غزل گو شاعر ایسا ہو جو پابندی سے نعت بھی نہ کہتا ہو، یہاں تک کہ معروف مزاح گو شعراء بھی انتہائی دلکش نعتیں کہتے ہیں جس کو سن کر آنکھیں بھیگ بھیگ جاتی ہیں۔ساتھ ہی متعدد کمال کے شعراء ایسے بھی ہیں جو صرف نعت و حمد ہی کہتے ہیں اور غزل یا تو انہوں نے کبھی کہی ہی نہیں یا پھر نعت کی وادیوں میں راہ پانے کے بعد غزل کے میدانوں کو انہوں نے مستقل طور پر تج دیا ہے۔ اسلام آباد میں ایسے شاعروں میں[[ عزیز احسن]]، [[عرش ہاشمی]]، [[حافظ نور احمد قادری]] سرِ فہرست ہیں۔


[[نعت]] کی اس روز افزوں ترقی کا ایک نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اس کے مضامین میں تنوّع اور وسعت پیدا ہوتی جارہی ہے۔ سیرت کے واقعات، اللہ کے رسول ﷺ کے خُلقِ عظیم، ان کی عظمت اور بلندی کے ساتھ ساتھ اصحابِ رسول کی توصیف، مدینہ منوّرہ کے شرف، گنبد خضراء اور مزار مبارک کی جالیوں سے لگاؤ، ہجر و فراق کی کیفیات، حاضری کے لیے تڑپ، اور قسمت کی بلندی کے ساتھ حاضری کے دوران واردات قلبی تو روائتی طور پر نعت کے مضامین تھے ہی، اب نعت میں امّت کی کسمپرسی کا بیان، مسلمانوں کے زوال کا تذکرہ، دادرسی کی استدعا، اور متعدد نئے پہلو شامل ہوتے جارہے ہیں۔
نعت کی اس روز افزوں ترقی کا ایک نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اس کے مضامین میں تنوّع اور وسعت پیدا ہوتی جارہی ہے۔ سیرت کے واقعات، اللہ کے رسول ﷺ کے خُلقِ عظیم، ان کی عظمت اور بلندی کے ساتھ ساتھ اصحابِ رسول کی توصیف، مدینہ منوّرہ کے شرف، گنبد خضراء اور مزار مبارک کی جالیوں سے لگاؤ، ہجر و فراق کی کیفیات، حاضری کے لیے تڑپ، اور قسمت کی بلندی کے ساتھ حاضری کے دوران واردات قلبی تو روائتی طور پر نعت کے مضامین تھے ہی، اب نعت میں امّت کی کسمپرسی کا بیان، مسلمانوں کے زوال کا تذکرہ، دادرسی کی استدعا، اور متعدد نئے پہلو شامل ہوتے جارہے ہیں۔
 
بنیادی طور پر ہر مسلمان کا اللہ کے رسول ﷺسے ایک دلی لگاؤ کا رشتہ ہے۔ قرآن مجید کے اپنے بیان کے مطابق
بنیادی طور پر ہر مسلمان کا اللہ کے رسول ﷺسے ایک دلی لگاؤ کا رشتہ ہے۔ قرآن مجید کے اپنے بیان کے مطابق


<ref> النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ  ۔ سورہ احزاب ۔ آیہ 6</ref>The Prophet is closer to the Believers than their own selves, and his wives are their mothers.
The Prophet is closer to the Believers than their own selves, and his wives are their mothers.


یعنی گو ، ہر انسان کے نزدیک سب سے اہم چیز اس کی اپنی ذات ہوتی ہے مگر ہر مسلمان پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے اس درجہ محبّت واجب ہے کہ وہ ان کی ذات کو اپنی جان پر بھی ہر لحاظ سے ترجیح دے۔ نتیجتاً تمام باشعور مسلمان شعوری اور لاشعوری طور پر اللہ کے رسول ﷺ سے والہانہ محبّت کرتے ہیں اور اپنے قول و فعل سے اس کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ محبّت کا یہ اظہار لوگ جشن میلاد کی صورت میں بھی کرتے ہیں، جلوسوں کی صورت میں بھی۔ وعظ اور ذکر کی محفلیں بھی ہوتی ہیں اور نعت خوانی کی بھی۔  
یعنی گو ، ہر انسان کے نزدیک سب سے اہم چیز اس کی اپنی ذات ہوتی ہے مگر ہر مسلمان پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے اس درجہ محبّت واجب ہے کہ وہ ان کی ذات کو اپنی جان پر بھی ہر لحاظ سے ترجیح دے۔ نتیجتاً تمام باشعور مسلمان شعوری اور لاشعوری طور پر اللہ کے رسول ﷺ سے والہانہ محبّت کرتے ہیں اور اپنے قول و فعل سے اس کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ محبّت کا یہ اظہار لوگ جشن میلاد کی صورت میں بھی کرتے ہیں، جلوسوں کی صورت میں بھی۔ وعظ اور ذکر کی محفلیں بھی ہوتی ہیں اور نعت خوانی کی بھی۔  


تاہم یہ شرف انسانی معاشرے کے نفسِ ناطقہ یعنی زمرہ [[شعراء ]]کے حصّے میں ہی آتا ہے کہ وہ اس محبّت کے ہر ہر پہلو کو ہزاروں مختلف انداز سے دیکھیں اور پھر اپنے اپنے محسوسات کو توفیقِ الٰہی کے مطابق بہتر سے بہتر انداز میں بیان کر کے اس محبّت کا اظہار کریں۔ [[نعت خوانی]] اور [[نعت گوئی]] میں یہی ایک بنیادی فرق ہے کہ نعت خواں کسی اور کی (کبھی کبھار اپنی بھی) کہی ہوئی مدحت و توصیف کو اچھے سے اچھے لحن میں پڑھ کر محبّت کا اظہار کرتے ہیں، مگر اس میں تخلیقی عمل کوئی نہیں ہوتا، جبکہ نعت گوہر شعر کے لیے تخلیق کے مرحلے سے گزر کر ایک نیا موتی نکال کر لانے کی جستجو میں مصروف رہتا ہے۔
تاہم یہ شرف انسانی معاشرے کے نفسِ ناطقہ یعنی زمرہ شعراء کے حصّے میں ہی آتا ہے کہ وہ اس محبّت کے ہر ہر پہلو کو ہزاروں مختلف انداز سے دیکھیں اور پھر اپنے اپنے محسوسات کو توفیقِ الٰہی کے مطابق بہتر سے بہتر انداز میں بیان کر کے اس محبّت کا اظہار کریں۔ [[نعت خوانی]] اور [[نعت گوئی]] میں یہی ایک بنیادی فرق ہے کہ نعت خواں کسی اور کی (کبھی کبھار اپنی بھی) کہی ہوئی مدحت و توصیف کو اچھے سے اچھے لحن میں پڑھ کر محبّت کا اظہار کرتے ہیں، مگر اس میں تخلیقی عمل کوئی نہیں ہوتا، جبکہ نعت گوہر شعر کے لیے تخلیق کے مرحلے سے گزر کر ایک نیا موتی نکال کر لانے کی جستجو میں مصروف رہتا ہے۔
 
واضح رہے کہ انسانی تہذیب کے روزِ اوّل سے آجتک جمالیاتی احساسات کے اظہار کے لیے شاعری ہی سب سے مقبول اور کامیاب ذریعہ اظہار رہا ہے، جبکہ منطقی گفتگو کے لیے سادہ اور سلیس نثر کو استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ شاعری اور منطق، اور دور جدید میں سائنس ، سبھی میں [[اصطلاحات]]، [[علامات]] اور [[اشارات]] کا ایک مربوط استعمال ہوتا ہے، اور جیسے جیسے بات بڑھتی جاتی ہے [[علامات]] کا استعمال بڑھتا جاتا ہے، اور جس طرح ریاضی کی مساوات نہ سمجھ پانے والا شخص اس کو محض اس بنا پر رد کردے کہ یہ چیزیں میری سمجھ میں نہیں آتیں اس لیے فضول ہیں اسے جاہلِ مطلق گرداناجائے گا اسی طرح شاعری کو اس بنیاد پر رد کرنے والے شخص کو کہ اسے یہ باتیں سمجھ میں نہیں آتیں، کسی دوسرے زمرے میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہوگا۔ شاعری کی اس [[اثر آفرینی]] کا ہی نتیجہ ہے جو تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر دور میں محبّت، عقیدت، تعظیم، تفاخر ، جوش، ولولے ، اور ان کے متضاد جذبات کے اظہار کے لیے شعر کو ایک موثّر پیرایۂ اظہار بنایا گیا ہے، چنانچہ محفل طرب ہو یا میدانِ کارزار، شاہی دربار ہو یا مذہبی تہوار ہر جگہ شاعری ایک نمایاں مقام حاصل کرتی رہی ہے۔ تاریخ نے خطبات کو تو کم کم ہی محفوظ کیا ہے مگر شعر کو حیرت ناک حد تک اپنے اوراق میں بہت زیادہ جگہ دی ہے۔ تاریخی داستانیں، قصائد، لوک کہانیاں، رزمیہ قصّے سبھی اس ہیئت میں ہزاروں سال سے سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے چلے آئے ہیں۔  
واضح رہے کہ انسانی تہذیب کے روزِ اوّل سے آجتک جمالیاتی احساسات کے اظہار کے لیے شاعری ہی سب سے مقبول اور کامیاب ذریعہ اظہار رہا ہے، جبکہ منطقی گفتگو کے لیے سادہ اور سلیس نثر کو استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ شاعری اور منطق، اور دور جدید میں سائنس ، سبھی میں [[اصطلاحات]]، [[علامات]] اور [[اشارات]] کا ایک مربوط استعمال ہوتا ہے، اور جیسے جیسے بات بڑھتی جاتی ہے [[علامات]] کا استعمال بڑھتا جاتا ہے، اور جس طرح ریاضی کی مساوات نہ سمجھ پانے والا شخص اس کو محض اس بنا پر رد کردے کہ یہ چیزیں میری سمجھ میں نہیں آتیں اس لیے فضول ہیں اسے جاہلِ مطلق گرداناجائے گا اسی طرح شاعری کو اس بنیاد پر رد کرنے والے شخص کو کہ اسے یہ باتیں سمجھ میں نہیں آتیں، کسی دوسرے زمرے میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہوگا۔ شاعری کی اس [[اثر آفرینی]] کا ہی نتیجہ ہے جو تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر دور میں محبّت، عقیدت، تعظیم، تفاخر ، جوش، ولولے ، اور ان کے متضاد جذبات کے اظہار کے لیے شعر کو ایک موثّر پیرایۂ اظہار بنایا گیا ہے، چنانچہ محفل طرب ہو یا میدانِ کارزار، شاہی دربار ہو یا مذہبی تہوار ہر جگہ شاعری ایک نمایاں مقام حاصل کرتی رہی ہے۔ تاریخ نے خطبات کو تو کم کم ہی محفوظ کیا ہے مگر شعر کو حیرت ناک حد تک اپنے اوراق میں بہت زیادہ جگہ دی ہے۔ تاریخی داستانیں، قصائد، لوک کہانیاں، رزمیہ قصّے سبھی اس ہیئت میں ہزاروں سال سے سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے چلے آئے ہیں۔  


سطر 57: سطر 47:
ساتھ ہی ساتھ کچھ منفی جذبات جیسے افسوس، رنج، ہجر، بے چینی، خجالت، ندامت، بے بسی، بھی آجاتے ہیں جومثبت جذبات کے لیے درکار معیار پر پورا نہ اتر پانے کا منطقی ردّ عمل ہوتے ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ کچھ منفی جذبات جیسے افسوس، رنج، ہجر، بے چینی، خجالت، ندامت، بے بسی، بھی آجاتے ہیں جومثبت جذبات کے لیے درکار معیار پر پورا نہ اتر پانے کا منطقی ردّ عمل ہوتے ہیں۔


=== حواشی و حوالہ جات ===
Category: [[کتابوں پر تبصرے ]]
Category: [[نعت گوئی کے آداب ]]
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)

اِس صفحہ پر مستعمل سانچہ حسب ذیل ہے:

اس صفحہ میں 1 پوشیدہ زمرے شامل ہیں: