آپ «غالب کی مثنوی بیانِ معراج کاتنقیدی مطالعہ ۔ ڈاکٹرسید یحییٰ نشیط» میں ترمیم کر رہے ہیں

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

انتباہ: آپ ویکیپیڈیا میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ لہذا اگر آپ اس صفحہ میں کوئی ترمیم کرتے ہیں تو آپکا آئی پی ایڈریس (IP) اس صفحہ کے تاریخچہ ترمیم میں محفوظ ہوجائے گا۔ اگر آپ لاگ ان ہوتے ہیں یا کھاتہ نہ ہونے کی صورت میں کھاتہ بنا لیتے ہیں تو تو آپ کی ترامیم آپ کے صارف نام سے محفوظ ہوگی، جنھیں آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس ترمیم کو واپس پھیرا جا سکتا ہے۔ براہ کرم ذیل میں موجود موازنہ ملاحظہ فرمائیں اور یقین کر لیں کہ اس موازنے میں موجود فرق ہی آپ کا مقصود ہے۔ اس کے بعد تبدیلیوں کو شائع کر دیں، ترمیم واپس پھیر دی جائے گی۔

تازہ ترین نسخہ آپ کی تحریر
سطر 1: سطر 1:
[[ملف:NAAT KAINAAT YAHYA NASHEET.jpg|link=یحیی نشیط]]
{{#seo:
|titlemode=append
|keywords=غالب ، مثنوی، معراج ، اقبال، معراج نامہ نعت، نعت گوئی ، نعت خوانی، نعت پاک، نعت رسول، نعت مقبول، نعت رسول،  ، Sabeeh Rehmani, Sabih Rehmani, Naat
|description=’بیانِ معراج‘خالصتاًمذہبی موضوع کی حامل [[مثنوی]] ہے۔مگر [[غالبؔ]] نے شعری جمالیات کے سہارے اور مضمون ومعنی آفرینی کے ذریعہ اس کے کشف کو بڑی حد تک کم کر دیا ہے۔عقیدت میں فن کو سمانے کا یہ ہنر بڑا مستحسن ہے۔مذہبی امور کا یوں فنکارانہ اظہار کہ تقدس مجروح بھی نہ ہو
}}
مضمون نگار : [[یحییٰ نشیط |  ڈاکٹر سید  یحییٰ نشیط۔بھارت]]
مضمون نگار : [[یحییٰ نشیط |  ڈاکٹر سید  یحییٰ نشیط۔بھارت]]


سطر 16: سطر 8:
تقدیسی ادب پر ہمارے ناقدین نے بہت کم توجہ دی بلکہ اکثریت نے ان تخلیقات کو سرے ہی سے ناقابلِ اعتنا سمجھ کر ان سے صرفِ نظر کیا، جبکہ بعض زبانوں کے ادب پاروںمیں تقد یسی ادب کو کلاسک کا درجہ دیا گیا اور اس کے تقدس کو برقرار رکھنے کے جتن کے� گے� ہیں ۔ ہندی میں تُلسی کی راماین اور مراٹھی میں’’گیانیشوری‘‘ہمارے سامنے کی مثالیں ہیں۔تقدیسی ادب سے اغماض برتنے کی چند وجوہ بھی ہوسکتی ہیں۔جیسے مذہب بیزاری ،دینی علوم سے عدم واقفیت، علمائے کرام کا خوف ، مادیت پسند ادبی تحریکوںکے اثرات وغیرہ۔ان عوامل کی فعالیت کچھ اس قدر شدید رہی ہے کہ ہماری بعض نہایت اہم تخلیقات گوشہءِ گمنامی  میں پڑی رہیں۔ایسی تخلیقات میں [[غالب | مرزا غالبؔ ]]کی فارسی مثنوی’ابرِ گہر بار‘کے لازمی جزو’’بیانِ معراج‘‘کا شمار کیا جاسکتا ہے۔صنفِ مثنوی کے عناصرِترکیبی میں [[نعت | نعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم]] کا شمار ہوتا ہے۔مثنوی نگار نعتِ رسول کے ساتھ اکثر اوقات واقعہ ء معراج کو نظم کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔[[غالب]] نے اس مثنوی میں نعتِ رسول اور واقعہءِ معراج دونوںکو بہ اہتمام نظم کیا ہے۔معراج کے واقعہ کو انھوں نے اس انداز سے نقل کیا ہے کہ وہ بذاتِ خود ایک مثنوی بن گئی ہے۔ [[غالب]] کی اس تقدیسی تخلیق کوبے اعتنائی کی نظر سے دیکھا گیا ہے ،جبکہ واقعہء معراج کے تاریخ ساز واقعہ سے متاثرہوکر لکھی گئیں ڈانٹے کی ’ ڈیو این  کامیڈی‘،[[امیر خسرو]] کی ’نہہ سپہر‘،ابوالعلی معری کی رسالۃالغفران،ابن شہید الاندلیسی کی’رسالۃالتوابع والزوابع ‘اور [[علامہ اقبال | ڈاکٹر علامہ اقبال ؔ]]کے ’جاوید نامہ‘ کو جو پذیراِئی  حاصل ہوئی ہے،[[غالبؔ ]]کی مثنوی کو ان کا عشرِعشیر حصہ بھی نہیں مل سکا۔افسوس تو اس امر کا ہے کہ ’جاوید نامہ‘ لکھتے وقت [[اقبال]] ؔ نے شیخ محمد غوثؒ گوالٖیاری کی غیر معروف کتاب کو تلاش کرنے کے لیے اپنے احباب کو خطوط لکھے ، رسالۃالغفران اور التوابع کے مطالعہ کا ذکر کیا مگر ’جاوید نامہ ‘کے سو سال قبل لکھی ہوئی [[غالب]] ؔکی مثنوی سے استفادہ کا کہیں ذکر نہیں،حالانکہ دونوںکا  تقابل کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ [[اقبالؔ]] کی فکر کا سر رشتہ [[غالب ؔ]]کے بیانِ معراج سے ملتا ہے۔  
تقدیسی ادب پر ہمارے ناقدین نے بہت کم توجہ دی بلکہ اکثریت نے ان تخلیقات کو سرے ہی سے ناقابلِ اعتنا سمجھ کر ان سے صرفِ نظر کیا، جبکہ بعض زبانوں کے ادب پاروںمیں تقد یسی ادب کو کلاسک کا درجہ دیا گیا اور اس کے تقدس کو برقرار رکھنے کے جتن کے� گے� ہیں ۔ ہندی میں تُلسی کی راماین اور مراٹھی میں’’گیانیشوری‘‘ہمارے سامنے کی مثالیں ہیں۔تقدیسی ادب سے اغماض برتنے کی چند وجوہ بھی ہوسکتی ہیں۔جیسے مذہب بیزاری ،دینی علوم سے عدم واقفیت، علمائے کرام کا خوف ، مادیت پسند ادبی تحریکوںکے اثرات وغیرہ۔ان عوامل کی فعالیت کچھ اس قدر شدید رہی ہے کہ ہماری بعض نہایت اہم تخلیقات گوشہءِ گمنامی  میں پڑی رہیں۔ایسی تخلیقات میں [[غالب | مرزا غالبؔ ]]کی فارسی مثنوی’ابرِ گہر بار‘کے لازمی جزو’’بیانِ معراج‘‘کا شمار کیا جاسکتا ہے۔صنفِ مثنوی کے عناصرِترکیبی میں [[نعت | نعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم]] کا شمار ہوتا ہے۔مثنوی نگار نعتِ رسول کے ساتھ اکثر اوقات واقعہ ء معراج کو نظم کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔[[غالب]] نے اس مثنوی میں نعتِ رسول اور واقعہءِ معراج دونوںکو بہ اہتمام نظم کیا ہے۔معراج کے واقعہ کو انھوں نے اس انداز سے نقل کیا ہے کہ وہ بذاتِ خود ایک مثنوی بن گئی ہے۔ [[غالب]] کی اس تقدیسی تخلیق کوبے اعتنائی کی نظر سے دیکھا گیا ہے ،جبکہ واقعہء معراج کے تاریخ ساز واقعہ سے متاثرہوکر لکھی گئیں ڈانٹے کی ’ ڈیو این  کامیڈی‘،[[امیر خسرو]] کی ’نہہ سپہر‘،ابوالعلی معری کی رسالۃالغفران،ابن شہید الاندلیسی کی’رسالۃالتوابع والزوابع ‘اور [[علامہ اقبال | ڈاکٹر علامہ اقبال ؔ]]کے ’جاوید نامہ‘ کو جو پذیراِئی  حاصل ہوئی ہے،[[غالبؔ ]]کی مثنوی کو ان کا عشرِعشیر حصہ بھی نہیں مل سکا۔افسوس تو اس امر کا ہے کہ ’جاوید نامہ‘ لکھتے وقت [[اقبال]] ؔ نے شیخ محمد غوثؒ گوالٖیاری کی غیر معروف کتاب کو تلاش کرنے کے لیے اپنے احباب کو خطوط لکھے ، رسالۃالغفران اور التوابع کے مطالعہ کا ذکر کیا مگر ’جاوید نامہ ‘کے سو سال قبل لکھی ہوئی [[غالب]] ؔکی مثنوی سے استفادہ کا کہیں ذکر نہیں،حالانکہ دونوںکا  تقابل کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ [[اقبالؔ]] کی فکر کا سر رشتہ [[غالب ؔ]]کے بیانِ معراج سے ملتا ہے۔  


 
=== ا ===
غالب کا [[فارسی]] [[دیوان]] ان کی حیات میں پہلی بار [[1845]]ء میں دارالسلام دہلی سے شائع ہواتھا۔ انھوں نے اگرچہ [[1835]]ء ہی میں اسے ’’میخانۂ آرزو‘‘کے نام سے مرتب کردیا تھا لیکن یہ [[اردو]] [[دیوان]] کے چار سال بعد شائع ہواتھا۔ان کے [[فارسی]] [[دیوان]] کا دوسرا اڈیشن منشی نول کشور پریس سے [[1863]]ء میں شائع ہوا۔اس دیوان میں بیس برس کا بقیہ کلام اور [[مثنوی]] ’’ابرِگہر بار‘‘پہلی بار شائع ہوئے ۔یہی [[مثنوی]] [[غالب]] ؔکی \\فارسی]] تصنیف ’سبدِچین‘اور ’سبدِباغِ  [[اردو]] ‘میں بھی شامل کردی گئی تھی،لیکن ترتیب کا یہ عمل [[غالب]] کی وفات کے بعد ہوا۔’[[مثنوی ابرگہر بار ۔ غالب | مثنوی ابرگہر بار ]] میں نعتیہ اشعار کی کل تعداد 478 ہے۔ ان میں281 اشعار [بیان معراج‘کے متعلق اور مثنوی کے دیگر اجزاء(حکایت ،مغنی نامہ،اور ساقی نامہ) میں140 اشعار قلم بند ہوئے ہیں۔[[مثنوی]] کے ترکیبی عنصر کے تحت ’ابرِ گہر بار کی ابتدامیں57 اشعار کی طویل نعت بھی لکھی گئی ہے۔  
غالب کا [[فارسی]] [[دیوان]] ان کی حیات میں پہلی بار [[1845]]ء میں دارالسلام دہلی سے شائع ہواتھا۔ انھوں نے اگرچہ [[1835]]ء ہی میں اسے ’’میخانۂ آرزو‘‘کے نام سے مرتب کردیا تھا لیکن یہ [[اردو]] [[دیوان]] کے چار سال بعد شائع ہواتھا۔ان کے [[فارسی]] [[دیوان]] کا دوسرا اڈیشن منشی نول کشور پریس سے [[1863]]ء میں شائع ہوا۔اس دیوان میں بیس برس کا بقیہ کلام اور [[مثنوی]] ’’ابرِگہر بار‘‘پہلی بار شائع ہوئے ۔یہی [[مثنوی]] [[غالب]] ؔکی \\فارسی]] تصنیف ’سبدِچین‘اور ’سبدِباغِ  [[اردو]] ‘میں بھی شامل کردی گئی تھی،لیکن ترتیب کا یہ عمل [[غالب]] کی وفات کے بعد ہوا۔’[[مثنوی ابرگہر بار ۔ غالب | مثنوی ابرگہر بار ]] میں نعتیہ اشعار کی کل تعداد 478 ہے۔ ان میں281 اشعار [بیان معراج‘کے متعلق اور مثنوی کے دیگر اجزاء(حکایت ،مغنی نامہ،اور ساقی نامہ) میں140 اشعار قلم بند ہوئے ہیں۔[[مثنوی]] کے ترکیبی عنصر کے تحت ’ابرِ گہر بار کی ابتدامیں57 اشعار کی طویل نعت بھی لکھی گئی ہے۔  
سطر 22: سطر 14:
[[مثنوی]] کے ترکیبی عناسر کے تحت نعتیہ مضمون میں معراج نامہ لکھنے کی روایت شروع ہی سے رہی ہے۔اردو میں [[ملا نصرتی]] ؔنے ’گلشن عشق ‘اور ’علی نامہ‘ میں معراج کے واقعہ کو اتنی تفصیل سے بیان کیا ہے کہ وہ ایک علاحدہ مثنوی بن گئی ہے۔ اس کے علاوہ معراج کے مو ضوع پر مستقل ’معراج نامے ‘ اردو۔فارسی  میں لکھے گئے  ہیں اردو میں بلاقیؔ کے معراج نامہ کو اولیت کا شرف حاصل ہے۔بلاقیؔ نے 1065ھ میں اسے مکمل کیاتھا۔ بلاقی کے علاوہ شاہ کمال ،مختار ؔ،محمد باقر آگاہؔ،ہاشمی ؔ،قربیؔ،ضمیرؔلکھنوی ، امین گجراتی وغیرہ نے بھی معراج نامے قلم بند کئے ہیں۔رشید احمد خاں نے ناسخؔ کے معراج نامہ کا ذکر [[دیوان]] ناسخ کے مقدمے میں کیا ہے۔لیکن علم نجوم کو اساس بناکر اردو میں صرف ایک معراج نامہ لچھمی نرائن شفیقؔنے لکھا تھا۔اسی طرح علوی سفر پر مشتمل ’جاوید نامہ‘،’نہہ سپہر‘کی طرز پر اردو میں مضطر مجاز نے ’’شہربقا‘‘لکھی۔[[اقبال]] خوداس قبیل کا معراج نامہ لکھنا چاہتے تھے،لیکن زندگی نے وفا نہ کی۔اب [[غالبؔ]] کے ’بیان معراج‘ کے اردو تراجم ہی ہمارے ذوق کی تسکین کا سامان فراہم کرنے کے لیے کافی ہیں اور اردو کے باذوق قارئین ان ہی ترجموں پر اکتفا کررہے ہیں۔   
[[مثنوی]] کے ترکیبی عناسر کے تحت نعتیہ مضمون میں معراج نامہ لکھنے کی روایت شروع ہی سے رہی ہے۔اردو میں [[ملا نصرتی]] ؔنے ’گلشن عشق ‘اور ’علی نامہ‘ میں معراج کے واقعہ کو اتنی تفصیل سے بیان کیا ہے کہ وہ ایک علاحدہ مثنوی بن گئی ہے۔ اس کے علاوہ معراج کے مو ضوع پر مستقل ’معراج نامے ‘ اردو۔فارسی  میں لکھے گئے  ہیں اردو میں بلاقیؔ کے معراج نامہ کو اولیت کا شرف حاصل ہے۔بلاقیؔ نے 1065ھ میں اسے مکمل کیاتھا۔ بلاقی کے علاوہ شاہ کمال ،مختار ؔ،محمد باقر آگاہؔ،ہاشمی ؔ،قربیؔ،ضمیرؔلکھنوی ، امین گجراتی وغیرہ نے بھی معراج نامے قلم بند کئے ہیں۔رشید احمد خاں نے ناسخؔ کے معراج نامہ کا ذکر [[دیوان]] ناسخ کے مقدمے میں کیا ہے۔لیکن علم نجوم کو اساس بناکر اردو میں صرف ایک معراج نامہ لچھمی نرائن شفیقؔنے لکھا تھا۔اسی طرح علوی سفر پر مشتمل ’جاوید نامہ‘،’نہہ سپہر‘کی طرز پر اردو میں مضطر مجاز نے ’’شہربقا‘‘لکھی۔[[اقبال]] خوداس قبیل کا معراج نامہ لکھنا چاہتے تھے،لیکن زندگی نے وفا نہ کی۔اب [[غالبؔ]] کے ’بیان معراج‘ کے اردو تراجم ہی ہمارے ذوق کی تسکین کا سامان فراہم کرنے کے لیے کافی ہیں اور اردو کے باذوق قارئین ان ہی ترجموں پر اکتفا کررہے ہیں۔   


=== ب ===


’معراج ‘تاریخ اسلام کا اہم واقعہ ہے۔سماجی مقاطعہ،چچا کی موت اور بیوی کی وفات جیسے سانحات سر سے گزرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی پاک کو آسمانوںپر بلایا گیا۔جنت و جہنم کی سیر کرائی گئی۔اس آسمانی سفر کی روداد جن تخلیقات میں بیان کی جاتی ہیں،انھیںمعراج نامہ کہا جاتا ہے۔قرآن حکیم میں معراج کے سفر کا اجمالاً تذکرہ ہے لیکن احادیث میں اس کی تفصیل ملتی ہے۔برق رفتار براق پر سوار ہو کر آپ بیت المقدس سے عرش اعلیٰ پر جا پہنچے اور تمام آسمانوںکی سیر فرمانے کے بعد مکہ مکرمہ واپس لوٹ آئے۔ معراج نامہ میں علوی سفر کی یہی روداد بیان کی جاتی ہے،لیکن عالمی ادب میں’ڈیوائن کامیڈی‘اور ہومرؔ کی ’اوڈی سی‘جیسے جو علوی سفر نامے قلم بند ہوئے ہیں وہ تمام تر تخیلاتی ہیں،جبکہ سفر معراج کا واقعہ حقیقی اور تاریخی ہے۔غالبؔ نے مثنوی بیانِ معراج میں اس سفر کے واقعات اپنی فکر و عقیدت اور شاعرانہ خیال آرائی کے سہارے علم نجوم کو اساس بنا کر بیان کئے ہیں۔غالب سے قبل [[ابن العربی]] کی’فتوحات مکیّہ،[[حکیم سنائی]] کی’سیرالعباد الی المعاد‘اور [[امیر خسروؔ]] کی’نہہ سپہر‘ جیسی سماوی سفر پرمشتمل کتابوںمیں بھی علم نجوم کے نکات کی توضیح نہایت مؤثر انداز میںہوئی ہے۔
’معراج ‘تاریخ اسلام کا اہم واقعہ ہے۔سماجی مقاطعہ،چچا کی موت اور بیوی کی وفات جیسے سانحات سر سے گزرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی پاک کو آسمانوںپر بلایا گیا۔جنت و جہنم کی سیر کرائی گئی۔اس آسمانی سفر کی روداد جن تخلیقات میں بیان کی جاتی ہیں،انھیںمعراج نامہ کہا جاتا ہے۔قرآن حکیم میں معراج کے سفر کا اجمالاً تذکرہ ہے لیکن احادیث میں اس کی تفصیل ملتی ہے۔برق رفتار براق پر سوار ہو کر آپ بیت المقدس سے عرش اعلیٰ پر جا پہنچے اور تمام آسمانوںکی سیر فرمانے کے بعد مکہ مکرمہ واپس لوٹ آئے۔ معراج نامہ میں علوی سفر کی یہی روداد بیان کی جاتی ہے،لیکن عالمی ادب میں’ڈیوائن کامیڈی‘اور ہومرؔ کی ’اوڈی سی‘جیسے جو علوی سفر نامے قلم بند ہوئے ہیں وہ تمام تر تخیلاتی ہیں،جبکہ سفر معراج کا واقعہ حقیقی اور تاریخی ہے۔غالبؔ نے مثنوی بیانِ معراج میں اس سفر کے واقعات اپنی فکر و عقیدت اور شاعرانہ خیال آرائی کے سہارے علم نجوم کو اساس بنا کر بیان کئے ہیں۔غالب سے قبل [[ابن العربی]] کی’فتوحات مکیّہ،[[حکیم سنائی]] کی’سیرالعباد الی المعاد‘اور [[امیر خسروؔ]] کی’نہہ سپہر‘ جیسی سماوی سفر پرمشتمل کتابوںمیں بھی علم نجوم کے نکات کی توضیح نہایت مؤثر انداز میںہوئی ہے۔
سطر 27: سطر 20:


’بیانِ معراج‘خالصتاًمذہبی موضوع کی حامل [[مثنوی]] ہے۔مگر [[غالبؔ]] نے شعری جمالیات کے سہارے اور مضمون ومعنی آفرینی کے ذریعہ اس کے کشف کو بڑی حد تک کم کر دیا ہے۔عقیدت میں فن کو سمانے کا یہ ہنر بڑا مستحسن ہے۔مذہبی امور کا یوں فنکارانہ اظہار کہ تقدس مجروح بھی نہ ہو ،نہایت مشکل عمل ہے۔واقعۂ معراج بیان کرتے وقت انھوں نے علم نجوم کے غوامض کو ماہرِفن کی طرح منکشف کیاہے۔ وہ نہ صرف یہ کہ اس علم میں درک رکھتے تھے بلکہ سیاروں کے سعد ونحس اثرات کو بھی مانتے تھے۔
’بیانِ معراج‘خالصتاًمذہبی موضوع کی حامل [[مثنوی]] ہے۔مگر [[غالبؔ]] نے شعری جمالیات کے سہارے اور مضمون ومعنی آفرینی کے ذریعہ اس کے کشف کو بڑی حد تک کم کر دیا ہے۔عقیدت میں فن کو سمانے کا یہ ہنر بڑا مستحسن ہے۔مذہبی امور کا یوں فنکارانہ اظہار کہ تقدس مجروح بھی نہ ہو ،نہایت مشکل عمل ہے۔واقعۂ معراج بیان کرتے وقت انھوں نے علم نجوم کے غوامض کو ماہرِفن کی طرح منکشف کیاہے۔ وہ نہ صرف یہ کہ اس علم میں درک رکھتے تھے بلکہ سیاروں کے سعد ونحس اثرات کو بھی مانتے تھے۔
 
=== ث ===
[[مثنوی]] ’’بیانِ معراج‘‘ غالب ؔنے رات کی تعریف سے شروع کی۔ معراج کے واقعہ کو قرآن حکیم میں اسریٰ بعبدہ لیلا سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اسریٰ کے معنی رات میں سفر کرنے کے ہوتے ہیں۔معراج کا واقعہ رات میں پیش آیا تھااس لیے ’شبِ معراج ‘کی اہمیت دیگر راتوں کے بالمقابل کچھ زیادہ متصور کی گیٰ ہے۔[[غالبؔ]] نے اس مقدس نسبت کا خیال کرتے ہوئے اس شب کی تعریف میں اپنے فن کے جوہر دکھائے ہیں۔پہلے شعر میں اس رات کو انھوں نے راتوںاور دنوںکا جو ہر کہا ہے۔لیل و نہار کے متواتر منقلب ہوتے رہنے سے زمانہ وجود میں آیا ہے۔یہ زمانہ انفجار عظیم اوّل سے قیامت کے انفجار اخریٰ تک تشکیل پاتا رہے گا۔گردش دہر کی چکی پر انگنت شب وروز گزرتے رہیں گے۔ ان سب سے افضل واکبر معراج کی رات ہے۔غالب اسی لیے اس کی مدحت کرتے نہیں تھکتے۔طبعی طور پر رات روشنی کی نقیض ہے۔مگر غالبؔ کہہ رہے ہیںکہ یہ رات تو آنکھوںکو روشنی بخشنے والی ہے۔یہ دن کی آنکھوں میں سرمہ کے مانند ہے۔یہ ایسی رات ہے جس سے حاصل ہونے والی خوشیوں(عیدوں)کی فہرست لکھتے لکھتے اس کی سپیدی کثرتِ تحریر کی وجہ سے سیاہی میں بدل گئی ہے۔ [[غالبؔ]]نے اس رات کو روشنی کی دولت سمیٹنے والے ضمیر کی رات کہا ہے جو ہر روز نہیں آتی صرف ایک مخصوص دن کے مقدر ہی میں یہ شب تھی۔اس رات نے سورج کے نور سے دن بھر خود کو دھویااور جب دن غروب ہو گیا تو عربی دستور کے مطابق لیلائے شب نے اپنے محمل کو درست کیا۔یہ رات آنکھ کی کالی پتلی میں نور کی طرح روشن تھی۔اس رات میں لیلائے شب کے راستے میں خورشید کی دمک بھرے ہوئے ذروں سے نور کا چھڑکائو کیا گیا۔اگرچہ اس رات کی روشنی و نور کے تمام اسباب میسر تھے مگر وہ خورشید کی احسان مند نہیںتھی۔غالبؔ کہتے ہیں،میںاس رات کو ماہ وش دلبر کیوں کہوں!کہ اس کے جسم کے زیور کا ایک گہر آفتاب تھا جو اس کے زیور سے گم ہو گیاتھا،لیکن ایک گہر کے گم ہو جانے سے اس کے منور جسم کی روشنی تھوڑی ماند پڑتی ہے۔رات میں آفتاب کی عدم مو جودگی کو زیورِشب کے گہر کی گمشدگی قرار دینا نہایت پیچیدہ استعارے کا نمونہ ہے۔اس کی صنائی میں [[غالبؔ ]]کے تخیل کی پرواز کا کمال دیکھتے بنتا ہے۔تقدیسی شاعری میں مضمون و معنی آفرینی کے ایسے ابعاد واکرنا اور شعریت کے رنگ و روغن سے ’’رات‘‘ کے نہایت عام موضوع کو منور و محترم بنا دینا [[غالبؔ]] کے فن کا کمال ہے۔ شبِ معراج کی مدحت کا ایسا انداز [[اردو]]، [[فارسی]] میں شاید ہی ملے۔ایک شعر میں وہ معراج کی نورانیت کا اظہار کچھ اس طرح کرتے ہیں:
[[مثنوی]] ’’بیانِ معراج‘‘ غالب ؔنے رات کی تعریف سے شروع کی۔ معراج کے واقعہ کو قرآن حکیم میں اسریٰ بعبدہ لیلا سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اسریٰ کے معنی رات میں سفر کرنے کے ہوتے ہیں۔معراج کا واقعہ رات میں پیش آیا تھااس لیے ’شبِ معراج ‘کی اہمیت دیگر راتوں کے بالمقابل کچھ زیادہ متصور کی گیٰ ہے۔[[غالبؔ]] نے اس مقدس نسبت کا خیال کرتے ہوئے اس شب کی تعریف میں اپنے فن کے جوہر دکھائے ہیں۔پہلے شعر میں اس رات کو انھوں نے راتوںاور دنوںکا جو ہر کہا ہے۔لیل و نہار کے متواتر منقلب ہوتے رہنے سے زمانہ وجود میں آیا ہے۔یہ زمانہ انفجار عظیم اوّل سے قیامت کے انفجار اخریٰ تک تشکیل پاتا رہے گا۔گردش دہر کی چکی پر انگنت شب وروز گزرتے رہیں گے۔ ان سب سے افضل واکبر معراج کی رات ہے۔غالب اسی لیے اس کی مدحت کرتے نہیں تھکتے۔طبعی طور پر رات روشنی کی نقیض ہے۔مگر غالبؔ کہہ رہے ہیںکہ یہ رات تو آنکھوںکو روشنی بخشنے والی ہے۔یہ دن کی آنکھوں میں سرمہ کے مانند ہے۔یہ ایسی رات ہے جس سے حاصل ہونے والی خوشیوں(عیدوں)کی فہرست لکھتے لکھتے اس کی سپیدی کثرتِ تحریر کی وجہ سے سیاہی میں بدل گئی ہے۔ [[غالبؔ]]نے اس رات کو روشنی کی دولت سمیٹنے والے ضمیر کی رات کہا ہے جو ہر روز نہیں آتی صرف ایک مخصوص دن کے مقدر ہی میں یہ شب تھی۔اس رات نے سورج کے نور سے دن بھر خود کو دھویااور جب دن غروب ہو گیا تو عربی دستور کے مطابق لیلائے شب نے اپنے محمل کو درست کیا۔یہ رات آنکھ کی کالی پتلی میں نور کی طرح روشن تھی۔اس رات میں لیلائے شب کے راستے میں خورشید کی دمک بھرے ہوئے ذروں سے نور کا چھڑکائو کیا گیا۔اگرچہ اس رات کی روشنی و نور کے تمام اسباب میسر تھے مگر وہ خورشید کی احسان مند نہیںتھی۔غالبؔ کہتے ہیں،میںاس رات کو ماہ وش دلبر کیوں کہوں!کہ اس کے جسم کے زیور کا ایک گہر آفتاب تھا جو اس کے زیور سے گم ہو گیاتھا،لیکن ایک گہر کے گم ہو جانے سے اس کے منور جسم کی روشنی تھوڑی ماند پڑتی ہے۔رات میں آفتاب کی عدم مو جودگی کو زیورِشب کے گہر کی گمشدگی قرار دینا نہایت پیچیدہ استعارے کا نمونہ ہے۔اس کی صنائی میں [[غالبؔ ]]کے تخیل کی پرواز کا کمال دیکھتے بنتا ہے۔تقدیسی شاعری میں مضمون و معنی آفرینی کے ایسے ابعاد واکرنا اور شعریت کے رنگ و روغن سے ’’رات‘‘ کے نہایت عام موضوع کو منور و محترم بنا دینا [[غالبؔ]] کے فن کا کمال ہے۔ شبِ معراج کی مدحت کا ایسا انداز [[اردو]]، [[فارسی]] میں شاید ہی ملے۔ایک شعر میں وہ معراج کی نورانیت کا اظہار کچھ اس طرح کرتے ہیں:


سطر 35: سطر 28:
پئے امن گر دید خورشید جوئے
پئے امن گر دید خورشید جوئے


 
=== ٹ  ===


(یعنی چمگادڑجسے تاریکی پسند ہوتی ہے،وہ معراج کی رات کی روشنی کی تاب نہ لا سکی اور اس کی روشنی سے بچنے کے لیے زمین کے نیچے جا چھپی اور اپنی جان کی امان کے لیے سورج کی تمنّا کرتی رہی۔)  
(یعنی چمگادڑجسے تاریکی پسند ہوتی ہے،وہ معراج کی رات کی روشنی کی تاب نہ لا سکی اور اس کی روشنی سے بچنے کے لیے زمین کے نیچے جا چھپی اور اپنی جان کی امان کے لیے سورج کی تمنّا کرتی رہی۔)  
سطر 51: سطر 44:


(مرزا غالبؔ:مرتبہ، خلیق انجم،’’غالبؔکے خطوط‘‘،غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی ۱۹۸۷ء ج ۳ ص۱۱۱۵)
(مرزا غالبؔ:مرتبہ، خلیق انجم،’’غالبؔکے خطوط‘‘،غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی ۱۹۸۷ء ج ۳ ص۱۱۱۵)
 
=== ج ===
 
اس شب کا وصف بیان کرتے ہوئے غالبؔ آگے کہتے ہیں کہ معراج کی شب ایسی تابناک تھی کہ اس کی روشنی کے سامنے صبح کو اپنے وجود کی امید ہی نہ رہی تھی کہ اس رات کے سامنے وہ سپید ہو سکے گی۔ آگے [[غالب]] نے نادر [[تشبیہہ | تشبیہات کے سہارے ]]اس شب کی اوصاف بیانی کی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ بالفرض اگر سورج بھی اس راہ میں واماندۂ راہ ہو کر طلوع ہو جاتا تو اس کی آب وتاب کھو جاتی اور اس روشن رات کے مقابلے  میں  وہ کسی حسینہ کے چہرے پر مشک کے تل کے مانند دکھائی دیتا۔ سوداؔنے ’’ہاتھی کی تعریف میں‘‘لکھے گئے قصیدے میں ہاتھی کے سفید دانتوںکو لیلیٰ کے ہاتھوںسے تشبیہہ دی تھی۔لیکن لیلیٰ (عربی میںکالی کلوٹی چہرے والی کو لیلیٰ کہتے ہیں)کے سیاہ جسم کی مناسبت سے یہ تشبیہہ نہایت بھونڈی اور دور ازکار معنی محسوس ہوتی ہے۔ اس کے برعکس معراج کی رات کی تابناکی میں سورج کو حسینہ کے چہرے کا تل کہنا ،طبعی حقیقت کے منافی ہونے کے باوجود اس میں نہ صرف یہ کہ معنویت ہے،بلکہ اسی معنویت نے اس میں صداقت کے نور کی آمیزش کی ہے۔ غالبؔآگے رقمطراز ہیں کہ یہ رات اتنی روشن تھی گویا دن محسوس ہوتی تھی ۔اس کی ضوفشانی کا یہ عالم تھا کہ اگر روشن رخساروںکواس رات سے تشبیہہ دی جاتی تو کچھ تعجب نہ ہوتا:   
اس شب کا وصف بیان کرتے ہوئے غالبؔ آگے کہتے ہیں کہ معراج کی شب ایسی تابناک تھی کہ اس کی روشنی کے سامنے صبح کو اپنے وجود کی امید ہی نہ رہی تھی کہ اس رات کے سامنے وہ سپید ہو سکے گی۔ آگے [[غالب]] نے نادر [[تشبیہہ | تشبیہات کے سہارے ]]اس شب کی اوصاف بیانی کی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ بالفرض اگر سورج بھی اس راہ میں واماندۂ راہ ہو کر طلوع ہو جاتا تو اس کی آب وتاب کھو جاتی اور اس روشن رات کے مقابلے  میں  وہ کسی حسینہ کے چہرے پر مشک کے تل کے مانند دکھائی دیتا۔ سوداؔنے ’’ہاتھی کی تعریف میں‘‘لکھے گئے قصیدے میں ہاتھی کے سفید دانتوںکو لیلیٰ کے ہاتھوںسے تشبیہہ دی تھی۔لیکن لیلیٰ (عربی میںکالی کلوٹی چہرے والی کو لیلیٰ کہتے ہیں)کے سیاہ جسم کی مناسبت سے یہ تشبیہہ نہایت بھونڈی اور دور ازکار معنی محسوس ہوتی ہے۔ اس کے برعکس معراج کی رات کی تابناکی میں سورج کو حسینہ کے چہرے کا تل کہنا ،طبعی حقیقت کے منافی ہونے کے باوجود اس میں نہ صرف یہ کہ معنویت ہے،بلکہ اسی معنویت نے اس میں صداقت کے نور کی آمیزش کی ہے۔ غالبؔآگے رقمطراز ہیں کہ یہ رات اتنی روشن تھی گویا دن محسوس ہوتی تھی ۔اس کی ضوفشانی کا یہ عالم تھا کہ اگر روشن رخساروںکواس رات سے تشبیہہ دی جاتی تو کچھ تعجب نہ ہوتا:   
    
    
سطر 75: سطر 67:
(یعنی آپ کی وہ ہستی ہے کہ موسیٰؑ نے خدا سے جو تقاضا کیا تھا،وہی تقاضا خدا وندِیکتا آپ سے کر رہا ہے)
(یعنی آپ کی وہ ہستی ہے کہ موسیٰؑ نے خدا سے جو تقاضا کیا تھا،وہی تقاضا خدا وندِیکتا آپ سے کر رہا ہے)


 
=== چ====
[[غالب ؔ]]نے فرط عقیدت اور عشقِ نبی میں مبالغہ کی انتہا تک پہنچ کر یہ شعر کہہ تو دیا مگر انھوں نے اس جانب توجہ نہیں دی کہ اس میں شانِ خداوندی میں استخفاف کا پہلو نکلتا ہے۔فرط عقیدت  میلاد خواں [[نعت گو شعراء]] نے اس مضمون کو باندھا ہے۔حضرت جبرئیلؑ کی معروضات کو [[غالب]] ؔآگے اس طرح بیان کرتے  ہیں کہ اے محمد!حضرت مو سیٰ کو کوہ طور پر اللہ نے جلوہ دکھایا تھا ،لیکن آ پ کو جلوہ دکھانے کے لیے راہ کے ان پتھروں(کوہ طور)کو ہٹا دیاگیا۔آپ کی شاہراہِ معراج پتھریلی اور پر مشقت زمین کی نہیں۔یہ تو اس کنارے سے اس کنارے تک وسیع اور کشادہ ہے۔یہ پوری راہ راہِ ایمن ہے۔ گو یہ سفر رات کا ہے،مگر یہ رات آپ کے لیے روشن کردی گئی ہے۔فرشتہ کہتا ہے کہ میں یہ تو نہیں کہوںگا کہ خدا وندِعالم آپ کی محبت میں مبتلا ہے تاہم اتنا ضرور کہوںگا کہ ادھر سے جذبۂ خلوص سچا ہے۔اس جہاں آفریں کو نہ بھوک ہے نہ سونا نہ اونگھ،لیکن آپ کی طلب میں وہ بے چین ہے۔اس لیے جلد اٹھئیے اور نو آسمانوںکو طے کر ڈالیے ۔غالب نے اس درمیان حضرت جبرئیل ؑ کی مدح  میں بھی اشعار کہے ہیں۔وہ جبرئیل کو ’’امین‘‘اور ’’عقل اوّل‘‘کہتے ہیں۔انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ جبرئیل خداوند عالم کا سب سے بڑا دربان ،فرشتوں کا فرشتہ ،’رازدانِ غیب ‘اور پیغمبروںکے سامنے سے پردے اٹھانے والا یعنی کاشفِ اسرار ہے۔وہ حق کے جوہر اصلی سے اپنی پیاس بجھاتا ہے۔اس کے پروںکی آواز میں ایسی تابانی ہوتی ہے کہ اسے دیکھنے کے لیے کان آنکھ بن جاتے ہیں۔یہ تراکیب و لفظیات اور پیچیدہ خیالی غ[[البؔ ]]کی مشکل پسندی کے مظہر ہیں۔جبرئیل کے اوصاف بیان کرتے ہوئے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جبرئیل کی آمد سے بحرِانوار موجزن ہوجاتا ہے۔آپ پر اس کے نزول کا تواتر اتنا زیادہ ہے کہ جو کچھ آپ کے دل میں ہوتا ہے وہ جبرئیل کی پیشانی پر ہوتا ہے۔
[[غالب ؔ]]نے فرط عقیدت اور عشقِ نبی میں مبالغہ کی انتہا تک پہنچ کر یہ شعر کہہ تو دیا مگر انھوں نے اس جانب توجہ نہیں دی کہ اس میں شانِ خداوندی میں استخفاف کا پہلو نکلتا ہے۔فرط عقیدت  میلاد خواں نعت گو شعراء نے اس مضمون کو باندھا ہے۔حضرت جبرئیلؑ کی معروضات کو [[غالب]] ؔآگے اس طرح بیان کرتے  ہیں کہ اے محمد!حضرت مو سیٰ کو کوہ طور پر اللہ نے جلوہ دکھایا تھا ،لیکن آ پ کو جلوہ دکھانے کے لیے راہ کے ان پتھروں(کوہ طور)کو ہٹا دیاگیا۔آپ کی شاہراہِ معراج پتھریلی اور پر مشقت زمین کی نہیں۔یہ تو اس کنارے سے اس کنارے تک وسیع اور کشادہ ہے۔یہ پوری راہ راہِ ایمن ہے۔ گو یہ سفر رات کا ہے،مگر یہ رات آپ کے لیے روشن کردی گئی ہے۔فرشتہ کہتا ہے کہ میں یہ تو نہیں کہوںگا کہ خدا وندِعالم آپ کی محبت میں مبتلا ہے تاہم اتنا ضرور کہوںگا کہ ادھر سے جذبۂ خلوص سچا ہے۔اس جہاں آفریں کو نہ بھوک ہے نہ سونا نہ اونگھ،لیکن آپ کی طلب میں وہ بے چین ہے۔اس لیے جلد اٹھئیے اور نو آسمانوںکو طے کر ڈالیے ۔غالب نے اس درمیان حضرت جبرئیل ؑ کی مدح  میں بھی اشعار کہے ہیں۔وہ جبرئیل کو ’’امین‘‘اور ’’عقل اوّل‘‘کہتے ہیں۔انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ جبرئیل خداوند عالم کا سب سے بڑا دربان ،فرشتوں کا فرشتہ ،’رازدانِ غیب ‘اور پیغمبروںکے سامنے سے پردے اٹھانے والا یعنی کاشفِ اسرار ہے۔وہ حق کے جوہر اصلی سے اپنی پیاس بجھاتا ہے۔اس کے پروںکی آواز میں ایسی تابانی ہوتی ہے کہ اسے دیکھنے کے لیے کان آنکھ بن جاتے ہیں۔یہ تراکیب و لفظیات اور پیچیدہ خیالی غ[[البؔ ]]کی مشکل پسندی کے مظہر ہیں۔جبرئیل کے اوصاف بیان کرتے ہوئے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جبرئیل کی آمد سے بحرِانوار موجزن ہوجاتا ہے۔آپ پر اس کے نزول کا تواتر اتنا زیادہ ہے کہ جو کچھ آپ کے دل میں ہوتا ہے وہ جبرئیل کی پیشانی پر ہوتا ہے۔




جبرئیل کا مژدۂ جاںفزا سنانے کے بعد [[غالبؔ ]] اب آپ کے لیے لائی ہوئی سواری براق کی تعریف کرتے ہیں۔روایتی معراج ناموں میں براق کے حلیے کی تعریف بہت زیادہ کی گئی ہے لیکن لفظ ’’برّاق‘‘ (برق رفتار )کے اعتبار سے [[غالبؔ ]]نے اس کی رفتار کے بیان ہی پر زور صرف کیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ یہ ایسا گھوڑا ہے جس نے جنت کی خوشبودار گھاس کھائی ہے۔اس کی تیز رفتاری کا یہ عالم ہے کہ گنبد سے گیند کے گرنے کو جتنا وقت درکار ہوتا ہے اتنی دیر میں یہ آسمان سے زمین پر اُتر آتا ہے۔وہ اتنا تیز رفتار ہے کہ جتنی دیر میں زبان سے لفظ’’آیا‘‘ ادا ہوتا ہے اتنی دیر میں وہ آکر نکل بھی جاتا ہے۔اس کی چمکدار سم سورج کا اور دُم گیسو ئے حور کا مقابلہ کرتے ہیں۔وہ گھوڑا نسیم سحر سے زیادہ سبک رفتار ہے کہ اس کی حرکت سے پھول سے نکہت پھوٹتی ہے۔وہ اتنا سریع السیر ہے کہ دل کی ایک دھڑکن یا آنکھ کی ایک بار پلک جھپکنے میںوہ دو سو بار فاصلے طے کر لیتا ہے۔[[غالبؔ ]]نے براق کی تیز رفتاری کی توضیح کلمۂ طیبہ کے حوالے سے بھی کی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ لا اِلٰہ کے اثر کی تیز رفتاری کا یہ عالم ہے کہ زبان پر یہ کلمہ آیا اور تمام عقائد باطلہ ریزہ ریزہ ہوگئے۔ویسی ہی رفتار اس براق کی ہے۔ ایک شعر میں انھوں نے براق کو ’’آتشیں سواری‘‘ کہا ہے۔اس کی سم سے قارون کے خزانے نکل آتے ہیں اور دم کی حرکت سے پروین کی لڑی بکھر جاتی ہے۔
جبرئیل کا مژدۂ جاںفزا سنانے کے بعد [[غالبؔ ]] اب آپ کے لیے لائی ہوئی سواری براق کی تعریف کرتے ہیں۔روایتی معراج ناموں میں براق کے حلیے کی تعریف بہت زیادہ کی گئی ہے لیکن لفظ ’’برّاق‘‘ (برق رفتار )کے اعتبار سے [[غالبؔ ]]نے اس کی رفتار کے بیان ہی پر زور صرف کیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ یہ ایسا گھوڑا ہے جس نے جنت کی خوشبودار گھاس کھائی ہے۔اس کی تیز رفتاری کا یہ عالم ہے کہ گنبد سے گیند کے گرنے کو جتنا وقت درکار ہوتا ہے اتنی دیر میں یہ آسمان سے زمین پر اُتر آتا ہے۔وہ اتنا تیز رفتار ہے کہ جتنی دیر میں زبان سے لفظ’’آیا‘‘ ادا ہوتا ہے اتنی دیر میں وہ آکر نکل بھی جاتا ہے۔اس کی چمکدار سم سورج کا اور دُم گیسو ئے حور کا مقابلہ کرتے ہیں۔وہ گھوڑا نسیم سحر سے زیادہ سبک رفتار ہے کہ اس کی حرکت سے پھول سے نکہت پھوٹتی ہے۔وہ اتنا سریع السیر ہے کہ دل کی ایک دھڑکن یا آنکھ کی ایک بار پلک جھپکنے میںوہ دو سو بار فاصلے طے کر لیتا ہے۔[[غالبؔ ]]نے براق کی تیز رفتاری کی توضیح کلمۂ طیبہ کے حوالے سے بھی کی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ لا اِلٰہ کے اثر کی تیز رفتاری کا یہ عالم ہے کہ زبان پر یہ کلمہ آیا اور تمام عقائد باطلہ ریزہ ریزہ ہوگئے۔ویسی ہی رفتار اس براق کی ہے۔ ایک شعر میں انھوں نے براق کو ’’آتشیں سواری‘‘ کہا ہے۔اس کی سم سے قارون کے خزانے نکل آتے ہیں اور دم کی حرکت سے پروین کی لڑی بکھر جاتی ہے۔


 
=== د ===
براق کے سفر کے احوال بیان کرتے ہوئے [[غالبؔ]]  کہتے ہیں کہ ہوا براق کے پیروںکو بوسہ بھی نہ دے پائی تھی کہ وہ ’کرۂ ہوا ‘ سے گزر کر ’کرۂ نار‘ میں پہنچ گیا۔یہ ایک جغرافیائی حقیقت ہے کہ ہماری زمین کے گردا گرد کرۂ ہوا ہے اور اس کے اوپر کرۂ نار کا غلاف ہے۔یہ وہ علاقہ ہے جہاںہمارے سائنسدانوں کے داغے ہوئے مصنوعی سیاروں کے مستقر ہیں۔ہمارے الیکٹرانک مواصلاتی نظام کے لئے یہ کرہ نہایت سودمند ہے۔امرِتعجب تو یہ ہے کہ غ[[البؔ ]]کے زمانے کے بہت بعد تک کرۂِ نار کا علم ماہرینِ فلکیات کو بھی نہیں تھا۔پتہ نہیں [[غالبؔ ]]کے تخیل کی یہ کارفرمائی تھی یا واقعی وہ اس کرے سے باخبر تھے۔بیت المقدس تک کے سفر کے بعد سفر ِمعراج کا اگلا پڑائو[[غالبؔ ]]نے چاند (فلک قمر)کو بتایا ہے ۔ براق کا قدم چاند کے تخت پریعنی فلک اول پر پڑتا ہے تو اس کی تیزرفتاری کا یہ عالم ہے کہ براق کی کلغی آسمانوں کے سب سے بلند ترین سیارے کیوان(زحل)کے تاج تک جا پہنچتی ہے۔آپ کی آمد سے اس کی مسرت ایسی دوبالا ہوئی کہ وہ تحت الشعاع میں آکر بھی آفتاب کے بالمقابل مہتاب بن گیاہے۔یاد رہے کہ تحت الشعاع چاند کی گردش کا وہ مقام ہے جہاںوہ مطلق دکھائی نہیں دیتا۔ یہاں [[غالبؔ]] نے یہ معنوی نکتہ پیدا کیا ہے کہ چاند کا اس رات فلک پر کوئی وجود نہیں تھا مگر شبِ معراج کی وجہ سے وہ اتنا روشن ہو گیا گویا ماہِ کامل ہو۔اس رات میں فضیلتِ قمر کا یہ حال تھاکہ وہ آفتاب کی روشنی کا محتاج نہیں رہا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آمد کی وجہ سے ااس کی توقیر میں اضافہ ہو گیا تھااور اس کی حیثیت کو وقار حاصل ہو چکاتھا۔
براق کے سفر کے احوال بیان کرتے ہوئے [[غالبؔ]]  کہتے ہیں کہ ہوا براق کے پیروںکو بوسہ بھی نہ دے پائی تھی کہ وہ ’کرۂ ہوا ‘ سے گزر کر ’کرۂ نار‘ میں پہنچ گیا۔یہ ایک جغرافیائی حقیقت ہے کہ ہماری زمین کے گردا گرد کرۂ ہوا ہے اور اس کے اوپر کرۂ نار کا غلاف ہے۔یہ وہ علاقہ ہے جہاںہمارے سائنسدانوں کے داغے ہوئے مصنوعی سیاروں کے مستقر ہیں۔ہمارے الیکٹرانک مواصلاتی نظام کے لئے یہ کرہ نہایت سودمند ہے۔امرِتعجب تو یہ ہے کہ غ[[البؔ ]]کے زمانے کے بہت بعد تک کرۂِ نار کا علم ماہرینِ فلکیات کو بھی نہیں تھا۔پتہ نہیں [[غالبؔ ]]کے تخیل کی یہ کارفرمائی تھی یا واقعی وہ اس کرے سے باخبر تھے۔بیت المقدس تک کے سفر کے بعد سفر ِمعراج کا اگلا پڑائو[[غالبؔ ]]نے چاند (فلک قمر)کو بتایا ہے ۔ براق کا قدم چاند کے تخت پریعنی فلک اول پر پڑتا ہے تو اس کی تیزرفتاری کا یہ عالم ہے کہ براق کی کلغی آسمانوں کے سب سے بلند ترین سیارے کیوان(زحل)کے تاج تک جا پہنچتی ہے۔آپ کی آمد سے اس کی مسرت ایسی دوبالا ہوئی کہ وہ تحت الشعاع میں آکر بھی آفتاب کے بالمقابل مہتاب بن گیاہے۔یاد رہے کہ تحت الشعاع چاند کی گردش کا وہ مقام ہے جہاںوہ مطلق دکھائی نہیں دیتا۔ یہاں [[غالبؔ]] نے یہ معنوی نکتہ پیدا کیا ہے کہ چاند کا اس رات فلک پر کوئی وجود نہیں تھا مگر شبِ معراج کی وجہ سے وہ اتنا روشن ہو گیا گویا ماہِ کامل ہو۔اس رات میں فضیلتِ قمر کا یہ حال تھاکہ وہ آفتاب کی روشنی کا محتاج نہیں رہا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آمد کی وجہ سے ااس کی توقیر میں اضافہ ہو گیا تھااور اس کی حیثیت کو وقار حاصل ہو چکاتھا۔


سطر 92: سطر 84:


( یعنی انھوں نے رقاصۂ فلک (زہرہ ) کو نور کی چادر انعام میں دی تاکہ صبح ہوتے ہی اپنے سر پر ڈال لے)
( یعنی انھوں نے رقاصۂ فلک (زہرہ ) کو نور کی چادر انعام میں دی تاکہ صبح ہوتے ہی اپنے سر پر ڈال لے)
 
=== ح ===


زہرہ آسمان میں صبح صبح نمودار ہوتا ہے،اس اعتبار سے نور کی چادر انعام میں دینا بڑا معنی خیز ہے۔نیز علم نجوم کے نکتہ کی کار فرمائی بھی یہاں دکھائی دیتی ہے۔
زہرہ آسمان میں صبح صبح نمودار ہوتا ہے،اس اعتبار سے نور کی چادر انعام میں دینا بڑا معنی خیز ہے۔نیز علم نجوم کے نکتہ کی کار فرمائی بھی یہاں دکھائی دیتی ہے۔
سطر 99: سطر 91:


فلکِ چہارم سے شاہِ معراج کی سواری پانچویںآسمان کی سمت روانہ ہوئی۔اس فلک کا سپہ سالارمریخ ہے۔ غالب نے مریخ کی شجاعت و جفاکشی کے متعلق جو کچھ نظم کیا ہے وہ تمام خوبیاںعلم نجوم  میں اس کی اوصاف مانی گئی ہیں۔مثلاًمریخ کا مغرور ومتکبر ہونا ،خنجر کے دھنی ترکوں کی روحوں  کا یہ مسکن ہونا،جنگ جو بادشاہوں کی مریخ پر سکونت ،شاہ پشنگ (پدر افراسیاب)کی وہاں موجودگی یہ تمام کوئف و واقعات مریخ کے مزاج سے لگا کھاتے ہیں۔مریخ پانچویں آسمان پر آپ کی آمد کی نوید سن کر اپنی کلغی سے راستے کے موتی صاف کرتاجارہا تھاتاکہ آپ کی سواری کو چلنے میں کوئی تکلیف نہ پہنچے۔مریخ کی تابناکی دیگر سیاروں کے بالمقابل زیادہ ہوتی ہے۔اس کی روشنی کی وجہ سے اس کے اطراف کے ستارے مدھم روشنی کی وجہ سے دکھائی نہیں دیتے ۔غالبؔ نے اس عمل کو راستے سے موتی جھاڑنے سے تعبیر کیا ہے۔
فلکِ چہارم سے شاہِ معراج کی سواری پانچویںآسمان کی سمت روانہ ہوئی۔اس فلک کا سپہ سالارمریخ ہے۔ غالب نے مریخ کی شجاعت و جفاکشی کے متعلق جو کچھ نظم کیا ہے وہ تمام خوبیاںعلم نجوم  میں اس کی اوصاف مانی گئی ہیں۔مثلاًمریخ کا مغرور ومتکبر ہونا ،خنجر کے دھنی ترکوں کی روحوں  کا یہ مسکن ہونا،جنگ جو بادشاہوں کی مریخ پر سکونت ،شاہ پشنگ (پدر افراسیاب)کی وہاں موجودگی یہ تمام کوئف و واقعات مریخ کے مزاج سے لگا کھاتے ہیں۔مریخ پانچویں آسمان پر آپ کی آمد کی نوید سن کر اپنی کلغی سے راستے کے موتی صاف کرتاجارہا تھاتاکہ آپ کی سواری کو چلنے میں کوئی تکلیف نہ پہنچے۔مریخ کی تابناکی دیگر سیاروں کے بالمقابل زیادہ ہوتی ہے۔اس کی روشنی کی وجہ سے اس کے اطراف کے ستارے مدھم روشنی کی وجہ سے دکھائی نہیں دیتے ۔غالبؔ نے اس عمل کو راستے سے موتی جھاڑنے سے تعبیر کیا ہے۔
 
===خ ===


غالب،ؔآگے چھٹے آسمان کے سفر کے کی روداد بیان کرتے ہیں کہ معراج کے مسافر کو ایک دلکشا عبادت گاہ نظرآئی ۔رحمت کے فرشتے اس خانقاہ کے دروازے پر ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ اس عمارت کے در وبام سے شعاعیں پھوٹ پڑرہی تھیں۔وہاں ایک ایسے بزرگ فروکش تھے،جن کو خدا کی طرف سے خوبی کا فرمان ملا تھا۔ان کے حکم سے سعادت حاصل ہوتی اور دین کو تقویت ملتی تھی۔ طبیعت کو فہم و فراست سکھانے والے،معتدل مزاج ،جن کے غصے کی کڑواہٹ میں بھی شیرینی اور سختی میں نرمی موجود تھی۔احادیث میں لکھا ہے کہ چھٹے آسمان پر آپ کی جس نبی سے ملاقات ہوئی تھی وہ ابراھیم علیہ السلام تھے۔دوسرے راوی نے چھٹے آسمان پر ادریس علیہ السلام کا ذکر کیا ہے۔بہرحال!یہ دونوںپیغمبر اپنی طبیعت اور مزاج کے اعتبار سے نرم خو اور معتدل مزاج تھے۔دین کی تشہیر میں ان کی کوششیں بے مثال تھیں۔چھٹے آسمان کا سیارہ مشتری مانا جاتا ہے۔[[غالب]]  ؔکہتے ہیں کہ مشتری کی تابناکی خدا کے نور کا ایک جزو ہے۔اللہ کے رسول نے یہاں نور کا شربت پیا اور ساتویںآسمان کی جانب روانہ ہوئے۔اس آسمان کا مالک سیارہ زحل ہے۔یہ سیاہ رو اور نہایت منحوس مانا جاتا ہے۔ ہندوستان سے اس کی نسبت ہے۔اس نجومی نکتہ کا خیال [[غالبؔ]] اور [[اقبالؔ]]  دونوں نے رکھا ہے۔ چناں چہ  غالبؔ نے ’بیا نِ معراج‘ میں ساتویں آسمان پر زنار باندھے ہندو کا تذکرہ کیا ہے اور[[ اقبالؔ ]]نے قوم کے غدار میر جعفر و صادق کی بلبلاتی روحوں کے ساتھ روحِ ہندوستان کو مضطرب دکھایا ہے۔اپنی رو سیاہی اور نحوست کی وجہ سے زحل آپ کی آمد پر نہایت گھبرایا ہوا ہے۔وہ مارے شرمندگی کے آپ کے استقبال کے لیے بھی آپ کی راہ میں نہیں پہنچ سکا۔
غالب،ؔآگے چھٹے آسمان کے سفر کے کی روداد بیان کرتے ہیں کہ معراج کے مسافر کو ایک دلکشا عبادت گاہ نظرآئی ۔رحمت کے فرشتے اس خانقاہ کے دروازے پر ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ اس عمارت کے در وبام سے شعاعیں پھوٹ پڑرہی تھیں۔وہاں ایک ایسے بزرگ فروکش تھے،جن کو خدا کی طرف سے خوبی کا فرمان ملا تھا۔ان کے حکم سے سعادت حاصل ہوتی اور دین کو تقویت ملتی تھی۔ طبیعت کو فہم و فراست سکھانے والے،معتدل مزاج ،جن کے غصے کی کڑواہٹ میں بھی شیرینی اور سختی میں نرمی موجود تھی۔احادیث میں لکھا ہے کہ چھٹے آسمان پر آپ کی جس نبی سے ملاقات ہوئی تھی وہ ابراھیم علیہ السلام تھے۔دوسرے راوی نے چھٹے آسمان پر ادریس علیہ السلام کا ذکر کیا ہے۔بہرحال!یہ دونوںپیغمبر اپنی طبیعت اور مزاج کے اعتبار سے نرم خو اور معتدل مزاج تھے۔دین کی تشہیر میں ان کی کوششیں بے مثال تھیں۔چھٹے آسمان کا سیارہ مشتری مانا جاتا ہے۔[[غالب]]  ؔکہتے ہیں کہ مشتری کی تابناکی خدا کے نور کا ایک جزو ہے۔اللہ کے رسول نے یہاں نور کا شربت پیا اور ساتویںآسمان کی جانب روانہ ہوئے۔اس آسمان کا مالک سیارہ زحل ہے۔یہ سیاہ رو اور نہایت منحوس مانا جاتا ہے۔ ہندوستان سے اس کی نسبت ہے۔اس نجومی نکتہ کا خیال [[غالبؔ]] اور [[اقبالؔ]]  دونوں نے رکھا ہے۔ چناں چہ  غالبؔ نے ’بیا نِ معراج‘ میں ساتویں آسمان پر زنار باندھے ہندو کا تذکرہ کیا ہے اور[[ اقبالؔ ]]نے قوم کے غدار میر جعفر و صادق کی بلبلاتی روحوں کے ساتھ روحِ ہندوستان کو مضطرب دکھایا ہے۔اپنی رو سیاہی اور نحوست کی وجہ سے زحل آپ کی آمد پر نہایت گھبرایا ہوا ہے۔وہ مارے شرمندگی کے آپ کے استقبال کے لیے بھی آپ کی راہ میں نہیں پہنچ سکا۔
سطر 117: سطر 109:
سوراخ پڑ گئے ہیں تمام آسمان میں  
سوراخ پڑ گئے ہیں تمام آسمان میں  


 
===  د ===
[[غالبؔ ]]کبھی ان ستاروں کو آسمانی فرش پر موتیوں کے چھڑکائو سے تشبیہہ دیتے ہیں۔
[[غالبؔ ]]کبھی ان ستاروں کو آسمانی فرش پر موتیوں کے چھڑکائو سے تشبیہہ دیتے ہیں۔


سطر 140: سطر 132:
’’یوں کہو کہ ثریا ، ستاروں کے گچھے اور برج ثور بیل نہیں،بلکہ آنحضرت کی راہ میں کسی ہندوستانی جوگی نے گائے کو سر سے پائوں تک کوڑیوں( ستاروں) کے زیور سے لاد رکھا ہے اور راستہ چلتے ہوئے دوڑ دوڑ کر اور ضد کرکے بھیک مانگ رہا ہے۔‘‘
’’یوں کہو کہ ثریا ، ستاروں کے گچھے اور برج ثور بیل نہیں،بلکہ آنحضرت کی راہ میں کسی ہندوستانی جوگی نے گائے کو سر سے پائوں تک کوڑیوں( ستاروں) کے زیور سے لاد رکھا ہے اور راستہ چلتے ہوئے دوڑ دوڑ کر اور ضد کرکے بھیک مانگ رہا ہے۔‘‘


 
=== ڈ ===
اس کے بعد وہ اپنے تخیل کو معراج کے بیان کی طرف موڑدیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان دونوں محلوں (برجوں) سے چاند اور سورج کے قران آپؐ کے بازو پر تعویذباندھ دیا تاکہ آپؐ جب آسمانی سفر سے واپس ہوں تو نظرِبد سے محفوظ رھیں۔نجوم میں قران کسی ایک برج میں بیک وقت دو ستاروں کے قیام کو کہتے ہیں۔طبِ نجوم میں برج حمل و ثور میں اگر شمس واقع ہو تو آدمی کے جسمانی حصص، رانیں اور زانو متاثر ہوں گے اور اگر ان بروج میں قمر واقع ہو تو زانو،شانہ اور ٹانگیں متاثر ہوں گی۔ لیکن ان کے قران سے آدمی ان امراض سے محفوظ رہے گا۔سفر میں آدمی کے پیر اور اس کے حصے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔لیکن آپ کا سفر بلا تکان اور بلا مضرت و مشقت ہوا تھا اس لیے نظرِبد سے بچانے کے لیے [[غالبؔ]] نے تعویذکا نکتہ چھیڑ دیااور ان ستاروں کے قران کو تعویذسے مشابہ قرار دیا۔علم نجوم میں شمس وقمر کے قران کی ساعت کو نظرِبد سے حفاظت کی ساعت تسلیم کیا گیا ہے۔ [[غالبؔ ]]نے نجوم کی ان صداقتوں کو شاعرانہ انداز میں بیان کیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ [[غالبؔ ]]بھی [[مومنؔ ]]کی طرح علمِ نجوم سے شغف رکھتے تھے۔ان ساری تفصیلات کے بیان میں انھوں نے اپنے علم وہنر کو تو خوب آزمایا ،لیکن نفسِ مضمون اور موضوع کی انھوں نے مطلق پروا نہ کی اور واقعۂ معراج کے حقائق اور تفصیلات جو احادیث میں مذکور ہیں،ان سے سراسر اغماض برتا۔ یہاں تک کہ اس میں مختلف علوم کے پرتو تو نظر آتے ہیں لیکن واقعۂ معراج کی روشنی کہیں نظر نہیں آتی۔کہیں کہیں چقماق کی سی چنگاریاں نظر آتی ہیں وہ [[ غالبؔ]] کے حسن ِتدبر ، تفکر اور تخیل کے سائے میں آنکھ مچولی کرتی نظر آتی ہیں۔اس مثنوی میں [[غالبؔ ]]کا کمال ِفن اوج پر دکھائی دیتا ہے۔اس میں تقدس کا بھی خیال رکھا گیا ہے،لیکن واقعۂ معراج سے رکھی جانے والی عقیدت اور حضورسے رکھی جانے والی انسیت کااس مثنوی میں فقدان نظر آتا ہے۔
اس کے بعد وہ اپنے تخیل کو معراج کے بیان کی طرف موڑدیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان دونوں محلوں (برجوں) سے چاند اور سورج کے قران آپؐ کے بازو پر تعویذباندھ دیا تاکہ آپؐ جب آسمانی سفر سے واپس ہوں تو نظرِبد سے محفوظ رھیں۔نجوم میں قران کسی ایک برج میں بیک وقت دو ستاروں کے قیام کو کہتے ہیں۔طبِ نجوم میں برج حمل و ثور میں اگر شمس واقع ہو تو آدمی کے جسمانی حصص، رانیں اور زانو متاثر ہوں گے اور اگر ان بروج میں قمر واقع ہو تو زانو،شانہ اور ٹانگیں متاثر ہوں گی۔ لیکن ان کے قران سے آدمی ان امراض سے محفوظ رہے گا۔سفر میں آدمی کے پیر اور اس کے حصے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔لیکن آپ کا سفر بلا تکان اور بلا مضرت و مشقت ہوا تھا اس لیے نظرِبد سے بچانے کے لیے [[غالبؔ]] نے تعویذکا نکتہ چھیڑ دیااور ان ستاروں کے قران کو تعویذسے مشابہ قرار دیا۔علم نجوم میں شمس وقمر کے قران کی ساعت کو نظرِبد سے حفاظت کی ساعت تسلیم کیا گیا ہے۔ [[غالبؔ ]]نے نجوم کی ان صداقتوں کو شاعرانہ انداز میں بیان کیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ [[غالبؔ ]]بھی [[مومنؔ ]]کی طرح علمِ نجوم سے شغف رکھتے تھے۔ان ساری تفصیلات کے بیان میں انھوں نے اپنے علم وہنر کو تو خوب آزمایا ،لیکن نفسِ مضمون اور موضوع کی انھوں نے مطلق پروا نہ کی اور واقعۂ معراج کے حقائق اور تفصیلات جو احادیث میں مذکور ہیں،ان سے سراسر اغماض برتا۔ یہاں تک کہ اس میں مختلف علوم کے پرتو تو نظر آتے ہیں لیکن واقعۂ معراج کی روشنی کہیں نظر نہیں آتی۔کہیں کہیں چقماق کی سی چنگاریاں نظر آتی ہیں وہ [[ غالبؔ]] کے حسن ِتدبر ، تفکر اور تخیل کے سائے میں آنکھ مچولی کرتی نظر آتی ہیں۔اس مثنوی میں [[غالبؔ ]]کا کمال ِفن اوج پر دکھائی دیتا ہے۔اس میں تقدس کا بھی خیال رکھا گیا ہے،لیکن واقعۂ معراج سے رکھی جانے والی عقیدت اور حضورسے رکھی جانے والی انسیت کااس مثنوی میں فقدان نظر آتا ہے۔


سطر 160: سطر 152:
(اس غرض سے کہ اس توام کا ایک پیکر دوسرے پیکر سے خدمت میں آگے بڑھ جائے تیز رفتار نے اپنا جوڑ کاٹ لیا)  
(اس غرض سے کہ اس توام کا ایک پیکر دوسرے پیکر سے خدمت میں آگے بڑھ جائے تیز رفتار نے اپنا جوڑ کاٹ لیا)  


 
=== ر ===
[[غالبؔ]] نے مثنوی بیانِ معراج میں ایسے بیسیوں نجومی نکات بیان کردیے ہیں۔ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ برج جوزا نے جب نور کے دروازے کھول دئے تو برج سرطان دریائے نور میں نہا گیااور سیارہ مشتری کو مقام شرف حاصل ہو گیا۔یہاں یہ بات یاد رہے کہ از روئے علم نجوم مشتری کا مقام شرف برج سرطان ہے اور مریخ کا مقام شرف برج اسد ہے۔مریخ اگر برج اسد میں ہو تو اس کے اثرات قلب کو کمزور کر دہتے ہیں۔ [[غالبؔ]] نے اس نجومی نکتے کو شاعرانہ انداز میں یوں بیان کیا ہے:   
[[غالبؔ]] نے مثنوی بیانِ معراج میں ایسے بیسیوں نجومی نکات بیان کردیے ہیں۔ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ برج جوزا نے جب نور کے دروازے کھول دئے تو برج سرطان دریائے نور میں نہا گیااور سیارہ مشتری کو مقام شرف حاصل ہو گیا۔یہاں یہ بات یاد رہے کہ از روئے علم نجوم مشتری کا مقام شرف برج سرطان ہے اور مریخ کا مقام شرف برج اسد ہے۔مریخ اگر برج اسد میں ہو تو اس کے اثرات قلب کو کمزور کر دہتے ہیں۔ [[غالبؔ]] نے اس نجومی نکتے کو شاعرانہ انداز میں یوں بیان کیا ہے:   


سطر 176: سطر 168:
نجومی نکات کی یہ توضیح با معنی اورحسنِ شاعری کا مرقع ہے۔برج سرطان کا مقام دریا،سمندر ، جھیل،نہر وغیرہ کو مانا جاتاہے۔اس اعتبار سے غالبؔ نے سرطان کے دریائے نور میںنہانے کی جو بات کہی ہے ،اس میں صنعت مرعات االنظیر کا استعمال بڑی خوبی سے کیا ہے۔یعنی شاعر نے دریا اور سرطان میں نسبت قائم کی ہے۔
نجومی نکات کی یہ توضیح با معنی اورحسنِ شاعری کا مرقع ہے۔برج سرطان کا مقام دریا،سمندر ، جھیل،نہر وغیرہ کو مانا جاتاہے۔اس اعتبار سے غالبؔ نے سرطان کے دریائے نور میںنہانے کی جو بات کہی ہے ،اس میں صنعت مرعات االنظیر کا استعمال بڑی خوبی سے کیا ہے۔یعنی شاعر نے دریا اور سرطان میں نسبت قائم کی ہے۔


[[غالبؔ]] برج اسد کے بعد سنبلہ ،میزان ،عقرب،قوس،جدی،دلو اور حوت کا ذکر کرتے ہیں اور ان بروج کی جو علامت  میں علم نجوم میں متعین ہیں،ان کے معنوی پہلو کو زینتِ شعر بنانے کے جتن کرتے ہیں۔ مثلاًسنبلہ کے لیے ’سو دانوںکا خوشہ سے سر نکالنا‘،’میزان سے موتی تولنا‘،عقرب کا راستہ میں نگہ بانی کرنا‘’،قوس کا تیر چلانا‘اور جدی کی بھیڑ پر نشانہ سادھنا‘،’دلو کا ڈول سے پانی گرانا‘،’حوت کا شکار کرنا‘وغیرہ تمام مثالیں [[غالبؔ]] کی مضمون آفرینی سے معنوی ابعاد قائم کرنے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ واقعہ معراج بیان کرتے وقت [[غالبؔ ]]نے [[امیر خسروؔ]] کی تتبع میں’سبع افلاک‘ کی بجائے ’نہہ سپہر‘ کے تصور کو ترجیح دی ہے۔ سات سیاروں سے منسوب آسمانوں کا سفر مکمل کرنے کے بعد آپ کی سواری آٹھویں آسمان کی طرف پرواز کرتی ہے۔یہ آسمان غیر متحرک ستاروں اور بروج کا مسکن ہے۔سطور بالا میں اسکی تفصیل آچکی ہے۔آپ یہاں سے نویں آسمان پر پہنچتے ہیں۔یہ آسمان حضور کے سفر کی آخری منزل اور مقامِ عرشِ معٰلی ہے۔غالبؔ نے سفر کی آخری منزل کی رودادبیان کرتے وقت ان تمام غریب ،ضعیف اور موضوع احادیث اور روایاتِ باطلہ کو شعری رنگ اور آھنگ میں ڈھال دیا ہے جو اکثر میلاد نامہ | میلاد ناموں]] اور [[معراج ناموں]] میں بیان کی جاتی ہیں۔ یہاں ’’احمد بلا میم‘‘ کے نہایت گمراہ کن اور غیر اسلامی تصور کو بھی فلسفیانہ اور منطقیانہ اسلوب میں ڈھالنے کی عمداً کوشش کی ہے۔یہ تصور الہٰیت اور رسالت میں وحدت کو تسلیم کرتا ہے۔یہ خیال اور عقیدہ ’لا الٰہ الااللہ ‘کی گویا نفی اور تکذیب کرتے ہیں۔لیکن غالبؔ نے تاویلات و توجیہات کے سہارے اسے منوانے کی کوشش کی ہے:
غالبؔ برج اسد کے بعد سنبلہ ،میزان ،عقرب،قوس،جدی،دلو اور حوت کا ذکر کرتے ہیں اور ان بروج کی جو علامت  میں علم نجوم میں متعین ہیں،ان کے معنوی پہلو کو زینتِ شعر بنانے کے جتن کرتے ہیں۔ مثلاًسنبلہ کے لیے ’سو دانوںکا خوشہ سے سر نکالنا‘،’میزان سے موتی تولنا‘،عقرب کا راستہ میں نگہ بانی کرنا‘’،قوس کا تیر چلانا‘اور جدی کی بھیڑ پر نشانہ سادھنا‘،’دلو کا ڈول سے پانی گرانا‘،’حوت کا شکار کرنا‘وغیرہ تمام مثالیں [[غالبؔ]] کی مضمون آفرینی سے معنوی ابعاد قائم کرنے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ واقعہ معراج بیان کرتے وقت [[غالبؔ ]]نے [[امیر خسروؔ]] کی تتبع میں’سبع افلاک‘ کی بجائے ’نہہ سپہر‘ کے تصور کو ترجیح دی ہے۔ سات سیاروں سے منسوب آسمانوں کا سفر مکمل کرنے کے بعد آپ کی سواری آٹھویں آسمان کی طرف پرواز کرتی ہے۔یہ آسمان غیر متحرک ستاروں اور بروج کا مسکن ہے۔سطور بالا میں اسکی تفصیل آچکی ہے۔آپ یہاں سے نویں آسمان پر پہنچتے ہیں۔یہ آسمان حضور کے سفر کی آخری منزل اور مقامِ عرشِ معٰلی ہے۔غالبؔ نے سفر کی آخری منزل کی رودادبیان کرتے وقت ان تمام غریب ،ضعیف اور موضوع احادیث اور روایاتِ باطلہ کو شعری رنگ اور آھنگ میں ڈھال دیا ہے جو اکثر میلاد نامہ | میلاد ناموں]] اور [[معراج ناموں]] میں بیان کی جاتی ہیں۔ یہاں ’’احمد بلا میم‘‘ کے نہایت گمراہ کن اور غیر اسلامی تصور کو بھی فلسفیانہ اور منطقیانہ اسلوب میں ڈھالنے کی عمداً کوشش کی ہے۔یہ تصور الہٰیت اور رسالت میں وحدت کو تسلیم کرتا ہے۔یہ خیال اور عقیدہ ’لا الٰہ الااللہ ‘کی گویا نفی اور تکذیب کرتے ہیں۔لیکن غالبؔ نے تاویلات و توجیہات کے سہارے اسے منوانے کی کوشش کی ہے:
 


=== 1===
احد جلوہ گر با شیون و صفات
احد جلوہ گر با شیون و صفات


سطر 205: سطر 197:
آخری شعر میں بالا(بلند) و پستی میں صنعت تضاد کا خوب استعمال ہوا ہے۔ [[معراج نامے]] کے آخری حصے سے پتہ چلتا ہے کہ [[غالبؔ]] اہل تشیع کے عقائد کو حرزِ جان رکھتے تھے۔ اس طرح ’’بیانِ معراج‘‘ حضرت علیؓ کی ملاقات اور نبی و امام کی باہمی رازدارانہ گفتگو پر ختم ہو جاتا ہے۔
آخری شعر میں بالا(بلند) و پستی میں صنعت تضاد کا خوب استعمال ہوا ہے۔ [[معراج نامے]] کے آخری حصے سے پتہ چلتا ہے کہ [[غالبؔ]] اہل تشیع کے عقائد کو حرزِ جان رکھتے تھے۔ اس طرح ’’بیانِ معراج‘‘ حضرت علیؓ کی ملاقات اور نبی و امام کی باہمی رازدارانہ گفتگو پر ختم ہو جاتا ہے۔


 
=== 2===
تقابل و توازن:[[غالبؔ]]،[[شفیقؔ ]]اور  [[اقبالؔ]]:
تقابل و توازن:[[غالبؔ]]،[[شفیقؔ ]]اور  [[اقبالؔ]]:


سطر 225: سطر 217:
خدا عاشق ہے، شاہد ہے محمد
خدا عاشق ہے، شاہد ہے محمد


 
=== 3==
 
[[غالبؔ]] نے براق کی تیز رفتاری کا ذکر سائنس کے دو اصولوں کی بنیاد پر کیا ہے،ایک قوت ثقل کا اصول ،جس کے مطابق انھوں نے براق کی تیز رفتاری کو آنکا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ گنبد سے گیند جتنی دیر میں زمین پر گرتی ہے،اتنی دیر میں براق آسمان سے زمین پر اتر جاتا ہے۔[[غالبؔ ]]نے سائنس کے دوسرے اصول ’آواز کی رفتار‘سے بھی براق کی تیز پروازی کو تشبیہہ دی ہے۔  
[[غالبؔ]] نے براق کی تیز رفتاری کا ذکر سائنس کے دو اصولوں کی بنیاد پر کیا ہے،ایک قوت ثقل کا اصول ،جس کے مطابق انھوں نے براق کی تیز رفتاری کو آنکا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ گنبد سے گیند جتنی دیر میں زمین پر گرتی ہے،اتنی دیر میں براق آسمان سے زمین پر اتر جاتا ہے۔[[غالبؔ ]]نے سائنس کے دوسرے اصول ’آواز کی رفتار‘سے بھی براق کی تیز پروازی کو تشبیہہ دی ہے۔  


سطر 271: سطر 262:
چاند کی فضیلتوں کے یہ احوال دیگر [[نعت گو شعراء]] نے شاذہی بیان کئے ہوں،مگر [[غالبؔ ]]کے بیانِ معراج میں ان کا مطلق ذکرنہیں۔
چاند کی فضیلتوں کے یہ احوال دیگر [[نعت گو شعراء]] نے شاذہی بیان کئے ہوں،مگر [[غالبؔ ]]کے بیانِ معراج میں ان کا مطلق ذکرنہیں۔


 
=== 5 ===
فلک دوم کا مالک عطارد مانا جاتا ہے۔اسے ازروئے نجوم کاتب اور محرر زمانہ بھی گردانا گیا ہے۔ماہرین نجوم سے دی ہوئی اس نسبت کو [[لچھمی نرائن شفیق |
فلک دوم کا مالک عطارد مانا جاتا ہے۔اسے ازروئے نجوم کاتب اور محرر زمانہ بھی گردانا گیا ہے۔ماہرین نجوم سے دی ہوئی اس نسبت کو [[لچھمی نرائن شفیق |
شفیقؔ ]] نے نہایت ماہرانہ انداز میں بیان کیا ہے۔فلک دوم پرجب آپ پہنچتے ہیں تو عطارد سے کہتے ہیں کہ ’رسالت تو مجھ پر ختم ہو گئی،وحی کا سلسلہ بھی کچھ دن اور چلے گا۔تیرا کام کتابت و محرری ہے ،اس لیے میں تجھے ابد تک کونین کے دفتر کی ذمہ داری سونپتا ہوں۔ [[غالبؔ]] نے عطارد کے اس وصف کا نہایت شاندار اظہار کیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ آپ کی آمد پر عطارد نے]] غالبؔ ]]کی شکل اختیار کی اور مدحتِ رسول کرنے لگا۔ یہیں مدحتِ رسول میں جو اشعار کہے گئے ہیںوہ [[غالبؔ]] کے عشق نبی کی حقیقی تصویر پیش کرتے ہیں۔ثنائے نبی کا یہ انداز اگرچہ بڑا منفرد اور والہانہ ہے،مگر تعلّی و تحسین ذات کا اثر و نفوذبھی اس میں دکھائی دیتا ہے۔
شفیقؔ ]] نے نہایت ماہرانہ انداز میں بیان کیا ہے۔فلک دوم پرجب آپ پہنچتے ہیں تو عطارد سے کہتے ہیں کہ ’رسالت تو مجھ پر ختم ہو گئی،وحی کا سلسلہ بھی کچھ دن اور چلے گا۔تیرا کام کتابت و محرری ہے ،اس لیے میں تجھے ابد تک کونین کے دفتر کی ذمہ داری سونپتا ہوں۔ [[غالبؔ]] نے عطارد کے اس وصف کا نہایت شاندار اظہار کیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ آپ کی آمد پر عطارد نے]] غالبؔ ]]کی شکل اختیار کی اور مدحتِ رسول کرنے لگا۔ یہیں مدحتِ رسول میں جو اشعار کہے گئے ہیںوہ [[غالبؔ]] کے عشق نبی کی حقیقی تصویر پیش کرتے ہیں۔ثنائے نبی کا یہ انداز اگرچہ بڑا منفرد اور والہانہ ہے،مگر تعلّی و تحسین ذات کا اثر و نفوذبھی اس میں دکھائی دیتا ہے۔
سطر 280: سطر 271:


چرخ چہارم از رویے نجوم شمس کے تابع ہے۔[[غالبؔ ]]نے آسمان پر ستاروںکی گل افشانی کا سبب شمس کو قرار دیا ہے۔وہ اس طرح سے کہ ثوابت وسیارگانِ فلک اکتساب نور کے لیے سورج ہی کے محتاج ہوتے ہیں۔علم فلکیات اور علم نجوم اکتساب نور کے اس نظریے کے موئدہیں۔[[لچھمی نرائن شفیق |شفیقؔ]] کے ’معراج نامے‘ میں سیارہ شمس اور فلک چہارم کا بیان محض سرسری ہے۔وہ اگر چاہتے تو سورج کی فضیلت بیان کرنے کے لیے ہندواسطور کا سہارا لیتے۔
چرخ چہارم از رویے نجوم شمس کے تابع ہے۔[[غالبؔ ]]نے آسمان پر ستاروںکی گل افشانی کا سبب شمس کو قرار دیا ہے۔وہ اس طرح سے کہ ثوابت وسیارگانِ فلک اکتساب نور کے لیے سورج ہی کے محتاج ہوتے ہیں۔علم فلکیات اور علم نجوم اکتساب نور کے اس نظریے کے موئدہیں۔[[لچھمی نرائن شفیق |شفیقؔ]] کے ’معراج نامے‘ میں سیارہ شمس اور فلک چہارم کا بیان محض سرسری ہے۔وہ اگر چاہتے تو سورج کی فضیلت بیان کرنے کے لیے ہندواسطور کا سہارا لیتے۔
 
=== 6 ===


فلک پنجم کا مالک سیارہ مریخ ہے۔وہ جری اور صاحبِ حشمت مانا جاتا ہے۔شاید اسی وجہ سے [[غالبؔ]] نے اس فلک کے تذکرے میں اسے جنگ جو بادشاہوں کامسکن قرار دیا ہے ۔مگر حضورکی آمد پر اس فلک کا مالک مریخ جھاڑو دیتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کے علی الرغم [[لچھمی نرائن شفیق | شفیقؔ ]]نے مریخ کی سار ی دلیرانہ اور شجاعانہ اوصاف کا تذکرہ نہایت مختصر مگر جامع انداز میں کیا ہے ۔[[غالبؔ]] اور [[لچھمی نرائن شفیق | شفیقؔ]]  دونوں نے چرخ ششم ،ہفتم اور ہشتم کی نجومی خصوصیات کا زیادہ احاطہ نہیں کیا ،لیکن زحل کے اوصافِ قبیحہ کو بیان کرنے میں منجمانہ فکر کو بہت برتا ہے۔ دونوں نے اسے رو سیہ اور بد بخت کہا ہے ۔دونوں نے اس کی نسبت ہندوستان سے بتائی ہے۔
فلک پنجم کا مالک سیارہ مریخ ہے۔وہ جری اور صاحبِ حشمت مانا جاتا ہے۔شاید اسی وجہ سے [[غالبؔ]] نے اس فلک کے تذکرے میں اسے جنگ جو بادشاہوں کامسکن قرار دیا ہے ۔مگر حضورکی آمد پر اس فلک کا مالک مریخ جھاڑو دیتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کے علی الرغم [[لچھمی نرائن شفیق | شفیقؔ ]]نے مریخ کی سار ی دلیرانہ اور شجاعانہ اوصاف کا تذکرہ نہایت مختصر مگر جامع انداز میں کیا ہے ۔[[غالبؔ]] اور [[لچھمی نرائن شفیق | شفیقؔ]]  دونوں نے چرخ ششم ،ہفتم اور ہشتم کی نجومی خصوصیات کا زیادہ احاطہ نہیں کیا ،لیکن زحل کے اوصافِ قبیحہ کو بیان کرنے میں منجمانہ فکر کو بہت برتا ہے۔ دونوں نے اسے رو سیہ اور بد بخت کہا ہے ۔دونوں نے اس کی نسبت ہندوستان سے بتائی ہے۔
سطر 286: سطر 277:
فلک ہشتم علم نجوم کے مطابق غیر متحرک اور ساکت ستاروں کا مسکن ہے۔[[غالبؔ]] نے اس آسمان کے تمام بروج کابالتفصیل ذکر کیا ہے۔ مگر [[لچھمی نرائن شفیق | شفیقؔ ]] سرسری طور پر گذر گئے۔چرخ نہم فلک الافلاک ہے ،اور عرش اعظم کا مقام بھی۔شبِ معراج میں یہ جگہ خلوت گاہِ خدا اور رسول بنی تھی۔یہاں کے احوال کا پتہ حبیب و محبوب کے سوا کسی کو نہیں معلوم۔اہل تشیع یہاں انگشتریِ رسول کاذکر کرتے ہیں اور حضرت علیؓ کی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ملاقات کو برحق جانتے ہیں۔ [[لچھمی نرائن شفیق | شفیقؔ]] اگرچہ ہندو المذہب تھے مگر شیعہ حکومت میں عہدہ جلیلہ پر فائز تھے اس لیے انھوں نے سلاطین حیدرآباد (گولکنڈہ) کی مذہبی حسیت کا بہت زیادہ خیال رکھا اور معراج نامے کے آخری حصے میں اثنا ء عشری اعتقادات کا برملا اظہار کیا۔ [[غالبؔ]] کے یہاں بھی فلک الافلاک کے تذکرے میں شعریت پر شیعیت غالب نظر آتی ہے۔  
فلک ہشتم علم نجوم کے مطابق غیر متحرک اور ساکت ستاروں کا مسکن ہے۔[[غالبؔ]] نے اس آسمان کے تمام بروج کابالتفصیل ذکر کیا ہے۔ مگر [[لچھمی نرائن شفیق | شفیقؔ ]] سرسری طور پر گذر گئے۔چرخ نہم فلک الافلاک ہے ،اور عرش اعظم کا مقام بھی۔شبِ معراج میں یہ جگہ خلوت گاہِ خدا اور رسول بنی تھی۔یہاں کے احوال کا پتہ حبیب و محبوب کے سوا کسی کو نہیں معلوم۔اہل تشیع یہاں انگشتریِ رسول کاذکر کرتے ہیں اور حضرت علیؓ کی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ملاقات کو برحق جانتے ہیں۔ [[لچھمی نرائن شفیق | شفیقؔ]] اگرچہ ہندو المذہب تھے مگر شیعہ حکومت میں عہدہ جلیلہ پر فائز تھے اس لیے انھوں نے سلاطین حیدرآباد (گولکنڈہ) کی مذہبی حسیت کا بہت زیادہ خیال رکھا اور معراج نامے کے آخری حصے میں اثنا ء عشری اعتقادات کا برملا اظہار کیا۔ [[غالبؔ]] کے یہاں بھی فلک الافلاک کے تذکرے میں شعریت پر شیعیت غالب نظر آتی ہے۔  


 
=== 7 ===


[[غالبؔ]] اور [[اقبالؔ]]:
[[غالبؔ]] اور [[اقبالؔ]]:
سطر 297: سطر 288:
[[ غالبؔ]] نے چوتھے آسمان کو فلک شمس سے تعبیر کیا ہے۔مگر [[اقبالؔ ]]نے  [[جاوید نامہ]] میں سیارہ شمس کا ذکر نہیں کیا۔وہ [[جلال الدین رومی | پیر رومی]] کے ساتھ عطارد سے مریخ یعنی فلک پنجم پر پہنچ جاتے ہیں۔مریخ ازروئے نجوم آتشی مزاج ہے اور انسانی زندگی میں عزم و حوصلہ پیدا کرتا ہے۔منفی اعتبار سے وہ اضطراری کیفیات پیدا کرنے والا مانا جاتا ہے۔[[غالبؔ]] نے اسے متکبر و مغرور کہا ہے لیکن آپؐ کی آمد کی خبر سن کر اپنی کلغی کے راستے سے موتی ہٹانے کے لیے جھاڑو دیتے ہوئے دکھایا ہے۔اس کے عزم وحوصلہ کی صفت کے مطابق [[غالبؔ ]] نے اس فلک پر جنگ جو بادشاہوں اور پشنگ و افراسیاب جیسے شجاع ،تلوار کے دھنی شاہوں کو صف باندھے ہوئے دکھایا ہے۔اس کے علی الرغم [[اقبالؔ ]] نے یہاں حکیم مریخی کو جہ مسلسل کی ترغیب دیتے ہوئے پیش کیا جو تقدیر کے بالمقابل تدبیر کو فوقیت دیتے ہیں۔[[اقبال ؔ]] نے فلک پنجم پر ایک فرنگی عورت کو بھی دکھایا ہے جو تجدد پسند اور آزادیِ نسواں کی علم بردار تھی ۔فرنگی عورت کو سیارہ مریخ پر بتانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مریخ کو برطانیہ سے منسوب کیا گیا ہے اور اس انتساب کو ماہرین نجوم کی تائید حاصل ہے۔
[[ غالبؔ]] نے چوتھے آسمان کو فلک شمس سے تعبیر کیا ہے۔مگر [[اقبالؔ ]]نے  [[جاوید نامہ]] میں سیارہ شمس کا ذکر نہیں کیا۔وہ [[جلال الدین رومی | پیر رومی]] کے ساتھ عطارد سے مریخ یعنی فلک پنجم پر پہنچ جاتے ہیں۔مریخ ازروئے نجوم آتشی مزاج ہے اور انسانی زندگی میں عزم و حوصلہ پیدا کرتا ہے۔منفی اعتبار سے وہ اضطراری کیفیات پیدا کرنے والا مانا جاتا ہے۔[[غالبؔ]] نے اسے متکبر و مغرور کہا ہے لیکن آپؐ کی آمد کی خبر سن کر اپنی کلغی کے راستے سے موتی ہٹانے کے لیے جھاڑو دیتے ہوئے دکھایا ہے۔اس کے عزم وحوصلہ کی صفت کے مطابق [[غالبؔ ]] نے اس فلک پر جنگ جو بادشاہوں اور پشنگ و افراسیاب جیسے شجاع ،تلوار کے دھنی شاہوں کو صف باندھے ہوئے دکھایا ہے۔اس کے علی الرغم [[اقبالؔ ]] نے یہاں حکیم مریخی کو جہ مسلسل کی ترغیب دیتے ہوئے پیش کیا جو تقدیر کے بالمقابل تدبیر کو فوقیت دیتے ہیں۔[[اقبال ؔ]] نے فلک پنجم پر ایک فرنگی عورت کو بھی دکھایا ہے جو تجدد پسند اور آزادیِ نسواں کی علم بردار تھی ۔فرنگی عورت کو سیارہ مریخ پر بتانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مریخ کو برطانیہ سے منسوب کیا گیا ہے اور اس انتساب کو ماہرین نجوم کی تائید حاصل ہے۔


 
=== 8 ===
[[غالبؔ]]  اور [[اقبالؔ]] دونوں نے علوی سفر کی روداد میں مریخ کے بعد کی منزل فلک ششم بتائی ہے۔ اس فلک کا مالک پیر سن مشتری ہے ،جسے برجیس بھی کہتے ہیں۔ نجوم میں اسے پانچویں دن جمعرات ، پنج شنبہ کا حاکم کہا گیا ہے ،فلسفہ ،آرٹ اور قانون سے اس کی نسبت اہل نجوم مانتے ہیں۔مشتری کی پیر سنی کے اعتبار سے [[غالبؔ]] نے ایک عالی شان مکان میں ایک بزرگ کی رہائش کے کوائف بیان کئے ہیں اور حکمت و فراست کو ان کی خوبیاں بتائی ہیں۔ یہ تمام اوصاف از روئے نجوم مشتری سے منسوب ہیں۔لیکن فلک مشتری پر [[اقبالؔ]] نے عالم اسلام کے مشہور ادباء و شعراء کی نشاندہی کی ہے۔ مثلاً: منصور حلاج ،قرۃالعین طاہرہ اور [[اسد اللہ خاں غالب  | مرزا غالبؔ ]]۔ مشتری سے منسوب تمام صفات کی مذکورہ شخصیتیں حامل تھیں اس لئے اقبالؔ نے چھٹے آسمان پر ان کی سکونت کو واضح کیا ہے۔
[[غالبؔ]]  اور [[اقبالؔ]] دونوں نے علوی سفر کی روداد میں مریخ کے بعد کی منزل فلک ششم بتائی ہے۔ اس فلک کا مالک پیر سن مشتری ہے ،جسے برجیس بھی کہتے ہیں۔ نجوم میں اسے پانچویں دن جمعرات ، پنج شنبہ کا حاکم کہا گیا ہے ،فلسفہ ،آرٹ اور قانون سے اس کی نسبت اہل نجوم مانتے ہیں۔مشتری کی پیر سنی کے اعتبار سے [[غالبؔ]] نے ایک عالی شان مکان میں ایک بزرگ کی رہائش کے کوائف بیان کئے ہیں اور حکمت و فراست کو ان کی خوبیاں بتائی ہیں۔ یہ تمام اوصاف از روئے نجوم مشتری سے منسوب ہیں۔لیکن فلک مشتری پر [[اقبالؔ]] نے عالم اسلام کے مشہور ادباء و شعراء کی نشاندہی کی ہے۔ مثلاً: منصور حلاج ،قرۃالعین طاہرہ اور [[اسد اللہ خاں غالب  | مرزا غالبؔ ]]۔ مشتری سے منسوب تمام صفات کی مذکورہ شخصیتیں حامل تھیں اس لئے اقبالؔ نے چھٹے آسمان پر ان کی سکونت کو واضح کیا ہے۔


سطر 314: سطر 305:
(یعنی اس عالم [مقام] کے اندر ایک دوسرا جہاں موجود ہے،گویا اس دنیا کو حکمِ دیگر ’کن‘سے بنایا گیا ہے۔اس کا وقت چاند سورج کی روش کا محتاج نہیں ۔[وہ ایسا جہاں ہے] جس میں نو آسمان گم ہیں۔ یعنی نہ یہاں سمتیں [زمین]ہیں نہ وقت[زماں] کا کوئی تصور)  
(یعنی اس عالم [مقام] کے اندر ایک دوسرا جہاں موجود ہے،گویا اس دنیا کو حکمِ دیگر ’کن‘سے بنایا گیا ہے۔اس کا وقت چاند سورج کی روش کا محتاج نہیں ۔[وہ ایسا جہاں ہے] جس میں نو آسمان گم ہیں۔ یعنی نہ یہاں سمتیں [زمین]ہیں نہ وقت[زماں] کا کوئی تصور)  


 
=== 9 ===


[[غالبؔ ]]نے جن حقائق کو بیان کرنے کے لئے اجمال کا سہارا لیا [[اقبالؔ]] ان کے لئے تفصیل سے کام لیتے ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ’[[جاوید نامہ]]‘ بذات خود ایک مستقل تصنیف ہے جس میں تفصیل کی گنجائش ہے،لیکن [[غالبؔ]] کی ’[[بیانِ معراج]]‘ ان کی ایک مختصر سی مثنوی کے ایک عنصر ترکیبی پر مشتمل ہے۔
[[غالبؔ ]]نے جن حقائق کو بیان کرنے کے لئے اجمال کا سہارا لیا [[اقبالؔ]] ان کے لئے تفصیل سے کام لیتے ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ’[[جاوید نامہ]]‘ بذات خود ایک مستقل تصنیف ہے جس میں تفصیل کی گنجائش ہے،لیکن [[غالبؔ]] کی ’[[بیانِ معراج]]‘ ان کی ایک مختصر سی مثنوی کے ایک عنصر ترکیبی پر مشتمل ہے۔
براہ کرم اس بات کا خیال رکھیں کہ نعت کائنات میں آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام ترمیموں میں دیگر صارفین بھی حذف و اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی تحریر کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے روادار نہیں تو براہ کرم اسے یہاں شائع نہ کریں۔
نیز اس تحریر کو شائع کرتے وقت آپ ہم سے یہ وعدہ بھی کر رہے ہیں کہ اسے آپ نے خود لکھا ہے یا اسے دائرہ عام یا کسی آزاد ماخذ سے یہاں نقل کر رہے ہیں (تفصیلات کے لیے نعت کائنات:حقوق تصانیف ملاحظہ فرمائیں)۔ براہ کرم اجازت کے بغیر کسی کاپی رائٹ شدہ مواد کو یہاں شائع نہ کریں۔
منسوخ معاونت برائے ترمیم (نئی ونڈو میں کھولیں)