نعت بحیثیت صنفِ سخن ۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat Kainaat Farman Fatehpuri.jpg

مقالہ نگار : ڈاکٹرفرمان فتح پوری۔کراچی

برائے : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26

نعت بحیثیت صنف سُخن[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT:

This article emphasis's importance of creativity in Poetry over theme. Theme becomes irrelevant if the poetic beauty diminished or extremely enlightened. Poetry is accepted on the basis of style of expression and not for the sake of theme only. All worldly recognized luminous literary works gained popularity irrespective of the fact carrying religious content. Vergil's Elide, Dante' s Divine Comedy, Milton's Paradise Lost, Firdausi's Shah Nama and Roomi's Mathnavi were based on religious topics, yet gained popularity due to stylistic unique expression. Religious, particularly, Naatia poetry can, therefore, never be termed non-poetry if carry poetic beauty.

مسلمان چھٹی صدی عیسوی میں اپنے انقلاب آفریں عقائد کے ساتھ عرب کی سرزمین سے نکلے اوربہت جلد دنیا کے گوشے گوشے میں آباد ہوگئے۔جہاں جہاں وہ گئے اس سے انکار نہیں کہ وہاں کی علاقائی،تہذیبوں کااثر بھی انہوں نے قبول کیا لیکن جس چیز نے ان کی تمدنی زندگی کوہمیشہ دوسروں کی زندگی سے ممتازرکھا وہ توحید ورسالت پران کا عقیدہ تھا ایسا ہمہ گیر و وسیع عقیدہ جس کے بغیر وہ خود کومسلمان کہنے کا دعویٰ ہی نہیں کرسکتے تھے۔اس عقیدے کے ایک جزو یعنی توحید کاتصور توکسی نہ کسی شکل میں دوسری قوموں میںبھی موجود تھا لیکن رسالت کے مماثل ان کے یہاں کوئی چیز نہ تھی۔ مسلمانوں کے یہاں رسالت نام تھا آنحضرت کواللہ کارسولِ برحق تسلیم کرنے کاان کی سیرت وزندگی کی پیروی کااورپیروی سے بھی پہلے ان کی ذات وصفات سے اس والہانہ محبت وشغف کاجس کے بغیر توحید کاعقیدہ اسلام میں بے معنی ہوجاتا ہے۔بقول علامہ اقبال:

بہ مصطفیٰ برساں خویش راکہ دیں ہمہ اوست

اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی ست


یاشیخ سعدی کے الفاظ میں:


خلاف پیمبر کسے رہ گزید

کہ ہرگز بہ منزل نہ خواہد رسید

مپندار سعدی کہ راہ صفا

تواں رفت جزاز پئے مصطفا

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے والہانہ شغف ومحبت نے مسلمانوں کی زندگی کے ہرشعبے کومتاثر کیا۔ظاہر ہے کہ ان کے فنون لطیفہ خصوصاً شعروادب پرگہرا اثرڈالا۔اس اثر کے نتیجے میں نعت گوئی جس کااصل مقصود آنحضرت سے اظہار محبت کرناتھا ان کے فکروفن کامستقل محوربن گئی۔چنانچہ عربی، فارسی،اردو اور دوسری زبانوں کاشاید ہی کوئی مسلمان شاعرہو جس نے نعت کی شکل میں حضوراکرم سے اپنی عقیدت کااظہار اورانسانی زندگی پران کے احسانات کا اعتراف نہ کیاہو یہ الگ بات ہے کہ نعتوں کاجتنا بڑااور قیمتی ذخیرہ عربی،فارسی اوراردو میں موجود ہے کسی دوسری زبان میں نظر نہیں آتا۔نعت عربی زبان کا لفظ ہے اوراس کے لغوی معنی تعریف یاوصف بیان کرنے کے ہیں۔مثلاًفارسی کے اس شعر میں:


جاوید ہمی باش بہ ایں نعت بایں وصف

پاکیزہ باخلاق و پسندیدہ بافعال


نعت کالفظ اپنے لغوی معنی میں استعمال ہواہے لیکن ادبیات اوراصطلاحات شاعری میں ’’نعت‘‘کالفظ اپنے مخصوص معنی رکھتاہے یعنی اس سے صرف آنحضرت کی مدح مراد لی جاتی ہے۔ اگر آنحضرت کے سوا کسی دوسرے بزرگ یااصحاب وامام کی تعریف بیان کی جائے تواسے منقبت کہیں گے۔آنحضرت کی مدح چوںکہ نثراورنظم کے ہرٹکڑے کو نعت کہاجائے گا لیکن اردو،فارسی میں جب نعت کالفظ استعمال ہوتاہے تواس سے عام طورپر آنحضرت کی منظوم مدح مراد لی جاتی ہے۔


مندرجہ بالا معنی کی روشنی میں نعت کا لفظ شاعری کی کسی ہیئت کی طرف نہیں بلکہ صرف موضوع کی جانب اشارہ کرتا ہے یعنی شاعری کی مختلف ہیئتوں مثلا: قصیدہ،مثنوی،غزل،رباعی،قطعہ یامسدس و مخمس وغیرہ میں سے کسی بھی ہیئت میں نعت کہہ سکتے ہیں لیکن اس کے موضوع سے انحراف یاتجاوز نہیں کیاجاسکتا۔نعت کاموضوع بظاہر بہت مختصر نظرآتاہے۔اس لیے کہ اس کی حدیں حضور کی زندگی اورسیرت سے آگے نہیں بڑھتیں لیکن غور کرنے سے اندازہ ہوگا کہ نعت کاموضوع حقیقتاً ایک انتہائی عظیم و سیع موضوع ہے عظیم اس لیے کہ اس کاتعلق دنیا کی عظیم ترین شخصیت اورمحسن انسانیت سے ہے وہ کسی خاص قوم یاگروہ کے لیے نہیں بلکہ ساری اقوام عالم کے لیے رحمت بن کرآیاتھا اورخود اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میںجگہ جگہ اس کے اوصاف بیان کیے ہیں۔


جہاں تک موضوع کی وسعت کاتعلق ہے ا س میں آنحضرت کی زندگی اورسیرت کے توسط سے انسانی زندگی کے سارے ثقافتی وتہذیبی پہلو اورسماجی وسیاسی مباحث درآئے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ اردو ،فارسی کے بیشتر شعراء نے عموماً حضوراکرم کے حلیۂ اقدس۔واقعۂ معراج اورمعجزات ہی کو اپنی توجہ کا مرکز بنایاہے لیکن نعتکے موضوع کا دائرہ اس سے بہت وسیع ہے اس میں شمائل وفضائل کے ساتھ ساتھ معمولات نبوی،غزوات نبوی،عبادات نبوی،آداب مجالس نبوی، پیغامات نبوی اور اخلاق نبوی کے بے شمار پہلو شامل ہیں۔حسن عمل،حسن سلوک،حسن بیان اورحسن معاملہ سے لے کر عدل وانصاف ،جودوسخا،ایثار واحسان،سادگی وبے تکلفی،شرم وحیا،شجاعت و دیانت ، عزم و استقلال، مساوات تواضع،مہماں نوازی وایفائے عہد،زہد وقناعت،عفوو حلم،رحمت ومروت، شفقت و محبت، عیادت وتعزیت،رفیق القلبی وجاں گدازی،رحمت ومکرمت،لطف طبع و لطف سخن اور انسانی ہمدردی و غمخواری تک تمدنی زندگی کاکونسا پہلو اورکونسارخ ہے جس کی ترغیب وترویج وتزئین و تطہیر کاسامان نعت کے موضوع کے اندر موجود نہیں۔حق بات یہ ہے کہ عظمتِ انسانی کے جتنے گیت آج تک گائے گئے ہیں اورایک عظیم انسان کے بارے میں جتنے تصورات آج تک قائم ہوئے ہیں وہ آنحضرت کی رحمتہً للعالمین کے ایک ادنیٰ جزو کی حیثیت رکھتے ہیں۔


بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے یہاں نعتیہ شاعری کو یاایسی شاعری جس کے موضوع کاتعلق اسلام یا اسلامی اقدارو روایات سے ہو کچھ زیادہ لائق پذیرائی خیال نہیں کیاجاتااوّل توان اقدار کی محتمل نظموںکومذہب اخلاقیات و تاریخ کامنظوم درس خیال کرکے ہمارے ناقدین ان پرنظر ڈالنا ہی پسند نہیں کرتے اوراگر بے دلی وتنگ نظری کے ساتھ کسی نے اس پر توجہ کی توایسی نظموں کوصحافت سے قریب ترموضوعاتی شاعری کانام دے کر انہیں بے وقعت اورکم مایہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ایسے ناقدوں کے نزدیک موضوعاتی شاعری بہ حیثیت مجموعی خارجی واقعات سے اور غیر موضوعاتی شاعری داخلی کوائف سے تعلق رکھتی ہے۔غیر موضوعاتی شاعری ان کے نزدیک شایدیوں اہم تر ہے کہ اس کے برعکس مضمون کاادراک ہم آسانی سے نہیں کرسکتے ہم نہیں جانتے کہ جو نظم ہم سننے والے ہیں اس میں کیا کہا جائے گا اورکس نقطۂ نظر سے کہاجائے گا۔یوں سمجھ لیجیے کہ غیر موضوعاتی شاعری عالم محسوسات وکیفیات کی چیز ہونے کے سبب اپنے قاری یاسامع کوقبل ازوقت موضوع ومواد کاسراغ نہیںدیتی سننے والا جو کچھ سنتاہے یکایک سنتا ہے اورجو کچھ محسوس کرتاہے وہ اچانک محسوس کرتاہے۔اس کے برعکس موضوعاتی شاعری جس کی نمائندگی بالعموم مراثی،قصائد،منظوم افسانے اور تاریخی نظمیں کرتی ہیں خارجی واقعات کاایک مخصوص بلکہ جانا پہچانا پس منظررکھتی ہے۔یہ پس منظر کلّی یا جزوی طورپرعنوان کے ساتھ ہی سامع یاقاری کے ذہن میں ابھرآتا ہے گویا موضوعاتی شاعری ہمیں پہلے ہی اس بات کا سراغ دے دیتی ہے کہ کسی خاص نظم میںکیا کچھ بیان کیاجانے والا ہے۔اس پیشگی وقوف کایہ اثر ہوتاہے کہ ہم اس قسم کی شاعری اوراس کے موضوعات کوکبھی کبھی پامال محسوس کرنے لگتے ہیں اوران میں زبان کی چاشنی کے سوا کوئی ایسی چیز نہیں ہوتی جوہمیں متاثر کرسکے۔علاوہ ازیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چوں کہ اس قسم کی شاعری کااصل محور کوئی واقعہ ہوتاہے جس کا حلقۂ اثر عموماً کسی خاص علاقہ طبقہ یاملت وقوم تک محدود ہوتاہے۔اس لیے اس کادائرہ اثر کچھ زیادہ وسیع نہیں ہوتا۔


میری ناقص رائے میں موضوعاتی شاعری کے بارے میں ہمارے ناقدین کی آرائیں سوچی سمجھی نہیں ہیں۔دنیا کے شعری کارناموں کوذہن میں ابھاریے تواندازہ ہوگا کہ ان کارناموں میں سے بیشتر کاتعلق غیر موضوعاتی شاعری سے نہیں خالص موضوعاتی شاعری سے ہے۔کالیداسؔ کے منظوم ڈرامے،ہومرؔ کی الیڈاوڈیسی،ویاسؔ کی مہابھارت تلسیؔ داس کی رامائن،فردوسیؔ کاشاہنامہ،نظامیؔ گنجوی کا خمسہ،ورجلؔ کی اینڈ،ملٹنؔ کی فردوس گم شدہ،ڈانٹےؔ کی طربیہ ربانی اورگوئٹے کی فاوسٹ۔سب موضوعاتی شاعری کے ذیل میں آتی ہیں۔لیکن کیا محض اس بنا پر کوئی شخص ان نظموں کوکم مرتبہ خیال کرے گا۔اگر جواب نفی میں ہے توپھراس نوع کی دوسری نظموں کوکم مایہ اوربے وقعت خیال کرنا مناسب بات نہ ہوگی۔بلکہ انیسؔ کامرثیہ ہویاحالیؔ کامسدس۔میر حسنؔ کی مثنوی سحر البیان ہو یا دیاشنکر نسیم کی گلزار نسیم،شبلی واقبالؔ کی تاریخی نظمیں ہوں یا امیرؔومحسنؔ کے نعتیہ قصیدے ہمارے دورمیں حفیظؔ کا شاہنامہ ہویا ماہر القادری کی’’ظہور قدسی‘‘،محشر رسول کی’’فخر کونین‘‘ہو یا عبدالعزیز خالدؔ کی ’’فارقلیط‘‘ ان میں سے کسی ایک کوبھی بشرطیکہ وہ شاعرانہ لوازم پر پوری اترتی ہومحض موضوعاتی شاعری کی بناپر نظرانداز کرنا ناانصافی ہوگی۔


کسی نے کیا اچھی بات کہی ہے کہ شاعری کے لیے موضوعات کی کمی نہیں ہے،کائنات کاذرّہ ذرّہ شعر میں ڈھلنے کے لیے بے تاب ہے۔ضرورت صرف ایک ایسے صاحب نظر فنکار کی ہے جو انہیں شعر کاقالب عطاکر سکے۔حقیقت یہ ہے کہ شاعری میںموضوعات کے انتخاب کامسئلہ اتنا اہم نہیں ہے جتنا کہ موضوع کے بے جان جسم میں روح ڈالنے کایہ روح موضوع کے خارجی پہلو میں بھی کہیں کہیں چھپی ہوتی ہے لیکن جو چیز اس کو پوری قوت کے ساتھ بروئے کار لاتی ہے وہ دراصل کسی شاعر کی فنی صلاحیت اورشخصیت ہے ۔مثال کے طورپر تلسی داس کی رامائن کولے لیجیے بقولفراقؔ گورکھپوری رام اورسیتا کی کہانی بھی کوئی کہانی ہے اس سے زیادہ دلچسپ اورحیرت انگیز کہانیاں آئے دن کہی اورسنی جاتی ہیں لیکن جب تلسی داس جیسا جادونگار اسے چھو لیتا ہے تویہی کہانی قبول خلائق بن جاتی ہے اور اس میں عظمت کے ایسے آثار پیداہوجاتے ہیں کہ اس کاشمار دنیا کی بہترین نظموں میں ہونے لگتاہے یہی صورت آرتھر اورردلان،پریا دہلن منزدافراسیاب،سکندر ودارا،شیریں وفرہاد،لیلیٰ مجنوں، ہیر رانجھا،سسی پنوں،عمر ماروی،بے نظیروبدرمنیر اوربکاولی وتاج الملوک کے افسانوں کی ہے۔یہ افسانے بذات خود کسی حیثیت سے غیر معمولی نہیں ہیں۔ان سے بہتر افسانے عظیم ترواقعات اوراہم موضوعات ہمیں اس کائنات میں نظر آتے ہیں لیکن غیر معمولی فن کاروں کی بدولت جوشہرت و قبولیت ان افسانوں کوحاصل ہوگئی وہ دوسرے واقعات یاافسانوں کومیسر نہ آئی۔


اس سے پتہ چلتا ہے کہ شعری تخلیق میں صرف موضوع کواہمیت حاصل نہیں ہوتی بلکہ موضوع کو برتنے کا سلیقہ بھی خاص اہمیت رکھتا ہے۔اس سلیقے کادوسرانام اندازِ بیان یااسلوب ہے۔یہ اسلوب فن کار کی شخصی قوتوں،اس کی تخیلی ندرتوں اورفنی مہارتوں کے سہارے ظہورپذیر ہوتاہے اوریہی کسی تخلیق کوادنیٰ واعلیٰ، وقتی ودائمی یاصحافتی وادبی مرتبوں پرفائز کرتاہے لیکن اس کایہ مفہوم ہرگز نہیں کہ موضوعات وواقعات یکسر غیراہم ہوتے ہیں۔یقینا بعض موضوعات اہم بعض کم اہم اوربعض اہم تر ہوتے ہیں۔صرف یہ کہ شاعری میں ان کی اہمیت کا انحصار عام طورپر دلکش فنی اسلوب پرہوتا ہے کبھی اہم ترموضوعات شعر میںجگہ پاکر غیراہم بن جاتے ہیں اورکبھی موضوعات اہم ترین محسوس ہونے لگتے ہیں۔یہ کیوںکر ہوتاہے اس کاجواب چنداں مشکل نہیں ہے۔ فن کار کی خوش ذوقی،فنی مہارت، بالغ نظری،جمالیاتی احساس ،روایات کاپاس،مشاہدات وتجربات کاتنوع،قادر الکلامی اورندرت فکر و خیال ایسی چیزیں ہیں جن کی بدولت ایک کم اہم موضوع شاعری میں اہم بن جاتاہے لیکن اس سلسلے میں جوچیز اہم ترین خیال کیے جانے کے لائق ہے وہ شاعری کی جذباتی صداقت ہے۔جذباتی صداقت سے مراد فن کار کااپنے موضوع سے وہ گہرا لگاؤ اورعقیدہ واخلاص ہے جو اسے کسی موضوع کو شعر کاقالب دینے پر مجبو رکرتاہے۔کوئی فن کار جب اس جبزاندروں کے ساتھ کچھ کہتا ہے توموضوع ذہن سے گزر کر دل میںاتر جاتا ہے اوراس انداز سے کہ’’گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘۔اب اس اخلاص شدید یاجبرِاندروں کوغالب کے لفظوں میںدل گداختہ کہہ لیجیے یا اقبالؔ کی زبان میں خونِ جگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے بغیر نہ موضوع کی اہمیت محسوس ہوتی ہے اورنہ فن کی عظمت گویا کہنے والا جب تک خود اپنے جذبے اپنے تجربے اوراپنے موضوع سے متاثر نہ ہو وہ اپنے کلام سے دوسروں کو متاثر نہیںکرسکتا۔چناںچہ فلسفیانہ مضامین کوشعر کاموضوع بنایاجائے یااخلاق و مذہب کوعلوم معاشرتی کوزیرِبحث لایاجائے یاتاریخی واقعات کوقدیم داستانوں اورتمدنی روایات کونظم کیاجائے یا موجودہ سیاسی وسماجی مسائل کااشتراکیت واشتمالیت پرطبع آزمائی کی جائے یاسرمایہ داری وجمہوریت پر، ضرورت اس بات کی ہے کہ جوکچھ کہاجائے اسے عقل وذہن کی سطح سے اتار کراحساس وجذبہ کی گہرائیوں میں ڈبو لیاجائے ورنہ اس کارسمی بیان قادر الکلامی اورفنی مہارت کے باوجود بے اثرر ہے گا۔


دنیا کی شاہکار نظموں کامطالعہ بتاتاہے کہ موضوع سے گہری ذہنی وابستگی اورجذباتی لگاؤ کی بدولت بہت سے ایسے مذہبی موضوعات آفاقی اورابدی بن گئے ہیں جنہیں ہم اپنی کج فہمی اورکوتاہ نظری سے طبقاتی یاہنگامی خیال کرتے ہیں مثلاً ملٹن کے فردوس گم شدہ میں کھل کرعیسائیت کی تبلیغ کی گئی ہے۔ورجل کی اینڈ میںروما کی برتری کا راگ الاپا گیاہے۔فردوسی کے شاہنامہ میں قدیم ایرانی شہنشایت کواسلام کی جمہوری تحریک سے عظیم ترظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔نظامی کے سکندرنامے میں قبل مسیح کے ایک غیر مسلم یونانی فاتح کے کارناموں کوسراہا گیاہے۔تلسی داس کی رامائن میں بھگتی تحریک کوتقویت پہنچائی گئی ہے۔ہمارے دورمیں علامہ اقبال نے کھل کر اسلام اوراس کی برکات کو شاعری کاموضوع بنایا لیکن کس میں ہمت ہے کہ ان کی شاعرانہ عظمت وکمال سے انکار کر سکے۔بات صرف یہ ہے کہ انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ جذب ِاندروں سے مجبور ہوکر کہاہے قلب وروح کی گہرائیوں میں اتار کرکہا ہے اوراحساس کی پوری شدت کے ساتھ کہا ہے ان کے یہاں موضوع یا نظریہ کی نوعیت محض فلسفیانہ اورمنطقی نہیں رہی بلکہ تخیلی اورجذباتی ہوگئی ہے۔ان کا بیان و اعظانہ یا خطیبانہ ہونے کے بجائے فن کارانہ اورشاعرانہ ہوگیاہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کامذہب کسی ملا کا مذہب نہیں رہا بلکہ دنیا کے سارے صاحبانِ ذوق کی طمانیت وروح خیزی کاوسیلہ بن گیاہے۔


ان حقائق کے باوصف ہمارے یہاں اکثر شعرتاریخی واقعات سوانح وسیرت اسلامی تعلیمات و پیغامات اور اخلاقی موضوعات پرطبع آزمائی کرنا کسرِ شان سمجھتے ہیں۔حد تویہ ہے کہ بعض ان موضوعات کوشعروسخن کے لیے مہمل قرار دیتے ہیں۔ان نام نہاد آزاد خیال شعرا کے نزدیک شاعری میں مذہب کانام لینا تنگ نظری اس کا پیغام عام کرنا رجعت پسندی اورآنحضرت کی سیرت و سوانح یااسوۂ حسنہ کوشعر کاموضوع بنانا غیر شاعرانہ بات ہے۔ان کے خیال میںملّی ومذہبی موضوعات کووہی شعراء اپناتے ہیں جوعقائد ونظریات سے تعلق رکھتی ہے اس لیے غیر دلکش اوربے جان ہوتی ہے اس میں عوام کی دلچسپی کاکوئی سامان نہیں ہوتا۔ایسی شاعری صرف مسلمانوں کو مذہبی عقائد کے سہارے متاثر کرتی ہے۔غالباً یہی خام خیالی ہے جس کے سبب ایک دوشاعروں کوچھوڑ کراردو میں کسی نے اسلام اوراس کے عالمگیر پیغام کو راہ دینا پسند نہیں کیا۔اس کے برعکس طول طویل خیالی افسانوں، صنمیاتی داستانوں اورغیر زبانوں کے بعض مذہبی، تاریخی اورنیم تاریخی نظموں کواردو نظم کاجامہ پہنانے کی پوری کوشش کی گئی ہے آپ کوسن کرحیرت ہوگی کہ ملٹن کی فردوس گم شدہ کالیداس کی شکنلا اورکمار سنبھو،فردوسی کے شاہ نامہ، نظامی کے سکندر نامہ، عطارکی منطق الطیر،مولاناروم کی مثنوی معنوی سب رس،باغ وبہار،افسانۂ عجائب اورداستانِ امیرحمزہ تک کوایک بار نہیں کئی کئی بار اردو میں منظوم کیا گیاہے۔یہ الگ بات ہے کہ نقش اوّل سے نقش دوم کسی ایک جگہ بھی بہتر ثابت نہیں ہوا۔یہی وجہ ہے کہ آج بہت کم لوگ ہیں جواس قسم کے مترجم شاعروں کے نام سے بھی واقف ہوں۔یہ بات نہیں کہ ان منظوم ترجمہ کرنے والوں میں شاعرانہ صلاحیتوں کی کمی تھی ایسا نہیں ہے۔صرف یہ کہ تنقیدی رحجان نے ان کی نظموں میںوہ انفرادیت نہ پیداہونے دی جو ان کی شہرت ومقبولیت کاوسیلہ بن جاتی۔اس کے برعکس جن شاعروں نے اپنی زمین آپ پیدا کی اوراپنے موضوع کاانتخاب آپ کیا انہیں یہی موضوعاتی شاعری ایسے بلند مقام پرلے گئی جہاں اللہ کی توفیق یاد آجاتی ہے۔ا س لیے کسی ناقد کایہ خیال کرنا کہ مذہبی شاعری یانعت گوئی کوقبول عام نہیں حاصل ہوسکتا،کم نگاہی اوربے خبری کے سوا کچھ نہیں ہے جیسا کہ میں شروع میں کہہ چکاہوں اردو میں نعت کے موضوع کوبعض شعراء نے بڑے سلیقے سے برتاہے۔اس سلیقے کے ثبوت میں ایک دوشعر یانظمیں نہیں بلکہ خاصا بڑاشعری ذخیرہ پیش کیاجاسکتاہے۔اس ذخیرے کاایک حصّہ توایساہے جوصرف یہی نہیں کہ نعت گوئی کے رسمی لوازم کو پورا کرتاہے بلکہ محاسنِ لفظی ومعنوی کے لحاظ سے بھی شاعری کے مروجہ معیاروں پرپورا اترتا ہے۔

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26