کوئی کیا بتائے کہ چیز کیا یہ گداز عشق رسول ہے ۔ شاعر لکھنوی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


شاعر: شاعر لکھنوی

نعتِ رسولِ آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

کوئی کیا بتائے کہ چیز کیا یہ گُداز رشقِ رسول ہے

جو رہے دلوں میں تو آگ ہے جو نظر میں آئے تو پھول ہے


کسی اور سمت ہو دیکھنا تو یہ سعیِ دید فضول ہے

کہ اُسی نگاہ میں ہے خدا جو نگاہِ سوئے رسول ہے


ہیں بصارتیں مریِ مستند کہ نظر میں شہرِ رسول ہے

یہ جو سُرمہ ہے میری آنکھ میں اسی رہ گزر کی دھول ہے


وہ حیات کتنی ہے معتبر جو شریکِ وصفِ رسول ہے

وہ نگاہ کتنی ہے مستند کو نگاہ ان کو قبول ہے


یہ عجب ہے دل کا معاملہ یہ عجب مزاج ہے عشق کا

غمِ مصطفیٰ سےہے مطمئن غم زندگی سے ملول ہے


ذرا سوچ واعظِ خوش بیاں میں کہاں ہوں عشق میں تو کہاں

تری راہ حسرتِ خلد ہے مری راہ کوئے رسول ہے


یہ شعور کیا یہ اصول کیا کہ مری شریعتِ عشق میں

انہیں سوچنا ہی شعور ہے انہیں چاہنا ہی اصول ہے


مہ و آفتاب و نجوم تک ترے نقشِ پا کے ہیں سلسلے

تری خاک پا کو بھی چھو سکے یہ مری نگاہ کی بھول ہے


مجھے شاعر اور ہو کیا طلب میں کھلا ہوں اپنی ہی ذات میں

مرے ہر نفس میں ہے اک مہک کہ لبوں پہ نعتِ رسول ہے