کلام نوریؔ میں اذکار توحید۔ محمدرضا مرکزی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


مضمون نگار: محمدرضا مرکزی

کلام نوریؔ میں اذکار توحید[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

کلام نوریؔ میں اذکار توحید

محمد رضا مرکزی

اللہ رب العزت قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ o اَللّٰہُ الصَّمَدُ o لَمْ یَلِدْ ، وَلَمْ یُوْلَدْo وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌo

’’ تم فرمائو وہ اللہ ہے ، وہ ایک ہے ، اللہ بے نیاز ہے نہ اس کی کوئی اولاد اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ، اور نہ اس کے جوڑ کا کوئی ‘‘

(الاخلاص ، کنزالایمان )

ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ ایک ہے کوئی اس کا شریک نہیں نہ ذات میں نہ صفات میں نہ افعال میں ، نہ احکام میں نہ اسمامیں۔وہ واجب الوجودہے یعنی اسکا وجود ضروری ہے اورعدم محال … قدیم ہے یعنی ہمیشہ سے ہے ازلی کے بھی یہی معنی ہیں یعنی ہمیشہ رہے گا اور اسی کو ابدی بھی کہتے ہیں اور وہی اس کا مستحق ہے کہ اس کی عبادت و پرستش کی جائے ۔

سامان بخشش میں ،تاجدار اہلسنت ، شہزادۂ اعلیٰ حضرت حضور مفتی اعظم ہند نوریؔ علیہ الرحمۃ والرضوان نے اللہ رب العزت کے حمد کے دو پھول کھلائے ہیں ۔ بنامـ ’’ توحید باری عزاسمہ ‘‘ ضرب ہو۔ اس حمد میں تقریباً ۲۰؍ بند ہیں۔ دوسری بنام ’’ اذکار توحید ذات ، اسما و صفات وبعض عقائد‘‘ اس حمد میں تقریباً ۹۹؍ بند ہیں ۔ عقیدۂ توحید کی طرف لوگوں کو متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ؎

لَا مَوْجُوْدَ اِلاَّ اللّٰہ

لَا مَشْھُوْدَ اِلاَّ اللّٰہ

لَا مَقْصُوْدَ اِلاَّ اللّٰہ

لَا مَعْبُوْدَ اِلاَّ اللّٰہ

لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ ٰامَنَّا بِرَسُوْلِ اللّٰہ

مفتی اعظم ہند فرماتے ہیں کہ : کوئی بھی چیزوہ موجود نہیں مگر اللہ رب العزت ۔ عالم حادث ہے مگر ذات باری کے تعلق سے اس طرح کا خیال کرنا ایمان سے خارج کردے گا۔ نہیں ہے کوئی مشہور سوائے اللہ کے ۔ نہیں ہے کوئی مقصود سوائے اللہ کے ۔ نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے ۔ ہمارا بھی یہ ایمان ہے کہ ۔ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّ سُوْلُ اللّٰہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر سید نا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک ہر دور میں انبیاے کرام کی یہی تعلیم رہی ہے کہ : بے شک خدا، ایک خدا ہے۔ تمہارا معبود ایک معبود ہے ۔ صرف وہی پر ستش کے قابل ہے ۔ صرف اسی کی بارگاہ میں سرجھکائو۔ اس کے علاوہ کسی اور کی بارگاہ میں سرنہ جھکائو … اللہ کی وحدانیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ؎

اللہ واحد و یکتا ہے

ایک خدا بس تنہا ہے

کوئی نہ اس کا ہمتا ہے

ایک ہی سب کی سنتا ہے

لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ ٰامَنَّا بِرَسُوْلِ اللّٰہ

اللہ کی طرح کوئی نہیں ہے ۔ ہر انسان کی سننے والا اللہ ہی ہے ۔ ہر انسان اللہ کا محتاج ہے ۔ وہ کسی کا محتاج نہیں ۔ اللہ عزوجل کی ذات شرکت سے منزہ ہے ۔ وہ ہر طرح کی حرکت و سکون ، صورت و اجسام سے پاک ہے ۔ ہر کام اللہ ہی کی حکمت سے ہے ۔ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے مگر انسانوں کی بھلائی کیلئے کرتا ہے وہ اپنی قدرت کاملہ سے ہر کام کو بھلائی ہی کیلئے کرتا ہے ؎

وہ ہے منزہ شرکت سے

پاک سکون و حرکت سے

کام ہے اس کے حکمت سے

کرتا ہے سب قدرت سے

لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ ٰامَنَّا بِرَسُوْلِ اللّٰہ

سورۃالاخلاص کے مفہوم کو مفتی اعظم ہند ایک بند میں اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ …

اللّٰہ الٰہٗ وربُّ و واحد

فرد و واحد و تروصمد

جس کا والد ہے نہ ولد

ذات و صفات میں بیحد وعد

لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ ٰامَنَّا بِرَسُوْلِ اللّٰہ

مندرجہ بالا بند میں مفتی اعظم ہند نے اللہ رب العزت کے۸؍ اسما کو شمار کرایا ہے اور فرمایا کہ اللہ کی صفات کی کوئی انتہا نہیں ۔

اگر قرآن عظیم کی ان آیات مبارکہ اور سورتوں کا مطالعہ کریں جو مکہ مکرمہ میں نازل ہوئیں، تو معلوم ہوگا کہ بیشتر سورتیں اور آیتیں دو اہم موضوعات پر بحث کرتی ہیں ۔ پہلا موضوع ’’ اللہ کی توحید‘‘ ہے ۔ خدا کا ایک اور یکتا ہونا اور دوسرا موضوع ’’آخرت ‘‘ ہے اللہ رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ …

لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْیٌٔ ’’اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں‘‘

تو مفتی اعظم ہند فرما اٹھے…

لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْیٌٔ

لَیْسَ لَہٗ کُفُوًا اَحَدٌ

اس سے بُن ہے وہ نہیں بُن

اَبْصِرْاِسْمَعْ دیکھ اور سُن

لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ ٰامَنَّا بِرَسُوْلِ اللّٰہ

اللہ عزوجل ایک ہے اور وہ ایسا ایک ہے کہ جس کا کوئی شریک نہیں … شریک نہ ذات میں … نہ صفات میں… نہ اس کی طرح کوئی … اگر کوئی شریک ٹھہرائے تو یہ شرک عظیم ہے قرآن نے ارشاد فرمایا:

اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ

                       ’’بے شک شرک بڑا ظلم ہے ‘‘     (سورہ لقمان : ۱۳، کنزالایمان)

یعنی شرک بڑا عظیم ظلم ہے ۔ اسی طرح سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات کی طرف کسی ایسی بات کو منسوب کرنا جو اس کی شان کے خلاف ہے ۔ مثلاً یہ کہنا کہ اللہ جھوٹ بول سکتا ہے ۔ (معاذاللہ) یا اللہ سے جھوٹ صادر ہوسکتا ہے یا کذب الٰہی ممکن ہے … اگر کوئی ایسا عقیدہ رکھتا ہے تو در اصل وہ خدا کا انکار کررہا ہے … اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں بڑے واضح الفاظ میں ارشادفرمایا ہے کہ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْیٌٔاس کے مثل کوئی چیز نہیں ۔نہ اللہ کی ضد کوئی ہے نہ اللہ کے مثل کوئی ہے نہ اللہ کا نظیر کوئی ہے۔ یعنی اللہ ہر چیز سے پاک ہے نہ اس کی ضد ہے نہ اس کا مثل ہے نہ اس کی نظیر ہے نہ اس کے جیسا کوئی ہے ۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ کائنات کی ہر شئی میں اللہ کا جلوہ ہے ۔ ہر سمت اسی کے جلوے ہیں ۔ عرش و فرش ، زمان و جہت ، ذرے ذرے ، قطرے قطرے میں ا س کا جلوہ سمویا ہوا ہے ۔ اس کا علم ہر شئی کو محیط ہے ۔ یعنی جزئیات ، کلیات ، موجودات ، معدومات ، ممکنات اور محالات سب کو ازل میں جانتا تھا اور اب بھی جانتا ہے اور ابدتک جانے گا…اشیا بدلتی ہیں اور اس کا علم نہیں بدلتا ۔ دلوں کے خطروں اور وسوسوں پر اس کی خبر ہے اور اس کے علم کی کوئی انتہانہیں۔ وہی ہر شئی کا خالق ہے ذوات ہوں خواہ افعال سب اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں۔ فرماتے ہیں ؎

قلب کو اس کی رویت کی ہے آرزو

جس کا جلوہ ہے عالم میں ہر چار سو

بلکہ خود نفس میںہے وہ سُبْحٰنَہٗ

عرش پر ہے مگر عرش کو جستجو

اللّٰہٗ اللّٰہٗ اللّٰہٗ اللّٰہٗ

عرش و فرش و زمان و جہت اے خدا

جس طرف دیکھتا ہوں ہے جلوہ ترا

ذرے ذرے کی آنکھوں میں تو ہی ضیا

قطرے قطرے کی توہی تو ہے آبرو

اللّٰہٗ اللّٰہٗ اللّٰہٗ اللّٰہٗ

تو کسی جا نہیں اور ہر جا ہے تو

تو منزّہ مکاں سے مبرّہ زسو

علم و قدرت سے ہر جا ہے تو کو بکو

تیرے جلوے ہیں ہر ہر جگہ اے عفو

اللّٰہٗ اللّٰہٗ اللّٰہٗ اللّٰہٗ

ہے وہ زمان و جہت سے پاک

وہ ہے ذمیم صفات سے پاک

وہ سارے محالات سے پاک

وہ ہے سب حالات سے پاک

لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ ٰامَنَّا بِرَسُوْلِ اللّٰہ

اللہ کا علم کائنات کو گھیرے ہوئے ہے … اسکا علم ہرشئی کو ، انس و جن ، جسم وجاں، ازماں ، کون ومکاں ، عرش وفرش کو محیط ہے ۔

وہ ہے محیط انس و جاں

وہ ہے محیط جسم و جاں

وہ ہے محیط کل ازماں

وہ ہے محیط کون و مکاں

لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ ٰامَنَّا بِرَسُوْلِ اللّٰہ

ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ بخشنے والا ، ظاہر و باطن کا بادشاہ، بہت پاک، سلامت رکھنے والا ، امن دینے والا، نگہبان ، غالب ، نقصان کو پورا کرنے والا، بزرگ ، سب چیز کا پیدا کرنے والا ، خلق کو پیدا کرنے والا ، صورت بنانے والا، تمام مخلوقات کو روزی دینے والا ، بہت زیادہ جاننے والا ، بلنددرجہ کرنے والا ، دونوں جہاں میں عزت دینے والا غرضیکہ تمام خصوصیات وانعامات اور عنایات اسی کی بارگاہ سے ہیں۔حضور مفتی اعظم نے حق تعالیٰ کے اسماے مبارکہ کے توسط سے حمد فرمائی، فرماتے ہیں ؎

وہ ہے عَزیْزُ و مُجِیْبُ شَکُوْر

وہ ہے بَدِیْعُ و قَرِیْبُ صُبُوْر

وہ ہے مَتِیْنُ و حَسِیْبُ و غَفُوْر

وہ ہے مُعِیْنُ و رَقِیْبُ ضرور

لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ ٰامَنَّا بِرَسُوْلِ اللّٰہ

وہ ہے مُقدَّمْ اور غَفَّار

وہ ہے مُھَیْمِنْ اور جَبَّار

وہ ہے مُؤَ خِّرْ اور قَھَّار

وہ ہے بَاسِطْ اور سَتَّار

لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ ٰامَنَّا بِرَسُوْلِ اللّٰہ

حَکَمُ و عَدَلُ و عَلِیُّ وَ عَظِیْمُ

دَیَّانُ وَرَحْمٰنُ ورحیمْ

قُدُّوْسٌ و حَنَّانٌ و حلیِم

فَتَّاحُ و مَنَّانُ و کَرِیمْ

لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ ٰامَنَّا بِرَسُوْلِ اللّٰہ

وہ ہے مُقِیْطُ و مُعِّزُ و مُذِل

وہ ہے حَفِیْظُ و نَصِیْرُ اے دل

باد و آتش و آب و گل

سب کا وہ ہی ہے فاعل

لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ ٰامَنَّا بِرَسُوْلِ اللّٰہ

قَابِضُ و بِاعِث خَالِق ہے

خَافِضُ و وَارث رَازِق ہے

جو ہے اس کا عاشق ہے

غیرِ ناطق ناطق ہے

لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ ٰامَنَّا بِرَسُوْلِ اللّٰہ

ہرا نسان کو کس کی جستجو ہے ؟ … کائنات کی ہر شئی کو کس کی تلاش ہے ؟ … انس و ملک، چرند و پرند، کائنات کا ذرہ ذرہ ، وحوش و طیور ، کس کی جستجومیں ہیں ؟… ہمارا قلب کس کی تلاش میں سرگرداں ہے ؟… تو مفتی اعظم ہند کہہ اٹھتے ہیں ؎

سارے عالم کو ہے تیری ہی جستجو

جن و انس و ملک کو تری آرزو

یاد میں تیری ہر ایک ہے سو بسو

بن میں وحشی لگاتے ہیں ضربات ہوٗ

اللّٰہٗ اللّٰہٗ اللّٰہٗ اللّٰہٗ

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابر کت کو حضور مفتی اعظم ہند، نو رخدا سے یاد فرمارہے ہیں اور اسی نور کی جھلک دیکھنے کی خواہش ظاہر کررہے ہیں اسلئے کہ ہمارا عقیدہ تو حید کیساتھ یہ عقیدہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نور خدا ہیں ؎

نور کی تیرے ہے اک جھلک خوبرو

دیکھے نوریؔ تو کیوں کر نہ یاد آئے تو

ان کا سرور ہے مظہر ترا ہو بہو

مَنْ رَانِی رَأَلحَقْ ہے حق موبمو

اللّٰہٗ اللّٰہٗ اللّٰہٗ اللّٰہٗ

خواب نوریؔ میں آئیں جو نور خدا

بقعۂ نور ہو اپنا ظلمت کدہ

جگمگا اٹھے دل چہرہ ہو پر ضیا

نوریوں کی طرح شغل ہو ذکر ہو

اللّٰہٗ اللّٰہٗ اللّٰہٗ اللّٰہٗ


واپسی کے ربط[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مضامین | نعت گوئی