چین میں ہے قلبِ مضطر ، لکھ کے نعتِ مصطفےٰ ۔ ذوالفقار علی دانش
چین میں ہے قلبِ مضطر ، لکھ کے نعتِ مصطفےٰ
ہے کرم ہم پر فزوں تر ، لکھ کے نعتِ مصطفےٰ
حمدِ ربِّ ذوالمنن سے کر کے آغازِ سخن
کیجے توصیفِ پیمبر ، لکھ کے نعتِ مصطفےٰ
کیا حسیں منظر وہ ہوگا حشر میں ہونگے کھڑے
ہم بھی جامی کے برابر ، لکھ کے نعتِ مصطفےٰ
ایک مدّت سے تھا غافل مجھ سے ، خوابیدہ پڑا
جاگ اٹھا میرا مقدّر لکھ کے نعتِ مصطفےٰ
انبساط و فخر کی ہوتی ہے کیفیّت عجب
پا نہیں پڑتے زمیں پر ، لکھ کے نعتِ مصطفےٰ
مدحتِ سرکار میں ہیں مشک بو الفاظ سب
ہیں مشامِ جاں معطّر ، لکھ کے نعتِ مصطفےٰ
جھوم اٹھے الفاظ سارے ، وجد میں قرطاس ہے
کیف طاری ہے قلم پر ، لکھ کے نعتِ مصطفےٰ
ہو اشارہ حاضری کا ، بخت جاگے پھر مرا
جا سناؤں میں بھی در پر ، لکھ کے نعتِ مصطفےٰ
پوچھتے ہو کیا ملا ہے کارِ مدحت سے مجھے ؟
پا لیا فردوس میں گھر ، لکھ کے نعتِ مصطفےٰ
لوگ لکھتے ہیں مقدّر سے کوئی نعتِ نبی
میں نے پایا ہے مقدّر ، لکھ کے نعتِ مصطفےٰ
حشر کا زادِ سفر میں نے اکٹھا کر لیا
کر کے مدحِ آلِ سرور ، لکھ کے نعتِ مصطفےٰ
جانتا ہی کون تھا دانش کو پہلے دہر میں
آج یہ بھی ہے سخنور ، لکھ کے نعتِ مصطفےٰ
بارگاہِ کبریا میں ہونگے دانش بالیقیں
سرخرو ہم روزِ محشر ، لکھ کے نعتِ مصطفےٰ