چشمِ نظارہ طلب طیبہ میں کام آئی نہیں ۔ احمد جاوید

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


شاعر: احمد جاوید

نعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

چشمِ نظارہ طلب طیبہ میں کام آئی نہیں

منزل دید پہ درکار یہ بینائی نہیں

ایک آواز عمرِؔ لہجہ و صدیقؔ آہنگ

دل سے کہتی ہے تجھے اذنِ شکیبائی نہیں

میں نے بھی نذرگزاری تھی متاعِ دل و جاں

شکرصد شکر کہ سرکارؐ نے ٹھکرائی نہیں

گہرِ وصفِ نبیؐ کی ہو سمائی جس میں

بحر تو بحر ہے ، دل میں بھی وہ گہرائی نہیں

کون سی راہِ ہدایت ہے جو اس ہادیؐ نے

دل کو دکھلائی نہیں ، عقل کو سمجھائی نہیں

کاش اُس بات سے محفوظ رہیں یہ لب و گوش

جو مرے سید و سردار ؐ نے فرمائی نہیں

چاکِ پیراہنِ ہستی کو رفو کرتے ہیں

ان کے دیوانے بڑے لوگ ہیں ، سودائی نہیں

دل میں اک حرف کیا حبِ نبیؐ نے ایجاد

کہ جو شرمندۂ خاموشی و گویائی نہیں

سیدیؐ آپ کی الفت کے مقابل کوئی شے

ماں نہیں ، باپ نہیں ، بیٹے نہیں ، بھائی نہیں

آپ ؐ کی شان گرامی ہے خدا کی وہ بات

جو کبھی اُس نے کسی اور میں دہرائی نہیں

رفعتیں آپؐ کے نقشِ کف پاسے ابھریں

وہ بلندی نہیں جوزیر قدم آئی نہیں

آپ ؐ کے درسے نہ مردود کیاجاؤں میں

دل کسی اور کرامت کا تمنائی نہیں

سرورا ، آپ کی امت پہ مسلط ہیں وہ لوگ

جن کو اللہ کے آگے بھی حیا آئی نہیں

بسکہ باور نہیں آتی یہ حکایت ہم کو

حاکمِ شہر مسلماں ہے ، کلیسائی نہیں

جب بھی دنیا کی طرف شوق سے دیکھا جاویدؔ

دلِ بیدار پکارا کہ نہیں ، بھائی نہیں!


رسائل و جرائد جن میں یہ کلام شائع ہوا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت رنگ ۔شمارہ نمبر 25