وسیم بریلوی۔نئی نعت کاپیشروشاعر ۔ احمد جاوید

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat Kainaat Naat Rang.jpg

مقالہ نگار : احمد جاوید۔بھارت

برائے : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26

وسیم بریلوی:نئی نعت کا پیشروشاعر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT:

Waseem Brailvi has established his position as modern trend setter of Natia Poetry. He has also supervised numerous research thesis on the topic of Naat in India. Literary introduction of Waseem Brailvi has been presented in the article, showing his modern trend in the field of expression and beauty of thought content. Some contemporary modern poets of Naat have also been referred from amongst Indian and Pakistani poets, to strengthen the view point of introducing Waseem Brailvi as Modern Naatia poet.

کھڑی ہیں دست بستہ خوشبوئیں پھولوں کی پلکوں پر

کسی کا جیسے نعت پاک کہنے کا ارادہ ہے

شعور کی رو خود بخود ماضی کے ان ایام میں چلی گئی جب یہ اور اس طرح کے اشعارکانوں میں پڑتے تھے تو نعت کی محفلوں،جلسوں اور مشاعروں میں گھڑی بھر کو ایک نئی دنیا آباد ہوجاتی تھی اور ایک تازہ ہوا کے جھونکے مشام جاں کو معطر کر دیتے تھے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ قمر گونڈوی صاحب نے وسیمؔ بریلوی پر اپنی زیر طبع کتاب کا مسودہ دیااوراصرار کرنے لگے کہ یہ ناچیز بھی کچھ لکھے۔ میرے ایک عزیزدوست اور شاعر ڈاکٹر عمیر منظرؔ اکثر یہ شعر بڑی وارفتگی کے ساتھ پڑھتے اور اپنے مخصوص انداز و الفاط میں کہتے ہیں’ اردو کی نعتیہ شاعری میں وسیم بریلوی کے اس شعر کا کوئی جواب نہیں ہے:

فلک کو میزبانی کی سعادت جب ملی ہوگی

تو بے چاری زمیں کی رات آنکھوں میں کٹی ہوگی

بے شک اردو فارسی کی نعتیہ شاعری کے ذخائر میں تغزل کے ایک سے بڑھ کر ایک نمونے موجود ہیں،جن میں نازک خیالی اور ندرتِ بیان اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے لیکن خیال کی یہ نزاکت،اسلوب کی یہ ندرت اور لب و لہجہ کی یہ تازگی کہیں اور مشکل ہی سے ملے گی، اوروہ بھی اس سادگی کے ساتھ جو اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتی ہے، دل سے نکلتی ،دل میں اتر جاتی ہے۔

دراصل شاعری تخلیقی عمل ہے،محض صناعی یااختراع ہرگز نہیں،جو لوگ اوزان و قوافی کو شاعری سمجھتے اور لفظوں کی صنعت گری میں لگے رہتے ہیں،مصرعوں کی نوک پلک سنوارتے عمر گزر جاتی ہے ، شاعری کی دیوی ان پر مہربان نہیں ہوتی ،کاریگری ہوجاتی ہے ،فن لطیف کا در وانہیں ہوتا کیونکہ یہ جذبوں کے جمالیاتی اظہار کا فن ہے، الفاظ جب احساس سے ہم آہنگ ہوتے ہیں تو شعر میں جان پڑتی ہے۔ ورنہ لاکھ الفاظ کے موتی پرو دیں، لعل و زمرد لے آئیں،چاہے جتنا رنگ و روغن بھریں وہ بے روح بدن ہوتا ہے ،مکان بے مکیں۔کسی نے کتنی خدا لگتی بات کہی ہے کہ ’نغمے تو آدمی کی روح میں ربِ صوت و آہنگ،مالکِ حرف و نوا،خالقِ اظہارو بیان رکھ دیتا ہے۔یہ صوت و نوا آدمی کے ساتھ نشوونما پاتی ہے اور پھر کسی لمحہ اس کا اظہار ہوجاتا ہے‘ مگر وسیم بریلوی کو جس نے بھی دیکھا سنا ہے وہ شخصیت کا سراپا شعر ہونایا کسی کے تار نفس کی ہرتان کا نغمہ سرمدی ہوجانابہ آسانی سمجھ سکتا ہے۔

یاد نہیں آتا کہ وسیم بریلوی کو میں نے پہلی بار کب اور کہاں دیکھا تھا،پٹنہ یا کلکتہ کے کسی مشاعرے میں یاٹیلیویژن کی آمد کے ساتھ اس کے پردے پر، میرے لیے استاذ گرامی حسان العصر علامہ شبنم کمالی کے بعد یہ کسی شاعر کی دوسری شخصیت تھی جس کے ریشمی سراپا اوراس کے لب و لہجہ کی لطافت و نزاکت میں ناقابل تصور مطابقت تھی اور جس کے الفاظ و احساس کی ہم آہنگی ماحول پر چھا جانے کی بے پناہ قوت رکھتی تھی۔اب اس واقعہ کوتیس پینتیس سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے لیکن کوئی اور ان کی جگہ نہ لے سکا۔ان دونوں میں ایک اور قدر مشترک بھی تھی اور وہ تھی ان کی نعت گوئی اور نعت میں ان کے لب و لہجہ کی جدت و ندرت۔ اس مدت میں نئی غزل کی کئی آوازیں ابھریں اور ڈوب گئیں، مشاعروں کے اسٹیج پر توکیسے کیسے’ فنکار‘ اورگویے آئے اور گئے لیکن جو پائدار مقبولیت و محبوبیت وسیم نے پائی وہ ان ہی کا حصہ ہے۔ نصف صدی کے طویل عرصے میں یہ لازوال مقبولیت کسی کے حصہ میں نہیں آئی،ان کے پیشروؤں میں بھی صرف جگرؔ ؔ مرادآبادی نظر آتے ہیں جو طویل عرصہ تک مشاعروں کی دنیا پر چھائے رہے لیکن وہ زمانہ اور تھا۔(نہ دنیا اتنی پھیلی تھی نہ اتنی سمٹی تھی نہ ایسی تیز رفتار تھی۔ ابھی پرانی قدریں زندہ تھیں اور ان کو اس شکست و ریخت سے دوچار ہونا باقی تھاجو آنے والے وقتوں نے دیکھا)۔یاد آتا ہے کہ ایک مصاحبہ میں وسیم بریلوی سے کسی صحافی نے ان پر عمر کا اثر نظرنہ آنے کا راز جاننا چاہا تھااور وہ کوئی تشفی بخش جواب دینے کی بجائے صرف اتنا کہہ کر رہ گئے تھے کہ قدرت نے جس معصوم شکل و صورت کے ساتھ دنیا میں بھیجا ہے اسی معصومیت کے ساتھ دنیا سے واپسی کروں گا ۔ دراصل اس سادگی ، شائستگی اور طہارت کو کوئی اور نام دیاہی نہیں جاسکتا جو قدرت نے ان کی شخصیت اور شاعری میں رکھی ہے۔

بلاشبہ لالہ کی حنا بندی فطرت خود بہ خود کرتی ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اس پر خارجی عوامل کا اثر نہیں ہوتا، ماحول کے سردو گرم اسے متأثر نہیں کرتے یایہ کسی شعوری کاوش کا نتیجہ نہیں ہوتی۔حق تو یہ ہے کہ اظہارو بیان کی اس منزل کو پانے کے لیے ایک مدت کی مشق و مزاولت اور ایک عمر کی ریاضت درکار ہوتی ہے بلکہ اس کا تقاضہ عبادت کی طرح کرنے کا ہوتا ہے ۔وسیمؔ بریلوی کی شاعری اور شخصیت دونوں اس حقیقت کا آئینہ ہے۔وہ اپنی شاعری بالخصوص نعت گوئی کو عبادت کا درجہ دیتے ہیں لیکن وہ اپنے عہد اور اپنے ماحول سے گہرا ارتباط بھی رکھتی ہے:

وسیم کیسے زمانہ ہمیں بھلائے گا

ہمارے شعروں میں اک دور سانس لیتا ہے

وسیم ؔ کی شاعری اپنے عہد کی ایک درد آگیں داستان سناتی ہے،ان کے ہر لفظ میں ایک ٹیس اور ہر لے میں ایک آہ سی محسوس ہوتی ہے جو ایک چنگاری سی دلوں میں اتار دیتی ہے لیکن ایک عجیب سی مٹھاس اور ایک بے حد پرکیف نغمگی کے ساتھ۔وہ احتجاج بھی کرتے ہیں توکچھ اس انداز سے کہ :

تم گرانے میں لگے تھے ،تم نے سوچا ہی نہیں

میں گرا تو مسئلہ بن کر کھڑا ہوجاؤں گا ۔۔۔۔۔۔

کھلی چھتوں کے دئیے کب کے بجھ گئے ہوتے

کوئی تو ہے جو ہواؤں کے پر کترتا ہے ۔۔۔۔۔۔

چراغ راہ کی قسمت پہ رحم آتا ہے

ہوا کے زور سے لڑنا بھی اور جلنابھی ۔۔۔۔۔۔

دھوپ کے ایک ہی موسم نے جنہیں توڑ دیا

اتنے نازک بھی یہ رشتے نہ بنائے ہوتے ۔۔۔۔۔۔

ہنسی جب آئے ،کسی بات پر آتی ہے

اداس ہونے کا اکثر سبب نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔

میں اپنے پاؤں میں زنجیر ڈال کر خود ہی

یہ سوچتا ہوں کہ آخر مری خطا کیا ہے

غزل کے نازک آبگینہ میں غم روزگار کی حکایتیں پیش کرنا کوئی وسیمؔ بریلوی سے سیکھے۔وسیم ؔ نے ترقی پسندی کے دور میں آنکھیں کھولیں،جدیدیت کا عروج و زوال دیکھا، مابعد جدید رجحانات کا زمانہ بھی دیکھ رہے ہیں۔اس دوران شعرو ادب کی دنیا کیا سے کیا ہوگئی، کتنوں نے اپنا قبلہ بدلا ، آستانے بدلے اور روئے سخن بدل لیالیکن وسیم ؔ بریلوی کو اس کی ضرورت پیش نہیں آئی۔انہوں نے شعوری طور پر اپنی ایک راہ نکالی تھی جس سے وہ کبھی نہیں ہٹے۔بہ غور دیکھیں تو وہ ان شعراء میں ہیں جو اردو کی دو نسلوں کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتے ہیں۔بالخصوص اردو کی نعتیہ شاعری کو جن شعرا نے جدید حسیت، نئی لفظیات اور فکری و فنی تازگی سے ہمکنار کیا،ان میں ایک نام وسیمؔ کا بھی ہے۔ بلکہ جس طرح نئی غزل کے پیش روؤں کا ذکر آتے ہی سب سے پہلے یاس یگانہؔ چنگیزی کا نام ذہن پر دستک دینے لگتا ہے پھر شادؔ ، فراقؔ ، فانیؔ ، اصغرؔ ، حسرتؔ اور جگرؔ کے نام آتے ہیں۔ اسی طرح نئی نعت کے پیش رؤوں میں سب سے پہلے وسیم کانام، ذہن پردستک دیتاہے۔وسیم آج ایک غزل گوشاعر کی حیثیت سے شہرت ومقبولیت کے جس مقام پر ہیں،وہاں ان کے تعلق سے مشکل ہی سے کسی کا ذہن اس جانب جائے گا کہ ان کی شاعری کاابتدائی و تشکیلی دورنعتوں، مرثیوں اور نوحوں کا ہے اور یہ کہ اپنے شعری سفر میں انہوں نے نعت پاک کے دامن کوکبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ یہ ذکر پہلے ہی آچکاہے کہ وہ نعت گوئی کو عبادت کا درجہ دیتے ہیں ۔یقیناًاس میں اس ماحول کا بڑا ہاتھ ہے جس میں وسیم ؔ کی نشوو نما ہوئی۔انہوں نے بریلی میں آنکھیں کھولیں جس کی فضا امام احمد رضاؔ بریلوی اور حضرت حسن ؔ بریلوی کی نعتوں اور سلاموں سے معطر تھی ،ان کی ابتدائی زندگی کا ایک بڑاحصہ رامپور میں گزراجس کواردو شعروادب میں ایک دبستان کا درجہ حاصل رہا ہے اوران کے والد نسیم ؔ مرادآبادی خود بھی شاعر تھے۔

اردو میں نعت گو شعراء کی بڑی طویل فہرست ہے ۔ابتدا سے آج تک شاذونادر ہی کسی شاعرنے اپنے دیوان یا مجموعہ کلام کا آغاز حمدو نعت سے نہ کیا ہو لیکن ایسے شعرا ء انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں جنہوں نے نعت گوئی میں اپنی شناخت بنائی ہو یا نعت میں فکر وفن کے نئے گوشے روشن کئے ہوں۔ لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ان مٹھی بھر عندلیبان حریم قدس کے فکر وفن کی قدروقیمت جاننے یاان کے کلام کے تنقیدی مطالعہ کا کوئی نظام فروغ نہ پا سکا۔ پچھلے پندرہ بیس سال میں نعتیہ شاعری کے مطالعہ کو ضرور کچھ فروغ حاصل ہوا ہے۔رسالہ’ نعت رنگ‘ کراچی نے بہت اچھی کوششیں کی ہیں۔ اس حوالے سے ابھر نے والے بعض قلمکاروں مثلاً راجا رشید محمود، عزیز احسن، حسرت کاس گنجوی، ڈاکٹر سید شمیم گوہر وغیرہ کے کاموں کی قدر وقیمت سے انکار نہیں کیاجاسکتا ۔ لیکن ابھی تک اردو کی نعتیہ شاعری کا کوئی مربوط مطالعہ سامنے نہیںآسکا۔ آیا ہو تو میری نگاہ سے نہیں گزرا۔ حالانکہ نعت گوشعراء پر برصغیر کی یونیورسٹیوں میں اب تحقیقی مقالے بھی لکھے جارہے ہیں اور ڈاکٹر یٹ کی ڈگریاں بھی دی جارہی ہیں۔ ایسی کئی پی ایچ ڈی خود وسیم بریلوی کی نگرانی ورہنمائی میں بھی ہوچکی ہے لیکن یہ تحقیق اور اس نوعیت کے مطالعے اس لئے نتیجہ خیز نہیں ہوتے کہ نہ تو کام کا معیار متعین ہوتاہے، نہ نعت کے صنفی ارتقا کی تاریخ اور وسعت ہی سامنے ہوتی ہے۔ جب بھی یہ کام ہوا اردو میں وسیمؔ بریلوی کی نعت گوئی کے صحیح مقام ومرتبہ کا تعین ہوسکے گا۔

ابھی تک تو ہم اردونعت میں فکر وفن کے تعلق سے باتیں کرتے ہیں تو مرزا محمد رفیع سوداؔ اور کرامت علی شہیدیؔ ؔ سے شروع کرکے غلام امام شہیدؔ ، کافیؔ مرادآبادی، محسنؔ کاکوروی، امیرؔ مینائی،امام احمد رضاؔ بریلوی اور حسنؔ بریلوی پرقصہ تمام کردیتے ہیںیا زیادہ سے زیادہ حالیؔ ، شبلیؔ ، اقبال ؔ ، محمد علی جوہرؔ اور ظفرؔ علی خاں سے امیرؔ مینائی ، محسنؔ کاکوروی، بیدم ؔ شاہ وارثی، اکبر ؔ وارثی،امام احمدرضاؔ بریلوی ، آسی غازیپوری، بہزادؔ لکھنوی،حفیظؔ جالندھری اور ماہرؔ القادری تک پہنچتے پہنچتے ہماری سانسیں اکھڑنے لگتی ہیں ۔ بہت زور مارا تو حالیؔ ، شبلی ؔ اور اقبالؔ کے زیر اثرنعت کے موضوعات میں آنے والی وسعت اور تنوع وغیرہ پر گفتگو کرکے اپنی باتوں میں وزن پیداکرنے کی کوشش کرلی حالانکہ ۱۹۵۰ء کے بعد کی اردو شاعری پر ایک سرسری نظر بھی ڈالیں تواردونعت کے تعلق سے مطالعہ کا ایک بڑا وسیع کینوس ابھر کر سامنے آتاہے۔ علامہ قتیلؔ داناپوری،ضیاؔ بدایونی، واقفؔ عظیم آبادی، نجمؔ ؔ خیرآبادی، مہرؔ شکروی، رازؔ الہ آبادی،قمر ؔ سلیمانی، ادیب ؔ مکن پوری، بیکل ؔ اتساہی، اجملؔ سلطانپوری، حفیظؔ بنارسی، شبنمؔ کمالی، علقمہ شبلیؔ ، وسیمؔ بریلوی، حبیب ؔ ہاشمی، عثمان عارفؔ نقشبندی، جوہرؔ بجنوری، قمر ؔ گونڈوی، کوکبؔ حیدرآبادی ، اعجازؔ کامٹوی، نیرؔ دموہی، ابوالمجاہد زاہدؔ ،طلحہ رضوی برقؔ ، حسیب رہبرؔ ؔ پرتاپگڈھی، عزیزؔ بگھروی ،رباب ؔ رشیدی لکھنوی، مختار احمد عاصیؔ ، ابرارؔ کرتپوری، تابشؔ مہدی، نازؔ انصاری اور پاکستان میں عبدالعزیز خالدؔ ، حٖٖفیظ تائبؔ ، عاصیؔ کرنالی، مظفرؔ وارثی ، حافظ ؔ لدھیانوی اور نعیم ؔ صدیقی وغیرہ پر نگاہیں ٹھہر جاتی ہیں۔ ۱۹۸۰ء کے بعد ابھر نے والی نسل میں صبیحؔ رحمانی بڑا ہی نمایاں نام ہے جس نے نعت کے حوالے سے نئی شعر یات دریافت کی ہے ۔ ہندوستان میں یہ کام چند ربھان خیالؔ ، عنبر ؔ بہرائچی ،طاہر ؔ فراز اور حلیمؔ حاذق جیسے شعراء کررہے ہیں۔ چونکہ اس وقت اس عہد کے نعت گو شعرا کی کوئی باضابطہ فہر ست یا ان کے کلام کے نمونے ہمارے سامنے نہیں ہیں ،اسلئے عین ممکن ہے کہ کئی اہم نام چھوٹ رہے ہوں لیکن اس مختصر فہرست سے بھی اردو میں نعت گوئی کی نصف صدی کا جو منظر نامہ ابھر کر سامنے آتاہے وہ بہت ہی وقیع،وسیع اور کثیر الابعاد وہمہ جہات ہے۔

یہ ذکر پہلے ہی آچکا ہے کہ نئی نعت کے پیش رؤوں کا ذکر کیجئے تو وسیمؔ بریلوی کانام سب سے پہلے ذہن پر دستک دیتاہے۔ نعت کے تحقیقی وتنقیدی مطالعہ کے فروغ میں بھی وسیم بریلوی کی خدمات نظر انداز نہیں کی جاسکتیں۔ان کی نگرانی و رہنمائی میں روہیل کھنڈ یونیورسیٹی (بریلی )میں جواردو کے نعت گو شعرا ء بالخصوص امام احمد رضاؔ بریلوی کی شعری و نثری خدمات پر الگ الگ تحقیقی کام ہوئے ہیں، وہ بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ نئی نعت کے پیش رؤوں میں مظفر ؔ وارثی، بیکلؔ اتساہی، شبنمؔ کمالی اور ان کے بعض دیگرمعاصرین کے نام بے شک زیادہ وقیع وباوزن ہیں۔وسیمؔ اپنے ان ہمعصروں سے عمر میں بھی کم ہیں اور میدان شعر وسخن میں بھی بعد میں آئے ۔پھر یہ کہ ان شاعروں نے زیادہ تو اتر اور تسلسل سے نعتیں کہی ہیں اور عین ممکن ہے کہ وسیم کی نعتیہ شاعری کی ضخامت ان سے بہت کم ہو لیکن نعت میں نئے رنگ وآہنگ اور نئی لفظیات کے برتاؤ میں ان کو ان پر سبقت بھی حاصل ہے اور یہ رجحان ان کی نعتوں میں زیادہ نمایاں بھی ہے۔