مولانا ظفرعلی خان کی نعتوں میں مستقبل کی ایک جھلک ،- ڈاکٹر زاہدمنیر عامر

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

Dr. Zahid Muneer Aamir has traced optimism in the devotional poetry of Mualana Zafar Ali Khan. The optimistic lairs of views of Zafar Ali Khan have become omega point of Poetry for arousing conscience of the nation to prepare for getting rid of British Rule besides spreading fire of love of their prophet Muhammad [peace be upon him] into the hearts of Muslims. Maulana Zafar Ali Khan made his devotional poetry a bridge in between present past and future by infusing current sensitivity into couplets. The author of the article has quoted couplets of relevance from the Natia Poetry of Zafar Ali Khan, in order to strengthen his point of view.


ڈاکٹر زاہد منیر عامر ۔لاہور

مولاناظفرعلی خان کی نعتوں میں مستقبل کی جھلک[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

کہتے ہیں کہ سلاطین زمن کی مدح میں حکیم سنائی ؒ غزنوی کے بے مثل قصائد پر تنقیدکرتے ہوئے ایک دُرد نوش نے کہاتھا کہ سنائی ؒ ایسے بادشاہوں کی مدح کرتاہے جواپنی سرزمینکے انتظام سے عہدہ برآ نہ ہوتے ہوئے بھی دوسرے ممالک کو سر کرنے کی مہم پرنکل جاتے ہیں اس جھوٹی مدح پر سنائی ؒ قیامت میں کیاجواب دے گا ؟ اس اعتراض کے بعد سنائی ؒ غزنین چھوڑ کر مروچلے گئے اور صوفیانہ زندگی اختیار کرلی۔جامیؒ کی نفحات الانس میں مذکور یہ قصہ مبنی بر حقیقت ہے یا نہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ مولانا ظفر علی خان کی زندگی میں ایسا کوئی انقلاب نہیں اس لیے کہ ان کے ہاں دورِ طالب علمی سے آغاز ہونے والی شاعری میں پایانِ عمر تک ایک آزادانہ روش کارفرمارہی اور خود ان کے بہ قول سنِ شعور سے ان کے مضامین ’’ خدا کی حمد پیغمبر کی نعت اسلام کے قصے ‘‘رہے۔

ان مضامین کے بیان میں ظفر علی خان کی قدرتِ کلام ایسی ہے کہ اُس پر حرف زنی ممکن نہیں ۔وہ دریائے تندوتیز کی طرح شعرکہتے تھے ، الفاظ ان کے سامنے سرنگوں اور قوافی دست بستہ دکھائی دیتے ہیں۔دیکھنایہ ہے کہ ان کا طوفانی جوش و خروش جب نعت کے میدان میں اترتاہے توکیارنگ لاتاہے ، یوں تو انھوں نے ’دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمھی توہو‘ جیسی زندہ و پایندہ نعتیں کہیں اور اساتذہ سخن کی زمینوں میں بھی طبع آزمائیاں کی ہیں اورنعت میں استغاثے کی روش کو اپنا شیوۂ خاص بنالیاہے لیکن یہ سطور اُن کی نعتوں میں مستقبل کی جھلک تلاش کرنے کے لیے سپردِ قلم کی جارہی ہیں ۔

اُردو کی ادبی تاریخ میں نعت کاسرمایہ قابلِ لحاظ ہی نہیں قابلِ فخربھی ہے،مولاناظفرعلی خان کی حیثیت اس سفرمیں راہ نما کی سی ہے۔ ان سے پہلے اردو نعت اپنی پیش روعربی ،فارسی نعت کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے اوصاف وفضائل کے بیان تک محدود تھی لیکن ظفر علی خان نے اسے عصری مسائل سے آمیز کیا اور نعت میں قصیدے کارنگ پیداکرتے ہوئے حسنِ طلب کو عصری مسائل کاآئینہ بنادیااستغاثے کی یہ روش ان سے پہلے صرف حالی کے ہاں دکھائی دیتی ہے ظفر علی خان اگر نعت میں عصری مسائل کے بیان تک محدود رہتے تو کہاہوسکتاتھا کہ ان کی نعتوں کی اپیل محدود زمانی دائرے میں مقید رہتی لیکن ایسانہیں ہوا۔نعت جوعام طور پرماضی سے جنم لیتی ہے اسے بیانِ حال تک لے آناہی ایک کمال تھالیکن ظفرعلی خان کاکمال یہ بھی ہے کہ انھوں نے اسے مستقبل کاآئینہ بھی بنادیا۔ مستقبل پرنظر ،پُرامیدزاویۂ نظر کے بغیرممکن نہیں ہوتی ، ظفرعلی خان مسلمانوں کے اَدبار ، اسلام کی حقیقی تعلیمات سے ان کی دوری اور استعماری طاقتوں کی ستم رانیوں سے گہری واقفیت رکھنے کے باوصف قنوطیت کارُخ نہیں کرتے اور زوال و ادبار کی کیفیتوں میں:

تِلْکَ الْاَ یَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ

’’یہ دن ہیں کہ ہم ان کو لوگوں میں بدلتے رہتے ہیں ۳:۱۴۰)پریقین رکھتے ہوئے پُکار اٹھتے ہیں۔‘‘

ہے پھر ابرہہ کی کوشش کہ بنائے کعبہ ڈھا دے

مگر اس میں ہم کو شک ہے کہ مہم یہ سَر بھی ہو گی

اگر آج ہم پر آئی شبِ غم پہاڑ بن کر

تو یہ رات یونہی بھاری کبھی آپ پر بھی ہو گی

عرب اور عجم کے ذرّے ہوئے آفتاب جس سے

کسی روز دیکھ لینا وہ نظر ادھر بھی ہو گی

وقت کبھی ایک حال پرنہیں رہتا، ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں ۔ کل کی بالادست طاقتیں آج بالادست نہیں ہیں اور آج، بالادستی کاتاج پہننے والے کل موجودہ حالت میں نہیں ہوں گے، ہرزمانے کاابرہہ بنائے کعبہ ڈھانے کے درپے رہتاہے لیکن وہ یہ بھول جاتاہے کہ ہرزمانہ اپناابرہہ ہی نہیں اپنی ابابیلیں بھی رکھتاہے ۔تواناجب سراپائے حقارت سے ہزاروں ناتوانوں کی تمناؤں کو ٹھکراتے ہیں تو زمان کے اسی مرحلے میں ناتوانوں کی توانائی کابیج بویاجارہاہوتاہے۔اس لیے ظفرعلی خان اپنی قو م پرآنے والی شبِ غم کے پہاڑ بن جانے کاعرفان رکھنے کے باوجود شبِ غم کے کٹ جانے پریقین بھی رکھتے ہیں۔ انھیں یقین ہے کہ قافلے کی درماندگیاں مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کے اجالے سے سربلندی میں بدل جائیں گی اور برسنے والے بادل ان کے گلشنِ امیدکوسرسبزوشاداب کردیں گے لیکن اس مقصد کے لیے وہ تارعنکبوت سے بھی کمزور دنیوی سہاروں سے استمداد نہیں کرتے وہ صورتِ حالات پر اپنا استغاثہ پیش کرتے ہوئے ابابیلوں کی مدد سے بھی بے نیاز دکھائی دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’ہم ابابیلوں سے لیکن کس لیے مانگیں مدد ؟جب کہ تو خود ہے ہماری فتح و نصرت کی دلیل ‘ ان کا اصل تخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے ہے اور پرامید لہجے میں اپنی التجا یوں پیش کرتے ہیں

تمھارا قافلہ کچھ لُٹ چُکا اور کُچھ ہے لُٹنے کو

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو اس کی خبربادِ صباد کر دے

نکل آنے کو ہے سورج کہ مشرق میں اُجالا ہو

برس جانے کو ہے بادل کہ گلشن کو ہرا کر دے

نعت کی تاریخ میں عام طور سے رسول اللہ کے محامد و محاسن پر توجہ رہی ہے ظفر علی خان کا قلم اس روش پر گام زن ہوتاہے توان کے دل و دماغ اپنے عہد کے مسائل و معاملات کو بارگاہ رسول ؐ میں پیش کرنے کی تحریک دیتے ہیں اس کی بہترین مثال ان کا مشہور مخمس ’’اے کہ ترا شہود ہے وجہ نمود کائنات ‘‘ہے یہ جب پہلے پہل ستارۂ صبح میں شائع ہوا تواس کا ٹیپ کا مصرعہ تھا

سلطنت اک جہاں کی ہے تیری نگاہِ التفات

لیکن نظر ثانی کرتے ہوئے انھوں نے اسے جس مصرعے سے تبدیل کردیا وہ نعت نگاری میں ان کی روشِ خاص کی نشان دہی کردیتا ہے

ہم سے پھرا ہوا ہے کیوں گوشہء چشمِ التفات

یہی مصرع ایک اور نعت ’ اے کہ تراجمال ہے زینت محفل حیات ۔۔۔‘ الخ میں برنگِ دگر جلوہ دکھاتاہے۔پہلی نعت مخمس کی ہیئت میں تھی یہ نعت غزل کی ہیئت میں ہے اوریہاں اس کا مصرعہ اولیٰ ’’موردِلطف خاص پر کس لیے آج یہ عتاب ‘‘قرارپایاہے ۔قدما کی زمین میں کہی گئی ان کی مرصع نعتیں ہوں یا ان کے اپنے خاص اندازکے مظہر بن کر سامنے آنے والے بے مثل نعتیہ فن پارے یہ روش ان کے ہاں واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے ۔مشہور و معروف نعت جس کانام کبھی ’’شمع حرا‘‘ کہیں ’’صلو اعلیہ وآلہ‘‘ اورکہیں ’’صاحب قاب قوسین اوادنیٰ ‘‘تجویز کیا ہے یعنی ’’دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمھی تو ہو‘‘ اس میں بھی ارشادہوتا ہے :

بپتا سنائیں جا کے تمھارے سوا کہاں

ہم بیکسانِ ہند کے ملجا تمھی تو ہو

’وہ شمع اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔اک روز چمکنے والی تھی کل دنیا کے درباروں میں‘ سادگی اور فنی حسن کا بے نظیر مرقع ہے اسی طرح مولاناکی ایک اور نادر نعت ’’محمد مصطفیٰ گنجِ سعادت کے امیں تم ہو ۔شفیع المذنبیں ہو رحمت اللعٰلمیں تم ہو‘‘اردو نعت کے کسی قاری کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوگی اس نعت میں بھی خالص نعتیہ مضامین بیان کرتے کرتے وہ اپنے عہد کے مسلمانوں کی جانب متوجہ ہوجاتے ہیں ان کی بے عملی اورمعصیت کا خیال انھیں گھیر لیتاہے اور ان کی نعت انھیں امید کے گلستانوں میں لے جاتی ہے وہ رجائی لہجے میں پکارتے ہیں:

خدا کیونکر نہ کھینچے معصیت پر مغفرت کا خط

مسلماں مذنبیں ہیں اور شفیع المذنبیں تم ہو

اسی نعت میں جہاں وہ مسلمانوں کی عصری صورت حال پر تبصرہ کرتے ہیں ان میں پائی جانی والی نفاق، بغض اور کینے کی بیماریوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں وہیں ان کے لیے وَاعتَصِمُوا بِحَبلِ اللّٰہِ جَمِیعاً وَّلاتَفَرَّقُوا (۳:۱۰۳)کا قرآنی لائحہ عمل بھی تجویز کرتے ہیں جوانھیں مستقبل کے منظر نامے میں سربلند و مفتخر کرسکتا ہے اور اسی کو امت کا عروۃ الوثقیٰ (۲:۲۵۶)یعنی مضبوط حلقہ قرار دیتے ہیں دیکھیے کس سہولت سے قرآن کے دو مختلف مقامات کی آیتوں کو ایک مصرعے میں سمویا ہے اور ان کے باہمی رشتے کو کس انداز سے دریافت کیاہے :

تمھارا عروۃ الوثقیٰ ہے واعتصموا بحبل اللہ

پھر اس رسی کویار و تھام لیتے کیوں نہیں تم ہو

اخوت کا سبق تم کو پڑھایا ہے پیمبر نے

مگر دل میں لیے پھرتے نفاق و بغض و کیں تم ہو

بہ قول شورش کاشمیری ’’حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمسے انھیں جو عشق تھا وہ ان کی شاعری کی جان ہے‘‘ اسی عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکا عکس ان کی نعتوں میں جابجا دکھائی دیتا ہے اور وہ مسلمانانِ ہند کی غلامی اور اغیار کی سربلندی کا تجزیہ کرتے ہوئے اس صورت حال کو ان کی اپنی بے عملیوں کا سبب قرار دیتے ہیں انھیں کفر کی پرچم کشائی کے پسِ پردہ اپنی ہی کوتاہیِ عمل دکھائی دیتی ہے جس سے اسلامی نظریے پر ان کے غیر متزلزل ایمان کا سراغ ملتا ہے:

کفر اگر پرچم کشا ہے اس کے ہم ہیں ذمہ دار

سر بلندی دینِ قیم کے نشاں کی تجھ سے ہے

یہ زاویہ نظر ان کی نگاہ کو ماضی سے ہٹاکر مستقبل پرمرکوز کردیتا ہے ، حیاتِ لازوال ماضی کے رشتے کوحال اور استقبال سے جوڑے رکھے بغیرممکن نہیں ۔شبلی نے تو مسلمانوں کی ترقی ماضی کی طرف رجوع میں پنہاں قرار دی تھی اور اپنی اصل سے وابستگی کے حوالے سے یہ بات درست بھی ہے لیکن ظفرعلی خان جودوسری جگہوں پرماضی اور اس کی روایات کاگہرا شعور رکھتے ہیں اور اس سے جدائی گوارا نہیں کرتے مستقبل بینی کرتے ہوئے کہتے ہیں :

عبث ناز کرتے ہیں ہم ابتدا پر

ہمیں دیکھنا چاہیے انتہا کو

عمل گر یہی ہیں تو ہم حشر کے دن

دکھائیں گے منہ جا کے کیا مصطفےٰ کو

یہاں وہ ’’کام اچھا ہے وہجس کاکہ مآل اچھاہے‘‘کے اصول کوپیشِ نظر رکھتے ہوئے ملت کواپنی انتہائی منزل پردیکھناچاہتے ہیں اورمحض ماضی پرستی پرمطمئن دکھائی نہیں دیتے ۔روشن مستقبل کوپانے کے لیے وہ اپنی نعتوں میں جابجادست بہ دعا دکھائی دیتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح ظلمت اور نور برابر نہیں ہوتے اسی طرح اعمیٰ اور بصیر برابر نہیں ہوتے اور عصرِ حاضرکی نابینائی کوبینائی میں بدلے بغیر اگلے وقتوں کی بلند ہمتی حاصل نہیں ہوسکتی۔افرادِ قوم کے بازو جب تک پرایوں کی غلامی سے آزاد نہیں ہوسکتے پہلے کی سی توانائی کے حامل نہیں ہوسکتے اس لیے وہ آزادی کی شہنائی کے تمنائی بن کریوں نغمہ سرا ہوتے ہیں :

یہاں تک لکھ چکا تھا میَں کہ یثرب سے ندا آئی

یہ نابینا ہیں یا رب مرحمت کر ان کو بینائی

عطا کر اگلے وقتوں کی بلندی اُن کی ہمت کو

اور ان کے بازوؤں کو بخش پہلی سی توانائی

پرایوں کی غلامی سے انھیں آزاد کر یا رب

بجے ان کی حویلی میں پھر آزادی کی شہنائی

مولاناظفرعلی خان کے مجموعہ حمدونعت کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ وہ محض دعا پررک جانے والے نہیں بلکہ ان کے نزدیک مستقبل کی روشنیوں کوپانے کے لیے فکروعمل کی دنیامیں انقلاب ضروری ہے۔متعدد منظومات میں حبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلماپنی اصل و اساس سے وابستگی ، عصرِ حاضرمیں فضائے بدر پیداکرنے کی ضرورت، نفسا نفسی اور خودپرستی کے اندھیروں میں اخوت کی شمعیں جلانے کی ضرورت ،بت شکنی ، رسومِ شرک و کفر سے نجات اور سرفروشی کی ضرورت پرزور دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ان کی دعوت اپنے قاری کواس قابل دیکھنے کی آرزو مند ہے کہ وہ جہازوں کوخشکیوں پرچلاسکے، عجم اور عرب کی رقابت کومٹاکرانسانی اخوت کی بساط بچھاسکے اوراللہ کی زمین کوٹکڑوں میں بانٹنے کی بجائے ایک انسانیت کاوطن بناسکے چنانچہ وہ تلقین افروز لہجے میں کہتے ہیں:

اٹھاؤ نہ دریا کی لہروں کے احساں

جہازوں کو پھر خُشکیوں پر چلاؤ

مٹادو عجم اور عرب کی رقابت

جہاں میں بساطِ اُخوت بچھاؤ

عَلم ہاتھ میں لے کے دین ہدیٰ کا

سرا چیں کا پھر اُندلس سے ملاؤ

ان بلند مقاصد کے حصول کے لیے وہ قرآنی ہدایت:

وَ اَعِدُّوْ الَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہ (۸:۶۰)

کی جانب توجہ مبذول کرواتے ہیں کہ کوئی بھی تبدیلی تیاری اور عز م وہمت کے بغیر ممکن نہیں ہوتی اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہونے کامطلب خود کو وقت کے بہتے سمندر کی لہروں کے حوالے کردیناہوتاہے اس لیے وہ محولہ بالا قرآنی حکم کے مطابق اپنے مخاطب کو تلقین کرے ہیں کہ :

بحُکمِ اَعِدُّوْ اَلُہْم مَا اسْتَطَعْتُمْ

بڑھے جس قدر اپنی طاقت بڑھاؤ

وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مستقبل اسی صورت میں فروزاں ہوسکتا ہے جب انھیںآتش نوائی کی دولت میسر ہوگی اور حضرت انسان لیس للانسان الا ماسعیٰ (۵۳:۳۹)کی روشنی میں اپنی قوت بازو پر بھروسہ کرتے ہوئے محنت کو اپنا شعار بنائے گا وہ مستقبل کی مناسبت سے اپنی حضور حق میں اپنی تمناؤں کا اظہار اس طرح کرتے ہیں :

الٰہی برقِ غیرت کی تڑپ مجھ کو عطا کر دے

مجھ آتش زیر پاکو ساتھ ہی آتش نوا کر دے

میری تقریر سحر آلود میں کر وہ اثر پیدا

کہ اہلِ درد کے حلقوں میں اک محشر بپا کر دے

دیا ہے علم اگر تو نے تو ساتھ اس کے عمل بھی ہو

کہ شرحِ لَیسَ الانسَانِ الّاَ ما سَعیٰ کر دے

بتادُوں گا کہ خاک ہند یوں اکسیر بنتی ہے

مری پلکوں کو جا روبِ حریمِؐ مصطفےٰ کر دے

ان کی یہ تمنائیں اور دعائیں اسلام کی سربلندی اور دنیا میں ناموسِ مصطفیٰ ؐ کے علم کی سرافرازی کے لیے ہیں ۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانانِ عالم کی بقا بھی اسی صورت میں ممکن ہے جب ان کا نظریہ محفوظ ہے اور جب علم مصطفیٰ سربلندہے یہی ان کی تمناہے اور یہی ان کا نظریہ فن:

اتنی ہی آرزو ہے مرے دل میں اے خدا

اسلام کو زمانہ میں دیکھوں میں سر بلند

دنیا میں سرنگوں علم مصطفےٰ نہ ہو

ہم خواہ خود ذلیل ہوں اور خواہ ارجمند

اس سربلندی کی کچھ شرائط کی طرف اشارہ تو سطور بالا میں ہوگیا ہے کچھ مزید صفات ہیں جنھیں مستقبل کی تابناکی کے لیے جنھیں وہ ضروری سمجھتے ہیں اور جن کا تعلق عمل وکردار ہی سے ہے وہ آبا کی اندھی تقلید کو ترک کرکے زندگی کو نئی نگاہ سے دیکھنے کی جانب متوجہ کرتے ہیں خالق کائنات کے دروازے کے سوا تمام دروازوں سے امید کا رشتہ توڑلینے کی نصیحت کرتے ہیں اور خلیل اللہ کی طرح بت پرستی کے ماحول میں بت شکنی کے شیوے کی ضرورت پر زور دیتے سکھائی دیتے ہیں :

ترک کر تقلید آبا بن خلیل اور بُت کو توڑ

ما سوا کو چھوڑ ربّ العالمیں سے رشتہ جوڑ

یاد کر بھولا ہوا وَالرُّجْزَ فَاھْجُر کا سبق

شرک کی رسموں سے باز آ کفر کی ریتوں کو چھوڑ

وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ (اور ناپاکی سے دور رہو ۵:۷۴)کا سبق یاددلانا بجائے خود ان کی اصل و اساس کی طرف دعوت کی نشان دہی کرتا ہے جو بندے کو شرک و بت پرستی کی ہر نوع سے نجات دینے کا باعث بنتاہے ۔ان کے ان خیالات سے یہ گمان نہ کرلیاجائے کہ وہ دنیوی زندگی کے مطالبات سے غافل ہیں یا نعتوں میں ان کی دعوت محض یک طرفہ ہے، نہیں! وہ اسلام کی حقیقی تعلیم کی طرح جس کا اظہار فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ (دنیا میں بھی نعمت عطا فرما اور آخرت میں بھی نعمت بخش ۲:۲۰۱)کے الہامی الفاظ سے ہوتا ہے دین اور دنیا دونو کا آمیزہ چاہتے ہیں لیکن ان کا زاویہ نگاہ ان دونو میں ایک ترتیب ضرور قائم کرتاہے وہ پہلے دین اور پھر اس کے ثمر کے طور پر دنیا کی ترتیب ہے :

نَا شءۃ الَّیْل آج سے دے گا میری روح کو نشوونما

اقوم قیلاآج سے ہو گا میری اقامت کا معمول

دین بھی ہوجائے مجھے حاصل دنیا کی بھی مراد ملے

گوشۂ چشمِ عنایت مجھ پر ہو جو پیمبرؐ کا مبذول

گویا ان کے نزدیک دین اور دنیا کی کامیابی گوشہء چشمِ عنایت نبی ؐہی سے ممکن ہے اور اس کی اہلیت دین کے ان احکام میں ہے جن کا علم ہمیں نبی ؐ کی سیرت اور قرآن حکیم کی تعلیمات سے ہوتا ہے مندرجہ بالا اشعار میں جس قرآنی آیت کی تلمیح استعما ل کی گئی ہے اپنے ایک خط میں اس کی جانب توجہ مبذول کرواتے ہوئے کہتے ہیں :

’’ اِنّ نَا شءۃ الَّیْلِ ھِيَ اَشَدُّ وَ طْاً وَّ اَقْوَمُ قِیْلًا رات کااٹھنا عبادت باری کے لیے مشکل اوردقت طلب ہے لیکن پانچ وقت کی نماز اور قرآن فجرجس کی نسبت کَانَ مشہودا قرآن کریم میں آیا ہے کچھ مشکل نہیں ۔ اس پر التزام کے ساتھ عامل ہو‘‘

یہاں جملے کے آخر میں جس قرآنی آیت کی طرف اشارہ کیاگیا ہے وہ پوری آیت اس طرح سے ہے:

اَقِمِ الصّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الّیلِ وَ قُراٰنَ الفَجْرِ۔اِنَّ قراٰنَ الفَجْرِ کَانَ مَشھُوْدًا۔ بنی اسرائیل ۷۸

’’ قائم رکھ نماز کو سورج ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک اورقرآن پڑھنا فجر کا۔ بے شک قرآن پڑھنا فجر کا ہوتا ہے روبرو۔‘‘( ترجمہ شیخ الہند )

مندرجہ بالا اشعار میں وہ نَا شءۃ الَّیْل اورَّ اَقْوَمُ قِیْلًا پر عمل کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں بلکہ اپنی جانب اشارہ کرکے اپنے قاری کی قوت عمل کو مہمیز کرتے ہیں موخرالذکر آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے مولانا عثمانی نے لکھا ہے’’ حدیث میں ہے کہ فجر و عصر کے وقت دن اور رات کے فرشتوں کی بدلی ہوتی ہے لہٰذا ان دو وقتوں میں لیل و نہار کے فرشتوں کااجتماع ہوتا ہے تو ہماری قرات اور نمازان کے روبروہوئی جو مزید برکت و سکینہ کا موجب ہے اور اس وقت اوپر جانے والے فرشتے خدا کے ہاں شہادت دیں گے کہ جب گئے تب بھی ہم نے تیرے بندوں کو نماز پڑھتے دیکھا اور جب آئے تب بھی۔ اس کے علاوہ صبح کے وقت یوں بھی آدمی کا دل حاضر اور مجتمع ہوتا ہے‘‘۔ (تفسیر عثمانی طبع سعودی عرب ص ۳۸۵ )

مولاناکے نزدیک ان صفات سے متصف ہونے والے اللہ کی جانب سے انعام واکرام کے حق دارقرارپاتے ہیں ایک نظم جس کا عنوان ہی من کان للہ کان اللہ لہ تجویزکیاہے ارشاد ہوتا ہے:

یثرب سے آج بھی یہ صدا گونجتی سُنو

وہ جو خُدا کے ہو گئے اُن کا خدا ہوا

جب خدا ان کاہوجائے تو پھر عرب وعجم پر غلبے کا انعام ملتاہے ملاحظہ ہو :

عجم ہے میرا عرب ہے میرا جہاں میں جو کچھ ہے سب ہے میرا

اگر مسلماں لقب ہے میرا تو بول ہو گا مرا ہی بالا

یہ خیال ان کے ہاں باربار جلوہ گرہوتاہے کہ محمدرسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی دونوجہانوں کی سرداری عطاکرتی ہے چنانچہ کہتے ہیں :

غلامی کر محمدؐ مصطفےٰ کی

گدائی چھوڑ دے سلطان ہو جا

جہانگیری اور سلطانی کاراز کہاں پوشیدہ ہے وہ بتاتے ہیں:

جو کرنی ہے جہانگیری محمدؐ کی غلامی کر

عرب کا تاج سر پر رکھ خدا وندِ عجم ہو جا

ہو سَرکش سرو کی مانند اگر باطل نکالے سَر

اگر حق آگے آئے ماہِ نو کی طرح خم ہو جا

لیکن یہ غلامی جان مال عزت آبرو سب پر فائق ہونی چاہیے جیسا کہ ان کے مشہور اشعار ہیں:

زکوٰۃ اچھی، حج اچھا، روزہ اچھا اور نماز اچھی

مگر میَں باوجود اس کے مسلماں ہو نہیں سکتا

نہ جب تک کٹ مروں میں خواجۂ یثرب کی عزت پر

خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا

وہ جانتے ہیں کہ ان کا عصر جس گرداب میں مبتلاہے اس کی ہرہرموج میں سینکڑوں طوفان پنہاں ہیں اور جس کی جناب میں گستاخی فرشتہ بھی گوارا نہیں تھی وہ آج ذلیل و خوار ہے لیکن اس احساس کے ساتھ انھیں اعتماد ہے کہ دردکادرماں اسی ذاتِ گرامی کے در کی گدائی سے حاصل ہوسکتاہے وہ کہتے ہیں کہ جو محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے ہاں گدایانہ جائے گا وہ سر پر تاج شہنشہی پائے گا چنانچہ وہ جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم میں عرض پردازہوتے ہوئے امت کے راج کے لٹ جانے کی شکایت کرتے ہیں اور وہ قوم جس کی ہیبت ایک زمانے سے خراج وصول کرتی رہی آج سرچھپانے کے ٹھکانے سے بھی محروم ہے اس لیے وہ یوں عرض پرداز ہوتے ہیں:

سینکڑوں طوفاں ہیں پنہاں جس کی اک اک موج میں

اُس سمندر سے مسلمانوں کا بیڑا پار کر

جو سزا چاہے انھیں دے لے کہ تُو مختار ہے

لیکن اپنوں کو نہ غیروں کی نظر میں خوار کر

ہند کو بھی اے خدا قیدِ غلامی سے چھڑا

اپنے گھر کا ہم کو بھی مالک بنا ، مُختار کر

اس مقصد کے لیے امت کو ایسی راہ نمائی کی ضرورت ہے جو اسے منزل آشنا کردے اگر ایسی راہ نمائی مل جائے تو ماضی جیسی کامیابیوں کے راستے آج بھی کھلے ہیں شرط وہی ہے کہ امت کے ماتھے سے حضور خواجۂ یثرب کے دروازے کی چھوکھٹ کا نشان مٹنے نہ پائے ۔چنانچہ وہ خم خانہ ء الست کے خمّاروں کو تلاش کرتے ہیں، عہدِ سلف کے قدح خواروں کی جستجوکرتے ہیں، پیمانہء مدینہ کی بادۂ شبینہ کے مستوں کے جویادکھائی دیتے ہیں:

حسنِ امت لم یزل ہے چھن رہی ہیں آج بھی

اس کی قامت سے شبابِ رفتہ کی رعنائیاں

رہنما گم کردہ رہ ہیں ورنہ رَہرو پھاند جائیں

آج بھی جبرالٹر جیسی ہزاروں کھائیاں

ان کی نعتیہ کائنات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکی والہانہ محبت سے شروع ہوکر رجائیت پر ختم ہوتی ہے ۔خواجہ حسن نظامی نے درست کہاتھا کہ وہ’’قیامت کے دن اپنی غیرفانی نعتوں کے باعث بخشے جائیں گے‘‘مولاناکی نعت گوئی کے متعدد پہلو ہیں لیکن ہم نے صرف ایک پہلو کی جانب قارئین کی توجہ مبذول کروائی ہے جوامید اور رجائیت سے عبارت ہے انھی کے ایک شعرپران گزارشات کا ختتام کیاجاتاہے:

تجھے فکر کیوں ہے اے دل کہ یہ شب بسر بھی ہو گی

ہے ابھی اگر اندھیرا تو کبھی سحر بھی ہو گی


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت رنگ | کاروان ِ نعت | فروغ نعت | نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 25