لفظ "سگ" کا استعمال

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


خود کو سگ طیبہ یا سگ مدینہ کہلوانا، یا سگان مدینہ کو خود سے بہتر کہنا نعت گوئی میں ایک متنازعہ مضمون ہے ۔ اس حوالے بے شمار اشعار موجود ہیں لیکن کچھ احباب اس طرز کے نعتیہ اشعار کو نعت کے شایان شان نہیں کہتے ۔ دونوں آرا کے حوالے پیش کئے جائیں گے ۔

سگ مدینہ کے حوالے سے اشعار[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مولانا جامی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سگ ِ تو دوش ِ بجامی فغاں کناں می گفت

خموش باش کہ از نالہ ات بدرد سرم

ترجمہ : اے میرے آقا، کل میں آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور فریاد شروع کی تو آپ کی بارگاہ کے کتے نے اپنی نزاکت طبع کے باعث یہ کہہ کر مجھے جھڑک دیا کہ چپ ہو تیرے شور سے ہمارے سر میں درد ہوتا ہے


من کیستم دمے دوستی می زنم

کمین سگان ِ کوئے تو یک مترین منم

ترجمہ ۔ میں بھلا کون ہوتا کہ آپ سے دوستی کی بات کروں میں تو آپ کی گلی کا ایک ادنی کتا ہوں

امام احمد رضا خاں بریلوی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

دل کے ٹکڑے نذر حاضر لائے ہیں

اے سگان ِ کوچہ ء دلدار ہم


خوف ہے سمع خراشئی سگ طیبہ کا

ورنہ کیا یاد نہیں نالۂ افغاں ہم کو


رضا کسی سگِ طیبہ کے پاؤں بھی چومے

تم اور آہ کہ اتنا دماغ لے کے چلے

دیگر مشاہیر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

چہ کند سعدی مسکین کہ صد جان

سازیم فدائے سگ ِ دربان محمد

شیخ سعدی

ترجمہ : ایک جان نہیں سو جانیں بھِ ہوں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ کے دربانن کے کتے پہ قربان کردوں


نسبت بسگت کردم و بس منفعلم

زانکہ نسبت بسگت کوئے تو شد بے ادبی

مولانا قدسی

ترجمہ : میں اپنے آپ کو آپ کی گلی کا کتا کہہ کر شرمندہ ہوں ۔ آپ کے کوچے کے کتے سے نسبت بھی قرار دینا بھی بے ادبی ہے ۔


امیدیں لاکھوں ہیں لیکن بڑی امید ہے یہ

کہ ہو سگان ِ مدینہ میں میرا شمار

جیوں تو ساتھ سگان ِ حرم کے تیرے پھروں

مروں تو کھائیں مدینہ کے مجھ کو مرغ و مار

قاسم نانوتوی


خدا سگان ِ نبی سے یہ مجھ کو سنوا دے

ہم اپنے کتوں میں تجھ کو شمار کرتے ہیں

حسن رضا خان بریلوی


سگ طبیہ مجھے سب کہہ کے پکاریں بیدم

یہ رکھیں میری پہچان مدینے والے

بیدم وارثی


ہوواں میں سگ مدینے دی گلی دا

ایہو رتبہ اے ہر کام ولی دا

پیر مہر علی شاہ

حق میں دلائل[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

1۔ درج بالا شعراء میں امام احمد رضا خاں بریلوی اور قاسم نانوتوی تو بر صغیر کی بہت قابل احترام ہستیاں ہیں ۔ ان کا ان الفاظ کو نعتیہ اشعار میں استعمال کرنا ہی ان کی طرف سے اس کے جائز ہونے کی دلیل ہے ۔

سگ چونکہ وفاداری اور بے وقعتی کی علامت ہے تو جب کوئی شاعر خود کو تشبیہا یا استعارتا سگ کہتا ہے تو اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ وہ خود کو اس جانور جیسا بنا کر پیش کر رہا ہے بلکہ اس سے مراد وفاداری اور بے وقعتی ہوتی ہے ۔ جیسے خود کو شیر کہنے سے کوئی درندہ نہیں ہو تا بلکہ مراد اپنی بہادری کا اظہار ہے۔

مخالفت میں دلائل[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

محدث فورم پر بیان کیا گیا ہے

"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی مثال کو برا قرار دیاہے ، اللہ تعالیٰ نے برا کہا ہے لہٰذا جس کی مثال کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے برا قرار دیا ہو تو کسی انسان کو لائق نہیں کہ وہ ان احکامات کو جانتے اور سمجھتے ہوئے بھی اپنے آپ کو کتا کہے۔ اپنے آپ کو کتا کہنا عقل و نقل کے بھی خلاف اور ناجائز و غیر مشروع ہے۔ <ref> http://forum.mohaddis.com/threads/%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%D8%A7%D9%BE%D9%86%DB%92-%D8%A2%D9%BE-%DA%A9%D9%88-%D8%B3%DA%AF-%D9%85%D8%AF%DB%8C%D9%86%DB%81-%DB%8C%D8%B9%D9%86%DB%8C-%D9%85%D8%AF%DB%8C%D9%86%DB%92-%DA%A9%D8%A7-%DA%A9%D8%AA%D8%A7%DA%A9%DB%81%D9%86%D8%A7-%DB%8C%D8%A7-%D9%84%DA%A9%DA%BE%D9%86%D8%A7-%D8%AC%D8%A7%D8%A6%D8%B2-%DB%81%DB%92%D8%9F.14023/ </ref >

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]