قصیدہ لامیہ کا جائزہ

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

محسنؔ کوزندۂ جاوید اور ان کے نام کوعظمت کے بامِ عروج تک پہنچانے میں ان کے ’’قصیدۂ لامیہ‘‘ کا بڑا دخل ہے جو انتہائی مشہور اور زبان زدِ خاص وعام ہے ؎

سمت کاشی سے چلا جانبِ متھرا بادل

برق کے کاندھے پہ لائی ہے صبا گنگا جل

ابر بھی چل نہیں سکتا وہ اندھیرا گھپ ہے

برق سے رعد یہ کہتی ہے کہ لانا مشعل

جوگِیا چرخ پہ ہے یاکہ لگائے ہے بھبھوت

یا کہ بیراگی ہے پربت پہ بچھائے کمبل

کبھی ڈوبی کبھی اُچھلی مہِ نَو کی کشتی

بحرِ اخضر کے تلاطم میں پڑی ہے ہلچل

شاعرانہ لطافت، نادر تشبیہات واستعارات، علمی و ادبی اصطلاحات و تلمیحات، شاعرانہ پیکر تراشی ، نئی نئی ترکیب سازی، عربیت کی آمیزش اورہندی و ہندوستانی عناصر کے ساتھ فارسیت کے گہرے رچاو کی وجہ سے اس قصیدہ کواردو شاعری کا شاہ کار قرار دیا گیا ہے۔ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے اس قصیدہ کو محسنؔ کی شاعرانہ خوبیوں کا حامل بتایا ہے خاص طور سے اس کی تشبیب کو بہت سراہا ہے۔وہ لکھتے ہیں:


’’ایسی نرالی تشبیب آپ کو اردو کے کسی دوسرے شاعر کے یہاں نہیں ملے گی۔ذوقؔ و سوداؔ قصیدے کے بادشاہ ہیں لیکن ان کی تشبیب میں ایسی جدت اور زور نہیں۔یہ مضامین، تشبیہات، استعارات اور خیالات جو خالص ہندوستانی فضا کی پیداوار ہیں محسنؔ کاکوروی ہی کا حصہ ہیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محسنؔ کاکوروی کی پاکیزہ طبیعت عوام کی پامال شاہ راہ سے بچ کر اپنا راستہ الگ بنانا چاہتی تھی یہی وجہ ہے کہ انھوں نے سرزمینِ نعت مین اپنی جدّت پسندی سے رنگ رنگ کے پھولوں کا ایک گل زار کھلادیا ہے۔‘‘


محسنؔ کاکوری نے اپنا ’’قصیدۂ لامیہ‘‘ اساتذۂ فارسی و اردو کی زمین میں تحریر کیا ہے ،یہ قصیدہ لطافتِ تخیل اور ندرتِ اسلوب میں منفرد و یگانہ ہے۔محسنؔ کاکوروی نے سرورِ عالم و عالمیاں ﷺ کی حیاتِ طیبہ اور آپ کے اخلاق و عادات اور فضائل و شمائل کو ہندوستانی رنگ و آہنگ میں پیش کیاہے ۔اس قصیدہ کی تمہید محسنؔ کاکوروی کے شہبازِ فکر و تخیل کی بلند پروازی اور شعریت کا اعلا نمونہ ہے۔اسی قصیدہ کی دو غزلیں جو خالص قصیدہ کی معنوی فضا سے مکمل طور پر ہم رشتہ ہیں اور اسی کا تخلیقی حصہ نظر آتی ہیں بلاشبہ مدحتِ خیرالبشر ﷺ کاایک نورانی پیکر ہیں۔دو شعر خاطر نشین ہوں ؎

گل خوش رنگ رسولِ مدنی العربی

زیبِ دامانِ ابد طرۂ دستارِ ازل

سب سے اعلا تری سرکار ہے سب سے افضل

میرے ایمانِ مفصل کا یہی ہے اجمل

حضرت محسنؔ نے اس قصیدہ میں اردو کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی کی لفظیات کو برتا ہے اور اس کی زیریں رَو میں ہندوستانی رنگ و آہنگ نمایاں نظر آتا ہے ۔محسنؔ کاکوروی نے خالص ہندوستانی تشبیہات و استعارات کا سہارا لیا ہے ۔لیکن کہیں بھی نعت کی طہارت و پاکیزگی مجروح نہیں ہوئی ہے ۔کچھ لوگوں نے اس قصیدے کو ہندوانہ تہذیب و تمدن کا آئینہ دار بتاتے ہوئے محسنؔ پر تنقید کے نشتر بھی چلائے ہیں۔ حال آںکہ حضرت حسّان و کعب رضی اللہ عنہم کے نعتیہ قصائد میں بھی تشبیب کے خالص عشقیہ اشعار شامل ہیں محسنؔ نے صرف اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اس طرح کی تشبیب لکھی ہے۔ڈاکٹر فخرالاسلام اعظمی لکھتے ہیں :

’’محسنؔ کاکوروی کا تعلق دبستانِ لکھنؤ سے ہے،لیکن انکی شاعری میںعام لکھنوی شعرا کا ابتذال اور نسوانیت کارنگ نہیں ہے۔محسنؔ نے لفظی صناعی پر توجہ کی ہے لیکن اس موقع پر بھی انھوں نے اپنی انفرادیت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا ان کی رعایت بے ساختہ ، ان کی تشبیہات و استعارات جان دار اور ان کاانداز شاعرانہ ہے۔‘‘

اسی طرح ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی نے محسنؔ کاکوروی کے شاعرانہ محاسن پر یوں اظہارِ خیال کیا ہے ۔موصوف راقم ہیں :


’’بندش کی چستی اور نظم کی روانی ایسی ہے کہ طبیعت اس پر رک کر نہیں رہ جاتی۔ تشبیہات میں شاعر کے اسلوب ِ فرک،جدت کا اظہار ،ندرتِ ادااور مذاقِ شاعرانہ پایا جاتا ہے۔محسنؔ خالص ہندوستانی فضا کے شاعر ہیں اور اپنے ماحول کی ترجمانی کرتے ہیں ان کے خیال ،ان کی زبان ،ان کی تشبیہات اور استعارات اسی ملک کی پیداوار ہیں اس لیے ان میں اثر بھی زیادہ ہے۔‘‘

بشکریہ

ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی