فرقت میں جاں برباد ہے آیا ہے اب آنکھوں میں دم - امجد حیدرآبادی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


شاعر: امجد حیدرآبادی

نعت رسول اللہ صل اعلی علیہ و سلم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

فرقت میں جاں برباد ہے آیا ہے اب آنکھوں میں دم

جا کر سنائے کون انہیں افسانہ بیمار غم


پیغام بر ملتا نہیں بے چارہ و بے کس ہیں ہم

ان نلت یا ریح الصبا یو ما الی ارض الحرم


بلغ سلامی روضۃ فیہ النبی المحرم

کیا شکل کھینچی واہ وا، قرباں ترے دست قضا


پڑھتے ہیں جس کو دیکھ کر حوروملک صل اعلی

کیا رنگ ہے کیا روپ ہے حسن ہے نام خدا


من وجھہ شمس الضحی من خدہ بدر الدجی

من ذاتہ نور الھدی من کفہ بحر الھم


کیا پوچھتے ہو ہمد مو، مجھ سے محبت کا مزہ

دل چاک ہے ٹکڑے جگر،تن زخمی تیغ جفا


سننا دہان زخم سے رہ رہ کے آتی ہے صدا

اکبادنا مجرو حۃ من سیف ھجر المصطفی


طو بی لاھل بلدۃ فیہ النبی المحرم

پیرا ہن دل چاک ہے، ٹکڑے ہے جیب و آستیں


جینے سے جی بیزار ہے ہونٹوں پہ ہے جان حزیں

اچھے مسیحا بے رخی بیمار سے اچھی نہیں


یا رحمۃ للعالمین ادرک لزین العابدین

محبوس اید الظالمین فی الموکب و المزدحم


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

امجد حیدر آبادی