شفیع الوری یا شفیع الوری ۔ لطف علی بریلوی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


شاعر: لطف علی بریلوی


نعتِ رسولِ آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شفیع الوری یا شفیع الوری

مجھے بخشوا یا شفیع الوری


کروں کس سے فریاد اے ادا رس

تمہارے سوا یا شفیع الوری


کہاں جائے اے شاہ در سے ترے

ترا یہ گدا یا شفیع الوری


تمہیں بخشوا لو گے اللہ سے

مری ہر خطا یا شفیع الوری


سہارا ہے ہر دو سرا میں ترا

نہیں دوسرا یا شفیع الوری


مجھے بھول جانا نہ بہرِ خدا

بروزِ جزا یا شفیع الوری


جہنم سے مجھ کو بچا لیجیو

برائے خدا یا شفیع الوریٰ


مدینہ میں مولیٰ یہ جا کر مرے

یہ ہے التجا یا شفیع الوریٰ


مری گور میں بھی مدد کیجیو

مرے مصطفےٰ یا شفیع الوریٰ


مرا مُدا تم کو معلوم ہے

کروں عرض کیا یا شفیع الوریٰ


یہ دل کی تمنا ہے مولیٰ مرے

یہ ہے التجا یا شفیع الوریٰ


یہی آرزو ہے یہی ہے ہوس

مدیح خدا یا شفیع الوریٰ


رہا زیست میں جس طرح ذوق شوق

تری نعت کا یا شفیع الوریٰ


رہے بعد مُردن یونہی خُلد میں

ہمیشہ سَدا یا شفیع الوریٰ


خدا خود ہے مداح قرآن میں

ترا جا بجا یا شفیع الوریٰ


بشر کیا فرشتوں سے لکھی نہ جائے

تمہاری ثنا یا شفیع الوریٰ


بلالے مدینے میں اب لطف کو

نہ در در پھرا یا شفیع الوریٰ