سبیل ۔ شہاب صفدر کے مجموعہ کلام پر تبصرہ

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


معروف شاعرشہاب صفدر ،اس خوش بختی پر مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہیں نہ صرف نعت کہنے کی سعادت نصیب ہوئی بلکہ نعتیہ شعری مجموعہ”سبیل“کی نعمت سے بھی سرفراز ہوئے۔اُن کا مذکورہ مجموعہ ابھی چند دن پہلے منظر عام پر آیا ہے جسے برادرم حسن عباسی،کہ جو خود بھی اچھے شاعر ہیں،کے ادارے نستعلیق نے زیور طبع سے آراستہ کیا ہے۔”سبیل“ ایک خوبصورت مجموعہ کلام ہونے کے ساتھ ساتھشہاب صفدر کے کمالِ فن کا ایک نادر اظہاریہ بھی ہے اوراس نادرہ کاری پر انہیں ڈاکٹر احسان اکبر،ڈاکٹر خورشیدرضوی،ڈاکٹر ریاض مجید،سید صبیح الدین صبیح رحمانی،سرور حسین نقشبندی،شاکر القادری اور سلطان ناصر جیسے اصحابِ علم و دانش نے حرف ِتحسین پیش کیا ہے،جو فلیپ کی صورت اس کتاب کا حصہ ہے۔شہاب صفدرکے ہاں جہاں جذبہءمودت و عقیدت نے اپنا رنگ نمایاں کیا ہے وہیں فن سے کامل آگاہی نے ان کے سخن کودل نشین بنادیا ہے۔ ”سبیل“ میںمضامین کے ساتھ ساتھ اصناف کی سطح پر بھی ’تنوع نظر آتا ہے ۔غزل کی ہیت میں لکھی گئی نعت کے علاوہ آزاد نظم،قصیدہ اور مسدس کی موجودگیشہاب صفدر کی قادرالکلامی کا ثبوت ہے۔محسن کاکوروی کے قصیدہ ءلامیہ کے تتبع میں ان کا قصیدہ اپنی جگہ بہت خوبصورت ہے مگر ان کی ایک نظم” تنویر َ ظہور“ ملاحظہ کیجیے ، کیا سلیقہ ہے،کیا قرینہ ہے،کیا بندش ِ الفاظ ہے ،کیامعنی آفرینی ہے،کیا تراکیب اور کیا[ تشبیہ و استعارہ! سبحان اللہ۔


جب فرش پہ جلوہ کیا اُس عرش نشیں نے

ذرّوں کو ستارہ کیا فیضانِ مبیں نے

لی بسترِ ایّام پہ انگڑائی زمیں نے

رنگیں کیے آفاقِ گُماں مہرِ یقیں نے

ہر سمت ضیا پاش گُلِ خندہ جبیں تھا

صحرا چمنِ خلد کے مانند حسیں تھا

سیلی سے ہوا کی درِ کسریٰ پہ اُڑی گرد

وہ اوس تھی آتش کدہ¿ کفر ہوا سرد

گوشِ دل بے کس نے سنا مژدہ¿ ہمدرد

پھوٹی جو سحر ‘ چاک ہوئی ظلم کی ہر فرد

لمحہ تھا فضیلت کا عنایت کا پیمبر

ظاہر ہوا جب نورِ ہدایت کا پیمبر

گلبانگِ عنادل سے نوا بیز تھے گلزار

تسبیح پہ مامور تھے ہر نوع کے جاندار

کرتی تھیں زبانیں صفتِ راحم و غفار

آنکھوں میں عقیدت کے گُہر پارے تھے ضوبار

ہر دل متشکر تھا ہر اک لب پہ ثنا تھی

ظلمت سے چھٹی جان تو خوش خلقِ خدا تھی

اک دھوم تھی آمد کی سب اطراِفِ جہاں میں

خود گھُل گئی شیرینی سی گفتار و بیاں میں

ہونے لگیں باتیں وہ محبت کی زباں میں

سنتے تھے جو سب لہجہ¿ شمشیر و سناں میں

ہونٹوں کو ہنسی کھوئی ہوئی مل گئی گویا

غنچے کی چٹک سن کے کلی کھل گئی گویا

دہرانے لگی زیست حقیقت کے ترانے

اور ہونے لگے خواب تغافل کے فسانے

کھولا جو دریچہ افقِ چشمِ فضا نے

پھیلی وہ چمک لد گئے ظلمت کے زمانے

خیرہ ہوا ہر ذہن تجلی تھی کچھ ایسی

ٹھنڈک پڑی سینوں میں تسلی تھی کچھ ایسی

آوازہ¿ حق حق تھا ہواللہ کی صدائیں

الحمد کے نعرے تھے خوش آہنگ دعائیں

امواجِ صبا پیار سے لیتی تھیں بلائیں

تھیں سبزہ نورستہ کی پرُ سحر ادائیں

رقصاں تھے شجر سن کے سخن ریگِ رواں کے

تیور تھے سرِ دشت عیاں جوئے جناں کے

وہ صبح کہ پیدا ہوا خورشیدِ رسالت

تا شامِ ابد بن گئی پیغامِ سعادت

ہے اس کی شعاعوں سے جواں منظرِ فطرت

ایمان کے چہرے کی شفق غازہ¿ حکمت

تنویرِ ظہور آیتِ کبریٰ ہے خدا کی

بندوں پہ ہے بارش کرم و لطف و عطا کی

محبوبِ خدا کعبہ¿ دیں ہادیِ کُل ہے

کونین کا سردار ہے اور ختمِ رسل ہے

وحدت کا نشاں ‘ مرکزِ اکناف و سبل ہے

یہ درِ یتیم اس چمنِ ہست کا گل ہے

کافور خزاں نیست کی ‘ رنگینی سے اس کی

تابانیِ ہر ذرہ جہاں بینی سے اس کی

پیشانیِ والشمس کے انوار کے صدقے

واللیل سے مو ‘ بدر سے رخسار کے صدقے

زاغ البَصرُ ‘ سرمہ¿ ابصار کے صدقے

لعلِ لب و دندانِ دُر آثار کے صدقے

مولا ہے علیؑ سب کا یہ مولائے علیؑ ہے

من وجہک آئینہ نما وجہِ جلی ہے

اُس خالقِ بے مثل کا بے مثل ہے شہکار

اس حسن کے پیکر کے دوعالم ہیں خریدار

وہ دھوم ہے اس یوسفِ آفاق کی چودھار

لگتے ہیں عرب اور عجم مصر کا بازار

دلبر کی طلب گار بہ پیرایہ¿ جاں ہے

ہر چیز ہتھیلی پہ لےے مایہ¿ جاں ہے


حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نوائے وقت لاہور ، 28 دسمبر 2016