رضا بریلوی کا تصورِ عشق۔ ڈاکٹر غلام مصطفیٰ نجم القادری

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


از ڈاکٹرغلام مصطفیٰ نجم القادری ، میسور یونی ورسٹی

رضاؔ بریلوی کا تصورِ عشق[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حضرت رضا بریلوی کے منظوم کلام کامجموعہ ، تصور عشق کی کہکشاں ، اوربہار فکر کا گلستاں ہے، شاعروں نے محبوب کی سیرت وصورت ، حسن وجمال ، فضل و کمال، وفا وجفاپر اپنے اپنے انداز میں بہت کچھ کہا ہے اور بہت خوب کہا ہے۔ تاہم حضرت رضا بریلوی نے شدت احساس سے جذبات دروں کے مد وجزر کو اپنے حسن وخیال اور زور بیاں سے جس طرح شگفتگی بخشی ہے وہ انہی کا حصہ ہے ۔ کرب میں طرب، درد میں دوا سوزش میں کشش ، گلاب میںگلشن ، کم میںکیف ، سوز میں ساز اور موت میںحیات کا جوتصور انہوں نے پیش فرمایا ہے اس کا جواب کہاں… بلاشبہ ’’ حدائق بخشش‘ ‘ فکر وادب کے ماتھے کا سیندور ، شعر و شاعری کے گلے کا ہار ، اردوئے معلی کی پیشانی کا جھومر ، معنی ٰ آفرینی کے سرکا تاج ، اور ممتازشعراء کے ندر ت فکر ، نزاکت خیال کے لئے روشن شمع اور عربی ، فارسی ، اردو کی نعتیہ شاعری کا قابل فخر سرمایہ ہے۔

حضرت کافی سے عقیدت :شاعری میں حضرت رضا بریلوی شہید جنگ آزادی مولانا کفایت علی کافی سے بہت متاثر تھے چنانچہ آپ نے لکھا ہے… ’’ مولانا کافی علیہ الرحمہ کی زیارت آٹھ برس میں عمر میں خواب میں ہوئی۔ میری پیدائش کے گیارہ مہینے بعد مولانا کافی کو پھانسی ہوئی۔ <ref>الملفوظ ج۲،مرتب مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضا قادری ص۴۶</ref>

چنانچہ غلام رسول مہر نے لکھا ہے …… ’’ کافی کی غزلیں بہت پسند کرتے تھے۔ ان کو سلطان نعت کہتے تھے<ref>۱۸۵۷ء کے مجاہد ص۳۱۱</ref>

چنانچہ آپ اپنی رباعی میں کہتے ہیں ؎

’’ مہکا ہے میری بوئے دہن سے عالم

یاں نغمہ شیریں نہیںتلخی سے بہم

کافی سلطان نعت گویاں ہیں رضا

انشاء اﷲ میں وزیر اعظم

شرف استادی :تعجب ہے کہ شعر و سخن کے میدان میں بھی ارباب فکر و نقد جس کی استادی کا لوہاتسلیم کررہے ہیں ۔ شاعری میں اس کا کوئی استاد نہیں تھا۔ انہی کی زبانی سنئے ؎

رہا نہ شوق کبھی مجھ کو سیر دیواں سے

ہمیشہ صحبت ارباب شعر سے ہوں نفور

جبین طبع ہے ناسود داغ شاگردی

غبار منت اصلاح سے ہے دامن دور

مگر جو ہاتف غیبی مجھے بتاتا ہے

زبان تک اسے لاتاہوں میں بمدح حضور

تاہم مداح بارگاہ رسول حضرت حسان ابن ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی رہبری پر فخر وناز ہے۔ ؎

رہبر کی رہ نعت میں گر حاجت ہو

نقش قدم حضرت حسان بس ہے

حضرت رضا بریلوی کو محبوب خدا کی مداحی پر وجد آتاتھا کیوں نہ ہوکہ قرآن کریم خود ہی مدحت سرکار دوعالم کا انمول گلدستہ ہے، اﷲ کے اسی بے نظیر کلام کی رہنمائی اور روشنی میںفکر رضا پروازکناں ہے۔ بیمثل و بے مثال کلام کی روشنی نے آپ کے کلام کو بھی بے مثل بنادیا؎

ہوں اپنے کلام سے نہایت محظوظ

بے جا سے ہے المنتہ لللہ محفوظ

قرآن سے میں نے نعت گوی سیکھی

یعنی رہے احکام شریعت ملحوظ <ref>حدائق بخشش ،امام احمد رضا ص۱۸۹</ref>

حضرت رضا بریلوی نے انیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں شاعری کا آغاز کیا۔ اور نعت گوئی کو مسلک شعری کے طور پر اپنایا اور اس میںوہ کمال پیدا کیا کہ اپنے معاصرین شعراء سے گوئے سبقت لے گئے ؎

یہی کہتی ہے بلبل باغ جناں کہ رضا کی طرح کوئی سحر بیاں

نہیں ہند میںواصف شاہ ہدیٰ مجھے شوخئی طبع رضا کی قسم

منتخب کلام رضا:حضرت رضا بریلوی شعر و ادب کا بہت ہی معیاری ذوق رکھتے تھے آپ نے تقریباً ہر میدان میں گوئے فکر دوڑا یا اور بازی جیتی ذیل میں ان کے کلام کا مختصر انتخاب پیش ہے۔ ؎

وہی رب ہے جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم بنایا

ہمیں بھیک مانگنے کوتیرا آستاں بتایا

تجھے حمد ہے خدایا

یہی بولے سدرہ والے چمن جہاں کے تھالے

سبھی میں نے چھان ڈالے تیرے پایہ کا نہ پایا

تجھے یک نے یک بنایا

ارے اے خدا کے بندو کوئی میرے دل کوڈھونڈو

میرے پاس تھا ابھی تو ابھی کیا ہوا خدایا

نہ کوئی گیا نہ آیا

ایک نعت میں آپ نے چار زبانوں کا سنگم اس طرح پیش کیاہے کہ تاریخ ادب میں اس کی مثال مفقود ہے ۔ کیوں کہ اس سے پہلے تین زبانوں کاامتزاج صرف امیر خسرو اور جامی کے یہاں ملتاہے ۔ حضرت رضا بریلوی کے علمی تبحر کا تقاضا بھی یہی تھا کہ وہ کوئی ایسی نعت لکھتے جو بے مثل ہوتی چنانچہ ایک نعت انہوں نے صنعت ملمع میںلکھی اس کی دو قسمیںہیں ۔

(۱) ملمع مکشوف :۔ یعنی جب ایک مصرعہ عربی میں اور ایک فارسی میں ہو۔

(۲) ملمع محجوب :۔ یعنی جب ایک شعر عربی میں ہودوسرا فارسی میں ہو۔<ref>کلام رضا،اصغر حسین لدھیانوی ص۱۳</ref>

لیکن حضرت رضا بریلوی نے ایسے ملمع میں اشعار لکھے ہیںجس میں عربی ، فارسی ، ہندی اور اردو چاروں زبانوں کے الفاظ ہیں ؎

لم یات نظیر ک فی نظر مثل تو نہ شد پیدا جانا

جگ راج کو تاج تورے سر سو ہے تجھ کو شہ دوسرا جانا

البحر علی والموج طغیٰ من بے کس و طوفان ہوش رہا

منجدھار میں ہوںبگڑی ہے ہوا موری نیا پار لگا جانا

یا شمس نظرت الیٰ لیلی چوں بطیبہ رسی عرضے بکنی

تو ری جوت کی جھل جھل جگ میں رچی مری شب نے نہ دن ہونا جانا

انا فی عطش وسخاک اتم اے گیسوئے پاک اے ابر کرم

برسن ہارے رم جھم رم جھم دو بوند ادھر بھی گراجانا

الروح فداک فزد حرقایک شعلہ دگر برزن عشقا

موراتن من دھن سب پھونک دیا یہ جان بھی پیارے جلا جانا

مرزا غالب ہندوستان میں بانیان شعر وسخن میں ایک مانے گئے ہیں۔ انہیں دربار شاہی سے استاذ الشعراء ، دبیرالملک کا خطاب مل چکا ہے، وہ ایک سنگلاخ زمین میں ایک مرصع غزل لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں ، اردو شاعری کی دنیا میں ہلچل مچ جاتی ہے ؂

غنچۂ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں

بوسہ کو پوچھتا ہوں میں منھ سے مجھے بتا کہ یوں

میںنے کہا کہ بزم ناز چاہئے غیر سے تہی

سن کے ستم ظریف نے مچھ کواٹھا دیا کہ یوں

جو یہ کہے کہ ریختہ کیوں کر ہو رشک فارسی

گفتہ غالب ایک بار پڑھ کے اسے سنا کہ یوں

اب اسی سنگلاخ زمین میںحضرت رضا کے جذبات کی تڑپ دیکھئے ؂

پوچھتے کیا ہو عرش پر یوں گئے مصطفیٰ کہ یوں

کیف کے پرجہاں جلیں کوئی بتائے کیا کہ یوں

میں نے کہاکہ جلوۂ اصل میں کس طرح گمیں

صبح نے نور مہر میں مٹ کے دکھا دیا کہ یوں

دل کو ہے فکر کس طرح مردے جلاتے ہیں حضور

اے میں فدا لگاکر ایک ٹھوکر اسے بتا کہ یوں

باغ میں شکر وصل تھا ہجر میں ہائے ہائے گل

کام ہے ان کے ذکر سے خیر وہ یوں ہواکہ یوں

جو کہے شعر و پاس شرع دونوں کاحسن کیوں کر آئے

لااسے پیش جلوہ زمزۂ رضاؔ کہ یوں

ایک اور غزل اسی ردیف میں قافیہ کے ادنیٰ فرق سے مرزا غالب نے لکھی ہے ؂

دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں

روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں

ہاں وہ نہیں خدا پرست جاؤ وہ بے وفا سہی

جس کو ہو دین ودل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں

اب اس مقابلے میں حضرت رضا بریلوی کا کمال فکر دیکھئے انہوں نے اپنی فنی چابکدستی سے سخن کی اس خار زار وادی کو نعت کا گلشن و گلزار بنادیا ۔ ؎

پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائیں کیوں

دل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں

جان ہے عشق مصطفیٰ روز فزوں کرے خدا

جس کو ہو در د کا مزہ ناز دوا اٹھائے کیوں

ہم تو ہیں آپ دلفگار غم میں ہنسی ہے ناگوار

چھیڑ کے گل کو نوبہار خون ہمیں رلائے کیوں

خوش رہے گل پہ عندلیب خار حرم مجھے نصیب

میری بلا بھی ذکر پر پھول کے خار کھائے کیوں

نعتیہ مضامین میں معراج بھی ایک موضوع ہے جس پر نعت گو شعراء نے نئے نئے اسلوب سے اظہار خیال کیا ہے۔ معراج نامے بہت سے شعراء نے لکھے ہیں۔ لیکن حضرت رضا بریلوی نے ایک طویل قصیدہ کہا ہے جس کے کل ۶۷؍ اشعار ہیں ، دلکش شاعرانہ انداز نے وہ گلکاری کی ہے کہ مشام عقیدت معطر ہوجاتے ہیں۔

یہ وہ عالمگیر شہرت رکھنے والا قصیدہ ہے جس پر ہندوستان کے بڑے بڑے شعراء نے تضمین لکھیں اور بہت کچھ طبع آزمائیاں کیں ، جب یہ قصیدہ سوداگری محلہ ( بریلی شریف) کی چہار دیواری سے باہرنکلا تو علی گڈھ کالج کے پروفیسر وں نے بھی اس پر متعدد خمسے اور تضمین لکھیں۔ اور کالج کے طلباء نے بھی مدتوں اپنا حسین نغمہ بنائے رکھا، یہ توسب نے مان لیا کہ واقعہ معراج شریف پر اردو زبان میں ایسی بلند پایہ نظم نہ ہوئی۔وہ نظم یہ ہے ؎

وہ سرور کشور رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے

نئے نرالے طرب کے ساماں عرب کے مہمان کے لئے تھے

وہاں فلک پر یہاں زمیں میں رچی تھی شادی مچی تھی دھومیں

ادھر سے انوار ہنستے آتے ادھر سے نفحات اٹھ رہے تھے

نئی دلہن کی پھبن میں کعبہ نکھر کے سنورا سنور کے نکھرا

حجر کے صدقے کمرکے اک تل میں رنگ لاکھوں بناؤں کے تھے

پہاڑیوں کا وہ حسن تزئین وہ اونچی چوٹی وہ ناز و تمکین

صبا سے سبزہ میں لہریں آئیں دوپئے دھانی چنے ہوئے تھے

خدا ہی دے صبر جان پر غم دکھاؤں کیوںکر تجھے وہ عالم

جب ان کو جھرمٹ میں لے کے قدسی جناں کا دولہا بنارہے تھے

تجلی حق کا سہرا سر پر صلٰوۃ وتسلیم کی نچھاور

دورویہ قدسی پر ے جماکر کھڑے سلامی کے واسطے تھے

نبی رحمت شفیع امت رضا پہ لللہ ہو عنایت

اسے بھی ان خلعتوں سے حصہ جو خاص رحمت کے واں بٹے تھے

امیر مینائی اردوادب کا ایک مستند نام ہے انہوں نے ایک غزل کہی ہے اورحق یہ ہے کہ حق ادا کردیا ہے مگر اسی زمین وفاقیہ میںحضرت رضا بریلوی نے نعت لکھی ہے ۔ دونوں کا لطف وکیف دیکھئے ۔ حضرت رضا بریلوی کے خیال کی بلندی و عظمت ہی اورہے۔

امیر مینائی

یہ ترو تازہ چمن ہے کہ تمہارا عارض

یہ دھواں دھار گھٹا ہے کہ تمہارے گیسو

بال کنگھی سے جو سلجھائے تو دل الجھایا

تیرہ بختوںکو بگاڑا جو سنوارے گیسو

مچھلیا ں دام سمجھ کر ہیں جوموجوں میں نہاں

کھل گئے کس کے یہ دریائے کنارے گیسو

دن کو رخسار دکھاتا ہے فروغ خورشید

شب کو چمکاتے ہیں افشاں کے ستارے گیسو

رضا بریلوی

سوکھے دھانوں پہ ہمارے بھی کرم ہوجائے

چھائیں رحمت کی گھٹا بن کے تمہارے گیسو

شانہ ہے پنجۂ قدرت تیرے بالوں کے لئے

کیسے ہاتھوں نے شہا تیرے سنوارے گیسو

تار شیرازۂ مجموعۂ کونین ہیں یہ

حال کھل جائے جو اکدم ہوں کنارے گیسو

تیل کی بوند یں ٹپکتی نہیں بالوں سے رضا

صبح عارض پہ لٹائے ہیں ستارے گیسو

آقائے کونین کے حضور ہدیہ سلام نذر گذارنا ہر صالح قلب کی دھڑکن اور پاکیزہ روح کی آواز ہوتی ہے اسی لئے ہر شاعر، سلام کے عنوان سے بھی شعر کہہ کر اپنی روح کی تشنگی کا سا مان کرتا ہے حضرت رضا بریلوی نے بھی سلام کہا ہے۔ کیا کہا ہے اور کیسا کہا ہے اس تعلق سے مشہور عالم ونقاد مولانا کوثر نیازی سے سنئے۔

’’ اردو ، عربی ، فارسی ، تینوں زبانوں کا نعتیہ کلام میں نے دیکھا ہے اور بالاستیعاب دیکھا ہے ۔ میں بلا خوف تردید کہتا ہوں کہ تمام زبانوں اور تمام زمانوں کا پورا نعتیہ کلام ایک طرف اور شاہ احمد رضا کا سلام ’’ مصطفیٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام ‘ ایک طرف، دونوں کوایک ترازو میں رکھاجائے تو احمد رضا کے سلام کا پلڑا پھر بھی جھکا رہے گا، میں اگر یہ کہوں کہ یہ سلام اردوزبان کا قصیدہ بردہ ہے تو اس میں ذرہ بھر بھی مبالغہ نہ ہوگا۔ <ref>مولانا احمد رضا ایک ہمہ جہت شخصیت،مولانا کوثر نیازی ص۴۳</ref>

اور پروفیسر وسیم بریلوی کا خیال ہے کہ :۔اردو کے بڑے شاعروں کا سارا بڑاپن شاعرانہ سحر کاریوں کے گرد گھومتا ہے ان سب کا جلوہ ایک جگہ ۔ اور پورے فنی ، و فکری التزام کے ساتھ اگر دیکھنا ہوتو فاضل بریلوی کی حدائق بخشش دیکھیں ۔<ref> انتخاب حدائق بخشش ، ص۵۲</ref>

حدائق بخشش آپ کا ادبی شاہکار ، واردات قلبی کادرخشندہ تابندہ ، بارگاہ ر رسول مجتبیٰ علیہ السلام میں آپ کے بے پناہ عقیدت ومحبت کا آئینہ دار، اور حمد ونعت ومنقبت جیسے پاکیزہ فکر وادب کے لئے گلستان سدا بہار ہے۔ اورسب سے بڑھ کر یہ کہ حدائق بخشش محبوب دوعالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ، سیرت مبارکہ ، فضائل عالیہ، کا ایک ایسا چمن درچمن ہے کہ ۔   ؎

’’ کرشمہ دامن دل میکشد کہ جا اینجاست ‘ ‘

کے مطابق اس گلشن سے کس کس پھول کو چنا جائے اوراپنے مضمون کو ممنون نکہت کیا جائے عقل حیران و پریشان ہے ہم نے صرف چند پہلو کا انتخاب کرنا چاہا اور بعد میں جب شمار کیا تو پچاس سے زاید عنوان ہوچکے تھے۔ اس منتخب گلدستے سے صرف چند پھول حاضر ہیں۔ دیکھئے رضا بریلوی کا ’’ عشق ‘‘ کیسا سدا بہار ، گلستاں بکنار اور ’’ وہی ایک جلوہ ہزار ہے ‘ کا کیسا شاہکار ہے ۔ ایک ایک گوشے پر کتنے انداز وادا سے انہوں نے طبع آزمائی خیال آفرینی کی ہے ہر انداز میں ایک جدت اور ہر ادا حسن فکر کا مظہر ہے۔

رخ روشن

رخ روشن کی تجلی جو قمر نے دیکھی

رہ گیا بوسہ دہ نقش کف پا ہوکر

پردہ اس چہرہ انور سے اٹھاکر اکبار

اپنا دیوانہ بنااے مہ تاباں ہم کو

کس کے روئے منور کی یاد آگئی

دل تپاں دل تپاں دل تپاں ہوگیا

خورشید تھا کس زور پر کیا بڑھ کے چمکا تھا قمر

بے پردہ جب وہ رخ ہوا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں

ک، گیسو ، ھٰ دہن یٰ ، آنکھیں ، ابرو، ع، ص

کھیعص ان کا ہے چہرہ نور کا

گیسوئے عنبرین

بھینی خوشبو سے مہک جاتی ہیں گلیاں واﷲ

کیسے پھولوں میں بسائے ہیں تمہارے گیسو

دعا کر بخت خفتہ جاگ ہنگام اجابت ہے

ہٹایا صبح رخ سے شاہ نے شبہائے کاکل کو

یاد گیسو ، ذکر حق ہے ، آہ کر

دل میں پیدا لام ہوہی جائے گا

بڑھ چلی ، تیری ضیاء اندھیر عالم سے گھٹا

کھل گیا گیسو تیرا رحمت کا بادل گھرگیا

خار طیبہ

خار دشت حرم کے آگے

ذکر و چمن بہار توبہ

ان کی حرم کے خار کشیدہ ہیں کس لئے

آنکھوں میں آئیں، سرپہ رہیں ، دل میں گھر کریں

اے خار طیبہ دیکھ کہ دامن نہ بھیگ جائے

یوں دل میں آکہ دیدۂ تر کو خبر نہ ہو

پھول کیادیکھوں میری آنکھوں میں

دشت طیبہ کے خار پھرتے ہیں

سگ مدینہ

دل کے ٹکڑے نذر حاضر لائے ہیں

اے سگان کوچۂ دلدار ہم

خوف ہے سمع خراشی سگ طیبہ کا

ورنہ کیا یاد نہیں نالۂ افغاں ہم کو

تجھ سے در، در سے سگ ، سگ سے ہے مجھ کو نسبت

میری گردن میں بھی ہے دور کا ڈورا تیرا

شان مسیحائی

کشتگان گرمیٔ محشر کو وہ جان مسیح

اپنے دامن کی ہوا دے کر جلاتے جائیں گے

مرنے والوں کو یہاں ملتی ہے عمر جاوید

زندہ چھوڑ ے گی کسی کو نہ مسیحائی دوست

اک دل ہمارا کیاہے آزار اس کا کتنا

تم نے تو چلتے پھرتے مردے جلادئیے ہیں

عشق مصطفیٰ

ہمارے درد جگر کی کوئی دوانہ کرے

کمی ہو عشق نبی میں کبھی خدا نہ کرے

خاک ہوکر عشق میں آرام سے سونا ملا

جان کی اکسیر ہے الفت رسول اﷲ کی

برق عشق شہ والا یہ گری وہ تڑپی

شور سینوںمیں ہے برپا یہ گری وہ تڑپی

جان ہے عشق مصطفیٰ روز فزوں کرے خدا

جس کو ہو درد کا مزہ ناز دوا اٹھائے کیوں

انہیں جانا انہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام

ﷲ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا

غلامیِ مصطفیٰ

نازشیں کرتے ہیں آپس میں ملک

ہیں غلامان شہ ابرار ہم

میں تو کیا ہی چاہوں کہ بندہ ہوں شاہ کا

پر لطف جب ہے کہدیں اگر وہ جناب ہوں

خوف نہ رکھ رضا ذرا تو تو ہے عبد مصطفیٰ

تیرے لئے امان ہے تیرے لئے امان ہے

شان تبسم

زخمی تیغ تبسم ہے کہ دکھلاتا ہے برق

رقص بسمل کا تماشا یہ گری وہ تڑپی

جس کی تسکین سے روتے ہوئے ہنس پڑے

اس تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام

جس تبسم نے گلستاں پر گرائی بجلی

پھر دکھادے وہ ادائے گل خنداں ہم کو

مجرموں! چشم تبسم رکھو

پھول بن جاتے ہیں انگاروں کے

جلوۂ جاناں

نیم جلوے میں دوعالم گلزار

واہ واہ رنگ جمانے والے

ان کے جلووں کا جس دم بیاں ہوگیا

گلستاں مجمع بلبلاں ہوگیا

ہاں چلو حسرت زدو سنتے ہیں وہ دن آج ہے

تھی خبر جس کی کہ وہ جلوہ دکھاتے جائیں گے

تنگ ٹھہری ہے رضا جس کے لئے وسعت عرش

بس جگہ دل میں ہے اس جلوہء ہر جائی کی

دیدار پر انوار

لطف ان کا عام ہوہی جائے گا

شاد ہر نا کام ہوہی جائے گا

جان دے دو وعدۂ دیدار پر

نقد اپنا دام ہوہی جائے گا

آج عید عاشقاں ہے گر خدا چاہے کہ وہ

ابروئے پیوستہ کا عالم دکھاتے جائیں گے

جنت نہ دیں ، نہ دیں تیری رویت ہو خیر سے

اس گل کے آگے کس کو ہوس برگ وبر کی ہے

ناخن منور

دل اپنا بھی شیدائی ہے اس ناخن پاکا

اتنا بھی مہ نو پہ نہ اے چرخ کہن پھول

جالوں پہ جالے پڑگئے ﷲ وقت ہے

مشکل کشائی آپ کے ناخن اگر کریں

عید مشکل کشائی کے چمکے ہلال

ناخنوں کی بشارت پہ لاکھوں سلام

تلوہ کا جلوہ

جس کے تلووں کا دھون ہے آب حیات

ہے وہ جان مسیحا ہمارا نبی

دل کرو ٹھنڈا میرا وہ کف پاچاند سا

سینہ پہ رکھدو ذرا تم پہ کرو روں درود

موت سنتاہوں ستم تلخ ہے زہرا بۂ ناب

کوئی لاد ے مجھے تلوؤں کا غسالہ تیرا

عکس سم نے چاند سورج کو لگائے چار چاند

پڑگیا سیم وزر گردوں پہ سکہ نور کا

قدو قامت زیبا

تیرا قد تو نادر دہر ہے کوئی مثل ہو مثال دے

نہیں گل کے پودوں میں ڈالیاں کہ چمن میں سروچمان نہیں

تیرا قد مبارک گلبن رحمت کی ڈالی ہے

تجھے بوکر بنا اﷲ نے رحمت کی ڈالی ہے

ہے گل باغ قدس رخسار زیبائے حضور

سرووگلزار قدم قامت رسول اﷲ کی

حسن باملاحت

حسن کھاتا ہے جس کے نمک کی قسم

وہ ملیح دلآرا ہمارا نبی

ان کے حسن با ملاحت پر نثار

شیرۂ جاں کی حلاوت کیجئے

جس کا حسن اﷲ کو بھی بھاگیا

ایسے پیارے سے محبت کیجئے

وہ کمال حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہاں نہیں

یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں

کوچۂ محبوب

گذرے جس راہ سے شاہ گردوں جناب

آسماں آسماں آسماں ہوگیا

اس گلی کا گدا ہوں میں جس میں

مانگتے تاجدار پھرتے ہیں

عنبر زمیں عبیر ہوا ، مشک ترغبار

ادنیٰ سی یہ شناخت تیری رہگذر کی ہے

گلزار مدینہ

چمن طیبہ ہے وہ باغ کہ مرغ سدرہ

برسوں چہکے ہیں جہاں بلبل شیداہوکر

نیم وا طیبہ کے پھولوں پر ہو آنکھ

بلبلو پاس نزاکت کیجئے

گل طیبہ کی ثناء گاتے ہیں

نخل طوبیٰ یہ چہکنے والے

کیابات رضا اس چمنستان کرم کی

زہرا ہے کلی جس میں حسین اور حسن پھول

مدحت مصطفیٰ

اے رضا جان عنادل تیرے نغموں کے نثار

بلبل باغ مدینہ تیرا کہنا کیا ہے

کرم نعت کے نزدیک تو کچھ دور نہیں

کہ رضائے عجمی ہو سگ حسان عرب

اے رضا خود صاحب قرآں ہے مداح حضور

تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت رسول اﷲ کی

ندرت خیال

شاخ قامت شہ میں زلف و چشم و رخسار و لب میں

سنبل نرگس ، گل پنکھڑیاں قدرت کی کیا پھولی شاخ

جناں میں چمن، چمن میں سمن ، سمن میں پھبن ، پھبن میں دولہن

سزائے محن یہ ایسے منن ۔ یہ امن و اماں تمہارے لئے

دو قمر دو پنجۂ خوردوستارے دس ہلال

ان کے تلوے، پنجے ناخن پائے اطہر، ایڑیاں

دندان ولب و زلف ورخ شہ کے فدائی

ہیں درعدن، لعل یمن مشک ختن پھول

سرتا بقدم ہے تن سلطان زمن پھول

لب پھول، دہن پھول ، ذقن پھول ، بدن پھول

درود و سلام

کعبہ کے بدرالدجیٰ تم پہ کروڑوں درود

طیبہ کے شمس الضحیٰ تم پہ کروڑوں درود

ذات ہوئی انتخاب وصف ہوئے لا جواب

نام ہوا مصطفیٰ تم پہ کروڑوں درود

سینہ کہ ہے داغ داغ کہدو کرے باغ باغ

طیبہ سے آکر صبا تم پہ کروڑوں درود

کام وہ لے لیجئے ۔ تم کو جو راضی کرے

ٹھیک ہو نام رضا تم پہ کروڑوں درود

مصطفیٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام

شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام

مہر چرخ نبوت پہ روشن درود

گل باغ رسالت پہ لاکھوں سلام

شہر یار ارم تاجدار حرم

نو بہار شفاعت پہ لاکھوں سلام

ہم غریبوں کے آقا پہ بیحد درود

ہم فقیروں کی ثروت پہ لاکھوں سلام

کاش محشر میں جب ان کی آمد ہو ا ور

بھجیں سب ان کی شوکت پہ لاکھوں سلام

مجھ سے خدمت کی قدسی کہیں ہاں رضا

مصطفیٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام

یہ ہے حضرت رضا بریلوی کے منظوم کلام کا ایک ہلکا سا عکس جسے دیکھ کر پہلی ہی نظر میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح آپ اہلسنت کے امام ہیں ، اسی طرح آپ کا کلام بھی سخن و کلام کا امام ہے چنانچہ آپ کے دیوان حدائق بخشش پر ’’ کلام الامام امام الکلام‘‘ کا مقولہ حرف بحر صادق آتا ہے … نثر سے لے کر نظم تک آپ نے عشق رسول کے جو پھول کھلائے اور محبت و عقیدت کے جو دیپک جلائے ہیں اس کی کرنیں ، اس کی نکہتیں ، غلامان رسول اور مداحان مصطفیٰ کے لئے شمع ہدایت ہیں … آپ کے تصنیفی گلستان کو دیکھنے کے بعد یہ مانے بغیر کوئی چار کار نہیں رہتا کہ حضرت رضا بریلوی عہد جدید کی ایک عظیم شخصیت کانام ہے ۔ ایسی شخصیت جس کے فکر میں پاکیزگی ، حرارت و روشنی اور زندگی ہے، جس کی ذہنی فکری ، جذباتی افق ایسی وسیع ہے کہ اس کی وسعتوں میں بڑے بڑے ادیب و دانشور حیران نظر آتے ہیں۔ جس کی فکری کاوش نے جھوٹے محبوبوں سے دل ہٹاکر سچے محبوب کی طرف لگادیا، دل کی متاع گراں بہارضائع ہونے نہ دیا ۔ پراگندہ خیالی سے بچارکر یکسوئی عطا کی، ادھر ادھر ٹوٹنے اور بکھرنے سے نجات دلاکر عالمی ، آفاقی ، دائمی مرکز چوکھٹ مصطفیٰ کی محبت عطا کی ۔ جس کی ہر تصنیف عشق مصطفیٰ کی شمع فروزاں اور جس کی ہر تالیف حرارت ایمانی کا آفتاب درخشاں اور جس کی ہر تحریر کیفیات و تصورات عشق کاگل بداماں شبستان ہے ۔ لغت گو شعراء میں حضرت رضابریلوی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کے اشعار میں ندرت، اصلیت بلندی و باریکی اور سوز و تڑپ کے عناصر اس طرح حلول کرگئے ہیں جیسے پھول میں خوشبو چوں کہ انہوںنے بقول خود قرآن سے لغت گوئی سیکھی اس لئے اس صحرا میں آپ نے جو بھی قدم رکھا ہے نقوش قدم کی تابانیوں سے محبت کے پھول بھی کھلائے اور اردوادب کے دامن کو بھی بہاروں کا مسکن بنادیاہے … مجازی عاشقوں نے اپنے مجازی محبوبوں کیلئے جنون عشق میں نہ جانے کیاکیا کہا ہے ، اور فکر کی وہ جولانی دکھائی ہے کہ لگتا ہے آسمان سے تارے توڑ رہے ہیں اور محبوب کے دامن میں ٹانک رہے ہیں، محبوب کے خدو خاں ، زلف ورخسار ، لب لعلیں ، نخرہ و عشوہ ، ناز و انداز غمزہ و تبسم ، قد و قامت اور وفاء و جفاء پر اپنے فکر کا مغز پیش کرکے رکھدیا ہے، تاہم حضرت رضابریلوی نے انہی عنوان پر اپنے خیالات کی تگ و تاز محبوب خدا محبوب کائنات کے لئے پیش کئے ہیں، قاشہائے جگر، متاع دل ان کے قدم نازپہ وارے ہیں جن کی محبت ان کی ذات کی طرح انمٹ ، اور جن سے عشق ہمارے دین و ایمان کی فیروز مندی کی ضمانت ہے ۔ جن سے لگن اور لگاؤ کی رعنائیاں عالم شہادت سے عالم آخرت تک کو محیط ہیں، اور اس سوغات عشق کی پیشکشی میں افکار و خیالات کی جو ندرت ، اور تراکیب ، و استعارات کی جو جدت انہوں نے اپنائی ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تلوار کی دھار پر چل کر صحرائے عشق کی خار دار وادیوں سے سرخ رو لوٹنا کوئی ان سے سیکھ لے۔

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

غلام مصطفیٰ نجم القادری | احمد رضا خان بریلوی کی شخصیت اور شاعری پر مضامین | احمد رضا خان بریلوی

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]