دبیر کا نعتیہ کلام ، پروفیسر شفقت رضوی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

Late Professor Shafqat Rizvi introduced some devotional poetry of Mirza Dabeer who is famous for composition of elegy. Dabeer's expertise of usage of language was reflected in elegy writing and he also paid homage to Prophet Muhammad (S.A.W.) with equal craftsmanship. Though, according to the writer of the article, Naatia Poetry of Dabeer could not get attention of critics, yet it is worth reading. Professor Rizvi cited some examples of masnavi (poem in which second line of every distich rhymes with the same letter) and some sestets of Dabeer that carry Naatia textual substance and very honestly mentioned that Dabeer depicted his religious beliefs in his poetry which may not be acceptable to some readers. Shafqat Rizvi has however infused insight into nice blending of words and thoughts by presenting Dabeer's couplets.


شفقت رضوی ۔نیویارک

مرزا دبیر کا نعتیہ کلام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اردو کے باکمال شاعروں میں مرزا دبیر بھی ہیں جن کو عام طور پر نظر انداز کیاگیا۔ان کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جس کے وہ مستحق ہیں ۔ان کے متنوع کلام کا غائر نظر سے مطالعہ کیا گیا اور نہ اس کے حسن کواجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ۔حدیہ کہ ان کے کلام کی مجموعی تعداد کے بارے میں وثوق سے کچھ نہ کہا گیا ۔ان کی جانب سے رو گردانی کی متعدد وجوہ ہیں جن میں چند وجوہات کاذکر ضروری ہے ایک تویہ کہ بڑے علمی اور ادبی طبقے نے ذہنی تحفظات سے کام لے کر ان کونظرانداز کیا دوسرے مذہبی اور نیم مذہبی ادب وشاعری کو عمومی ادب سے الگ رکھنے کی شعوری کوشش کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ مرثیہ ، سلام اور منقبت ہی نہیں حمد اور نعت کے تذکرے بھی کم نظرآتے ہیں ۔تیسرے مرزا دبیر کااپنا رویہ ہے۔ یہ رویہ ان کا اپنا نہیں بلکہ تقریباً تمام بڑے شاعروں کا رہا ہے بالخصوص مذہبی اور نیم مذہبی اد ب کے تخلیق کاروں کا ۔حمد ،نعت ،منقبت ، مرثیہ ، سلام وغیرہ کی حد تک اپنے ادبی ذوق اور تخلیقی کمال کو محدود رکھنے والے اسے اشاعت اور تشہیر کاذریعہ بنا کر ذاتی شہرت حاصل کرنے سے گریز کرتے ہیں۔کیونکہ یہی ہے جسے حقیقی شاعری کہا جاسکتا ہے کہ وہ دل کی دھڑکنوں کو شعر میں سمو کر پیش کرتے اور سمجھتے کہ انہوں نے مدحت کاحق رد کردیا ہے۔ وہ شہرت سے زیادہ ثواب کے قائل تھے ۔وہ تو ان کے مرتبے کو جاننے ،سمجھنے والوں کا فیض ہے کہ ان کی نگارشات کا قلیل حصہ ہی سہی ہم تک پہنچ سکا ہے۔اسی لیے میں اس نوع کے ادب کو ’’مجلسی ادب‘‘ کہتا ہوں گویا یہ سنانے کی چیز ہے چھاپنے اور عام کرنے کی نہیں ۔اس بارے میں ہمیں نعت خوانوں اور مرثیہ خوانوں کاشکر گزار ہونا چاہیے کہ ان طبقوں سے تعلق رکھنے والوں نے باکمال شاعروں کے شہکاروں کو سینے میں محفوظ رکھا اور بعد کی نسل تک منتقل کرنے کی کوشش کی اگر چہ اس میں سو فی صد کامیاب نہیں ہوئے۔

مرزا دبیر کانام اور کلام عام نہ ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان کی زندگی میں نہ ان کاکلام چھپا نہ ان کے بارے میں کوئی کتاب لکھی گئی ۔مراثی دبیر کی دو جلدیں ۱۸۷۰ ء میں نو لکشور پریس لکھنؤ میں چھپیں۔ یہی سا ل ان کی وفات کاہے ۔ان دو جلدوں میں ۹ ۴ مرثیے ہیں جبکہ ڈاکٹر تقی عابدی کی شماریات کے مطابق ان کے مراثی کی تعداد ۶۷۰ سے کم نہیں ہے ان میں سے بھی ۲۸۵ مرثیے ابھی تک زیور طبع سے آراستہ نہیں ہونے پائے ہیں اور بیا ضوں میں محفوظ ہیں ۔ ہمارے یہاں ہی نہیں دنیا میں ہر جگہ ،ہر ملک میں یہ رویہ رہا ہے کہ شاعر یاادیب پر ایک چھاپ لگادی جاتی ہے گویا اس کی ذہنی وسعتوں کوکوزہ میں بند کردیا جاتا ہے یہی کوزہ نسلوں میں منتقل ہوتا جاتا ہے ۔اقبال یاتو شاعر مشرق ہیں یا شاعر اسلام ۔یہ کہہ دینا آسان ہے لیکن یہ کہنے والے ان کی فکر وذہن کی آفاقیت کونظرانداز کردینا چاہتے ہیں اس سے زیادہ اہم مثال فانی بدایونی کی ہے ان کو محض یاس کا شاعر باور کرکے ایک قنوطی بنادیاگیا ہے حالانکہ شبا بیات کے حوالے سے ان کی شاعری اپنے زمانے کے تمام شاعروں سے برتر ہے ۔مرزا دبیر کوبھی اگر کبھی یادکیاجاتا ہے تو صرف ان کے مراثی کی وجہ سے حالانکہ اصناف سخن کے اعتبار سے کوئی صنف ایسی نہیں جس میں ان کی تخلیقات موجود نہ ہوں۔ان سے یادگار غزلیں ہیں رباعیات اور قطعات ہیں ،مثنویاں ہیں،حمد،نعت ،منقبت ،سلام ، خمسے ہیں کلام منقوطہ بھی ہے کلام غیر منقوطہ بھی ہے ۔اگریہ کہا جائے کہ تمام اصناف ادب ،تمام صنائع وبدائع سب سے زیادہ ذخیرۂ الفاظ مروجہ تمام محاورے اور روز مرہ کا مطالعہ کرنا ہوتو صرف مرزا دبیر کا کلام کافی ہے۔ لیکن ہم نے انہیں مرثیہ کے کوزے میں بند کرکے طاق نسیاں کے حوالے کردیا ہے۔کتنی عجیب بات ہے کہ رباعی اور مثنوی پرڈاکٹریٹ پانے اور کتابیں لکھ کر شہرت حاصل کرنے والوں کو علم نہیں کہ ان اصناف میں دبیر کی کتنی تخلیقات ہیں اور کس معیار کی ہیں ۔ہمیں ڈاکٹر تقی عابدی کا مرہون منت ہونا چاہیے کہ انہوں نے ۱۳۳۳ رباعیات کا پتہ چلایا ہے کہ اردو میں سب سے زیادہ رباعی کہنے والا شاعر دبیر ہے یہ رباعیاں متنوع موضوعات پر ہیں حمدیہ ،نعتیہ ،منقبتی کے علاوہ فلسفیانہ ، اخلاقی اور سماجی موضوعات ان میں شامل ہیں اردو کے شاعروں میں صرف امجد حیدر آبادی رباعیوں کی تعداد اور مضامین کے تنوع کے اعتبار سے دبیر کے مد مقابل ہیں یہ دونوں بزرگ مذہبی ذہن کے مالک اورصالح اقدار کے حامل تھے ۔ان کا کلام فن کے ذریعہ ذہنوں کی تر بیت‘ اخلاق کی ترویج ، تہذیب کے نکھار اور سنجیدہ فکر کو سنوارنے کافرض انجام دیتا ہے ۔

مرزا دبیر مذہبی ذہن رکھنے والے تھے ان کے پیش نظرشعائر اسلامی ،اللہ کا پیغام ،رسول اللہ کے فضائل رہتے ۔کوئی صنف شاعری ایسی نہیں جس میں حمد ونعت شامل نہ ہو ۔ان کے کلام میں یہ عناصر محض روایت کاحصہ بنیں بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے وہ امنڈتے ہوئے پُر خلوص اور نیک جذبات ہیں فن کے اظہار پروہ مجبور ہیں ۔کلام کے سلسلہ میں کہیں نہ کہیں وہ موقع نکال کر حمد اور نعت کے اشعار کہہ جاتے ہیں جو بے جوڑ معلوم نہیں ہوتے ۔اور پھر وہ ان مضامیں کو یہاں تک طول دیتے ہیں کہ ان کے جذبہ اظہار کی تسکیں ہوجاتی ہے۔

ہم نے اس طویل تمہید میں دعوے تو بہت کردیے اب دلیلیں ملاحظہ کیجیے ذیل میں ہم مرزا دبیر کے نعتیہ کلام کے نمونے پیش کررہے ہیں۔

نعتیہ رباعیات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

(۱)

کیا روئے پیمبر نے ضیا پائی ہے

فرقان کی بِلا فرق یہ زیبائی ہے

ہرشے سے مقدم ہے ہمیں اس کا ادب

قرآن سے پہلے یہ کتاب آئی ہے

(۲)

اندامِ بنی نے کیا صفائی پائی

سائے کی بھی وصل سے جدائی پائی

وہ سایہ ہوا دواتِ قدرت میں جمع

لکھنے کو قضانے روشنائی پائی

(۳)

معراج نبی میں جا ئے تشکیک نہیں

ہے نور کاتڑکا شبِ تاریک نہیں

قوسین کے قرب سے یہ ثابت ہے دبیرؔ

اتنا کوئی اللہ کے نزدیک نہیں

(۴)

موسیٰ کو توحکمِ خلع نعلین ملا

احمد کو مقام قابَ قوسین ملا

معراج کو یہاں عرش معلی وہاں طور

کیا فرق بلند و پست مابین ملا

(۵)

مداح ہوا موردِ امدادِ رسول

کھولا وہ درِ مدح ،کروداد رسول

حلّال مہم ،سرورِکل،مالکِ ملک

واللہ رسول اور اولاد رسول

رباعی (۱) مضمون انوکھا اوردلنشین بیان ہوا ہے حضور کے تقدم اور قرآن کے تاخر کو کتنے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے رباعی (۴) میں بھی حضرت موسیٰ پرحضور اکرم کی فضیلت کا پہلو نکالا ہے رباعی (۵) غیر منقوطہ ہے اس میں ایسا کوئی لفظ استعمال نہیں ہوا جس میں نقطہ ہو ۔

مرزا دبیر سے منسوب کتنی مثنویات ہیں جن میں اہم احسن القصص اور معراج نامہ ہیں اول الذکر میں انہوں نے اپنے اعتقاد کے مطابق چہاردہ معصومین کی پیدائش اور ان کی زندگی کے اہم واقعات نظم کیے ہیں ۔یہ طویل مثنوی ہے جو چودہ ابواب اور ۳۳۱۶ اشعار پر مشتمل ہے پہلا باب حال ولادت باسعادت حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہے انداز مثنوی کاہے اور اشعار دوسو سے زائد ہیں ۔ اس میں حضور کے فضائل کے علاوہ حضرت ابو طالب کا حضور کی ولادت سے قبل خواب دیکھنے اور ایک اس کی تعبیر میں ایک کاہن کاحضور کی تشریف آواری کی پیش گوئی بھی شامل ہے ۔حضور کی ولادت کے موقع پر دنیا کے عام حالات کاذکر اور سراقہ بن جعثم اور ابوجہل کی مذموم کوششوں اور ناکامیوں کاحال بھی ہے ۔

اگر چہ مرزا دبیرتحقیق اور حوالے کے بغیر روایات تحریر نہیں کرتے لیکن انہوں نے حضور کی ولادت کی تاریخ عام روایت کے بر خلاف ۱۷/ ربیع الاول بیان کی ہے اس کی صداقت پرتحقیق کی گنجائش ہے۔

ہوئی ہفدہم کویہ دولت حصول

کہ دنیا میں آئے جناب رسول

حضور کی تشریف آوری پرایک طرف توخوشیوں اورشا د مانیوں کا یہ حاصل تھا کہ :

عدم سے نسیمِ بہاری چلی

گلِ ہاشمی کی سواری چلی

فنا شر کو جن وبشر پاتے ہیں

کہ دنیا میں خیر البشر آتے ہیں

فلک پر زمیں کادفاع آج ہے

ہر اک ذرہ خورشید کاتاج ہے

ہوا دین دنیا میں ہرسوعیاں

ندا کفر کی ہے چھپوں میں کہاں

چہ سحر وچہ افسوں ،چہ کذب ودروغ

ہوئے آج بے اصل اور بے فروغ

دم ورد الحمدللہ ہے

عجب نور ماہی سے تا ماہ ہے

منور ہے جولاں گہہِ اشتیاق

کہ پیدا ہوا شہ سوارِ براق

وہ خورشیدعالم میں ہے جلوہ گر

کیا جس نے انگلی سے شق القمر

جہاں نورسے آج معمور ہے

خوشی ہے قریب اور غم دور ہے

مبارک بہت یہ مہینا ہوا

کہ عیش وفرح کا قرینہ ہوا

تو عالم کفر میں تباہی وبربادی کے آثار پیدا ہوگئے۔

ملی خاک میں آبرو ئے منات

لگی لات کے سرپر ایماں کی لات

جدا آج باطل سے حق ہوگیا

جگر اہل بدعت کاشق ہوگیا

لرزتے ہیں شعلہ صفت ظلم و شر

کہ دنیا میں آتے ہیں خیر البشر

وہ کسرا عجم کاتھا جو بادشاہ

محل اس کا محکم تھا بے اشتباہ

وہ لرزا ولادت کے وقت اس قدر

کہ چودہ گرے کنگرے خاک پر

ہوئے سرد کفار کے دست وپا

کہ ایراں کاآتش کدہ بجھ گیا

لبالب جوسادہ میں در یاچہ تھا

ہوا خشک ایسا کہ گویا نہ تھا

ہوا سحر جادو گراں بے اثر

زمیں کونہ تھی آسماں کی خبر

وہ بت جن کو نافہم سمجھے خدا

گرے منہ کے بل خود بخود جا بجا

مرزادبیر مثنوی میں جب مدحت پر آتے ہیں وہ سلاست اور روانی دکھلاتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے خیالات اورالفاظ کاسیلاب ہے کہ امنڈتا چلا جاتا ہے ۔یہ حصہ کا مثنوی ہونے کے باوجود اس میں قصیدوں کی شان موجودہے لہجہ باوقار ،بلند آھنگ،الفاظ میں جاہ وجلال ،شان وشوکت ،صنائع وبدا ئع عروج اظہار پر ہیں ۔

پڑھو کلمہ گویو پڑھو اب درود

میں لیتا ہوں نامِ حبیبِ ودود

شہِ مرسلاں ، قبلۂ شش جہات

محمد ، محمد علیہ الصلوٰت

نمائندۂ راہ حق بے گزند

کشا نیدۂ کارِ پست وبلند

فرازندۂ رایتِ شرع ودیں

نواز ندۂ بے نوا وحزیں

رفیع الفضیلت امیر الورا

وسیع المروت ،کثیر الحیا

بشیر ونذیر و جمیل و حسیں

لطیف و شریف و امین و متیں

سرِ شرع وایمان وفضل وکمال

جگر گوشۂ رحمت ذوالجلال

کرم ہے نبی کا عجب واہ واہ

گنہ ہم کریں اور وہ عذر خواہ

حبیبِ خدا ہیں جناب رسول

ہوا سب کوایمان ان سے حصول

پیمبر کوئی بعدان کے نہیں

یہ مرسل ہیں اورخاتم المرسلیں

چراغِ رسالت جو روشن ہوا

ضیا بار ایماں کا گلشن ہوا

نبوت نبی کی جو ظاہر ہوئی

شریعت سے سب خلق ماہر ہوئی

نہ آدم نہ حوا نہ غلماں نہ حور

ہزاروں برس پیشتر تھا یہ نور

نکلتے تھے جب گھر سے خیرالبشر

تو جھکتے تھے تسلیم کو سب شجر

صدا آتی تھی ہرطرف سے یہی نبی

ہے نبی ہے نبی ہے نبی

حضور کاسایہ نہ ہونا نعت گوشعرا کامحبوب موضوع ہے اس عنوان سے وہ حسن تعلیل کی عمدہ مثالیں پیش کرتے ہیں مرزا دبیر نے بھی حضور کاسایہ نہ ہونے کی کتنی ہی دلیلیں پیش کی ہیں :

کوئی بے مثال ایسا آیا نہیں

کہیں جسم انور میں سایا نہیں

نہ کیوں ساتھ سایہ کا ہونا گوار

کہ فضل خدا ساتھ ہے سایہ دار

ہوا کم جو ظلِ حبیبِ الہٰ

بنا سایہ سرمۂ خور شید وماہ

وہ سایہ بنا سائبانِ فلک

کہ سایہ کرے سب پہ محشر تلک

ملا سنگ اسود کی طلعت میں کچھ

ہوا صرف مُھر نبوت میں کچھ

وہ سایہ سیاہی بنا یک قلم

کیا کلکِ قدرت نے قرآں رقم

اگر سرمہ دیں اس کا اہل زمیں

پڑھیں شب کو چیونٹی کاخطِ جبیں

چھنی ہے یہ پلکوں کی چھلنی میں بات

خوشا سایۂ خسر وِ کائنات

کہ ہرچشم حق میں کی پتلی بنا

ہوا خالِ رخسارۂ انبیا

سزاوار سایہ کی ہے یہ ثنا

کہ نورِ نگاہِ رسولاں بنا

کہ سایہ نہ ہونے کی ہے یہ دلیل

وحید الوراہیں رسولِ جلیل

یہ ہیں عاشق وحدہٗ لاشریک

نہیں عشق میں کوئی ان کا شریک

یہ تحلیل و تحمید میں ایک ہیں

یہ اصحاب توحید میں ایک ہیں

نہیں شرکت سایہ اس راہ سے

جدا ہیں نبی ماسویٰ اللہ سے

حضور کے کئی معجزات باشمول معراج بیان کرنے کے بعد مرزا دبیر نے اس طویل مثنوی کوحضور کی وساطت سے دعا پر ختم کیا :

یہی حکمِ خالق ہے سب پرمدام

کہ بھیجو نبی پر درود و سلام

خدایا کرم کر بحق نبی

کہ ایماں کی دولت سے کردے غنی

گنہ میرے بخش اے غفور الرحیم

کرم کر کرم اے خدا ئے کریم

مرزا دبیر کی دس مثنویوں میں دوسری طویل مثنوی ’’معراج نامہ ‘‘ ہے ڈاکٹر تقی عابدی (مقیم ٹورنٹو ) کی کاوشیں قابل داد ہیں کہ انہوں نے دبیر کے کلام کی تقریباً تمام گم شدہ کڑیاں برآمد کرکے شائع کردی ہیں ان میں ’’مثنویات دبیر‘‘ بھی ہے اس میں ’’معراج نامہ ‘‘ بھی شامل ہے ۔ ڈاکٹر عابدی کی صراحت کے مطابق اس مثنوی میں ۶۸۴ اشعار ہیں ۔مثنوی کاآغاز حمد سے ہوتا ہے اس کے بعد نعت رسول مقبول اور پھر منقبت حضرت علی ہے ۔ان کے بعد معراج کاذکر ہے ابتدا معراج کے حوالے سے پا ئے جانے والے شکوک کی روسے ہوئی ہے ۔اس بارے میں بیان ہے کہ:

حکیمانِ بے عقل سلطاں خصال

جو کرتے ہیں معراج میں قیل وقال

بُلا لاذرا ان کو میرے حضور

بجھا دوں میں ان کا چراغِ شعور

ہے انکار معراج میں کیا انہیں

بلا شک یہ دعوےٰ ہے بیجا انہیں

وہ ہیں علم منطق سے امداد خواہ

احادیث و قرآں ہیں یاں دو گواہ

پڑھوں وہ احادیث میں متصل

فلاطون و بقراط ہوئیں خجل

ہے بعضوں کا معراج میں یہ سخن

گئی روحِ خیر الورابے بدن

ہے اکثر کایہ قول اس بات میں

کہ معراج حاصل ہوئی خواب میں

سووہ ہے غلط اور یہ بھی غلط

نہیں حرفِ حق ہے یہ باطل فقط

وہ سوتے نہ تھے بلکہ بیدار تھے

کہ خالق کے مشتاقِ دیدار تھے

ہے قرآں میں سورہ جو والنجم کا

وہ شاہد ہے معراج پر بر ملا

قسم کھاکے کہتا ہے یہ کبریا

کہ گمراہ ہرگز نہیں مصطفا

نہیں خواہشِ نفس سے کچھ کہا

سخن اس کا ہراک ہے وحیِ خدا

معراج کے بارے میں تاریخ میں جو اختلاف ہے اور معراج کا پیغام جس جگہ حضور کو ملا یہ بھی اختلافی امور ہیں۔دبیر نے ان پر روشنی ڈالنے کے بعد حضور کے سو ئے فلک روانگی سے قبل براق کی شان بیان کی ہے براق کی شان میں طویل سلسلۂ اشعار بطور مدح بیان کرنے کے بعد حضور کی سواری کا دلنشین منظر پیش کیا ہے اور ہر آسمان پرجن امور کا نظارہ کیا ان کی تفصیل بیان کی ہے یہاں تک طوبیٰ اور سدرۃ المنتہیٰ سے گزر ے اور قاب قوسین تک رسائی حاصل کی اور قرب الٰہی میں پہنچے کہ درمیان میں صرف ایک پردہ حائل رہا:

زہے رتبہِ قدرِ خیرالانام

جو پردے تھے حائل وہ اٹھے تمام

اِدھر تھے محمد اُدھر کردگار

اب آگے کہوں کیا کہ ہے آشکار

نہ پردہ رہا ایک بھی مطلقا

فقط ایک آنکھوں کا پردہ رہا

خدا سے یہ تھا قربِ خیر الانام

فقط قاب قوسین کا تھا مقام

خدا بولا سعد یک یا مصطفا

نبی بولے لبیک یا کبریا

اس موقع پر حضرت علی کی شان بیان کی ہے کہ وہ بھی منظور خداتھے اور بعض روایات کے مطابق خدائے ذوالجلال نے حضرت علی کے لہجہ میں بات کی تھی ۔ بیان کے اس حصہ میں شاعر کے معتقدات حاوی ہیں۔پھر خدا نے حضور کووضو کرنا سکھایا اور نماز پڑھنے کی تعلیم دی اور حکم دیا کہ رسول اللہ اوران کی امت کے لیے خداکی طرف سے نماز ایک تحفہ اور قرض ہے امت پر پچاس نمازیں فرض کی گئیں لیکن آسمان سے لوٹتے ہوئے حضرت موسیٰ سے ملاقات ہوئی ان کے کہنے پرکہ امت یہ فرض ادا نہ کرسکے گی خدا سے تخفیف کی التجا حضرت موسیٰ کے باربار اصرار پر رسولِ خدا پیش خدا تعالیٰ عرض گزار ہوتے رہے یہاں تک کہ نمازیں کم ہوتی ہوئیں پانچ فرض قرار پائیں ۔بالآخر حضور زمیں پر واپس آئے:

کیا پھر اجازت کا سجدہ ادا

مرخص ہوے فخرِ شاہ و گدا

مگرآئے جب عرش سے فرش پر

تو دیکھا کہ ہلتی ہے زنجیرِ در

ہوئے زیب بستر جو خیر الورا

بدستور وہ گرم تھا جا بجا

اس طرح دبیرؔ نے دعائیہ اشعار پر مثنوی کاخاتمہ کیاہے ۔بلاشبہ اس میں شاعر کے معتقدات بھرپور انداز میں موجود ہیں بعض حضرات اسے قبول نہ کریں مگر اس میں کسی نوع کی ہجو یاذم کاپہلو نہیں ہے۔ اسے شاعری کے کمال کانمونہ جان کر پڑھاجائے توتخیل اور حقیقت کے امتزاج کی کرشمہ سازیوں کے ساتھ زبان پر عبور اور فن کی مہارت قابل تحسین نظرآتے ہیں ۔مضمون میں یکسانیت نہیں لیکن شان و شوکت کاذکر ہے تو اندازِ بیان اسی کے متقاضی ہے جہاں بیان سادگی ہے وہاں سلاست وروانی سہل ممتنع کے درجے کو پہنچی ہوئی ہے۔واقعہ نگاری میں بھی دبیر نے مہارت کاثبوت دیا ہے غرض مثنوی حضور کے شایانِ شان ضرور ہے ۔

رباعی اور مثنوی سے زیادہ مرثیہ میں مرزا دبیر کا زور کلام ظاہر ہوتا ہے مرثیوں میں نعت کے اشعار کم ملتے ہیں اردو شاعری میں روایت رہی ہے کہ آغاز کلام میں حمد ونعت ہوتے ہیں مرثیہ میں اس روایت کی پاسداری کم کی گئی ہے ۔قدیم مرثیہ گو شعرا ء نے اس کا بدل یہ نکالا کہ مرثیہ سنانے سے قبل چند رباعیات ضرور سناتے ۔ان ہی میں ذکر خدا اور رسول ہوتا ۔جو مرثیہ میں حمدو نعت کی کمی کے احساس کو دور کردیتا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مراثی حمد ونعت سے بالکل خالی ہوتے ہیں۔تسلسل بیان میں کہیں نہ کہیں موقع نکال کرشاعر ایسے شعر ضرور کہتا کہ یہ کمی پوری ہوجاتی مرزا دبیر کے مراثی میں دونوں صورتیں ملتی ہیں ۔بعض مراثی کی ابتدا حمدو نعت سے ہوئی ہے بعض میں یہ مضامین درمیانِ مرثیہ آئے ہیں ۔ہم یہاں ان کے ایک مرثیہ کاذکر کرتے ہیں جس کا مطلع ہے

طغرا نویس کن فیکوں ذوالجلال ہے

اس کاآغاز حمد سے ہوتا ہے اسی سے متصل حضور رسول خدا کی نعت میں کہا ہے :

کیا کیا بیاں کروں میں عنایات کبریا

پیدا پیمبروں کو پئے رہبری کیا

ہم کو محمدِ عربی سا نبی دیا

بسم اللہ صحیفۂ فہرست انبیا

آگے جو انبیائے ذوی الا قتدار تھے

محبوب کردگار کے وہ پیشگار تھے

آفاق بہرہ ور ہوا حضرت کی ذات سے

آگاہ ذات نے کیا حق کی صفات سے

تصدیق حکمِ رب کی ہوئی بات بات سے

رفتار نے لگادیاراہِ نجات سے

سیکھے طریقے قرب خدا کے حضور سے

گمراہ آئے راہ پہ نزدیک ودورسے

سینوں سے سب کے دور ہوا دردِ بے دلی

باقی رہی نہ پیروں میں سستی وکاہلی

معراج ان کے ہاتھ سے اعجاز کوملی

واں چاند ٹکڑے ہوگیا انگلی جویاں ہلی

انگلی سے دو قمر کوکیا کس جلال سے

غل تھا کہ قفل چاند کا کھولا ہلال سے

سرتا قدم لطیف تھا پیکر مثالِ جاں

اس وجہ سے نہ سایہ بدن کا ہوا عیاں

قالب میں سایہ ہوتا ہے پرروح میں کہاں

سایہ انہیں کا ہے یہ زمینوں پہ آسماں

معراج میں جو وارد چرخ نہم ہوئے

سائے کی طرح راہ سے جبرئیل خم ہوئے

سایہ بدن کا پاس ادب سے جدا رہا

محبوب سے ہمیشہ وصالِ خدا رہا

یہ عاشقِ خدا بھی خداپرفدا رہا

سائے سے اپنے دور رسولِ ہدا رہا

دیکھو یہ باغِ نظم جو رغبت ہوسیر کی

پرچھائیں تک نہیں یہا ں مضمونِ غیر کی

مصرف میں اک عبا کو شب وروز لاتے تھے

آدھی تو اوڑھتے تھے اورآدھی بچھاتے تھے

سائل کو اپنی قوت خوشی سے کھلاتے تھے

امت کے بھوکے رہنے کا خود رنج کھاتے تھے

ناداروں کا قلق سے رفاقہ پسند تھا

اپنا اور اپنی آل کا فاقہ پسند تھا

لوحِ جبیں پہ سنگ لگا بددعا نہ کی

بیگانوں کے گِلے سے زباں آشنا نہ کی

اور عین عارضے میں نظر جز خدا نہ کی

بخشی شفا مریضوں کواپنی دوانہ کی

شکرانہ عافیت پہ ،تحمل بلاپہ تھا

ہرحال میں نبی کو توکل خدا پہ تھا

مرزا دبیر کی صرف ایک نثری تصنیف ملتی ہے ’’ ابواب المصائب ‘‘ !اسے بھی ڈاکٹر تقی عابدی نے ڈھونڈ ہ نکالا ہے ۔یہ ان ہی کے اہتمام سے اشاعت پذیر ہوئی ہے اور اپنے طرز کی منفرد تصنیف معلوم ہوتی ہے اس میں حضرت یوسف کاجو احوال قرآن مجید میں آیا ہے اس کا تفصیلی ذکر کرتے ہیں۔ ان کے تمام مصائب وتکالیف کاموازنہ امام حسین کے مصائب وتکالیف سے کیا گیا ہے اس کا دیبا چہ بھی نثر میں ہے لیکن اس کی ابتدا ایک قطہ سے ہوئی ہے جس میں حمد باری تعالیٰ کے بعد نعت کے یہ چند اشعار ہیں:

شھد اللہ علی صدقِ رسول العربی

رحمہ للہ علیٰ آل و اولاد نبی

بعد حمد احدِ پاک لکھوں نعت رسول

کون وہ شہرِ علومِ احدی بابِ بتول

وہ رسولان سلف سے بخدا افضل ہے

بیش کار احمدِ مختار کا ہر مرسل ہے

فخرِ آدم ، شرف عالم و سرتاجِ ملک

قبلۂ اہلِ زمیں کعبۂ ارباب فلک

پہلے آغاز اسی سے ہوا اللہ کانام

انبیا سبحہ کے دانے ہیں یہ ان کا ہے امام

انبیا ذرے ،یہ خورشید فلک پرور ہیں

مصطفے چاند رسولانِ سلف اختر ہیں

کلامِ دبیر سے نعت گوئی کے یہ چند نمونے پیش کیے گئے ان سے واضح ہوتا ہے کہ دبیر حب نبی میں ڈوبے ہوئے تھے اور جس کسی صنف سخن میں طبع آزمائی کی اس کو ذکر نبی سے محترم اور معزز بنادیا رباعی ،قطعہ ،مثنوی ،مرثیہ ہرایک صنف کو موزوں قرار دیتے ہوئے فن کا وقار بھی قائم رکھا اور حضور کی فضیلت کے ذکر سے ان کا مرثیہ بھی آسمان تک پہنچا دیا ۔


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت رنگ | کاروان ِ نعت | فروغ نعت | نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 25