بلال راز بریلوی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
                                             بلال  رازؔ   بریلوی  اور  اُن   کی  نعتیہ   شاعری

ن ع ت عربی زبان کا مادّہ ہے ۔ اس کے لغوی معنی کسی شخص میں بہترین صفات کا پایا جانا ہے اور اُن صفات کا بیان کرنا ہے ۔ عربی زبان میں تعریف و توصیف کے لئے حمد ، مدح ، ثنا وغیرہ الفاظ بھی استعمال کیئے جاتے ہیں مگر علماء اور اہلِ ادب نے اصطلاحاً لفظ حمد کو اللہ کی تعریف کے لئے اور لفظ نعت کو سرورِ کون و مکاں ، محبوبِ رب العالمین کی تعریف و توصیف کے لئے مخصوص کر لیا ہے ۔ دنیا کی دیگر زبانوں میں بھی سرورِ کونین کی تعریف و توصیف کے لئے لفظ نعت کا ہی استعمال کیا جاتا ہے ۔ رسولِ اکرم کی نعت مبارک نظم و نثر دونوں افسامِ ادب میں لکھی جاتی رہی ہیں مگر عام طور پر نعت کا لفظ اُن نظموں کے لئے استعمال ہوتا ہے جو قاسمِ نعمت کے لئے لکھی اور کہی گئیں ہوں ۔ اِس صنفِ سُخن کی ابتدا عربی زبان میں عہدِ نبوّت میں ہی ہو گئی تھی ، اُن تمام صحابہء اکرام نے جو شعر کہتے تھے نعتیہ اشعار کہے ہیں ۔ حضرت حسان بن ثابت ، حضرت کعب بن مالک ، حضرت کعب بن زبیر مکی رضی اللہ تعالٰی عنھم اجمعین وغیرہ مشہور عربی کے نعتیہ شاعر ہوئے ہیں ۔ عربی زبان کے بعد فارسی زبان میں بھی نعت گوئی کا رواج عام ہوا ابوالفرج رونی ، انوری ، سعدی ، رومی ، جامی ، عرفی ، شیرازی وغیرہ نے بہترین نعتیں عطا کیں ۔ دیگر زبانوں میں بھی نعت گوئی کی روایت ملتی ہے اردو شاعری غزل ، مثنوی ، قصیدہ ، منقبت ، مرثیہ وغیرہ اصنافِ سُخن سے مالامال ہے ۔ حالی ، شبلی ، امیر مینائی ، محسن کاکوروی وغیرہ شعرا نے کچھ نعتیں کہی ہیں لیکن دورِ متاخرین میں نعت گوئی میں امام احمد رضا بریلوی رضی اللہ عنہ اور حافظ پیلی بھیتی کے علاوہ ایسا کوئی شاعر نہیں ملتا جس نے صرف نعتیہ اشعار سے اپنے دیوان مرتب کئے ہوں ۔ ہمارے خیال میں اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ اوّل یہ کہ صنفِ نعت بہت نازک صنف ہے اور بقولِ اعلٰی حضرت امام احمد رضا فاضلِ بریلوی رضی اللہ عنہ اِس میں افراط و تفریط کی گنجائش نہیں اگر حد سے بڑھتا ہے تو اُلوہیت میں پہنچ جاتا ہے اور کمی کرتا ہے تو تنقیص ہوتی ہے الملفوظ اس لئے نعت کہنا بہت مشکل کام ہے ، اِس مشکل کام سے وہی شاعر عہدہ بر آ ہو سکتا ہے جو مہارتِ فن کے ساتھ ساتھ ایک سچے عاشقِ رسول کا دل رکھتا ہو ۔ سرورِ کون و مکاں کی محبت میں دل گداختہ ہو جانا مردِ مومن کی شان ہے ، یہی وجہ ہے ہر شاعر اس فن میں طبع آزمائی نہ کر سکا صرف رسماً دو ۲ چار ۴ نعتیں کہہ دیں جن میں وارفتگی اور عشقِ رسول کی وہ جلوہ گری نہیں جو امام احمد رضا اور حافظ پیلی بھیتی کے یہاں دکھائی دیتی ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ صنفِ نعت کو اردو اہلِ ادب نے صنفِ سُخن ہی نہیں مانا ، اردو ادب کی پوری تاریخ کا مطالعہ کر جایئے کہیں اردو نعت اور نعت گو شعرا کا ذکر نہیں ملے گا ۔ کتنی عجیب بات ہے کہ نواسئہِ سرورِ کون و مکاں ، راکبِ دوشِ رسول حضرات حسنین کریمین سے متعلق مرثیوں کا تو اردو ادب میں خوب ذکر ہے اور مرثیہ گو شعرا انیس و دبیر کی شان میں اہلِ ادب نے زمین و آسمان کے قلابے ملا دئے ہیں لیکن افسوس جو باعثِ تخلیقِ کائنات ہیں اُس ذات کی نعت مقدس میں اردو ادب میں کوئی جگہ نہیں ہے ۔ غرض اردو نعت ابتدا ہی سے تعصب اور بے توجہی کا شکار رہی ہے اردو ادب کی تاریخ مرتب کرنے والوں میں وہ لوگ حاوی رہے ہیں جنہیں نعت اور نعت گو شعرا سے دشمنی تھی یا دلچسپی نہیں تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ نعت شریف کو یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل نہیں کیا گیا صرف محسن کاکوروی کا نعتیہ قصیدہ نصابوں میں شامل ملتا ہے وہ بھی قصیدوں کے ذمن میں شاملِ نصاب رہا ہے ۔ اِس موقع پر میں اپنے پی ایچ ڈی کے اُستاد روہیلکھنڈ یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر ڈاکٹر نواب حُسین خاں نظامی مرحوم کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ جب آپ ١٩٩١ ع میں یونیورسٹی کی نصاب کمیٹی کے کنوینر منتخب ہوئے تو آپ نے نعت کو ادبی حیثیت دلانے کے لئے ایم۔ اے۔ اردو کے نصاب میں نعت کو شامل کرانے کی کوششیں شروع کیں تو مخالفتوں کا ایک طوفان کھڑا ہو گیا لیکن حضرت نظامی صاحب کی نیک نیتی ، خلوص اور آقائے دوجہاں سے عشق الگ رہا اور وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہوئے چناچہ ١٩٩١ ع میں آپ نے ایم ۔ اے ۔ اردو کے پہلے پرچہ میں امام احمد رضا اور اُستادِ زمن حضرت حسن رضا خاں اور اُن کی نعتوں کو شامل کرایا اور ساتویں پرچہ میں خصوصی مطالعہ کے تحت اعلٰی حضرت امام احمد رضا خاں کا نام شامل کرایا ، یہ حضرت نظامی صاحب مرحوم کا یہ اتنا بڑا کارنامہ ہے جس کی مثال برِ صغیر ہند و پاک اور بنگلہ دیش میں نہیں ملتی ۔ اللہ تعالٰی مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے ۔ جب ہم بریلی کی نعتیہ شاعری کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ بریلی میں نعت گو شاعر تھے لیکن نعتیہ مشاعروں کا فقدان تھا ۔ نعتیہ مشاعروں کا آغاز اعلٰی حضرت امام احمد رضا کے برادرِ اصغر حضرت علامہ حسن رضا خاں کے زمانہ میں اُن کی کوششوں سے ہوا ۔ اِس سے قبل بریلی کے شاعروں میں بطور ہدیہ تبریک حمد ، نعت و منقبت خوانی ہوتی تھی ۔ علامہ حسن رضا خاں کے تلامذہ کی تعداد کثیر تھی چناچہ نعتیہ مشاعروں کی ضرورت محسوس کی جانے لگی اور اُن کا انعقاد بھی کیا گیا ۔ ١٨٥٧ ع کا دور ما بعد جس کا تعلق مولٰنا حسن رضا خاں حسن بریلوی سے ہے بریلی میں عظیم المرتبت نعت گویان پر مشتمل ہے ۔ نواب حیدر حسن خاں حیدر ، نواب عبد الرزاق خاں ، شاہ سید حُسین شاہ سید ، مولوی لطف علی خاں لطف ، سید شاہ فضل غوث ساقی ، حضور احمد خاں آثم ، سید فدا علی وامق ، جمیل الرحمٰن خاں جمیل وغیرہ وہ صاحبِ دیوان برگزیدہ شعرائے نعت ہیں جن پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے ۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ بریلی میں شعراء حضرات کی اچھی خاصی تعداد ہے اور تقریباً سبھی شعراء نعت و منقبت کہتے ہیں ۔ خانقاہوں ، درگاہوں میں محرم الحرام کے ایام میں اور دیگر مذہبی مواقع پر نعتیہ اور منقبتی مشاعرے اور نشستیں منعقد کی جاتی ہیں اور شعراء حضرات اپنے بہترین کلام پیش کرتے ہیں اور داد و تحسین وصول کرتے ہیں ۔ علامہ مولانا صغیر اختر مصباحی ، محترم اسرار نسیمی ، شکیل اثر نورانی ، عبد الرؤف نشتر ، ڈاکٹر محمد احمد خاں امن ، ڈاکٹر عدنان کاشف وغیرہ ایسے شعرا ہیں جن کے دم قدم سے نعت و منقبت کی محفلیں آباد ہیں ۔ جوان العمر شعرا میں راقم کے خواہر زادہ محمد بلال خاں ، بلال رازؔ بریلوی کو انفرادی و امتیازی حیثیت حاصل ہے ۔ وہ اِس لئے کہ اِنہیں کمسنی میں ہی شاعری کا شوق پیدا ہو گیا تھا ۔ شاعری کی ابتدا غزلوں سے کی بعد میں نعتیہ شاعری کا شوق پیدا ہوا اور نعتیں بھی کہنے لگے اور خوب کہتے ہیں ۔ کمسنی میں ہی اتنی کثیر تعداد میں نعتیں کہی ہیں جس کی مثال نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے ۔ بلال رازؔ ۱۳ ، ١٤ سال کے ہی تھے کہ شعر کہنا شروع کر دیا تھا ، وقت کے ساتھ ساتھ شوق پروان چڑھتا گیا اور ١٦ سال کی عمر میں باقاعدہ شاعری شروع کر دی یعنی مشاعروں میں بھی شرکت کرنے لگے ۔ بلال رازؔ کی ولادت ۵ اپریل ١٩٩٤ کو بریلی شریف کے محلہ کانکر ٹولہ پرانا شہر کے پٹھان خاندان کے معزز ، علمی ، دینی و مذہبی گھرانے میں ہوئی ۔ والد محمد اسلم خاں صاحب نیک اور شریف النفس شخصیت ہیں ۔ دادا حضرت شاہ عبد الرزاق علیہ الرحمہ عابد شب بیدار ، تقوٰی شعار ، اور صاحب کشف و کرامت ولی کامل تھے ۔ ترک و تجرید کی زندگی بسر کرتے تھے دنیا سے استغنٰی آپ کا شیوہ تھا ۔ آپ کے عقیدت مندوں کی ایک کثیر تعداد تھی ۔ شاہ دانہ پر آپ کا مزار مرجعِ خلائق ہے ۔ بلال رازؔ نے جس عمر میں شعر کہنا شروع کیا وہ حصولِ تعلیم کا دور تھا ۔ پہلے ایم ۔ کام ۔ کیا پھر اردو میں ایم ۔ اے ۔ کیا تعلیم کے حصول کے ساتھ ہی فکرِ معاش اور تلاشِ روزگار میں بھی سرگرداں رہے اور شعری سفر بھی جاری رکھا ۔ یہ تینوں کام ایک ساتھ انجام دینا بہت مشکل کام تھا لیکن رازؔ کے عزمِ مصمم نے اِس مشکل کو آسان کر دکھایا ۔ رازؔ کو شعر گوئی کا شوق کیسے پیدا ہوا بھی ایک راز ہی ہے جبکہ اُنکی ددھیال اور ننھیال میں کوئی شاعر نہیں ہوا ۔ اس سلسلے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ ودیعتِ خداوندی ہے جو ہر شخص کو نصیب نہیں ہوتی ۔ دراصل بلال رازؔ کو شاعری سے فطری لگاؤ ہے اور طبیعت بھی موزوں ہے اشعار نظم کرنے کی صلاحیت بچپن ہی سے حاصل ہے ۔ مولوی الطاف حُسین حالی مقدمہ شعر و شاعری میں لکھتے ہیں شاعر بننے کے لئے صرف موزوں طبع ہونا ضروری ہے اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ بلال رازؔ میں شاعر بننے کی ساری صلاحیتیں اور خوبیاں پائی جاتی ہیں ۔ اس پر مستزاد یہ کہ حضرت اسرار نسیمی جیسا لائق ، فائق ، کہنہ مشق شاعر ، مخلص و شفیق استاد ملا جنہوں نے رازؔ کے فنِ شعری کو جلا بخشی اور بامِ عروج تک پہنچایا ۔ ماشاء اللہ کلام اچھا ہے ۔ آواز بھی خوبصورت پائی ہے اس لئے بہت جلد شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا مشاعروں میں خوب داد و تحسین وصول کرتے ہیں ۔ ریڈیو اور دور درشن پر بھی شعر پڑھنے کے لئے بلائے جاتے ہیں اور ملک کے مختلف اخبار و رسائل میں بھی کلام شائع ہوتا رہتا ہے ۔ بلال رازؔ قابلِ مبارکباد اور لائقِ تحسین ہیں جنہوں نے کم عمری میں ہی کثیر تعداد میں نعتیں کہی ہیں ورنہ عموماً شعرا حضرات چار چھ نعتیں کہہ لیتے ہیں اور وہی مشاعروں میں سناتے رہتے ہیں دراصل نعت گوئی کے لئے سرورِ کون مکاں سے عشق و محبت شرطِ اوّل ہے ۔ رازؔ کی نعت گوئی آدابِ عشق و محبت کی آئینہ دار ہے اُن کی محبت نہ صرف ہر چیز سے بلند و بالا ہے بلکہ والہانہ عشق و محبت اور جاں نثاری سے پُر ہے ۔ بلال رازؔ کو جذبہِ عشقِ رسول اپنے جدِ امجد علیہ الرحمہ سے وراثت میں ملا ہے جو عاشقِ صادق تھے اور جن کا سینہ عشقِ رسول کا مدینہ تھا ، یہی وجہ ہے کہ رازؔ کا کلام عشق و مستی اور درد و سوز سے مالا مال ہے ۔ سلاست ، سادگی ، بے ساختگی ، اور روانی رازؔ کے کلام کی خصوصیات ہیں ۔ رازؔ کے کلام میں عشقِ پاکباز ، جذبہِ خود سپردگی ، وارفتگی و شیفتگی اور خلوص بدرجہِ اتم پایا جاتا ہے ۔ رازؔ اگر ایک طرف عظمتِ رسالت ، اظہارِ معصیت ، التجائے مغفرت اور احساسِ ندامت جیسے حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی شاعری کا حق ادا کرتے ہیں تو دوسری طرف فصاحت ، بلاغت اور لطیف طرزِ اسلوب پر بھی توجہ دیتے ہیں ، یہ آسان کام نہیں ہے مگر کچھ کر گزر جانے کے ایمانی حوصلے نے رازؔ کو ہر اعتبار سے سُرخرو کیا ۔ رازؔ کا خیال ہے کہ نعت مبارک کا یہ توشہ ان کے لئے زادِ آخرت ، سرمایہِ نجات بن جائے گا اِسی لئے وہ کہتے ہیں اللہ مدینے میں یوں مجھ کو قضا دینا

مٹی میری طیبہ کی مٹی میں ملا دینا


کچھ شعر عقیدت میں یہ رازؔ نے لکھے ہیں

اللہ جزا اِس کی تو روزِ جزا دینا

آقائے کائنات کی محبت ہی جانِ ایمان ہے اگر یہ نہیں تو انسان ایمان سے خالی ہے یعنی مسلمان ہی نہیں ہے ۔ اِس نظریہ کو رازؔ نے اِس طرح نظم کیا ہے

نہیں جس دل میں آقا کی محبت

اُسے ایمان سے کیا واسطہ ہے

  • * * * * * * * *


لاکھ پڑھ لیجئے نمازیں لاکھ حج کر لیجئے

اُلفتِ آقا نہیں دل میں تو سب بیکار ہے


کلام میں تڑپ یعنی خیال کے ساتھ جذبات کا شامل ہونا ضروری ہے اگر کلام میں تڑپ یعنی جذبات کی آمیزش نہیں تو وہ شاعرانہ خیال نہ ہوگا بلکہ حکیمانہ یا واعظانہ خیال ہوگا ۔ رازؔ کے کلام میں یہ تڑپ موجود ہے ۔ ملاحظہ ہو

مرے مولا مرے دل کو تُو ایسا آئینہ کر دے

نظر آئے رخِ سرکار دل کے آبگینے میں


الٰہی زندگی دی ہے تو دکھلا دے مدینہ بھی

بھلا کیا فائدہ ہے دور رہ کر ایسے جینے میں

  • * * * * * * * * *


رضائے مُصطفٰے میں پہلے تو خود کو فنا کر لے

خُدا پھر تجھ سے پوچھے گا بتا تیری رضا کیا ہے


غزل ایک آزاد صنفِ سُخن ہے اس میں کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہوتی ۔ شاعر اپنے خیالات و جذبات اور احساسات کا اظہار بلا تکلف کھُل کر کر سکتا ہے لیکن نعت ایک ایسی صنفِ سُخن ہے جس میں زبردست پابندیاں ہیں یہ بہت ہی دشوار فن ہے قدم قدم پر خطرے ہیں اِس میں جوش کی نہیں ہوش کی ضرورت ہوتی ہے ۔ رازؔ نے اس راز کو محسوس کیا اس لئے وہ کہتے ہیں

احتیاطوں کا تقاضہ اس میں ہر اک گام ہے

نعت کے اشعار کہنا سب سے مُشکل کام ہے


  • * * * * * * * * * * * *

یہ تو اُن کا فیض ہے جو رازؔ کہہ لیتا ہے کچھ

ورنہ نعتِ مصطفٰے کہنا بڑا دشوار ہے

  • * * * * * * * * * * * *


نعت گوئی کریں اپنے بس کا نہ تھا ہم کہاں اور کہاں مدحتِ مُصطفٰے

رازؔ ہم پہ نبی کا کرم ہو گیا ہم بھی نعتِ نبی گُنگُنانے لگے


نعتیہ شاعری کا ایک اہم وصف کلام میں عقیدت و محبت کے ساتھ ساتھ جدّت و ندرت کا ہونا ہے ۔ اگر یہ نہیں تو کلام میں زور و اثر پیدا نہیں ہوتا ۔ رازؔ کے کلام میں یہ خوبی پائی جاتی ہے ۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں ۔

اُنہیں کا تذکرہ ہے انتہا تک

اُنہیں کا تذکرہ ہے ابتدا سے


  • * * * * * * * * * * * *

آقا کا تصرف اب خود سوچئے کیا ہوگا

جب کام ہے ولیوں کا مُردوں کو جِلا دینا

  • * * * * * * * * * * * *


بڑی عظمت ہے کعبہ کی ہمیں تسلیم ہے لیکن

نبی کا آستانہ پھر نبی کا آستانہ ہے


رازؔ کی نعتوں میں تصنع اور آورد نہیں ہے بلکہ اشعار دل کی گہرایئوں سے اُبھرے ہیں اور صفحہِ قرطاس پر موتی کی لڑی کی طرح چمک رہے ہیں ۔ اُن میں حقیقی جذبات جلوہ گر ہیں ۔ درج ذیل اشعار ملاحظہ ہوں

رکھ لیتا ہے ہمارا بھرم آپ کا کرم

ورنہ ہمارا کون یہاں غمگُسار ہے

  • * * * * * * * * * * * *


چوم لیتے ہیں عقیدت سے خود اک دوجے کو لب

کس قدر میٹھا محمد مُصطفٰے کا نام ہے

  • * * * * * * * * * * * *


سمجھ میں ہی نہیں آیا کسی کو رازؔ یہ اب تک

کہ جنت میں مدینہ ہے یا جنت ہے مدینے میں


سرکارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم کی حدیث مبارک ہے اوّل ما خلق اللہ نوری اللہ نے سب سے پہلے میرا نور پیدا فرمایا اس حدیث مقدس کی ترجمانی رازؔ نے بہت خوبصورتی سے اس طرح کی ہے

نہ تھا جہان میں کچھ اُن کے نور سے پہلے

نبی تھے دونوں جہاں کے ظہور سے پہلے

تھے کائنات سے پہلے مرے حضور مگر

یہ کائنات نہیں تھی حُضور سے پہلے


رازؔ کی شاعری قرآن و حدیث اور تہذیبی عوامل کی ترجمانی سے منور ہے اور پورا کلام عشق و محبتِ رسول سے مہکتے اشعار سے معطر ہے ۔ رازؔ کا بے لوث عشقِ رسول عظمتِ حبیبِ کردگار کو کِس والہانہ انداز میں بیان کرتا ہے ملاحظہ فرمائیں

وہ نعمت ہی نہیں ہے بادشاہوں کے خزینے میں

جو نعمت بھیک میں ملتی ہے منگتوں کو مدینے میں


اُسے دنیا کا کوئی غم ہراساں کر نہیں سکتا

غمِ سرکارِ بطحا بس گیا ہے جس کے سینے میں


نبی کے قرب میں اِس کو ٹھکانہ کاش مل جائے

الٰہی رازؔ مر کر دفن ہو جائے مدینے میں

  • * * * * * * * * * * * *

عرش پر فرش پر لامکاں میں ذکر جاری ہے دونوں جہاں میں

ایسی کوئی جگہ ہی نہیں ہے جس جگہ اُن کا چرچہ نہیں ہے


ایک سچے پکی سُنی مسلمان کی سب سے بڑی اساس حُبِ نبی ہے جس کا دل محبتِ رسول سے خالی ہے وہ مسلمان کہلانے کا ہی حقدار نہیں ہے ۔ اُس کا روزہ نماز حج سب بیکار ہے ۔ تمام فضیلتوں اور سعادتوں کی بنیاد عشقِ رسول ہی ہے ۔ رازؔ اِس حقیقت کو یوں بیان کرتے ہیں


دل میں گر حُبِ شہہِ بطحا نہیں

پھر ترا سجدہ کوئی سجدہ نہیں


جو نبی کے ہاتھ سے مَس ہو گیا

جسم کیا کپڑا بھی وہ جلتا نہیں


سُنّیوں کا آپ کے گستاخ سے

کوئی رشتہ کوئی سمجھوتا نہیں


ایک کامیاب شاعر اپنی شاعری میں صنعتوں کا استعمال بہت خوبی اور مہارتِ فن کے ساتھ کرتا ہے ۔ رازؔ نے دو صنعتوں کا یعنی صنعتِ تلمیح اور صنعتِ تضاد کا استعمال بہت خوبصورتی کے ساتھ کیا ہے ۔ صنعتِ تلمیح جب شاعر اپنے کلام میں کسی آیت ، حدیثِ مبارکہ ، کسی مشہور تاریخی واقعہ یا کسی کہاوت کی طرف اشارہ کرتا ہے تو اُسے صنعتِ تلمیح کہتے ہیں ۔ رازؔ نے اپنی شاعری میں کثرت سے اس صنعت کا استعمال کیا ہے ، چند شعر ملاحظہ ہوں

پلٹ کے آیا ہے سورج قمر ہوا ٹکڑے

اشارے تم یہ مرے مُصطفٰے کے دیکھو تو

  • * * * * * * * * * * * *


مسکرائے نبی تو ضیا ہو گئی

آپ کی یہ ادا معجزہ ہو گئی

  • * * * * * * * *


نشانی دینا تھی دنیا کو تیری قدرت کی

وہ ڈوبا شمس پھِرانا تو اِک بہانہ تھا

وہ چاہتا تو نہ سورج کو ڈوبنے دیتا

مگر خدا کو تصرف ترا دکھانا تھا

  • * * * * * * * * * *


مصطفٰے شہرِ علم و حکمت ہیں

اور علی اُن کا باب کیا کہنے

  • * * * * * * *


میسر ہی نہیں ہے وہ گلاب و مشک و عنبر کو

خدا نے جو مہک رکھی ہے آقا کے پسینے میں


صنعتِ تضاد

ایک ہی شعر میں دو ۲ لفظ ایک ہی طرح کے ہوں مگر معنی الگ الگ ہوں ۔ اُسے صنعتِ تضاد کہتے ہیں ۔ رازؔ نے اِس صنعت کا استعمال بھی بہت خوبصورتی کے ساتھ کیا ہے ۔ ایک شعر ملاحظہ ہو ۔

جب اُن پہ مرنے والا بعد مرنے کے بھی زندہ ہے

بتاؤ پھر بھلا کیوں کر نہ ہوں میرے نبی زندہ


مصرع ِ اولٰی میں لفظ مرنے دو بار آیا ہے ایک بار فدا ہو جانے کے معنی میں دوسری بار موت کے لئے ، یہاں شعر میں صنعتِ تضاد ہے ۔ اعلٰی حضرت امام احمد رضا خاں تمام سنیوں کے امام یعنی سنیت کی علامت ہیں ۔ آپ عشقِ رسول کا ایسا مینارہِ نور ہیں جس کی ضیاپاشیوں سے تمام سُنیوں کے ذہن و دل روشن ہیں آپ عاشقِ صادق ہیں اس لئے ہر سنی مسلمان خواہ وہ کسی بھی سلسلے سے تعلق رکھتا ہو امامِ عشق و محبت سے عقیدت رکھتا ہے ۔ رازؔ خانقاہی مزاج کے ہیں اور مئے حُبِ نبی سے سرشار ہیں اِسی نسبت سے اُنہیں اعلٰی حضرت امام احمد رضا سے بھی عقیدت و محبّت ہے یہی وجہ ہے کہ اُن کے بعض نعتیہ اشعار امام احمد رضا کے نعتیہ اشعار کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں ۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں ۔

اللہ تبارک تعالٰی واحد اور لاشریک ہے اور اُس کے محبوب آقائے کون و مکاں یکتائے زمانہ ہیں آپ جیسا نہ کوئی ہوا نہ ہے نہ ہوگا ، اس کلیہ کو اعلٰی حضرت نے اس طرح بیان کیا ہے

                                          ترے  پایہ  کا  نہ  پایا  تجھے  یک  نے  یک  بنایا

بلال رازؔ نے امام احمد رضا کے اس شعر کی ترجمانی اس طرح کی ہے

اُن کے جیسا کوئی بھی نہ آیا اُن کے جیسا نہ رب نے بنایا

اُن کا ثانی کوئی کس طرح ہو جسم کا جن کے سایہ نہیں ہے


اعلٰی حضرت کا شعر ہے

وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں

تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں


بلال رازؔ نے بھی اس مفہوم کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے ۔

دشت کو لالہ زار کرتے ہیں

وہ خزاں کو بہار کرتے ہیں


اعلٰی حضرت کی نعت کا مقطع ہے

لیکن رضا نے ختم سُخن اس پہ کر دیا

خالق کا بندہ خلق کا آقا کہوں تجھے



بلال رازؔ نے اس کی ترجمانی اس طرح کی ہے

تو ہے خالق کا خلق ہے تیری

تو خدا کا تری خدائی ہے



آقائے کائنات جب اس دنیا میں تشریف لائے تو خانہ کعبہ کے سارے بُت ڈر و خوف سے کانپنے لگے . اعلٰی حضرت نے اس واقعہ کی تصویر کشی اس طرح کی ہے ،

تیری آمد تھی کہ بیت اللہ مجرے کو جھکا

تیری ہیبت تھی کہ ہر بُت تھر تھرا کے گِر گیا


بلال رازؔ نے اس شعر کی ترجمانی اس طرح کی ہے

جب پیمبر کی دنیا میں آمد ہوئی ہر طرف چھا گئی روشنی روشنی

کعبۃُ اللہ جھکا اُن کی تعظیم کو پتھروں کے صنم تھرتھرانے لگے


اس طرح کلامِ رازؔ میں بہت سے اشعار ہیں جن میں کلامِ رضا کی ترجمانی ہے لیکن طوالت کے خوف سے سب کا ذکر ممکن نہیں ۔ بلال رازؔ نے سرورِ کون و مکاں کے اخلاق و عادات ، علمِ غیب ، رفعت ، سربلندی ، تصرفات و اختیارات ، آپ کی دستگیری و شفاعت ، آپ سے عقیدت و محبت و غلامی وغیرہ تمام تشکیلی عناصر جو نعت مبارک کے لئے لازمی ہیں بڑی خوش اسلوبی اور مہارتِ تامّہ کے ساتھ استعمال کئے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی آرزو و تمنا ، مناجات ، حبِ نبی ، سرکارِ دو عالم کا وسیلہ ، فریاد ، اپنی عاجزی و انکساری ، عقیدہ و عقیدت وغیرہ کا ذکر کر کے سرکار سے اپنی وارفتگی و شیفتگی اور والہانہ لگاؤ کا ثبوت قدم قدم پر پیش کیا ہے ۔ میں بارگاہِ الہی دعا گو ہوں کہ اللہ تبارک تعالٰی اُن کی اس عظیم کاوش کو قبول فرما کر اِسے اُن کے لئے زادِ آخرت و ذریعہِ بخشش بنائے اور رازؔ کی بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہُ علیہ وآلہِ وسلم میں عقیدت کیشوں کے ثمرات و خیر و برکات سے ہم سب کو بھی حصہ عطا فرمائے اور بلال رازؔ کی نعتوں کی برکتوں سے قلب و نگاہ مجلّٰی و مصفّٰی کر دے ۔ آمین ۔


ڈاکٹر محمد حسن قادری ایم ۔ اے ( اُردو ، پولیٹکل سائنس ، سوشیا لوجی ) ساہتیہ رتن ۔ پی ۔ ایچ ۔ ڈی ذخیرہ ، بریلی 09411219921