اقبال سہیل اور موجِ کوثر ۔ پروفیسر مولا بخش

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Mola Bakhsh.jpg

مضمون نگار: پروفیسر مولا بخش

مطبوعہ : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27

ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

The article presented here is based upon description and comparative study of a praiseworthy devotional poem written by Iqbal Suhail, called Qasida. The Qasida, analyzed hereunder, contains the Radeef [word or words to be repeated in both lines of first couplet and thereafter in second line of each couplet without change, in a poem] Sall-allah-o-Alaihe-Wassallam i.e. Drood Sharif. Poetical beauty of verses in order to clarify meaning and aesthetics of use of words in the Qasida has been highlighted to introduce craftsmanship of poet. Effort made in the article to capture, essence of sacred emotions plus beautified expression of poet along with his correct knowledge of aspects of life of Holy Prophet Muhammad (S.A.W). The Qasida written by Iqbal Suhail deserves high position in the genre of devotional poetic literature.

اقبال سہیل اور موجِ کوثر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعتیہ قصیدہ یا نعتیہ شاعری کی جملہ صورتیں اس امر کا اعلان کرتی ہیں کہ کوئی بھی متن خالص نہیں بلکہ ہر متن بین متن کا مظہر ہے۔یعنی شاعری یا ادب اپنے اسلوب اور طرز احساس کی وجہ سے ہی عظیم قرار پاتا ہے۔غزل میں دیکھیے مضامین متحدہ کا سیلاب ہوتا ہے مضامین مختلفہ تو چند خوش قسمت شعرا کے یہاں ہی بمشکل نظر آئے اور یہ مضامین متخیلہ بھی کیا ہیں وہ جو قاری کے حافظے سے سرک کر تحت الشعور کا حصہ بن چکے ہوتے ہیں۔ قصیدہ چاہے وہ مذہبی عظیم المرتبت شخصیات کاہو، ابنیاء، صحابہ، ائمہ، صلحا کا ہو یا کسی بادشاہ،وزیر یا صاحب حیثیت کا یہاں یہ تو طے ہے کہ تعریف یا ہجو کی جائے گی یعنی مضمون سبھی کے تقریباً طے شدہ ہوتے ہیں۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ ان میں کوئی خاقانی تو کوئی سودا تو کوئی محسن کاکوروی اور کوئی اقبال توکوئی اقبال سہیل صرف اس لیے بن جاتا ہے کہ وہ زبان و بیان کی طرفگی اور مصرعوں کے معنوی تیوروں کا خیال رکھتے ہوئے طے شدہ مضمون میں معنی کی نئی کرن کو محسوس کرلیتا ہے یعنی کسی ایک مظہریا ممدوح کی ذات کواپنے نقطۂ نظر سے دیکھنے کا فنی ہنررکھتا ہے۔ جیسے معراج کا واقعہ نعت میں مشہور ترین مضمون بنتا آیا ہے۔ اسے اقبال نے نئے معنوی تیور میں کچھ یوں دیکھا:

سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے

کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں

بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہاں حضور ؐ کوعظمت انسانی کی دلیل بناکر کیوں کر پیش کیا گیا ہے۔ علامہ اقبال ہی کی طرح اقبال سہیل نے نعتیہ قصیدوں، مثنویوں، قطعات، منقبتوں،نعتیہ خمسوں اور غزلوں میں معنیاتی درون اور طرفگئ خیال کے سہارے عشقِ رسول سے متعلق جذبات و احساسات کا نغمۂ دلنواز چھیڑا ہے جو اپنے سننے اور پڑھنے والوں کو شاہِ عربؐ سے محبت اور سرشاری کے متبرک عالم میں لے جانے کا براق بن جاتا ہے۔

نعتیہ ادب کے ایک نقاد عزیز احسن نے اپنی کتاب اردو نعت اور جدید اسالیب میں لکھا ہے:

’’اردو کی نعتیہ شاعری میں شاعرانہ رویے کا شروع ہی سے فقدان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میدان میں بڑی شاعری اب تک صرف ایک خواب ہے جو شرمندۂ تعبیر ہونے کے لیے شعرا کو مسلسل دعوت دے رہا ہے۔‘‘ (عزیز احسن، اردو نعت اور جدید اسالیب (۱۹۹۸ء) فضلی سنز پرائیوٹ لمیٹیڈ، اردو بازار کراچی، ص:۳۴)

اس خیال سے اتفاق کرنا ذرامشکل ہے لیکن یہ سچ ہے کہ نعت کہتے وقت ننانوے فیصد شعرا شعریت کو ذہن میں نہ رکھتے ہوئے کھوکھلی تعریفوں اور ثواب پر نظر رکھتے ہیں۔ لیکن اردو میں اس ذیل میں کسی حد تک حالی اور بڑی حد تک اقبال، محسن کاکوروی، امام احمد رضا اور اقبال سہیل کے علاوہ حالیہ زمانہ میں بھی چند شعرا نے نعتیہ شاعری کے ذریعے عام شاعری کے معیاروں سے آگے جانے کی مثالیں فراہم کی ہیں۔ اقبال سہیل کے نعتیہ قصیدے زبان و بیان اور شکوہ بیان کے لحاظ سے اردو میں اعلیٰ شاعری کا نمونہ تو ہیں ہی نعت کہنے کا پیمانہ بھی وضع کرتے نظر آتے ہیں۔ زیرغور قصیدہ ’’موج کوثر‘‘ صنفِ قصیدہ کے صوری و معنوی ابعاد و عناصر کو فنی طریقے سے اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ ہر چند کہ یہ قصیدہ قصیدے کی اس قسم سے تعلق رکھتا ہے جہاں تشبیب نہیں ہوتی۔ قصیدہ گو راست طریقے سے مدح سرائی سے ہی قصیدے کا آغاز کرتا ہے اور دعا پر قصیدہ اختتام کو پہنچتا ہے لیکن اقبال سہیل کے دیگر نعتیہ قصائد میں بہاریہ، فلسفیانہ اور حکمت سے معمور سودمند علوم سے متعلق تشابیب کے علاوہ گریز کی فنی صورتیں اگر بہت اعلیٰ نہیں تو کم از کم اس پائے کی ضرور ہیں جنہیں قارئین حیرت سے پڑھتے ہوئے ایک خاص نوع کے جمالیاتی کیف کے ساتھ رسالت مآبؐ کے قریب خو د کو محسوس کریں۔

اقبال سہیل اپنے قصیدوں میں اپنے ممدوح کواپنی نظر سے دیکھتے ہیں، اگر غائر نظر سے دیکھیں تو ان کے نعتیہ قصائد میں ملک کے مسائل، اپنی قوم کی زبوں حالی او رملک کی غلامی سے نالاں اور انگریزوں کے استبدادی نظام، کالونیل جبر کا دکھ سرور کائنات سے مخاطبت میں نظر آتا ہے۔ ان کے قصیدے مشرقی اقدار کی بازیافت اور نوآبادیاتی آقاؤں کی ذہنیت کا پردہ فاش یوں کرتے ہیں کہ وہ دنیا کے ایک ایسے انسان کے حضور قاری کو لے جاتے ہیں جس کا نام پوری دنیا میں ایک ہی وقت میں بلند میناروں سے پکارا جاتا ہے اور جس نے دنیا میں اللہ کا غلام بننے کے علاوہ کسی بھی ہستی کی غلامی سے نجات کا راستہ دکھایا ہے۔ دیکھیے اپنے عہد کی انگریزی سیاست اور اس کے خلاف آزادی کی سیاسی جدوجہد کو کس طرح نعتِ نبی کے مندرجہ ذیل شعر کی بندشوں میں معنی کی لاشعوری جہتوں کومترشح کرتے ہیں۔

باغ جہاں کا حارس نامی جس نے مٹائی رسم غلامی

پھر سے سنوارا گلشنِ آدم صلی اللہ علیہ وسلم

’پھر سے سوارا گلشنِ آدم‘ مصرعے کا آدھا یونٹ دنیا کو سنوارنے کے جتن او رسنت نبویؐ کی ادائیگی کے نئے سیاق کی طرف قاری کو لے جاتا ہے۔ یعنی گلشن آدم کوسنوارنے کی صورت اُنہیں ہندوستان کو انگریزوں سے پاک کرتے ہوئے تحریک آزادی میں نظر آئی۔ آگے سنیے حضور کی ذات اقدس نے جہاں ان گنت عجوبے بطور اصلاح کیے ان میں سے ایک دو یہ بھی ہیں:

وہم کی ہر زنجیر کو توڑا رشتہ ایک خدا سے جوڑا

شرک کی محفل کردی برہم صلی اللہ علیہ وسلم

فرد و جماعت،امر و اطاعت کسب و قناعت،عفو و شجاعت

حل کیے جو اسرار تھے مبہم صلی اللہ علیہ وسلم

پہلے شعر میں توحید کا فلسفہ اور ایک خدا سے رشتہ جوڑنے کی بابت خیرسرتاپا سیاست مدن کا بھی سیاق رکھتا ہے کہ قوم اسی توحید کی بنیاد پر خلق ہوتی ہے۔ دوسرے شعر میں عطفی مرکبات، فرد و جماعت، امرو اطاعت، کسب و قناعت، عفو و شجاعت اپنی جگہ مستقل سماجی، سیاسی اور روحانی فلسفے کی جہت رکھتے ہیں۔ فرد اور جماعت میں سے کون اہم کون غیراہم، ان کے مابین جدلی رشتہ ہے یا تکملے کا۔ جماعت کے بغیر فرد اور فرد کے بغیر جماعت کے معنی کیا ہوں گے۔ یعنی خودی بغیر بے خودی کیا معنی رکھتی ہے شاید کچھ نہیں اور یہ کہ جماعت کے لیے خودی کے لیے فرد/خودی کی تشکیل کا جذبہ ہی اصل فرد و جماعت کا جوہر ہے۔ حکم کون دے کیوں دے اور کس طرح کا حکم دے۔ اطاعت کب بزدلی ہوجاتی ہے کب کارثواب، یہ حضور نے ہی ہمیں سکھایا۔ صبر کے اصل مفہوم کیا ہیں اور عمل کسب کی شرعی جہتیں کیا ہیں۔ معاف کون کرسکتا ہے، کسی کو معاف کرنا کیوں کر شجاعت کا جوہر ہے۔ ایک مصرعے میں اقبال سہیل نے انسانیت کے جوہر کے فلسفے کو کشید کرکے رکھ دیا ہے اور مژدہ سنایا ہے کہ ان غیرواضح فلسفوں اور تصورات کو آقا نے دنیا میں آکر بالکل دو اور دو چار کی طرح سمجھادیا۔ یہ موج کوثر یعنی قصیدہ میمیہ کے چند ان اشعار سے ماخوذنمونے تھے جن میں مادح یعنی اقبال سہیل نے رسالت مآب کی انسانیت کے تئیں خدمات اور کارنامے گنوائے ہیں۔ یہ طویل بلکہ اقبال سہیل کا سب سے طویل قصیدہ ہے جس کی ردیف درودشریف ہے۔ اس قدر طویل قصیدے میں قافیے کو نبھانا اور خود کو مغالطے کے عیب سے بچائے رکھنا یعنی اگر دوبارہ یا سہ بارہ کسی قافیے کو اگر باندھا ہے تو قافیے یعنی لفظ کے معنی اور مزاج کو بدل دینے میں کامیابی حاصل کرنا، قارئین کو انہیں داد و تحسین دینے پر مجبور کرتا ہے۔

دوسری خوبی اس قصیدے کی یہ ہے کہ فعلن فعلن فعلن فعلن کی مثمن صورت کو یعنی آٹھ رکن کو چار چار میں بانٹ کر ہر چار رکن میں قافیے کا التزام رکھا ہے اور بہت سے ایسے اشعار ہیں جن میں قافیوں کی برسات ہے یعنی Internal Ryhmeبرائے لفظی تکرار ہی نہیں بلکہ معنی آفرینی کاذریعہ بنتے نظر آتے ہیں۔ اس ذیل میں موج کوثر سے ماخوذ چند اشعا رملاحظہ فرمائیں:

بزم ملل تھی نظم سے خالی بکھرے ہوئے تھے حق لآلی

اس نے کیے سب آکے منظم صلی اللہ علیہ وسلم

حفظ مراتب پاس اخوت سعی و توکل رفق و فتوّت

تلک حدود اللہ میں مُنضم صلی اللہ علیہ وسلم

الفت قربی، قطع علائق، حب وطن اور حب خلائق

کردیے سب توحید میں مدغم صلی اللہ علیہ وسلم

مذکورہ اشعار کے مصرع اول میں خالی، لآلی، اخوت فتوت، علائق خلائق، اتنے طویل قصیدے کے ہر شعر کے مصرع اول میں قافیے کے اس التزام کی وجہ سے شعر کے معنیاتی حسن پر فرق پڑنا لازمی تھا۔ لیکن حیرت ہے اقبال سہیل نے اس التزام کو معنی آفرینی کا ذریعہ بنالیا ہے جس کی داد فن کے استاد اور اساتذہ نے انہیں دی ہے۔ جیسے اسلم جیراجپوری، افتخار اعظمی،مرزا احسان بیگ، شاہ معین الدین احمد ندوی اور عطیہ خلیل عرب کے علاوہ نعت کے ہمعصر نقاد جیسے صبیح رحمانی کے توسط سے انور سدید اور عزیز احسن وغیرہ۔

آئیے اب ذرا قافیوں کی بہار اور اس کے معنیاتی حسن کا مظاہرہ کریں۔

اسوۂ اجمل، دین ممثل، نطق مدلل، وحی منزل

شرع معدل، سِلمِ مسلّم صلی اللہ علیہ وسلم

مقصد امکاں، مِہبط قرآں،منبع احساں،مرجعِ دوراں

روح کے درماں قلب کے مرہم صلی اللہ علیہ وسلم

باطن و ظاہر، طیب و طاہر، خسروِ قاہر، کوکبِ باہر

جا ن مظاہر مرکز عالم صلی اللہ علیہ وسلم

کَنزِدقائق، حِصنِ حقائق، جان حدائق، روح خلائق

سب پر فائق سب پر اقدم صلی اللہ علیہ وسلم

مہر رسالت، مہر جلالت، عین عدالت، خضر دلالت

اے بہ کمالت ناطقہ ابکم صلی اللہ علیہ وسلم

آپ نے قافیہ در قافیہ کی مذکورہ بالا صوتی جھنکار اور ان میں موجود معنی آفرینی کے سیاق و سباق کو ملاحظہ فرمایا۔ شعر نمبر (۳) دیکھیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ جن لفطوں کو قافیہ کیا ہے وہ محض صوتی جھنکار نہیں معنوی جھنکار اور معنی آفرینی کا ذریعہ بنے ہیں۔ کہا ہے آقا کوکہ آپ جان مظاہر ہیں۔ اشارہ یہ ہے کہ وہ کائنات کی روح ہیں۔ ہم خاکی عام انسان ظاہر و باطن میں توازن نہیں رکھ پاتے۔ اس بات پر جھگڑنے لگتے ہیں کہ رسول عربی روح ہیں یا جسم یاجسم و روح معراج روحانی ہے جسمانی۔ ذرا غور کیجیے ذوقافیتین کا التزام سیرت نبوی کے عجائب کو کتنے بااثر بنانے میں اہم رول اداکرتے ہیں یا انہیں چشم بصیرت سے دیکھنے کا ملکہ اپنے قارئین یا سامعین میں کیوں کر پیدا کرتے ہیں۔ کوکب باہر کہہ کر حضور کی ذات کے وصف کو دوچند کردیا ہے اور وہ یہ کہ ہر چمکتی شے کو دیکھنے کے بعد نہ جانے کیوں ہمیں یہ خیال ہی نہیں آتا کہ وہ باہر سے چمکیلی تو ہے اندر سے کیسی ہوگی ہم اس شے کے پورے وجود کو روشن خیال کرتے ہیں یعنی حضور کو ہم ظاہر و باطن کی اصطلاحوں میں بانٹ کر نہیں دیکھ سکتے بھلا سورج اندر سے خالی ہے اور باہر سے اس میں آگ بھری ہوئی ہے، ایسا خیال ہمارے ذہن میں کیوں نہیں آتا۔ وہ اندر اور باہر سے ہمیں یکساں ہی تو نظرآتا ہے۔

کوکب باہر کو دیکھیے کوکب ستارہ جیسے ہی ذہن میں آتا ہے روشن ہوتا ہے اس میں جوڑا ہے باہر اور جس کے معنی چمک اور روشنی کے ہیں۔ التباس بھی خوب ہے باہر سے باہر کا دھوکہ بھی ہوتا ہے کہ جو اندر سے روشن ہے وہی توباہر بھی روشن ہے۔ ایسے حضور کی ذات کی تقسیم کے کیا معنی رہ جاتے ہیں ان کاکیا ظاہر اورکیا باطن دونوں یکساں ہیں۔ پھر نبی دوراںؐ کو مرکز عالم کہا ہے اسے یوں سمجھیے۔ دل جسم کا مرکز ہے بھلا دل کا ظاہر اور باطن کیا ہوسکتا ہے۔پھر جو برزخ کبریٰ ہو اسے ظاہر او رباطن کے جھمیلے سے کیا مطلب۔ آپ نے دیکھا کہ اقبال سہیل قافیہ پیمائی تو کرتے ہیں لیکن قافیوں کی ترتیب سے معنی آفرینی کی ایک دنیا آباد کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے مشرقی علوم و ادبیات اور ادب العالیہ پرگہری نظر رکھنے والے نقاد ظفراحمدصدیقی نے اقبال سہیل کے نعتیہ قصیدہ ’’کرے تار شعاعی لاکھ اپنی سعی امکانی*افق ہوتا نہیں اب صبح کا چاک گریبانی ۔۔۔کیا بلیغ مطلع ہے سودا کا اس زمین میں جوقصیدہ ہے اس کے بعض معائب کی وضاحت کرتے ہوئے ظفراحمدصدیقی نے لکھا ہے کہ:

’’گریز کے بعد مدح شروع ہوتی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سہیل کے زیربحث قصیدے کا سب سے منفرد دلکش حصہ یہی ہے۔ اس انفرادیت کے کئی پہلو ہیں۔ اول یہ کہ سہیل نے نعت کی بنیاد جن مضامین پر رکھی ہے وہ روایتی اور بار بار کے باندھے ہوئے نہیں ہیں بلکہ ان میں بیشتر سہیل کے یہاں پہلی بار سلک نظم میں پروئے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر:

محمد وہ کتاب کون کا طغرائے پیشانی

محمد وہ حریمِ قدس کا شمعِ شبستانی

(معارف، مجلس دارالمصنفین کا ماہوار علمی رسالہ، ۱۹۵؍۴ اپریل ۲۰۱۵ء، ظفراحمدصدیقی،

اقبال سہیل کا ایک نعتیہ قصیدہ تقابلی مطالعے کے روشنی میں، ص:۲۸۴)

ظفراحمدصدیقی نے نہ صرف سودا بلکہ سہیل کے اس قصیدے کا موازنہ محسن کاکوروی کی اس زمین میں لکھے قصیدے سے کرتے ہوئے سہیل کے قصیدے کو صوری و معنوی اعتبار سے دونوں سے بڑھا ہوا دکھایا ہے اور ساتھ ہی سہیل کے قصیدے کی کمی کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ اور وہ یہ کہ اس نعت میں دعا کا حصہ نہیں ہے۔ جس قصیدے کا تجزیہ راقم کررہا ہے اس قصیدے میں بھی دعا کا حصہ نہیں ہے۔ قصیدہ جس شعر پر ختم ہوتا ہے وہ یہ ہے:

نظم سہیل ان کا ہی کرم ہے ورنہ یہاں کب تاب رقم ہے

ان اللّٰہ تعالیٰ اعلم، صلی اللہ علیہ وسلم

یعنی اخیر میں اپنی شاعری کا بھی مرجع رسالت مآب کی ذات کو بتایا ہے۔خیریہ تو جملہ معترضہ تھا۔ ظفراحمدصدیقی نے اس امر کا انکشاف کیا ہے کہ سہیل پامال مضمون کے بجائے مضامین تازہ یا نئے مضامین زیادہ باندھتے ہیں۔ نعتیہ قصائد اور دیگر نعتیہ اصناف میں جن مضامین متحدہ پر زور ملتا ہے ان میں مدینہ اور یہاں کے مناظر، مدینہ جانے کی تڑپ کا اظہار، گنبد خضرا کے نظارے کا اظہار حضور کا شافع محشر ہونا، دوسرے انبیاء سے آپ کا تقابل، احد سے متعلق مضامین، مدینے کاموازنہ جنت سے کرنا (جسے غیرشرعی قرار دیا گیا ہے) حضور کی کملی کاذکر جسے ہندی شعرا نے بھکتی کا رنگ بھی عطا کردیا ہے۔ گنبد خضرا کا طواف کرتے ہوئے کبوتروں کاذکر، حضرت جبریل کا ذکر، عشق رسول میں جبریل کی تحقیر کرنے کا غیرشرعی عمل، واقعہ معراج سے متعلق مضامین (اقبال سہیل نے معراج پر باضابطہ ایک قصیدہ لکھا ہے)

نبی کی بعثت، ولادت سعادت سے متعلق مضامین ، حضور کے جمال صوری و معنوی کے مضامین، اسمائے مبارکہ، اسوۂ مقدسہ آپ کی اتباع کی آرزو، آپ کی تعلیمات، تعلق مع اللہ، ان کی خدمات، عظمت، معجزات اور ان کے اصحاب کی توصیف سے متعلق مضامین، امت کی شفاعت کی التماس اور حضور کے دیدار کی تمنا سے متعلق مضامین کے علاوہ اور بھی بہت سے مضامین نعتیہ قصیدے کے مضامین متحدہ قرار پاتے ہیں۔ اقبال سہیل کے زیرنظر تجزیہ قصیدے میں حضور کے اسمائے مبارکہ اور صفات سے متعلق نئے مرکبات کثیر تعداد میں نظر آتے ہیں جیسے برمغ فارس، قدس کے رہباں، آئینہ الطاف الٰہی، لمعۂ قدس،مہبط قرآن، مرجع دوراں، صدر مکرم، حارس گیہاں، عروۂ وثقیٰ، حاذق دوراں، جانِ مظاہر، بحر قدم کا موج نخستیں (یعنی پرانے سمندر میں اٹھنے والی پہلی موج) آپ ایسے نادر القاب اور صفات سے متعلق تراکیب اور بھی تلاش کرسکتے ہیں جن کی حیثیت ایک استعارے کی ہے۔

برمغ فارس، قدس کے رہباں،کشور بابل، وادئ کنعاں

سب کی زباں پر مژدہ مقدم صلی اللہ علیہ وسلم

آئینہ الطاف الٰہی،رحمت جس کی لامتناہی

جس کی ہدایت ارحم ترحم صلی اللہ علیہ وسلم

لمعۂ قدس تن بے سایہ، جس کی بدولت خلق نے پایا

دین مکمل خلق متمِّم صلی اللہ علیہ وسلم

مقصد امکاں،مہبط قرآں،منبع احساں،مرجع دوراں

روح کے درماں قلب کے مرہم صلی اللہ علیہ وسلم

شافع محشر،ماحئ عصیاں، حامی مضطر، حارس گیہاں

ساقئ کوثر، وارث زمزم صلی اللہ علیہ وسلم

سید بطحیٰ، مخبر صادق، عروۂ وثقیٰ مصحف ناطق

برزخ کبریٰ،آیۂ محکم صلی اللہ علیہ وسلم

ابر در افشاں، سرور سامی،بدردرخشاں صدر گرامی

حاذق دوراں چارہ گر غم صلی اللہ علیہ وسلم

منجملہ فنون سخن میں قصیدہ محض شاعری نہیں علم اور اگر نعتیہ قصیدہ ہے تو علم228عقیدت228شاعری کی شکل میں عظیم شاعری (High Poetry)کے بطور معرض وجود میںآنے والی شاعری کا نام ہے۔وہ بھلا کیا قصیدہ جس میں سامنے کے الفاظ کی بھرمار ہو۔قصیدہ نگاری کا ایک مقصد وہ الفاظ جو ہمارے حافظے سے معدوم ہورہے ہوں ان کی یاد تازہ کرنا بھی ہے یعنی قصیدہ تقلیل الفاظ کی شاعری ہے نیز سرتاپا تخیلی شاعری بھی ۔

بات جب مظہر کبریا کو تخیل228عقیدت کی نگاہ سے دیکھنے کی سامنے آتی ہے، جو نعتیہ قصیدے کی سرشت ہے ،تو غلو کے اورمدح میں بہک جانے کے امکانات بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ کمال یہ ہے کہ سہیل نے اپنی چشم تخیل اورعقیدت کے جذبات سے لبریز ہونے کے بعد صاحب معراج کو اپنی نظر خاص سے دیکھتے ہوئے حضورؐ کو کن صفات سے متصف کیا ہے مندرجہ بالا اشعار میں تراکیب اس امر کی گواہ موجود ہیں۔ان میں کچھ مرکبات تو وہی ہیں جوچلن میں ہیں لیکن بیشتر ان کے شعری کمالات کا اظہار ہیں۔اتنے اجنبی الفاظ استعمال اس نعت میں استعمال کئے گئے ہیں کہ عام قاری تقریباً سو بار دیکھے اور عالم بھی متعدد بار۔ اس کے کیا معنی ہیں اس کے معنی ہیں کہ وہ اپنے علم اور ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ تو کرے ہی بار بار رسالت مآب کے پوشیدہ خصائص،صفات یاعجائبات پر غور کرے،محسوس کرے اور حضور کی ذات اس پر منکشف ہوجائے۔اب بھلابتائیں حضنِ حقائق کیا ہے؟ حَضْن کے معنی فلسفے کے ہیں یعنی Philosophy of realityیہاں یہ استعارہ ہے جوشے کی اصل حقیقت کوسمجھتا ہو۔وہ بھلا آقائے نامدار کے علاوہ کون ہے۔جان حدائق بمعنی باغ کی جان مگر استعارہ کیا ہے اگر یہ دنیا ایک باغ ہے تو اس کی جان محمدؐ ہیں۔ باغ کی جان دنیا کی جان ترتیب، عدل اوربھائی چارگی اور انسانیت پسندی کے علاوہ کیا ہوسکتی ہے یعنی رسول عربی ان خصائص کامنبع ہیں۔

یہ طویل نعت اسمائے صفات محمدؐ کاایک دفتر ہے جسے ہم حضور کا ایک صوری اورمعنوی خاکہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جس میں حضورؐ کے ظاہر و باطن کو ایک جانتے ہوئے ان کے جسم اور روح یعنی صورت اور سیرت کونشان زدکیا گیا ہے۔حضور کے جسم اطہر کے جمال کا بیان جن تراکیب یامرکبات کے سہارے کیا گیا ہے ان میں جسم مزکی، لمعۂ قدس، تن بے سایہ، شرح الم نشرح، وہ سینہ،نوری تنکملی میں چھپائے، انکے ابرو کیسے معلوم ہوتے ہیں کچھ اس طرح ’طاق عبادت ابروئے پرخم،قامت رعنا،نطق مدلل،خلق خلیلی اورنطق کلیمی جیسی تراکیب کے ذریعے حضور کاخاکۂ اقدس پیش کیا ہے۔یہ تو آقا کی وہ صورت ہے جسے ایک مادح نے اپنے تخیل کی آنکھوں سے دیکھا ہے لیکن مادح کی نظر میں ان کا ظاہراورباطن ایک ہے۔

اقبال سہیل نے حضور کی ذات کے علاوہ ان کے شہرمدینہ، گنبد خضرا کے منظر کو اپنے ڈھنگ سے باندھا ہے۔

گنبد سبز کے بسنے والے ماہ رسالت کے دوہالے

آج بھی دونوں ساتھ ہیں ہمدم صلی اللہ علیہ وسلم

صدر امم سلطان مدینہ وہ جس کے کف پا کا پسینہ

گل کدۂ فردوس کاشبنم صلی اللہ علیہ وسلم

دیکھیے دوسرے شعر میں نازک خیال کی حد کردی ہے کیسا پیکر حضور کا ہمارے سامنے رکھا گیا ہے کہ وہ گل کدۂ فردوس کی شبنم ہیں۔یعنی جنت کے پھولوں پر ٹپکنے والی شبنم کے مانند ہیں۔ سبحان اللہ۔

حضور کی کملی سے متعلق یہ اسلامی اورہندی ثقافتی مدلولات کے ذریعے یعنی نوری228تن اور لفظ رم جھم کے ذریعے کیسی انوکھی تصویر بنائی ہے۔

نوری تن کملی میں چھپائے بادل میں بجلی لہرائے

نورکا مینھ برسائے رم جھم صلی اللہ علیہ وسلم

گویا کہ موج کوثر میں اول حصے میں حضور کے اوصاف حمیدہ اوران کی سماجی، سیاسی،ثقافتی،روحانی اورخدمت خلق کا بیان کیا ہے۔ دوسرے حصے میں ان کے اصحاب کے اوصاف اوران کے اٹوٹ رشتے کی اہمیت لیکن ان جملہ بیانات کاتفاعل نبی کی ذات اورانبیاء میں ان کے انفراد کی نشاندہی ہے۔اس نعت کا مادح اپنے شعری طریق کاراورزبان کے استعمال کی نوعیت کے اعتبار سے ایک سچاعاشقِ رسول نظرآتا ہے۔اگر آپ غور کریں تو درود شریف پرمبنی ردیف پرقصیدہ امیرمینائی نے بھی کہا ہے مگر وہ انداز کہاں جو احمدسہیل کے پاس ہے۔ پاکستانی شاعر احسان اکبر نے اسی زمین میں نعت کہی ہے ، جس سے اقبال سہیل کی اس نعت کی مقبولیت کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ایک شعر سنئے:

کام کمال کرامت والا، ناداروں کی راحت والا

دیں دنیا کے درد کا مرہم صلی اللہ علیہ وسلم

احسان اکبر کا لہجہ حالیؔ والا ہے جس کے بارے میں حسن عسکری نے کہا تھا کہ:

’’حالی کی نعت کاخلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت کاکردارنہایت بلند تھا اور ان سے ہمیں بڑے فائدے پہنچے۔ بلند کردار کے لوگ اور انسانیت کوفائدہ پہنچانے والے تو بہت ہوئے ہیں مگر ان سے لاکھوں انسانوں کوایسی والہانہ محبت کیوں نہیں ہوتی جیسی آنحضرت سے ہے۔ اس کا جواب ہمیں حالی کی نعت میں نہیں ملتا۔‘‘

(صبیح رحمانی،اردو نعت کی شعری روایت،اکادمی بازیافت کراچی پاکستان (۲۰۱۶ء) ص:۲۷۹)

مجھے کہنے دیجیے کہ اس کا جواب ہمیں اقبال،محسن کاکوروی اورکچھ دیگر شعرا کے علاوہ اقبال سہیل کے یہاں ملتا ہے۔اس نعت کو سنتے یا پڑھتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے برسوں کی ریاضت، محنت اور کوشش کے بعد حضور اخیر میں ایک اونچے الوہی ٹیلے پر بیٹھے اپنی امت کی حرکات وسکنات نیز اپنے پیغام کے اثرات دیکھ رہے ہیں اور ہم میں سے ایک شخص اقبال سہیل اپنے نبی کی ایک ایک ادا،ایک ایک وصف، ایک ایک بات شفقتوں،مہربانیوں کا یکے بعد دیگرے ایک مجاہد اور عاشق کی طرح اپنے محبوب کاوصف گنواتا جارہا ہے۔اس کی لے، طرز ادا ایسی ہے کہ حضور کی روح سرشار ہورہی ہے اورنام محمد سرمدی نغمے بن کر فضا میں تحلیل ہورہا ہے اورادھر امتی بھی جھوم رہے ہیں۔یہ شاعری نہیںیقیناعقیدت کاایک ایسا پھول ہے جس پر خزاں کے سائے قربان ہوجائیں۔