افضل خاکسار کی نعتیہ شاعری ۔ ڈاکٹر رابعہ سرفراز

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

22552547 1414849971926102 6847160094441319601 n.jpg

مضمون نگار: رابعہ سرفراز

مطبوعہ : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27


ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

This article is about the NAAT GOEE of Faisalabad's renowned poet Afzal Khaksaar.He is a senior and mature Poet of Ghazal who has a real sense and knowledge of the technique of poetry.He started his NAAT GOEE after a successful practice of Ghazal .His style of naat is full of Taghazzul and feelings of DOOREE and HUZOOREE are the main aspects of his NAAT.He is using his NAAT for the betterment of the society by presenting the great moral values in it.His Naat is full of pure emotions as well as the art of poetry.Article concludes the great qualities of Afzal Khaksaar's Naat included his splendid diction.

افضلؔ خاکسار کی نعتیہ شاعری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

علمی و ادبی حوالے سے فیصل آباد کی زمین نہایت زرخیزہے۔اس خطے کو تمام اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کرنے والے شعرا میسر آئے ہیں۔صنفِ نعت کے حوالے سے اسے ’شہرِ نعت‘کا اعزاز حاصل ہے۔افضل خاکسار کا شمار فیصل آباد کے ان شعرا میں ہوتا ہے جو پختہ غزل گوئی کے بعد نعت گوئی کی طرف آئے اور پھر اس مقدس صنف کے فیضانِ سرمدی کے باعث اسی کے ہو کر رہ گئے۔

ہمہ اصنافِ سخن خوب ہیں لیکن افضلؔ

کوئی بھی صنفِ سخن ہو نہ سکی ہم سرِ نعت (۱)

افضل خاکسار کا اسلوبِ نعت غزل کے مخصوص لب و لہجے اور’’تغزل‘‘سے عبارت ہے ۔ایسے شعرا بہت کم ہیں جن کے نعتیہ کلام میں غزل آسا’’تغزل‘‘ملتاہو۔افضل خاکسار کے نعتیہ کلام میں دردوگداز کے لطیف جذبات بہ درجۂ اتم موجود ہیں۔ان کی نعتوں میں کوئی بھی شعر ایسا نہیں ہے جو’’دوری‘‘اور’’حضوری‘‘کی سرشاری سے تہی ہو۔ان کے اسلوبِ نعت میں ’’غزلیہ انگ‘‘کے علاوہ جو دوسرا رنگ صاف دکھائی دیتا ہے وہ ’’منقبت‘‘کاہے۔جس کا سبب ان کی خانقاہِ گولڑا شریف سے روحانی نسبت ہے۔

عشق کے گولڑا مکتب سے سند یافتہ ہوں

نسبتِ مہر علیؒ شاہ سے ہوں فاضلِ نعت(۲)

ان کے نعتیہ اشعار میں جہاں منقبت کے رنگ میں قبلہ پیر سیّدمہر علیؒ شاہ سے روحانی عقیدت کی باطنی صداقت جھلکتی ہے وہیں صاحب زادہ سیّد نصیرالدین نصیرؔ گیلانی سے قلبی وابستگی کی طمانینت بھی نمایاں ہے ۔

سدا سکھی رہے جُگ جُگ جِیے نصیرؔ ترا

غریبِ شہر کا اک آسرا ہے یا سرورؐ (۳)

افضل خاکسارؔ کے اسی ہمہ رنگ اسلوبِ نعت کے حوالے سے علامہ نادر جاجوی لکھتے ہیں کہ

’’جناب افضل خاکسارؔ کی نعت میں ہر صنفِ شعرکی کوئی نہ کوئی صورت موجود ہے ۔بہ ظاہر یہ مشکل روایت ہے لیکن شاعر ان سنگلاخ راہوں سے نہایت آسانی کے ساتھ گزر جاتاہے اور فنی محاسن سے مضامینِ نوکے انبار لگادیتاہے۔‘‘(۴)

افضل خاکسارؔ دورِ حاضر کے وہ جیّد شاعر ہیں جنھوں نے فصاحت و بلاغت کے معیارات اور نعت کے تمام ترضابطوں‘تقاضوں کو مدِّنظر رکھتے ہوئے ’’صنفِ نعت‘‘کو وسعت دی ہے ۔فنّی اعتبار سے اُن کے یہاں ادق فارسی تراکیب و مرکبات کا استعمال’’بیدلؔ و غالبؔ ‘‘کی طرح کی مشکل پسندی اور تہ داری کو ظاہر کرتاہے مگر ابہام اور تعقیدِ معنی کے عیوب سے پاک ہے۔

عافیت فرش و سکوں بام و سکینت محراب

حَرَم آسا ہے تصوّر میں ہر اک منظرِ نعت

کیف آغوش و خنک عکس و کشایش داماں

عرشِ تمکیں ہے مرے سر پہ تنی چادرِ نعت (۵)

خاکسارؔ صاحب طبع زاد تراکیب کا استعمال دلالتِ وضعی کے قرینے سے کرتے ہیں جس سے لفظی نضارت اور معنوی ندرت دوآتشہ ہوجاتی ہے۔خاکسارؔ صاحب نے فکری حوالے سے بھی نعت کی موضوعاتی وسعت میں اضافہ کیا ہے۔ انھوں نے آپؐ کی سیرتِ طیبہ کو بیان کرکے اصلاحِ معاشرہ کا فریضہ بھی انجام دیا ہے ۔نعت میں سماجی و تہذیبی موضوعات کے حوالے سے ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں کہ

’’جہاں تک موضوع کی وسعت کا تعلق ہے اس میں آنحضرتؐ کی زندگی اور سیرت کے توسط سے انسانی زندگی کے سارے ثقافتی و تہذیبی اور سماجی و سیاسی مباحث بھی دَر آئے ہیں۔‘‘(۶)

اس تناظر میں افضل خاکسارؔ کے حسبِ ذیل نعتیہ اشعار ملاحظہ فرمائیں :

اے فلک بوس محلّات میں رہنے والو

جھوٹی عزّت کے خیالات میں رہنے والو

شہریاروں کی مدارات میں رہنے والو

حق سے اُمّیدِ مفادات میں رہنے والو

بندۂ درد بنو نسبتِ جامی مانگو

مانگنے والو محمدؐ کی غلامی مانگو(۷)

مذکورہ بالا نعتیہ مسدس کے دَس بند ہیں جن میںآپؐ کی سیرتِ طیبہ کے توسط سے اُمتِّ مسلمہ کو اس کی عظمت اورفرائض سے آگاہ کیا گیا ہے۔صنفِ نعت کا یہ اختصاص لائقِ صد تحسین ہے کہ نعت گو شعرا نے آپؐ کی حیاتِ مبارکہ اور سیرتِ طیبہ کوموضوع بنا کرانسانیت کی اصلاح کی ہے ۔

عربی شعرا کی نعتیہ شاعری کاجائزہ لیاجائے تو پتا چلتاہے کہ انھوں نے جہاں آپؐ کے عادات و خصائل‘اُسوۂ حسنہ اورسیرتِ طیبہ کو موضوعِ نعت بنایا وہیںآپؐ کی سراپا نگاری کو بھی اشعار میں بیان کیا۔اس حوالے سے حضرت حسان بن ثابت کی شاعری افضلیت رکھتی ہے ۔آپؐ کی جبیں مبارک کے حوالے سے حضرت حسان کے درج ذیل مصاریع ملاحظہ فرمائیں کہ

مَتیَ یَبدُفِی الدّاجی البَھِیم جَبِینُہُ

یَلُح مِثلَ مِصبَاحِ الدُّجَی المُتَوَقِّ

فَمَن کَانَ أویَکونَ کَأحمَدِ (۸)

ترجمہ:جب تاریکی کے سمندر میں ان کی پیشانی ظاہر ہوتی ہے تووہ یوں چمکتی ہے جیسے کوئی روشن اور دہکتا ہُوا چراغ ہو۔پہلے لوگوں میں آپ جیسا کوئی نہ گزرااور آیندہ بھی کون آپ ؐ جیسا ہوسکتاہے؟

ڈاکٹرہمایوں عباس شمس کا کہناہے کہ

’’شمائل نبویؐ کے حوالے سے اوّلین شعر آپؐ کے چچا ابوطالب نے تخلیق کیایہ شعر ان کے قصیدہ لامیہ کی روح اور جان ہے انھوں نے یہ شعر اس وقت کہا جب قریش نے خاندانِ بنو ہاشم کا مقاطعہ کررکھاتھااور حضورؐ شعبِ ابی طالب میں اپنے چچا کی زیرِ نگرانی زندگی بسرکررہے تھے:

وَابیَض یستقی المغمام بو جہہ

ثمال الیتامی عصتہ للا رامل

ترجمہ:وہ گوراچٹامکھڑاجس کا نام لے کر بادلوں سے بارش برسانے کی دعا کی جاتی ہے جویتیموں کا ٹھکانا اور بیواؤں کا سہارا ہے ۔‘‘(۹)

اس حوالے سے خاکسارؔ صاحب کی ایک پنجابی نعت کے حسبِ ذیل اشعار ملاحظہ ہوں:

اکھیاں دی عبادت اے ‘ آقاؐ دا حسیں چہرہ

مازاغ نظر صورت ‘ والفجر جبیں چہرہ

قرآن بہانہ سی ‘ حضرتؐ دی زیارت دا

پڑھدا سی محمدؐ دا جبریلؑ امیں چہرہ (۱۰)

خاکسارؔ صاحب کی نعتوں میں متصوفانہ مضامین کا تنوع ہے۔ان کی ایک نعت کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں جس میں نہایت ادق قوافی کو مشکل ترین ردیف کے ساتھ ادا کرکے اپنی فنّی دست رَس کا ثبوت دیا ہے:

حریمِ لفظ میں جس سے ہے استجلاے معنٰی

وہی ہے وجہِ کشفِ باطن و القاے معنٰی

تصور میں ہے چہرہ جب سے اس اُمّی لقب کا

مری سوچوں میں ہے آباد اک دنیاے معنٰی

پلٹنا چاہتا ہے جزو اپنے کُل کی جانب

زبانِ لفظ پر ہے ہاے معنٰی ہاے معنٰی(۱۱)

اس نعت کی ساری فضا متصوفانہ ہے ۔صوفیا کے ہاں’’لفظ و معنٰی‘‘کی بحث ’’انسان و خدا‘‘کی تفہیم پر مبنی ہے ۔اسی نعت کے مزید دو اشعار ملاحظہ ہوں جو اُس ’’وجودی فکر‘‘کے حامل ہیں

جسے صوفیا کے ایک خاص طبقے نے اپنایاہُواہے

بہ جز یک حرفِ ساکن کچھ نہیں ہے میری ہستی

مَیں معنٰی کے اَلِف کی اوٹ میں ہوں یاے معنٰی

ہے میری نیستی ہستی کا افضلؔ استعارہ

مَیں حرفِ لا کے پس منظر میں ہوں اِلاّے معنٰی(۱۲)

خاکسارؔ صاحب پیرایۂ نعت میںآپؐ کی سیرت کا درس دیتے ہیں ۔ان کے نعتیہ کلام میںآپؐ کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کی تعلیم ملتی ہے ۔اقبالؔ نے فرمایاتھا کہ

بَہ مصطفٰی بَہ رَساں خویش رَا کہ دِیں ہمہ اُوست

اگر بَہ اُو نَرَسیدی ‘ تمام بُولہبی است (۱۳)

اسی تناظرمیں خاکسارؔ صاحب کے درج ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیں

وہ جو وابستۂ رسولؐ نہیں

اُس کا کوئی عمل قبول نہیں

نعت ہونا مری جبلّت ہے

نعت کہنا مرا اُصول نہیں

درسِ سیرت تلاش کر ان میں

مری نعتوں پہ صرف جھول نہیں (۱۴)

افضل خاکسارؔ ایک صاحبِ فن شاعر ہیں جو علمِ عروض اوردیگر شعری علوم‘جن کا تعلق شعر کے فنّی و فکری محاسن سے ہے‘سے گہری واقفیت رکھتے ہیں۔ان کی نعتیں بہ آسانی اوزانِ بلند ‘اوزانِ متوسط اور اوزانِ کوتاہ میں مل جاتی ہیں۔اس اعتبار سے بہ طور نمونہ ان کی تین نعتوں کے مطلعے درج ذیل ہیں:

۱۔ بحرِہزج مثمن سالم(مَفَاعیلن مَفَاعیلن مَفَاعیلن مَفَاعیلن)

شبِ غم مختتم ہو ساعتِ صبحِ سعید آئے

مریدی لاتخف کی میری جانب بھی نوید آئے (۱۵)

۲۔ بحرِ مضارع مثمن اَخرب مکفوف محذوف ؍مقصور(مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن؍فاعلان)

اللہ رے یہ شانِ کرم یہ اداے خیر

بہرِ عدو بلند ہیں دستِ دعاے خیر (۱۶)

۳۔ بحرِ ہزج مسدس محذوف(مَفَاعیلن مَفَاعیلن فعولن)

تُو میری تربیت قرآں سے فرما

مجھے تعلیم اپنے ہاں سے فرما(۱۷)

افضل خاکسارؔ کی نعتوں کے بہ نظرِ غائر مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خاکسارؔ صاحب ’’علم بدیع‘‘سے بھی خاصا شغف رکھتے ہیں کیوں کہ ان کے نعتیہ کلام میں بعض صنائع ایسی ہیں جنھیں شعوری طور پر نبھایاگیاہے۔صنعتِ مربّع میں ان کا حسبِ ذیل حمدیہ قطعہ مذکورہ بات کا بیّن ثبوت ہے:

(حمدیہ قطعہ در صنعتِ مربّع)

در جہاں کیست معتبر افضلؔ

کیست بے عیب و دَرجہاں اکمل

معتبر درجہاں کمالِ خداے

افضلؔ اکمل خداے عزّوجل (۱۸)

محولہ بالا قطعہ فارسی زبان میں کہاگیا ہے جو صنعتِ مربّع کاحامل ہے۔علمِ بدیع میں صنعتِ مربّع ایک ایسی صنعت ہے جس میں اساتذۂ سخن کے اشعار کی بھی مثالیں خال خال ملتی ہیں۔اس صنعت کو ’’چہار در چہار‘‘بھی کرتے ہیں۔اس سے مرادچار خانوں میں ایسی سطور لکھناہیں کہ جنھیں طول اور عرض میںیکساں طور پر پڑھا جاسکے اور کسی قسم کا تفاوت واقع نہ ہو۔اسی تناظرمیں چند صنائع درج ذیل ہیں:

صنعتِ متلوّن[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

علمِ بدیع میں اس سے مراد ایسے اشعارکہنا ہیں جو بہ یَک وقت ایک سے زیادہ اوزان میں مکمل طور پر تقطیع ہوسکیں۔اس حوالے سے خاکسارؔ صاحب کی ایک نعت کا حسبِ ذیل مطلعِ ثانی ملاحظہ فرمائیں:

سر پہ ہے بارِ اَلَم جانِ جہاںؐ

اُٹھ نہیں سکتے قدم جانِ جہاںؐ (۱۹)

یہ شعر بحرِ رمل کے دو اوزان میں پڑھا اورتقطیع کیا جاسکتاہے۔تفصیل درج ذیل ہے:

۱۔بحرِ رَمل مسدّس محذوف(فاعلاتن فاعلاتن فاعلن)

تقطیع[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سَر پہے با رِے اَلَم جَا نے جہا

فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

اُٹ نہی سَک تے قَدَم جَا نے جہا

فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

۲۔بحرِ رمل مسدّس مخبون محذوف(فاعلاتن فَعِلاتُن فَعِلُن)

تقطیع:

سَر پہے با رِاَلَم جَا نِجَہَا

فاعلاتن فَعِلاتُن فَعِلُن

اُٹ نہی سَک تِقَدَم جَا نِجَہَا

فاعلاتن فَعِلاتُن فَعِلُن

اسی نعت کے مزید دو شعر مذکورہ بالا دونوں اوزان کے آہنگ میں پڑھے اور تقطیع کیے جاسکتے ہیں۔

آپؐ سلطانِ جہاں ‘ جانِ کرم

آپؐ سلطانِ کرم ‘ جانِ جہاں

افضلِ خستہ ہے محتاجِ کرم

اس پہ ہوجائے کرم جانِ جہاں(۲۰)

قطارالبعیر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اس سے مرادیہ ہے کہ جو لفظ شعر کے مصرعِ اوّل کے آخر پر آئے اُسی سے شعر کے مصرعِ دوم کا آغازہو۔

کیا خبر اہلِ ظواہر کو خدا ہی ’’جانے‘‘

’’جانے‘‘ کس سے ترا کیا ربطِ نہاں بھی ہوگا(۲۱)

صنعتِ اشتقاق[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اس سے مراد شعر میں ایسے لفظ لانا ہیں جن میں اصل کے حروف ترتیب وار موجودہوں مختصراََ یہ کہ ان کے حروفِ مادہ ایک ہوں۔

رہینِ منّتِ اہلِ ’’کرم‘‘ نہیں افضلؔ

مرے ’’کریم‘‘نے مجھ پر ’’کرم‘‘ کیا ہُوا ہے(۲۲)

دونوں عالم میں کہیں جس کی نہیں کوئی ’’مثال‘‘

اُس کی اُلفت میں لکھیں مَیں نے ’’مثالی‘‘ نعتیں(۲۳)

رویتِ حق ہے ’’بصیرت‘‘ سے ’’بصارت‘‘ سے نہیں

خاص دل کی راہ سے یہ رابطہ ہے نور کا (۲۴)

صنعتِ تجنیسِ تام مستوفی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اگر شعر میں دو لفظ ایسے آئیں جو ترتیبِ حروف اور حرکات و سکنات میں برابر ہوں مگر معانی میں مختلف ہوں تو اسے صنعتِ تجنیسِ تام کہیں گے۔اگر دونوں الفاظ کی نوع علاحدہ ہو یعنی ایک اسم ہو اور ایک فعل ہو تو اسے تجنیسِ تام مستوفی کہیں گے۔

سجدۂ شکر کر ادا افضلؔ

نعت کے ’’پھُول‘‘ پا کے ’’پھُول‘‘ نہیں(۲۵)

محولہ بالا شعر کے دوسرے مصرعے کا پہلا لفظ’’پھُول(گُل)‘‘اِسم ہے جبکہ دوسرا لفظ مصدر’’پھُولنا‘‘سے ’’پھُول‘‘فعل امر ہے ۔اس لحاظ سے ’’پھُول نہیں‘‘فعل نہی ٹھہرا۔

صنعتِ سیاقتہ الاعداد:

کلام میں اعداد‘گنتی کا ذکر کرناخواہ ان کی ترتیب جو بھی ہو:

بہت دراز ہیں اب غم کے سلسلے آقاؐ

دل ایک ہے تو مرے دل میںآرزو سو ہے(۲۶)

سیکڑوں آندھیاں طوفانِ حوادث کی چلیں

کربلا میں رہا ضوبار بہتّر کا چراغ (۲۷)

صنعتِ حسنِ تعلیل[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

کلام میں ایک شے کو کسی شے کی صفت کے لیے علّت ٹھہرانا خواہ وہ اس کی اصل علّت نہ ہو۔

بچانے کے لیے کرب و بلا سے اپنی اُمّت کو

جگر گوشوں میں اپنے کربلائیں بانٹ دیتا ہے (۲۸)

رات اشکوں سے وہ تاباں تھی زمینِ گریہ

مَیں یہ سمجھا مَیں حدِ کاہکشاں میں اُترا (۲۹)

خاکسارؔ صاحب کی یہ سعی بھی لائقِ تحسین ہے کہ انھوں نے پیرایۂ نعت میں’’استغاثہ‘‘کے مضامین باندھ کر ’’صنفِ نعت‘‘کو موضوعاتی وسعت سے ہم کنار کیا ہے ۔’’استغاثہ‘‘ کے کُل چھبیس اشعار ہیں۔ہر شعر فکرومعنی کی نزاکتوں سے عبارت ہے اور شاعر کے دردوگداز کے کم و کیف کا ترجمان ہے :

کیا بھلے دن تھے کہ ہم شغلِ ثنا رکھتے تھے

فکرِ امروز کو فردا پہ اُٹھا رکھتے تھے

حَرَم و دَیر کی تفریق میں تقسیم نہ تھے

معتبر یار کا نقشِ کفِ پا رکھتے تھے

پسِ درماندگیِ شوق تھے ارماں کیا کیا

خاک ہو کر بھی مدینے کی ہوارکھتے تھے

کفش بوسی کی سعادت تھی تصوّر میں نصیب

قَدَمنِ شہِ کونینؐ میں جا رکھتے تھے

زیست بے کیف نہ تھی وقت پُر آشوب نہ تھا

ذہن میں روشنیِ صلِّ علیٰ رکھتے تھے

حق پہ مٹنے کی تمنا لیے پھرتی تھی ہمیں

جذبۂ پیرویِ آلِ عبا رکھتے تھے

چشمِ وجدان پہ روشن تھا ضمیرِ ہستی

بے خودی میں بھی دوعالم کا پتا رکھتے تھے

اے خنک دَورِ سعید اور وہ عہدِ فرّخ

یادِ محبوبؐ میں جب خود کو بھلا رکھتے تھے

لے اُڑی طرفگیِ رنگِ سخن فکرِ معاش

ورنہ ہم سب سے جدا طرزِ نوا رکھتے تھے

پھر وہی دور پلٹ آئے کہ جس میں افضلؔ

خود کو وابستۂ دامانِ عطا رکھتے تھے

کر ہی دے اب تو کرم ربِّ دو عالم ہم پر

’’ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے‘‘(۳۰)

جملہ فکری و فنّی محاسن و خصائص کے پیشِ نظر خاکسارؔ صاحب کی نعتیہ کتاب’’نویدِ بخشش‘‘کو ۲۰۰۸ء میں صوبائی سیرت ایوارڈ سے نوازاگیا اور صوبہ پنجاب بھر میں اسے اوّل انعام کا حق دار قراردیا گیا۔اُردو نعت گوئی کی تاریخ میں خاکسار صاحب کا حسبِ ذیل نعتیہ شعر اپنے فکری انفراد کے سبب زندۂ جاوید رہے گااور نبی اکرمؐ کے مدح سراؤں کی صف میں ’’افضل خاکسارؔ ‘‘ کا نام اسمِ بامسمّٰی ثابت ہوگا۔

یوں اُڑا لے مجھے اے شاہ سوارِ رحمت

معصیت دیکھتی رہ جائے غبارِ رحمت (۳۱)

حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱۔محمد افضل خاکسارؔ ‘ نویدِ بخشش‘ راول پنڈی:حمزہ پرویز پرنٹر‘۲۰۰۷ء‘ص۷۸

۲۔ایضاً ‘ص۴۴

۳۔ایضاً ‘ص۱۰۸

۴۔ایضاً ‘ص۱۲

۵۔ایضاً ‘ص۷۶

۶۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری ‘نعت بہ حیثیت صنفِ سخن مشمولہ نعت رنگ ‘سیّد صبیح الدین رحمانی ‘(شمارہ ۲۶)‘کراچی:نعت ریسرچ سینٹر، دسمبر۲۰۱۶ء‘ص۲۵

۷۔محمد افضل خاکسارؔ ‘ نویدِ بخشش‘ص۱۷۰

۸۔حسان بن ثابت ‘دیوان ‘شرح البرقوقی‘کراچی:میر محمد کتب خانہ آرام باغ‘س ن ‘ ص۱۵۸

۹۔ڈاکٹرہمایوں عباس شمس ‘عہدِ نبوی اور خلفاے راشدین کی شاعری میں مباحثِ سیرت ‘فیصل آباد:شمع بکس ۲۰۱۶ء‘ص۲۳۲

۱۰۔محمد افضل خاکسارؔ ‘ نویدِ بخشش‘ص۸۳

۱۱۔ایضاً‘ص۴۲

۱۲۔ایضاً‘ص۴۳۔

۱۳۔علامہ محمد اقبال ‘ کلیاتِ اقبال (ارمغانِ حجاز)‘لاہور: اقبال اکادمی ‘ ۱۹۹۴ء‘ص۷۵۴

۱۴۔محمد افضل خاکسارؔ ‘ نویدِ بخشش‘ص۶۱

۱۵۔ایضاً‘ص۱۹۸

۱۶۔ایضاً‘ص۶۹

۱۷۔ایضاً‘ص۶۵

۱۸۔ایضاً‘ص۳۶

۱۹۔ایضاً‘ص۱۲۸

۲۰۔ایضاً‘ص۱۲۹

۲۱۔ایضاً‘ص۹۱

۲۲۔ایضاً‘ص۵۴

۲۳۔ایضاً‘ص۵۷

۲۴۔ایضاً‘ص۸۸

۲۵۔ایضاً‘ص۶۲

۲۶۔ایضاً‘ص۶۷

۲۷۔ایضاً‘ص۱۱۳

۲۸۔ایضاً‘ص۱۰۹

۲۹۔ایضاً‘ص۶۳

۳۰۔ایضاً‘ص۱۴۲

۳۱۔ایضاً‘ص۴۹