آداب ِ نعت گوئی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


مجید اختر صاحب لکھتے ہیں

"" نعت کہنا دودھاری تلوار پر چلنے کے مترادف ہے ۔ ایک جانب فنِ شاعری، زبان و بیان، نشست وبرخواست، وسیع مطالعہ اورعصری شعور ضروری ہیں ۔ تو دوسری جانب اثر انگیز نعت کیلئے حضورِ والا سے ایک نسبتِ خاص کا ہونا اور ان کے ادب و احترام کو ملحوظ رکھنا بدرجہٗ اتم ضروری ہے ۔ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں لہٰذہ ایسے عامیانہ مضامین و لفظیات اورتشبیہات و استعارات جو عام عشق و محبت کی وارداتوں میں رقم ہوتے ہوں ان سے احتراز لازم ہے ۔

بلا اشد ضرورتِ شعری، ذاتِ سرورِ پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تو یا تم سے مخاطب کرنا بھی سوٗ ادب ہے ۔ بے حد اہتمام کرنا چاہئیے کہ شعر چاہے بدلنا یا نکالنا پڑے لیکن خطاب شانِ شایان ہو ۔ ایسے مضامین جن سے شرک کا شبہ ہوتا ہو، ان سے بھی بچنا چاہئیے۔ بے جا غلو بھی نازیبا ہے اکثر دیکھا گیا ہے کہ شعرا انبیاٗ ؑ ماسبق کی روایات یا سیرتِ حضورِ صلی اللہ عیہ وآلہ وسلم کے واقعات بطور تلمیح رقم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ دو مصارع میں کسی اہم واقعہ کی طرف اشارہ کرنا اور ذاتِ ختمی مرتبت کے مقامِ عالیہ کا تعین بھی کرنا ۔ ایک مشکل امر بن جاتا ہے اور بہت زیادہ مشق و مطالعہ کا متقاضی ہے ۔ جس طرح غزل یانظم کا شاعراپنی ذاتی واردات ، اپنے زمانے کے واقعات وحادثات اورماضی کی روایات کے آمیزے سے مضامین کسب کرتا ہے۔ اسی طرح نعت کے شاعر کیلئے بھی ضروری ہے کہ اپنی وارداتِ قلبی رقم کرے، اپنے گردوپیش سے بھی واقف رہے اور نعت کی روایت سے بھی جڑا رہے ۔ من گھڑت یا ضعیف روایات و واقعات کو قلمبند کرنے سے احتراز کرنا بھی ضروری ہے ۔ تاریخِ اسلام سے کما حقہ واقفیت اور سیرتِ رسولِ گرامی قدر کا گہرا مطالعہ ، مضامین میں گہرائی کا ضامن ہے ۔ سطحی اور افتادہ پا مضامین سے بچنے کی سعی کرنی چاہئے ""