"Faheembismil" کے نسخوں کے درمیان فرق

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search
(نیا صفحہ: خاندانی نام : فہیم الدین قلمی نام : فہیم بسملؔ ولدیت : جناب نسیم الدین تاریخ پیدایش : ۲۷؍ مارچ ۱۹...)
 
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
سطر 43: سطر 43:
urdukawish.2013@gmail.com
urdukawish.2013@gmail.com
موبائل : 07275782569
موبائل : 07275782569
اے خدا
محوِ تسبیح کوہ و شجر بحر و بر
کیا چرند و پرند اور جنّ و بشر
ساری مخلوق ہے تیرے زیرِ اثر
اے خدا ، اے خدا، اے خدا، اے خدا
چار سو نور کی تیرے دارائیاں
نجم و شمس و قمر کی یہ رعنائیاں
تیری قدرت کی سب کارفرمائیاں
اے خدا ، اے خدا، اے خدا، اے خدا
تیری مخلوق جب جب بھٹکنے لگی
رہبری کے لیے تو نے بھیجے نبی
جن کی سیرت نے بخشی نئی روشنی
اے خدا ، اے خدا، اے خدا، اے خدا
مرحبا جب ظہورِ شہہِ دیں ہوا
تیری وحدانیت کا پتا مل گیا
پالیا زندگی نے نیا راستا
اے خدا ، اے خدا، اے خدا، اے خدا
مصطفےٰ کیا ملے ہم کو تو مل گیا
اب کمی کیا رہی اور چاہوں بھی کیا
خوش رضا پر ہے دونوں کی بندا ترا
اے خدا ، اے خدا، اے خدا، اے خدا
**
اس طرح اُن کا کرم اُن کی نواز ش ہو رہی ہے
لگ رہا ہے ہر طرف رحمت کی بارش ہو رہی ہے
کیوں میں بھٹکوں در بہ در پھر روشنی کی جستجو میں
جبِ خیالِ شاہِ دیں سے دل میں تابش ہو رہی ہے
دیکھو کب آئے بلاوا سرورِ کونین کا
میری جانب سے تو ہر لمحہ گزارش ہو رہی ہے
ہے شفیع المذنبیں کا آسرا محشر کے دن
بندۂ عاصی ہوں میں لغزش پہ لغزش ہو رہی ہے
روضۂ محبوبِ داور کاش میں بھی دیکھ لوں
اب تو ہر لمحہ جواں دل کی یہ خواہش ہو رہی ہے
ہے یقیں پڑھ لیں گے اس کو رحمت للعالمیں
عشق میں دل کے ورق پر جو نگارش ہو رہی ہے
منکر ان کی عظمتوں کے ، حشر میں شرمندہ ہوں گے
جب وہ دیکھیں گے قبول اُن کی سفارش ہورہی ہے
کاش آ جائے بلاوا روضۂ سرکار سے اب
ہجر میں تو لمحہ لمحہ جاں کی کاہش ہو رہی ہے
جب سے بسملؔ آ گیا اُن کے حصارِ فیض میں
ذہن کے آئینے پر ایماں کی پالش ہو رہی ہے
منتظر ہیں بس اُسی کے قصرِ جنت کے چراغ
جس کے دل میں ہیں منور اُن کی عظمت کے چراغ
قربِ رب میں جب شبِ معراج پہنچے شاہِ دیں
عرشِ اعظم پر تھے روشن رب کی عظمت کے چراغ
مدحتِ خیرالوریٰ کرتا رہا یونہی اگر
ہر نظر میں ہوں گے روشن تیری عزت کے چراغ
تیرگی کر ہی نہیں سکتی کبھی اُس کا حصار
جل رہے ہوں جسکے دل میں اُن کی اُلفت کے چراغ
ماہ و نجم و کہکشاں کہتی ہے یہ دنیا جنھیں
آسماں پر ہیں فروزاں رب کی قدرت کے چراغ
میرے سُونے گھر کو آقا آپ رونق بخشیے
میری آنکھوں میں جلا کرتے ہیں حسرت کے چراغ
ہوگئے فاروق بھی سرکار کے حلقہ بگوش
جل اُٹھے آنکھوں میں جب اُن کی حقیقت کے چراغ
نور کی اُن کے تجلّی دیکھنا چاہو اگر
جاکے طیبہ دیکھ لو تم اُن کی تربت کے چراغ
جب تلک باقی رہے گا حق تعالیٰ کا کلام
تب تلک روشن رہیں گے اُن کی مدحت کے چراغ
مکڑیوں کے جال سے رب نے دہانِ ثور پر
کر دیے روشن شہِ دیں کی حفاظت کے چراغ
رحمت اللعالمیں ہیں وہ تو بسملؔ بالیقیں
طاقِ عالم میں ہیں روشن اُن کی رحمت کے چراغ
جس نے بھی دیکھا ہوا دل سے وہ شیدا تیرا
رب نے کیا خوب ہی ڈھالا ہے سراپا تیرا
بارشِ رحمتِ یزداں نے بھگویا مجھ کو
جب مرے دل پہ تصور کبھی چھایا تیرا
ورفعنالکَ ذکرک کا کرشمہ ہے یہ
سارے عالم میں ہوا کرتا ہے چرچا تیرا
جس کے آتے ہی مہکتے ہیں دہن اور زباں
وردِ لب اسمِ گرامی ہے وہ پیارا تیرا
اُن کی نظروں میں نہیں شاہ و گدا کی تفریق
اُن کے در پر کبھی ہوتا نہیں میرا تیرا
پا لیا کشتیِ اُمید نے فوراً ساحل
کام منجھدار میں بھی آیا سہارا تیرا
حاضری کے لیے آتے ہیں جہاں روز ملک
دیکھ لوں کاش میں وہ گنبدِ خضرا تیرا
خالق کل نے کیا ہے تجھے ایسا اعلیٰ
’’دنگ رہ جاتے ہیں سب دیکھ کے رتبہ تیرا‘‘
کام آئے گا سرِ حشر یقیناًبسملؔ
عشقِ سرکار کو سینے میں بسانا تیرا
شاہِ دیں کا ذکر چلا ہے میرے دل کے آنگن میں
طائرِ جاں بھی نغمہ سرا ہے میرے دل کے آنگن میں
ہر پل مجھ پر رب کی رحمت سایہ بن کر رہتی ہے
عشقِ نبی کا پیڑ لگا ہے میرے دل کے آنگن میں
شاید اب کے آئے بلاوا اُن کے در سے میرا بھی
ہر سو سبزہ اُگنے لگا ہے میرے دل کے آنگن میں
نعتِ نبی سے یوں مہکا ہے میرے دل کا ہر گوشہ
جیسے کوئی پھول کھلا ہے میرے دل کے آنگن میں
اُن کی باتیں، اُن کی سیرت، اُن کی چاہت ، اُن کا وصف
ان کا ہی ہر دم چرچا ہے مرے دل کے آنگن میں
جب سے سنا ہے دیوانوں کو وہ جلوہ دکھلاتے ہیں
آس کا پنچھی کوک رہا ہے میرے دل کے آنگن میں
روز آتے ہیں ماہ و انجم اس کی زیارت کو اے بسملؔ
نامِ نبی کا دیپ جلا ہے میرے دل کے آنگن میں

حالیہ نسخہ بمطابق 04:09، 12 ستمبر 2017ء

خاندانی نام  : فہیم الدین قلمی نام  : فہیم بسملؔ ولدیت  : جناب نسیم الدین تاریخ پیدایش : ۲۷؍ مارچ ۱۹۸۳ء ؁ سکونت  : ایمن زئی جلال نگر ، شاہجہاں پور تعلیم  : ایم.اے۔ کامل، عالم،ادیب کامل ڈپلوماان  : کمپوٹر آپریٹنگ اینڈ پروگرامنگ(COPA) تلمیذ  : ڈاکٹر محمد طاہر رزاقی(مرحوم) حضرتِ ساغرؔ وارثی تصنیفات  : فضاے شہر دل (شاہجہاں پور کے ذی حیات شعرا کا تذکرہ)

سلسلے عقیدت کے (حمد، نعت و منقبت کا مجموعہ)
دوہا حمد و نعت (دوہا حمد ونعت کا عالمی انتخاب)
نئی روشنی (نو جوان شعرا و شاعرات کا انتخاب)
نظریات ( مضامین کا مجموعہ)
ذکر کچھ چراغوں کا (شاہجہاں پور کے مرحوم شعرا کا انتخاب)

تالیفات  : دھڑکن (حمید خضرؔ شاہجہاں پوری کا شعری مجموعہ)

اُجالے ( شوکت کریمی کابچوں کی نظموں کا مجموعہ )
وسیلہ ( قیصر شکیلی کانعتیہ مجموعہ)
باقیاتِ سحر ( سیّد احمد سحر شاہ جہاں پورکا شعری مجموعہ)
رفعتِ خیال (محترمہ چاند بی چاند قائمی کا نعتیہ مجموعہ)
نغمہ و نور ( ساغروارثی کا مجموعۂ حمد و نعت و مناقب)
اک شخص گھنیری چھاؤں سا (ساغر وارثی فن اور شخصیت)
رُتیں بدل گئیں ( ’’رُتیں‘‘ کے مصنف’’ڈاکٹر طاہر رزّاقی ‘‘ مشاہیرِ ادب کی نظر میں)

زیرِ طبع  : آ نچ دیتی چاندنی ( غزلوں کا مجموعہ)

مدحتِ سرکار (مجموعہ حمد و نعت و سلام)
شاہجہاں پور میں نعت گوئی روایت : ایک مطالعہ (تحقیق)

نشرو اشاعت : آل انڈیا ریڈیو۔ دوردرشن۔ ای ٹی وی۔ ذی سلام

ملک و بیرونِ ملک کے موقر رسائل و جرائد

وابستگی  : ایڈیٹر سہ ماہی ’’ کاوش‘‘ شاہجہاں پور

جوائنٹ ایڈیٹر سہ ماہی اُفق نَو ،شاہجہاں پور
ناظم براے نشر و اشاعت ادبی تنظیم ادراک

انعام و اعزاز : ’’یوا رتن ‘‘ سمّان ۲۰۰۵ء ؁ منجانب یُگ پریورتن

اُترپردیش اُردو اکادمی سے براے فضاے شہر دل۲۰۰۸ء ؁
’’ ادب ایوارڈ‘‘ ۲۰۰۸ء ؁ منجانب اُردو رابطہ کمیٹی پہانی
’’ ضیاے ادب‘‘(منجانب بزم ضیاے ادب، سیتاپور)
یُگ پریورتن ’’ساہیتہ سمّان‘‘۲۰۰۸ء ؁ ، شاہجہاں پور
حنیف اسعدی ایوارڈ۲۰۱۰ء ؁ براے نعتیہ شاعری
’’ انوارِ سخن‘‘ (منجانب آذر اکیڈمی ، علی گڑھ)۲۰۱۱ء ؁
اُتر پردیش اُردو اکادمی سے براے نظریات۲۰۱۲ء ؁
’’اقبال ایوارڈ‘‘ ۲۰۱۴ء ؁ بزم اربابِ سخن تلہر ،شاہ جہاں پور

رابطہ  : -290 ایمن زئی جلال نگر، شاہجہاں پور242 001 786faheembismil@gmail.com urdukawish.2013@gmail.com موبائل  : 07275782569

اے خدا

محوِ تسبیح کوہ و شجر بحر و بر کیا چرند و پرند اور جنّ و بشر ساری مخلوق ہے تیرے زیرِ اثر اے خدا ، اے خدا، اے خدا، اے خدا

چار سو نور کی تیرے دارائیاں نجم و شمس و قمر کی یہ رعنائیاں تیری قدرت کی سب کارفرمائیاں اے خدا ، اے خدا، اے خدا، اے خدا

تیری مخلوق جب جب بھٹکنے لگی رہبری کے لیے تو نے بھیجے نبی جن کی سیرت نے بخشی نئی روشنی اے خدا ، اے خدا، اے خدا، اے خدا

مرحبا جب ظہورِ شہہِ دیں ہوا تیری وحدانیت کا پتا مل گیا پالیا زندگی نے نیا راستا اے خدا ، اے خدا، اے خدا، اے خدا

مصطفےٰ کیا ملے ہم کو تو مل گیا اب کمی کیا رہی اور چاہوں بھی کیا خوش رضا پر ہے دونوں کی بندا ترا اے خدا ، اے خدا، اے خدا، اے خدا

اس طرح اُن کا کرم اُن کی نواز ش ہو رہی ہے لگ رہا ہے ہر طرف رحمت کی بارش ہو رہی ہے

کیوں میں بھٹکوں در بہ در پھر روشنی کی جستجو میں جبِ خیالِ شاہِ دیں سے دل میں تابش ہو رہی ہے

دیکھو کب آئے بلاوا سرورِ کونین کا میری جانب سے تو ہر لمحہ گزارش ہو رہی ہے

ہے شفیع المذنبیں کا آسرا محشر کے دن بندۂ عاصی ہوں میں لغزش پہ لغزش ہو رہی ہے

روضۂ محبوبِ داور کاش میں بھی دیکھ لوں اب تو ہر لمحہ جواں دل کی یہ خواہش ہو رہی ہے

ہے یقیں پڑھ لیں گے اس کو رحمت للعالمیں عشق میں دل کے ورق پر جو نگارش ہو رہی ہے

منکر ان کی عظمتوں کے ، حشر میں شرمندہ ہوں گے جب وہ دیکھیں گے قبول اُن کی سفارش ہورہی ہے

کاش آ جائے بلاوا روضۂ سرکار سے اب ہجر میں تو لمحہ لمحہ جاں کی کاہش ہو رہی ہے

جب سے بسملؔ آ گیا اُن کے حصارِ فیض میں ذہن کے آئینے پر ایماں کی پالش ہو رہی ہے


منتظر ہیں بس اُسی کے قصرِ جنت کے چراغ جس کے دل میں ہیں منور اُن کی عظمت کے چراغ

قربِ رب میں جب شبِ معراج پہنچے شاہِ دیں عرشِ اعظم پر تھے روشن رب کی عظمت کے چراغ

مدحتِ خیرالوریٰ کرتا رہا یونہی اگر ہر نظر میں ہوں گے روشن تیری عزت کے چراغ

تیرگی کر ہی نہیں سکتی کبھی اُس کا حصار جل رہے ہوں جسکے دل میں اُن کی اُلفت کے چراغ

ماہ و نجم و کہکشاں کہتی ہے یہ دنیا جنھیں آسماں پر ہیں فروزاں رب کی قدرت کے چراغ

میرے سُونے گھر کو آقا آپ رونق بخشیے میری آنکھوں میں جلا کرتے ہیں حسرت کے چراغ

ہوگئے فاروق بھی سرکار کے حلقہ بگوش جل اُٹھے آنکھوں میں جب اُن کی حقیقت کے چراغ

نور کی اُن کے تجلّی دیکھنا چاہو اگر جاکے طیبہ دیکھ لو تم اُن کی تربت کے چراغ

جب تلک باقی رہے گا حق تعالیٰ کا کلام تب تلک روشن رہیں گے اُن کی مدحت کے چراغ

مکڑیوں کے جال سے رب نے دہانِ ثور پر کر دیے روشن شہِ دیں کی حفاظت کے چراغ

رحمت اللعالمیں ہیں وہ تو بسملؔ بالیقیں طاقِ عالم میں ہیں روشن اُن کی رحمت کے چراغ

جس نے بھی دیکھا ہوا دل سے وہ شیدا تیرا رب نے کیا خوب ہی ڈھالا ہے سراپا تیرا

بارشِ رحمتِ یزداں نے بھگویا مجھ کو جب مرے دل پہ تصور کبھی چھایا تیرا

ورفعنالکَ ذکرک کا کرشمہ ہے یہ سارے عالم میں ہوا کرتا ہے چرچا تیرا

جس کے آتے ہی مہکتے ہیں دہن اور زباں وردِ لب اسمِ گرامی ہے وہ پیارا تیرا

اُن کی نظروں میں نہیں شاہ و گدا کی تفریق اُن کے در پر کبھی ہوتا نہیں میرا تیرا

پا لیا کشتیِ اُمید نے فوراً ساحل کام منجھدار میں بھی آیا سہارا تیرا

حاضری کے لیے آتے ہیں جہاں روز ملک دیکھ لوں کاش میں وہ گنبدِ خضرا تیرا

خالق کل نے کیا ہے تجھے ایسا اعلیٰ ’’دنگ رہ جاتے ہیں سب دیکھ کے رتبہ تیرا‘‘

کام آئے گا سرِ حشر یقیناًبسملؔ عشقِ سرکار کو سینے میں بسانا تیرا


شاہِ دیں کا ذکر چلا ہے میرے دل کے آنگن میں طائرِ جاں بھی نغمہ سرا ہے میرے دل کے آنگن میں

ہر پل مجھ پر رب کی رحمت سایہ بن کر رہتی ہے عشقِ نبی کا پیڑ لگا ہے میرے دل کے آنگن میں

شاید اب کے آئے بلاوا اُن کے در سے میرا بھی ہر سو سبزہ اُگنے لگا ہے میرے دل کے آنگن میں

نعتِ نبی سے یوں مہکا ہے میرے دل کا ہر گوشہ جیسے کوئی پھول کھلا ہے میرے دل کے آنگن میں

اُن کی باتیں، اُن کی سیرت، اُن کی چاہت ، اُن کا وصف ان کا ہی ہر دم چرچا ہے مرے دل کے آنگن میں

جب سے سنا ہے دیوانوں کو وہ جلوہ دکھلاتے ہیں آس کا پنچھی کوک رہا ہے میرے دل کے آنگن میں

روز آتے ہیں ماہ و انجم اس کی زیارت کو اے بسملؔ نامِ نبی کا دیپ جلا ہے میرے دل کے آنگن میں